نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو امت کا راعی کہنا کیسا ؟
محترم قارئین کرام معترضین وہابیہ خصوصاً مولوی الیاس گھمن دیوبندی اورمولوی عبد الاحد قاسمی دیوبندی وغیرہ او ان کے چیلے چپاٹے آج کل اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کو کافر ثابت کرنے کیلئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں سے ایک عبارت نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ (احمد رضا خان بریلوی نے چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو( امت کا راعی) کہا ہے اور تم بریلویوں کے دوسرے علماء کی یہ یہ عبارتیں ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو(امت کا راعی) کہنا کفر ہے گستاخی ہے) پھر اس کے بعد وہابی معترضین نتیجہ نکالتے ہیں کہ احمد رضا خان کافر ہے گستاخ ہے ۔ (معاذ اللہ)
محترم قارئینِ کرام : پہلے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کی وہ عبارت ملاحظہ کریں جس کو گستاخی ثابت کرنے کی ذریت وہابیہ و دیابنہ کی طرف سے کوشش پر کوشش ہوتی ہے عبارت یہ ہے : ید اللہ علی الجماعة ، جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے اور اس کے سچے راعی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ (بحوالہ اللہ جھوٹ سے پاک ہے صفحہ نمبر 11)
اور ایک عبارت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کی یہ ہے : اللہ کا محبوب امت کا راعی کس پیار کی نظر سے اپنی پالی ہوئی بکریوں کو دیکھتا اور محبت بھرے دل سے انہیں حافظ حقیقی کے سپرد کر رہا ہے شان رحمت کو ان کی جدائی کا غم بھی ہے ۔ (بحوالہ ختم نبوة صفحہ نمبر 71 ،چشتی)
آیئے اب دیکھتے ہیں کہ ہم اہل سنت و جماعت کے علماء نے کیا کہیں کسی کتاب میں یہ فتوی صادر فرمایا ہے کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو(امت کا راعی) کہے وہ کافر ہے گستاخ ہے ؟ یا کہیں علماء اہل سنت و جماعت نے یہ لکھا ہے کہ جو بھی کہیں بھی کسی بھی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر لفظ (راعی) کا اطلاق کرے وہ کافر ہے گستاخ ہے ؟ حضرات محترم آپ کو بتادیں کہ علماء اہل سنت کی کتابوں میں کہیں نہیں لکھا ہے کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو (امت کا راعی) کہے وہ گستاخ ہے کافر ہے) یا جو لفظ (راعی) کا استعمال کہیں بھی کسی بھی پیرائے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے کرے وہ گستاخ ہے کافر ہے ایسا علماء اہل سنت وجماعت نے کہیں نہیں لکھا ہے ۔
اگر معترضین چاہے وہ الیاس گھمن دیوبندی ہو یا پھر عبد الاحد قاسمی دیوبندی یا اُن کے چیلے چپاٹوں میں دم خم ہو تو ہمارے کسی ایک معتبر عالم اہل سنت و جماعت کا ایک فتوی دیکھا دے جہاں صاف صریح طور پر لکھا ہو کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو(امت کا راعی) کہے وہ کافر ہے گستاخ ہے یا یہ لکھا ہو کہ جو کہیں بھی کسی بھی پیراہے میں لفظ (راعی) کا استعمال نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے کرے وہ کافر ہے گستاخ ہے ۔ قیامت تک کا ٹائم رہا وہابی معترضین کو ہماری طرف سے ۔
اب دیکھتے ہیں ان عبارت کو جن عبارت کا سہارا لے کر وہابی معترضین نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو(امت کا راعی) کہنے پر گستاخی اور کفر کا فتوی ثابت کرتے ہیں ان عبارت میں سے پہلی عبارت ہے جو وہابی معترضین نقل کرتے ہیں وہ ہے غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت ہے وہابی معترضین جو عبارت نقل کرتے ہیں وہ عبارت یہ ہے : صریح توہین میں نیت کا اعتبار نہیں 'راعنا" کہنے کی ممانعت کے بعد اگر کوئی صحابی نیت توہین کے بغیر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو'راعنا'کہتا تو وہ "واسمعواوللکافرین عذاب الیم' قرآنی وعید کا مستحق قرار پاتا جو اس بات کی دلیل ہیکہ نیت توہین کے بغیر بھی کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں توہین کا کلمہ کہنا کفر ہے ۔ (گستاخ رسول کی سزا قتل صفحہ نمبر 24 ،چشتی)
دوسری عبارت جو وہابی معترضین نقل کرتے ہیں وہ عبارت ہے علامہ محمد فیض احمد اویسی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ہے وہ عبارت جو معترضین نقل کرتے ہیں وہ یہ ہے : اللہ جل شانہ کو گوارا نہ ہوا اس لئے 'راعنا'بولنے سے نہ صرف روک دیا بلکہ آئندہ یہ لفظ بولنے والا نہ صرف کافر بلکہ سخت عذاب میں مبتلا کرنے کی وعید شدید بتائی اور سنائی ۔ (بے ادب بے نصیب صفحہ نمبر 15)
تیسری عبارت جو وہابی معترضین نقل کرتے ہیں وہ جناب امیر دعوت اسلامی الیاس عطار قادری صاحب کی ہے وہ عبارت یہ ہے : سوال : اگر کوئی شخص سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کا چرواہا کہے اس کے لئے کیا حکم ہے ؟
جواب : یہ توہین امیز لفظ ہے کہنے والا توبہ تجدید ایمان کرے ۔ (کفریہ کلمات کے بارے میں سوال و جواب صفحہ نمبر 204)
محترم قارئینِ کرام : اب پہلے آپ حضرات حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ فیض احمد اویسی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت پر غور کریں کیا اُن کی عبارت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو امت کا راعی کہنے پر حکم کفر یا گستاخی ہے ؟ کیا اُن کی عبارت میں کہیں لکھا ہیکہ لفظ (راعی) کا استعمال نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے مطلقا کفر و گستاخی ہے ؟ بالکل نہیں ۔ بلکہ اُن کی عبارت میں یہ قانون بتایا جا رہا ہے کہ (جو بھی انسان نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گستاخی کرے گا وہ کافر ہے اور گستاخی کرنے والا اگر بغیر نیت توہین بھی گستاخ جملے کا استعمال نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلئے کرے تب بھی گستاخ اور کافر ہوگا اور اس دعوے پر انہوں نے دلیل قائم کی 'راعنا' کے ممانعت سے تو اُن کی عبارت پر (راعنا) کے استعمال پر وعید بتائی گئی ناکہ (امت کے راعی) پر اور نہ لفظ (راعی) کے مطلقا استعمال پر اور (راعنا کہنے میں اور امت کا راعی کہنے میں بہت بڑا فرق ہے (پھر وہابی معترضین کا اعلی حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ پر زبردستی گستاخی اور کفر کا فتوی لگانا بغض وحسد کے سوا کیا ہوسکتا ہے ؟
اب رہی بات امیر دعوت اسلامی مولان محمد الیاس عطار قادری صاحب کی کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو (امت کا چرواہا) کہنے پر اسے توہین قرار دیا ہے تو اس میں بھی اور اعلی حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے قول میں بہت بڑا فرق ہے ۔ امیر دعوت اسلامی صاحب کا جو حکم ہے وہ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ پر لگتا ہی نہیں کیونکہ امیر دعوتِ اسلامی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو امت کا چرواہا کہنے پر حکم لگایا ہے ناکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو (امت کا راعی) کہنے پر اور اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو امت کا چرواہا نہیں کہا بلکہ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو امت کا راعی کہا ہے اور راعی کے کئی معانی ہیں مثلا حاکم ' نگہبان ' محافظ ' والی ' صرف چرواہا کے معنی میں راعی مستعمل نہیں ہے (جیسا کہ دیوبندی مولوی الیاس گھمن اور عبد الاحد قاسمی دیوبندی اور اُن کے چیلوں نے راعی کا بس ایک ہی معنی (چرواہا) بتایا ہے) جبکہ چرواہا کا معنی حاکم ' و نگہبان اور محافظ ' والی ' نہیں ہے تو فرق اعظم واضح ہے ۔ حوالے کے طور پر لغت کشوری اور المنجد وغیرہ دیکھا جاسکتا ہے ۔
اور جب یہ لفظ راعی کو امت کے ساتھ مرکب کرکے بولا جائے تو لفظ "راعی“ بمعنی چرواہا نہیں لیا جائے گا بلکہ نگہبان و محافظ 'حاکم 'والی' کے معنی میں لیا جائے گا ورنہ بہت سے محدثین 'ائمہ حدیث' اور فقہاء گستاخ قرار پائینگے ان شاء اللہ موقع ملا تو وہ سب حوالوں میں سے بھی کچھ حوالے نقل کئے جائنگے کہ کہاں کہاں لفظ راعی استعمال ہوا ہے ۔ لیکن سمجھنے کی بات ہے کہ راعی بمعنی حاکم ، محافظ ' نگہبان ' والی ' اور راعی امت بمعنی امت کا نگہبان ' امت کا محافظ ' امت کا والی ' امت کا حاکم ' اگر ہوں تو اس طرح کہنے میں کوئی حرج نہیں . اور اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو جو (امت کا راعی) فرمایا ہے وہ بمعنی امت کے نگہبان کے ہے ۔ پھر بھی کوئی دیوبندی ، وہابی مولوی اگر ضد پر ضد کرتا رہے کہ نہیں راعی امت بمعنی امت کا چرواہا ہی ہوتا ہے اور اسی معنی میں اعلی رحمۃ اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو امت کا راعی کہا ہے اور اس سبب اعلی حضرت احمد رضا خان کافر ہے اگر دیوبندی یا وہابی مولوی یہ دعوی کرتا ہے تب تو ہم قیامت تک کا وقت دیتے ہیں دیوبندی مولویوں کو کہ وہ ثابت کرے کہ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے (امت کا راعی) امت کا چرواہا کے معنی میں کب کہاں استعمال کیا ہے ؟ اور ہمیں دیوبندی مولویوں سے اس مطالبے کا حق بھی حاصل ہے (کیونکہ) دیوبندیوں کا ہی اصول ہے کہ (اگر کسی کے قول سے کفر لازم آتا ہو تو اس وقت تک قائل کی تکفیر نہیں ہوگی جب کہ قائل کی مراد کفریہ معنی ہونا ثابت نہ ہو جائے ۔ چنانچہ دیوبندی مولوی مرتضیٰ حسن چاندپوری لکھتا ہے کہ : وہ مضامین کفریہ ان کتابوں میں لزوماً بھی نہیں اگر بفرض محال ہوں تو ان پر تکفیر نہیں ہو سکتی جب تک قائل کی مراد ہونا ثابت نہ کردیا جائے ۔ (مجموعہ رسائل چاندپوری حصہ دوم صفحہ نمبر 390 رسالہ السُّھیل علی الجُعیل ناشر مکتبہ دارالعلوم دیوبند،چشتی)
تو اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا کافر ہونا تو دور کی بات بلکہ اعلی حضرت کی عبارت سے کفریہ معنی تک لازم نہیں آتا ۔ اب وہابی معترضین اپنے اصول پر قائم رہتے ہوئے ثابت کریں کہ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو(امت کا راعی) بمعنی امت کا چرواہا کے بولا ہے ۔
اور دوسری بات عرف عام میں (چرواہا )حقیر معنی پر مستعمل ہے عرف میں چرواہا کہنے کو حقیر سمجھا جاتا ہے اسی سبب مولانا الیاس عطار قادری صاحب نے اس عرف کا لحاذ کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو امت کا چرواہا کہنے پر حکم لگایا چنانچہ امیر دعوت اسلامی نے فرمایا (یہ توہین امیز لفظ(یعنی لفظ چرواہا) کو امیر دعوت اسلامی نے توہین آمیز قرار دیا ہے ناکہ (امت کے راعی) کو (تو واضح ہو گیا کہ مولانا الیاس قادری صاحب کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو (امت کا چرواہا) کہنے پر ہے امت کا راعی کہنے پر نہیں اور امت کا چرواہا کہنے میں اور امت کا راعی کہنے میں بہت بڑا فرق ہے (کیونکہ امت کا چرواہا) میں لفظ چرواہا توہین امیز لفظ ہے) اور(امت کا راعی) میں لفظ راعی توہین امیز نہیں (کیونکہ چرواہا کے معانی میں اور راعی کے معانی میں آسمان اور زمین کا فرق ہے) ۔ پھر یہ بے عقل دیوبندی امیر دعوت اسلامی کے حکم کو اعلی حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ پر کیسے لگا سکتے ہیں ؟
اب آتے ہیں وہابی معترض کی طرف خصوصاً (الیاس گھمن کی طرف کہ اِس نے اپنی کتاب حسام الحرمین کا تحقیقی جائزہ کے صفحہ نمبر 75 پر یہ لکھا کہ (راعی کا معنی چرواہا ہے) اور عبد الاحد قاسمی کی طرف کہ اِس نے اپنی کتاب (داستان فرار صفحہ نمبر 213) میں یہ دعوی کیا کہ (راعی کہے یا چرواہا بات ایک ہی ہے کیونکہ راعی عربی میں چرواہے کو کہتے ہیں) ۔ اب ہم حدیث کی کتب سے روایات دیکھاتے ہیں اور ان وہابی معترضیں سے سوال کرتے ہیں کہ بتا ان روایات میں (راعِِ و راعی) کس معنی میں استعمال ہوا ہے ؟ اور کیا یہ حدیث بھی گستاخی پر مبنی ہے ؟ کیا لکھنے والے بولنے روایت کرنے والے گستاخ ہیں ؟
صحیح مسلم شریف میں ہے : عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: ((أَلاَ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ أَلاَ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا سنو تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر شخص سے اسکی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا پس جو امیر لوگوں پر حاکم ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا اور مرد اپنے اہل خانہ پر حاکم ہے اس سے اسکی ریایا کے بارے میں سوال ہوگا اور عورت اپنے شوہر اور اس کے بچوں پر حاکم ہے اس سے انکے بار میں سوال ہوگا اور نوکر اپنے مالک کے مال پر حاکم ہے اس سے اس بارے میں سوال ہوگا سنو تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا ۔ (مسلم شریف کتاب الامارہ باب فضیلة الامام العادل حدیث:4828،چشتی)
بتاؤ دیوبندی الیاس گھمن و عبد الاحد قاسمی اس روایت میں لفظ راعِِ کس معنی میں ہے ؟ کیا چرواہے کے معنی میں ہے ؟ یا پھر دوسرے معنی میں ہے ؟ اور اس حدیث کا مصداق کونسی کونسی ذات ہو سکتی ہیں ؟ سب بتاؤ اور کیا تمہارے بقول جب ( راعی ) کا فقط چرواہا ہی معنی ہوتا ہے تو کیا اس حدیث کے مصداق سب کے سب کو چراوہا یا چراہے کہا جائے؟ ۔
دوسری روایت جو کہ المسند مسند الانصار مسند ابی السوار میں ہے اور امام ابن حجر ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے . اور مجمع الزوائد میں ہے اور حمزۃ احمد الزین نے اسے صحیح قرار دیا ہے . اور مسند احمد بن حنبل میں بھی ہے روایت ملاحظہ کریں : حٙدَّثَنَا عَارِمٌ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِيهِ حَدَّثَنَا السُّمَيْطُ عَنْ أَبِي السَّوَّارِ حَدَّثَهُ أَبُو السَّوَّارِ عَنْ خَالِهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُنَاسٌ يَتْبَعُونَهُ فَأَتْبَعْتُهُ مَعَهُمْ قَالَ فَفَجِئَنِي الْقَوْمُ يَسْعَوْنَ قَالَ وَأَبْقَى الْقَوْمُ قَالَ فَأَتَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَرَبَنِي ضَرْبَةً إِمَّا بِعَسِيبٍ أَوْ قَضِيبٍ أَوْ سِوَاكٍ وَشَيْءٍ كَانَ مَعَهُ قَالَ فَوَاللَّهِ مَا أَوْجَعَنِي قَالَ فَبِتُّ بِلَيْلَةٍ قَالَ أَوْ قُلْتُ مَا ضَرَبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا لِشَيْءٍ عَلِمَهُ اللَّهُ فِيَّ قَالَ وَحَدَّثَتْنِي نَفْسِي أَنْ آتِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَصْبَحْتُ قَالَ فَنَزَلَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّكَ رَاعٍ لَا تَكْسِرَنَّ قُرُونَ رَعِيَّتِكَ قَالَ فَلَمَّا صَلَّيْنَا الْغَدَاةَ أَوْ قَالَ صَبَّحْنَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ إِنَّ أُنَاسًا يَتْبَعُونِي وَإِنِّي لَا يُعْجِبُنِي أَنْ يَتْبَعُونِي اللَّهُمَّ فَمَنْ ضَرَبْتُ أَوْ سَبَبْتُ فَاجْعَلْهَا لَهُ كَفَّارَةً وَأَجْرًا أَوْ قَالَ مَغْفِرَةً وَرَحْمَةً أَوْ كَمَا قَالَ ۔
ترجمہ : ابوالسوار اپنے ماموں سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا کہ کچھ لوگ آپ کے پیچھے چل رہے ہیں میں بھی ان میں شامل ہوگیا اچانک لوگ دوڑنے لگے اور کچھ لوگ پیچھے رہ گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے قریب پہنچ کر کسی ٹہنی، سرکنڈے، مسواک یا کسی اور چیز کے ساتھ ہلکی سی ضرب لگائی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس تھی ، لیکن بخدا ! مجھے اس سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی رات ہوئی تو میں نے سوچا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے جو ضرب لگائی ہے وہ یقینا کسی ایسی بات پر ہوگا جو الله نے انہیں میرے متعلق بتا دی ہوگی پھر میرے دل میں خیال آیا کہ صبح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضری دوں ، اُدھر حضرت جبرائیل علیه السلام یہ وحی لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس حاضر ہوئے کہ آپ محافظ ہیں ہیں لہذا اپنی رعیت کے سینگ نہ توڑیں ۔ جب ہم نماز فجر سے فارغ ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دعاء کرتے ہوئے فرمایا اے الله ! کچھ لوگ میرے پیچھے چلتے ہیں اور مجھے یہ اچھا نہیں لگتا کہ کوئی میرے پیچھے چلے اے الله ! میں نے جسے ضرب لگائی یا سخت سُست کہا اُسے اُس کے لئے کفارہ اور باعث اجر بنا دے یا یہ فرمایا باعث مغفرت ورحمت بنا دے یا جیسے بھی فرمایا ۔ (المسند مسند الانصار مسند ابی السوار ٢٩٤/٥)،(مجمع الزوائد ٤٠٧/٩،چشتی)،(مسند احمد الإمام احمد بن حنبل جلد نمبر 16 صفحہ نمبر 335 حدیث نمبر 22409 مطبوعہ دارالحدیث قاہرہ)
وہابی معترض الیاس گھمن و عبد الاحد قاسمی دیوبندی اور اُن کے چیلے چپاٹو دیکھو غور سے دیکھو اس حدیث میں کیا لکھا ہے ؟ اور دیکھو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لفظ (راعِِ )کا استعمال حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کیا ہے ۔
اب وہابی معترضین سے سوال ہے بتاو اس حدیث میں جو یہ الفاظ ہیں (قَالَ فَنَزَلَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّكَ رَاعٍ لَا تَكْسِرَنَّ قُرُونَ رَعِيَّتِكَ) ۔ اس کا ترجمہ کیا ہوگا ؟ بتاو اپنے دعوی کہ مطابق یاد رہے تم وہابیوں کا دعوی ہے کہ (چرواہا کہو یا راعی) دونوں ایک ہی بات ہے کیونکہ (راعی) عربی میں چرواہے کو کہتے ہیں ۔ (بحوالہ داستان فرار)
نتیجہ یہ نکلا کہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت ہمارے کسی بھی عالم اہل سنت کے اصول سے کفریہ ثابت نہیں ہوتی اب چونکہ اعتراض دیوبندیوں نے کیا تھا ہم نے جواب دے دیا مگر اب باری دیوبندیوں کی ہے اور ہمارے دیوبندیوں سے بس تین سوال ہیں اور امید کرتے ہیں کہ دیوبندی اِدھر اُدھر کی نہ کر کے دوٹوک انداز میں جواب عنایت کرینگے ۔
سوال نمبر 1 : ہم اہل سنت وجماعت کے علماء کے اصول اور فتوی سے تو کسی طرح ثابت نہیں ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو (امت کا راعی) کہنا کفر و گستاخی ہے لیکن کیا تم دیوبندیوں کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو (امت کا راعی) کہنا گفر و گستاخی ہے یا نہیں ؟
سوال نمبر 2 : کیا تم دیوبندیوں ، وہابیوں کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے لفظ (راعی) کا استعمال مطلقا کفر و گستاخی ہے کہ نہیں ؟
سوال نمبر 3 : لفظ چرواہا اور راعی میں تم دیوبندیوں کے نزدیک کچھ فرق ہے کہ نہیں ؟
سوال نمبر 4 : جبرائیل علیہ السّلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو امت کا راعی کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سنا اس پر خاموش رہے اب دیابنہ اور وہابیہ کے نزدیک جبرائیل علیہ السّلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر کیا فتویٰ لگے گا ؟ (علمی اور بحوالہ جواب کا منتظر ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment