Thursday 2 January 2020

مسٸلہ ایمانِ ابو طالب حصّہ اوّل

0 comments
مسٸلہ ایمانِ ابو طالب حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : ایمانِ ابو طالب کے متعلق سب سے پہلی گزارش یہ ہے کہ اس مسٸلہ اختلاف موجود ہے ہم دنوں فریقوں کے دلائل کے ساتھ ساتھ جمہور کا مؤقف بھی پیش کرینگے تاکہ مسٸلہ کی مکمل وضاحت ہو سکے یہ مضمون چند حصّص پر مشتمل ہوگا احباب سے گزارش ہے گالم گلوچ اور پُر تشد رویے سے پرھیز کریں یہ مضمون مکمل حصّص پڑھنے کے بعد اہلِ علم کہیں غلطی پائیں تو از راہِ محبّت و شفقت اطلاع فرمائیں تاکہ اس کی اصلاح کی جا سکے شکریہ :

اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ ۔
ترجمہ : بیشک آپ جس کو پسند کریں اس کو ہدایت یافتہ نہیں بنا سکتے ، لیکن اللہ جس کو چاہے اس کو ہدایت یافتہ بنا دیتا ہے ، اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے ۔ (سورۃُ القصص آیت نمبر 56)

یہ آیت کریمہ بالاتفاق ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے

امام قاضی عبد اللہ بن احمد نسفی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 719 ھ لکھتے ہیں : مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت جب ابوطالب پر موت کا وقت آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا ! اے میر چچا ! لا الٰہ الا اللہ پڑھیے میں اس کلمہ کی وجہ سے اللہ کے پاس آپ کی شفاعت کروں گا ‘ تو ابوطالب نے کہا مجھے علم ہے کہ آپ سچے ہیں لیکن میں اس کو ناپسند کرتا ہوں کہ یہ کہا جائے کہ ابوطالب موت سے گھبرا گیا ۔ (تفسیر مدارک نسفی مترجم اردو جلد دوم صفحہ نمبر 978 مطبوعہ مکتبۃ العلم اردو بازار لاہور)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ (631-676ھ) فرماتے ہیں : فقد أَجمع المفسرون علي انھا نزلت في ابي طالب، وكذا نقل إجماعھم علي ھذا الزجاج وغيره، وھي عامه فانه لا يھدي الا يضل الا الله تعاليٰ ۔
ترجمہ : مفسرین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت کریمہ ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔ زجاج وغیرہ نے مفسرین کا اجماع اسی طرح نقل کیا ہے ۔ یہ آیت عام ( بھی ) ہے ۔ ہدایت دینا اور گمراہ کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے ۔ ( شرح صحیح مسلم للنووی : 41/1)

امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ (773-852ھ) فرمتے ہیں : بیان کرنے والے اس بات میں اختلاف نہیں کرتے کہ یہ آیت ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔ (فتح الباری لا بن حجر 506/8)

امام ابوعبد اللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٨٦٦ ھ لکھتے ہیں : مسلمانوں کا اجماع ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے ۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٣١ ص ٦٦٢‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ ٠٢٤١ ھ)

اللہ تعالیٰ نے ابو طالب کے لیے یہ آیت نازل فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا : انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء ج ۔ (سورۃُ القصص : ٦٥) بیشک آپ جس کو پسند کریں اس کو ہدایت یافتہ نہیں بنا سکتے ‘ لیکن اللہ جس کو چاہے اس کو ہدایت یافتہ بنا دیتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٧٧٤‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٢‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٣٠٢‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٤٧٠٤٢،چشتی)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا سے فرمایا آپ کہیے لا الٰہ الا اللہ قیامت کے دن اس کلمہ کی وجہ سے میں آپ کے حق میں شہادت دوں گا۔ ابوطالب نے کہا اگر قریش مجھے عار نہ دلاتے اور یہ نہ کہتے کہ موت کی گھراہٹ میں انہوں نے کلمہ توحید پڑھ لیا تو میں یہ کلمہ پڑھ کر تمہاری آنکھوں کو ٹھنڈا کردیتا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء ۔ ( القصص) ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٨٨١٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٢‘ مسند احمد ج ٢ ص ٤٣٤۔ ١٤٤‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٠٧٢٦‘ دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٢ ص ٥٤٣‘ ٤٤٣)

علامہ نجم الدین احمد بن محمد قمولی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٧٢٧ ھ لکھتے ہیں : زجاج نے کہا مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ کیونکہ ابوطالب نے اپنی موت کے وقت کہا اے بنو عبد مناف کی جماعت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرو ‘ اور ان کی تصدیق کرو تم کو فلاح اور رشدو ہدایت حاصل ہوگی ‘ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے میرے چچا ! آپ لوگوں کو نصیحت کر رہے ہیں اور خود اس نصیحت پر عمل نہیں کر رہے ! ابو طالب نے پوچھا ! اے بھیتجے ! تم کیا چاہتے ہو ؟ آپ نے فرمایا یہ دنیا میں آپ کا آخری دن ہے آپ کلمہ توحید پڑھیے لا الٰہ ا لا اللہ میں اللہ کے پاس قیامت کے دن آپ کے حق میں گواہی دوں گا ۔ ابوطالب نے کہا اے بھیتجے ! میں جانتا ہوں کہ تم سچے ہو ‘ لیکن میں اس کو ناپسند کرتا ہوں کہ یہ کہا جائے کہ یہ موت سے گھبرا گیا ‘ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میرے بعد میری مذمت کی جائے گی تو میں یہ کلمہ پڑھ کر تمہاری آنکھیں ٹھنڈی کردیتا اور تم سے فراق کے وقت یہ کلمہ پڑھ لیتا ‘ کیونکہ مجھے تمہاری خیرخواہی کی شدت کا علم ہے ‘ لیکن میں عنقریب عبدالمطلب ‘ ہاشم اور عبد مناف کی ملت پر مروں گا ۔ (تفسیر کبیرج ٩ ص ٥‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ٥١٤١ ھ)

ابوطالب نے آپ کے جن اجداد ‘ عبدالمطلب ‘ ہاشم اور عبد مناف کا ذکر کیا ہے یہ سب موحد تھے اور ملت ابراہیم پر تھے ‘ ورنہ ان کا زمانہ فترت میں فوت ہونا یقینی ہے ‘ اس کے برخلاف ابو طالب نے آپ کی شریعت کا زمانہ پایا اور ایمان نہیں لائے ۔

علامہ عبدالرحمٰن بن علی بن محمد جوزی حنبلی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٧٩٥ ھ لکھتے ہیں : ہم نے التوبۃ : ٣١١ میں اس آیت کا سبب نزول ذکر کردیا ہے ‘ پھر انہوں نے صحیح مسلم حدیث رقم : ٥٢ ذکر کی ہے ‘ اور لکھا ہے کہ زجاج نے کہا ہے کہ القصص آیت نمبر 56 کے متعلق مفسرین کا اجماع ہے کہ وہ ابوطلب کے متعلق نازل ہوئی ہے ۔ (زادالمسیر ج ٦ ص ١٣٢‘ مکتب اسلامی بیروت ‘ ٧٠٤١ ھ)

امام قاضی عبد اللہ بن عمر بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ شافی متوفی ٥٨٦ ھ لکھتے ہیں : جمہور کے نزدیک یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب ابوطالب پر موت کا وقت آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا ! اے میر چچا ! لا الٰہ الا اللہ پڑھیے میں اس کلمہ کی وجہ سے اللہ کے پاس آپ کی شفاعت کروں گا ‘ تو ابوطالب نے کہا مجھے علم ہے کہ آپ سچے ہیں لیکن میں اس کو ناپسند کرتا ہوں کہ یہ کہا جائے کہ ابوطالب موت سے گھبرا گیا ۔ (تفسیر البیضاوی علی ھامش الخنفا جی ج ٧ ص ٩٠٣ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ٧١٤١ ھ)

علامہ ابوالحیان محمد بن یوسف اندلسی غرناطی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٤٥٧ ھ لکھتے ہیں : مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت ( القصص : ٥٦) ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ اس کی موت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو اس سے بات کی تھی ‘ وہ مشہور ہے ۔ ( البحر المحیط ج ٨ ص ٥ د ١٣‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٢١٤١ ھ)

حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر دمشقی متوفی ٤٧٧ ھ لکھتے ہیں : صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے یہ ثابت ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ ابوطالب آپ کی مدافعت کرتا تھا اور آپ کی مدد کرتا تھا ‘ اور آپ کی تعریف کرتا تھا اور آپ سے بہت زیادہ طبعی محبت کرتا تھا نہ کہ شرعی ‘ جب اس کی موت کا وقت آیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ایمان کی اور اسلام میں دکول کی دعوت دی ‘ لیکن تقدیر غالب آگئی اور وہ اپنے کفر پر مستمر اور برقرار رہا ‘ اور اللہ ہی کے لیے حکمت ناہ ہے ۔ ( تفسیر ابن کثیرج ٣ ص ٢٣٤‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ ٨١٤١ ھ،چشتی)

علامہ اسماعیل حنفی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٧٣١١ ھ لکھتے ہیں : بعض روایات میں آیا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع پر واپس ہوئے توہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے والدین کو اور آپ کے چچا کو زندہ کردیا اور وہ سب آپ پر ایمان لے آئے۔ (روح البیان ج ٦ ص ١٣٥‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

علامہ سید محمود آلوسی حنفی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٠٧٢١ ھ لکھتے ہیں : ابوطالب کے اسلام کا مسئلہ اختلافی ہے ‘ اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ تمام مفسرین کا یا تمام مسلمین کا اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے ۔ کیونکہ شیعہ اور بہت سے مفسرین کا یہ مذہب ہے کہ ابوطالب مسلمان تھے ‘ اور ان کا دعویٰ ہے کہ اس پر ائمہ اہل بیت کا اجماع ہے اور ابو طالب کے اکثر قصائد اس کی شہادت دیتے ہیں اور جو اجماع مسلمین کا دعویٰ کرتے ہیں وہ شیعہ کے اختلاف کو قابل شمار نہیں سمجھتے اور نہ ان کی روایات پر اعتماد کرتے ہیں ‘ پھر ابو طالب کے اسلام نہ لانے کو قول پر بھی ابوطالب کو برا نہیں ہے کہ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت پہنچے ‘ کیونکہ اس آیت سے بہر حال یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو ابو طالب سے محبت تھی اور صاحب عقل کو احتیاط لازم ہے ۔ (روح المعانی جز ٠٢ ص ٤٤١۔ ٣٤١‘ دارالفکر بیروت ‘ ٧١٤١ ھ)

علاّمہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی حنفی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٧٦٣١ ھ لکھتے ہیں : مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ‘ پھر انہوں نے صحیح مسلم کی حدیث : ٥٢ کا ذکر کا ے اور لکھا کہ ابو طالب نے کہا اگر مجھے قریش کے دار دینے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں ضرور ایمان لا کر تمہاری آنکھیں ٹھنڈی کرتا پھر انہوں نے یہ شعر پڑھے : ولقد علمت بان دین محمد من خیر ادیان البریۃ دینا میں یقین سے جانتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین تمام جہانوں کے دینوں سے بہتر ہے ۔ لولا الملامۃ اوحذارمسبۃ لوجدتنی سمحابذاک مبینا ۔ اگر ملامت وبد گوئی کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں نہایت صفائی کے ساتھ اس دین کو قبول کرتا ۔ اس کے بعد ابوطالب کا انتقال ہوگیا اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔ ( تفسیر خزائن العرفان ص ٦٢٢٦‘ تاج کمپنی لاہور)

پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٩١٤١ ھ لکھتے ہیں : اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ جب حضور کے چچا ابوطالب کا آخر وقت آپہنچا تو حضور نے جا کر کہا کہ چچا تم صرف اتنا کہ دو کہ لا الٰہ الا اللہ ‘ تاکہ میں اپنے رب سے تیری شفاعت کرسکوں ‘ لیکن انہوں نے ایس کہنے سے اندار کردیا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بات بھی مروی ہے کہ آخری وقت میں حضرت ابوطالب کے ہونٹ ہل رہے تھے ۔ حضرت عباس نے کان لگا کر سنا ۔ حضور نے جب پوچھا کہ کیا کہہ رہے تھے تو آپ نے جواباً عرض کیا کہ وہی کہہ رہے تھے جس کا آپ نے ان سے مطالبہ فرمایا ۔ ( سیرت ابن ہشام) ، لیکن اگر کسی کے نزدیک دوسری روایتیں اس روایت سے زیادہ قابل اعتبار ہوں تب بھی اسے آپ کے حق میں کوئی ناشائستہ بات کہنے سے احتراز کرنا چاہے ۔ آپ کی بےنظیر خدمات کا یہ معاوضہ ہماری طرف سے نہیں دیا جانا چاہیے کہ ہم منبروں پر کھڑے ہو کر اپنا سارا زور بیان ان کو کافر ثابت کرنے اور ان کو کافر کہنے اور کہتے چلے جانے پر ہی صرف کرے رہیں۔ اس سے بڑھ کر ناشکری اور احسان فراموشی کی کوئی مثل نہیں کی جاسکتی ۔ (تفیسر ضیاء القرآن ج ٣ ص ٠٠٥‘ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور ‘ ٩٩٣١ ھ)

ابو طالب کے اسلام لانے کی روایت پر امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ابی رحمۃ اللہ علیہ کا تبصرہ : پیر محمد کرم شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہم کی جو روایت نقل کی ہے اس کی سند منقطع ہے ۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو مسترد کردیا ہے ۔ علامہ ابوعبد اللہ محمد بن خلتہ وشتانی ابی مالکی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٨٢٨ ھ لکھتے ہیں : احادیث میں یہ تصریح ہے کہ ابو طالب کا خاتمہ شرک پر ہوا ۔ سہیلی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ میں نے مسعودی کی بعض کتابوں میں دیکھا ہے کہ ابوطالب کی موت ایمان پر ہوئی لیکن یہ قرآن مجید کی ان آیات اور احادیث کی وجہ سے صحیح نہیں ہے ۔ جو اس باب میں مذکور ہیں ۔ (الروض الانف ج ٢ ص ٦٢٢) ۔ اور بعض سیرت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا میرے بھئی نے وہ کلمہ پڑھ لیا جس کا آپ نے خھم دیا ۔ ( السیرۃ النبویہ لابن ہشام ج ٢ ص ١٣،چشتی) ۔ اس سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے ‘ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے نہیں سنا ‘ اور عباس اس وقت مسلان نہیں ہوئے تھے ‘ اس لیے ان کی شہادت معتر نہیں ہے ‘ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا اس کی سند منقطع ہے ‘ نیز صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ اسلام لانے کے بعد حضرت عباس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ابوطالب کے متعلق سوال کیا تا آپ نے فرمایا وہ ٹخنوں تک آگ میں ہے اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ دوزخ کے آخری طبقہ میں ہوتا ۔ (دلائل النوۃ ج ٢ ص ٦٤٣ ) ۔ اگر یہ کہا جائے کہ ابو طالب دل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مصدق تھا تو کیا اس وجہ سے اس کو مومن کہا جائے گا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس نے ایمان کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ وہ عبد المطلب کی ملت پر ہے ۔ (اکمال المبعلم ج ا ص ٣٨١‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ٥١٤١ ھ)

ابوطالب کے اسلام لانے کی روایت پر علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ کا تبصرہ : شیعہ نے جو یہ دلیل قائم کی ہے اس پر تو رو نے والی عورتیں بھی ہنس پڑیں گی ‘ اور ابوطالب کے جو اشعار منقول ہیں اول تو ان کی سند منقطع ہے اور اس کے علاوہ ان اشعار میں توحید اور رسالت کی شہادت نہیں ہے اور ایمان کا مدار اس شہادت پر ہے ‘ باقی رہا ان کی حضور پر شفقت اور ان کی نصرت تو ان کا کوئی منکر نہیں ہے اور ابوطالب کے ایمان پر جو شیعہ روایت ہیں تو وہ تار عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہیں ۔ ہاں مومنین پر لازم ہے کہ وہ ابوطالب کے معاملہ کو اس طرح نہ قرار دیں جس طرح ابوجہل اور اس قسم کے باقی کافروں کے معاملہ کو قرار دیتے ہیں ‘ کیونکہ ابوطالب کو ان پر فضیلت حاصل ہے ‘ وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نیک سلوک کرتے تھے ‘ احادیث میں ہے کہ ابوطالب کی نیکیوں کی سجہ سے ان کو آخرت میں نفع پہنچھ گا تو دنیا میں اس کو کم از کم اتنا نفع تو پہنچنا چاہیے کہ ان پر عام کافروں کی طرح لعن طعن نہ کی جائے ‘ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ کے سامنے آپ کے چچا کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : شاید قیامت کے دن میری شفاعت سے اس کو فائدہ پہنچے گا اور اس کو تھوڑی سے آگ میں رکھا جائے گا جو اس کے ٹخنوں تک پہنچے گی اس سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٨٨٣‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٣٧٠١‘ عالم الکتب) ۔ ایک اور روایت میں ہے حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ ! آپ نے اپنے چچا سے کس چیز کو دور کیا وہ آپ کی مدد کرتے تھے اور آپ کی خاطر غضبناک ہوتے تھے ؟ آپ نے فرمایا وہ اب تھوڑی سی آگ میں ہیں اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ دوزخ کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوتے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٨٨٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٠٢) ، اور میرے نزدیک ابو طالب کو برا کہنا سخت مذموم ہے ‘ خصوصاً اس لیے کہ اس سے بعض علویین کو ایذاء پہنچتی ہے اور ہم کو اس سے منع کیا گیا ہے اور حدیث میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مردوں کو برا کہہ کر زندوں کو ایذاء نہ پہنچاؤ ۔ ( تاریخ دمشا الکبیرج ٣٤ ص ٥٩١‘ رقم الحدیث : ١٥٨٨‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ) ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرماے کسی انسان کو اسلام کی اچھی صفات میں سے یہ ہے کہ وہ بےمقصد باتوں کو ترک کردے۔ ( المعجم الکبیررقم الحدیث : ٧٣٧١‘ المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٠٨٠١) ، (روح المعانی جز ١١ ص ٩٤۔ ٨٤ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٧١٤١ ھ) ۔ (مزید حصّہ دوم میں پڑھیں)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔