Monday, 20 January 2020

درسِ قرآن موضوع آیت : وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا

درسِ قرآن موضوع آیت : وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا
وَیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمْ شَہِیۡدًاؕ ۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر 141)
ترجمہ : اور یہ رسول (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) تمہارے نگہبان و گواہ ۔

محترم قارئینِ کرام : اس کلام کے اول اور آخر میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے خطاب ہے ‘ اول میں ہے : آپ کہیے کہ مشرق اور مغرب اللہ ہی کے ہیں اور آخر میں ہے : (اے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ) جس قبلہ پر آپ پہلے تھے الخ اور درمیان میں اس کلام سے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی امت کو خطاب کیا گیا ہے ‘ اس میں یہود کو بتایا گیا ہے کہ تم مسلمانوں کے قبلہ کا کیوں انکار کرتے ہو اور ان کے دین کو کیوں قبول نہیں کرتے حالانکہ مسلمان قیامت کے دن تمہارے خلاف شہادت دیں گے اور ان کی شہادت قبول کی جائے گی اس لیے تم کو چاہیے کہ تم دنیا میں ان کی مخالفت کرو اور ان کے دین کی پیروی کرو ۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث ذکر کی ہے ۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : حضرت نوح علیہ السلام کو قیامت کے دن بلایا جائے گا ‘ وہ کہیں گے : میں حاضر ہوں اے رب ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تم نے تبلیغ کی تھی ؟ وہ کہیں گے : ہاں ! پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا : کیا نوح نے تم کو تبلیغ کی تھی ؟ ان کی امت کہے گی : ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا اللہ تعالیٰ حضرت نوح سے فرمائے گا : تمہارے حق میں کون گواہی دے گا ؟ وہ کہیں گے : محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور ان کی امت ‘ اور وہ گواہی دیں گے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے ان کو تبلیغ کی تھی ‘ یہ اس آیت کی تفسیر ہے ۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ٦٤٥ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قیامت کے دن ایک نبی آئے گا اور اس کے ساتھ ایک شخص ہوگا اور ای نبی آئے گا اس کے ساتھ دو شخص ہوں گے اور ایک نبی آئے گا اس کے ساتھ زیادہ لوگ ہیں گے اس سے کہا جائے گا : کیا تم نے اپنی قوم کو تبلیغ کی تھی ؟ وہ کہے گا : ہاں ! پھر اس کی قوم کو بلایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا : کیا انہوں نے تم کو تبلیغ کی تھی ؟ وہ کہیں گے نہیں ‘ پھر اس نبی سے کہا جائے گا : تمہارے حق میں کون گواہی دے گا ؟ وہ کہیں گے : محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی امت ‘ پھر محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی امت کو بلایا جائے گا اور کہا جائے گا : کیا انہوں نے تبلیغ کی تھی ؟ وہ کہیں گے ہاں ! پھر کہا جائے گا : تم کو اس کا کیسے علم ہوا ؟ وہ کہیں گے کہ ہمارے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ہمیں یہ خبر دی تھی کہ (سب) رسولوں نے تبلیغ کی ہے ‘ اور یہ اس آیت کی تفسیر ہے ۔ (سنن کبری ج ٦ ص ٢٩٢‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤١١ ھ،چشتی)

امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : آخرت میں اس امت کی گواہی یہ ہے کہ جب تمام اولین و آخرین جمع ہوں گے اور کفار سے فرمایا جائے گا کہ کیا تمہارے پاس میری طرف سے ڈرانے او راحکام پہنچانے والے نہیں آئے ؟ تو وہ انکار کریں گے اور کہیں گے کہ کوئی نہیں آیا ۔ حضراتِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دریافت فرمایا جائے گا تووہ عرض کریں گے کہ یہ جھوٹے ہیں ، ہم نے انہیں تبلیغ کی ہے ۔ اس بات پر انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کافروں پرحجت قائم کرنے کیلئے دلیل طلب کی جائے گی ، وہ عرض کریں گے کہ امت ِمحمدِیَّہ ہماری گواہ ہے ۔ چنانچہ یہ امت پیغمبروں کے حق میں گواہی دے گی کہ ان حضرات نے تبلیغ فرمائی ۔ اس پر گزشتہ امت کے کفار کہیں گے ، امت محمدیہ کو کیا معلوم ؟ یہ توہم سے بعدمیں آئے تھے ۔ چنانچہ امت محمدیہ سے دریافت فرمایا جائے گاکہ’’ تم کیسے جانتے ہو ؟ وہ عرض کریں گے ، یارب ! عَزَّوَجَلَّ ، تو نے ہماری طرف اپنے رسول محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھیجا ، قرآن پاک نازل فرمایا ، ان کے ذریعے سے ہم قطعی ویقینی طور پر جانتے ہیں کہ حضراتِ انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کامل طریقے سے فرضِ تبلیغ ادا کیا ، پھر سید الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے آپ کی امت کے متعلق دریافت فرمایا جائے گا تونبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ان کی تصدیق فرمائیں گے ۔ (تفسیر بغوی ، البقرۃ ، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۱/۳۸)

امام اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گواہی یہ ہے کہ آپ ہر ایک کے دینی رتبے اور اس کے دین کی حقیقت پر مطلع ہیں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس چیز سے واقف ہیں جو کسی کا دینی رتبہ بڑھنے میں رکاوٹ ہے ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکولوگوں کے گناہ معلوم ہیں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَان کے ایمان کی حقیقت ،اعمال ، نیکیاں ، برائیاں ، اخلاص اورنفاق وغیرہ کو نورِ حق سے جانتے ہیں ۔ (تفسیر روح البیان ، البقرۃ ، تحت الآیۃ : ۱۴۳، ۱/۲۴۸،چشتی)

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیرءعزیزی میں (ویکون الرسول علیکم شہیدا) کے تحت فرماتے ہیں:یعنی وباشد رسول شما برشماگواہ زیرا کہ او مطلع است بنور نبوت بررتبہ ہرمتدین بدین طور کہ درکدام درجہ از دین من رسیدہ و حقیقت ایمان اوچیست وحجابے کہ بداں از ترقی محجوب ماندہ است کدام است پس اومے شناسد گناہاں شماراودرجات ایمان شماراواخلاص ونفاق شماراولہٰذا شہادت او دردنیا وآخرت بہ حکم شرع درحقیقت امت مقبول وواجب العمل است ۔
ترجمہ : یعنی تمہارے رسول تم پر گواہ ہیں کیونکہ حضورعلیہ السلام نور نبوت سے ہردیندار کے اس رتبہ پر مطلع ہہیں کہ جس تک وہ پہنچا ہوا ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کے ایمان کی حقیقت کیا ہے، اور اس حجاب سے بھی واقف ہیں کہ جس کی وجہ سے رکا ہوا ہے، تو حضور علیہ السلام تمہارے گناہوں کو اور تمہارے درجات ء ایمان کو اور تمہارے نیک وبداعمال کو اور تمہارے اخلاص ونفاق کو جانتے اور پہچانتے ہیں، اسی لیئے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شہادت دنیا وآخرت میں بحکم شرع امت کے حق میں مقبول اور واجب العمل ہے ۔ (تسیر عزیزی)

یاد رہے کہ ہر نبی عَلَیْہِ السَّلَام کو ان کی امت کے اعمال پر مطلع کیا جاتا ہے تاکہ روزِ قیامت ان پر گواہی دے سکیں اور چونکہ ہمارے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی شہادت سب امتوں کوعام ہوگی اس لیے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تمام امتوں کے احوال پر مطلع ہیں ۔

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گواہی قطعی و حتمی ہے

یہ بات حقیقت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گواہی قطعی و حتمی ہے ۔ ہمارے پاس قرآن کے کلام الٰہی ہونے کی سب سے بڑی دلیل نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گواہی ہے اور جیسے یہ گواہی قطعی طور پر مقبول ہے اسی طرح نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گواہی دنیا میں اپنی امت کے حق میں مقبول ہے ، لہٰذا نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے زمانہ کے حاضرین کے متعلق جو کچھ فرمایا مثلاً : صحابۂ کرام ، ازواجِ مطہرات اور اہلِ بیت ِکرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے فضائل و مناقب یا غیر موجود لوگوں جیسے حضرت اویس قرنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ یا بعد والوں کے لیے جیسے حضرت امام مہدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ وغیرہ کیلئے جو کچھ فرمایا ان سب کو تسلیم کرنا لازم ہے ۔

قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں پچھلی امتوں اور اس امت کے افعال اور احوال کا نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر پیش کیا جانا ۔

عربی قواعد کے مطابق ” علی “ جب شہادت کا صلہ ہو تو اس کا معنی ہے : کسی کے خلاف گواہی دینا اور یہاں مقصود یہ ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ امت مسلمہ کے حق میں گواہی دیں گے اور ان کے عادل اور نیک ہونے کو بیان کریں گے ‘ امام بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ یہاں شہید رقیب اور مہیمن (نگہبان) کے معنی کو متضمن ہے اور ” علی “ رقیب کا صلہ ہے ‘ اس کا معنی ہے : نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اپنی امت پر نگہبان اور ان کے احوال پر مطلع ہیں ‘ اس لیے ان کے حق میں گواہی دیں گے ۔ (انوار التنزیل (درسی) صفحہ نمبر ٢٩‘ مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز کراچی،چشتی)

بہ کثرت احادیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر پچھلی امتیں پیش کی گئیں اور اس امت کے افعال اور اعمال آپ پیش کیے گئے اور چونکہ آپ سب کے احوال اور افعال پر مطلع ہیں اس لیے سب کے متعلق گواہی دیں گے ۔

قرآن مجید میں ہے : فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھیدو جئنابک علی ھؤلاء شھیدا ۔ (سورہ النساء : ٤١)
ترجمہ : اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان (سب) پر گواہ بنا کر لائیں گے ۔
امام بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ہر نبی اپنی امت کے فاسد عقائد اور برے اعمال کے خلاف گواہی دے گا اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تمام نبیوں کی گواہی کے صدق پر گواہی دیں گے ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تمام امتوں کے احوال پر مطلع ہوں گے ‘ کیونکہ بغیر علم کے گواہی جائز نہیں ہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اللہ تعالیٰ نے تمام امتوں کے احوال اور افعال پر مطلع فرمایا ہے اور ان کی دنیا اور آخرت کا آپ کو علم عطا فرمایا ہے ‘ اور خصوصا آپ کی امت کے اعمال قبر انور میں آپ پر پیش کیے جاتے ہیں ۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے صبح کی نماز پڑھائی پھر وہاں چاشت کے وقت تک بیٹھے رہے ‘ پھر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہنسے ‘ پھر اسی جگہ بیٹھے رہے ‘ پھر آپ نے ظہر ‘ عصر ‘ مغرب اور عشاء پڑھیں اور اس دوران کسی سے بات نہیں کی ‘ پھر گھر تشریف لے گئے ‘ لوگوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے پوچھا نہیں کہ آج کا دن آپ نے غیر معمولی طور پر گزارا ‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا تو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : دنیا اور آخرت کے امور میں سے جو کچھ بھی ہونے والا تھا وہ سب مجھ پر آج پیش کیا گیا ‘ تمام اولین اور آخرین کو ایک میدان میں جمع کیا گیا ‘ لوگ گھبرا کر حضرت آدم علیہ السّلام کے پاس گئے درآں حالیکہ وہ لوگ منہ تک پسینے میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ (مسند احمد ج ١ ص ٤‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ) ، (مسند ابو عوانہ ج ١ ص ١٧٧۔ ١٧٦ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت)

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : مجھ پر امت کے اچھے اور برے (تمام) اعمال پیش کے جاتے ہیں ‘ میں نے نیک اعمال میں دیکھا کہ نجاست کو راستہ سے ایک طرف کردیا گیا ‘ اور برے اعمال میں دیکھا کہ ناک کی رینٹ کو مسجد میں ڈال دیا گیا اور اس کو دفن نہیں کیا گیا ۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ‘ ٢٠٧ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ) ، (امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ، مسنداحمد ج ٥ ص، ١٨٠ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، ١٣٩٨ ھ) ، (امام ابوعوانہ یعقوب بن اسحاق اسفرائنی متوفی ٣١٦ ھ ‘ مسند ابو عوانہ ج ١ ص ١٧٧۔ ١٧٦ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت) ، (امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨ ھ ٗسنن کبری ج ١ ص ٣٦۔ ٣٥‘ مطبوعہ نشرالسنۃ ٗملتان)

حضرت بکربن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : میری حیات تمہارے لیے بہتر ہے ‘ تم باتیں کرتے ہو اور تمہارے لیے حدیث بیان کی جاتی ہے اور جب میں وفات پاجاؤں گا تو میری وفات تمہارے لیے بہتر ہوگی ‘ مجھ پر تمہارے اعمال پیش کیے جاتے ہیں ۔ جب میں نیک عمل دیکھتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں اور جب میں برا عمل دیکھتا ہوں تو تمہارے لیے استغفار کرتا ہوں ۔ (الطبقات الکبری ج ٢ ص ١٩٤‘ مطبوعہ دار صادر بیروت ‘ ١٣٨٨ ھ) ، امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے یہ حدیث حسن ہے ۔ الجامع الصغیر ج ١ ص ٥٨٢‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت) ، (المطالب العالیہ ج ٤ ص ٢٣۔ ٢٢‘ مطبوعہ توزیع عباس احمد الباز ‘ مکہ مکرمہ،چشتی) ، (کنزالعمال ج ١١ ص ٤٠٧‘ مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ ‘ بیروت ‘ ١٤٠٥ ھ) ، (فیض القدیر ج ٣ ص ٤٠١‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٣٩١ ھ)

علامہ ابن کثیر ‘ امام بزاز رحمۃ اللہ علیہ کی سند بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے سیاحت کرنے والے ہیں ‘ وہ مجھے میری امت کا سلام پہنچاتے ہیں اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : میری حیات تمہارے لیے بہتر ہے ‘ تم باتیں کرتے ہو اور تمہارے لیے حدیث بیان کی جاتی ہے اور میری وفات تمہارے لیے بہتر ہے ‘ تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں ۔ میں جو نیک عمل دیکھتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں ‘ اور میں جو برا عمل دیکھتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں ۔ (البدایہ والنہایہ ج ٥ ص ٢٧٥ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ١٣٩٣ ھ،چشتی) ، امام نور الدین الہیثمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : اس حدیث کو امام بزار رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے ۔ (مجمع الزوائد ج ٩ ص ‘ ٢٤ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)

امام عبد اللہ بن عدی الجرجانی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت خراش بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : میری حیات تمہارے لیے بہتر ہے اور میری موت تمہارے لیے بہتر ہے ‘ حیات اس لیے بہتر ہے کہ میں تم سے حدیث بیان کرتا ہوں اور میری موت اس لیے بہتر ہے کہ ہر پیر اور جمعرات کو تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں ‘ سو جو نیک عمل ہوتے ہیں میں ان پر اللہ کی حمد کرتا ہوں اور جو برے عمل ہوتے ہیں تو میں تمہارے لیے استغفار کرتا ہوں ۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال ‘ ج ٣ ص ٩٤٥‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت) ، اس حدیث کو امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے ذکر کیا ہے اس روایت میں ہر جمعرات کو عرض اعمال کا ذکر ہے پیر کا ذکر نہیں ہے ۔ (الوفاء ص ٨١٠‘ مطبوعہ مطبع مصطفیٰ البابی واولادہ ‘ مصر ١٣٦٩ ھ)

امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں :حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : تمہارے دنوں میں سب سے زیادہ فضیلت والا دن جمعہ ہے ‘ اس دن مجھ پر بہت زیادہ صلوۃ (درود) پڑھا کرو ‘ کیونکہ تمہاری صلوۃ مجھ پر پیش کی جاتی ہے ‘ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ! ہماری صلوۃ آپ پر کیسے پیش کی جائے گی حالانکہ آپ کا جسم بوسیدہ ہوچکا ہوگا ؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا اللہ نے انبیا علیہم السّلام کے اجسام کھانے کو زمین پر حرام کردیا ہے ۔ (سنن ابوداؤد ج ١ ص ٢١٤۔ ١٥٠‘ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ،چشتی)

امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : مجھ پر میری امت کے (نیک کاموں کے) اجر پیش کیے گئے حتی کہ مسجد سے کوڑا کڑکٹ نکال کر پھینکنے کا اجر پیش کیا گیا اور میری امت کے گناہ پیش کیے گئے تو میں نے اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں دیکھا کہ کسی شخص کو قرآن مجید کی کوئی سورت یا کوئی آیت دی گئی ہو اور اس نے اس کو بھلا دیا ۔ (سنن ابوداؤد ج ١ ص ‘ ٦٦ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ) ، (جامع ترمذی ص ٤١٤‘ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی) ، (اسنن کبری ج ٢ ص ٤٤٠‘ مطبوعہ نشرالسنۃ ٗملتان) ، (المعجم الصغیر ج ١ ص ١٨٩‘ مطبوعہ مکتبہ سلفیہ ‘ مدینہ منورہ ١٢٨٨ ھ) ، (المصنف عبد الرزاق ج ٣ ص ‘ ٣٦١ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٣٩٠ ھ)

امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد آپ کی امت پر جو کچھ مفتوح تھا وہ آپ پر پیش کردیا گیا ۔ (معجم کبیر ج ١٠ ص ٢٧٧‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت)

امام نور الدین الہیثمی امام بزار علیہما الرّحمہ کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں :
ٓحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : مجھ پر میری امت کو پیش کیا گیا اور ان میں تابع ہو یا متبوع مجھ پر کوئی مخفی نہیں رہا ۔ (مجمع الزوائد ج ١ ص ٧٢‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)

امام ابونعیم رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھ پر تمام امتیں پیش کی گئیں ایک نبی کے ساتھ ایک جماعت گزری ‘ ایک نبی کے ساتھ ایک اور دو آدمی گزرے ۔ (حلیۃ الاولیاء ج ٤ ص ٣٠٢‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت ‘ ١٤٠٧ ھ) ، (مسند ابو عوانہ ج ١ ص ٨٥ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت) ، (معجم کبیر ج ١٠ ص ٥‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت نے تفصیل کے ساتھ روایت کیا ہے)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...