بہشتی دروازہ کی حقیقت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : نیک ، صالح اور اولیاء اللہ علیہم الرحمہ کو قبر میں اللہ تعالیٰ پاکیزہ زندگی عطا فرماتا ہے ، تو ان کی قبریں ہی جنت کے باغوں میں سے باغ ہے ۔ اگر قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہو تو اس کے دروازے کو بہشتی دروازہ کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ ہر نیک ، صالح اور اللہ کے دوست کی قبر کا دروازہ بہشتی دروازہ ہے ۔
وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰیٰكُمْؕ - وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر 58)
ترجمہ : اور جب ہم نے انہیں کہا کہ اس شہر میں داخل ہوجاؤ پھر اس میں جہاں چاہو بے روک ٹوک کھاؤ اور دروازے میں سجدہ کرتے داخل ہونااور کہتے رہنا، ہمارے گناہ معاف ہوں ، ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور عنقریب ہم نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ عطا فرمائیں گے ۔
وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ : اور جب ہم نے کہا اس شہر میں داخل ہوجاؤ ۔
اس شہر سے ’’بیتُ المقدس‘‘ مراد ہے یا اَرِیحا جو بیت المقدس کے قریب ہے جس میں عمالقہ آباد تھے اور وہ اسے خالی کر گئے تھے ، وہاں غلے میوے بکثرت تھے ۔ اس بستی کے دروازے میں داخل ہونے کا فرمایا گیا اور یہ دروازہ ان کےلیے کعبہ کی طرح تھا اور اس میں داخل ہونا اور اس کی طرف سجدہ کرنا گناہوں کی معافی کا سبب تھا ۔ بنی اسرائیل کو حکم یہ تھا کہ دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں اور زبان سے ’’حِطَّةٌ‘‘ کہتے جائیں (یہ کلمہ استغفار تھا) انہوں نے دونوں حکموں کی مخالفت کی اورسجدہ کرتے ہوئے داخل ہونے کی بجائے سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور توبہ و استغفار کا کلمہ پڑھنے کی بجائے مذاق کے طور پر ’’حَبَّۃٌ فِی شَعْرۃٍ ‘‘ کہنے لگے جس کا معنیٰ تھا : بال میں دانہ ۔ اس مذاق اور نافرمانی کی سزا میں ان پر طاعون مسلط کیا گیا جس سے ہزاروں اسرائیلی ہلاک ہو گئے ۔ (تفسیرخازن البقرۃ الآیۃ: ۵۸،۱ / ۵۶،چشتی)(مدارک، البقرۃ الآیۃ : ۵۸، ص۵۳)(تفسیر عزیزی مترجم اردو ، ۱ / ۴۵۶-۴۵۷)
ارشاد باری تعالیٰ ہے : مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَهوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوة طَیِّبَة ج وَلَنَجْزِیَنَّهمْ اَجْرَهمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۔
ترجمہ : جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جب کہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے ، اور انہیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھے ۔ (سورہ النحل، 16: 97)
مذکورہ بالا آیت مبارکہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ یہاں فَلَنُحْیِیَنَّہ پر ’’فا‘‘ داخل ہے جو تعقیب مع الوصل کا تقاضا کرتی ہے (یعنی وہ پہلی چیز کے فوراً بعد دوسری چیز کا پایا جانا ہے) یہاں ایمان اور عمل صالح کا بیان کر کے فرمایا کہ ہم ان کو فوراً پاکیزہ زندگی عطا کریں گے ۔ ظاہر ہے کہ اس دنیا کی زندگی کے فوراً بعد حیات برزخی ہوگی نہ کہ قیامت کے روز کی زندگی ۔ اس آیہ کریمہ میں کلام کو لام تاکید اور نون تاکید بلکہ نون ثقیلہ سے موکد لایا گیا ہے ، کہ ہم یقینا اور ضرور بالضرور انہیں پاکیزہ زندگی عطا کریں گے ۔
اور حدیث پاک جو حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ : قَالَ رَسُولُ ﷲ إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَة مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّة أَوْ حُفْرَة مِنْ حُفَرِ النَّارِ ۔
ترجمہ : نبی ریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے ۔ (ترمذي، السنن، 4: 639، رقم: 2460، دار احیاء التراث العربي ، بیروت،چشتی)
اگر نیک ، صالح اور اولیاء ﷲ کو قبر میں باری تعالیٰ پاکیزہ زندگی عطا فرماتا ہے ، تو ان کی قبریں ہی جنت کے باغوں میں سے باغ ہے ۔ اگر قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہو تو اس کے دروازے کو بہشتی دروازہ کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ ہر نیک ، صالح اور ﷲ کے دوست کی قبر کا دروازہ بہشتی دروازہ ہے ۔
بہشتی دروازہ اور پیر مہر علی شاہ علیہ الرحمہ کا استدلال
بہشتی دروازے کے بارے میں اہلسنت کا عقیدہ یہ ہےکہ وہاں سے
گزرنے والا قطعی جنتی نہیں ہو جاتا اس لیے کہ یہ بزرگوں کے اقوال پر مبنی ایک مجربہ قول ہے کہ اس کا راہی جنتی ہے ہاں اللہ جل جلالہ اس پر قادر ہے کہ اپنے پیاروں کی نسبت سے جنت عطا فرما دے ۔ اور اس دروازے میں سے گزرنا یہ بزرگوں کے طریقے سے بھی رہا ہے ۔
حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ آپ پیر فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے عرس پر حاضر ہوتے تھے قصور بہاولپور کے غیر مقلد علماء ہر سال وہاں پہنچ کر آپ سے سوال کرتے رہے کیا آپ عالم ہو کر اس بات کو درست مانتے ہیں کہ جو شخص بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے روزہ کے بھشتی دروازے سے گزر جنت کا حقدار ہو جاتا ہے ؟ لیکن کمال بات یہ ہے کہ حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ ہر سال ان کے جوابات میں ایک نیا استدلال ارشاد فرماتے ۔ مولوی غلام قادر چکو کے تحصیل منچن آباد نے یہی سوال کیا ۔ تو فرمایا کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے کہ مومن کی قبر روضة من ریاض الجنة ہوتی ہے ۔اس نے کہا صحیح ہے فرمایا جب جنت کا اطلاق مومن کی قبر پر صحیح ٹھہرا اس کے دروازے کو بہشتی دروازہ کہنے پر کیا اعتراض ہے ؟ مولوی صاحب نے کہا اس لفظ کا جواب تو درست ہے مگر یہ فرمائیں کہ حضرت بابا صاحب کے مقبرہ کے اسی ایک دروازے میں کیا خصوصیت کا اسے بہشتی دروازہ کہا جائے ۔
آپ نے فرمایا کہ حضرت سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء محبوب رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ : میں نے بچشم سر عالم ظاہر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جسم اطہر مع چار یارعلیہم الرضوان چھ سات محرم کی درمیانی رات کو اس مزار کے اندر تشریف لے جاتے ہوئے دیکھا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ ارشاد سنا ہے من دخل ھذا الباب فقد امن ۔ مشائخ اکرام کا بھی اس پر اتفاق رہا ہے ۔ (مہر منیر صفحہ نمبر ۴٣٣)
حضرت پیر سید غلام حیدر علی شاہ جلال پوری چشتی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : ایک مرتبہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ کی طبیعت نا ساز تھی ۔ حضرت بابا فرید گنج شکر علیہ الرحمہ کو حکم ہوا کہ عطار کی دُکان سے جا کر نسخہ بندھوا لائیں ۔ آپ علیہ الرحمہ بیٹھے دُکان میں نسخہ بندھوا رہے تھے کہ شور ہوا کہ ایک بُزرگ پالکی میں سُوار ہوکر آرہے ہیں اور مُنادی ان کے آگے آگے ندا کر رہا ہے جو ان کی زیارت کرے گا ان شاء اللہ وہ جنتی ہوگا ۔ لوگ جوق در جوق زیارت کو جارہے تھے لیکن حضرت بابا فرید گنج شکر علیہ الرحمہ نے توجہ ہی نہ کی بلکہ جب پالکی نزدیک آئی تو دُکان کے اندر کے حصے میں تشریف لے گئے ۔ چند لوگوں نے اصرار کیا مگر آپ نے توجہ نہ فرمائی جب پالکی گزر گئی تو آپ نسخہ لے کر مُرشد کامل کی خدمت میں حاضر ہونے کےلیے روانہ ہوئے ۔ حضرت خواجہ بختیار کا کی علیہ الرحمہ نے دیر سے آنے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے جواب میں تمام واقعہ عرض کردیا ۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ اپنے با ادب مُرید کی یہ بات سن کر بہت خوش ہوئے اور جوش میں آکر فرمایا : اے فرید اس بُزرگ کی زیارت کرنے سے لوگ آج کے دن جنتی ہوتے ہیں تو تمہارے دروازے سے قیامت تک جو بھی گزرے گا ان شآء اللہ وہ جنتی ہوگا ۔ (ذکرِ حبیب صفحہ نمبر ۴۲۱،چشتی)
حضرت بابا فرید گنج شکر علیہ الرحمہ کے سالانہ عُرس کے موقع پر لاکھوں عقیدت مند دور دراز سے سفر کرکے مزار مبارک کی زیارت کرے ہیں اور بہشتی دروازے سے گزرتے ہیں یہ دروازہ پانچ سے دس محرم الحرام تک ہر رات کھولا جاتا ہے ۔
اسے بہشتی دروازہ کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیا علیہ الرحمہ حضرت بابا فرید گنج شکر علیہ الرحمہ کے مزار پُرانوار پر حاضر ہوئے تو خواب میں دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس دروازے پر جلوہ فرما ہیں اور فرما رہے ہیں کہ نظام الدین جو شخص اس دروازے میں داخل ہوگا اسے امان ملے گی اس دن سے اس دروازے کا نام بہشتی دروازہ پڑگیا ۔ (خزینتہ الاصفیاء ۱۳۶/۲ )
بہشتی دروازے سے گزرے والوں کو جنتی ہونے کی بشارت عطا ہوئی اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھیے کہ کوئی شخص اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں نہیں جائے گا بلکہ اللہ کی رحمت اور فضل و کرم سے داخل ہوگا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے کہ : کسی کو اس کا عمل نجات نہیں دے سکے گا لوگوں نے عرض کی یارسول اللہ آپ کو بھی نہیں ؟ ۔ فرمایا نہ مجھے مگر یہ کہ اللہ مجھے مہربانی سے اپنی رحمت میں چھپا لے ۔ (بخاری ۲۳۷/۴ ، حدیث نمبر ۶۴۶۳،چشتی)
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہ جن کی خاطر ساری کائنات بنائی گئی ان کا یہ معاملہ ہے کہ رحمت کے بغیرداخلِ بہشت نہ ہوں گے تو ہمارے اعمال کی کیا حیثیت ہے کہ ہم ان پر پھولیں اور ان کی بدولت بہشت میں داخل ہونے کا سوچیں ۔
پھر یہ کہ جنتی ہونے کی بشارت اس طرح ہے جیسے بعض اعمال کی ادائیگی پر جنتی ہونے کی نوید عطا فرمائی ہے چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے کہ : جو شخص وضو کرے اور اچھا وضو کرے اور ظاہر باطن کے ساتھ متوجہ ہوکر دورکعت پڑھے اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے ۔ (صحیح مسلم شریف صفحہ ۱۴۴ حدیث ۲۳۴)
اب جو عوام میں مشہور ہے کہ جو پاک پتن شریف میں حضرت بابا فرید گنج شکر علیہ الرحمہ کے مقبرہ کے بہشتی دروازے میں داخل ہو جائے وہ جنتی ہے وہاں بھی مطلب یہ ہے کہ خدا تعالی اسے جنتی اعمال کی توفیق دے گا اور اس دروازے میں داخلہ کی برکت سے گزشتہ گناہ معاف فرما دے گا ۔ گناہِ صغیرہ و کبیرہ سے بچنے کی توفیق دے گا ۔
بہشتی دروازہ اہل طریقت کی نظر میں : ⬇
بہشتی دروازے کے متعلق بعض لوگ تذبذب اور مختلف شکوک میں مبتلا دیکھے ہیں ۔ ان کی تسکینِ علمیت اور تشفئ قلب کے لئے کچھ بزرگانِ دین کے ملفوظات پیشِِ خدمت ہیں ۔
شہبازِ طریقت حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک مولوی صاحب نے سوال کیا کہ حضور یہ بہشتی دروازہ ہے کہ آپ بھی ہمیشہ اس دروازے سے گزرتے ہیں ، اس کا کیا فائدہ ہے ؟ حضور خواجہ صاحب نے کچھ دیر خاموشی کے بعد فرمایا کہ جس وقت جنتی دروازہ کھلے اس وقت میرے پاس آنا ۔ جب سجادہ نشینِ وقت نے دربارِ عالیہ کا دروازہ کھولا اور لوگ دروازے سے گزرنے لگے تو عالم مذکور خواجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو وعدہ یاد دلایا ۔ حضرت خواجہ صاحب نے اپنی ٹوپی سر مبارک سے اُتار کر مولوی صاحب کے سر پر رکھ دی اور فرمایا کہ اب جا کر بہشتی دروازہ گزرنے والوں کو دیکھ ۔ مولوی صاحب نے بچشمِ ظاہر سے دیکھا کہ بہت سے انسان پاکیزہ اور نوارنی اشکال کے قطاروں میں کھڑے ہیں اور ان کے درمیان کچھ انسان حیوانی اشکال (مثلاََ بندر ، کُتا، ریچھ وغیرہ) میں بھی کھڑے ہیں جب یہ حیوانی اشکال والے بابِ جنت سے گزر کر نوری دروازے سے باہر آتے ہیں تو ان کے چہرے نہایت پاکیزہ اور نورانی ہوتے ہیں ۔ مولوی صاحب نے تمام ماجرا حضرت خواجہ صاحب سے عرض کیا تو آ پ نے فرمایا : اس دروازے سے گزرنے کا اول فائدہ یہ کہ انسان کا باطن پاک ہو جاتا ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ آخرت میں مغفرت ہوگی ۔ چونکہ صدقہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وقت کے گنہگاروں کا چہرہ سابق امتوں کی طرح مسخ نہیں ہوتا ، اس لیے گنہگار افراد کا باطن مسخ اور تبدیل شدہ نظر آتا ہے اور یہ مسخ شدہ باطنی چہرے حضور گنجِ شکر رحمۃ اللہ علیہ کے صدقے میں اپنی نورانی شکل میں واپس ہو جاتے ہیں ۔ مولوی صاحب نے فوری طور پر معافی مانگی اور تائب ہو کر حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے مرید ہوگئے اور تازیست نوری دروازہ کے سامنے اسی موضوع پر خطاب کرتے رہے ۔ اسی ضمن میں حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی اویسی قادری رحمۃ اللہ علیہ سے یہی سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ فقیر کا اعتقاد تو اس سے زیادہ ہے میں تو یہ کہتا ہوں کہ جو اس ٹیلے سے گزر جائے وہ بہشتی ہے ۔
اس سلسلے میں حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ کے ارشادات بحوالہ کتاب مہر منیر صفحہ نمبر 430 پیشِ خدمت ہیں : ⬇
حضرت بابا فرید گنجِ شکر رحمۃ اللہ علیہ کے عرس پر حاضر ہوتے تھے ، قصور اور ریاست بہاولپور کے غیرمقلد علماء متواتر کئی سال وہاں پہنچ کر آپ سے سوال کرتے رہے کہ کیا آپ عالم ہو کر اس بات کو درست مانتے ہیں کہ جو شخص بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے روضہ کے بہشتی دروازے سے گزر جائے وہ جنت کا حقدار ہو جاتا ہے ؟ حضرت جواب میں ہر سال نیا استدلال پیش فرماتے ۔
مولوی غلام قادر چکوکہ تحصیل منچن آباد نے یہی سوال کیا تو فرمایا کیا یہ حدیث صحیح نہیں کہ مومن کی قبر روضۃ من ریاض الجنۃ ہے ؟ اس نے کہا صحیح ہے ۔ فرمایا جب لفظ جنت کا اطلاق مومن کی قبر پر صحیح ٹھہرا تو اس کے دروازے کو بہشتی دروازہ کہنے پر کیا اعتراض ہے ؟
مولوی صاحب نے کہا اس لفظ کا جواز تو درست ہوا ۔ مگر یہ فرمایئے کہ حضرت بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مقبرہ کے اس ایک دروازے میں کیا خصوصیت ہے کہ اسے بہشتی دروازہ کہا جائے ۔ آپ نے فرمایا کہ حضرت سلطان المشائخ نظام الدین اولیاء محبوبِ الٰہی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ میں نے بچشمِ سر ، عالمِ ظاہر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بجسمِ اطہر بمعہ چہار یار کبار 6 ~7 محرم کی درمیانی رات کو اس دروازے سے گزر کر مقبرہ کے اندر تشریف لے جاتے دیکھا ہے اور حضور کا یہ ارشاد سنا ہے کہ من دخل ھذالباب فقد امن (جو اس دروازے میں داخل ہوا وہ امن میں آگیا) معلوم ہوا کہ مشائخِ عظام کا بھی اس پر اتفاق رہا ہے ۔
اس کے بعد مولوی صاحب نے اعتراض کیا کہ زائرین فرید فرید کیوں پکارتے ہیں ؟ اللہ اللہ کیوں نہیں کہتے ؟ حضرت نے فرمایا کہ عرس کے موقعہ پر زائرین کا پورا نعرہ ہوتا ہے ۔
اللہ محمد چار یار حاجی خواجہ قطب فرید ۔
وہ لفظ فرید کو مسلسل تین بار کہتے ہیں اور اس چیز کے جواز میں قرآن مجید کی ایک آیت موجود ہے مولوی صاحب نے چونک کر کہا ، وہ کون سی آیت ہے ؟ آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ ”فاذکرونی اذکرکم واشکرولی ولاتکفرون“۔ پس تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا اور میرا شکر ادا کرو اور کفر نہ کرو ۔
اور فرمایا کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کا ارشاد ہے کہ تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا ۔ حضرت شیخ فرید الدین مسعود گنجِ شکر رحمۃ اللہ علیہ نے آخری دم تک اللہ کا ذکر کیا ۔ اب اللہ اپنی مخلوق کی زبان سے اپنے پیارے بندے فرید کا ذکر کر رہا ہے ۔ آج سات سو سال سے اذکرکم کا وعدہ پورا ہو رہا ہے اور قیامت تک ان شاء اللہ یونہی ہوتا رہے گا کہ ہر سال ہزار در ہزار مخلوق یہاں جمع ہو کر فرید فرید کے نعرے لگاتی رہے گی ۔ اللہ تعالٰی جسم اور مکان سے پاک ہے اور یہ اس کے ذکر کرنے کی ایک صورت ہے ۔
قصور کے ایک مولوی صاحب سے بھی قبلۂ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے یہی فرمایا تھا کہ میں تو یہاں (یعنی پاکپتن شریف میں) فاذکرونی اذکرکم کا نقشہ دیکھنے آتا ہوں ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ، اپنے محبوب کریم صلی الله عليه و آلہ وسلّم کی ، اپنے محبّین کی محبت سے سرفراز فرمائے اور ایسے اعمال کی توفیق ارزانی فرمائے جو ہمیں اس کی محبت کا قرب بخشیں آمین ۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment