حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ حصّہ دوازدہم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
شیعوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بلایا اور پھر شہید کر دیا : شیعوں کے مطابق سارا کوفہ شیعہ تھا اور شیعہ کمزور نہیں بلکہ بڑی طاقت و تعداد میں تھے ، چالیس ہزار اور ایک روایت کے مطابق ایک لاکھ کے قریب قریب شیعوں نے بیعت بھی کی ۔ ہزاروں اہل کوفہ شیعوں نے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو خطوط لکھے اور بلوایا اور حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے جوابی خطوط لکھے اور جلد کوفہ پہنچنے کا فرمایا ۔ ثبوت کتب شیعہ سے : ⬇
أن أهل الكوفة كتبوا إليه: انا معك مائة ألف، وعن داود بن أبي هند عن الشعبي قال: بايع الحسين عليه السلام أربعون ألفا من أهل الكوفة ۔
ترجمہ : بے شک کوفیوں نے امام حسین کی طرف خط لکھے بے شک ہم آپ کے ساتھ ہیں اور ہم ایک لاکھ کے قریب ہیں۔۔۔شعبی کی روایت کے مطابق چالیس ہزار کوفیوں نے امام حسین کی بیعت کی ۔ (شیعہ کتاب بحار الانوار 44/337)
وبايعه الناس حتى بايعه منهم ثمانية عشر ألفا فكتب إلى الحسين ع اما بعد فان الرائد لا يكذب أهله وان جميع أهل الكوفة معك وقد بايعني منهم ثمانية عشر ألفا فعجل الاقبال حين تقرأ كتابي هذا والسلام ۔
ترجمہ : (سیدنا مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما کے ذریعے) اٹھارہ ہزار کوفیوں نے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور سیدنا مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما نے امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا کے سارے کوفہ والے آپ کے ساتھ ہیں اور ان میں سے 18 ہزار نے میری بیعت کر لی ہے تو جب آپ کو یہ میرا خط ملے تو آپ جلدی تشریف لائیں وسلام ۔ (شیعہ کتاب اعیان الشیعۃ 1/589،چشتی)
وتواترت الکتب حتی اجتمع فی نوب متفرقۃ اثنا عشر الف کتاب ۔
ترجمہ : کوفیوں کی طرف سے متواتر خطوط آئے یہاں تک کہ حضرت حسین کے پاس بارہ ہزار کے قریب خطوط جمع ہو گئے ۔ (شیعہ کتاب ناسخ التواریخ 2/262)
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا جواب
من الحسين بن علي إلى الملأ من المؤمنين والمسلمين أما بعد فان هانيا وسعيدا قدما علي بكتبكم وكانا آخر من قدم علي من رسلكم وقد فهمت كل الذي اقتصصتم وذكرتم ومقالة جلكم انه ليس علينا امام فاقبل لعل الله يجمعنا بك على الحق والهدى وانا باعث إليكم أخي وابن عمي وثقتي من أهل بيتي مسلم بن عقيل فان كتب إلي انه قد اجتمع رأي ملئكم وذوي الحجى والفضل منكم على مثل ما قدمت به رسلكم وقرأت في كتبكم فاني أقدم إليكم وشيكا إن شاء الله تعالى ۔
ترجمہ : یہ خط حسین بن علی کا مومنوں ، مسلمانوں، شیعوں کی طرف ہے امابعد! بہت سے قاصدوں اور خطوط بیشمار آنے کے بعد جو تم نے مجھے خط ہانی وسعید کے ہاتھ بھیجا مجھے پہنچا تمہارے سب خطوط کے مضامین سے مطلع ہوا …… واضح ہو کہ میں بالفعل تمہارے پاس اپنے برادر و پسرعم و محل اعتماد مسلم بن عقیل کو بھیجتا ہوں ۔ اگر مسلم مجھے لکھیں کہ جو کچھ تم نے مجھے خطوط میں لکھا ہے بمشورۂ عقلا و دانایان و اشراف و بزرگان قوم لکھا ہے اس وقت میں انشاء اﷲ بہت جلد تمہارے پاس چلا آؤں گا ۔ (شیعہ کتاب اعیان الشیعۃ 1/589،چشتی)
حتی بایعہ فی ذالک الیوم ثمانون الف رجل فلما رای مسلم کثرۃ من بایعہ من الناس کتب الی الحسین ان قد بایع ثمانون الف فعجل بالقدوم ۔
ترجمہ : حتی کہ اس ایک دن میں آٹھ ہزار کوفیوں نے امام مسلم کی بیعت کی جب امام مسلم بن عقیل نے دیکھا کہ لوگ کثرت سے بات کر رہے ہیں تو آپ نے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف خط لکھا کہ آٹھ نے بیعت کر لی ہے آپ جلدی تشریف لائیں ۔ (ناسخ التواریخ2/266)
یزیدی پلیدوں کی دھمکیوں ، لالچ ، نسلی تعصب و منافقت وغیرہ میں آکر اہلِ کوفہ شیعانِ علی کہلانے والوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے نائب مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما سے بے وفائی غداری کی اور امام مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما کو شہید کرایا اور امام نے اسی بے وفائی غداری منافقت کا احوال امام حسین رضی اللہ عنہ کو بھیجنے کی وصیت کی : ⬇
یزید و ابن زیاد کی دھمکیوں لالچوں میں اکر کوفی شیعوں نے امام حسین کی بیعت توڑ دی ۔
ولاینبغی علینا باغ فمن لم یفعل برئت منہ الذمۃ و ھلال لنا دمہ و مالہ…فلما سمع اہل الکوفۃ جعل ینظر بعضھم بعضا و نقضوا بیعۃ الحسین ۔
ترجمہ : ابن زیاد نے دھمکی دی کہ کہ ہم پر کوئی بغاوت نہ کریں اگر کسی نے بغاوت کی تو وہ اپنا خود ذمہ دار ہے اس کا خون ہمارے لئے حلال ہے اس کا مال ہمارے لیے حلال ہے۔۔۔پس جب اہل کوفہ نے یہ دھمکی سنیں تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور انہوں نے حضرت حسین کی بیعت توڑ ڈالی (شیعہ کتاب ناسخ التواریخ ملتقطا2/273,274،چشتی)
شام تک صرف تیس شیعہ سیدنا مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما کے ساتھ رہے ۔
فما زالوا يتفرقون ويتصدعون حتى أمسى ابن عقيل وما معه ثلاثون نفسا في المسجد حتى صليت المغرب فما صلى مع ابن عقيل الا ثلاثون نفسا ۔
ترجمہ : ابن زیاد کی دھمکی کے بعد کوفی شیعہ متفرق ہونے لگے اور بیعت توڑنے لگے یہاں تک کہ شام کے وقت حضرت مسلم بن عقیل کے ساتھ 30 تیس لوگ بچے جنہوں نے نماز مغرب پڑھی ۔ (شیعہ کتاب مقتل الحسین صفحہ نمبر 45)
شام کے بعد سیدنا مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک بھی کوفی شیعہ نہ تھا سب نے بے وفائی غداری کی اور اپنے گھر سے نکال دیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ایک انجان عورت کے گھر پناہ لی :
فقام وقال : يا أمة الله ما لي في هذا المصر منزل ولا عشيرة، فهل لك في أجر ومعروف، لعلي مكافئك بعد اليوم، فقالت: يا عبد الله وما ذاك؟ قال: أنا مسلم بن عقيل كذبني هؤلاء القوم وغروني وأخرجوني ۔
ترجمہ : حضرت مسلم بن عقیل اٹھے اور ایک انجان گھر کی طرف آئے ایک عورت گھر سے نکلیں تو ان سے فرمایا میرا اس شہر انسا میں اب کوئی ٹھکانہ رہا کوئی خاندان نہ رہا تو کیا تم مجھے پناہ دے کر اجر اور نیکی کماؤں گی شاید کہ میں آج کے دن کا اچھ بدلہ تمہیں لوٹا دو ۔ عورت نے کہا کہ اللہ کے بندے آپ کون ہیں تو آپ نے فرمایا کہ میں مسلم بن عقیل ہوں ان کوفی شیعوں نے مجھے جھٹلا دیا ہے اور مجھے دھوکا دیا ہے اور مجھے در بدر کر دیا ہے ۔ (شیعہ کتاب الارشاد جلد 2 صفحہ 55،چشتی)
شہادت امام مسلم رضی اللہ عنہ اور ان کی وصیت امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے کہ کوفی شیعہ غدار مکار جھوٹے ہیں ان کی باتوں میں مت آئیے ، اگر کوفہ کی طرف روانہ ہیں تو واپس چلے جائیے ۔
ثم قال لمحمد بن الأشعث : يا عبد الله إني أراك ستعجز عن أماني، فهل عندك خير؟ أتستطيع أن تبعث من عندك رجلا على لساني يبلغ حسينا، فإني لأراه قد خرج إليكم اليوم مقبلا أو هو خارج غدا وأهل بيته معه، وإن ما ترى من جزعي لذلك، فيقول: إن مسلما بعثني إليك وهو في أيدي القوم أسير لا يرى أن يمسي حتى يقتل وهو يقول: إرجع بأهل بيتك ولا يغرك أهل الكوفة فإنهم أصحاب أبيك الذي كان يتمنى فراقهم بالموت أو القتل، إن أهل الكوفة قد كذبوك وكذبوني، وليس لمكذوب رأي، فقال محمد: والله لأفعلن ۔
ترجمہ : حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما نے محمد بن اشعث سے کہا کہا کہ کیا آپ کسی قاصد یا خط کے ذریعے میرا پیغام امام حسین کی طرف پہنچائیں گےآپ نے فرمایا جی بالکل ۔ حضرت مسلم بن عقیل نے پیغام یہ دیا کہ امام حسین کی طرف پیغام بھیجو کہ بے شک خوفیہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے متعلق آپ کے والد صاحب نے کہا تھا کہ کہ میں مر جاؤں لیکن ان کا ساتھ نہ رہو بے شک یہ لفا انہوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے اور مجھے بھی جھٹلا دیا ہے تو آپ اہل کوفہ کے دھوکے میں مت آئیے واپس لوٹ جائے ۔ (شیعہ کتاب ناسخ التواریخ ابصار العین صفحہ 83)
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو کوفیوں کی بے وفائی غداری منافقت کی خبر پہنچی تو کوفی شیعوں کی مذمت کی انہیں غدار بے وفا اپنا قاتل قرار دیا اور کوفی شیعہ لشکر یزیدی لشکر کے ساتھ مل کر امام حسین کے قاتل بنے بلکہ شیعہ کتب کے مطابق تو یزیدی فوج دور ٹہری رہی اور امام حسین کے مدمقابل وہی 80 ہزار کوفی شیعہ تھے جنہوں نے عہد و وفا کے وعدے کرکے بلوانے کے بعد آپ سے غداری منافقت کرتے ہوئی اپ کے قتل کےلیے اپ کے سامنے تھے : ⬇
جب کوفیوں نےبےوفائی ، غداری کی ۔ مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما کو شہید کیا ، جس کی خبر امام حسین رضی اللہ عنہ کو یہ خبر کربلا کے قریب ملی تو آپ نےفرمایا : قد خذلتنا شيعتنا ۔ ہمارے کہلانے والے شیعوں نے ہمیں رسوا کیا ، دھوکہ دیا ، بے وفائی کی ۔ (شیعہ کتاب موسوعہ کلمات الامام الحسین صفحہ 422)
أني أقدم على قوم بايعوني بألسنتهم وقلوبهم، وقد انعكس الأمر لأنهم استحوذ عليهم الشيطان فأنسيهم ذكر الله، والآن ليس لهم مقصد إلا قتلي وقتل من يجاهد بين يدی ۔
ترجمہ : میں (امام حسین رضی اللہ عنہ) تو یہ سمجھ کر کوفیوں کے پاس جا رہا تھا کہ انہوں نے زبان اور دلوں سے میری بیعت کی ہے لیکن معاملہ اس کےالٹ نکلا ۔ ان کوفیوں پر شیطان نے غلبہ حاصل کر لیا ہے اور اللہ کی یاد سے بھلا دیا ہے اب ان کوفی شیعوں کا مقصد مجھے اور میرے ساتھیوں اہل بیت کو قتل کرنا ہی ہے ۔ (شیعہ کتاب موسوعہ کلمات الامام الحسین صفحہ 483)
ثابت ہوا کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے بھی انہی کوفی شیعوں کو اپنا قاتل کہا جنوں نے خطوط لکھے تھے ۔
شیعہ کتاب ناسخ التواریخ میں لکھا ہے کہ ابن زیاد سپہ سالار لشکرِ یزید جس نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا 80 ہزار کوفی شیعوں پر مشتمل تھا ملاحظہ ہو : ⬇
وابی مخنف لشکر ابن زیاد را ہشتاد ہزار سوار نگاشتہ و گوید ہمگاں کُوفی بودند و حجازی و شامی با ایشاں نہ بود ۔
ترجمہ : یعنی ابو مخنف نے ابن زیاد کا لشکر (جو امام حسین رضی اللہ عنہ سے لڑنے کے لیے سب سے آگے تھا) اسّی ہزار بتایا ہے اور کہا ہے کہ وہ سب کے سب کوفی شیعہ تھے ۔ ان میں نہ کوئی حجازی تھا اور نہ شامی ۔ (شیعہ کتاب ناسخ التواریخ فارسی جلد 2 صفحہ 183،چشتی)
حتی کہ قاتل غدار شمر بھی غدار کوفی شیعہ تھا شمر بھی پکا کوفی شیعہ تھا مگر اہل کوفہ کی طرح یہ بھی منافق غدار بے وفا ہو گیا اور شیعہ کے مطابق قاتلانِ حسین میں شمار کیا جاتا ہے : ⬇
شهد صفين معه شبث بن ربعي وشمر بن ذي الجوشن الضبابي ثم حاربوا الحسين ع يوم كربلاء ۔
ترجمہ : شبث بن ربعي اور شمر بن ذي الجوشن شیعان علی میں سے تھے حضرت علی کے ساتھ جنگ صفین لڑی لیکن پھر یہ غدار ہوگئے اور امام حسین سے جنگ لڑی کربلا کے دن ۔ (شیعہ کتاب اعیان الشیعۃ1/326)
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی شہادت سے پہلے سختی سے حکم دیا تھا کہ : لا تشقي علي جيبا، ولا تخمشي علي وجها، ولا تدعي علي بالويل والثبور ۔
ترجمہ : جب میں شہید ہوجاؤں تو اپنے کپڑے مت پھاڑنا ، اپنا چہرہ (سینہ، پیٹھ) زخمی مت کرنا (ماتم مت کرنا) اور یہ مت پکارنا کہ ہائے مصیبت ، ہائے ہم ہلاک ہوگئے (مطلب نوحے ماتم چیخ و پکار مت کرنا) ۔ (شیعہ کتاب بحار الانواز45/3،چشتی)
حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا و دیگر اہل بیت امام رضی اللہ عنہم کی تقریریں جس مین کوفی شیعون کو مکار منافق غدار اور قاتلانِ حسین کہا گیا ملاحظہ کیجیے : ⬇
حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی تقریر
اما بعد ، اے اہل کوفہ ! اے غدارو ، اے مکارو ، ابےحیلہ بازو تم ہم پر گریہ کرتے ہو اور خود تم نے ہم کو قتل کیا ہے ۔ ابھی تمہارے ظلم سے ہمارا رونا موقوف نہیں ہوا اور تمہارے ستم سے ہمارا فریاد و نالہ ساکن نہیں ہوا اور تمہاری مثال اس عورت کی ہے جواپنے رسّہ کو مضبوط بٹتی اور پھر کھول ڈالتی ہے ۔ تم ہم پر گریہ و نالہ کرتے ہو حالانکہ خود تم ہی نے ہم کو قتل کیا ہے ۔ سچ ہے وﷲ ! لازم ہے کہ تم بہت گریہ کرو اور کم خندہ ہو۔ تم نے عیب و عارِ ابدی خود خرید کیا ۔اس عار کا دھبّہ کسی پانی سے تمہارے جامے سے زائل نہ ہوگا۔جگر گوشہ خاتم پیغمبران و سید جوانانِ بہشت کے قتل کرنے کا کس چیز سے تدارک کر سکتے ہو! ۔ اے اہل کوفہ! تم پر وائے ہو!! تم نے کن جگر گوشہ ہائے رسولؐ کو قتل کیا اور کن باپردے گان اہل بیت رسول کو بے پردہ کیا ؟ کس قدر فرزندانِ رسول کی تم نے خونریزی کی ،ان کی حرمت کو ضائع کیا ۔تم نے ایسے بُرے کام کئے جن کی تاریکیوں سے زمین و آسمان گھر گیا ۔ (شیعہ کتب ۔ جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵صفحہ ۵۰۴-۵۰۳،چشتی)(ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحہ۲۴۳مطبوعہ لندن)
بعد ازاں حضرت سیدہ فاطمہ بنت امام حسین رضی اللہ عنہما نے بھی اہل کوفہ کو لعن طعن کی ہے لکھا ہے : ⬇
درودیوار سے صدا ئے نوحہ بلند ہوئی اور کہا اے دختر پاکان و معصومان ۔ خاموش رہو کہ ہمارے دلوں کو تم نے جلا دیا اور ہمارے سینہ میں آتش حسرت روشن کردی اور ہمارے دلوں کو کباب کیا ۔ (جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵صفحہ ۵۰۵،چشتی)
اس کے بعد حضرت سیدہ ام کلثوم خواہر امام حسین رضی اللہ عنہما نے ہودج میں سے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی : ⬇
اے اہل کوفہ !تمہارا حال اور مآل برا ہو اور تمہارے منہ سیاہ ہوں!تم نے کس سبب سے میرے بھائی حسینؓ کو بلایا اور ان کی مدد نہ کی اور انہیں قتل کرکے مال و اسباب ان کا لوٹ لیا؟اور ان کی پردیگان عصمت و طہارت کو اسیر کیا؟وائے ہو تم پر اور ۔ ہو تم پر،کیا تم نہیں جانتے کہ تم نے کیا ظلم و ستم کیا ہے اور کن گناہوں کا اپنی پشت پر انبار لگایا اور کیسے خون ہائے محترم کو بہایا دخترانِ رسولِ مکرمؐ کو نالاں کیا؟ …… بعد اس کے مرثیہ سید الشہداء میں چند شعر انشاء فرمائے جس کے سننے سے اہل کوفہ نے خروش واویلا واحسرتا بلند کیا۔ ان کی عورتوں نے بال اپنے کھول دیئے۔ خاک حسرت اپنے سر پر ڈال کے اپنے منہ پر طمانچے مارتی تھیں اور واویلا وا ثبورا کہتی تھیں اور ایسا ماتم برپا تھا کہ دیدۂ روزگار نے کبھی نہ دیکھا تھا۔(شیعہ کتب ۔ جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵صفحہ ۵۰۵ ، ۵۰۶،چشتی)(ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب نمبر۲ صفحہ ۲۴۶)
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی تقریر : ⬇
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ سے خطاب کیا اور فرمایا : میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں !تم جانتے ہو کہ میرے پِدر کو خطوط لکھے اور ان کو فریب دیا اور ان سے عہد و پیمان کیا اور ان سے بیعت کی۔آخر کار ان سے جنگ کی اور دشمن کو ان پر مسلط کیا ۔ پس ۔۔ ہو تم پر ! تم نے اپنے پاؤں سے جہنم کی راہ اختیار کی اور بری راہ اپنے واسطے پسند کی۔ تم لوگ کن آنکھوں سے حضرت رسول کریم صلی الل علیہ و آلہ وسلّم کی طرف دیکھو گے جس روز وہ تم سے فرمائیں گے ۔ تم نے میری عزت کو قتل کیا اور میری ہتک حرمت کی۔ کیا تم میری امت سے نہ تھے۔‘‘ یہ سن کر پھر صدائے گریہ ہر طرف سے بلند ہوئی ۔ آپس میں ایک دوسرے سے کہتا تھا ہم لوگ ہلاک ہوئے۔جب صدائے فغاں کم ہوئی ، حضرت نے فرمایا ۔ خدا اس پر رحمت کرے جو میری نصیحت قبول کرے سب نے فریاد کی کہ یا بن رسول ﷲ ! ہم نے آپ کا کلام سنا۔ ہم آپ کی اطاعت کریں گے ۔۔۔ جو آپ سے جنگ کرے اس سے ہم جنگ کریں اور جو آپ سے صلح کرے اس سے ہم صلح کریں ۔ اگر آپ کہیں آپ کے ستمگاروں سے آپ کا طلبِ خون کریں ۔ حضرت نے فرمایا ۔ ہیہات ہیہات اے غدّارو اے مکّارو اب پھر دوبارہ میں تمہارے فریب میں نہ آؤں گا اور تمہارے جھوٹ کو یقین نہ جانوں گا ۔ تم چاہتے ہو مجھ سے بھی وہ سلوک کرو جو میرے بزرگوں سے کیا ۔ بحق خداوند آسمانہائے دوّار!میں تمہارے قول و قرار پر اعتماد نہیں کرتا اور کیونکر تمہارے دروغ بے فروغ کو یقین کروں ، حالانکہ ہمارے زخم ہائے دل ہنوز تازہ ہیں،میرے پدر اور ان کے اہل بیت کل کے روز تمہارے مکر سے قتل ہوئے اور ہنوز مصیبت حضرت رسول و پدر و برادر و عزیزو اقرباء میں نہیں بھولا اور اب تک ان مصیبتوں کی تلخی میری زبان پر ہے اور میرے سینے میں ان محبتوں کی آگ بھڑک رہی ہے ۔ (شیعہ کتاب جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵ صفحہ ۵۰۶،۵۰۷،چشتی)
ایک دوسری روایت میں ہے : فَقَالَ عَلِیُّ ابْنُ حُسَیْنِ بِصَوْتٍ ضَعِیْفٍءَ تَنُوْحُوْنَ وَ تَبْکُوْنَ لِاَجْلِنَا فَمَنْ قَتَلَنَا۔ سیّد سجاد بآواز ضعیف فرمود،ہاں اے مردم بر ما گریند و برما نوحہ مے کنند۔پس کشندۂ ما کیست؟ مارا کہ کشت و کہ اسیر کرد ۔ (شیعہ کتاب ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحہ ۲۴۳) ۔ کہ امام زین العابدین نے کمزور آواز سے کہا تم ہم پر نوحہ و ماتم کرتے اور روتے ہو ۔تو پھر ہم کو قتل کس نے کیا ہے تمہی نے تو کیا ہے ۔
حضرت سیدہ اُم کلثوم رضی اللہ عنہا نے اہل کوفہ کی عورتوں کے رونے پر محمل پر سے کہا۔’’اے زنانِ کوفہ! تمہارے مردوں نے ہمارے مردوں کو قتل کیا ہم اہلِ بیت کو اسیر کیا ہے پھر تم کیوں روتی ہو؟ خداوند عالم بروز قیامت ہمارا تمہارا حاکم ہے ۔ (شیعہ کتب جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵ صفحہ ۵۰۷)(ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحہ ۲۴۸)
ان سب تقاریر سے دو باتیں ثابت ہیں : ⬇
(1) قاتلینِ امام حسین رضی اللہ عنہ کوفی شیعہ تھے اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مبایعین تھے ۔
(2) سب سے پہلے عالمگیر ماتم کرنے والے (یزید کے بعد) خود اہل کوفہ شیعہ قاتلینِ امام حسین رضی اللہ عنہ ہی تھے مگر اہل بیت نے ماتم و چیخ و پکار کو ناپسند کیا ۔ ان سے ملتا جلتا عربی مواد ناسخ التواریخ جلد تین صفحہ 32 و مابعدہ میں موجود ہے ۔
لاکھوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اگر کچھ کی اولادیں نافرمان نکلیں تو اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر کوئی حرف نہیں آتا حتیٰ کہ حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی اپنے والد کا نافرمان نکلا تھا اس سے حضرت نوح پر کوئی اعتراض و حرف نہیں آتا بلکہ جب مدینہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پتہ چلا کہ بے وفا غدار کوفی شیعوں نے یزیدی فوج کے ساتھ مل کر لختِ جگر امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا ہے تو اس پر اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت توڑ دی اور شدید مخالف ہو گئے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے لے لیے تیار ہونے لگے ۔ جب یزید کو پتہ چلا تو اس نے بہت ہی بڑا لشکر مدینہ بھیجا اور بے دردی سے کئ صحابہ کرام اور ان کی اولاد و خاندان رضی اللہ عنہم کو شہید کیا ۔ اس طرح صحابہ کرام اور ان کی اولادوں نے امام حسین رضی اللہ عنہم کی خاطر اور اسلام و حق کی خاطر شہادت تو قبول کی مگر کوفی شیعوں کی طرح بے وفائی غداری منافقت نہیں کی : ⬇
واقعہ کربلا کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مدینہ منورہ میں یزید کے خلاف آواز اٹھائی اور مقابلے کے تیار ہوگئے ، یزید نے ایک بڑا لشکر اہل مدینہ کی طرف بھیجا اور قتل عام کا حکم دیا..جس میں کئ صحابہ انصار و مہاجرین اور ان کی اولادین رضی اللہ عنہم شہید کی گئیں اس واقعہ کو واقعہ حرہ کہا جاتا ہے : ⬇
کل المورخین و اجمعوا علی ان اہل الشام قتلوا فی ھذہ الواقعۃ جمعا کبیرا من الصحابۃ و من ابناء المھاجرین و الانصار ۔
ترجمہ : یعنی تمام مورخین کا اجماع ہے کہ واقعہ حرہ میں صحابہ اور انصار و مہاجرین رضی اللہ عنہم کی اولاد کی ایک بری تعداد قتل کی گئ ۔ (شیعہ کتاب مقتل الحسین1/81،چشتی)
فبلغ عدۃ قتلی الحرۃ یومئذ من قریش و الانصار و المھاجرین و وجوہ الناس الفا و سبع مائۃ ۔
ترجمہ : یعنی واقعہ حرہ میں اس دن قریش مین سے اور انصار و مہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے اور بڑے ذی شرف لوگوں مین سے ایک ہزار سات سو قتل ہوئے ۔ (شیعہ کتاب بھج الصباغۃ شرح نھج البلاغۃ ص20)
ایک جاہلانہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ صحابہ کرام اور ان کی اولادیں رضی اللہ عنہم کربلا کے بعد تو یزید کے خلاف نکلے مگر کربلا سے پہلے امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیوں نا نکلے ؟
جواب : واضح رہے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ جنگ کےلیے نہیں نکلے تھے کہ صحابہ کرام ان کی اولادیں اہل مکہ اہل مدینہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ جاتے ۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ تو جنگ کےلیے نہیں بلکہ بیعت کےلیے کوفہ جا رہے تھے کوفیوں کے بلانے پر ۔ شاید حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کوفی شیعوں کے کثیر تعداد میں خطوط لکھ کر بلانے پر کوفہ کو اپنا مرکز بنانا چاہتے تھے ۔ اسی لیے اپنے اہل و عیال رضی اللہ عنہم سمیت ہجرت کر کے کوفہ روانہ ہوئے ۔ باقی جن جن جن صحابہ رضی اللہ عنہم کو جنگ کا معلوم ہوا یا زندہ موجود تھے اور پنہچ سکتے تھے تو وہ میدانِ کربلا میں پنچے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ شہید ہوۓ جیسا کہ سابقہ مضمون میں ہم تفصیل سے لکھ چکے ہیں ۔ (مزید حصّہ سیزدہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment