امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مولانا حافظ شاہ محمد احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کا سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بن مولانا نقی علی خاں بن مولانا رضا علی خاں بن حافظ کاظم علی خاں بن شاہ محمد اعظم خاں بن شاہ محمد سعادت یار خاں بن شاہ محمد سعید ﷲ خاں علیہم الرحمۃ آپ کے جد اعلیٰ حضرت شاہ محمد سعید ﷲ خاں علیہ الرحمہ قندھار افغانستان کے قبیلہ بڑھیچ کے پٹھان تھے مغلیہ دور حکومت میں لاہور تشریف لائے اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے، لاہور کا شیش محل ان کی جاگیر تھا، لاہور سے آپ دہلی تشریف لائے آپ کی بہادری پر آپ کو شجاعت جنگ کا خطاب بھی ملا،ان کے صاحبزادہ حضرت شاہ محمد سعید یار خاں علیہ الرحمہ کو مغلیہ سلطنت نے ایک جنگی مہم سر کرنے روہیل کھنڈ بھیجا جس میں آپ نے فتح پائی اور پھر یہیں آپ کا وصال ہوا ان کے صاحبزادے حضرت مولانا محمد اعظم خان علیہ الرحمۃ پہلے تو حکومتی عہدہ پر فائز رہے لیکن پھر امور سلطنت سے سبکدوشی حاصل کرکے عبادت و ریاضت میں مشغول رہنے لگے اور آپ نے شہر بریلی کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنالیا۔ اس شہرِ بریلی میں مولانا شاہ محمد نقی علی خاں علیہ الرحمہ کے یہاں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی ولادت ہوئی اور آج تک آپ کے خاندان کے افراد یہیں آباد ہیں ۔
اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مولانا حافظ شاہ محمد احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی ولادت ۱۰ شوال المکرم ۱۲۷۲ھ بمطابق ۱۴؍ جون ۱۸۵۶ء بروز ہفتہ بوقت ظہر، محلہ جسولی بریلی شریف انڈیا میں ہوئی۔ آپ کا نام محمد رکھا گیا جبکہ آپ کے جد امجد حضرت علامہ رضا علی خان علیہ الرحمہ نے ’’احمد رضا‘‘ تجویز فرمایا اور تاریخی نام المختار (۱۲۷۲ھ) ہوا، جبکہ خود اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے،غلامی رسول کے اظہار کیلئے اپنے نام سے پہلے عبد المصطفیٰ کا اضافہ فرمایا اور اپنا سن ولادت اس آیت مبارکہ سے نکالا : اولئک کتب فی قلوبھم الایمان وایدیھم بروح منہ ۔ (سورہ مجادلہ، آیت۲۲، پارہ ۲۸) ۔ ’’ یعنی یہ ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں ﷲ نے ایمان نقش فرمادیا ہے اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد فرمائی ہے‘‘۔
خود ہی ارشاد فرماتے ہیں : بحمدﷲ تعالیٰ بچپن سے مجھے نفرت ہے اعداء ﷲ سے، اور میرے بچوں کو بھی بفضل ﷲ تعالیٰ عداوت ِ اعداء ﷲ گھٹی میں پلا دی گئی ہے اور بفضلہ تعالیٰ یہ وعدہ بھی پوا ہوا اولئک کتب فی قلوبھم الایمان بحمدﷲ تعالیٰ اگر میرے قلب کے دو ٹکڑے کئے جائیں تو خدا کی قسم ایک پر لکھا ہوگا لا الہ الا ﷲ (جل جلالہ) دوسرے پر لکھا ہوگا محمد رسول ﷲ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور اس پر مستزادیہ تمنا کہ : ⬇
کروں تیرے نام پہ جاں فدا
نہ بس ایک جاں دوجہاں فدا
دوجہاں سے بھی نہیں جی بھرا
کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں
اور پھر اپنے اجداد کی فضیلت اور برکات کا ذکر اس طرح فرماتے ہیں : یہ سب برکات ہیں حضرت جد امجد علیہ الرحمہ کی، قرآن عظیم میں خضر علیہ السلام کے واقعہ میں ہے کہ دو یتیم ایک مکان میں رہتے تھے اس کی دیوار گرنے والی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا، خضر علیہ السلام نے اس دیوار کو سیدھا کردیا۔ اس واقعہ کو فرمایا جاتا وکان ابوھما صالحا (سورہ کہف آیت ۸۲، پارہ۱۶)یعنی ان کا باپ نیک آدمی تھا، اس کی برکت سے یہ رحمت کی گئی۔ حضرت عبدﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہما فرماتے ہیں وہ باپ ان کی چودہویں پشت میں تھا صالح باپ کی یہ برکات ہوتی ہیں تو یہاں تو ابھی تیسری ہی پشت ہے دیکھئے کب تک برکات اس سلسلہ میں ہیں ۔ (الملفوظ حصہ سوم،چشتی)
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے ابتدائی تعلیم کچھ حضرت مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ سے اور اکثر کتب اپنے والد ماجد حضرت مولانا محمد نقی علی خاں علیہ الرحمہ سے پڑھیں، نیز چند ایک کتب کادرس حضرت مولانا سید ابوالحسین احمد نوری اور حضرت مولانا عبدالعلی رامپوری علیہ الرحمہ سے بھی لیا۔
آپ نے اپنے والد ماجد اور اساتذہ سے مندرجہ ذیل اکیس علوم کی تعلیم حاصل کی۔
۱…علم قرآن، ۲…علم تفسیر، ۳…علم حدیث، ۴…اصول حدیث، ۵…کتب فقہ حنفی، ۶…کتب فقہ شافعی و مالکی و حنبلی، ۷…اصولِ فقہ، ۸…جدلِ مہذب، ۹…علم العقائد والکلام(جومذاہب باطلہ کی تردید کے لئے ایجاد ہوا)، ۱۰…علم نحو، ۱۱…علم صرف، ۱۲…علم معانی، ۱۳…علم بیان، ۱۴…علم بدیع، ۱۵…علم منطق، ۱۶…علم مناظرہ، ۱۷…علم فلسفہ مدلسہ، ۱۸…ابتدائی علم تکسیر، ۱۹…ابتدائی علم ہیئت، ۲۰…علم حساب تا جمع، تفریق، ضرب، تقسیم،۲۱…ابتدائی علم ہندسہ۔(سوانح اعلیٰ حضرت صفحہ ۹۸،چشتی)
جبکہ مندرجہ ذیل علوم آپ نے بغیر کسی استاد محض اپنی خداداد ذہانت اور صلاحیت سے حاصل کیے : ⬇
۲۲…قرأت، ۲۳…تجوید، ۲۴…تصوف، ۲۵…سلوک، ۲۶…علم اخلاق، ۲۷…اسماء الرجال، ۲۸…سیر، ۲۹…تواریخ، ۳۰…لغت، ۳۱…ادب مع جملہ فنون، ۳۲…ارثماطیقی، ۳۳…جبرومقابلہ، ۳۴…حساب ستینی، ۳۵…لوغارثمات(لوگارثم)، ۳۶…علم التوقیت، ۳۷…مناظرہ، ۳۸…علم الاکر، ۳۹…زیجات، ۴۰…مثلث کُروی، ۴۱…مثلث مسطح، ۴۲…ہیئت جدیدہ(انگریزی فلسفہ)، ۴۳…مربعات، ۴۴…منتہی علم جفر، ۴۵…علم زائرچہ، ۴۶…علمِ فرائض، ۴۷…نظم عربی، ۴۸… نظم فارسی، ۴۹… نظم ہندی، ۵۰…انشاء نثر عربی، ۵۱…انشاء نثر فارسی، ۵۲…انشاء نثر ہندی، ۵۳…خط نسخ، ۵۴…خط نستعلیق، ۵۵…منتہی علم حساب، ۵۶…منتہی علم ہیئت، ۵۷…منتہی علم ہندسہ، ۵۸…منتہی علم تکسیر، ۵۹…علم رسم خط قرآن مجید۔(سوانح اعلیٰ حضرت صفحہ ۹۹)
مذکورہ بالا 59 علوم و فنون میں سے پچاس فنون پر آپ کی تصانیف موجود ہیں ذہانت کا یہ عالم تھا کہ دورانِ تعلیم صرف آٹھ برس کی عمر میں علم نحو کی کتاب ہدایت النحو کی شرح عربی زبان میں لکھ دی۔ اور محض تیرہ سال دس ماہ اور پانچ دن کی عمر شریف میں مروجہ علوم و فنون کی تکمیل کرکے ۱۴؍ شعبان ۱۲۸۶ھ بمطابق ۱۹؍ نومبر ۱۸۶۹ء کو سند فراغت حاصل کی، اسی روز مسئلہ رضاعت پر ایک فتویٰ تحریر فرماکر والد ماجد کی خدمت میں پیش کیا، والد ماجد نے لائق اور ذہین بیٹے کی تحریر اور فتویٰ ملاحظہ فرما کر تحسین فرمائی اوراس دن سے فتویٰ نویسی کی خدمت آپ کے سپرد کردی ۔ دینی علوم کے علاوہ دنیاوی علوم میں بھی آپ کو وہ مہارت حاصل تھی کہ بڑے بڑے ماہر فن آپ کے سامنے طفل مکتب نظر آتے تھے چنانچہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر جنہوں نے ہندوستان کے علاوہ یورپ کے ممالک میں تعلیم پائی تھی اور ریاضی میں کمال حاصل کیا تھا اور ہندوستان میں کافی شہرت رکھتے تھے اتفاق سے ان کو ریاضی کے کسی مسئلہ میں اشتباہ ہوا ۔ ہر چند کوشش کی مگر وہ مسئلہ حل نہ ہوا، چونکہ صاحبِ حیثیت تھے اور علم کے شائق، اس لئے قصد کیا کہ جرمن جاکر اس کو حل کریں۔ حسن اتفاق سے انہوں نے حضرت مولانا سید سلیمان اشرف صاحب بہاری پروفیسر دینیات مسلم یونیورسٹی سے اس کا ذکر کیا۔ مولانا نے مشورہ دیا کہ آپ بریلی جاکر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا سے دریافت کیجیے ان شاءﷲ تعالیٰ وہ ضرور حل کر دیں گے، وائس چانسلر صاحب نے کہا کہ مولانا یہ آپ کیا فرمارہے ہیں میں کہاں کہاں تعلیم پاکر نہیں آیا ہوں اور حل نہ کرسکااور آپ ان صاحب کا نام لیتے ہیں جنہوں نے غیر ممالک میں تو کجا اپنے شہر کے کالج میں بھی تعلیم حاصل نہ کی وہ بھلا کیا حل کرسکتے ہیں۔ دو چار روز کے بعد مولانا سید سلیمان اشرف صاحب نے ان کو پریشان دیکھ کر دوبارہ یہی مشورہ دیا لیکن وائس چانسلر صاحب نے کہا وہ کیا حل کرسکتے ہیں اور یورپ جانے کا سامان شروع کردیا۔ مولانا موصوف نے جب تیسری بار بریلی جانے کو فرمایا تو وہ غصہ بھرے لہجے میں بولے کہ مولانا عقل بھی کوئی چیز ہے۔ آپ مجھے کیسی رائے دے رہے ہیں۔ اس پر مولانا نے فرمایا آخر اس میں حرج ہی کیا ہے۔ اتنے بڑے سفر کے مقابلے میں بریلی جانا تو کوئی چیز نہیں۔ علی گڑھ سے سیدھی گاڑی جاتی ہے چند گھنٹے کا سفر ہے آپ وہاں ہو تو آئیے پھر تو ان کی سمجھ میں بھی بات آگئی۔ چنانچہ مولانا سید سلیمان اشرف صاحب ان کو لے کر مارہرہ شریف پہنچے اور وہاں سے اعلیٰ حضرت کے پیر زادہ والا درجت حضرت سید مہدی حسن صاحب سجادہ نشین کو لیکر بریلی شریف اعلیٰ حضرت کے دولتکدہ پر پہنچے اعلیٰحضرت نے مزاج پرسی فرمائی اور آنے کی غرض دریافت کی، وائس چانسلر صاحب نے بتایا کہ میں ریاضی کا ایک مسئلہ پوچھنے آیا ہوں۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا پوچھئے، وائس چانسلر صاحب نے کہاکہ وہ ایسی بات نہیں ہے جسے میں اتنی جلدی عرض کردوں اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ کچھ تو کہیے،وائس چانسلر صاحب نے مسئلہ بتایا تواعلیٰ حضرت نے سنتے ہی فرمایا کہ اس کا جواب یہ ہے۔ یہ سن کر ان کو حیرت ہوگئی اور گویا آنکھ سے پردہ اٹھ گیا۔ بے اختیار بول اُٹھے کہ میں سنا کرتا تھا کہ عِلْمِ لَدُنِّی بھی کوئی چیز ہے۔ آج آنکھ سے دیکھ لیا میں تو اس مسئلہ کے حل کےلیے جرمن جانا چاہتا تھا کہ ہمارے پروفیسر صاحب جناب مولانا سید سلیمان اشرف صاحب نے میری رہبری فرمائی مجھے جواب سن کر تو ایسا معلوم ہورہا ہے گویا جناب اسی مسئلہ کو کتاب میں دیکھ رہے تھے۔ سنتے ہی فی البدیہہ تشفی بخش نہایت اطمینان کا جواب دیا۔ پھر وائس چانسلر صاحب بہت شاداں و فرحاں علیگڑھ واپس ہوئے۔(سوانح اعلیٰ حضرت صفحہ ۱۱۱تا ۱۱۳،چشتی)
فنِ توقیت میں جو آپ ملکہ حاصل تھا اس کا ذکر حضرت علامہ بدر الدین احمد اسطرح کرتے ہیں فن توقیت میں اعلیٰ حضرت کے کمال کایہ عالم تھا کہ سورج آج کب نکلے گا اور کس وقت ڈوبے گا اسکو بلاتکلف معلوم کرلیتے، ستاروں کی معرفت اور ان کی چال کی شناخت پر اس قدر عبور تھا کہ رات میں تارا اور دن میں سورج دیکھ کر گھڑی ملالیا کرتے اور وقت بالکل صحیح ہوتا ایک منٹ کا بھی فرق نہ پڑتا ۔
۱۲۹۱ھ میں آپ کی شادی ہوئی، آپ کے یہاں دو صاحبزادے،حجۃ الاسلام حضرت علامہ مولانا شاہ محمد حامد رضا خاں اور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مولانا شاہ محمد مصطفی رضا خاں علیہماالرحمہ اور پانچ صاحبزادیاں تولد ہوئیں ۔
۱۲۹۵ھ میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ اپنے والد ماجد حضرت علامہ نقی علی خاں علیہ الرحمہ کے ہمراہ مارہرہ شریف گئے اور وہاں حضرت علامہ مولانا سید شاہ آل رسول احمدی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ آپ کے پیرومرشد نے بیعت فرماتے ہی آپ کو تمام سلاسل کی اجازت و خلافت عطا فرمائی ۔
تحصیل علم کے فوراً بعد آپ نے تدریس اور افتاء کی طرف توجہ فرمائی۔ چونکہ بریلی شریف میں اسوقت کوئی مدرسہ نہیں تھا چنانچہ طلباء اعلیحضرت علیہ الرحمہ کی طرف رجوع کرتے، انہیں دنوں کاایک واقعہ ملک العلماء حضرت علامہ محمدظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ اپنی تصنیف ’’حیات اعلیٰ حضرت ‘‘ میں اس طرح بیان فرماتے ہیں : اسی زمانے کا ایک واقعہ جناب مولوی محمد شاہ خاں عرف نتھن خاں صاحب بیان فرماتے تھے کہ ایک دن تین طالب علم نئے آئے اور اعلیٰحضرت سے پڑھنے کا ارادہ ظاہر کیا، میں نے دریافت کیا کہ کہاں سے آپ لوگ آئے ہیں، اس سے پہلے کہاں پڑھتے تھے وہ لوگ بولے دیوبند میں پڑھتے تھے وہاں سے گنگوہ گئے، اس کے بعد یہاں آئے ہیں میں نے کہا کہ یوں تو طلباء کو یہ مرض ہوتا ہے کہ وہاں پڑھائی بہتر ہے اسی لیے ایک جگہ جم کر بہت کم پڑھتے ہیں بلکہ دوچار جگہ جاکر ضرور دیکھا کرتے ہیں، مگر یہ عموماً ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں کی تعریف انسان سنتا ہے لیکن میرے خیال میں یہ بات نہیں آتی کہ آپ لوگوں نے دیوبند یا گنگوہ میں بریلی کی تعریف سنی ہو، اور اس وجہ سے یہاں کے مشتاق ہوکر تشریف لائے ہوں۔ بولے یہ آپ ٹھیک کہتے ہیں،اختلاف مذہب واختلاف خیال کی وجہ سے اکثر تو بریلی کی برائی ہی ہوا کرتی تھی،مگر ٹیپ کا بندیہ ضرور ہوتا کہ قلم کا بادشاہ ہے جس مسئلہ پر قلم اٹھادیا پھر کسی کی مجال نہیں کہ ان کے خلاف کچھ لکھ سکے، یہی دیوبند میں سنا اور یہی گنگوہ میں بھی۔ تو ہم لوگوں کے دلوں میں شوق وذوق ہوا کہ وہیں چل کر علم حاصل کرنا چاہیے جن کے مخالفین، فضل وکمال کی گواہی دیتے ہیں ۔
۱۲۹۵ھ میں اعلیٰ حضرت اپنے والد ماجد کے ہمراہ حج بیت اللہ کےلیے تشریف لے گئے،جہاں آپ نے اکابر علماء عرب سے سند حدیث حاصل فرمائی، ایک دن آپ مقام ابراہیم پر نماز ادا فرمارہے تھے کہ نماز کے بعد امام شافعیہ حضرت حسین بن صالح جمال اللیل نے بغیر کسی تعارف کے آپ کا ہاتھ تھاما اور اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے اور دیر تک آپ کی پیشانی پکڑ کر فرمایا : اِنِّیْ لَاَجِدُ نُوْرَ اللّٰہِ فِیْ ھٰذَا الْجَبِیْنِ ۔ ’’بیشک میں اللہ کا نور اس پیشانی میں پاتا ہوں‘‘۔
اور صحاح ستہ اور سلسلہ قادریہ کی اجازت اپنے دست مبارک سے لکھ کر عنایت فرمائی، اس سند کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اسمیں امام بخاری تک فقط گیارہ واسطے ہیں ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت صفحہ نمبر ۱۳۳،چشتی)
دوسرا حج آپ نے ۱۳۲۳ھ میں اپنی اہلیہ،برادر اصغر حضرت مولانا محمد رضاخاں اور فرزند اکبر حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضا خاں علیہم الرحمہ کے ساتھ فرمایا،اس بار جب مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو شوق دیدار میں دیر تک مواجہہ اقدس کے سامنے درود شریف پڑھتے رہے، اس یقین کے ساتھ کہ سرکار ابدقرار عزت افزائی فرمائیں گے۔ لیکن پہلی شب ایسانہ ہوا تو کچھ کبیرہ خاطر ہو کر ایک غزل لکھی جس کا مطلع یہ ہے : ⬇
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
اس کے مقطع میں اسی تڑپ کی طرف اشارہ کیا فرماتے ہیں : ⬇
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضاؔ
تجھ سے کِتے ہزار پھرتے ہیں
یہ غزل مواجہہ اقدس میں عرض کرکے انتظار میں مؤدب بیٹھے تھے کہ قسمت جاگ اٹھی اور چشم سر سے بیداری میں سرکار ابدِقرار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔
اتباع شریعت کا اس قدر التزام فرماتے کہ فرائض اور واجبات تو کجا سنن اور مستحبات پر بھی ہر ممکن عمل فرماتے چنانچہ سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے کہ ایک روز فجر کی نماز پڑھانے کیلئے آنے میں اعلیٰ حضرت کو کچھ دیر ہوگئی،نمازیوں کی نگاہیں باربار کا شانہ اقدس کی اٹھ رہی تھیں،اسی اثناء میں اعلیٰ حضرت جلد جلد تشریف لائے، اس وقت قناعت علی صاحب نے مجھ پراپنا یہ خیال ظاہر کیا کہ اس تنگ وقت میں دیکھنا یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت مسجد میں پہلے دایاں قدم رکھتے ہیں یا بایاں،مگر قربان اس ذات کے کہ دروازئہ مسجد کے زینے پر جس وقت قدم مبارک پہنچا ہے تو سیدھا، توسیعی فرشِ مسجد پر قدم پہنچتا ہے تو دایاں اور اسی پربس نہیں ہر صف پر تقدیم داہنے ہی قدم سے فرمائی یہاں تک کہ محراب میں مصلے پر قدم پاک سیدھا ہی پہنچتا ہے اور اسی پر کہاں منحصر ہے بینی پاک کرنے اور استنجاء فرمانے کے سوا حضور کے ہر فعل کی ابتداء سیدھے ہی جانب سے ہوتی تھی
اگر کسی کو کوئی شے دینا ہوتی اور اس نے الٹاہاتھ لینے کو بڑھایا،فوراً اپنا دست مبارک روک لیتے اور فرماتے سیدھے ہاتھ میں لیجیے ، الٹے ہاتھ سے شیطان لیتا ہے ۔
اعدادِ بسم اللہ شریف ۷۸۶ عام طور سے لوگ جب لکھتے ہیں تو ابتدا ’’۷‘‘ سے کرتے ہیں پھر’’۸‘‘ لکھتے ہیں اس کے بعد ’’۶‘‘مگر اعلیٰحضرت علیہ الرحمہ سیدھی طرف سے ابتداء کرتے ہوئے پہلے ’’۶‘‘تحریر فرماتے پھر ’’۸‘‘اور اس کے بعد’’۷‘‘تحریر فرماتے ۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بے مثال قوت حافظہ عطا فرمائی تھی چنانچہ حضرت علامہ محمد ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : اعلیٰ حضرت ایک مرتبہ پیلی بھیت تشریف لے گئے اور حضرت استاذی مولانا وصی احمد محدث سورتی قدس سرہ کے مہمان ہوئے۔ اثنائے گفتگو میں عقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامیہ کا ذکر نکلا۔ حضرت محدث سورتی صاحب نے فرمایا!میرے کتب خانہ میں ہے۔ اتفاق ہے کہ اعلیٰ حضرت کے کتب خانہ میں کتابوں کا کافی ذخیرہ تھا، اور ہر سال معقول رقم کی نئی نئی کتابیں آیا کرتی تھیں۔ مگر اس وقت تک عقود الدریہ منگوانے کا اتفاق نہ ہواتھا، اعلیٰ حضرت نے فرمایا!میں نے نہیں دیکھی ہے،جاتے وقت میرے ساتھ کردیجئے گا۔ حضرت محدث سورتی صاحب نے بخوشی قبول کیا، اور کتاب لاکر حاضر کردی۔ مگر ساتھ ساتھ فرمایا کہ جب ملاحظہ فرمالیں تو بھیج دیجئے گا۔ اسلئے کہ آپ کے یہاں تو بہت کتابیں ہیں۔ میرے پاس یہی گنتی کی چند کتابیں ہیں،جن سے فتویٰ دیا کرتا ہوں۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا!اچھا۔اعلیٰ حضرت کا قصد اسی دن واپسی کا تھا،مگرا علیٰ حضرت کے ایک جاں نثار مرید نے حضرت کی دعوت کی، اس وجہ سے رک جانا پڑا۔ شب کو اعلیٰ حضرت نے عقود الدریہ کو جو ایک ضخیم کتاب دوجلدوں میں تھی،ملاحظہ فرمالیا۔ دوسرے دن دوپہر کے بعد ظہر کی نماز پڑھ کرگاڑی کا وقت تھا۔ بریلی شریف روانگی کا قصد فرمایا۔جب اسباب درست کیا جانے لگا تو عقود الدریہ کو بجائے سامان میں رکھنے کے فرمایا کہ محدث صاحب کو دے آؤ، مجھے تعجب ہوا کہ قصد لے جانے کا تھا، واپس کیوں فرمارہے ہیں؟ لیکن کچھ بولنے کی ہمت نہ ہوئی۔ حضرت محدث سورتی صاحب کی خدمت میں میں نے حاضر کی،وہ اعلیٰ حضرت سے ملنے اور اسٹیشن تک ساتھ جانے کےلیے اپنے مکان سے تشریف لاہی رہے تھے کہ میں نے اعلیٰ حضرت کا ارشاد فرمایا ہوا جملہ عرض کیا ، فرمایا!تم کتاب لیے میرے ساتھ واپس چلومیں اس کتاب کولیے ہوئے حضرت محدث صاحب کے ساتھ واپس ہوا۔ حضرت محدث صاحب نے اعلیٰ حضرت سے کہا کہ میرا یہ کہنا کہ ’’جب ملاحظہ فرمالیں تو بھیج دیجئے گا‘‘ملال ہوا کہ اس کتاب کو واپس کیا۔ فرمایا!قصد بریلی ساتھ لے جانے کا تھا، اور اگر کل ہی جاتا تو اس کتاب کو ساتھ لیتا جاتا۔ لیکن جب کل جانا نہ ہوا تو شب میں اور صبح کے وقت پوری کتاب دیکھ لی اب لے جانے کی ضرورت نہ رہی۔ حضرت محدث سورتی صاحب نے فرمایا! بس ایک مرتبہ دیکھ لینا کافی ہوگیا؟اعلیٰ حضرت نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے امید ہے کہ دوتین مہینہ تک توجہاں کی عبارت کی ضرورت ہوگی،فتاویٰ میں لکھ دوں گا اور مضمون تو انشاء اللہ عمر بھر کیلئے محفوظ ہوگیا‘‘۔
(حیاتِ اعلیٰ حضرت،چشتی)
نیز ایک روز ارشاد فرمایا کہ بعض ناواقف لوگ میرے نام کے ساتھ حافظ لکھ دیا کرتے ہیں حالانکہ میں حافظ نہیں ہوں،ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر کوئی حافظ صاحب کلام پاک کا ایک رکوع ایک بار پڑھ کرسنادیں وہ مجھے یاد ہوجائیگا، وہ دوبارہ مجھ سے سن لیں،یہ کہہ کر اسی دن سے دور شروع فرمادیا اور تیس دن میں تیس پارے سنادیئے۔یوں ایک ماہ میں پورا قرآن مجید حفظ کرلیا۔
علم ریاضی میں مہارت:
علم ریاضی میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی مہارت کا ایک واقعہ تو پڑھ چکے اسی کتاب سے ایک اور واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیں : ⬇
ایک مرتبہ ڈاکٹر ضیاء الدین احمد صاحب وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے علم المربعات کا ایک سوال اخبار دبدبۂ سکندری رامپور میں شائع کرایا کہ کوئی ریاضی دان صاحب اس کا جواب دیں، اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے جب ملاحظہ فرمایا تو اس کا جواب تحریر فرمایا اور ساتھ ساتھ اسی فن کا ایک سوال بھی جواب کے لئے تحریر فرمایا۔ وہ جواب اور پھر سوال چھپا تو ڈاکٹر صاحب کو حیرت ہوئی کہ ایک عالم دین بھی اس علم کو جانتا ہے چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے اس کا جواب اخبار دبدبۂ سکندری میں چھپوایا، اتفاق سے وہ جواب غلط تھا، اعلیٰ حضرت نے اس کی تغلیط کی، متحیر تو ڈاکٹر صاحب پہلے ہی تھے اب ان کو سخت تعجب ہوا کہ ایک عالم دین صرف جانتا ہی نہیں بلکہ اس میں کمال رکھتا ہے یہ دیکھ کر ڈاکٹر صاحب کو اعلیٰ حضرت سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ چنانچہ خط کے ذریعہ اعلیٰ حضرت سے اجازت طلب کرکے ڈاکٹر صاحب بریلی شریف حاضر ہوئے۔ اعلیٰ حضرت نے اپنا ایک قلمی رسالہ جس میں اکثر اشکال مثلث اور دوائر کے بنے تھے، ڈاکٹر صاحب کو دکھایا، ڈاکٹر صاحب نے نہایت حیرت اور استعجاب سے اسے دیکھا اور بالآخر فرمایا کہ میں نے اس علم کو حاصل کرنے کے لئے غیر ممالک کے اکثر سفر کئے، مگر یہ باتیں کہیں بھی حاصل نہ ہوئیں میں تو اپنے آپ کو بالکل طفل مکتب سمجھ رہا ہوں، مولانا یہ تو فرمائیے آپ کا اس فن میں استاد کون ہے، اعلیٰ حضرت نے ارشاد فرمایا، میرا کوئی استاد نہیں ہے، میں نے اپنے والد ماجد علیہ الرحمہ سے صرف چار قاعدے جمع، تفریق، ضرب، تقسیم محض اس لئے سیکھے کہ ترکہ کے مسائل میں ان کی ضرورت پڑتی ہے، شرح چغمینی شروع کی تھی کہ حضرت والد ماجد نے فرمایا، کیوں اپنا وقت اس میں صرف کرتے ہو، مصطفی پیارے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سرکار سے یہ تم کو خود ہی سکھا دیئے جائیں گے۔ چنانچہ یہ جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں سرکار رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کرم ہے ۔
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے غلبہ علم کا یہ عالم تھا کہ جب صدرالشریعہ بدرالطریقہ مولانا حکیم محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ مصنف بہارِ شریعت نے قرآن مجید کے صحیح اردو ترجمہ کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے عرض کی تو اعلیٰ حضرت نے کثیر مشاغل دینیہ کی وجہ سے فرصت نہ پاتے ہوئے فرمایا کہ اتناوقت تو نہیں لیکن شام میں کاغذ قلم اور دوات لیکر آجایا کریں۔ چنانچہ حضرت صدرالشریعہ حاضر ہوجاتے اور جتنا ممکن ہوتا اعلیٰ حضرت بغیر کسی تفسیر و لغت کے فی البدیہہ ترجمہ ارشاد فرماتے جاتے، جیسے کوئی حافظ قرآن فر فر قرآنی آیات پڑھتا جاتا ہے بعد میں صدرالشریعہ اس ترجمہ کو دیگر تفاسیر سے ملاتے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ اعلیٰ حضرت کا یہ فی البدیہہ ترجمہ معتبر تفاسیر کے عین مطابق ہے ۔
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے تقریباً 50 علوم وفنون پر ایک ہزار سے زائد کتب تصنیف فرمائیں۔ ان علوم میں سے بعض تو ایسے ہیں کہ جن کے آپ موجد تھے اور بعض ایسے کہ آپ کے وصال کے بعد اب ان علوم کی ادنی معلومات رکھنے والا بھی کوئی نظر نہیں آتا۔ نیز مختلف فنون کی ڈیڑھ سو کے قریب مشہور کتابوں پر آپ نے حواشی تحریر فرمائے جو کسی طرح بھی مستقل تصانیف سے کم نہیں۔
آپ کا ترجمہ قرآن کنزالایمان،آپ کی قرآن فہمی کا بین ثبوت ہے، جبکہ میدان فقاہت اور تحقیق میں آپ کا عظیم علمی شاہکار آپ کا مجموعہ فتاویٰ،العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ،جو پرانی طباعت میں جہازی سائز کی ۱۲ جلدوں پر مشتمل اور کئی ہزار صفحات پر پھیلاہوا ہے جبکہ جدید طباعت میں 26 جلدوں پر مشتمل ہے۔ آپ کے فتاویٰ کو دیکھ کر مکہ مکرمہ کے جلیل القدر عالم دین حضرت مولانا سید اسماعیل بن سید خلیل علیہماالرحمہ کو کہنا پڑا کہ!’’اگر امام اعظم ابوحنیفہ اس ہستی کو دیکھتے تو اپنے اصحاب میں شامل فرمالیتے ۔ اور آپ تیسرا شاہکار آپ کا مجموعہ نعت’’حدائق بخشش‘‘ہے جو فن شاعری میں اپنی مثال آپ ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ کو جتنے بھی علوم حاصل تھے ان میں سے بہت کم حصہ کسبی تھا اکثر علوم وفنون وہبی اور عطائی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کیسا ہی سوال آتا، چاہے اس کا تعلق لوگار تھم ، فلکیات،ارضیات،معدنیات، طب،معاشیات،بنکاری، جغرافیہ ، عمرانیات کسی شعبہ سے ہوتا یہ نہ کہا جاتا کہ اس شعبہ سے ہمارا تعلق نہیں،بلکہ اس کا ایسا تسلی بخش جواب دیاجاتا کہ اس فن کے ماہر دیکھ کر حیران رہ جاتے۔ اور اس طرح نہ صرف لوگوں کی رہنمائی فرمائی بلکہ اس دور میں اٹھنے والے فتنوں کا سد باب کیا جبکہ اس وقت مسلمانان پاک وہند کے مذہبی ، سیاسی،معاشی اور تمدنی نظریات وروایات پر تابرتوڑ حملے کئے جارہے تھے ایک طرف برسہا برس سے قائم مسلمانوں کے عقائد اور معمولات کو کفر اور شرک ٹھہرایا جانے لگا ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے نئے معنی وضع کیے جا رہے تھے،کہیں قرآن پر کہیں حدیث پر کہیں ائمہ دین پر تو کہیں اولیاء کاملین پر اعتراضات کئے جارہے تھے تو دوسری طرف مسلمانوں کو ہندؤوں کے قریب لاکر ہندوؤں کی خوشنودی کیلئے گائے کی قربانی ترک کرکے شعار اسلامی کو مٹانے کی کوشش کی جارہی تھی ، تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات کے پردہ میں مسلمانوں کو بے دست وپاکیا جارہا تھا،تحریک ہجرت چلاکر مسلمانوں کو ان کی زمینوں اور جائیدادوں سے محروم کیاجارہا تھا،انگریزی اور ہندوانہ تہذیب کو مسلط کیاجارہا تھا اور جب گاندھی نے متحدہ قومیت کا نعرہ لگایا تو بڑے بڑے نامور لوگ اس سازش کو نہ سمجھ سکے اور گاندھی کی آندھی میں بہہ گئے۔اس وقت اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مولانا شاہ احمد رضاخاں محدث بریلوی علیہ الرحمہ ہی تھے جنہوں نے دوقومی نظریہ کا علم بلند کیا،اور اپنی مجددانہ شان کے ساتھ ان اعداء دین وملت کو اسطرح للکارا کہ : ⬇
کلک رضا ہے خنجر خون خوار برق بار
اعداء سے کہدو خیر منائیں نہ شرکریں
غرض یہ کہ ہر محاذ پر آپ نے باطل اور فتنہ پرور لوگوں اور جماعتوں کا تن تنہا ڈٹ کر مقابلہ کیا، اور چومکھی لڑائی لڑی۔
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے وہ وہ کار ہائے نمایاں انجام دیے کہ جس کی مثال نہیں ملتی یہی وجہ ہے کہ چوٹی کے علماء عرب وعجم نے آپ کو چودہویں صدی کا مجدد قرار دیا۔ اگر ہم اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی بے مثال علمی اور تحقیقی خدمات کو ان کی 65 سالہ زندگی پر تقسیم کریں تو ہر 5 گھنٹے میں اعلیٰحضرت اس امت کو ایک کتاب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں،بلاشبہ یہ وہ خدمات ہیں جو کوئی ادارہ اور انسٹیٹیوٹ ہی کرسکتا ہے جسے بریلی کی سرزمین کے اس بوریہ نشیں نے تن تنہا کر دکھایا۔ سچ کہا ہے کسی نے : ⬇
وادی رضا کی کوہ ہمالہ رضا کا ہے
جس سمت دیکھیے وہ علاقہ رضا کا ہے
اگلوں نے بہت کچھ لکھا ہے علم دین پر
لیکن جو اس صدی میں ہے تنہا رضا کا ہے
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اپنے وصال سے تقریباً پانچ ماہ قبل کوہ بھوالی پر ۳ رمضان المبارک ۱۳۳۹ھ کو اپنے وصال کی تاریخ اس آیت کریمہ سے نکالی!’’وَیُطَافُ عَلَیْہِمْ بِاٰنِیَۃٍ مِّنْ فِضَّۃٍ وَّاَکْوَابٍ ۔یعنی خدام چاندی کے برتن اور آبخورے لیکر(جنت میں) ان کے گرد گھوم رہے ہیں‘‘ اور پھر اپنا مشن پورا کر کے ۲۵ صفر المظفر (۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ئ) بروز جمعۃ المبارک کو ۲ بجکر ۳۸ منٹ پر،عین اذان جمعہ کے وقت حی علی الفلاح کا نغمہ جانفزا سن کر داعی اجل کو لبیک کہا ۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔
فروغ اہلسنّت کےلیے امام اہلسنّت کا دس نکاتی پروگرام : ⬇
{۱} عظیم الشان مدارس کھولے جائیں۔ باقاعدہ تعلیمیں ہوں۔
{۲} طلبہ کو وظائف ملیں کہ خواہی نہ خواہی گرویدہ ہوں۔
{۳} مدرسین کی بیش قرار تنخوا ہیں ان کی کاروائیوں پردی جائیں۔
{۴} طبائع طلبہ کی جانچ ہوجو جس کام کے زیادہ مناسب دیکھا جائے۔معقول وظیفہ دیکر اس میں
لگایا جائے۔
{۵} ان میں جو تیار ہوتے جائیں تنخواہیں دیکر ملک میں پھیلائے جائیں کہ تحریر وتقریر اور وعظ
ومناظرہ اشاعت دین ومذہب کریں۔
{۶} حمایت مذہب ورد بدمذہباں میں مفید کتب ورسائل مصنفوں کو نذرانے دیکر تصنیف کرائے
جائیں۔
{۷} تصنیف شدہ اور نو تصنیف رسائل عمدہ اور خوشخط چھاپ کر ملک میں مفت تقسیم کئے جائیں۔
{۸} شہروں شہروں آپ کے سفیر نگراں رہیں جہاں جس قسم کے واعظ یامناظر یا تصنیف کی حاجت ہو آپ کو اطلاع دیں، آپ کو سرکوبی اعداء کیلئے اپنی فوجیں،میگزین، اور رسالے بھیجتے رہیں۔
{۹} جو ہم میںقابل کارموجود اور اپنی معاش میںمشغول ہیں وظائف مقرر کرکے فارغ البال
بنائے جائیں اور جس کام میں انہیں مہارت ہولگائے جائیں۔
{۱۰} آپ کے مذہبی اخبار شائع ہوں اور وقتاً فوقتاً ہر قسم کے حمایت مذہب میں مضامین تمام ملک
میں بقیمت وبلا قیمت روزانہ یا کم سے کم ہفتہ وار پہنچاتے رہیں۔
حدیث کا ارشاد ہے کہ!!!’’آخر زمانہ میں دین کاکام بھی درہم ودینار سے چلے گا ‘‘ اور کیوں نہ صادق ہو کہ صادق و مصدق صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کلام ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۱۲ صفحہ۱۳۳) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment