Monday 29 August 2022

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ دوم

0 comments

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ دوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے پانچویں جَدِّ امجد حضرت امام رفیع الدین فاروقی سہروردی رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیِّدُنا مخدوم جہانیاں جہاں گشت سیّد جلال الدین بخاری سہروردی رحمۃ اللہ علیہ (وفات: 785ھ) کے  خلیفہ تھے ۔ جب یہ دونوں حضرات ہند تشریف لائے اورسرہند شریف سے ’’موضع سرائس‘‘ پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے درخواست کی کہ ’’موضع سرائس‘‘ اور ’’ سامانہ‘‘ کا درمیانی راستہ خطرناک ہے ، جنگل میں پھاڑ کھانے والے خوفناک جنگلی جانور ہیں ، آپ (وقت کے بادشاہ) سلطان فیروز شاہ تغلق کو ان دونوں کے درمیان ایک شہر آباد کرنے کا فرمائیں تاکہ لوگوں کو آسانی ہو ۔ چنانچہ حضرت شیخ امام رفیع الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے بھائی خواجہ فتح اللّٰہ رحمۃ اللہ علیہ نے سلطان فیروز شاہ تغلق کے حکم پر ایک قلعے کی تعمیر شروع کی ، لیکن عجیب حادثہ پیش آیا کہ ایک دن میں جتنا قلعہ تعمیر کیا جاتا دوسرے دن وہ سب ٹوٹ پھوٹ کر گر جاتا ، حضرت سیِّدُنامخدوم سیّد جلال الدین بُخاری سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کو جب اس حادثے کا علم ہوا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام رفیع الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کو لکھا کہ آپ خود جا کر قلعے کی بنیاد رکھیے اور اسی شہر میں سکونت (یعنی مستقل قیام ) فرمایئے ، چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے قلعہ تعمیر فرمایا اور پھر یہیں سکونت اختیار فرمائی ۔ حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت اسی شہر میں ہوئی ۔(زُبْدَۃُ الْمَقامات  صفحہ ۸۹)


حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد حضرت شیخ عبدالاحد فاروقی چشتی قادری رحمۃ اللہ علیہ جید عالم دین اور ولیِ کامل تھے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ ایامِ جوانی میں اکتسابِ فیض کےلیے حضرتِ شیخ عبدالقدوس چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی944 ھ/1537ء) کی خدمت میں حاضر ہوئے آستانۂ عالی پر قیام کا ارادہ کیا لیکن حضرت شیخ عبدالقدوس چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : علومِ دینیہ کی تکمیل کے بعد آنا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ جب تحصیلِ علم کے بعد حاضر ہوئے تو حضرتِ شیخ عبدالقدوس چشتی رحمۃ اللہ علیہ وصال فرما چکے تھے اور ان کے شہزادے شیخ رکن الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ (وفات: 983ھ/1575ء) مسندِ خلافت پر جلوہ افروز تھے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت شیخ عبدالاحد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کو سلسلئۂ قادریہ اور چشتیہ میں خلافت سے مشرف فرمایا اور فصیح و بلیغ عربی میں اجازت نامہ مرحمت فرمایا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کافی عرصہ سفر میں رہے اور بہت سے اصحابِ معرفت سے ملاقاتیں کیں ، بالآخر سر ہند تشریف لے آئے اور آخر عمر تک یہیں تشریف فرما ہو کر اسلامی کتب کا درس دیتے رہے ۔ فقہ واُصول میں بے نظیر تھے ، کتب ِصوفیائے کرام : تَعَرُّف ، عَوارِفُ المَعارِف اور فُصُوصُ الحِکَم کا درس بھی دیتے تھے ، بہت سے مشائخ نے آپ رحمۃ اللہ علیہ  سے اِستفادہ (یعنی فائدہ حاصل) کیا ۔ ’’سکندرے‘‘ کے قریب ’’اٹاوے‘‘ کے ایک نیک گھرانے میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کا نکاح ہوا تھا ۔ امام ربانی کے والد محترم شیخ عبد الاحد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ نے 80 سال کی عمر میں 1007ھ/1598ء میں وصال فرمایا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک سر ہند شریف میں شہر کے مغربی جانب واقع ہے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کئی کتب تصنیف فرمائیں جن میں کُنوزُ الحَقائِق اور اَسرارُ التَّشَہُّد بھی شامل ہیں ۔ (سیرتِ مجدِّد الفِ ثانی صفحہ ۷۷ تا ۷۹)


حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والد ماجد شیخ عبدالاحد رحمۃ اللہ علیہ سے کئی علوم حاصل کیے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کی محبت بھی اپنے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ سے ملی تھی ، چنانچہ فرماتے ہیں : اس فقیر کو عبادتِ نافلہ خصوصاً نفل نمازوں کی توفیق اپنے والد بزرگوار سے ملی ہے ۔ (مَبْدا ومَعاد صفحہ ۶،چشتی)


والد ماجد کے علاوہ دوسرے اساتذہ سے بھی استفادہ (یعنی فائدہ حاصل) کیا مثلاً مولانا کمال کشمیری رحمۃ اللہ علیہ سے بعض مشکل کتابیں پڑھیں ، حضرت مولانا شیخ محمد یعقوب صرفی کشمیری رحمۃ اللہ علیہ سے کتب حدیث پڑھیں اور سندلی ۔ حضرت قاضی بہلول بدخشی رحمۃ اللہ علیہ سے قصیدہ بردہ شریف کے ساتھ ساتھ تفسیر و حدیث کی کئی کتابیں پڑھیں ۔ حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے 17 سال کی عمر میں علومِ ظاہری سے سندِ فراغت پائی ۔ (حَضَراتُ القُدْس دفتر دُوُم صفحہ ۳۲)


حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا اندازِ تدریس نہایت دل نشین تھا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ تفسیرِ بیضاوی ، بخاری شریف ، مشکوۃ شریف ، ہدایہ اور شرحِ مَواقِف وغیرہ کتب کی تدریس فرماتے تھے ۔ اسباق پڑھانے کے ساتھ ساتھ ظاہری و باطنی اصلا سے بھی طلبہ کو نوازتے ۔ علمِ دین کے فوائداور اس کے حصول کا جذبہ بیدار کرنے کےلیے علم و علما کی اہمیت بیان فرماتے ۔ جب کسی طالبِ علم میں کمی یا سستی ملاحظہ فرماتے تو اَحسن (یعنی بہت اچھے) انداز میں اس کی اصلاح فرماتے چنانچہ حضرت بدر الدین سرہندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں جوانی کے عالم میں اکثر غلبۂ حال کی وجہ سے پڑھنے کا ذوق نہ پاتا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ کمال مہربانی سے فرماتے : سبق لاؤ اور پڑھو ، کیوں کہ جاہل صوفی تو شیطان کا مسخرہ ہے ۔ (حَضَراتُ القُدْس دفتر دُوُم ص ۸۹،چشتی)


حضرت  مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ تحصیل علم کے بعد آگرہ (ہند) تشریف لائے اور درس و تدریس کا سلسلئہ شروع فرمایا ، اپنے وقت کے بڑے بڑے فاضل (علمائے کرام) آپ رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر علم و حکمت کے چشمے سے سیراب ہونے لگے ۔ جب ’’آگرہ‘‘ میں کافی عرصہ گزر گیا تو والدِ ماجد عَلَیْہِ رحمۃ اللہ علیہ کو آپ کی یاد ستانے لگی اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھنے کےلیے بے چین ہو گئے ، چنانچہ والدِ محترم طویل سفر فرما کر آگرہ تشریف لائے اور اپنے لخت جگر (یعنی مجدد الف ثانی) کی زیارت سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کیں ۔ آگرہ کے ایک عالم صاحب نے جب اُن سے اس اچانک تشریف آوری کا سبب پوچھا تو ارشاد فرمایا : شیخ احمد (سرہندی) کی ملاقات کے شوق میں یہاں آگیا ، چونکہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے ان کا میرے پاس آنا مشکل تھا اس لیے میں آگیا ہوں ۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ ۱۳۳،چشتی)


فرمانبر داراور نیک اولاد آنکھوں کی ٹھنڈ ک اور دل کا چین ہوتی ہے ۔ جس طرح والدین کی محبت بھری نظر کے ساتھ زیارت سے اولاد کو ایک مقبول حج کا ثواب ملتا ہے اسی طرح جس اولاد کی زیارت سے والدین کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ، ایسی اولاد کے لیے بھی غلام آزاد کرنے کے ثواب کی بشارت ہے چنانچہ فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے : جب باپ اپنے بیٹے کو ایک نظر دیکھتا ہے تو بیٹے کو ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی : اگرچہ باپ تین سو ساٹھ (360) مرتبہ دیکھے ؟ ارشاد فرمایا : اللہ عَزَّوَجَلَّ بڑا ہے ۔ (مُعْجَم کبِیر جلد ۱۱ صفحہ ۱۹۱ حدیث ۱۱۶۰۸)

یعنی اُسے سب کچھ قدرت ہے ، اس سے پاک ہے کہ اس کو اس کے دینے سے عاجز کہا جائے ۔ 


حضرت علامہ عبدُالرّء وف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مراد یہ ہے کہ جب اصل (باپ) اپنی فَرْع (بیٹے) پر نظر ڈالے اور اُسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی فرمانبرداری کرتے دیکھے تو بیٹے کو ایک غلام آزاد کرنے کی مثل ثواب ملتا ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بیٹے نے اپنے رب تعالیٰ کو راضی بھی کیا اورباپ کی آنکھوں کوٹھنڈک بھی پہنچائی کیونکہ باپ نے اُسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی فرمانبردار ی میں دیکھا ہے ۔ (اَلتّیسیر جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۱۳۱،چشتی)


مجدِّد اَلفِ ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی رنگت گندمی مائل بہ سفیدی تھی ، پیشانی کشادہ اور چہرہ مبارک خوب ہی نورانی تھا۔اَبرو دراز،سیاہ اور باریک تھے ۔ آنکھیں کشادہ اور بڑی جبکہ بینی (یعنی ناک مبارک) باریک اور بلند تھی ۔لب (یعنی ہونٹ) سرخ اور باریک ، دانت موتی کی طرح ایک دوسرے سے ملے ہوئے اور چمکدار تھے ۔رِیش (یعنی داڑھی) مبارک خوب گھنی ، دراز اور مربع (یعنی چوکور) تھی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ دراز قد اور نازک جسم تھے ۔ آپ کے جسم پر مکھی نہیں بیٹھتی تھی ۔ پاؤں کی ایڑیاں صاف اور چمک دار تھیں ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ ایسے نفیس (یعنی صاف ستھرے) تھے ۔ کہ پسینے سے ناگوار بو نہیں آتی تھی ۔ (حَضَراتُ القُدْس دفتر دُوُم صفحہ ۱۷۱،چشتی)


حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجدحضرت شیخ عبدالاحد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ جب آپ رحمۃ اللہ علیہ کو آگرہ (الھند) سے اپنے ساتھ سرہند لے جا رہے تھے ، راستے میں جب تھانیسر (تھا ۔ نے ۔ سر) پہنچے تو وہاں کے رئیس شیخ سلطان کی صاحبزادی سے حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا عقدِ مسنون (یعنی سنتِ نکاح) کروا دیا ۔


حضرت امام ربانی ، مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سراج الائمہ حضرت سیِّدُنا امامِ اعظم  ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد ہونے کے سبب حنفی تھے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ امامِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے بے انتہا عقیدت و محبت رکھتے تھے ۔ 


حضرت امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بزرگوں کے بزرگ ترین امام ، امامِ اجل ، پیشوائے اکمل ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بلندیِ شان کے متعلق میں کیا لکھوں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ تمام ائمہ مجتہدین رَحِمَہُمُ اللہُ علیہم اجمعین میں خواہ وہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ہوں یا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ یاپھر امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ان سب میں سب سے بڑے عالم اور سب سے زیادہ وَرَع و تقویٰ والے تھے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اَلْفُقَہَاءُ کُلُّہُمْ عِیَالُ اَبِیْ حَنِیفَۃ ، یعنی : تمام فقہا امام ابوحنیفہ کے عیال ہیں ۔ (مَبْدا و مَعاد صفحہ ۴۹،چشتی)


حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو مختلف سلاسلِ طریقت میں اجازت و خلافت حاصل تھی : {۱} سلسلئہ سہروردیہ کبرویہ میں اپنے استاد محترم حضرت شیخ یعقوب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل فرمائی {۲} سلسلۂ چشتیہ اور قادریہ میں اپنے والد ماجد حضرت شیخ عبدالاحد چشتی قادری رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل تھی {۳} سلسلۂ قادریہ میں کیتھلی (مضافات سرہند) کے بزرگ حصرت شاہ سکندرقادری رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل تھی {۴} سلسلئۂ  نقشبندیہ میں حضرت خواجہ محمد باقی باللّٰہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل فرمائی ۔ (سیرت مجدد الف ثانی صفحہ ۹۱) 


حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے تین سلسلوں میں اکتسابِ فیض کا یوں ذِکر فرمایا ہے : مجھے کثیر واسطوں کے ذریعے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اِرادت حاصل ہے ۔ سلسلۂ نقشبندیہ میں 21 ، سلسلۂ قادریہ میں 25 اور سلسلۂ چشتیہ میں 27 واسطوں سے ۔ (مکتوباتِ امامِ ربّانی دفتر سوم حصہ نہم مکتوب نمبر ۸۷ جلد ۲ صفحہ ۲۶)


حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ محمد باقی باللّٰہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کا بے حد ادب و احترم فرما یا کرتے تھے اور حضرت خواجہ محمد باقی باللّٰہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ بھی آپ کو بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ چنانچہ ایک روز حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ حجرہ شریف میں تخت پر آرام فرما رہے تھے کہ حضرت خواجہ محمد باقی باللّٰہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ دوسرے درویشوں کی طرح تنِ تنہا تشریف لائے ۔ جب آپ حجرے کے دروازے پر پہنچے تو خادم نے حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو بیدار کرنا چاہا مگر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے سختی سے منع فرمایا دیا اور کمرے کے باہر ہی آپ  کے جاگنے کا انتظار کرنے لگے ۔ تھوڑی ہی دیر بعد حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھ کھلی باہر آہٹ سن کر آواز دی کون ہے ؟ حضرت خواجہ باقی باللّٰہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : فقیر محمد باقی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ آواز سنتے ہی تخت سے مضطربانہ (یعنی بے قراری کے عالم میں) اٹھ کھڑے ہوئے اور باہر آکر نہایت عجز و انکساری کے ساتھ پیر صاحب کے سامنے باادب بیٹھ گئے ۔ ( زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ نمبر ۱۵۳،چشتی)


حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مرکزالاولیا لاہور میں تھے کہ 25 جُمادَی الْآخِرہ 1012ھ کو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے پیرو مرشد حضرت سیِّدُنا خواجہ محمد  باقی باللّٰہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کا دہلی میں وصال ہو گیا ۔ یہ خبر پہنچتے ہی آپ فوراً دہلی روانہ ہو گئے ۔ دہلی پہنچ کر مزارِ پرانوار کی زیارت کی ، فاتحہ خوانی اور اہلِ خانہ کی تعزیت سے فارغ ہوکر سر ہند تشریف لائے ۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ ۳۲ ، ۱۵۹) 


حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں تو قیام آگرہ کے زمانے ہی سے نیکی کی دعوت کا آغاز کردیا تھا ، لیکن  1008ھ میں حضرت خواجہ محمد باقی باللّٰہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کے بعد باقاعدہ کام شروع فرمایا۔ عہدِ اکبری کے آخری سالوں میں مرکز الاولیا لاہور اور سرہند شریف میں رہ کر خاموشی اور دور اندیشی کے ساتھ اپنے کام میں مصروف رہے اس وقت علانیہ کوشش کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا ۔ جابرانہ اور قاہرانہ حکومت کے ہوتے ہوئے خاموشی سے کام کرنا بھی خطرے سے خالی نہ تھا لیکن حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ خطرہ مول لے کر اپنی کوششیں جاری رکھیں اور نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مکی زندگی کے ابتدائی دور کو پیشِ نظر رکھا۔ جب دورِ جہانگیری شروع ہوا تو مدنی زندگی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے برملا کوشش کا آغاز فرمایا ۔


حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے نیکی کی دعوت اور لوگوں کی اِصلاح کےلیے مختلف ذرائع استعمال فرمائے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے سنتِ نبوی کی پیروی میں اپنے مریدوں ، خلفا اور مکتوبات کے ذریعے اس تحریک کو پروان چڑھایا ۔ (سیرتِ مجدِّد الفِ ثانی صفحہ۱۵۷،چشتی)


ایک مرتبہ ایک شخص حضرت حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے فلاسِفہ کی تعریف کرنے لگا ، اس کا انداز ایسا تھا کہ جس سے علمائے کرام رحمہم اللہ علیہم کی تو ہین لازم آتی تھی ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے سمجھاتے ہوئے فلاسفہ کے رد میں حضرت امام محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمانِ عالی سنایا تو وہ شخص منہ بگاڑ کر کہنے لگا : غزالی نے نامعقول بات کہی ہے ، مَعَاذَ اللہ ۔ حضرت امام محمد بن محمدبن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں گستاخانہ جملہ سن کر آپ رحمۃ اللہ علیہ کو جلال آگیا فوراً وہاں سے اٹھے اوراسے ڈانٹتے ہوئے ارشاد فرمایا : اگر اہلِ علم کی صحبت کا ذوق رکھتے ہو تو ایسی بے ادبی کی باتوں سے اپنی زبان بند رکھو ۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ ۱۳۱،چشتی)


کسی بھی مسلمان کی تحقیردنیا و آخرت دونوں ہی کےلیے نقصان دہ ہے لیکن بزرگانِ دین کی گستاخی کی سزا بعض اوقات دنیا میں ہی دی جاتی ہے تاکہ ایسا شخص لوگوں کےلیے عبرت کا سامان بن جائے ۔ چنانچہ حضرت تاج الدین عبدالوہاب بن علی سبکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ایک فقیہ (یعنی عالم دین) نے مجھے بتا یا کہ ایک شخص نے فقہ شافعی کے درس میں حضرت اما م محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ کو برا بھلا کہا ، میں اس پر بہت غمگین ہوا ، رات اسی غم کی کیفیت میں نیند آگئی ۔ خواب میں حضرت امام محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت ہوئی ، میں نے برا بھلا کہنے والے شخص کا ذکر کیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : فکر مت کیجیے ، وہ کل مر جائے گا ۔ صبح جب میں حلقہ درس میں پہنچا تو اس شخص کو ہشاش بشاش (یعنی بھلا چنگا) دیکھا مگر جب وہ وہاں سے نکلا تو گھر جاتے ہوئے راستے  میں سواری سے گرا اور زخمی ہو گیا ، سورج غروب ہونے سے قبل ہی مرگیا ۔ (اِتحافُ السّادَۃ للزَّبِیدی جلد ۱ صفحہ ۱۴،چشتی)


حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سفر میں تلاوتِ قراٰنِ کریم فرماتے رہتے ، بسا اوقات تین تین چار چار پارے بھی مکمّل فرما لیا کرتے تھے ۔ اس دوران آیتِ سجدہ آتی تو سواری سے اتر کر سجدہ تلاوت فرماتے ۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ ۲۰۷)


حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ دیگر معاملات کی طرح سونے جاگنے میں بھی سنّت کا خیال فرمایا کرتے تھے ۔ ایک بار رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تراویح کے بعد آرام کےلیے بے خیالی میں بائیں (LEFT) کروٹ پر لیٹ گئے ، اتنے میں خادم پاؤں دبانے لگا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو اچانک خیال آیا کہ دائیں (RIGHT) کروٹ پر لیٹنے کی سنّت چھوٹ گئی ہے ۔ نفس نے سستی دلائی کہ بھولے سے ایسا ہو جائے تو کوئی بات نہیں ہوتی لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ اُٹھے اور سنّت کے مطابق دائیں ( یعنی سیدھی) کروٹ پر آرام فرما ہوئے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس سنّت پر عمل کرتے ہی مجھ پر عنایات ، برکات اور سلسلے کے انوار کا ظہور ہونے لگا اور آواز آئی : سنّت پر عمل کی وجہ سے آپ کو آخرت میں کسی قسم کا عذاب نہ دیا جائے گا اور آپ کے پاؤں دبانے والے خادم کی بھی مغفرت کردی گئی ۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ ۱۸۰،چشتی)


حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار تحدیثِ نعمت کے طور پر فرمایا : ایک دن میں اپنے رفقا کے ساتھ بیٹھا اپنی کمزوریوں پر غور و فکر کر رہا تھا ، عاجزی و انکساری کا غلبہ تھا ۔ اِسی دوران بمصداقِ حدیث : مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ ، یعنی جو اللہ کےلیے انکساری کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بلندی عطا فرماتا ہے ۔ رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے خطاب ہوا : غَفَرْتُ لَکَ وَلِمَنْ تَوَسَّلَ بِکَ بِوَاسِطَۃٍ اَوْبِغَیْرِ وَاسِطَۃٍ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃ یعنی میں نے تم کو بخش دیا اور قیامت تک پیدا ہونے والے ان تمام لوگوں کو بھی بخش دیا جو تیرے وسیلے  سے بالواسطہ یا بلاواسطہ مجھ تک پہنچیں ۔ اس کے بعد مجھے حکم دیا گیا کہ میں اس بشارت کو ظاہر کر دوں ۔ (حَضَراتُ القُدْس دفتر دُوُم  صفحہ ۱۰۴)


حضرت امامِ رَبّانی ، مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے سفر و حضر کے خادم حضرت حاجی حبیب احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے ’’اجمیر شریف‘‘ قیام کے دوران ایک دن میں نے  70 ہزار بار کلمہ طیبہ پڑھا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی : میں نے 70 ہزار بار کلمہ شریف پڑھا ہے اُس کا ثواب آپ کی نذر کرتا ہوں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فوراً ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی ۔ اگلے روز فرمایا : کل جب میں دعا مانگ رہا تھا تو میں نے دیکھا : فرشتوں کی فوج اُس کلمہ طیبہ کا ثواب لے کر آسمان سے اتر رہی ہے ان کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ زمین پر پاؤں رکھنے کی جگہ باقی نہ رہی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مزید فرمایا : اس ختم کا ثواب میرے لیے نہایت مفید ثابت ہوا ۔ انہی حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے فرمایا : میں نے جو کچھ بتایا اس پر تعجب نہ کرنا ، میں اپنا حال بھی تمہیں بتاتا ہوں : میں روزانہ تہجد کے بعد پانچ سو مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنے مرحوم بچوں محمد عیسیٰ ، محمد فرخ اور بیٹی امِ کلثوم کوا یصالِ ثواب کرتا تھا ۔ ہر رات ان کی روحیں کلمہ طیبہ کے ختم کےلیے آمادہ کرتی تھیں ۔ جب تک میں تہجد کی ادائیگی کے بعد کلمہ طیبہ کا ختم نہ کرلیتا وہ روحیں میرے اِرد گِرد اسی طرح چکر لگاتی رہتی جیسے بچے روٹی کےلیے ماں کے گِرد اُس وقت تک منڈلاتے رہتے ہیں جب تک انہیں روٹی نہ مل جائے ۔ جب میں کلمہ طیبہ کا ایصالِ ثواب کر دیتا تو وہ روحیں واپس لوٹ جاتیں ۔ مگر اب کثر تِ ثواب کی وجہ سے وہ معمور ہیں اور اب اُن کا آنا نہیں ہوتا ۔ (حَضَراتُ القُدْس دفتر دُوُم  صفحہ ۹۵)


حضرت حاجی حبیب احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جس دن میںنے حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو کلمہ طیبہ کا ثواب نذر کیا اسی دن سے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے لیے ایک ہزار دانے والی تسبیح بنوائی اور تنہائی میں اس پرکلمہ طیبہ کا ورد فرمانے لگے ۔ شبِ جمعہ کو خاص طور پر مریدین کے ہمراہ اُسی تسبیح پر ایک ہزار دُرُود شریف کا وِرد فرمایا کرتے ۔ (حَضَراتُ القُدْس دفتر دُوُم صفحہ نمبر ۹۶،چشتی)


امام ربّانی ، حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : پہلے اگر میں کبھی کھانا پکاتا تو اس کا ثواب نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ و امیرُالْمُؤمِنِین حضرت علی و حضرت خاتون جنت فاطمۃ الزہرا و حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کی ارواح مقدسہ کےلیے ہی خاص ایصال ثواب کرتا تھا ۔ ایک رات خواب میں دیکھا کہ جناب رسالت مآب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   تشریف فرما ہیں ۔ میں نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی خدمت بابرکت میں سلام عرض کیا تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میری جانب  متوجہ نہ ہوئے اور چہرہ انور دوسری جانب پھیر لیا اور مجھ سے فرمایا : میں عائشہ کے گھر کھانا کھاتا ہوں ، جس کسی نے مجھے کھانا بھیجنا ہو وہ (حضرت) عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر بھیجا کرے ۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے توجہ نہ فرمانے کا سبب یہ تھا کہ میں اُمُّ الْمؤمِنین حضرت عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہا کو شریک طعام ( یعنی ایصال ثواب) نہ کرتا تھا ۔ اس کے بعد سے میں حضرت عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہا بلکہ تمام اُمَّہاتُ الْمؤمِنین رَضِیَ اللہُ عَنْہُنَّ کو بلکہ سب اہل بیت کو شریک کیا کرتا ہوں اور تمام اہل بیت کو اپنے لیے وسیلہ بناتا ہوں ۔(مکتوباتِ امام ربّانی دفتر دوم حصہ ششم مکتوب نمبر ۳۶ جلد ۲ صفحہ ۸۵)


اس سے معلوم ہوا کہ جن کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے ان کو پہنچ جاتا ہے یہ بھی پتا چلا کہ ایصال ثواب محدود بزرگوں کو کرنے کے بجائے سبھی کو کر دینا چاہیے ۔ ہم جتنوں کو بھی ایصال ثواب کریں گے سبھی کو برابر برابر ہی پہنچے گا اور ہمارے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی ۔ یہ بھی پتا چلا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہا سے بے حد اُنسیت رکھتے ہیں ۔ ’’بخاری‘‘ شریف کی روایت ہے ، حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ عَنْہ جب’’ غزوۂ سلاسل‘‘ سے واپس لوٹے تو انہوں نے عرض کی : یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ کو تمام لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے ؟ فرمایا : (عورتوں میں) عائشہ ۔ انہوں نے پھر عرض کی : مردوں میں ؟ فرمایا : ان کے والد (یعنی حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ) ۔ (بخاری جلد ۲ صفحہ ۵۱۹ حدیث ۳۶۶۲) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔