حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ
آپ رضی اللہ عنہ 2 سال اپنے دادا حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی پرورش میں رہے ، 10 سال اپنے تایا جان حضرت امامِ حَسَن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کی تربیت میں رہے اور پھر تقریباً 11 سال والدِ ماجد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی زیرِ نگرانی عُلوم و مَعرِفَت کی منازل طے کیں ۔(شرح شجرۂ قادریہ صفحہ 52)
آپ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے عقیدت مند اور علمِ دین کے بے حد شائق تھے ، شبہ والی چیزوں سے دامن بچاتےتھے ، آپ کی عادات میں صلۂ رحمی ، سخاوت اور پوشیدہ صدقہ کرنا شامل تھا ۔ (سیر اعلام النبلاء جلد 5 صفحہ 333 تا 340،چشتی)
مدینۂ منورہ میں کچھ غریب گھرانے تھے جن کے کھانے پینے کا انتظام راتوں رات ہو جاتا اور دینے والےکا پتا بھی نہیں چلتا تھا ۔ وقت گزرتا رہا اور شہرِ مدینہ میں سو (100) کے قریب گھروں کو اَن دیکھے ہاتھوں سے سامانِ زندگی ملتا رہا۔ پھر ایک عظیم ہستی کا انتقال ہوا ، ساتھ ہی اُن فقرائے مدینہ کو راشن ملنا بھی بند ہو گیا ۔ تب ظاہر ہوا کہ پوشیدہ صدقہ کرنے والے وہ عظیم بزرگ حضرت امام زینُ العابدین علی اوسط رضی اللہ عنہ تھے ۔ (حلیۃ الاولیاء جلد 3 صفحہ 160)
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ بہت تقویٰ اور خوفِ خدا کے حامل تھے ، جب وضو کرتے تو خوف کے مارے چہرے کا رنگ زرد پڑ جاتا تھا ، گھر والوں نے پوچھا کہ آپ پر وضو کے وقت یہ کیفیت کیوں طاری ہوجاتی ہے؟ تو فرمایا : تمہیں معلوم ہے کہ میں کس کے سامنے کھڑاہونے جا رہا ہوں؟ ۔ (احیاء علوم الدین جلد 4 صفحہ 227،چشتی)
ایک مرتبہ کنیز آپ کو وضو کروا رہی تھی کہ اس کے ہاتھ سے برتن چھوٹ کر آپ کے چہرے سے ٹکرایا جس سے چہرہ زخمی ہوگیا ، آپ رضی اللہ عنہ نے سر اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھا ہی تھا کہ اُس نے عفو و درگزر کی فضیلت پر مشتمل ایک آیتِ مبارکہ پڑھ دی ، جسے سن کر آپ نے نہ صرف اسے معاف کیا بلکہ ارشاد فرمایا : جا تو اللہ عزوجل کی رضا کےلیے آزاد ہے ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 41 صفحہ 387)
آپ رضی اللہ عنہ اپنے اکابرین رضی اللہ عنہم کی پاکیزہ زندگیوں کی چلتی پھرتی تصویر تھے اور خوفِ خدا میں یگانہ روزگار تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ جب وضو کرتے تو خوف کے مارے آپ کے چہرے کا رنگ زرد پڑ جاتا۔ گھر والے دریافت کرتے ، یہ وضو کے وقت آپ کو کیا ہوجاتا ہے؟ تو فرماتے : تمہیں معلوم ہے کہ میں کس کے سامنے کھڑے ہونے کا ارادہ کر رہا ہوں؟ ۔ (احیاء العلوم کتاب الخوف والرجاء جلد ۴ صفحہ ۲۲۶،چشتی)
ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے حج کا احرام باندھا تو تلبیہ (یعنی لبیک) نہیں پڑھی ۔ لوگوں نے عرض کی ، حضور آپ لبیک کیوں نہیں پڑھتے ؟ آبدیدہ ہو کر ارشاد فرمایا ، مجھے ڈر لگتا ہے کہ میں لبیک کہوں اور اللہ عزوجل کی طرف سے ''لاَ لَبَّیْکْ'' کی آواز نہ آجائے ، یعنی میں تو یہ کہوں کہ '' اے میرے مالک ! میں بار بار تیرے دربار میں حاضر ہوں ۔'' اور ادھر سے یہ آواز نہ آجائے کہ '' نہیں نہیں ! تیری حاضری قبول نہیں ۔ لوگوں نے کہا ، حضور ! پھر لبیک کہے بغیر آپ کا احرام کیسے ہوگا ؟ یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے لَبَّیْکْ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکْ لَبَّیْکَ لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکْ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْک لاَشَرِیْکَ لَکْ پڑھا لیکن ایک دم خوفِ خدا سے لرز کر اونٹ کی پشت سے زمین پر گر پڑے اور بے ہوش ہو گئے ۔ جب ہوش میں آتے تو ''لبیک'' پڑھتے اور پھر بے ہوش ہوجاتے ، اسی حالت میں آپ رضی اللہ عنہ نے حج ادا فرمایا ۔ (اولیائے رجال الحدیث صفحہ ۱۶۴ )
میدانِ کربلا کی طرف جانے والے حسینی قافلے کے شرکاء میں آپ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے
میدانِ کربلا کی طرف جانے والے حسینی قافلے کے شرکاء میں آپ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے مگر جب 10 محرم الحرام کو بزمِ شہادت سجی تو آپ شدید بیمار تھے ۔ چُنانچہ آپ رضی اللہ عنہ حسینی قافلے کے واحد مرد تھے جو اس معرکہ حق و باطل کے بعد زندہ بچے تھے ۔ 58 برس کی عمر میں ولید بن عبدالملک نے آپ کو زہر دیا جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ 94 ھجری میں شہادت کے منصب پر فائز ہو کر مدینہ شریف میں جنت البقیع میں آرام فرما ہوئے ۔
ایک مرتبہ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی اونٹنی نے شوخی کرنا شروع کر دی ۔ آپ نے اسے بٹھایا اور کوڑا دکھایا اور فرمایا : سیدھی ہو کر چلو ورنہ یہ دیکھ لو ! چنانچہ اس کے بعد اس نے شوخی چھوڑ دی ۔ (جامع کرامات اولیاء جلد ۲ صفحہ ۳۱۱)
اسمِ اعظم
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ اسمِ اعظم '' اَللہُ اَللہُ اَللہُ الَّذِيْ لَا إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ '' ہے ۔ (''فتح الباري باب للہ مائۃ اسم غیر واحدۃ جلد ۱۱ صفحہ ۱۸۹)
حدیث پر عمل کا جذبہ اور سخاوت امام زین العایدین
صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی نبی کریم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مسلمان غلام کو آزاد کرے گا اس کے ہر عضو کے بدلے میں ﷲ تعالیٰ اس کے ہر عضو کو جہنم سے آزاد فرمائے گا ۔ سعید بن مرجانہ کہتے ہیں میں نے یہ حدیث علی بن حسین (امام زین العابدین) رضی اللہ عنہما کو سنائی انہوں نے اپنا ایک ایسا غلام آزاد کیا جس کی قیمت عبدﷲ بن جعفر دس 10 ہزار دیتے تھے ۔ (صحیح البخاري کتاب العتق باب فی العتق وفضلہ الحدیث : ۲۵۱۷ جلد ۲ صحہ ۱۵۰،چشتی)
نبی کریم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس تلوار ''ذوالفقار'' حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے پاس تھی ۔ جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد وہ مدینہ منورہ واپس آئے تو حضرت مسور بن مخرمہ صحابی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا مجھے یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ بنو امیہ آپ سے اس تلوار کو چھین لیں گے ۔ اس لیے آپ مجھے وہ تلوار دے دیجیے جب تک میرے جسم میں جان ہے کوئی اِس کو مجھ سے نہیں چھین سکتا ۔ (بخاری جلد ۱ صفحہ ۴۳۸ باب ما ذکر من درع النبی صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم)
حجاج ابن یوسف کے وقت میں جب دوبارہ حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ اسیر کیے گئے اور لوہے کی بھاری قید و بند کا بارِ گراں ان کے تنِ نازنین پر ڈالا گیا اور پہرہ دارمتعین کردیے گئے ، امام زہری علیہ الرحمہ اس حالت کو دیکھ کر روپڑے اور کہا کہ مجھے تمنا تھی کہ میں آپ کی جگہ ہوتا کہ آپ پر یہ بارِمصائب دل پرگوارا نہیں ہے ۔ اس پر امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا تجھے یہ گمان ہے کہ اس قیدو بند ش سے مجھے کرب و بے چینی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر میں چاہوں تو اس میں سے کچھ بھی نہ رہے مگر اس میں اجر ہے اور تَذَکُّرہے اور عذابِ الٰہی عزوجل کی یاد ہے ۔ یہ فرما کر بیڑیوں میں سے پاؤں اور ہتھکڑیوں میں سے ہاتھ نکال دیے ۔ یہ اختیارات ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے کرامۃً انہیں عطا فرمائے گئے اور وہ صبر و رضا ہے کہ اپنے وجود اور آسایشِ وجود ، گھر بار ، مال و متاع سب سے رضائے الٰہی عزوجل کےلیے ہاتھ اٹھالیتے ہیں اور اس میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے ظاہری و باطنی برکات سے مسلمانوں کو متمتع اور فیض یاب فرمائے اور ان کی اخلاص مندانہ قربانیوں کی برکت سے اسلام کو ہمیشہ مظفر و منصور رکھے آمین ۔ (المنتظم سنۃ اربع وتسعین ۵۳۰ علی بن الحسین الخ ، جلد ۶ صفحہ ۳۳۰)
حضرت امام زین العابِدین علیہ رضی اللہ عنہ نے کسی شخص کو غیبت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا : غیبت سے بچو ، کیونکہ یہ انسان نُما کُتّوں کا سالن ہے ۔ (ذَمُّ الْغِیبَۃ لِابْنِ اَبِی الدُّنْیا صفحہ ۱۸۱ رقم ۱۶۱)
كُتّوں سے تشبیہ دینے كی وجہ
حضرت امام زین العابدین علیہ رضی اللہ عنہ نے غیبت کرنے والوں کوانسان نُما کتّوں کے ساتھ اس لیے تشبیہ دی ہے کہ قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارَکہ میں غیبت کو مردار کا گوشت کھانے کی مثل بتایا گیا ہے اور مردار کا گوشت چبانا اور کھانا کتّوں کا کام ہے لہٰذا غیبت کرنے والے گویا کُتّوں کی مثل ہو کر آدمیوں کی اَقسام سے خارِج ہوئے کیونکہ اگر آدَمی ہوتے تو ان میں آدمی کی صفت ہوتی اور انسان کی خصلت ان میں پائی جاتی ،کسی کی غیبت نہ کرتے ،کسی کا گوشت کُتّوں کی طرح نہ چباتے ۔
حضرت محمد بن ہِلال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت سیّدنا علی بن حسین (یعنی امام زین العابدین) رضی اللہ عنہما کو سفید عمامہ باندھتے دیکھا ، آپ رضی اللہ عنہ عمامہ کا شملہ اپنی پیٹھ مبارک پر لٹکا تے تھے ۔ (تاریخ الاسلام ۶/۴۳۲)(تاریخ ابنِ عساکر، ۴۱/۳۶۵واللفظ لہ)
حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی میں دو مرتبہ اپنا سارا مال راہِ خدا میں خیرات کیا اور آپ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ آپ بہت سے غرباءِ اہلِ مدینہ کے گھروں میں ایسے پوشیدہ طریقوں سے رقم بھیجا کرتے تھے کہ ان غرباء کو خبر ہی نہیں ہوتی تھی کہ یہ رقم کہاں سے آتی ہے ؟ مگر جب آپ کا وصال ہو گیا تو ان غریبوں کو پتا چلا کہ یہ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی سخاوت تھی ۔ (سیر اعلام النبلاء، جلد ٥ صفحہ ۳۳۶،چشتی)
حضرتِ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کو کسی نے گالی دی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اسے اپنا مبارک کُرتا اور ایک ہزار درھم دینے کا حکم دیا ۔ تو کسی نے کہا: آپ نے پانچ خصلتیں جمع کر لی ہیں : ⬇
(۱) بردباری (۲) تکلیف نہ دینا (۳) اس شخص کو ایسی بات سے رہائی دینا جو اسے اللہ عزوجل سے دور کر دیتی (۴) اسے توبہ وندامت کی طرف راغب کرنا (۵) برائی کے بعد تعریف کی طرف رجوع کرنا ۔ آپ نے معمولی دنیا کے ساتھ یہ تمام عظیم چیزیں خرید لیں ۔ (احیاءالعلوم: ۳/۲۲۱)
حضرت امام زین العابدین علی بن حسین بن علی رضی اللہ عنہم تابعین مدینہ منورہ میں سے ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ عابدین کی زینت ، اطاعت گزاروں کے سردار ، وفادار عبادت گزار اور مہربان سخی تھے ۔ (اللہ والوں کی باتیں جلد 3 صفحہ 193،چشتی)
دنیامیں پانچ حضرات بہت روئے ہیں : حضرتِ آدم عَلَیْہِ السَّلَام فراقِ جنت میں ، حضرتِ نوح عَلَیْہِ السَّلام و حضرتِ یحیی عَلَیْہِ السَّلام خوفِ خدامیں ، حضرتِ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا فراقِ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلہ وَسَلَّم میں ، حضرتِ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ واقعَۂ کربلا کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی پیاس یاد کر کے ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد ۸ صفحہ ۲۹۱)
حضرت امام محمد بن علی باقر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : میرے والدِ ماجد حضرت اِمام زینُ العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہما نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : پانچ قسم کے لوگوں کی نہ تو صحبت اختیار کرنا ، نہ ان سے گفتگو کرنا اورنہ ہی سفر میں ان کی رفاقت اختیار کرنا ۔ میں نے عرض کی میں آپ پر قربان وہ کون ہیں ؟ فرمایا : فاسق کی صحبت اختیار نہ کرنا کیونکہ وہ تجھے ایک یا ایک سے کم لقمہ کے بدلے میں بیچ دے گا ۔ میں نے عرض کی لقمے سے کم کیا مراد ہے ؟ فرمایا : لقمے کا لالچ کرے گا لیکن اسے حاصل نہیں کر سکے گا ۔ میں نے عرض کی دوسرا شخص ؟ فرمایا : بخیل کی صحبت میں نہ بیٹھنا کیونکہ وہ ایسے وقت میں تجھ سے مال روک لے گا جب تجھے اس کی سخت حاجت وضرورت ہوگی ۔ میں نے عرض کی تیسرا کون ہے ؟ فرمایا : جھوٹے کی صحبت میں نہ بیٹھنا کیونکہ وہ سَراب کی طرح ہے جو تجھ سے قریب کو دور اور دور کو قریب کر دے گا ۔ میں نے عرض کی چوتھا شخص ؟فرمایا : اَحمق (بےوقوف) کی صحبت اختیار کرنے سے بچنا کیونکہ وہ تجھے فائدہ پہنچانے کی کوشش میں نقصان پہنچا دے گا ۔ میں نے عرض کی پانچواں شخص کون ہے ؟ فرمایا : رشتہ داروں سے قطع تعلُّق کرنے والے کی صحبت میں بیٹھنے سے بچنا کیونکہ میں نے کتابُ اللہ میں تین مقامات پراسے ملعون پایا ہے ۔
حضرت امام زینُ العابدین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : سخی وہ نہیں جو مانگنے والوں کو دیتا ہے بلکہ سخی وہ ہے جو اللہ کے فرمانبرداروں کے حقوق کی ادائیگی میں پہل کرتا ہےاور اپنی تعریف کا خواہشمند نہیں ہوتا بشرطیکہ بارگاہِ خداوندی سے کامل ثواب کا یقین رکھے ۔ (احیا العلوم جلد 3 صفحہ 739،چشتی)
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے پھوپھا ہیں ، کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں اور سیدتنا ام کلثوم رضی اللہ عنہا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی بہن ہیں اور والدکی بہن پھوپھی ہوتی ہےاور پھوپھی کا شوہر پھوپھا ہوتا ہے ، چونکہ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ حضرت سیدتنا اُمّ کلثوم رضی اللہ عنہا کے شوہر ہیں لہٰذا وہ آپ کے پھوپھا ہوئے ۔ (طبقات کبری، بقیۃ الطبقۃ الثانیۃ من التابعین، ج۵، ص۱۶۲)
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : كُنَّا نَعْلَمُ مَغَازِي النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا نُعَلِّمُ السُّوْرَةَ مِنَ الْقُرْآنِ ، یعنی : ہم رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مغازی کا علم اس طرح حاصل کرتے جس طرح قرآن مجید کی سورتیں سیکھا کرتے تھے ۔ (البدایۃ والنھایۃ جلد ۲ صفحہ ۶۴۲)(سبل الھدی والرشاد الباب الثانی اختلاف الناس ۔ الخ ، جلد ۴ صفحہ ۱۰،چشتی)
شان فاروقِ اعظم بزبان امام زین العابدین رضی اللہ عنہما
حضرت ابو حازم رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت امام علی بن حسین امام زین العابدین رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : مَا کَانَ مَنْزِلَۃُ اَبِیْ بَکْرٍ وَ عُمَرَ مِنْ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ وَسَلَّمَ یعنی حضرت ابوبکر صدیق و حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہما کا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانے میں کیا مقام و مرتبہ تھا ؟ فرمایا : کَمَنْزِلِھِمَا الْیَوْمَ ھُمَا ضَجِیْعَاہُ ، یعنی عہدِ رسالت میں ان کا مقام و مرتبہ وہی تھا جو آج ہے کہ دونوں اس وقت بھی رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دوست تھے اور آج مزار میں بھی دونوں رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دوست ہیں ۔ (مناقبِ امیر المومنین عمر بن الخطاب الباب العشرون صفحہ نمبر ۴۳،چشتی)
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کو ان کی کنیز وضو کروا رہی تھی کہ اچانک اس کے ہاتھ سے لوٹا گر گیا جس سے وہ زخمی ہو گئے ، انہوں نے اس کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تو اس نے عرض کی : اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ ’’ اور غصّہ پینے والے ‘‘ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قَدْ کَظَمْتُ غَیْظِیْ ، یعنی میں نے اپنا غصّہ پی لیا ۔ اس نے پھر عرض کی : وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ ، اور لوگوں سے در گزر کرنے والے ، ارشاد فرمایا : قَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْکِ ، یعنی اللہ پاک تجھے معاف کرے ۔ پھر عرض گزار ہوئی : وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ، اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں ، ارشاد فرمایا : اِذْہَبِیْ فَاَنْتِ حُرَّۃٌ ، یعنی جا تو آزاد ہے ۔ (شُعَبُ الْاِیمان جلد ۶ صفحہ ۳۱۷ حدیث ۸۳۱۷)
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرتِ مولا علی رضی اللہ عنہ سے بے حد پیار کرتے تھے اور اِسی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام شہزادوں (یعنی بیٹوں) کے نام ’’علی‘‘ رکھتے تھے ۔ بڑے شہزادے (یعنی بڑے بیٹے) کا نام ’’علی اکبر‘‘ ہے ۔ اُن سے چھوٹے جوکہ امام زین العابدین کے نام سے مشہور ہیں مگر اِن کا اَصل نام ’’علی اَوسط‘‘ ہےاور سب سے چھوٹے شہزادے ، ننھے ننھے پیارے پیارے ’’علی اصغر رضی اللہ عنہم‘‘ ہیں ۔ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے علاوہ دونوں شہزادےاپنے ابوجان کے ساتھ ’’میدانِ کربلا‘‘ میں شہید ہو گئے تھے ۔
حضرت امام زینُ العابدین علی بن حُسین رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : اگر جسم بیمار نہ ہو تو وہ اکڑ جاتا ہے اور اکڑنے والے جسم میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی ۔ (اللہ والوں کی باتیں،۳/۱۹۴)
تضمین بر نظم منسوب بہ زین العابدین رضی اللہ عنہ : ⬇
ایسا کوئی محرم نہیں پہنچائے جو پیغامِ غم
تو ہی کرم کردے تجھے شاہِ مدینہ کی قسم
ہو جب کبھی تیرا گزر بادِ صبا سوئے حرم
پہنچا مری تسلیم اس جا ہیں جہاں خیر الامم
اِنْ نِّلْتِ یَا رِیْحَ الصَّبَا یَوْمًا اِلٰیٓ اَرْضِ الْحَرَم
بَلِّغْ سَلَامِیْ رَوْضَۃً فِیْھَا النَّبِیُّ الْمُحْتَشَم
میں دُوں تجھے ان کا پتہ گر نہ تو پہچانے صبا
حق نے انہی کے واسطے پیدا کیے اَرض و سما
رخسار سورج کی طرح ہے چہرہ ان کا چاند سا
ہے ذات عالم کی َپنہ اور ہاتھ دریا جود کا
مَنْ وَّجْھُہٗ شَمْسُ الضُّحٰی مَنْ خَدُّہٗ بَدْرُالدُّجٰی
مَنْ ذَا تُہٗ نُوْرُ الْھُدٰی مَنْ کَفُّہٗ بَحْرُ الْھِمَمْ
حق نے انہیں رحمت کہا اور شافعِ عصیاں کیا
رتبہ میں وہ سب سے سوا ہیں ختم ان سے انبیا
وہ مَہبِطِ قران ہیں ناسخ ہے جو اَدیان کا
پہنچا جو یہ حکم خدا سارے صحیفے تھے فنا
قُرْاٰ نُہٗ بُرْہَانُنَا نَسْخًا لِّاَدْیَانٍ مَّضَتْ
اِذْ جَائَ نَا اَحْکَامُہٗ لِکُلِّ الصُّحُفِ صَارَ الْعَدَم
یوں تو خلیلِ کبریا اور اَنبیائِ باصفا
مخلوق کے ہیں پیشوا سب کو بڑا رُتبہ ملا
لیکن ہیں ان سب سے سوا دُرِّیتیمِ آمنہ
وہ ہی جنہیں کہتے ہیں سب مشکل کشا حاجت رَوا
یَا مُصْطَفٰی یَا مُجْتَبٰی اِرْحَمْ عَلٰی عِصْیَانِنَا
مَجْبُوْرَۃٌ اَعْمَالُنَا طَمَعْنًا وَّ ذَنْبًا وَّ الظُّلَمِ
اے ماہِ خوبانِ جہاں اے اِفتخارِ مرسلیں
گو جلوہ گر آخر ہوئے لیکن ہو فخر الاولیں
فرقت کے یہ رَنج و عنا اب ہوگئے حد سے سوا
اس ہجر کی تلوار نے قلب و جگر زخمی کیا
وہ لوگ خوش تقدیر ہیں اور بخت ہے ان کا رَسا
رہتے ہیں جو اس شہر میں جس میں کہ تم ہو خسروا
سب اَولین و آخریں تارے ہیں تم مہر مبیں
یہ جگمگائے رات بھر چمکے جو تم کوئی نہیں
اَکْبَادُنَا مَجْرُوْحَۃٌ مِّنْ سَیْفِ ہِجْرِ الْمُصْطَفٰی
طُوْبٰی لِاَھْلِ بَلْدَۃٍ فِیْھَا النَّبِیُّ الْمُحْتَشَم
اے دو جہاں پر رحمِ حق تم ہو شفیع المجرمیں
ہے آپ ہی کا آسرا جب بولیں نَفْسِیْ مرسلیں
اس بیکسی کے وقت میں جب کوئی بھی اپنا نہیں
ہم بیکسوں پر ہو نظر اے رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن
یَا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ اَنْتَ شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْں
اَکْرِمْ لَنَا یَوْمَ الْحَزِیْنِ فَضْلًا وَّ جُوْدًا وَّ الْکَرَم
اس سالکِؔ بدکار کا گو حشر میں کوئی نہیں
لیکن اُسے کیا خوف ہو جب آپ ہیں اس کے ُمعیں
مجرم ہوں میں غفار رب اور تم شَفِیْعُ الْمُذْ نِبِیْں
پھر کیوں کہوں بیکس ہوں یَا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْں
یَا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْں اَدْ رِکْ لِزَیْنِ الْعَابِدِیْں
مَحْبُوْسُ اَیدِی الظَّالِمِیْنَ فِیْ مَرْکَبٍ وَّالْمُزْدَحِم
(دیوان سالک)
تفسیرِ قرآن بزبان امام زین العابدین خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے بارے میں ۔
وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ ۔ (پ۱۴،الحجر:۴۷)
ترجمہ : اور ہم نے ان کے سینوں میں جو کچھ کینے تھے سب کھینچ لئے آپس میں بھائی ہیں تختوں پر روبرو بیٹھے ۔
حضرت امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ : یہ آیت مبارکہ بنو ہاشم ، بنوتمیم ، بنو عدی ، حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ، حضرت سیدنا عمر فاروق اور حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازل ہوئی ۔ حضرت سیدنا ابو جعفر امام باقر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ حضرت سیدنا علی بن حسین رضی اللہ عنہمق سے جو یہ بات منقول ہے کہ یہ آیت مبارکہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ، حضرت سیدنا عمر فاروق اور حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازل ہوئی درست ہے ؟ انہوں نے فرمایا : اللہ کی قسم ! یہ آیت انہیں کے بارے میں نازل ہوئی ہے اگران کے بارے میں نازل نہیں ہوئی تو پھر کس کے بارےمیں نازل ہوئی ہے ؟ پوچھا گیا کہ اس میں تو ان کے کینے کا ذکر ہے حالانکہ ان کے دلوں میں تو ایک دوسرے کےلیے کوئی کینہ نہیں ہے ؟ فرمایا : اس کینے سے مراد زمانہ جاہلیت والا کینہ ہے جوان کے قبائل بنو عدی ، بنو تمیم ، بنوہاشم میں پایا جاتا تھا جب یہ تمام لوگ اسلام لے آئے ، تو کینہ ختم ہو گیا اور آپس میں شیر و شکر ہو گئے ، نیز ان کے مابین اس قدر الفت و محبت پیدا ہوگئی کہ ایک بار حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں درد ہوا توحضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ کو گرم کر کے آپ رضی اللہ عنہ کے پہلو کو ٹکور کرنے لگے ۔ رب تعالٰی کو یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اس پریہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ۔ (تفسیر الدر المنثور جلد ۵ صفحہ ۸۴۔۸۵،چشتی)
سیدنا علی المرتضی و سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہما دونوں کی رشتہ داری
حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے صاحب زادے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت سیدتنا شہر بانو رضی اللہ عنہا اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زوجہ دونوں آپس میں سگی بہنیں تھی ۔ یعنی سیدنا علی اور سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہما دونوں کی بہوئیں آپس میں سگی بہنیں تھیں ۔ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں حضرت سیدنا حریث بن جابر جعفی رضی اللہ عنہ نے شاہ ایران یزد جردبن شہر یار کی دو بیٹیاں آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجی تو آپ نے ان میں سے بڑی بیٹی کا نکاح اپنے بیٹے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے فرما دیا اور چھوٹی بیٹی کا نکاح حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرما دیا ۔ان سے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے اور حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت سیدنا قاسم رضی اللہ عنہ پیداہوئے ۔ یوں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر صدیق اور حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہما کے بیٹے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ ہم زلف ہوئے ۔ (لباب الانساب والالقاب والاعقاب ابناء علی العلویۃ الجعفریۃ و العقیلیۃ جلد ۱ صفحہ ۲۲،چشتی)
حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میرے والدِ گرامی حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : قطع رحمی کرنے والے کے ساتھ دوستی نہ کرو کیونکہ میں نے قرآنِ پاک میں اسے 3 جگہوں پر ملعون پایا ۔ اور پھر انہوں نے سابقہ 3 آیات پڑھیں یعنی قتال والی آیتِ مبارکہ میں صریح لعنت ہے ، سورہ رعد کی آیتِ مبارکہ میں عمومی طور پر لعنت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کے جوڑنے کا حکم دیا اس میں رحم (یعنی رشتہ داری) وغیرہ بھی شامل ہیں اور سورہ بقرہ کی آیت ِمقدسہ میں لازمی طور پرلعنت ثابت ہے کیونکہ یہ ان چیزوں میں سے ہے جو خسارے کو لازم ہیں ۔ حضرت امام ابوعبداللہ محمد بن احمد قرطبی عَلَیْہِ الرَحْمَہ (متوفی۶۷۱ھ) نے اپنی تفسیر میں صلہ رحمی کے واجب اور قطع رحمی کے حرام ہونے پر امت کا اجماع نقل فرمایا ہے ۔ (جہنم میں لے جانے والے اعمال جلد 2 صفحہ 282)
امام زین العابدین ہر شب ایک ہزار رکعت نفل پڑھتے تھے ۔ (مراۃ المناجیح جلد 6 صفحہ 6)
آپ کا نام عابد ہے،لقب علی اوسط ، خطاب زین العابدین ، آپ کی والدہ بی بی شہر بانو بنت یزد گرد شاہ ایران ہیں ، شہر بانو ایران کی شاہزادی تھیں جو خلافتِ فاروقی میں گرفتار ہو کر مدینہ منورہ آئیں ، حضرت عمر نے فرمایا کہ شاہزادی شاہزادے کو دی جاوے گی اور امام حسین سے آپ کا نکاح کر دیا ، ان کے شکم سے امام زین العابدین پیدا ہوئے ، آپ کے بیٹے گیارہ اور بیٹیاں چھ ۔ تفصیل یہ ہے بیٹے : محمد باقر ، جعفر ، ابوالحسن ، زید ، عبد اللہ ، عبد الرحمن ، سلیمان ، عمر ، اشرف ، حسن اصغر ، حسن اکبر علی ۔ بیٹیاں : خدیجہ ، زینب ، عالیہ ، ام کلثوم ، ملیکہ ، ام الحسن ، ام الحسین ۔ محمد ، باقر ، عبد اللہ ، عمر ، اشرف ، زید شہید ہوئے ۔(مراة المناجیح جلد نمبر 8 صفحہ نمبر 618،چشتی)
آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو الحسن لقب امام زین العابدین سادات اہل بیت سے ہیں ، جلیل القدر تابعی ہیں ، امام زہری کہتے ہیں کہ میں نے ان سے افضل کوئی قرشی نہیں دیکھا آپ کی عمر 58 اٹھاون سال ہوئی 94 ھجری میں وفات ہوئی جنت البقیع میں اپنے تایا امام حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ دفن ہیں ، مترجم کہتا ہے کہ امام حسین کے تینوں بیٹوں کا نام علی ہے علی اکبر علی اوسط علی اصغر ، حضرت علی اکبر اور علی اصغر تو کربلا میں شہید ہوئے علی اوسط یعنی امام زین العابدین رضی اللہ عنہم وہاں سے بچ کر آئے بقیہ زندگی بغیر روئے ہوئے کبھی پانی نہ پیا آپ کی قبر زیارت گاہ خاص و عام ہے ۔ (مراة المناجیح جلد 8 صفحہ 583،چشتی)
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ صحابی نہیں بلکہ تابعی ہیں ۔ (مراة المناجیح جلد 8 صفحہ 217)
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے مروی روایت
روایت ہے حضرت علی ابن حسین سے (ارسالًا) (1) فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں جب جھکتے اور اٹھتے تو تکبیر کہتے حضور کی یہی نماز رہی حتی کہ ﷲ تعالٰی سے مل گئی (2) ۔(مالک)
شرح : (1) آپ کا لقب زین العابدین ہے ، کنیت ابوالحسن ، اہل بیت اطہار سے ہیں ، 58 سال کی عمر ہوئی ، 94 ھجری میں وفات ، چونکہ آپ حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو نہ دیکھ سکے اس لیے تابعین میں سے ہیں اور یہ روایت مرسل ہے ۔
(2) : یعنی یہ عمل شریف منسوخ نہیں ۔ (مراہ المناجیح جلد 2 صفحہ 37،چشتی)
حسینی سادات کا سلسلہ آپ ہی سے چلا
حادثہ کربلا سے صرف امام زین العابدین رضی اللہ عنہ ہی بچ کر آئے تھے ، حسینی سادات آپ ہی کی نسل پاک سے ہیں ، امام حسین رضی اللہ عنہ کے درمیانے صاحبزادے ہیں ۔ (مراة المناجیح جلد 2 صفحہ 907)
روایت ہے حضرت عبدﷲ ابن سلام سے فرماتے ہیں فرمایا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہ تم میں سے کسی پر کیا دشوار ہے کہ اگر ممکن ہو تو جمعہ کے دن کےلیے دو کپڑے کام کاج کے کپڑوں کے سوا بنالے (1) (ابن ماجہ)اور مالک نے یحیی ابن سعید سے روایت کی ۔
شرح
(1) یہ بھی مستحب ہے کہ جمعہ کا جوڑا الگ رکھے جو بوقت نماز پہن لیا کرے اور بعد میں اتار دیا کرے،امام زین العابدین تو نماز پنجگانہ کے لئے جوڑا رکھتے تھے۔(مراہ المناجیح جلد 2 صفحہ 617)
امام زین العابدین کے صاحبزادے کا مقام ومرتبہ
جب استاد کا یہ عالم ہے تو جو قرب زمانہ کے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے کے قریب ہیں اور نسب میں بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریب اور جب امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا یہ عالم ہے کہ وہ حضور امام اعظم امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے استاد صاحب ہیں تو ۔ ان کے والد کا عالم کیا ہوگا ۔ جن کی تربیت کے عظیم شاہکار امام زین العابدین کے صاحبزادے ۔ امام جعفرصادق رضی اللہ عنہما ۔
امام اعظم کے استاد
سَیِّدنا امام اعظم رضی اللہ عنہ علم دین کے حُصول کے باوُجود امام اعظم رضی اللہ عنہ جیسے علم کے بیکراں سَمُنْدر نے بھی علومِ طریقت ، حضرت امامِ جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی صحبتِ بابَرَکت و مجالس سے حاصل کیے ۔امامِ اعظم علیہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ! اگر میری زندگی میں یہ دوسال (جو میں نے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گزارے) نہ ہوتے تونعمان (رضی اللہ عنہ) ہلاک ہو گیا ہوتا ۔(آدابِ مرشد کامل صفحہ 171 مکتبۃ المدینہ،چشتی)
((الألوسي، محمود شكري، مختصر التحفة الاثني عشرية، ص 8 ، ألّف أصله باللغة الفارسية شاه عبد العزيز غلام حكيم الدهلوي، نقله من الفارسية إلى العربية: (سنة 1227 هـ) الشيخ الحافظ غلام محمد بن محيي الدين بن عمر الأسلمي، حققه وعلق حواشيه: محب الدين الخطيب، دارالنشر: المطبعة السلفية، القاهرة، الطبعة: 1373 هـ ۔
اور دیکھئے : القنوجي البخاري، أبو الطيب السيد محمد صديق خان بن السيد حسن خان (متوفى 1307هـ) ، الحطة في ذكر الصحاح الستة ، ج 1 ص 264 ، ناشر : دار الكتب التعليمية - بيروت ، الطبعة : الأولى 1405/ 1985م)
امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ بھی تابعی ہیں
امام جعفر صادق ہیں ، آپ امام زین العابدین کے فرزند ہیں ، تابعی ہیں ۔ (مراۃ المناجیح جلد 4 صفحہ 577)
امیر معاویہ کی شان بزبان امام زینُ العابدین رضی اللہ عنہما
اہلِ بیت کی خدمت اور حضرت امیر معاویہ سے محبت : شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے بعد امام زینُ العابدین رضی اللہ عنہ جب یزید لعین کے پاس سے لوٹ کر مدینَۂ مُنَوَّرہ پہنچے تو حضرت مِسْوَر بن مَخْرَمَہ رضی اللہ عنہما ان کے پاس گئے اور کہا : اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور حکم دیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ جب بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کرتے ان کےلیے دعائے رحمت ضرور کرتے تھے ۔ (سیر اعلام النبلاء جلد 4 صفحہ 480)
امام زینُ العابدین رضی اللہ عنہ کو زین العابدین کہنے کی وجہ
کثرتِ عبادت کے سبب سجّاد اور زینُ العابِدِین (یعنی عبادت گزاروں کی زِینت) کے لقب سے مشہور ہوئے ۔ آپ کی کنیت ابوالحسن ہے ۔ (الاعلام جلد 4 صفحہ 277)
حضرت امام زینُ العابدین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : میں آدم علیہ السَّلام کی تخلیق سے چودہ ہزار سال پہلے اللہ عزوجل کے ہاں نور تھا ۔ (مواھب لدنیہ جلد 1 صفحہ 39)
امام احمد مسند ذی الیدین رضی اللہ عنہ میں ابن ابی حازم سے راوی : قال جاء رجل الی علی بن الحسین رضی اللہ تعالی عنہما فقال ماکان منزلۃ ابی بکر وعمر من النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال منزلتھما الساعۃ وھما ضجیعاہ ، یعنی ایک شخص نے حضر ت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی خدمت انور میں حاضر ہوکر عرض کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا مرتبہ کیا تھا فرمایا جو مرتبہ ان کا اب ہے کہ حضور کے پہلو میں آرام کررہے ہیں ۔ (مسند احمد بن حنبل حدیث ذی الیدین رضی اللہ تعالی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۷۷،چشتی)(فتاوی رضویہ جلد 28 صفحہ 99)
زَیْنُ الْعَابِدِیْن کے معنیٰ ”عبادت گزاروں کی زینت“ہے ، چونکہ حضرت امام علی اَوسط رضی اللہ عنہ بہت زیادہ عبادت گزار تھے اس لیے لوگوں نے انہیں زَیْنُ الْعَابِدِیْن کا لقب دیا ۔ (1) اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ بہت زیادہ نوافل پڑھتے تھے اور ظاہر ہے نوافل میں سجدے ہوتے ہیں تو یوں سجدوں کی کثرت کی وجہ سے لوگوں نے انہیں سَجَّاد یعنی بہت زیادہ سجدے کرنے والا کہنا شروع کر دیا ۔ (2) آپ رضی اللہ عنہ کا نامِ نامی ”علی“ تھا اور پہچان کےلیے”علی اَوْسَط“ کہا جاتا تھا یعنی بیچ والے علی کیونکہ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے علی اکبر یعنی بڑے علی تھے اور ایک علی اصغر یعنی چھوٹے علی تھے جبکہ امام زَیْنُ الْعَابِدِیْن رضی اللہ عنہم بیچ والے تھے اس لیے آپ رضی اللہ عنہ کو ”علی اَوْسَط “کہا جاتا ہے ۔
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کا خصوصی علم : امام غزالی اپنی زندگی کی آخری کتا ب "منھاج العابدین " جو کہ عظیم ترین تصوف کی اور مختصر کتاب ہے تو اس کی وجہ بیان کرنے کے ضمن میں فرماتے ہیں : جب ہم نے اس راہ کو اتنا مشکل پایا تو اسے پار کرنے کےلیے گہرا غور و خوض کیا اور دیکھا کہ بندہ اس میں کن چیزوں کا محتاج ہوتا ہے مثلاً : قوت و طاقت ، آلات اور علم و عمل کی تدبیر وغیرہ تو اس امید کے ساتھ کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سلامتی کے ساتھ اس راہ کو پار کر جائے اور اس کی ہلاکت خیز گھاٹیوں میں گر کر ہلاک ہونے والوں کےساتھ ہلاک نہ ہو ، لہٰذا ہم نےاس راہ پر چلنے اور اسے پار کرنے کے متعلق چند کتابیں لکھیں جیسے : اِحْیَاءُ عُلُوْمِ الدِّیْن ، اَسْرَارُالْمُعَامَلَات ، اَلْغَایَۃُ الْقَصْوٰیاوراَلْقُرْبَۃُ اِلَی اللہ وغیرہ ، یہ کتابیں باریک علمی نکات پر مشتمل ہیں جس کی وجہ سے عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہیں اوراسی کم فہمی کی وجہ سے لوگ ان میں عیب لگانے لگے اور جو باتیں پسند نہ آئیں ان میں سر گرمی دکھانے لگے ، بھلا اللہ تعالیٰ کے کلام سے بڑھ کر بھی کوئی کلام فصیح و بلیغ ہو سکتا ہے ، کہنے والوں نے تو اس کے بارے میں بھی کہہ دیا کہ”یہ تو اگلوں کی داستانیں ہیں ۔ کیا تم نے حضرت سیِّدُنا امام زین العابدین علی بن حسین بن علی رضی اللہ عنہم کا یہ فرمان نہیں سنا : ⬇
اِنِّیْ لَاَکْتُمُ مِنْ عِلْمِیْ جَوَاہِرَہٗ کَیْلَا یَرٰی ذَاکَ ذُوْ جَھْلٍ فَیَفْتَتِنَا
وَ قَدْ تَقدَّمَ فِیْ ھٰذَا اَبُوْ حَسَنٍ اِلَی الْحُسَیْنِ وَوَصّٰی قَبْلَہُ الْحَسَنَا
یَارُبَّ جَوْہَرِ عِلْمٍ لَوْ اَبُوْحُ بِہٖ لَقِیْلَ لِیْ اَنْتَ مِمَّنْ یَّعْبُدُ الْوَثَنَا
وَلَاسْتَحَلَّ رِجَالٌ مُّسْلِمُوْنَ دَمِیْ یَرَوْنَ اَقْبَحَ مَا یَاْتُوْنَہٗ حَسَنَا
ترجمہ : میں اپنے علمی جواہر پوشیدہ رکھتا ہوں تاکہ جہلا انہیں دیکھ کر فتنے میں مبتلا نہ ہوں ۔ (۲) اس کے متعلق اس سے پہلے حضرت ابوحسن علی رضی اللہ عنہ بھی حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کو وصیت کر گئے کہ (۳) میرے ایسے کئی پوشیدہ علوم ہیں جنہیں میں ظاہر کر دوں تو مجھے کہا جائے گا تو توبتوں کی پوجا کرنے والا ہے اور (۴) مسلمان میرے خون کو حلال سمجھ بیٹھیں گے (یعنی مجھے قتل کر دیں گے) اور اس برے کام کو اچھا سمجھیں گے ۔
مگر اب حالات کا اربابِ دین سے تقاضا ہے کہ وہ ساری خلق خدا کو نظر رحمت سے دیکھیں اور بحث و مباحثہ ترک کردیں ۔ میں نے اُس کی بارگاہ میں التجا کی جس کے قبضہ میں تمام مخلوق اور ہر معاملہ ہے کہ وہ مجھے ایسی کتاب لکھنے کی توفیق عطا فرمائے جس پر سب کا اتفاق ہو اور اسے پڑھ کر لوگ فائدہ اٹھائیں پس اس نے میری التجا قبول فرمائی کیونکہ جب کوئی بے چین و مُضْطَر اسے پکارے تو وہ اس کی پکار سنتا ہے ، اس نے اپنے فضل سے مجھ پر اس تصنیف کے راز آشکار فرمائے اور ایک ایسی منفرد ترتیب الہام فرمائی جو علومِ دینیہ کے حقائق پر مشتمل میری سابقہ کتب میں نہیں تھی ، یہ میری وہ تصنیف ہے جس کی تعریف میں خود کرتا ہوں ۔ توفیق دینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ (منھاج العابدین صفحہ 13-14 مکتبہ المدینہ)
اہلِ سنّت کی علامت
امام زین العابدین حضرت ابوالحسن علی بن حسین رضی اللہ عنہما نے ارشاد فرمایا : نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کثرت سے درود پڑھنا اہلِ سنّت کی علامت ہے ۔ (القول البدیع الباب الاول قول علی زین العابدین علامة ۔ الخ ، صفحہ ۱۳۱ ، رقم : ۵)
میدانِ کربلا کی طرف جانے والے حسینی قافلے میں آپ رضی اللہ عنہ شامل تو تھے لیکن بیمار تھے ، اس لیے یزیدی لشکر آپ کو شہید کرنے سے باز رہا ۔ حسینی سادات کی نسل آپ رضی اللہ عنہ سےہی آگے بڑھی ۔ (تاریخ الاسلام للذہبی جلد 6 صفحہ 432،چشتی)
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ مختار بن ابی عبید ثقفی پر لعنت کیا کرتے تھے : ⬇
امام ابو عبداللہ محمد بن اسحٰق بن العباس المکی الفاکہی رحمۃ اللہ علیہ( المتوفی 272ھ) روایت کرتے ہیں : حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: ثنا أَبُو الْمُنْذِرِ إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: ثنا عِيسَى بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: إِنَّ عَلِيَّ بْنَ حُسَيْنٍ قَامَ عِنْدَ بَابِ الْكَعْبَةِ يَلْعَنُ الْمُخْتَارَ بْنَ أَبِي عُبَيْدٍ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا أَبَا الْحَسَنِ لِمَ تَسُبَّهُ وَإِنَّمَا ذُبِحَ فِيكُمْ؟ فَقَالَ: " إِنَّهُ كَذَّابٌ عَلَى اللهِ تَعَالَى وَعَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔
ترجمہ : سید نا امام محمد بن علی الباقر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا علی ابن الحسین زین العابدین رضی اللہ عنہم (ایک دن ) کعبہ کے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر مختار بن ابی عبید پر لعنت کر رہے تھے تو آپ (رضی اللہ عنہ) سے ایک مرد نے کہا : اے ابوالحسن ( امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی کنیت) آپ کیوں اس پر سب کرتے ہیں جب کہ وہ آپ لوگوں کےلیے ہی تو ذبح ( قتل) ہوا ہے ؟ تو اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بے شک وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر بہت زیادہ جھوٹ بولتا تھا ۔ (أخبار مكة في قديم الدهر وحديثه جلد 1 صفحہ 232 رقم الحدیث426) ۔ (اس روایت کی سند حسن صحیح ہے)
وفات و مزار
حضرت امام زینُ العابدین ابوالحسن علی اوسط ہاشمی قرشی علیہ رضی اللہ عنہ شعبان 38 ھجری کو مدینۂ منورہ میں پیدا ہوئے اور 94 ھجری میں وصال فرمایا ۔ آپ کا مزار جنتُ البقیع میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے پہلو میں ہے ۔ آپ عظیمُ المناقب تابعی ، محدث ، فقیہ ، عابد ، سخی ، صاحبِ زہد و تقویٰ ، جلیلُ القدر ، عالی مرتبت ہیں ۔ (وفیات الاعیان جلد 2 صفحہ 127)
حضرت امام زینُ العابدین رضی اللہ عنہ نے 14 ربیع الاوّل 94 ہجری کو 56 سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے کوچ فرمایا ، مزار مبارک جنَّۃُ البقیع میں ہے ۔ (سیر اعلام النبلاء جلد 5 صفحہ 341) ۔ (إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment