فضائل و مناقبِ اہلبیت رضی اللہ عنہم حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : قرآنِ کریم میں اہلِ بیت کی محبت کے بارے میں اللہ پاک کا فرمان ہے : قُلْ لَّاۤ اَسْلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ ۔
تَرجَمہ : تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبّت ۔ (پارہ نمبر 25 سورہ الشوریٰ آیت نمبر 23)
دورِ صَحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک اُمّتِ مسلمہ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم سے محبت رکھتی ہے ، چھوٹے بڑے سبھی اہلِ بیت رضی اللہ عنہم سے مَحبت کا دَم بھرتے ہیں ۔ حضرت علّامہ عبدالرءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی محبت سے بڑا حصّہ اور نُمایاں فخر نہ پایا ہو ۔ (فیض القدیر جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 256)
حضرت علّامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب اُمّت کے ان پیشواؤں کا یہ طریقہ ہے تو کسی بھی مؤمن کو لائق نہیں کہ ان سے پیچھے رہے ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد صفحہ نمبر 94)
حضرت صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا سیّد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کی محبّت اور آپ کے اَقارِب رضی اللہ عنہم کی مَحبّت دِین کے فرائض میں سے ہے ۔ حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں رونق افروز ہوئے اور انصار نے دیکھا کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذمہ مصارف بہت ہیں اور (بظاہر) مال بھی کچھ نہیں ہے تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقوق اور احسانات یاد کرکے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت عالیہ میں پیش کرنے کے لئے بہت سا مال جمع کیا اور اس کو لے کر حضور سید عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ عالیہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضور کی بدولت ہمیں ہدایت ملی ہم نے گمراہی سے نجات پائی ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کے اخراجات بہت زیادہ ہیں اس لئے ہم خدام آستانہ پہ مال آپ کی خدمت نذر کرنے کے لئے لائے ہیں ۔ امید ہے آپ قبول فرماکر ہماری عزت افزائی فرمائیں گے ۔ اس پر آیت مبارکہ نازل ہوئی اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ اموال واپس فرمادیے ۔ (خزائنُ العرفان، پارہ نمبر 25 سورہ الشوریٰ تحت الآیۃ : 23 ، صفحہ نمبر 894،چشتی)
اہل بیت کا معنی و مفہوم
لفظ اہل کا معنی ہے والا اور لفظ بیت کا مطلب ہے گھر۔ یعنی اس سے مراد ہے گھر والا یا گھر والے۔ ہمارے اردو محاورے میں بھی بیوی بچوں کو اہل خانہ یا اہل و عیال یا گھر والے کہا جاتا ہے ۔
حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں مندرجہ بالا آیت مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں : لما نزلت هذه الآية قيل يارسول الله من قرابتک هولاء الذين وجبت علينا مودتهم فقال: علی وفاطمة وابناهما ۔
ترجمہ : جب یہ آیت (قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى) نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بارگاہ مصطفوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کے وہ کون رشتہ دار ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کردی گئی ہے تو امام الانبیاء صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ علی، فاطمہ اور ان کے دونوں فرزند (امام حسن و امام حسین) رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (تفسير کبير، الجزء السابع والعشرون . صفحہ نمبر 166،چشتی)
اسی آیت کی تفسیر میں حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ مزید رقمطراز ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :⬇
شہادت کا درجہ
من مات علی حب آل محمد مات شهيدا ۔
ترجمہ : جو اہل بیت کی محبت میں مرا اس نے شہادت کی موت پائی ۔
گناہوں کی بخشش
اور مزید فرمایا : الا ومن مات علی حب آل محمد مات مغفورا له ۔
ترجمہ : آگاہ ہوجاؤ ! جو شخص اہل بیت کی محبت میں مرا وہ ایسا ہے کہ اس کے گناہ بخش دیئے گئے ۔
توبہ کی توفیق
الا ومن مات علی حب آل محمد مات تائبا ۔
ترجمہ : آگاہ ہوجاؤ جو شخص اہل بیت کی محبت میں مرا وہ گناہوں سے تائب ہوکر مرا ۔
خاتمہ بالایمان
پھر فرمایا : الا ومن مات علی حب آل محمد مات مومنا مستکمل الايمان ۔
ترجمہ : خبردار ہوجاؤ جو شخص اہل بیت کی محبت میں مرا وہ مکمل ایمان کے ساتھ فوت ہوا ۔
جنت کی بشارت
اور فرمایا : الا ومن مات علی حب آل محمد بشره ملک الموت بالجنة ثم منکرو نکير ۔
ترجمہ : آگاہ ہوجاؤ ، جو اہل بیت کی محبت میں مرا اسے حضرت عزرائیل علیہ السلام (موت کے فرشتے) اور منکر نکیر جنت کی بشارت دیں گے ۔
عزت کے ساتھ جنت میں داخلہ
پھر ارشاد فرمایا : الا ومن مات علی حب آل محمد يزف الی الجنة کما يزف العروس الی بيت زوجها ۔
ترجمہ : آگاہ ہوجاؤ جو اہل بیت کی محبت میں مرا اس کو ایسی عزت کے ساتھ جنت میں لے جایا جائے گا جیسے دلہن کو اس کا شوہر گھر لے جاتا ہے ۔
قبر میں جنت کے دروازوں کا کھلن
اور فرمایا : الا ومن مات علی حب آل محمد فتح له فی قبره بابان الی الجنة ۔
ترجمہ : خبردار ہوجاؤ ۔ جو اہل بیت کی محبت میں مرا اس کی قبر میں جنت کے دو دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔ (تفسير کبير الجزء السابع والعشرون صفحہ 166-165)(تفسير کشاف، جلد 3 صفحہ 467،چشتی)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہل بیت سے محبت
خلیفہ اول حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنی محبت کا اظہار ان الفاظ میں کیا : والذی نفسی بيده لقرابه رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم احب الی ان اصل من قرابتی ۔
ترجمہ : خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے مجھ کو اپنے اقرباء سے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقرباء محبوب تر ہیں ۔ (بخاری جلد نمبر 2 صفحہ 438 حدیث نمبر 3712،چشتی) ، (الشفاء بتعريف حقوق المصطفی، عياض بن موسیٰ القاضی صفحہ 38)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہل بیت سے محبت
خلیفہ ثانی حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنی اولاد سے زیادہ اہل بیت اطہار سے محبت فرمایا کرتے تھے اور ہر موقع پر ان کو فوقیت دیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے مال غنیمت تقسیم فرمایا ۔ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو ہزار ہزار درہم دیئے اور اپنے فرزند ارجمند حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صرف پانچ سو درہم دیئے تو حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: یا امیرالمومنین! میں حضور سید دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں جوان تھا اور آپ کے حضور جہاد کیا کرتا تھا ۔ اس وقت حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچے تھے اور مدینہ منورہ کی گلیوں میں کھیلا کرتے تھے۔ آپ نے ان کو ہزار ہزار درہم دیئے اور مجھے صرف پانچ سو درہم دیئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : بیٹا! پہلے وہ مقام اور فضیلت تو حاصل کرو جو حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حاصل ہے پھر ہزار درہم کا مطالبہ کرنا۔ ان کے باپ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ماں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، نانا حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نانی حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاموش ہوگئے ۔ (تاريخ کربلا محمد امين القادری صفحہ نمبر 71)
حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہل بیت سے محبت
حضرت عبد اللہ بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کسی کام کی غرض سے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا : اگر آئندہ آپ کو کوئی ضرورت پیش آئے تو کسی کو میرے پاس بھیج دیا کریں یا خط لکھ کر مجھے بلا لیا کریں ۔ آپ کے آنے سے مجھے شرمندگی ہوتی ہے ۔ (الشفاء، قاضی عياض الاندلسی صفحہ 39،چشتی)
صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان حضرت سیّدُنا عباس رضی اللہ عنہ کی تعظیم و توقیر بجا لاتے، آپ کے لئے کھڑے ہوجاتے، آپ کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیتے، مُشاوَرت کرتے اور آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے ۔ (تہذیب الاسماء جلد نمبر 1صفحہ نمبر 244)(تاریخ ابنِ عساکر جلد نمبر 26 صفحہ نمبر 372)
حضرت سیّدُنا عباس رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالت میں تشریف لاتے تو حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ بطورِ اِحترام آپ کے لئے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے تھے ۔ (معجمِ کبیرجلد نمبر 10 صفحہ نمبر 285 حدیث نمبر10675)
حضرت سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کہیں پیدل جارہے ہوتے اور حضرت سیّدُنا عمر فاروق اور حضرت سیّدُنا عثمان ذُوالنُّورَین رضی اللہ عنہما حالتِ سواری میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرتے تو بطورِ تعظیم سواری سے نیچے اُتر جاتے یہاں تک کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ وہاں سے گزر جاتے ۔ (الاستیعاب جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 360)
حضرت عُقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ نے ہمیں عَصْر کی نَماز پڑھائی، پھر آپ اور حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کھڑے ہوکر چل دئیے ، راستے میں حضرت حَسن کو بچّوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو حضرت سیّدُنا صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے کندھے پر اُٹھا لیا اور فرمایا : میرے ماں باپ قربان ! نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہم شکل ہو ، حضرت علی کے نہیں ۔ اس وقت حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم مُسکرا رہے تھے ۔ (سنن الکبریٰ للنسائی،ج 5،ص48، حدیث:8161،چشتی)
ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت سیّدَتُنا فاطمۃُ الزَّہراء رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے تو فرمایا : اے فاطمہ! اللہ کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا محبوب نہیں دیکھا اور خدا کی قسم! آپ کے والدِ گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز و پیارا نہیں ۔ (مستدرک،ج 4،ص139، حدیث:4789)
ایک موقع پر حضرت سیّدُنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضراتِ صَحابَۂ کرام کے بیٹوں کو کپڑے عطا فرمائے مگر ان میں کوئی ایسا لباس نہیں تھا جو حضرت امام حسن اور امام حُسین رضی اللہ عنہما کی شان کے لائق ہو تو آپ نے ان کے لئے یمن سے خُصوصی لباس منگوا کر پہنائے ، پھر فرمایا : اب میرا دل خوش ہوا ہے ۔ (ریاض النضرۃ،ج1،ص341)
حضرت سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے وظائف مقرر فرمائے تو حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین کے لئے رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قَرابَت داری کی وجہ سے اُن کے والد حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے برابر حصّہ مقرر کیا، دونوں کے لئے پانچ پانچ ہزار دِرہم وظیفہ رکھا ۔ (سیراعلام النبلاء،ج3،ص259)
حضرت امیرمُعاویہ رضی اللہ عنہ کی اہلِ بیت سے محبت
حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے چند نُقُوش بھی آلِ ابوسفیان (یعنی ہم لوگوں) سے بہتر ہیں ۔ (الناھیۃ، صفحہ نمبر 59)
آپ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم اور اہلِ بیت کے زبردست فضائل بیان فرمائے ۔ (تاریخ ابن عساکر،ج 42،ص415)
آپ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے فیصلے کو نافِذ بھی کیا اور علمی مسئلے میں آپ سے رُجوع بھی کیا ۔ (سنن الکبریٰ للبیہقی،ج10،ص205، مؤطا امام مالک،ج2،ص259)
ایک موقع پر حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ضَرّار صَدائی سے تقاضا کرکے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے فضائل سنے اور روتے ہوئے دُعا کی : اللہ پاک ابوالحسن پر رحم فرمائے ۔ (الاستیعاب جلد 3 صفحہ 209،چشتی)
یوں ہی ایک بار حضرت امیر مُعاویہ نے حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہم کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : یہ آبا و اَجْداد ، چچا و پھوپھی اور ماموں و خالہ کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ معزز ہیں ۔ (العقد الفرید جلد 5 صفحہ 344)
آپ ہم شکلِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم ہونے کی وجہ سے حضرت امام حَسَن کا احترام کرتے تھے ۔ (مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص461)
ایک بار آپ نے امام عالی مقام حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کی علمی مجلس کی تعریف کی اور اُس میں شرکت کی ترغیب دلائی ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 14 صفحہ 179)
حضرت امیرمُعاویہ رضی اللہ عنہ نے سالانہ وظائف کے علاوہ مختلف مواقع پر حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین کی خدمت میں بیش بہا نذرانے پیش کئے ، یہ بھی محبت کا ایک انداز ہے ، آپ نے کبھی پانچ ہزار دینار، کبھی تین لاکھ دِرہم تو کبھی چار لاکھ درہم حتی کہ ایک بار 40 کروڑ روپے تک کا نذرانہ پیش کیا ۔ (سیراعلام النبلاء،ج 4،ص309)(طبقات ابن سعد،ج 6،ص409،چشتی)(معجم الصحابہ،ج 4، ص370) (کشف المحجوب،ص77)(مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص460)
حضرت سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : آلِ رسول کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد صفحہ 92)
نیز آپ فرمایا کرتے تھے : اہلِ مدینہ میں فیصلوں اور وِراثت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت حضرت علی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کی ہے ۔ (تاریخ الخلفاء، صفحہ نمبر 135)
حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں جب بھی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا ہوں تو فَرطِ مَحبّت میں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں ۔ (مسند امام احمد،ج 3،ص632)
ابومہزم رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں ہم ایک جنازے میں تھے تو کیا دیکھا کہ حضرت سیّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے کپڑوں سے حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کے پاؤں سے مٹی صاف کررہے تھے ۔ (سیراعلام النبلاء جلد 4 صفحہ 407،چشتی)
عیزار بن حریث رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ حضرت عَمْرو بن عاص رضی اللہ عنہ خانۂ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے ، اتنے میں آپ کی نظر حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ پر پڑی تو فرمایا : اس وقت آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب شخص یہی ہیں ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد نمبر 14 صفحہ نمبر 179،چشتی)
حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی اہل بیت سے محبت
حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل بیت کی بہت تعظیم کرتے تھے اور ان کی ظاہر و پوشیدہ نادار لوگوں پر خوب خرچ کرکے ان کی قربت حاصل کرتے تھے ۔ کہتے ہیں کہ آپ نے ان میں سے ایک نادار آدمی کو خفیہ طور پر بارہ ہزار درہم بھجوائے اور اپنے ساتھیوں کو بھی اہل بیت کی تعظیم کا درس دیا کرتے تھے ۔
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی اہل بیت سے محبت
حضرت سیدنا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی اہل بیت سے بے پناہ عقیدت ومحبت فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار فرمایا: جب میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ ان لوگوں کی راہ پر چل رہے ہیں جو ہلاکت اور جہالت کے سمندر میں غرق ہیں تو میں اللہ کا نام لے کر نجات کے سفینے میں سوار ہوگیا اور وہ نجات کا سفینہ حضور سرور کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت ہیں ۔ (الصواعق المحرقه احمد بن حجرالهيتمی صفحہ 54)
ایک مرتبہ اہل بیت سے اپنی محبت کا اظہار اس طرح فرمایا :
ان کان رفضا حب آل محمد
فليشهد الثقلان انی رافضی
ترجمہ : اگر آل رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہی کا نام رفض ہے تو دونوں جہاں گواہ رہیں کہ میں بے شک رافضی ہوں ۔ (تفسير کبير ، الجزء السابع والعشرون صفحہ 166)
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی اہل بیت سے محبت
حضرت سیدنا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو جب عباسی حاکم جعفر بن سلیمان نے زدو کوب کیا اور کوڑوں سے آپ کے جسم مبارک کو مارنا شروع کیا تو آپ بے ہوش ہوگئے۔ جب ہوش آیا تو حاضرین سے فرمایا: میں نے اس اذیت دینے والے کو معاف کردیا ہے تو لوگوں نے اس معافی کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا : مجھے خوف ہوا کہ اگر اسی حالت میں میری موت واقع ہو جائے اور حضور سید دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ہو جائے تو مجھے اس وقت ندامت و شرمندگی نہ اٹھانی پڑے کہ میری وجہ سے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک قرابت دار کو عذاب دوزخ کا مزہ چکھنا پڑے ۔
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی اہل بیت سے محبت
حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ اہل بیت اطہار کی تعظیم و تکریم کرتے تھے ۔ جب کوئی اولاد اہل بیت سے ان کے پاس آتا تو اپنی جگہ سے اٹھ جاتے اور انہیں مقدم فرمایا کرتے اور خود ان کے پیچھے بیٹھتے تھے ۔ (تاريخ کربلا ، محمد امين القادری صفحہ 73)
امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ اور ادب و محبت ساداتِ کرام رضی اللہ عنہم
امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کو ساداتِ کرام سے بے حد عقیدت ومحبت تھی اور یہ عقیدت و محبت صرف زبانی کلامی نہ تھی بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے ساداتِ کرام سے محبت فرماتے اور اگر کبھی لاشعوری میں کوئی تقصیر واقع ہو جاتی تو ایسے انوکھے طریقے سے اس کا اِزالہ فرماتےکہ دیکھنے سننے والے وَرْطَۂ حیرت میں ڈوب جاتے چنانچہ اِس ضمن میں ایک واقعہ پیشِ خدمت ہے : بریلی شریف کے کسی محلہ میں امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ مدعو تھے ۔ اِرادت مندوں نے اپنے یہاں لانے کےلیے پالکی کا اِہتمام کیا ۔ چُنانچِہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ سُوار ہو گئے اور چار مزدور پالکی کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر چل دیئے ۔ ابھی تھوڑی ہی دُور گئے تھے کہ یکایک امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ نے پالکی میں سے آواز دی : ”پالکی روک دو ۔ “پالکی رُک گئی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فوراً باہر تشریف لائے اور بھرّائی ہوئی آواز میں مزدورو ں سے فرمایا : سچ سچ بتائیں آپ میں سیِّد زادہ کون ہے ؟ کیونکہ میرا ذَوقِ ایمان سرورِ دوجہاں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خُوشبو محسوس کر رہا ہے ۔ ایک مزدور نے آگے بڑھ کر عرض کی : حُضُور! مَیں سیِّد ہوں ۔ ابھی اس کی بات مکمّل بھی نہ ہونے پائی تھی کہ عالمِ اِسلام کے مقتدر پیشوا اور اپنے وقت کے عظیم مجدِّد اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا عِمامہ شریف اس سیِّد زادے کے قدموں میں رکھ دیا ۔ امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھوں سے ٹَپ ٹَپ آنسو گر رہے ہیں اور ہاتھ جوڑ کر اِلتِجا کر رہے ہیں ،معزز شہزادے ! میری گستاخی مُعاف کر دیجیے ، بے خیالی میں مجھ سے بھول ہوگئی ، ہائے غضب ہو گیا ! جن کی نعلِ پاک میرے سر کا تاجِ عزّت ہے، اُن کے کاندھے پر میں نے سُواری کی ، اگر بروزِقیامت نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پوچھ لیا کہ احمد رَضا ! کیا میرے فرزند کا دوشِ ناز نین اس لئے تھا کہ وہ تیر ی سُواری کا بوجھ اُٹھائے تو میں کیا جواب دو ں گا ! اُس وقت میدانِ مَحشرمیں میرے ناموسِ عشق کی کتنی زبردست رُسوائی ہوگی ۔ کئی بار زَبان سے مُعاف کر دینے کا اِقرار کروا لینے کے بعد امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ نے آخِری اِلتجائے شوق پیش کی،محترم شہزادے ! اس لاشُعوری میں ہونے والی خطا کا کفّارہ جبھی اَدا ہوگا کہ اب آپ پالکی میں سُوار ہوں گے اور میں پالکی کو کاندھا دوں گا ۔ اِس اِلتجاپر لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور بعض کی تو چیخیں بھی بُلند ہوگئیں ۔ ہزار اِنکار کے بعد آخرِکا ر مزدو ر شہزادے کو پالکی میں سُوار ہونا ہی پڑا ۔ یہ منظر کس قدر دِل سوز ہے ، اہلسنّت کا جلیلُ الْقَدْر امام مزدوروں میں شامل ہو کر اپنی خداداد عِلمیّت اور عالمگیر شُہرت کا سارا اِعزاز خوشنودیٔ محبوب کی خاطر ایک گُمنام مزدور شہزادے کے قدموں پر نثار کر رہا ہے ۔ (اَنوارِرضا صفحہ ٤١٥)(زلف و زنجیر ،چشتی)
اِمامِ اَہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں سوال ہوا کہ ” سید کے لڑکے سے جب شاگر ہو یا ملازم ہو دینی یا دنیاوی خدمت لینا اور اس کو مارنا جائز ہے یانہیں ؟ توآپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے جواباً ارشاد فرمایا : ذلیل خدمت اس سے لینا جائز نہیں ۔ نہ ایسی خدمت پر اسے ملازم رکھنا جائز اور جس خدمت میں ذِلَّت نہیں اس پر ملازم رکھ سکتاہے ۔ بحالِ شاگرد بھی جہاں تک عُرف اورمعروف ہو(خدمت لینا) شرعاً جائز ہے لے سکتا ہے اور اسے (یعنی سید کو ) مارنے سے مُطلَق اِحتراز (یعنی بالکل پرہیز) کرے ۔ (فتاویٰ رضویہ ،۲۲/۵۶۸)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی احتیاط اور عظمتِ سادات کرام رضی اللہ عنہم ملاحظہ فرمائیے ، چنانچہ حیاتِ اعلیٰ حضرت میں ہے : جناب سیِّد ایُّوب علی صاحِب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے : ایک کم عُمر صاحِبزادے خانہ داری کے کاموں میں اِمداد کے لیے (اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے) کاشانۂ اقدس میں ملازِم ہوئے ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سیِّد زادے ہیں لہٰذا (اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے) گھر والوں کو تاکید فرما دی کہ صاحِبزادے صاحب سے خبر دار کوئی کام نہ لیا جائے کہ مخدوم زادہ ہیں (نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کے فرزندِ ارجمند ہیں ان سے خدمت نہیں لینی بلکہ ان کی خدمت کرنی ہے لہٰذا) کھانا وغیرہ اور جس شے کی ضَرورت ہو (ان کی خدمت میں) حاضِر کی جائے ۔جس تنخواہ کا وعدہ ہے وہ بطورِ نذرانہ پیش ہوتا رہے،چُنانچِہ حسبُ الارشاد تعمیل ہوتی رہی۔کچھ عرصہ کے بعد وہ صاحِبزادے خود ہی تشریف لے گئے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت،۱/۱۷۹،چشتی)
تعظیم وتوقیر اور احترام سادات کے تعلق سے آپ کے طرزِ عمل کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ساداتِ کرام جز و رسول ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ مستحق توقیر و تعظیم ہیں اور اس پر پورا عمل کرنے والا ہم نے اعلٰی حضرت قدس سرہ العزیز کو پایا ۔ اس لیے کہ وہ کسی سید صاحب کو اس کی ذاتی حیثیت و لیاقت سے نہیں دیکھتے بلکہ اس حیثیت سے ملاحظہ فرماتے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا جزو ہیں ۔ (حیاتِ اعلٰی حضرت 165/1)
تعظیم کےلیے نہ یقین دَرْکار ہے اور نہ ہی کسی خاص سند کی حاجت لہٰذا جو لوگ سادات کہلاتے ہیں ان کی تعظیم کرنی چاہیے ، ان کے حَسَب و نَسَب کی تحقیق میں پڑنے کی حاجت نہیں اور نہ ہی ہمیں اس کا حکم دیا گیا ہے ۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے ساداتِ کرام سے سیِّد ہونے کی سند طلب کرنے اور نہ ملنے پر بُرا بھلا کہنے والے شخص کے بارے میں اِستفسار ہوا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً اِرشاد فرمایا : فقیر بارہا فتویٰ دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کےلیے ہمیں اپنے ذاتی علم سے اسے سید جاننا ضروری نہیں ، جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے ، ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں ، نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اورخواہی نخواہی سند دِکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائیں تو بُرا کہنا ، مَطْعُون کرنا ہر گز جائز نہیں ۔ اَلنَّاسُ اُمَنَاءُ عَلٰی اَنْسَابِھِم (لوگ اپنے نسب پر امین ہیں ) ۔ ہاں جس کی نسبت ہمیں خوب تحقیق معلوم ہو کہ یہ سید نہیں اور وہ سید بنے اس کی ہم تعظیم نہ کرینگے ، نہ اسے سید کہیں گے اور مناسب ہو گا کہ ناواقفوں کو اس کے فریب سے مُطَّلع کر دیا جائے ۔ میرے خیال میں ایک حکایت ہے جس پرمیرا عمل ہے کہ ایک شخص کسی سیِّد سے اُلجھا ، انہوں نے فرمایا : میں سید ہوں ، کہا : کیا سند ہے تمہارے سید ہونے کی ؟ رات کو زیارتِ اَقدس سے مشرف ہوا کہ معرکۂ حشر ہے ، یہ شفاعت خواہ ہوا ، اِعراض فرمایا ۔ اس نے عرض کی : میں بھی حضور کا اُمتی ہوں ۔ فرمایا : کیا سند ہے تیرے اُمتی ہونے کی ؟ ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٩/٥٨٧-٥٨٨،چشتی)
غیرِ سیِّد ، سیِّد ہونے کا دعویٰ کرے تو اس کا شرعی حکم کیا ہے ؟
جو واقع میں سیِّد نہ ہو اور دِیدہ ودِانستہ(جان بوجھ کر ) سید بنتا ہو وہ ملعون (لعنت کیا گیا) ہے ، نہ اس کا فرض قبول ہو نہ نفل ۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں : جو کوئی اپنے باپ کے سِوا کسی دوسرے یا کسی غیر والی کی طرف منسوب ہونےکا دعویٰ کرے تو اس پر اللّٰہ تعالیٰ ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا نہ کوئی فرض قبول فرمائے گا اور نہ ہی کوئی نفل ۔ (مُسلِم،کتاب الحج،باب فضل المدینة ۔ الخ ص۷۱۲،حدیث:۱۳۷۰) مگر یہ اس کا مُعامَلہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے یہاں ہے ، ہم بِلادلیل تکذیب نہیں کر سکتے، اَلْبَتَّہ ہمارے علم(میں) تحقیق طور پر معلوم ہے کہ یہ سیِّد نہ تھا اور اب سیِّد بن بیٹھا تو اُسے ہم بھی فاسِق ومُرتکبِ کبیرہ ومستحق لعنت جانیں گے ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٣/١٩٨)
بد مذ ہب سیِّد کا حکم
اگر کوئی بد مذہب سیِّد ہونے کا دعویٰ کرے اور اُس کی بدمذہبی حدِّ کفر تک پَہُنچ چکی ہو تو ہرگزاس کی تعظیم نہ کی جائے گی ۔ امامِ اہلسنّت ، مجدِّدِ دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ساداتِ کرام کی تعظیم ہمیشہ (کی جائے گی )جب تک ان کی بدمذہبی حدِّ کفر کو نہ پَہُنچے کہ اس کے بعد وہ سیِّد ہی نہیں،نسب مُنْقَطَع ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ پاک میں اِرشاد فرماتا ہے : قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنْ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ۫٭ۖ) (پ۱۲، ھُود:۴۶) ترجَمہ : فرمایا! اے نوح ! وہ (یعنی تیرابیٹا کنعان) تیرے گھر والوں میں نہیں بے شک اس کے کام بڑے نالائق ہیں ۔ بدمذہب جن کی بد مذہبی حدِّ کفر کو پَہُنچ جائے اگرچہ سیِّد مشہور ہوں نہ سیِّد ہیں ، نہ اِن کی تعظیم حلال بلکہ توہین و تکفیر فرض ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٢/٤٢١)
سادات كا احترام
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سادات كرام رضی اللہ عنہم كا بے پناه ادب و احترام كرتے ۔ مولوي محمد ابراهيم صاحب فريدي صدر مدرس مدرسه شمس العلوم بدايوں كا بيان هے كه حضرت مهدي حسن سجاده نشين سركار كلاں مارهره شريف نے فرمايا كه : ٫٫ميں جب بريلي آتا تواعليٰ حضرت خود كھانا لاتے اور هاتھ دھلاتے ۔ حسب دستور ايك بار هاتھ دھلاتے وقت فرمايا ۔ حضرت شهزاده صاحب انگوٹھي اور چھلے مجھے دے ديجيے، ميں نے اتار كر دے ديے اور وهاں سے ممبئي چلا گيا۔ ممبئي سے مارهره واپس آيا تو ميري لڑكي فاطمه نے كها ابا بريلي كے مولانا صاحب كے يهاں سے پارسل آيا تھا جس ميں چھلے اور انگوٹھي تھے، يه دونوں طلائي تھے اور نامه ميں مذكور تھا ، شهزادي يه دونوں طلائي اشيا آپ كي هيں ۔ (حيات اعليٰ حضرت صفحہ نمبر 111 ، 112)
مذکورہ بالا روایات میں آپ نے پڑھا کہ حضراتِ صَحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم اور آئمہ علیہم الرّحمہ کس کس انداز سے اہلِ بیتِ اَطہار رضی اللہ عنہم سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ، انہیں اپنی آل سے زیادہ محبوب رکھتے ، ان کی ضَروریات کا خیال رکھتے ، ان کی بارگاہوں میں عمدہ و اعلیٰ لباس پیش کرتے ، بیش بہا نذرانے اُن کی خدمت میں حاضر کرتے ، اُن کو دیکھ کر یا اُن کا ذِکر پاک سُن کر بے اختیار رو پڑتے ، ان کی تعریف و توصیف کرتے اور جاننے والوں سے اُن کی شان و عظمت کا بیان سنتے ۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ساداتِ کرام اور آلِ رسول رضی اللہ عنہم کا بے حَدادب و احترام کریں ، ان کی ضَروریات کا خیال رکھیں ، ان کا ذِکرِخیر کرتے رہا کریں اور اپنی اولاد کو اہلِ بیت و صَحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت و احترام سکھائیں ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment