حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ حصّہ سیزدہم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بد بخت قاتلانِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے حالات ان لوگوں پر پوشیدہ نہیں ہوں گے جنہوں نے کتبِ تاریخ کا مطالعہ کیا ہے ۔ ہر وہ شخص جو کسی بھی طرح سے قتل امام حسین رضی اللہ عنہ میں شریک تھا یا اس پر راضی اور خوش تھا ۔عذاب اخروی جس کا وہ مستحق ٹھہرا ، سے قطعِ نظر اس دنیائے ناپائیدار میں بھی اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچا ۔ ہر وہ شخص جو معرکۂ کربلا میں حضرت سید الشہداء کے مقابلہ کی غرض سے آیا تھا اس دنیا سے عذاب دیکھے بغیر اور اپنے کیے کی سزا پائے بغیر نہیں گیا۔بعض قتل کر دیے گئے ۔ کچھ نابینا ہو گئے ، بعض کا چہرہ سیاہ ہو گیا ، کچھ شدت پیاس سے ہلاک ہوئے اور بعض کی دولت و حکومت قلیل مدت میں جاتی رہی ۔ بعض دیگر عقوبات میں مبتلا ہوئے ۔
بعض اوقات انسان اس فانی دنیا کی نعمتوں اور مقام و منصب کےحصول کی لالچ میں اپنی آخرت برباد کر بیٹھتا ہے حالانکہ دنیا بھی اس کے ہاتھ نہیں آتی ۔ یوں وہ دنیا میں بھی ذلیل و خوار اور آخرت میں درد ناک عذاب کا حقدار ٹھہرتا ہے ۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : حُبُّ الدُّنْيا رَأسُ كُلّ خَطِيئَةٍ ‘‘ یعنی دنیا کی محبت ہربرائی کی جڑ ہے ۔ (جامع صغیر للسیوطی ص223،حدیث:3662)
دنیاوی لالچ میں آکر دوجہاں کی تباہی و بربادی مول لینے کی ایک عبرتناک مثال یزیدی لشکر کی ہے جس نے مال و دولت اور حکومت و اقتدار کی خاطر نواسَۂ رسول حضرتِ سیّدنا امام حسین اور ان کے رُفَقا رضی اللہ عنہم کو شہید کر دیا ۔ تاریخ گواہ ہے جو لوگ ان نفوس قدسیہ کے مقابلےمیں آئے وہ زندگی میں چین نہ پاسکے ، یہاں بھی انہوں نے ذلت و رسوائی کی سزا پائی جبکہ میدانِ محشر کا معاملہ اس کے علاوہ ہے ۔
دشمنانِ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم بھی ذلّت و رسوائی کی موت مارے گئے اور جس منصب اور مال و دولت کی خاطر انہوں نے نواسَۂ رسول کے قتل جیسے بدترین جرم کا ارتکاب کیا وہ بھی ان کے ہاتھ نہ رہا ۔ اس واقعہ سے عبرت حاصل کرتے ہوئے ہر انسان کو چاہیے کہ اپنی آخرت کو دنیا پر ترجیح دے اور کسی بھی بڑی سے بڑی چیز کی لالچ میں آکر اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی نہ کرے ۔
میدانِ کربلا : 10 محرم الحرام 61 ھ میں تاریخِ اسلام کا ایک اِنتہائی دَرْدْناک واقعہ پیش آیا کہ جب خاندانِ اہلِ بیت اور ان کےجانثار رُفَقا کو یزیدی لشکر نے بھوک پیاس کی حالت میں شہید کر دیا ۔ جہاں یہ تاریخی واقعہ رُونما ہوا اس جگہ کا نام ”کربلا“ ہے ۔ کربلا نَجَف سے 80 کلو میٹر اور بغداد سے 103 کلو میٹر کے فاصلے پر نہرِ فرات کے قریب واقع ہےجبکہ کوفہ سے تقریباً 75 کلومیٹر دور ہے ۔ پہلے یہ صحرا تھا لیکن اب یہ ملکِ عراق کا شہر ہے ۔
کربلا کی لغوی و تاریخی حیثیت : کربلا دو الفاظ ”کرْب و بَلا“ سےمرکب ہے ۔ (فیروز اللغات صفحہ 1060) کچھ اہلِ لغت نے کہا کہ یہ ”کَرْبَل (چھانی ہوئی گیہوں) “یا” کَرْبَلَۃٌ (دلدلی زمین)“ سے ماخوذ ہے اس لیے کہ وہاں کی زمین کنکروں سے خالی اور نرم ہے ۔ ایک قول کے مطابق ”کَرْبَل“ ایک جڑی بوٹی کا نام ہے جو وہاں اُگتی تھی اس لئے اس جگہ کا نام کربلا پڑگیا ۔ (معجم البلدان جلد 4 صفحہ 125)
احادیث مبارکہ میں اس جگہ کا ذکر ” نینویٰ“ اور ”طُف“ کے ناموں سے بھی آیا ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ،ج21،ص146، حدیث: 38522،چشتی)(معجم کبیر، ج3،ص106،حدیث:3813)
امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتلوں کا عبرتناک انجام
کرام ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَ کَذَالِکَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضاً بِمَا کَانُوا یَکْسِبُوْنَ ۔ (پ۸ الانعام ۱۲۹)
ترجمہ : اور یوں ہی ہم ظالموں میں ایک کو دوسرے پر مسلط کرتے ہیں ۔ بدلہ ان کے کئے کا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتے ہیں : بے شک اللہ عزوجل اس دینِ اسلام کی مدد فاجِر یعنی بدکار آدمی کے ذریعہ سے بھی کرا لیتا ہے ۔ (صحیح بخار جلد ۲ صفحہ ۳۲۸ دار الکتب العلمیۃ بیروت،چشتی)
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو وحی فرمائی کہ میں نے یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کے قتل کے عوض ستر ہزار افراد مارے تھے اور تمہارے نواسے کے عوض ان سے دُگنے (یعنی ڈبل) ماروں گا ۔ (المستدرک للحاکم جلد ۳ صفحہ ۴۸۵ حدیث ۴۲۰۸)
تاریخ شاہد ہے کہ حضرتِ یحییٰ بن زکریا علیہما الصلوۃ و السلام کے خونِ ناحق کا بدلہ لینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بختِ نصر جیسے ظالم کو متعین کیا جو خدائی کا دعویٰ کرتا تھا ۔ اِسی طرح حضرتِ امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خونِ ناحق کا بدلہ لینے کےلیے اللہ تعالیٰ نے مختار ثقفی جیسے کذاب کو مقرر فرمایا ۔ (شامِ کربلا صفحہ ۲۸۵،چشتی)
اللہ تعالیٰ کی مصلحتیں خود وہی جانتا ہے ۔ وہ اپنی مَشیّت سے ظالموں کے ذریعے بھی ظالموں کو ہلاک کرتا ہے ۔
حضرت علامہ ابن جوزی نے سدّی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کی دعوت کی مجلس میں یہ ذکر چلاکہ حضرت حسینؓ کے قتل میں جوبھی شریک ہوا اس کو دنیا ہی میں جلد سزا مل گئی اس شخص نے کہاکہ بالکل غلط ہے میں خود ان کے قتل میں شریک تھا میرا کچھ بھی نہیں ہوا،اتنا کہہ کریہ شخص مجلس سے اٹھ کر گھرگیا جاتے ہی چراغ کی بتی درست کرنے لگا اتنے میں اس کے کپڑوں میں آگ لگ گئی اوروہیں جل بھن کررہ گیا ۔ سدّی کہتے ہیں کہ میں نے خود اس کو صبح دیکھا تو کوئلہ ہوچکا تھا ۔(اسوۂ حسینی ص ۱۰۱و ۱۰۲،چشتی)
قہرِ الہٰی کی بھڑکائی ہوئی آگ
روایت ہے کہ ایک جماعت آپس میں گفتگو کر رہی تھی کہ دشمنانِ حسین میں سے کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا جو اس دنیا سے مصیبت و بلاء میں مبتلاء ہوئے بغیر چلا گیا ہو۔اس جماعت میں سے ایک بوڑھے نے کہا کہ میں بھی قتلِ حسین بن علی میں شریک تھا۔مجھ پر تو ابھی تک کوئی مصیبت نازل نہیں ہوئی۔ابھی یہ بات کر رہی رہا تھا کہ چراغ کے فتیلہ کو درست کرنے کے لیے اپنی جگہ سے اٹھا ۔اچانک شعلۂ چراغ نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس بری طرح سے جلا کہ اچھلتا کودتا واپس آیا اور چلانے لگا:میں جل گیا ۔میں جل گیا۔یہاں تک کہ اس کی یہ سوزش اس درجہ بڑھی کہ اس نے اپنے آپ کو دریا میں ڈال دیا۔مگریہ آگ تو قہرِ الہٰی نے بھڑکائی تھی دریا اسے کیا ٹھنڈا کرتا؟وہ تو اس کے لیے تیل کا کام کر گیا اور وہ اس انداز سے جلا کہ اس کا وجود جہنم کا ایندھن بن گیا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار۔چشتی)
ایک پری چہرہ سیاہ رو ہو گیا
مزید روایت ہے کہ ابن زیاد کے لشکریوں میں سے ایک شخص جس نے امام عالی مقام کے سر کو اپنے فتراک میں ڈالا تھا خوبصورتی کے اعتبار سے بہت زیادہ شہرت یافتہ تھا ۔ بعد میں جب اسے دیکھا گیا تو اس کا چہرہ سیاہ ہو چکا تھا ۔ اس سے پوچھا گیا : تو تو بڑا خوب رو اور صاحبِ حسن و جمال تھا ۔ کیا وجہ ہے کہ تیرے چہرے پرسیاہی اور کالک نے ڈیرہ جما لیا ہے ۔ کہنے لگا: جس روز میں نے حسین کے سر کو اپنے فتراک میں ڈالاتھا اسی دن سے روزانہ دو آدمی آتے ہیں مجھے دونوں بازؤں سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے آگ کے پاس لے جاتے ہیں اور پھر مجھے اس آگ پر الٹا لٹکا دیتے ہیں بعد ازاں اتار لاتے ہیں ۔ اس دن سے میرا چہرہ سیاہ اور حال تباہ ہے۔یہ شخص اسی عذاب میں مبتلا رہا یہاں تک کہ راہی جہنم ہوا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار،چشتی)
آنکھوں میں خون آلود سلائی پھیردی گئی
واقدی سے منقول ہے:مقتلِ حسین کے حاضرین میں سے ایک بوڑھا آدمی نابینا ہو گیاتھا۔جب اس سے نابینا ہونے کا سبب پوچھا گیاتو کہنے لگا: میں نے خواب میں رسالت پناہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا:انہوں نے بازو تک آستین چڑھائی ہوئی تھی اور دستِ مبارک میں ننگی تلوار تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رو بروزمین پر فرش بچھایا گیا تھا یہ فرش دس قاتلانِ حسین کو ذبح کر کے ان کے سروں پر بچھایا گیا تھا۔جوں ہی آں جناب کی نظرمجھ پر پڑی ۔آپ نے مجھے نفرین کی اور میری آنکھوں میں خون آلود سلائی پھیردی گئی جس کے سببمیں اندھا ہوگیا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
ڈاڑھی خنزیر کی دم بن گئی
کہتے ہیں شام میں ایک شخص تھا جو قتلِ حسین میں شریک تھا اس کی داڑھی خنزیر کی دم بن کر لوگوں کے لیے نشانِ عبرت بن گئی تھی۔ (تاریخ الخلفاء ،چشتی)(شھادت نواسہ سیّد الابرار)
سینے میں آتش جہنم
روایت ہے کہ وہ شخص جس نے حضرت عبد اللہ علی اصغر کے تشنہ حلقوم پر تیر چلایا تھاایک ایسے مرض میں مبتلا ہوگیا جس سے اس کے سینہ میں حرارت اور گرمی جب کہ پشت میں ٹھنڈک پیدا ہو گئی۔ہر چند کہ اس کے سامنے پنکھا جھلتے تھے اور اس کی پشت کی جانب آگ روشن کرتے تھے وہ واویلا کرتا تھا۔نہ تو اس کی آتشِ سینہ سرد ہوتی اور نہ ہی پشت کی ٹھنڈک کو افاقہ ہوتا تھا۔پیاس کی شدت اس درجہ بڑھ گئی کہ مٹکوں کے مٹکے پانی پی لیتا تھا اور پھر بھی۔۔۔ العطش ۔۔۔العطش۔۔ کی صدائیں بلند کرتا۔یہاں تک کہ اس کا پیٹ پانی پی پی کر پھول گیا اور بالآخر پھٹ گیا۔اسی عقوبت کی وجہ سے واصل جہنم ہوا ۔ (تاریخ الخلفاء)(شھادت نواسہ سیّد الابرار،چشتی)
یہ تھی ان لوگوں کے حالات کی مختصر سی جھلک جو معرکۂ کربلا میں حاضر تھے۔اس کے بعدہم چند خواص جن میں ابن زیاد بد نہاد،ابن سعد ، شمرذی الجوشن وغیرہ شامل ہیں کا مختصراً ذکر کرتے ہیں۔
ابن سعدکا انجام
جب مختار ثقفی نے کوفہ پر اپنے تسلط کو مضبوط کر لیا تو اس نے فرمان جاری کیا کہ وہ تمام لوگ جو ابن سعد کے لشکر میں شامل تھے اورحسین ؑ کے قتال میں شریک تھے ان کو ایک ایک کر کے میرے پاس لایا جائے چناں چہ چند سو لوگ لائے گئے جن تمام کی گردن مار کر انہیں سولی پر لٹکا دیا گیا ۔
مختار ثقفی نے اپنے خاص غلام کو حکم دیا کہ وہ ابن سعد کو حاضر کرے ۔ حفص بن سعد حاضر ہوا۔مختار نے پوچھا تمہارا باپ کہاں ہے ۔ بولا گھر میں بیٹھا ہے ۔ مختار نے کہا : ’’اب وہ ’’رے‘‘ کی حکومت اور اس کے اختیارات سے دست بردار ہو کر کس طرح اپنے گھر میں بیٹھا ہوا ہے۔اس نے قتلِ حسین کے دن خانہ نشینی کیوں اختیار نہ کی‘‘ یہ کہہ کر حکم دیا کہ ابن سعد کا سر کاٹ لیا جائے اور اس کے بیٹے کو بھی قتل کر دیا جائے ۔
شمر ذی الجوشنکی گردن زدنی
پھر شمر کو طلب کیا اور اس کی گردن زدنی کا حکم جاری کیا۔
اس کے بعد مختارثقفی نے ان ملعونوں کے سروں کو محمد بن حنفیہ کے پاس بھیج دیااور حکم دیا کہ معرکہ ٔکربلا میں ابن سعد کے ساتھ شریک ہونے والے باقی ماندہ لوگوں میں سے جس کو بھی پائیں قتل کر دیں۔جب لوگوں نے یہ دیکھا کہ مختارثقفی امام عالی مقام کا قصاص لے رہا ہے تو انہوں نے بصرہ بھاگ جانے کا ارادہ کر لیا۔لیکن مختار ثقفی کے لشکریوں نے ان کا تعاقب کیا اور جو جو دستیاب ہوتے انہیں قتل کر کے لاشوں کو جلا دیا جاتا اور ان کے گھروں کو مسمار کر دیا جاتا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
خولی بن یزید کا انجام
جب خولی بن یزید کو اسیر کر کے مختار ثقفی کے سامنے لایا گیاتو اس نے حکم جاری کیا:پہلے اس کے دونوں ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں اور پھر اسے سولی پر چڑھا دیا جائے۔اس کے بعد اسے آگ میں جلادیا گیا۔اسی طرح دوسرے لشکریانِ ابن زیاد جو دستیاب ہوئے انہیں دردناک انداز میں قتل کر دیا گیا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
قتل ابن زیاد بد نہاد کی مزید تفصیلات
مختصر یہ کہ جب مختار ثقفی ابن سعد، شمراور خولی بن یزید علیہم اللعنۃ کے قتل سے فارغ ہو کر مطمئن ہوا تو ابن زیاد کے قتل کے درپے ہوا۔چناں چہ ابراہیم بن مالک اشتر کو سپاہیوں کی ایک جماعت کے ساتھ ابن زیاد کے مقابلہ کے لیے بھیجا۔جوں ہی ابراہیم موصل کی سرحد پر پہنچے ابن زیاد موصل سے پانچ فرسنگ کے فاصلے پر واقع ایک دریا کے کنارے اپنے لشکر کے ساتھ مقابلہ کے لیے تیار ہوگیا۔صبح کے وقت طرفین میں مقابلہ کا آغاز ہوا۔شام کے قریب ابراہیم بن مالک اشتر نے ابن زیاد کے لشکر کو شکست دی ۔ابن زیاد کی شکست خوردہ فوج نے راہِ فرار اختیار کی ۔ابراہیم اپنی فوج کے ساتھ ان کے تعاقب میں روانہ ہوئے اور حکم جاری کیا کہ مخالف فوج میں سے کسی کو بھی پائیں تو زندہ نہ چھوڑیں۔چناں چہ ابن زیاد کے بہت سے ہم راہی جان سے گئے اور ابن زیاد بھی قتل کر دیا گیا۔اس کا سر کاٹ کر ابراہیم بن مالک اشتر کے سامنے پیش کیا گیا اور ابراہیم نے اسے مختار ثقفی کے پاس کوفہ بھیج دیا۔ ابن زیاد کا سرجب کوفہ پہنچا تواسی وقت مختار ثقفی نے دارالامارۃ میں اہلیانِ کوفہ کو جمع کر کے ایک بزم آراستہ کی اور حکم جاری کیا کہ ابن زیاد کا سر پیش کیا جائے۔جب ابن زیاد کا سر پیش کیا گیا تو مختار ثقفی نے کہا : یہ ابن زیاد کا سر ہے۔اے کوفہ کے لوگو! دیکھ لو کہ خونِ حسین کے قصاص نے ابن زیاد کو زندہ نہ چھوڑا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
مختار ثقفی نے قصاص میں ستر ہزار افراد کو قتل کیا
مفتاح النجاء میں منقول ہے کہ مختار ثقفی کے واقعہ میں اہل شام کے ستر ہزار افراد قتل کیے گئے اور یہ واقعہ دس محرم ۶۷ ہجری (واقعۂ کربلا کے سال بعد) رونما ہوا۔
ابن زیاد کے نتھنوں میں تین بار سانپ کا گھسنا
روایاتِ صحیحہ میں مروی ہے کہ جب ابن زیاد اور اس کے دوسرے سرداروں کے سر مختار ثقفی کے سامنے لائے گئے تو اچانک ایک سانپ ظاہر ہوا اور سروں کے درمیان سے گزرتا ہوا ابن زیاد کے سر کے قریب آیا اور اس کے ناک کے سوراخ میں داخل ہو گیا۔کچھ دیر سر کے اندر رہا اور پھر منہ کے راستے باہر نکل آیااور غائب ہوگیا۔کہتے ہیں کہ اسی طرح یہ سانپ تین مرتبہ ظاہر ہوا اور ناک کے سوراخ سے داخل ہو کر منہ کے راستے باہر نکلا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار۔چشتی)
دیگر اعیانِ یزیدپلید کا عبرتناک انجام
بالجملہ ابن زیاد، ابن سعد، شمر ذی الجوشن، عمر بن الحجاج،قیس بن اشعث کندی، خولی بن یزید، سنان بن انس نخعی، عبداللہ بن قیس، حکم بن طفیل اور یزید بن مالک کے علاوہ دیگر اعیان یزیدکو طرح طرح کے عذاب دے کر ہلاک کیا گیااور ان کے لاشوں پر گھوڑے دوڑائے گئے۔یہاں تک کہ ان کی ہڈیاں چور چور ہو گئیں ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
مخفی نہ رہے کہ کتب تاریخ میں اختلاف ہے ۔ بعض کتب میں ابن سعد اور شمر کا قتل ابن زیاد کی ہلاکت سے پہلے مذکور ہے اور بعض کتب میں ابن زیاد کے بعدذکر کیا گیا ہے۔اور جیسا کہ منتقم حقیقی کا وعدہ تھا جس کاذکر واقعہ کربلا سے متعلق روایات کے ضمن میں بہ روایت حاکم مذکور ہو چکا ہے پورا ہوا اور قاتلانِ حسین امام حسین رضی اللہ عنہ مختار ثقفی کے ہاتھوں اپنے انجام کوپہنچے ۔ گو کہ آخر کار مختار ثقفی کے اعتقادات (مختار ثقفی نے بعد میں دعویٰ نبوت کر لیا تھا) میں بھی شقاوتِ ازلی کا ظہور ہوا ۔ جس کی تفصیل کتبِ تاریخ میں مسطور ہے ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار) ۔ (مزید حصّہ چہاردہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment