فضائل و مناقبِ اہلبیت رضی اللہ عنہم حصّہ چہارم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اہل بیت کے لفظی معنٰی ہیں گھر والے ۔ اہل بیت سے مراد اہل بیتِ رسول علیہم السّلام ہیں ۔
(1) بنی ہاشم جن پر زکوٰۃ لینا حرام ہے یعنی حضرات عباس‘ علی‘ جعفر‘ عقیل اور حارث رضی اللہ عنہم کی اولاد اہلبیت ہے جو اہل بیتِ نسب کہلاتے ہیں ۔
)2) قرآن میں آیت تطہیر (سورہ احزاب آیت نمبر 33) کے نزول کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم خوبصورت چادر مبارک اوڑھے ہوئے دولت کدہ سے باہر تشریف لائے اور حضرت بی بی فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ عنہا ‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ ‘ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی اُس خوبصورت چادر مبارک میں داخل فرمالیا اور بارگاہ رب العالمین میں دعا فرمائی یعنی رب العالمین ! یہ میرے اہل بیت اور میرے مخصوصین ہیں تُو اِن سے ناپاکی دور کردے اور انہیں خوب پاک و پاکیزہ بنا ۔ یہ دعاء سن کر ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے عرض کی ’’و انا منھم‘‘ یعنی میں بھی ان میں سے ہوں تو ارشاد نبوی ہوا ’’انک علی خیر‘‘ یعنی بے شک تم بہتری پر ہو بلکہ دوسری روایت میں آپ نے ’’بلٰی‘‘ فرمایا یعنی کیوں نہیں ۔ اس طرح ام المومنین حضرت ام سلمہ و نیز تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اہل بیتِ سکونت ہیں ۔
(3) جب نجران کے عیسائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے نبوت کے بارے میں جھگڑنے لگے تو آیت مباہلہ (سورہ العمران) نازل ہوئی جس میں اپنی عورتوں اور بیٹیوں کے ساتھ نکل کر مباہلہ کرنے کا حکم دیا گیا ۔ اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم حضرات علی‘ فاطمہ‘ حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو اپنے ساتھ لیکر نکلے اور فرمایا : اللھم ھٰؤلآء اھل بیتی یعنی الٰہی یہ میرے گھر والے ہیں ۔
تاجدار گولڑہ ولی کامل حضرت سیّدنا و مرشدنا پیر سیّد مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ : آیتہ تطہیر میں لفظ اہل بیت امہات المؤمنین علیہا الرضوان و آل عبا علیہم السلام دونوں کو شامل ہے سیاق آیتہ و احادیث کثیرہ اسی پر دال ہیں ۔ (مکتوبات طیّبات صفحہ نمبر 150)
اس سے پتا چلا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن جو مومنین کی مائیں ہیں ، وہ بھی اہل بیت رضی اللہ عنہم ہیں ، اگرچہ اس پر قرآن و حدیث گواہ ہیں ، مگر یہ بات تفضیلی پیر و مولوی صاحبان چھپاتے ہیں ، لوگوں کے سامنے بیان کرنے سے کتراتے ہیں ، کہ کہیں سُنّی عوام پوچھ ہی نہ لیں کہ جب یہ بھی اہل بیت ہیں ، تو پھر روافض کی جانب سے امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن خصوصاً امّا عائشہ صدیقہ پاک سلام اللہ علیہا کی توہین و گستاخیوں پر تم گونگے کیوں بن جاتے ہو ؟
امام اللغۃ حسین بن محمد راغب اصفہانی اور محمد مرتضیٰ الزبیدی علیہما الرّحمہ فرماتے ہیں : اهل الرجل من يجمعه و اياهم نسب او دين او مايجري مجراهما من صناعة و بيت و بلد فاهل الرجل في الاصل من يجمعه و اياهم مسکن واحد ثم تجوز به فقيل اهل بيت الرجل لمن يجمعه اياهم نسب و تعورف في اسرة النبي صلیٰ الله عليه وآله وسلم مطلقا اذا قيل اهل البيت لقوله عزوجل : إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ،(سورہ احزاب، 33: 33) وغير باهل الرجل عن امراته و اهل الاسلام الذين يجمعهم ولما کانت الشريعة حکمت برفع حکم النسب في کثير من الاحکام بين المسلم و الکافر قال تعالیٰ : إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۔ (سورہ هود آیت نمبر 46)
ترجمہ : کسی شخص کے اہل وہ لوگ ہیں جو اس کے نسب یا دین یا پیشہ یا گھر یا شہر میں شریک اور شامل ہوں ۔ لغت میں کسی شخص کے اہل وہ لوگ ہیں جو کسی کے گھر میں رہتے ہوں پھر مجازاً جو لوگ اس کے نسب میں شریک ہوں ان کو بھی اس کے اہل کہا جاتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے خاندان کے لوگوں کو بھی مطلق اہل بیت کہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ قرآنِ مجید کی اس آیت میں ہے بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت ! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے کسی شخص کی بیوی کو اس کے اہل سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اہل اسلام ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو سب انسانوں کے ماننے والے ہوں۔ چونکہ اسلام نے مسلم اور کافر کے درمیان نسب کا رشتہ منقطع کر دیا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے فرمایا : بیشک وہ تیرے گھر والوں میں شامل نہیں کیونکہ اس کے عمل اچھے نہ تھے ۔ (المفردات فی غريب القرآن، 1: 29، بيروت، لبنان: دارالمعرفة،چشتی)(تاج العروس، 28: 41، دارالهداية)
قرآنِ مجید میں اہلِ بیت سے مراد ازواج اور اولاد ہے : قَالُواْ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّهِ رَحْمَتُ اللّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ۔
ترجمہ : فرشتوں نے کہا : کیا تم ﷲ کے حکم پر تعجب کر رہی ہو ؟ اے گھر والو ! تم پر ﷲ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں ۔ (هُوْد، 11: 73)
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اہل بیت کا لفظ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ سیدہ سارہ سلام اللہ علیہا کے لیے استعمال ہوا ہے ۔
اسی طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی روزجہ محترمہ کے لیے قرآن مجید میں اہل بیت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : إِذْ رَأَى نَارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا ۔
ترجمہ : جب موسٰی (علیہ السلام) نے (مدین سے واپس مصر آتے ہوئے) ایک آگ دیکھی تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا: تم یہاں ٹھہرے رہو میں نے ایک آگ دیکھی ہے (یا میں نے ایک آگ میں انس و محبت کا شعلہ پایا ہے ۔ (طهٰ، 20: 10)
عزیز مصر کی بیوی کے لیے بھی اہل کا لفظ استعمال ہوا ہے : قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلاَّ أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ۔
ترجمہ : وہ (فورًا) بول اٹھی کہ اس شخص کی سزا جو تمہاری بیوی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اور کیا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ وہ قید کر دیا جائے یا (اسے) درد ناک عذاب دیا جائے ۔ ( سورہ يُوْسُف، 12: 25)
حضرت ایوب علیہ السلام کے زوجہ اور بچوں کے لیے بھی اہل کا لفظ استعمال ہوا ہے : فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ ۔
ترجمہ : تو ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور انہیں جو تکلیف (پہنچ رہی) تھی سو ہم نے اسے دور کر دیا اور ہم نے انہیں ان کے اہل و عیال (بھی) عطا فرمائے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور (عطا فرما دیئے) ۔ (سورۃُ الْأَنْبِيَآء، 21: 84)
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اہل بیت میں ازواج اور اولاد دونوں شامل ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ازواجِ مطہرات اور آپ کی اولاد تو اہلِ بیت ہیں ہی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی اولاد کو بھی اپنی اہلِ بیت میں شامل فرمایا ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے : سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ: وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَکُمْ}، [آل عمران، 3: 61]، دَعَا رَسُولُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِی ۔
ترجمہ : حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی : ’’آپ فرما دیں کہ آ جاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں ۔‘‘(سورہ آل عمران، 3: 61) ، تو رسولنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت علی ، حضرت فاطمہ ، حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا ، پھر فرمایا:یا اللہ! یہ میرے اہل ہیں ۔ (مسلم، الصحيح، 4: 1871، رقم: 2404، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي،چشتی)(أحمد بن حنبل، المسند، 1: 185، رقم: 1608، مؤسسة قرطبة مصر)
عَنْْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: خَرَجَ النَّبِيُّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم غَدَةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ رضی الله عنه فَأَدْخَلَهَ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ رضی الله عنه فَدَخَلَ مَعَهُ ثُمَّ جَاءَ تْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ثُمَّ جَاءَ عَلِیٌّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ قَالَ: {إِنَّمَا يُرِيدُ ﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِرَکُمْ تَطْهِيرًا ۔ [سورۃُ الآحزاب، 33: 33]
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ اس چادر میں داخل ہوگئے، پھر حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا آئیں اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اس چادر میں داخل کرلیا، پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم آئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی اس چادر میں لے لیا پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ آیت مبارکہ پڑھی : بس ﷲ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہل بیت تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک ونقص کی گرد تک) دور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے ۔ (مسلم، الصحيح، 4: 1883، رقم: 2424،چشتی)(حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 3: 15۹، رقم: 4707، دار الکتب العلمية بيروت)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی}[الشوری، 42: 23]، قَالُوْا: يَارَسُوْلَ ﷲِ، مَنْ قَرَابَتُکَ هَؤُلاَءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِیُّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَهُمَا ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت : ’’فرما دیجیے : میں اِس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور ﷲ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)‘‘ [الشوری، 42: 23] نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : یا رسول ﷲ! آپ کے قرابت دار کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : علی، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے (حسن وحسین رضی اللہ عنہم ) ۔ (طبراني، المعجم الکبير، 3: 47، رقم: 2641، الموصل: مکتبة الزهراء)
معلوم ہوا اہلِ بیت سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ازواج مطہرات، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد ، سیدنا علی اور سیدنا حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ہیں ۔ ان کے علاوہ تمام سادات آلِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی آل قیامت تک موجود رہے گی ۔
اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے گستاخوں کی نسل کی پہچان : آج کل کچھ لوگ محبّتِ یزید پلید میں مبتلا ہوکر اہلبیت رسول علیہم السّلام کے بغض میں مبتلا ہیں فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے احادیث مبارکہ سے کچھ پھول چنے ہیں پڑھیے اور پہچانیے ان اہلبیت رسول علیہم السّلام کے دشمنوں کو اور خود کو اور اپنی نسلوں کو ان یزیدیوں کے فتنہ و شر سے بچایئے فقیر اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوا یہ آپ پڑھ کر فیصلہ کیجیے گا اہل علم سے گزارش ہے اگر کہیں غلطی پائیں تو آگاہ فرمائیں شکریہ : ⬇
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَنْ لَمْ يَعْرِفْ حَقَّ عِتْرَتِي وَ الْأَنْصَارِ وَ الْعَرَبِ فَهُوَ لإِحْدَي ثَلاَثٍ : إِمَّا مُنَافِقٌ، وَ إِمَّا لِزِنْيَة، وَإِمَّا امْرَؤٌ حَمَلَتْ بِهِ أمُّهُ لِغَيْر طُهْرٍ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخض میرے اہل بیت اور انصار اور عرب کا حق نہیں پہچانتا تو اس میں تین چیزوں میں سے ایک پائی جاتی ہے : یا تو وہ منافق ہے یا وہ حرامی ہے یا وہ ایسا آدمی ہے جس کی ماں بغیر طہر کے اس سے حاملہ ہوئی ہو ۔ اس حدیث کو امام دیلمی نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے ۔ (أخرجه البيهقي في شعب الإيمان الجزء الثالث ، الرقم الحدیث ؛ 1500)(الديلمي في مسند الفردوس، 3 / 626، الرقم؛ 5955)(الذهبي في ميزان الإعتدال في نقد الرجال، 3 / 148،چشتی)(الفردوس بماثور الخطا ب حدیث ٥٩٥٥ دارالکتب العلمیہ بیروت ٣/ ٦٢٦)
عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ : لاَ يُبْغِضُنَا أَهْلَ الْبَيْتِ رَجُلٌ إِلاَّ أَدْخَلَهُ ﷲُ النَّارَ.رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ ۔
ترجمہ : حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ہم اہل بیت سے کوئی آدمی نفرت نہیں کرتا مگر یہ کہ ﷲ تعالیٰ اسے دوزخ میں ڈال کر دیتا ہے ۔ اس حدیث کو امام ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن حبان في الصحيح، 15 / 435، الرقم : 6978، و الحاکم في المستدرک، 3 / 162، الرقم : 4717،چشتی)(الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 123، والهيثمي في موارد الظمان، 1 / 555، الرقم : 2246)
عن سلمان رضی الله عنه قال سمعت رسول ﷲ صلیٰ الله عليه وآله وسلم يقول الحسن والحسين ابناي من أحبهما أحبني ومن أحبني أحبه ﷲ ومن أحبه ﷲ أدخله الجنة ومن أبغضهما أبغضني ومن أبغضني أبغضه ﷲ ومن أبغضه ﷲ أدخله النّار ۔
ترجمہ : حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن اور حسین علیہما السلام میرے بیٹے ہیں ۔ جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی اور جس نے اللہ سے محبت کی اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور جس نے حسن وحسین علیہما السلام سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے اللہ سے بغض رکھا اللہ اسے دوزخ میں داخل کرے گا ۔(المستدرک علی الصحيحين، 3: 181، رقم: 4776، بيروت، لبنان: دارالکتب العلمية،چشتی)
یہ بات قابل توجہ ہے کہ محبت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ تصور جو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہری میں تھا وہ بعد ازوصال بھی ہمیشہ سے اسی طرح قائم ودائم ہے اور یوں ہی بغض وعداوت اور دشمنی وعناد رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روش بھی قائم ہے ۔
عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنِّي سَأَلْتُ ﷲَ لَکُمْ ثَلَاثًا أَنْ يُّثْبِتَ قَائِمَکُمْ وَ أَنْ يَّهْدِيَ ضَالَّکُمْ، وَ أَنْ يُّعَلِّمَ جَاهِلَکُمَ، وَ سَأَلْتُ ﷲَ أَنْ يَجْعَلَکُمْ جُوَدَاءَ نُجَدَاءَ رُحَمَاءَ، فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا صَفَنَ بَيْنَ الرُّکْنِ وَ الْمَقَامِ، فَصَلَّي وَ صَامَ ثُمَّ لَقِيَ ﷲَ وَ هُوَ مُبْغِضٌ لِأَهْلِ بَيْتِ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم دَخَلَ النَّارَ.رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ.وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے بنو عبدالمطلب بے شک میں نے تمہارے لئے ﷲ تعالیٰ سے دس چیزیں مانگی ہیں پہلی یہ کہ وہ تمہارے قیام کرنے والے کو ثابت قدم رکھے اور دوسری یہ کہ وہ تمہارے گمراہ کو ہدایت دے اور تیسری یہ کہ وہ تمہارے جاہل کو علم عطاء کرے اور میں نے تمہارے لیے ﷲ تعالیٰ سے یہ بھی مانگا ہے کہ وہ تمہیں سخاوت کرنے والا اور دوسروں کی مدد کرنے والا اور دوسروں پر رحم کرنے والا بنائے پس اگر کوئی رکن اور مقام کے درمیان دونوں پاؤں قطار میں رکھ کر کھڑا ہوجائے اور نماز پڑھے اور روزہ رکھے اور پھر (وصال کی شکل میں) ﷲ سے ملے درآنحالیکہ وہ اہل بیت سے بغض رکھنے والا ہو تو وہ دوزخ میں داخل ہو گا۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے نیز امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک 3 / 161، الرقم : 4712 ،چشتی)(الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 176، الرقم : 11412، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 171)
عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ : أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : الْزِمُوْا مَوَدَّتَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، فَإِنَّهُ مَنْ لَقِيَ ﷲَ عزوجل وَ ُهوَ يَوَدُّنَا دَخَلَ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِنَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ : لاَ يَنْفَعُ عَبْدًا عَمَلُهُ إِلاَّ بِمَعْرِفَةِ حَقِّنَا.رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت حسن بن علی رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہم اہل بیت کی محبت کو لازم پکڑو پس بے شک وہ شخص جو اس حال میں ﷲ سے ملا کہ وہ ہمیں محبت کرتا تھا تو وہ ہماری شفاعت کے صدقے جنت میں داخل ہوگا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کسی شخص کو اس کا عمل فائدہ نہیں دے گا مگر ہمارے حق کی معرفت کے سبب ۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے بیان کیا ہے ۔ (المعجم الأوسط طبرانی ، 2 / 360، الرقم : 2230، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172)
عَنْ أَبِي رَافِعٍ رضي ﷲ عنه : أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ لِعَلِيٍّ رضي ﷲ عنه : أَنْتَ وَشِيْعَتُکَ تَرِدُوْنَ عَلَيَّ الْحَوْضَ رُوَاءَ مُرَوَّييْنَ، مُبَيَّضَةً وُجُوْهُکُمْ. وَإِنَّ عَدُوَّکَ يَرِدُوْنَ عَلَيَّ ظُمَاءً مُقَبَّحِيْنَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے علی! تو اور تیرے (چاہنے والے) مددگار (قیامت کے روز) میرے پاس حوض کوثر پر چہرے کی شادابی اور سیراب ہو کر آئیں گے اور ان کے چہرے (نور کی وجہ سے) سفید ہوں گے اور بے شک تیرے دشمن (قیامت کے روز) میرے پاس حوض کوثر پر بدنما چہروں کے ساتھ اور سخت پیاس کی حالت میں آئیں گے ۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ (المعجم الکبير طبرانی ، 1 / 319، الرقم : 948، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : النُّجُوْمُ أَمَانٌ ِلأَهْلِ الْأَرْضِ مِنَ الْغَرْقِ وَ أَهْلُ بَيْتِي أَمَانٌ لِأمَّتِي مِنَ الإِخْتِلاَفِ، فَإِذَا خَالَفَتْهَا قَبِيْلَةٌ مِنَ الْعَرَبِ اخْتَلَفُوْا فَصَارُوْا حِزْبَ إِبْلِيْسَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ . وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ستارے اہل زمین کو غرق ہونے سے بچانے والے ہیں اور میرے اہل بیت میری امت کو اختلاف سے بچانے والے ہیں اور جب کوئی قبیلہ ان کی مخالفت کرتا ہے تو اس میں اختلاف پڑ جاتا ہے یہاں تک کہ وہ شیطان کی جماعت میں سے ہو جاتا ہے ۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا اور کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ (المستدرک حاکم 3 / 162، الرقم : 4715)
عَنِ أَبِي ذَرٍّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي مَثَلُ سَفِيْنَةِ نُوْحٍ : مَنْ رَکِبَ فِيْهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ، وَ مَنْ قَاتَلَنَا فِي آخِرِ الزَّمَانِ فَکَأَنَّمَا قَاتَلَ مَعَ الدَّجَّالِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی سی ہے جو اس میں سوار ہو گیا نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہوگیا اور آخری زمانہ میں جو ہمیں (اہل بیت کو) قتل کرے گا گویا وہ دجال کے ساتھ مل کر قتال کرنے والا ہے ۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے بیان کیا ہے ۔ (معجم الکبير طبرانی ، 3 / 45، الرقم : 2637، و القضاعي في مسند الشهاب، 2 / 273، الحديث 1343، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 168)
عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ : أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ لِلّٰهِ حُرُمَاتٍ ثَلَاثًا مَنْ حَفِظَهُنَّ حَفِظَ ﷲُ لَهُ أَمْرَ دِيْنِهِ وَ دُنْيَاهُ، وَ مَنْ ضَيَّعَهُنَّ لَمْ يَحْفَظِ ﷲُ لَهُ شَيْئًا فَقِيْلَ : وَ مَا هُنَّ يَا رَسُوْلَ ﷲِ؟ قَالَ : حُرْمَةُ الإِسْلاَمِ، وَحُرْمَتِي، وَ حُرْمَةُ رَحِمِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک ﷲ تعالیٰ کی تین حرمات ہیں جو ان کی حفاظت کرتا ہے ﷲ تعالیٰ اس کے لئے اس کے دین و دنیا کے معاملات کی حفاظت فرماتا ہے اور جو ان تین کو ضائع کر دیتا ہے ۔ ﷲ تعالیٰ اس کی کسی چیز کی حفاظت نہیں فرماتا سو عرض کیا گیا : یا رسول ﷲ! وہ کون سی تین حرمات ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسلام کی حرمت، میری حرمت اور میرے نسب کی حرمت ۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 72، الرقم : 203، و في المعجم الکبير، 3 / 126، الرقم : 2881، 1 / 88، و الذهبي في ميزان الإعتدال، 5 / 294،چشتی)
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : سِتَّةٌ لَعَنْتُهُمْ، لَعَنَهُمُ ﷲُ، وَ کُلُّ نَبِيٍّ مُجَابٍ کَانَ : الزَّائِدُ فِي کِتَابِ ﷲ، وَ الْمُکَذِّبُ بِقَدْرِ ﷲِ وَ الْمُسَلِّطُ بِالْجَبَرُوْتِ لِيُعِزَّ بِذَلِکَ مَنْ أَذَلَّ ﷲُ ، وَ يُذِلُّ مَنْ أَعَزَّ ﷲُ، وَ الْمُسْتَحِلُّ لِحُرُمِ ﷲِ، وَ الْمُسْتَحِلُّ مِنْ عِتْرَتِي مَا حَرَّمَ ﷲُ، وَ التَّارِکُ لِسُنَّتِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ.
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چھ بندوں پر میں لعنت کرتا ہوں اور ﷲ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور ہر نبی مستجاب الدعوات ہے وہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے : جو کتاب ﷲ میں زیادتی کرنے والا ہو اور ﷲ تعالیٰ کی قدر کو جھٹلانے والا ہو اور ظلم و جبر کے ساتھ تسلط حاصل کرنے والا ہو تاکہ اس کے ذریعے اے عزت دے سکے جسے ﷲ نے ذلیل کیا ہے اور اسے ذلیل کر سکے جسے ﷲ نے عزت دی ہے اور ﷲ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنے والا اور میری عترت یعنی اہل بیت کی حرمت کو حلال کرنے والا اور میری سنت کا تارک ۔ اس حدیث کو امام ترمذی، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : القدر، باب : منه، (17)، 4 / 457، الرقم : 2154، و ابن حبان في الصحيح، 13 / 60، الرقم : 5749، و الحاکم في المستدرک، 2 / 572، الرقم : 3941، و الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 43، الرقم : 89، و البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 443، الرقم : 4010)
عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ : أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ بْنِ خُدَيْجٍ : يَا مُعَاوِيَةَ بْنَ خُدَيْجٍ، إِيَّاکَ وَ بُغْضَنَا فَإِنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : لاَ يُبْغِضُنَا أَحَدٌ، وَ لاَ يَحْسُدُنَا أَحَدٌ إِلاَّ ذِيْدَ عَنِ الْحَوْضِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِسَيَاطِ مِّنْ نَارٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت حسن بن علی رضی ﷲ عنھما روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے معاویہ بن خدیج سے کہا : اے معاویہ بن خدیج! ہمارے (اھلِ بیت کے) بغض سے بچو کیونکہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کہ ہم (اھلِ بیت) سے کوئی بغض نہیں رکھتا اور کوئی حسد نہیں کرتا مگر یہ کہ قیامت کے دن اسے آگ کے چابکوں سے حوض کوثر سے دھتکار دیا جائے گا ۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 39، الرقم : 2405، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172)
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : اللَّهُمَّ ارْزُقْ مَنْ أَبْغَضَنِي وَأَبْغَضَ أَهْلَ بَيْتِي، کَثْرَةَ الْمَالِ وَالْعَيَالِ. کَفَاهُمْ بِذَلِکَ غَيَّا أَنْ يَکْثُرَ مَالُهُمْ فَيَطُوْلَ حِسَابُهُمْ، وَ أَنْ يَکْثُرَ الْوِجْدَانِيَاتُ فَيَکْثُرَ شَيَاطِيْنُهُمْ.رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ جو مجھ سے اور میرے اہل بیت سے بغض رکھتا ہے اسے کثرت مال اور کثرت اولاد سے نواز یہ ان کی گمراہی کے لئے کافی ہے کہ ان کا مال کثیر ہو جائے پس (اس کثرت مال کی وجہ سے) ان کا حساب طویل ہو جائے اور یہ کہ ان کی وجدانیات (جذباتی چیزیں) کثیر ہو جائیں تاکہ ان کے شیاطین کثرت سے ہو جائیں ۔‘‘ اس کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 492، الرقم : 2007،چشتی)
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ ﷲِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : ثَلاَثٌ مَنْ کُنَّ فِيْهِ فَلَيْسَ مِنِّي وَلَا أَنَا مِنْهُ : بُغْضُ عَلِيٍّ، وَ نَصْبُ أَهْلِ بَيْتِي، وَ مَنْ قَالَ : الإِيْمَانُ کَلَامٌ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تین چیزیں ایسی ہیں وہ جس میں پائی جائیں گی نہ وہ مجھ سے ہے اور نہ میں اس سے ہوں (اور وہ تین چیزیں یہ ہیں) : علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنا، میرے اہل بیت سے دشمنی رکھنا اور یہ کہنا کہ ایمان (فقط) کلام کا نام ہے ۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے ۔ مسند الفردوس دیلمی ، 2 / 85، الرقم : 2459)
سنجیدہ رہ کر اپنے احباب کے ذریعے آل رسول علیہم السّلام کی عظمت کو بیان کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا ان شاء اللہ ۔ اللہ عزّوجل ہمیں اہلبیتِ اطہار اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطاء فرمائے گستاخوں اور گستاخیوں سے بچائے آمین ۔ (مزید حصّہ پنجم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment