فضائل ماہِ محرم الحرام
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : اسلام میں سن ہجری کا آغاز نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی مناسبت سے ہوا ہے ۔ اسلامی کینڈر کا پہلا مہینہ محرم الحرام کا ہے ۔ ماہ سال ہر لحظہ و ساعت اللہ عزوجل کے بنائے ہوئے ہیں۔ اور قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر ان ماہ و سِنین کا ذکر آیا ہے لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِن ماہ و ایام اور لیل و نہارکو ایک دوسرے پر فضیلت و برتری بخشی ہے ۔ مقصد اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے امتی اللہ تبارک وتعالیٰ کے ان انعامات و احسانات اور فضائل و برکات کو اپنے دامن میں سمیٹ سکیں اور اس کی تاکید خود قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرما دی ہے فرمایا ’’اُن کو اللہ کے دنوں کی یاد دلاٶ‘‘ اب اللہ عزوجل جب دنوں کی یاد دلانے کی تاکید فرما رہے ہیں وہ دن ہیں کہ جن دنوں میں اللہ عزوجل نے اپنے بندوں پر اپنے انعامات و احسانات فرمائے ہیں۔ اب ان انعامات و احسانات کو یاد کرنے اور اُن پر خوش ہونے کے مختلف طریقے ہیں ۔
محرم کے لغوی عظمت والا ، لائق احترام ، حرام کردہ کے آتے ہیں ، اللہ تعالی کی تخلیق کردہ کائنات کے حسن کا راز یہ ہے کہ تمام اشیاء رنگ و بو کے اعتبار سے نفع و نقصان کے لحاظ سے صورت و شکل کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں ، جنس کے اتحاد کے باوجود اسی اختلاف میں ان کا جمال اور ان کی نافعیت اور جامعیت پہناںہے ، آفتاب میں جو تیزی اور حدت ہے وہ ماہتا ب میں نہیں پائی جاتی ، ستاروں میں جو جمال نظر آتا ہے دوسرے سیاروں میں وہ تابناکی نہیں ہیں اور مرتبہ و مقام کے لحاظ سے سے بھی تمام خطوں میں یکسانیت نہیں ہے ،جو مقام و مرتبہ مسجد کے حصے کو حاصل ہے عام جگہ اس سے محروم ہیں ، حرمین شریفین کو جو امتیازی حیثیت حاصل ہے وہ دوسرے علاقے کا مقدر نہیں ـ ٹھیک اسی طرح ربِ کائنات نے زمانوں اور لمحات میں بھی انفرادی شان رکھی ہے ، ایک کو دوسرے پر فوقیت عطا کی ہے اور مرتبے کے اعتبار سے اور برکتوں اور سعادتوں کی دولت کے لحاظ سے، کچھ ایام کو دوسرے ایام پر ، کچھ مہینوں کو دوسرے مہینوں پر فضیلت اور امتیازی مقام اور انفرادی شان حاصل ہے ،چنانچہ سال کے بارہ مہینوں میں چار مہینے ذو القعدہ ، ذو الحجہ محرم اور رجب اپنی ذات کے اعتبار سے دوسرے مہینوں پر فضیلت اور حیثیت رکھتے ہیں ، اللہ تعالی کی رحمت ان ایام میں جوش میں ہوتی ہے ، ان لمحات میں برکتوں کی بارش میں موسلادھار ہوجاتی ہے، توبہ کے دروازے کھل جاتے ہیں، مغفرت کی گھٹائیں ہرسو چھا جاتی ہیں ۔
مختلف ادیان و مِلل خوشیوں کا اظہار مختلف انداز سے کرتے ہیں مسلمانانِ عالم اپنے رب کے احسانات و انعامات کے حصول پر اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاتے ہیں ۔ تلاوت قرآن مجید سے اپنے رب کو یاد کرتے ہیں ۔ تسبیح و تحمید اور تہلیل سے اپنی زبانوں کو تر کرتے ہیں ۔ اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ بابرکات پر درودوسلام کے نذرانے پیش کرتے ہیں اس کے اصحاب اور ان کی طیب و طاہر اھل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین کے تذکروں سے اپنی آنکھوں کو نم کرتے ہیں اسی حوالے سے یہ ماہ محرم الحرام بھی فضیلتوں بھرا مہینہ ہے ۔
سال میں بارہ مہینوں کا تقرر کسی انسان کی کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ جس دن سے اللہ تعالی نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اسی دن سے سال کے بارہ مہینہ مقرر فرمائے ۔ چنانچہ اللہ کریم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : ترجمہ : بےشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان و زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر وقت لڑو جیسا وہ تم سے ہر وقت لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے ۔(سورہ التوبہ آیت: 36)
قمری یعنی اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام کہ مہینہ سے ہوتا ہے محرم کو محرم اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس ماہ میں جنگ و قتال حرام ہے ۔ یہ مہینہ چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے اس مہینہ کی عظمت زمانہ جاہلیت میں یوں تھی کہ لوگ اس مہینہ میں جنگ و جدال اور قتل و غارت گری سے اجتناب کرتے تھے اور اسلام نے اسے برقرار رکھا ۔ یہ مہینہ انتہائی فضیلت و عظمت اور عزت و برکت والا مہینہ ہے اس مہینہ کو تاریخِ عالم اور تاریخِ اسلام سے ایک خاص نسبت حاصل ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کے فرامینِ مبارکہ نے اس مہینہ کی عظمت میں مزید اضافہ کر دیا ہے ۔
اس ماہ مبارک میں روزوں کا بہت زیادہ ثواب ہے حدیث پاک میں آتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے ارشاد فرمایا : محرم الحرام کے ہر دن کا روزہ ایک ایک ماہ کے برابر ہے ۔ (معجم صغیر جزء 2 صفحہ:71،چشتی)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم فرماتے ہیں : رمضان کے بعد محرم کا روزہ افضل ہے اور فر ض کے بعد افضل نماز رات کے نوافل ہیں ۔ (مسلم کتاب الصیام، باب فضل صوم المحرم حدیث نمبر 1163)
حضرتِ ابن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم مَدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہود کو عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے دیکھ کر پوچھا کہ تم اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا : یہ ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالی نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اِسرائیل کو فرعون اور اس کی قوم پر غلبہ عطا فرمایا تھا لہٰذا ہم تعظیماً اس دن کا روزہ رکھتے ہیں ، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے فرمایا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام سے تمہاری نسبت زیادہ قریب ہیں چنانچہ آپ نے بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔(مسلم،کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء حدیث نمبر 1130،چشتی)
عاشوراء کے دن کے ساتھ بہت سی باتیں مخصوص ہیں ، ان میں سے چند یہ ہیں : ⬇
اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرتِ آدم علیہ السلام کی اجتہادی خطا سے درگزر کیا، اسی دن انہیں پیدا کیا گیا، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا ۔
اسی دن عرش ، کرسی ، آسمان ، زمین ، سورج ، چاند ، ستارے اور جنت پیدا کیے گئے ۔
اسی دن حضرتِ ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے ، اسی دن انہیں آگ سے نجات ملی ۔
اسی دن حضرتِ موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی امت کو نجات ملی اور فرعون اپنی قوم سمیت غرق ہوا ۔
اسی دن حضرتِ عیسٰی علیہ السلام پیدا کیے گئے ، اسی دن انہیں آسمانوں کی طرف اٹھایا گیا ۔
اسی دن حضرتِ اِدریس علیہ السلام کو مقامِ بلند کی طرف اٹھایا گیا ۔
اسی دن حضرتِ نوح علیہ السلام کی کشتی کوہِ جودی پر ٹھہری ۔
اسی دن حضرتِ سلیمان علیہ السلام کو مُلکِ عظیم عطا کیا گیا ۔
اسی دن حضرتِ یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے نکالے گئے ۔
اسی دن حضرتِ یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹائی گئی ۔
اسی دن حضرتِ یوسف علیہ السلام گہرے کنوئیں سے نکالے گئے ۔
اسی دن حضرتِ ایوب علیہ السلام کی تکلیف رَفْع کی گئی ۔
آسمان سے زمین پر سب سے پہلی بارش اسی دن نازل ہوئی اور اسی دن کا روزہ امتوں میں مشہور تھا یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس دن کا روزہ ماہِ رَمضان سے پہلے فرض تھا پھر منسوخ کر دیا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے ہجرت سے پہلے اس دن کا روزہ رکھا ۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے اس دن کی جستجو کی تاکید کی تاآنکہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے آخر عمر شریف میں فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو آئندہ نویں اور دسویں کا روزہ رکھوں گا مگر آپ نے اسی سال وِصال فرمایا اور دسویں کے علاوہ روزہ نہ رکھا مگر آپ نے اس دن یعنی نویں اور دسویں اور گیارہویں محرم کے دنوں میں روزہ رکھنے کو پسند فرمایا ۔ (مکاشفۃ القلوب)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے عاشوراء کے دن خود روزہ رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم بھی ارشاد فرمایا ۔ (بخاری ،کتاب الصوم ،باب صیام یوم عاشوراء حدیث : 2004،چشتی)
حضرت سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے فرمایا مجھےاللہ تعالی پر گمان ہے کہ عاشوراء (یعنی دسویں محرم) کا روزہ ایک سال پہلے کے گناہ مٹادیتا ہے ۔ (مسلم،کتاب الصیام، باب استحباب ثلاثۃ ایام من کل شھر و صوم یوم عرفۃ و عاشوراء والاثنین ،حدیث:1162)
احادیث مبارکہ میں بہت سارے ایسے اعمال بیان کیے گئے ہیں جن پر عمل کی برکت سے رزق میں برکت ہوتی ہے ہمیں چاہیے کہ ایسے اعمال کو اپنا کر رزق مین برکت کے حق دار بنیں چنانچہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے جس نے عاشوراء کے روز اپنے گھر میں رزق کی فراخی کی اللہ پاک اس پر سارا سال فراخی فرمائے گا ۔(معجم اوسط ،ج :6 ،صفحہ:432)
اسلام کی آمد کے بعد بھی اس ماہ کی حرمت و عظمت کو اس کے سابقہ حالت میں برقرار رکھا گیا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کے باقیات میں سے تھے جس کو لوگ اپناتے آ رہے تھے ، چنانچہ حدیث میں اس ماہ کو ’’ شھر اللہ‘‘ ( اللہ کا مہینہ) ۔ ( مسلم باب فضل صوم المحرم، حدیث :۲۸۱۳) قرار دیا گیا ہے ۔
امام نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : اس روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے ماہِ محرم کو اللہ عزوجل کا مہینہ قرار دیا ہے جو اس کی عظمت اور تقدس کو بتلانے کےلیے کافی ہے ؛چونکہ اللہ عزوجل اپنی نسبت صرف اپنے خصوصی مخلوقات کے ساتھ ہی فرماتے ہیں ۔ (شرح النووی علی مسلم:۸؍۵۵،چشتی)
ماہِ محرم الحرام سے اسلامی سال نو کی ابتدا ہوتی ہے ، زمانے جاہلیت میں لوگ اپنے فوائد منافع کی خاطر مہینوں کو آگے پیچھے کیا کرتے تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے حج الوداع کے موقع سے یہ اعلان کر دیا کہ اللہ عزوجل نے جب سے آسمان و زمین کو پیدا فرمایا ہے اسی دن سے اس نے مہینوں کی ترتیب و تنظیم قائم کر دی ، چنانچہ آیت ہے : ’’ بے شک مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں جب سے اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا‘‘ ۔ (سورہ التوبہ: ۳۶)
اسلامی تاریخ جس کو ہجری تاریخ کہا جاتا ہے ، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اس کی بنیاد رکھی گئی اور یہ تاریخ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشورے سے طے پائی تھی ، چنانچہ علامہ ابن اثیر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ صحیح اور مشہور یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہجری تاریخ کی بنیاد رکھی ، اس کی وجہ یہ بنی کہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ آپ کی طرف سے خطوط موصول ہوتے ہیں ؛ مگر اس پر تاریخ لکھی نہیں ہوتی ہے ، یہ پتا نہیں چلتا کہ یہ خط کب کا لکھا ہوا ہے ، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا ، بعض حضرات نے مشورہ دیا کہ نبوت کے سال سے تاریخ لکھی جائے ، بعض نے سال ہجرت کا اور بعض نے وفات کے سال کا مشورہ دیا ؛مگر اکثر کی رائے یہ تھی ہجرت سے ہی اسلامی تاریخ کی ابتداء ہو ، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی پر فیصلہ دیا ۔ (الکامل فی التاریخ : ۱؍۹، دارالکتاب العربی،چشتی)
کیوں کہ ہجرت نے ہی حق اور باطل کے درمیان حدِ فاصل کا کام کیا ، بعض روایتوں میں ہے کہ پھر ان لوگوں نے کہا کہ کس مہینے سے ابتدا ہو تو بعض نے کہا : رمضان سے ، بعض نے محرم سے ؛ کیونکہ لوگ اس مہینے میں حج سے واپس ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ یہ محترم اور معزز مہینہ ہیے ۔ (الکامل فی التاریخ: ۱؍۱۰)
اس کے علاوہ ماہِ محرم سے سال کی ابتدا کی وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے ہجرت کا جو عزم و ارادہ فرمایا تھا وہ محرم میں ہی فرمایا تھا ، البتہ ہجرت عملی طور پر ماہ ربیع الاول میں ہوئی ۔ ( فتح الباری: ۷؍۲۶)
بڑا افسوس ہوتا ہے کہ قمری ماہ و سال اور تاریخ جس پر ہماری ساری عبادتیں اور ہماری عیدیں اور خصوصی فضیلت کے حامل ایام موقوف ہیں مثلاً رمضان ، عید ، حج کے ایام ، محرم ، شب برات کے روزے ، عشرہ ذی الحجہ کے اعمال یہ سارے کے سارے امور قمری تاریخ سے متعلق ہیں ، آج ہم نے قمری تاریخ کو بالکل فراموش کر دیا ہے ، شمسی تاریخ سے اپنے امور میں مدد ضرور لیجیے ، لیکن قمری تاریخ سے بے اعتنائی یہ ہماری غیرت قومی اور حمیت ایمانی اور ملی دیوالیہ پن ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے فرمایا : سب سے زیادہ فضیلت والے روزے رمضان کے روزوں کے بعد اللہ کے مہینہ محرم الحرام کے روزے ہیں ۔ ( مسلم شریف ، باب فضل صوم المحرم، حدیث۲۸۱۳)
نعمان بن سعد ، علی رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم رمضان کے علاوہ کون سے مہینے کے روزے رکھنے کا حکم فرماتے ہیں ، حضرت علی نے فرمایا : میں نے صرف ایک آدمی کے علاوہ کسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم سے سوال کرتے ہوئے نہیں سنا ، میں اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی خدمت میں حاضر تھا ، اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ مجھے رمضان کے علاوہ کون سے مہینے میں روزے رکھنے کا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا : اگر رمضان کے بعد روزہ رکھنا چاہے تو محرم کے روزے رکھا کرو ؛ کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالی نے ایک قوم کی توبہ قبول کی تھی اور اس دن دوسری قوم کی بھی توبہ قبول کرے گا ۔ (ترمذی: صوم المحرم ، حدیث:۷۴۱،چشتی)
اس حدیث میں مکمل مہینہ کے روزوں کے استحباب کو بتلانا ہے ۔ اس لیے اس مہینہ میں روزہ رکھنے کا اہتمام کیا جائے ۔ (مرعاۃ المفاتیح، ۷؍۴۳،الجامعۃ السلفیۃ بنارس)
ماہِ محرم کی دسویں تاریخ کو ’’عاشورہ ‘‘ کہتے ہیں ، ’’عاشورہ‘‘ یہ عشر سے ماخوذ ہے ، اس سے مراد محرم الحرام کی دسویں تاریخ ہے ۔ بطور مبالغہ کے’’ عاشورہ ’’ فاعولا‘‘ کے وزن پر استعمال کیا گیا ۔ اس کے علاوہ یوم عاشورہ سے انبیاء علیہم السلام کی خصوصی وابستگی اور ان کی حیات سے متعلق اہم واقعات کا اس روز میں پیش آنا ، یوم عاشورہ کی فضیلت کی بین دلیل ہے ۔ چنانچہ صاحب عمدۃ القاری یوم عاشورہ سے متعلق وقائع کا تذکرہ کرشتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : عاشورہ کے دن حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی ، اسی دن وہ جنت میں داخل کیے گئے ۔ اور اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی ، اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی بھی جبل جودی پر آٹھہری ، اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے ، اسی دن نمرود کی دہکتی ہوئی آگ میں ڈالے گئے ، اسی دن حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات ملی اور فرعون اپنے لشکر کے ساتھ دریائے نیل میں غرق ہوگیا ۔ حضرت ایوب علیہ السلام کو ان کی بیماری سے شفاء نصیب ہوئی ، حضرت ادریس علیہ السلام کو اسی دن آسمانوں کی جانب اٹھالیا گیا ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملک کی عظیم بادشاہت نصیب ہوئی ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹ آئی ، اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کنویں سے نکالے گئے ، حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ نکالا گیا ، حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت اسی دن ہوئی اور اسی دن آسمانوں کے جانب اٹھا لئے گئے ۔ (عمدۃ القاری شرح البخاری، باب صیام یوم عاشوراء :۷؍۸۹،چشتی)
بے شمار فضائل یوم عاشورہ سے متعلق ہیں ، جس سے یوم عاشورہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
عاشورہ کے روزے بے انتہا فضیلت کے حامل ہیں ، چنانچہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے فرمایا : یوم عاشورہ کے روزے کے تعلق سے امید کرتا ہوں کہ وہ پچھلی سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائیں گے ۔ (ترمذی: الحث علی صوم یوم عاشوراء، حدیث:۷۵۲)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کسی دن روزہ کا ارادہ کرتے ہوں اور اس دن کو کسی دوسرے دن پر فضیلت دیتے ہوں ۔ مگر اس دن یعنی یومِ عاشوراء کو اور اس مہینہ یعنی ماہ رمضان کو دوسرے دن اور دوسرے مہینہ پر فضیلت دیتے تھے ۔ (بخاری: باب صیام یوم عاشوراء حدیث نمبر ۱۹۰۲،چشتی)
بنی اسرائیل فرعون اور اس کے ظلم و ستم سے نجات کی خوشی میں یوم عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے ، حضرت موسی علیہ السلام کے دور سے ان کا یہ معمول تھا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو اس دن روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو اس روزہ کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتلایا کہ ہم موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے فرعون سے نجات کے شکرانے میں یہ روزہ رکھتے ہیں ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے فرمایا : ہم موسی علیہ السلام کی موافقت کرنے کے زیادہ حق دار ہیں ۔ (مسلم : باب صوم یوم عاشوراء، حدیث: ۲۷۱۲)
لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے یہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ رہے اس کےلیے فرمایا کہ دسویں محرم الحرام کے روزہ کے ساتھ نویں یا گیارہویں کا روزہ بھی ملالیا جائے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے عاشورا کے دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم یہ تو وہ دن ہے جو یہود و نصاری کے ہاں بڑا باعظمت ہے اور چونکہ یہود و نصاری کی مخالفت ہمارا شیوہ ہے ؛ لہٰذا ہم روزہ رکھ کر اس دن کی عظمت کرنے میں یہود و نصاری کی موافقت کیسے کریں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے فرمایا اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں تاریخ کو ضرور روزہ رکھوں گا ۔ (مسلم: باب أی یوم یصام ، حدیث:۱۱۳۴)
اسی مشابہت سے بچنے کےلیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : نویں اور دسویں کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو (ترمذی: عاشوراء أی یوم ھو،حدیث:۷۵۵،چشتی)
مسند البزار میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے عاشوراء کے روزے کے تعلق سے فرمایا : یہ روزے رکھو ، یہودیوں کی مخالفت کرو اور اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک دن بعد بھی روزہ رکھو ۔ (مسند بزار، مسند ابن عباس، حدیث:۵۲۳۸)
محقق علامہ ابن ہمام علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ عاشورے کے دن روزہ رکھنا مستحب ہے ؛ مگر اس کے ساتھ ہی عاشورہ سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں بھی روزہ رکھنا مستحب ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف عاشورا کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے ؛ کیونکہ اس سے یہود کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح:باب صیام التطوع:۴؍۱۴۱۲،چشتی)
رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے عاشورہ کا فرض تھا ؛ لیکن رمضان کی روزوں کی فرضیت نازل ہونے کے بعد محرم کے روزہ کو مستحب قرار دیا گیا اور اس کی فرضیت منسوخ ہوگئی ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں قریش زمانہ جاہلیت میں عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم بھی روزہ رکھتے تھے جب مدینہ منورہ آئے تو وہاں خود اس کا روزہ رکھا ۔ اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے ، تو عاشورہ کے دن روزہ رکھنا چھوڑ دیا ۔ جس کی خواہش ہوتی اس دن روزہ رکھتا اور جس کی خواہش نہ ہوتی اس دن روزہ نہ رکھتا ۔ (بخاری: سورۃ البقرۃ: حدیث:۴۲۳۴،چشتی)
ان احادیث کی روشنی میں عاشورہ کے روزہ کی فضیلت اور اس کا مستحب ہونا اور رمضان کے روزوں کے بعد اس کی فرضیت کا منسوخ ہونا معلوم ہوا ؛ لہٰذا اب دسویں محرم کا روزہ نویں یا گیارہوں کو ملاکر رکھنا مستحب ہے ۔ محرم الحرام عظمت و برکت والا مہینہ ہےاور اس مہینہ میں روزوں کی فضیلت ہے بالخصوص عاشورہ کے روزہ کی ، اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں اس مہینہ کی برکت و فضیلت سے مالا مال فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو مفتی ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment