شان و مقامِ اولیاۓ کرام علیہم الرّحمہ حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَکَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ۔ (سورہ یونس)
ترجمہ : سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم۔وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں ۔
لفظِ ’’ولی‘‘ وِلَاء سے بناہے جس کا معنی قرب اور نصرت ہے ۔ وَلِیُّ اللہ وہ ہے جو فرائض کی ادائیگی سے اللہ عزوجل کا قرب حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مشغول رہے اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کے نورِ جلال کی معرفت میں مستغرق ہو ، جب دیکھے قدرتِ الٰہی کے دلائل کو دیکھے اور جب سنے اللہ عزوجل کی آیتیں ہی سنے اور جب بولے تو اپنے رب عزوجل کی ثناہی کے ساتھ بولے اور جب حرکت کرے ، اطاعتِ الٰہی میں حرکت کرے اور جب کوشش کرے تو اسی کام میں کوشش کرے جو قربِ الہی کا ذریعہ ہو ، اللہ عزوجل کے ذکر سے نہ تھکے اور چشمِ دل سے خدا کے سوا غیر کو نہ دیکھے ۔ یہ صفت اَولیاء کی ہے ، بندہ جب اس حال پر پہنچتا ہے تو اللہ عزوجل اس کا ولی و ناصر اور معین و مددگار ہوتا ہے ۔
وَلِیُّ اللہ کی علامات
علماء نے ’’ ولی اللہ‘‘ کی کثیر علامات بیان فرمائی ہیں ، جیسے متکلمین یعنی علمِ کلام کے ماہر علماء کہتے ہیں ’’ولی وہ ہے جو صحیح اور دلیل پر مبنی اعتقاد رکھتا ہو اور شریعت کے مطابق نیک اعمال بجا لاتا ہو ۔
بعض عارفین نے فرمایا کہ ولایت قربِ الٰہی اور ہمیشہ اللہ عزوجل کے ساتھ مشغول رہنے کا نام ہے ، جب بندہ اس مقام پر پہنچتا ہے تو اس کو کسی چیز کا خوف نہیں رہتااور نہ کسی شے کے فوت ہونے کا غم ہوتا ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ ولی وہ ہے جس کو دیکھنے سے اللہ تعالیٰ یاد آئے ، یہی طبری کی حدیث میں بھی ہے ۔
ابنِ زید نے کہا کہ ولی وہی ہے جس میں وہ صفت ہو جو اس سے اگلی آیت میں مذکور ہے ۔ ’’ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَکَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ‘‘ یعنی ایمان و تقویٰ دونوں کا جامع ہو۔
بعض علماء نے فرمایا کہ ولی وہ ہیں جو خالص اللہ کےلیے محبت کریں ۔ اَولیاء کی یہ صفت بکثرت اَحادیث میں ذکر ہوئی ہے ۔
بعض بزرگانِ دین علیہم الرّحمہ نے فرمایا : ولی وہ ہیں جو طاعت یعنی فرمانبرداری سے قربِ الٰہی کی طلب کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کرامت سے ان کی کار سازی فرماتا ہے یا وہ جن کی ہدایت کا دلیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کفیل ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کا حقِ بندگی ادا کرنے اور اس کی مخلوق پر رحم کرنے کے لئے وقف ہوگئے ۔ (تفسیر خازن، یونس : ۶۲، ۲/۳۲۲-۳۲۳۔چشتی)
صدرُ الافاضل مفتی سیّد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ معانی اور عبارات اگرچہ جداگانہ ہیں لیکن ان میں اختلاف کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ ہر ایک عبارت میں ولی کی ایک ایک صفت بیان کردی گئی ہے جسے قربِ الٰہی حاصل ہوتا ہے یہ تمام صفات اس میں ہوتے ہیں ، ولایت کے درجے اور مَراتب میں ہر ایک اپنے درجے کے بقدر فضل و شرف رکھتا ہے ۔ (تفسیر خزائن العرفان یونس : ۶۲، ص۴۰۵۔)
مفسرین نے اس آیت کے بہت سے معنی بیان کئے ہیں ، ان میں سے 3 معنی درج ذیل ہیں : ⬇
(1) مستقبل میں انہیں عذاب کا خوف نہ ہو گا اور نہ موت کے وقت وہ غمگین ہوں گے ۔
(2) مستقبل میں کسی ناپسندیدہ چیز میں مبتلاہونے کا خوف ہوگا اور نہ ماضی اور حال میں کسی پسندیدہ چیز کے چھوٹنے پر غمگین ہوں گے ۔ (تفسیر البحرا لمحیط، البقرۃ : ۳۸، ۱/۳۲۳۔چشتی)
(3) قیامت کے دن ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ اس دن یہ غمگین ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ولیوں کو دنیا میں ان چیزوں سے محفوظ فرما دیا ہے کہ جو آخرت میں خوف اور غم کا باعث بنتی ہیں ۔ (تفسیر جلالین مع صاوی، یونس : ۶۲، ۳/۸۸۰۔)
ان تین کے علاوہ مزید اَقوال بھی تَفاسیر میں مذکور ہیں ۔
اولیاءِ کرام کی اَقسام
اولیاءِ کرام کی کثیر اَقسام ہیں جیساکہ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، بے شک انبیاءِ کرام علیہم السّلام زمین کے اَوتاد تھے ، جب نبوت کا سلسلہ ختم ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اُمتِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم میں سے ایک قوم کو اُن کا نائب بنایا جنہیں اَبدال کہتے ہیں ، وہ حضرات (فقط) روزہ و نماز اور تسبیح وتقدیس میں کثرت کی وجہ سے لوگوں سے افضل نہیں ہوئے بلکہ اپنے حسنِ اَخلاق ، وَرع و تقویٰ کی سچائی ، نیت کی اچھائی ، تمام مسلمانوں سے اپنے سینے کی سلامتی ، اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیئے حلم ، صبر اور دانشمندی ، بغیر کمزوری کے عاجزی اور تمام مسلمانوں کی خیر خواہی کی وجہ سے افضل ہو ئے ہیں ۔ پس وہ انبیاءِ کرام علیہم السّلام کے نائب ہیں ۔ وہ ایسی قوم ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی ذات پاک کے لئے منتخب اور اپنے علم اور رضا کے لئے خاص کر لیا ہے ۔ وہ 40 صدیق ہیں ، جن میں سے 30 اللہ تعالیٰ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے یقین کی مثل ہیں ۔ ان کے ذریعے سے اہلِ زمین سے بلائیں اور لوگوں سے مصیبتیں دور ہوتی ہیں ، ان کے ذریعے سے ہی بارش ہوتی اور رزق دیا جاتا ہے، ان میں سے کوئی اُسی وقت فوت ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ اس کی جانشینی کیلئے کسی کو پروانہ دے چکا ہوتا ہے ۔ وہ کسی پر لعنت نہیں بھیجتے ، اپنے ماتحتوں کو اَذیت نہیں دیتے ، اُن پر دست درازی نہیں کرتے ، اُنہیں حقیر نہیں جانتے ، خود پر فَوقیت رکھنے والوں سے حسد نہیں کرتے ، دنیا کی حرص نہیں کرتے ، دکھاوے کی خاموشی اختیار نہیں کرتے ، تکبرنہیں کرتے اور دکھاوے کی عاجزی بھی نہیں کرتے ۔ وہ بات کرنے میں تمام لوگوں سے اچھے اور نفس کے اعتبار سے زیادہ پرہیزگار ہیں ، سخاوت ان کی فطرت میں شامل ہے ، اَسلاف نے جن (نامناسب ) چیزوں کو چھوڑا اُن سے محفوظ رہنا ان کی صفت ہے ، اُن کی یہ صفت جدا نہیں ہوتی کہ آج خشیت کی حالت میں ہوں اور کل غفلت میں پڑے ہوں بلکہ وہ اپنے حال پر ہمیشگی اختیا ر کرتے ہیں ، وہ اپنے اور اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کے درمیان ایک خاص تعلق رکھتے ہیں ، جہاں تک دوسرے کسی کی رسائی نہیں ۔ اُن کے دل اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا اور شوق میں آسمان کی طرف بلند ہوتے ہیں ، پھر یہ آیت تِلاوت فرمائی : اُولٰٓئِکَ حِزْبُ اللہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوۡنَ ۔ (سورہ المجادلۃ:۲۲)
ترجمہ : یہ اللہ کی جماعت ہے ، سن لو ! اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہے ۔ (نوادرُ الاصول ، الاصل الحادی والخمسون، ۱/۲۰۹، الحدیث: ۳۰۱)
حضرت شریح بن عبید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس شام والوں کا ذکر ہوا تو ان سے عرض کی گئی کہ ان پر لعنت کیجئے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’نہیں ، میں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اَبدال شام میں ہوں گے، وہ حضرات چالیس مرد ہیں ، جب ان میں ایک وفات پاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے کو بدل دیتا ہے، ان کی برکت سے بارشیں برستی ہیں ، ان کے ذریعے دشمنوں پر فتح حاصل ہوتی ہے اور ان کی برکت سے شام والوں سے عذاب دور ہوتا ہے۔ (مسند امام احمد، ومن مسند علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ۱/۲۳۸، الحدیث: ۸۹۶،چشتی)
اولیاءِ کرام کی اَقسام کے بارے میں اَکابر علماء و محدثین نے بڑا تفصیلی کلام فرمایا ہے ۔ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے قطب ، اَبدال وغیرھما کے وجود پر ایک کتاب تصنیف فرمائی ہے ۔ علامہ نبہانی رحمۃ اللہ علیہ کی اس موضوع پر مشہور کتاب ’’جامع کراماتِ اولیاء‘‘ ضخیم ترین کتاب ہے ۔ علامہ نبہانی رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کی روشنی میں یہاں چند مشہور اَقسام بیان کی جاتی ہیں : ⬇
(1) اَقطاب ۔ یہ قُطب کی جمع ہے ۔ قطب اسے کہتے ہیں کہ جو خود یا کسی کے نائب کے طور پر حال اور مقام دونوں کا جامع ہو ۔
(2) اَئمہ ۔ یہ وہ حضرات ہیں کہ جو قطب کے انتقال کے بعد اس کے خلیفہ بنتے ہیں اور وہ قطب کیلئے وزیر کی طرح ہوتے ہیں۔ہر زمانے میں ان کی تعداد دو ہوتی ہے ۔
(3) اَوتاد ۔ ہر زمانے میں ان کی تعداد چار ہوتی ہے، اس سے کم یا زیادہ نہیں ہوتے ۔ ان میں سے ایک کے ذریعے اللہ تعالیٰ مشرق کی حفاظت فرماتا ہے ، دوسرے کے ذریعے مغرب کی ، تیسرے کے ذریعے شمال کی اور چوتھے کے ذریعے جنوب کی حفاظت فرماتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اپنے حصے میں ولایت ہوتی ہے ۔
(4) اَبدال ۔ ان کی تعداد سات ہوتی ہے، اس سے کم یا زیادہ نہیں ہوتے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے ساتوں برِّ اَعظم کی حفاظت فرماتا ہے ، انہیں ابدال ا س لئے کہتے ہیں کہ جب یہ کسی جگہ سے کوچ کرتے ہیں اور کسی مَصلحت اور قربت کی وجہ سے اس جگہ اپنا قائم مقام چھوڑنے کا ارادہ کرتے ہیں تو وہاں ایسے آدمی کو نامزد کرتے ہیں کہ جو ان کا ہم شکل ہواور جو کوئی بھی اس ہم شکل کو دیکھے تو وہ اسے اصلی شخص ہی سمجھے حالانکہ وہ ایک روحانی شخصیت ہوتا ہے جسے ابدال میں سے کوئی بدل قصداً وہاں ٹھہرا تا ہے۔ جن اَولیاء میں یہ قوت ہوتی ہے ، انہیں ابدال کہتے ہیں ۔
(5) رِجال ا لغیب ۔ اَہلُ اللہ کی اِصطلاح میں یہ وہ لوگ ہیں جو رب کی بارگاہ میں انتہائی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور تجلیات ِ رحمن کے غلبے کے سبب آہستہ آواز کے سوا کچھ کلام نہیں کرتے، ہمیشہ اسی حال میں رہتے ہیں ، چھپے ہوئے ہوتے ہیں پہچانے نہیں جاتے، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے مُناجات نہیں کرتے اور اس کے سوا کسی کے مشاہدے میں مشغول نہیں ہوتے۔ بعض اوقات اس سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جو انسانی نگاہوں سے پوشیدہ ہوں اور کبھی اس کا اِطلاق نیک اور مومن جنات پر ہوتا ہے ۔ بعض اوقات ان سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جو ظاہری حواس سے علم اور رزق وغیرہ نہیں لیتے انہیں غیب سے یہ چیزیں عطا ہوتی ہیں۔ (جامع کرامات اولیا القسم الاول فی ذکر مراتب الولایۃ۔۔۔ الخ، ۱/۶۹، ۷۴،چشتی)
الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا : وہ جو ایمان لائے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ولی کی دو صِفات بیان فرمائی ہیں :
(1) ولی وہ ہے جو ایمان کے ساتھ مُتَّصِف ہو۔ ایمان کا معنی ہے وہ صحیح اعتقاد جو قَطعی دلائل پر مبنی ہو ۔
(2) ولی کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ متقی ہو۔ تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ جن کاموں کو کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا انہیں کرنا اور جن کاموں سے منع کیا ہے ان سے اِجتناب کرنا ۔ (تفسیر صاوی، یونس الآیۃ: ۶۳، ۳/۸۸۰)
اوراس کے ساتھ ساتھ ہر اس کام کیلئے کوشش کرنا جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہو اور ہر اُس کام سے بچنا جو اللہ اللہ تعالیٰ سے دور کرنے والا ہو ۔
لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الۡاٰخِرَۃِ ؕ لَا تَبْدِیۡلَ لِکَلِمٰتِ اللہِ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیۡمُ ﴿ؕ۶۴﴾
ترجمہ : انہیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔
لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا : ان کے لئے دنیا کی زندگی میں خوشخبری ہے ۔ اس خوش خبری سے یا تو وہ مراد ہے جو پرہیزگار ایمانداروں کو قرآنِ کریم میں جا بجادی گئی ہے یااس سے اچھے خواب مراد ہیں جو مومن دیکھتا ہے یا اس کے لئے دیکھا جاتا ہے جیسا کہ کثیر اَحادیث میں وارد ہوا ہے، اور اس کا سبب یہ ہے کہ ولی کا قلب اور اس کی روح دونوں ذکرِ الٰہی میں مستغرق رہتے ہیں تو بوقت ِخواب اس کے دل میں سوائے ذکر و معرفتِ الٰہی کے اور کچھ نہیں ہوتا ، اس لئے ولی جب خواب دیکھتا ہے تو اس کا خواب حق اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے حق میں بشارت ہوتی ہے۔ بعض مفسرین نے اس بشارت سے دنیا کی نیک نامی بھی مراد لی ہے ۔ (تفسیر مدارک، یونس الآیۃ: ۶۴، ص۴۷۸، خازن، یونس، الآیۃ: ۶۴، ۲/۳۲۳،چشتی)
جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے عرض کیا گیا : اس شخص کے لئے کیا ارشاد فرماتے ہیں جو نیک عمل کرتا ہے اور لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں ؟ فرمایا: یہ مومن کے لئے جلد خوشخبری ہے ۔ (صحیح مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب اذا اثنی علی الصالح فہی بشری ولا تضرہ، ص۱۴۲۰، الحدیث: ۱۶۶ (۲۶۴۲)
علماء فرماتے ہیں کہ یہ بشارتِ عاجلہ یعنی جلد خوشخبری رضائے الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے محبت فرمانے اور خلق کے دل میں محبت ڈال دینے کی دلیل ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اس کو زمین میں مقبول کردیا جاتا ہے ۔ (شرح النووی علی المسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب اذا اثنی علی الصالح فہی بشری ولا تضرہ، ۸/۱۸۹، الجزء السادس عشر،چشتی)
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ملائکہ ، مومن کو اس کی موت کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت دیتے ہیں ۔ حضرت عطا رحمۃ الہ علیہ کا قول ہے کہ دنیا کی بشارت تو وہ ہے جو ملائکہ موت کے وقت سناتے ہیں اور آخرت کی بشارت وہ ہے جو مومن کو جان نکلنے کے بعد سنائی جاتی ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہے ۔ (تفسیر خازن، یونس : ۶۴، ۲/۳۲۳-۳۲۴۔)
اولیاءِ کرام کے فضائل
(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’ جو میرے کسی ولی سے دشمنی کرے ، اس سے میں نے لڑائی کا اعلان کردیا اور میرا بندہ کسی شے سے میرا اُس قدر قرب حاصل نہیں کرتا جتنا فرائض سے کرتا ہے اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے ہمیشہ قرب حاصل کرتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ میں اسے محبوب بنا لیتا ہوں اور جب اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے اور اس کا پیر بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے سوال کرے ، تو اسے دوں گا اور پناہ مانگے تو پناہ دوں گا ۔ (بخاری، کتاب الرقاق باب التواضع ۴/۲۴۸، الحدیث: ۶۵۰۲۔چشتی)
(2) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کو بلا کر ان سے فرماتا ہے کہ میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو چنانچہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام اس سے محبت کرتے ہیں ، پھر حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام آسمان میں ندا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو تو آسمان والے بھی اس سے محبت کرتے ہیں ، پھر اس کے لیے زمین میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے ۔ اور جب رب تعالیٰ کسی بندے سے ناراض ہوتا ہے تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کو بلا کر ان سے فرماتا ہے کہ میں فلاں سے ناراض ہوں تو تم بھی اس سے ناراض ہوجائو چنانچہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام اس سے ناراض ہوجاتے ہیں ، پھر وہ آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے ناراض ہے تم بھی اس سے ناراض ہوجائو تو آسمان والے اس سے نفرت کرتے ہیں پھر زمین میں اس کے لیے نفرت رکھ دی جاتی ہے ۔ (مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب اذا احبّ اللہ عبداً حبّبہ الی عبادہ، ص۱۴۱۷، الحدیث: ۱۵۷(۲۶۳۷)
(3) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو لوگ میرے جلال کی وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں ان کے لیئے نور کے منبر ہوں گے، انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور شُہدا اُن پر رشک کریں گے ۔ (جامع ترمذی کتاب الزہد باب ما جاء فی الحبّ فی اللہ، ۴/۱۷۴ الحدیث: ۲۳۹۷)
(4) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے بندے ہیں کہ وہ نہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور نہ شُہدا ء ۔ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا ایسا مرتبہ ہوگا کہ قیامت کے دن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور شہدا اُن پر رشک کریں گے۔ لوگوں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ، ارشاد فرمائیے یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا کہ ’’ یہ وہ لوگ ہیں جو محض رحمتِ الٰہی کی وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں ، نہ ان کا آپس میں رشتہ ہے ، نہ مال کا لینا دینا ہے ۔ خدا کی قسم! ان کے چہرے نور ہیں اور وہ خود بھی نور پر ہیں۔ جب لوگ خوف میں ہوں گے ، اس وقت اِنہیں خوف نہیں ہو گااور جب دوسرے غم میں ہوں گے تویہ غمگین نہ ہوں گے۔‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے یہ آیت پڑھی : اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ۔ (سورہ یونس:۶۲)
ترجمہ : سن لو : بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔ (ابوداؤد کتاب الاجارۃ باب فی الرہن ۳/۴۰۲ الحدیث: ۳۵۲۷،چشتی)
قرآنِ مجید کا انداز اور اُسلوبِ بیان اپنے اندر حِکمت و موعظت کا پیرایہ لئے ہوئے ہے۔ اِسی موعظت بھرے انداز میں بعض اَوقات آیاتِ قرآنی کے براہِ راست مخاطب حضور سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہوتی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے پوری اُمت کو حکم دینا ہوتا مقصود ہے ۔ قرآن مجید کی درج ذیل آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزّت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِرشاد فرمایا : وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلاَ تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا ۔ (الکهف، 18 : 28)
ترجمہ : (اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو اُن لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں، اُس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں، تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں اُن سے نہ ہٹیں ۔ کیا تو (اُن فقیروں سے دِھیان ہٹا کر) دُنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے؟ اور تو اُس شخص کی اِطاعت بھی نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اُس کا حال حد سے گزر گیا ہے ۔
اِس اِرشادِ ربانی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے اُمتِ مسلمہ کے عام افراد کو یہ حکم دِیا جارہا ہے کہ وہ اُن لوگوں کی معیت اور صحبت اِختیار کریں اوراُن کی حلقہ بگوشی میں دِلجمعی کے ساتھ بیٹھے رہا کریں، جو صبح و شام اللہ کے ذِکر میں سرمست رہتے ہیں اور جن کی ہر گھڑی یادِالٰہی میں بسر ہوتی ہے۔ اُنہیں اُٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے کسی اور چیز کی طلب نہیں ہوتی ، وہ ہر وقت اللہ کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں ۔ یہ بندگانِ خدا مست صرف اپنے مولا کی آرزو رکھتے ہیں اور اُسی کی آرزو میں جیتے ہیں اور اپنی جان جاں آفریں کے حوالے کردیتے ہیں ۔ ﷲ کے ولیوں کی یہ شان ہے کہ جو لوگ ﷲ تعالیٰ کے ہونا چاہتے ہیں اُنہیں چاہیے کہ سب سے پہلے وہ ان اولیاء ﷲ کی صحبت اِختیار کریں ۔ چونکہ وہ خود ﷲ کے قریب ہیں اور اِس لئے ﷲ تعالیٰ نے عامۃ المسلمین کو اُن کے ساتھ جڑ جانے کا حکم فرمایا ہے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے یہی قرآنی نکتہ اپنے اِس خوبصورت شعر میں یوں بیان کیا ہے : ⬇
ہر کہ خواہی ہمنشینی با خدا
اُو نشیند صحبتے با اولیاء
ترجمہ : جو کوئی اللہ تعالیٰ کی قربت چاہتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ اللہ والوں کی صحبت اختیار کرے ۔
غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت شاہ رکن عالم رحمۃ اللہ علیہ اور حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے خود کو اللہ کے قریب کرلیا تھا ۔ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں ایسے ہی لوگوں کی صحبت اِختیار کرنے اور اُن سے اِکتسابِ فیض کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی جو شخص اللہ کے ولی کی مجلس میں بیٹھے گا اُسے اللہ کی قربت اور مجلس نصیب ہوگی ۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نہ جنت کا لالچ ہے اور نہ ولایت کا، نہ کرامت کا شوق ہے اور نہ شہرت کی طلب ، یہ نہ حوروں کے متمنی ہیں نہ قصور کے ۔ اِن کا واحد مقصد اللہ کا دیدار ہے اور یہ فقط اللہ کے مکھڑے کے طالب ہیں ۔ لہٰذا عام لوگوں کو تعلیم دی گئی کہ جو لوگ میرے (اللہ کے) مکھڑے کے طالب ہیں اُنہیں بھی اُن کا مکھڑا تکنا چاہیئے اور اپنی نظریں اُن کے چہروں پر جمائے رکھنا چاہیئں۔ جبکہ دُوسری طرف اللہ کی یاد سے غافل لوگوں سے دُور رہنے کا حکم دیا گیا : وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا. (الکهف، 18 : 28)
ترجمہ : اور تو اُس شخص کی اِطاعت نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے ۔
اِسی طرح سورۂ انعام میں اِرشاد ربانی ہوا : فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِيْنَ ۔ (انعام، 6 : 68)
ترجمہ : پس تم یاد آنے کے بعد (کبھی بھی) ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھا کرو ۔
اِن آیاتِ مبارکہ میں یہ بات بالصراحت واضح ہوتی ہے کہ ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ سے دُور ہٹانے والوں کے ساتھ نشست و برخاست سے بھی اِجتناب کیا جائے۔ اُس کی محبت اور توجہ کے حصول کے لئے طالبانِ حرص و ہوس اور بندگانِ دُنیا کی صحبت کو کلیتاً ترک کرنا اور اولیاء ﷲکی نسبت اور سنگت کو دِلجمعی کے ساتھ اِختیار کرنا نہایت ضروری ہے ۔ بقولِ شاعر: صحبتِ صالح تُرا صالح کند ۔ صحبتِ طالع تُرا طالع کند ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اولیائے کرام کا ادب و احترام کرنے کی تو فیق عطاء فرمائے اور بے ادبوں کے فتنہ و شر سے بچائے آمین ۔ (مزید حصہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment