Monday, 6 January 2020

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا والدہ ماجدہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا والدہ ماجدہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ
محترم قارئینِ کرام : حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اسد بن ہاشم کی بیٹی اور حضرت عبد المطلب رضی اللہ تعالی عنہ کی بھتیجی تھیں ۔ ابوطالب بن عبدالمطلب سے آپ نکاح ہوا ، جن سے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے ۔

آغاز اسلام میں خاندان ہاشم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سب سے زیادہ ساتھ دیا اور ان میں اکثر مسلمان بھی ہو گئے تھے ، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی انہی لوگوں میں تھیں ، اور گو ان کے شوہر ایمان نہیں لائے ، تاہم وہ اور ان کی بعض اولاد مشرف بہ اسلام ہوئی ، جب ابوطالب کا انتقال ہوا ۔ تو ان کی بجائے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دست بازو رہیں ۔

حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ تعالی عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پھوپھی اور حرمِ ابو طالب ہونے کی بناء پر چچی ہوئیں ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ابو طالب کی کفایت میں آئے تو انہی کی گود میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے تربیت پائی اور انہی کی آغوش محبت و شفقت میں پرورش پائی ۔ اور اس دلسوزی سے دیکھ بھال کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ماں کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی انہیں ماں سمجھتے ، ماں کہہ کر پکارتے اور ماں ہی کی طرح عزت و احترام کرتے تھے ۔ چنانچہ ان کی شفقت و محبت کا اعتراف کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : لم یکن بعد ابی طالب ابربی منھا ۔ (استیعاب جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۷۷۴)
ترجمہ : یعنی ابو طالب کے بعد ان (فاطمہ بنت اسد رضی اللہ تعالی عنہا) سے زیادہ کوئی مجھ پر شفیق و مہربان نہ تھا ۔

جب مسلمان ہو کر ہجرت کی اجازت ملی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے مدینہ کی طرف ہجرت کی ، یہاں حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کا حضرت سیّدہ طیّبہ طاپرہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہا عقد ہوا ۔ تو حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی والدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بنت اسد سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صاحبزادی آتی ہیں میں پانی بھرونگا اور باہر کا کام کرونگا ۔ اور وہ چکی پیسنے اور آٹا گوندھنے میں آپ کی مدد کرینگی ۔ (اسدالغابہ جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 517)

آپ کی اولاد

حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ ، طالب عقیل ۔

آپ رضی اللہ عنہا نہایت صالح بی بی تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان کی ملاقات کو تشریف لاتے اور ان کے گھر میں (دوپہر کا قیلولہ)آرام کرتے تھے ۔ (اصابہ جلد نمبر 8 صفحہ نمبر 160)

آپ کا وصال مبارک

امیر المومنین علی کرم ﷲ وجہہ الکریم کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی ﷲ تعالٰی عنہا کا جب انتقال ہوا تو نبی کریم صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی چادر وقمیص مبارک میں انہیں کفن دیا ۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَمَّادِ بْنِ زُغْبَةَ قَالَ: نا رَوْحُ بْنُ صَلَاحٍ قَالَ: نا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: لَمَّا مَاتَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَسَدِ بْنِ هَاشِمٍ أُمُّ عَلِيٍّ، دَخَلَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَلَسَ عِنْدَ رَأْسِهَا، فَقَالَ: «رَحِمَكِ اللَّهُ يَا أُمِّي، كُنْتِ أُمِّي بَعْدَ أُمِّي، تَجُوعِينَ وتُشْبِعِينِي، وتَعْرَيْنَ وتَكْسُونَنِي، وتَمْنَعِينَ نَفْسَكِ طَيِّبَ الطَّعَامِ وتُطْعِمِينِي، تُرِيدِينَ بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ» . ثُمَّ أَمَرَ أَنْ تُغْسَلَ ثَلَاثًا وَثَلَاثًا، فَلَمَّا بَلَغَ الْمَاءَ الَّذِي فِيهِ الْكَافُورُ، سَكَبَهُ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، ثُمَّ خَلَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَمِيصَهُ فَأَلْبَسَهَا إِيَّاهُ، وكُفِّنَتْ فَوْقَهُ، ثُمَّ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، وَأَبَا أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيَّ، وَعُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، وَغُلَامًا أَسْوَدَ يَحْفِرُوا، فَحَفَرُوا قَبْرَهَا، فَلَمَّا بَلَغُوا اللَّحْدَ حَفَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، وَأَخْرَجَ تُرَابَهُ بِيَدِهِ. فَلَمَّا فَرَغَ، دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فاضْطَجَعَ فِيهِ، وَقَالَ: «اللَّهُ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ، اغْفِرْ لِأُمِّي فَاطِمَةَ بِنْتِ أَسَدٍ، ولَقِّنْهَا حُجَّتَهَا، وَوَسِّعْ عَلَيْهَا مُدْخَلَهَا، بِحَقِّ نَبِيِّكَ وَالْأَنْبِيَاءِ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِي، فَإِنَّكَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ» . ثُمَّ كَبَّرَ عَلَيْهَا أَرْبَعًا، ثُمَّ أدْخَلُوهَا الْقَبْرَ، هُوَ وَالْعَبَّاسُ، وَأَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں‌ نے فرمایا جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم (رضی اللہ عنہا) فوت ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور ان کے سر کی طرف بیٹھ گئے۔ فرمایا: ’اے میری ماں! اللہ تجھ پر رحم کرے، میری (حقیقی) ماں کے بعد آپ میری ماں تھیں، خود بھوکی رہتیں اور مجھے خوب کھلاتی، خود کپڑے (چادر) کے بغیر سوتی اور مجھے کپڑا پہناتیں ، خود بہترین کھانا نہ کھاتی اور مجھے کھلاتی تھیں، آپ کا مقصد اس (عمل) سے اللہ کی رضامندی اور آخرت کاگھر تھا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ انھیں تین، تین دفعہ غسل دیا جائے، پھر جب اس پانی کا وقت آیا جس میں کافور (ملائی جاتی) ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے ان پر پانی بہایا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص اتار کر انھیں پہنا دی اور اسی پر انھیں کفن دیا گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید، ابو ایوب الانصاری، عمر بن الخطاب اور ایک کالے غلام کو بلایا تاکہ قبر تیار کریں پھر انھوں نے قبر کھودی، جب لحد تک پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھ سے کھودا اور اپنے ہاتھ سے مٹی باہر نکالی پھر جب فارغ ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قبر میں داخل ہوکر لیٹ گئے اور فرمایا: ’اللہ ہی زندہ کرتا اور وہی ہے جو مارتا ہے اور اسے کبھی موت نہیں‌ آئے گی۔ اے اللہ! میری ماں فاطمہ بنت اسد کو بخش دے اور ان کی راہنمائی فرما، اپنے نبی اور مجھ سے پہلے نبیوں کے وسیلے سے ان کی قبر کو وسیع کردے، بے شک تو ارح الراحمین ہے۔‘ پھر آپ نے ان پرچار تکبیریں کہیں، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)، عباس اور ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہما (تینوں) نے اسے قبر میں اتار دیا ۔

امام علی بن ابی بکر ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ وَالْأَوْسَطِ، وَفِيهِ رَوْحُ بْنُ صَلَاحٍ، وَثَّقَهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاكِمُ ، وَفِيهِ ضَعْفٌ ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ رِجَالُ الصَّحِيحِ ۔
ترجمہ اس حدیث کو امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے المعجم الکبیر اور المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے ، اس میں روح بن صلاح ہے اور اس کو امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ اور امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ثقہ قرار دیا ہے ۔ اس حدیث میں ضعف ہے اور اس کے باقی رجال صحیح ہیں ۔ (طبرانی، المعجم الاوسط، 1: 67، رقم: 189، القاهرة، دارالحرمين،چشتی)(ابونعيم، حلية الاولياء، 3: 121، بيروت، دارالکتاب العربی)(خيثمی، مجمع الزوائد، 9: 257، بيروت،القاهرة، دارالکتب) ,(مجمع الزوائد کتاب المناقب باب مناقب بنت اسد دارالکتاب بیروت ۹ /۲۵۷) (کنزالعمال حدیث ۳۴۴۲۸ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۱۴۷،چشتی)،(المعجم الاوسط للطبرانی ۱۵۲/۱۔ ۱۵۳ ح۱۹۱، وقال: ’’تفروبہ روح بن صلاح‘‘ و عنہ ابو نعیم الاصبہانی فی حلیۃ الاولیء ۱۲۱/۳، و عندہ: یرحمک اللہ… الحمدللہ الذی یحیی…، وعنہ ابن الجوزی فی العلل المتناہیہ ۲۶۸/۱، ۲۶۹ ح۴۳۳)،(اسدالغابہ جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 517)

اس حدیث پر غیر مقلدین کے اعتراضات کے جوابات

اعتراض نمبر 1: معترض غیرمقلد لکھتا ہے : یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے و مردود ہے : اول : اس کا راوی روح بن صلاح جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف و مجروح ہے ۔ ابن عدی نے کہا : ’’وفی بعض حدیثہ نکرۃ‘‘اور اس کی بعض حدیثوں میں منکر روایات ہیں ۔ (الکامل ۱۰۰۶/۳، دوسرا نسخہ ۶۳/۴) ۔ (فتاویٰ علمیہ)

جواب : یہ اعتراض معترض کا علامہ ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کے منہج سے جاہل ہونے کا نتیجہ ہے حقیقت میں یہ جرح ہی نہیں ہے ۔ اس کا جواب ہم محدثین کے حوالہ جات سے پیش کرتے ہیں :

امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی: 752ھ) علامہ ابن عدی کے منہج کے بارے میں لکھتے ہیں : و من عادتہ فیہ ان یخرج الاحادیث التی انکرت علی الثقۃ او علی غیرالثقۃ ۔
ترجمہ : اس کتاب (الکامل لابن عدی) میں علامہ ابن عدی کی یہ عادت ہے کہ وہ ثقہ اور غیر ثقہ کی منکر احادیث کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ (مقدمہ فتح الباری ص 429)

امام تاج الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی: 771ھ) فرماتے ہیں : و ذکر فی کل ترجمۃ حدیثا فاکثر من غرائب ذاک الرجل و مناکیرہ ۔
ترجمہ : اور علامہ ابن عدی ہر راوی کے ترجمہ میں اس کی غریب اور منکر احادیث میں سے ایک یا اس سے زیادہ کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ (طبقات الشافعیۃ الکبریٰ ج 3 ص 316)

امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی: 748 ھ) لکھتے ہیں : و یروی فی ترجمۃ حدیثا او احادیث مما استنکر للرجل ۔
ترجمہ : اور علامہ ابن عدی راوی کے ترجمہ میں اس کی منکر احادیث میں سے ایک یا کئی احادیث ذکر کرتے ہیں ۔ (سیراعلام النبلاء ج 16 ص 155- 156)

اس کے علاوہ خود علامہ ابن عدی بھی اپنی کتاب میں اپنے منہاج کی تصریح کی ہے چنانچہ مہلب بن ابی حبیبۃ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں : لم ارلہ حدیثا منکرا فاذکرہ ۔
ترجمہ : میں نے ان کی کوئی منکر حدیث نہیں دیکھی کہ اس کا تذکرہ کروں ۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال ج 8 ص 228)

اس سے ثابت ہوتا ہے علامہ ابن عدی کی عادت ہے کہ وہ اپنی کتاب الکامل فی ضعفاءالرجال میں ثقہ اور غیر ثقہ کی مناکیر روایات کا ذکر کرتے ہیں اور یہاں روح بن الصلاح کی مناکیر روایت کا ذکر کرنا جرح ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔ اس کے علاوہ اس روایت کو امام ابن عدی نے منکرات میں شمار نہیں کیا۔لہذا یہ اعتراض باطل ہے ۔

روح بن الصلاح کی مناکیر روایات کا تحقیقی جائزہ

علامہ ابن عدی نے جو منکر روایات روح بن الصلاح کے ترجمہ میں ذکر کی ہیں حقیقت میں علامہ ابن عدی کو وہ روایات مجہول اور کذاب رواۃ کے طرق سے پہنچی ہیں جس میں روح بن الصلاح کا کوئی ہاتھ نہیں ہے ۔
اب آتے ہیں علامہ ابن عدی کی درج شدہ روایات پر پھر اس پر تحقیقی تبصرہ کر کے روح بن الصلاح کو بری ذمہ ثابت کرتے ہیں ۔
علامہ ابن عدی کی پہلی روایت : حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ علي بْن بيان الغافقي بمصر في رجب سنة تسع وتسعين ومِئَتَين ۔ حَدَّثني رُوحُ بْنُ سِيَابةَ أَبُو الْحَارِثِ الَحَارِثِيُّ، حَدَّثني سَعِيد بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَن مُحَمد بْنِ عَبد الرَّحْمَنِ عَنْ عَبد اللَّهِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعَمٍ أَنّ رَسُولَ اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وسَلَّم قَال: لَيْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا إِلَى عَصَبِيَّةٍ وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ قَاتَلَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ مَاتَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ ۔ (الکامل لابن عدی ج 4 ص 63 رقم 667)
اس روایت میں علامہ ابن عدی نے خود تحقیق سے کام نہیں لیا کیونکہ علامہ ابن عدی کے شیخ جعفر بن احمد بن علی بن بیان الغافقی خود ان کے نزدیک کذاب ہیں۔

علامہ ابن عدی خود اپنے شیخ کے بارے میں لکھتے ہیں : أَبُو الفضل الغافقي مصري يعرف بابن أَبِي العلاء كتبت عنه بمصر في الدخلة الأولى فِي سنة تسع وتسعين ومِئَتَين وكتبت في الدخلة الثانية في سنة أربع وثلاثمِئَة وأظن فيها مات (ح) وحدثنا هُوَ، عَن أَبِي صَالِح كاتب الليث وسعيد بْن عفير، وَعَبد اللَّه بْن يُوسُف التنيسي وعثمان بن صالح كاتب بن وهب وروح بْن صلاح، وَهو بن سيابة ونعيم بْن حَمَّاد وغيرهم بأحاديث موضوعة وكنا نتهمه بوضعها بل نتيقن فِي ذلك وَكَانَ مع ذلك رافضيا ۔ (الکامل لابن عدی ج 2 ص 400 رقم 348) ۔ لہذا اس منکر روایت سے روح بن صلاح بری ذمہ ہیں ۔

علامہ ابن عدی کی دوسری روایت : حَدَّثني عِصْمَةُ بْنُ بِجْمَاكَ البُخارِيّ بِدِمَشْقَ، قَال: حَدَّثني عِيسَى بْنُ صَالِحٍ الْمُؤَذِّنُ بِمِصْرَ، حَدَّثَنا روح بن صلاح، حَدَّثَنا ابْنُ لَهِيعَة عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ نَافِعٍٍ، عنِ ابْنِ عُمَر قَال رَسُول اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ زُرْ غُبًّا تَزْدَدَ حُبًّا ۔ (الکامل لابن عدی ج 4 ص 63 رقم 667)

اس روایت میں بھی علامہ ابن عدی نے تحقیق سے کام نہیں لیا کیونکہ اس میں بھی خود علامہ ابن عدی کے شیخ عصمہ بن بجماک مجہول ہیں ۔ خود اس کا تذکرہ علامہ ابن عدی نے بھی نہیں کیا اپنی کسی بھی کتاب میں اس کے علاوہ عیسیٰ بن صالح الموذن خود علامہ ابن عدی کے نزدیک بھی مجہول ہے ۔

علامہ ابن عدی روح بن صلاح کے ترجمہ میں عیسیٰ بن صالح المؤذن کے بارے میں لکھتے ہیں : وهذان الحديثان بإسناديهما ليسا بمحفوظين ولعل البلاء فيه من عيسى هذا فإنه ليس بمعروف ۔ (الکامل لابن عدی ج 4 ص 63 رقم 667) ، لہذا اس منکر روایت سے بھی روح بن صلاح بری ذمہ ہیں ۔

علامہ ابن عدی کی تیسری روایت : حَدَّثني عِصْمَةُ، حَدَّثني عَنْسِيُّ بْنُ صَالِحٍ المؤذن بمصر، حَدَّثَنا روح بن صلاح، حَدَّثَنا ابْنُ لَهِيعَة عَنِ الأَعْرَجِ وَأَبِي يُونُس، عَن أَبِي هُرَيْرَةَ قَال رَسُول اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ زُرْ غُبًّا تَزْدَدَ حُبًّا ۔ (الکامل لابن عدی ج 4 ص 63 رقم 667)
اس روایت میں بھی وہی عصمہ بن بجماک اور عیسیٰ بن صالح المؤذن راوی ہیں جو کہ مجہول ہیں ۔ لہذا اس منکر روایت سے بھی روح بن صلاح بری ذمہ ہیں۔اس لیے آخر میں علامہ ابن عدی کو بھی حقیقت تسلیم کرنی پڑی یہ لکھ کر : وهذان الحديثان بإسناديهما ليسا بمحفوظين ولعل البلاء فيه من عيسى هذا فإنه ليس بمعروف ۔
یہ دو احادیث اپنی سند کے ساتھ غیر محفوظ ہیں ۔ شاید اس میں بلا (مصیبت) اس عیسٰی کی وجہ سے آئی ہے کیونکہ وہ مشہور نہیں ہے ۔ (الکامل لابن عدی ج 4 ص 63 رقم 667)

اس سے ثابت ہوا کہ علامہ ابن عدی کو کوئی بھی منکر روایت کی صحیح سند روح بن صلاح تک نہ مل سکی لہذا بنا کوئی دلیل کے علامہ ابن عدی کا روح بن صلاح کو ضعیف قرار دینا صحیح نہیں ہےاور اس سے علامہ ابن عدی کی جرح کمزور اور غیرمفسر ثابت ہو رہی ہے جو کہ اصول حدیث میں قبول نہیں ۔

اعتراض نمبر 2 : ابن یونس المصری نے کہا : ’’روت عنہ مناکیر‘‘ اس سے منکر روایتیں مروی ہیں ۔ (تاریخ الغرباء بحوالہ لسان المیزان ۴۶۶/۲، دوسرا نسخہ ۱۱۰/۳)

جواب : یہ اعتراض بھی فضول ہے کیونکہ تاریخ ابن یونس میں روح بن صلاح کے بارے میں روت عنہ منکر نہیں کہا ۔ علامہ ابن یونس کی اصل عبارت یہ ہے : وقد قيل: إن «روح بن صلاح» من الموصل ناقلة إلى مصر. وأما دارهم، فبمصر فى مراد الحارثين . والله أعلم ۔ (تاریخ ابن یونس ج 1 ص 302 رقم 816،چشتی)
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ سے یہاں تسامح ہو گیا ہے تاریخ ابن یونس سے عبارت نقل کرتے وقت ۔ (واللہ اعلم) ۔ لہذا امام ابن یونس رحمۃ اللہ علیہ کو جارح شمار کرنا مردود ہے ۔

اعتراض نمبر 3 : امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : ’’کان ضعیفا فی الحدیث، سکن مصر‘‘ ۔ وہ حدیث میں ضعیف تھا ، مصر می رہتا تھا ۔ (الموتلف و المختلف ۱۳۷۷/۳)

جواب : اس بات کا تعلق امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری کتاب کے ساتھ ہے لہذا اس کی وضاحت نیچے آ رہی ہے ۔

اعتراض نمبر 4 : ابن ماکولا نے کہا : ’’ضعفوہ فی الحدیث‘‘ انہوں نے اسے حدیث میں ضعیف قرار دیا ہے ۔ (الاکمال ۱۵/۵، باب شبابہ و شبانہ و سیابہ)

جواب : اس میں امام ابن ماکولا رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی جرح نہیں کی بلکہ ا نہوں نے کسی اور کی طرف اشارہ کیا "ضعفوہ” میں واؤ ضمیر کا مرجع کون ہے ؟
کیونکہ اس میں کسی نام کی تصریح نہیں کہ کس نے ضعیف قرار دیا ہے لہذا یہ جرح بھی مبہم اور غیرمفسر ہے ۔ لہذا امام ابن ماکولا رحمۃ اللہ علیہ کو جارح شمار کرنا مردود ہے ۔

اعتراض نمبر 5 : حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : ’’لہ مناکیر‘‘ اس کی منکر روایتیں ہیں ۔ (تاریخ الاسلام ۱۶۰/۱۷)

جواب : منکر روایات ہونا کوئی جرح نہیں یہ بھی معترضین کی جہالت ہے کیونکہ بہت سے ثقہ محدثین نے مناکیر روایات روایت کی ہیں کیا وہ سب ضعیف ہو جائیں گے اس سے ؟ ۔ اس کے باوجود امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو منکر روایت میں شمار نہیں کیا جس سے ثابت ہوتا ہے یہ روایت روح بن صلاح کی منکرات میں سے نہیں ہے ۔

اعتراض نمبر 6 : ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے روح بن صلاح کو اپنی کتاب المجروحین (۲۸۷/۱) میں ذکر کیا اور اس کی بیان کردہ حدیث مذکور کو ’’الاحادیث الواھیۃ‘‘ یعنی ضعیف احادیث میں ذکر کیا ۔ (دیکھئے العلل المتاہیہ: ۴۳۳)

جواب : ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں ابن عدی کی تقلید کی اور اس کی مبہم اور غیرمفسر جرح سے روح بن صلاح کو ضعیف کہا جس سے ثابت ہوا کہ ابن جوزی صرف جرح کرنے والے ناقل ہیں خود انہوں نے جرح نقل نہیں کی لہذا اس کو جارح شمار کرنا باطل اور مردود ہے ۔ امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : روح بن صَلَاح وَيُقَال روح بن شَبابَة يكنى أَبَا الْحَارِث ، يروي عَن ابْن لَهِيعَة ، قَالَ ابْن عدي هُوَ ضَعِيف ۔ (الضعفاء والمتروکین لابن جوزی ج 1 ص 287 رقم 1243)

اعتراض نمبر 6 : احمد بن محمد بن زکریا ب ابی عتاب ابوبکر الحافظ البغدادی ، اخومیمون (متوفی ۲۹۶ھ) نے کہا : ہمارا اس پر اتفاق ہوا کہ مصر میں علی بن الحسن السامی ، روح بن صلاح اور عبدالمنعم بن بشیر تینوں کی حدیثیں نہ لکھیں ۔ (لسان المیزان ۲۱۳/۴۔ ۲۱۴، سوالات البرقانی الصغیر: ۲۰، بحوالہ المکتبۃ الشاملۃ و سندہ صحیح،چشتی)

جواب : یہ جرح امام دارقطنی کی بات سے تعلق رکھتی ہے جس کی پوری وضاحت یہ ہے : قال لی ابوالحسن : سمعت اباطالب یقول : قال لی اخو میمون ، اسمہ احمد بن محمد بن زکریا ابوبکر بغدادی اقام بمصر ۔
‘اتفقنا علی ان لایکتب بمصر حدیث ثلاثۃ : علی بن الحسن السامی، و روح بن صلاح و عبدالمنعم بن بشیر۔ (اس کا ترجمہ اوپر معترض نے کیا ہوا ہے آگے والی عبارت کو معترضین نے چھپا لیا ہے کیونکہ اس سے امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کی جرح مبہم ثابت ہوتی تھی آگے والی ہم پیش کر کے معترضین کا رد پیش کرتے ہیں) ۔ اس عبارت کے آگے امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ثم قال لی ابوالحسن : و روح بن صلاح یقال لہ ایضا : روح بن سیابۃ مصری ، و کذا عبدالمنعم مصری ، و علی بن الحسن السامی مصری ۔
ترجمہ : پھر مجھے امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا روح بن صلاح کے بارے میں اسی طرح کہا گیا ، روح بن سیابہ مصری اور اسی طرح عبدالمنعم مصری اور علی بن الحسن السامی مصری ۔ (سوالات ابی بکر البرقانی للدارقطنی ، ص 56 رقم 18) ۔ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کی جرح ’کان ضعیفا فی الحدیث، سکن مصر‘‘ (الموتلف و المختلف ۱۳۷۷/۳) کی یہاں وضاحت ہوگی ہے اس سے مراد اس کی احادیث نہ لکھی جائیں ۔
پہلے تو یہ اتفاق باطل ہے کیونکہ روح بن صلاح کی روایات بہت سے محدثین نے لکھیں ہیں خود امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی سنن دارقطنی رقم ٤٥١٤ میں لکھ کر خاموشی اختیار کی ہے . لہٰذا اب یہاں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا "لایکتب حدیثہ” جرح مفسر ہوتی ہے ؟

اس کا جواب معترضین غیرمقلدین کا ذہبی عصر عبدالرحمن معلمی غیرمقلد اپنی کتاب التنکیل ج1 ص 109 پر دیتا ہے : "ان کلمۃ لا تکتب حدیثہ لیس بتصریح فی الجرح” ، یعنی لا تکتب حدیثہ کا کلمہ جرح میں صریح نہیں ہے ۔
اس کے علاوہ معترضین کے ممدوح ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں : "کسی محدث کا کسی راوی سے حدیث نہ لینا اس کے ضعف کا موجب نہیں ۔ (توضیح الکلام ج1/548)
لہٰذا امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ اورابوبکر بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ جرح مبہم ہے اور معترضین کا اس سے استدلال کرنا باطل و مردود ہے ۔

اعتراض نمبر 7: ابن عدی، ابن یونس، دارقطنی، ابن ماکولا، ذہبی ، ابن جوزی اور احمد بن محمد بن زکریا البغدادی (سات محدثین) کے مقابلے میں حافظ ابن حبان نے روح بن صلاح کو کتاب الثقات میں ذکر کیا ۔ (۲۴۴/۸) ، حاکم نے کہا : ’’ثقہ مامون، من اھل الشام‘‘ ۔ (سوالات مسعود بن علی السجزی: ۶۸، ص۹۸) ، اور یعقوب بن سفیان الفارسی نے اس سے روایت لی۔ (موضح اوہام الجمع و التفریق للخطیب ۹۶/۲، و فیہ علی بن احمد بن ابراہیم البصری شیخ الخطیب،چشتی) ، مختصر یہ کہ جمہور علماء کی جرح کے مقابلے میں تین کی توثیق مردود ہے ۔

جواب : ابن عدی کی جرح ضعیف و مبہم ہے امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ اور اابوبکر بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی جرح کی وضاحت سے ثابت ہوتا ہے وہ بھی مبہم ہے جس کو ہم اوپر ثابت کر آئے ہیں ۔
امام ابن یونس رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی جرح نقل نہیں کی امام ابن ماکولا رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ ناقل ہیں خود جارح نہیں اس جرح میں ۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی جرح نہیں کی ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے معترضین کی ریاضی کمزور ہے ناقلین کو بھی جارحین میں شمار کیا ہوا ہے ۔

تمام دلائل سے ثابت ہوتا ہے جرح مبہم ہے اور مبہم جرح کو جمہور کہنا معترضین کی جہالت ہے اور اس میں روح بن صلاح کی توثیق ہی راجح ہے ۔ (واللہ اعلم)

اعتراض نمبر 8 دوم : روح بن صلاح (ضعیف) ااگر بفرض محال ثقہ بھی ہوتا تو یہ سند سفیان ثوری (مدلس) کی تدلیس (عن) کی وجہ سے ضعیف ہے ۔ عباس رضوی بریلوی نے مناظرے ہی مناظرے میں لکھا سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ مدلس ہے اور روایت انہوں نے عاصم بن کلیب سے عن کے ساتھ کی ہے اور اصول محدثی کے تحت مدلس کا عنعنہ غیرمقبول ہے جیسا کہ آگے ان شاء اللہ بیان ہوگا ۔ سفیان ثوری کی تدلیس کے بارے میں مزید تفصیل کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو: ۶۷ ص۱۱۔۳۲ ، خلاصۃ التحقیق یہ ہے کہ سوال میں روایت مذکورہ غیر ثابت ہونے کی وجہ سے ضعیف و مردود ہے ۔ نیز دیکھئے سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للالبانی (۳۲/۱۔ ۳۴ ح۲۳ وقال: ضعیف) ۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب ۔ (فتاویٰ علمیہ توضیح الاحکام ج2ص542 زبیر علی زئی غیرمقلد)

جواب : امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ دوسرے طبقہ کے مدلس ہیں ان کی عن والی روایت جمہور کے نزدیک قبول ہے ۔ خود غیر مقلد کفایت اللہ سنابلی اپنی جماعت کے غیر مقلد زبیر علی زئی کا رد کرتے ہوئے لکھتا ہے : "اور سفیان ثوری رحمہ اللہ قلیل التدلیس ہی ہیں ، لہذا ان کا عنعنہ بھی مقبول ہے، بلکہ ان کے عنعنہ کے مقبول ہونے پر اجماع ہے ۔ (انوارالبدر طبع جدید ص 354)

خود زبیر علی زئی کا استاد محمد یحیی گوندلوی لکھتا ہے : "بلاشبہ بعض محدثین نے امام ثوری کو مدلس کہا ہے مگر یہ مدلس کے اس طبقہ میں ہیں جہاں تدلیس مضر اور روایت کی صحت کے مانع نہیں ہے ۔ حافظ ابن حجر کی اصولی تحریر سے واضح ہو گیا ہے کہ اگرچہ امام ثوری مدلس تھے مگر ان کی تدلیس مضر نہیں جو حدیث کی صحت پر اثر انداز ہو اور حدیث کو تدلیس کی وجہ سے رد کر دیا جائے ۔ (خیرالبراہین فی الجہربالتامین ص 25-26)

اس کے علاوہ اس مسئلہ پر خود زبیر علی کے استاد محب راشدی اور بدیع الدین راشدی نے اپنے شاگرد کا رد کیا ۔ مزید تحقیق کے لیے مقالات راشدیہ جلد اول اور مقالات اثریہ کا مطالعہ کریں ۔

علامہ محمد عباس رضوی صاحب نے یہ بات غیر مقلد محمد سلیمان سے تحریری مناظرے میں الزامی جواب کے طور پر ہاتھ باندھنے کے موضوع پر لکھی ہے ۔ کیونکہ غیرمقلدین حضرات رفع یدین کے مسئلہ پر امام سفیان ثوری کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف لکھتے ہیں ۔ جب کہ خود علامہ محمد عباس رضوی نے اسی کتاب مناظرے ہی مناظرے ص 356 پر لکھتے ہیں امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ پر جرح اور اس کا جواب ۔ اس سرخی میں غیرمقلدین کے اعتراضات کے جواب دیئے لہذا زبیر زئی کا اس سے استدلال کرنا باطل و مردود ہے ۔ اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ روح بن صلاح حسن درجے کا راوی ہے اور زبیر علی زئی کے تمام اعتراض ضعیف اور مبہم جرح پر مبنی ہیں ایک جرح بھی مفسر نہیں اس کے علاوہ امام یعقوب بن سفیان رحمۃ اللہ علیہ جیسے متشدد محدث نے ان سے روایت لی اور یہ ان سے روایت لیتے ہیں جو ان کے نزدیک ثقہ ہوتے ہیں ۔ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا تساہل صرف مستدرک تک محدود ہے اس کا اظہار خود غیرمقلد کفایت سنابلی نے بھی کیا ہے محدث فورم پر ۔ لہٰذا اس راوی پر امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا تساہل ثابت نہیں ہوتا ، اس کے علاوہ امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ بھی اس توثیق میں منفرد نہیں ہیں لہٰذا یہاں ان سے تساہل ثابت نہیں ہوتا ۔ اگر مبہم جرح کو تسلیم بھی کیا جائے تو پھر بھی راوی ضعیف ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس کی توثیق بھی ثابت ہے لہٰذا مبہم جرح اور توثیق کی تطبیق سے ثقہ کے درجہ سے گر کر یہ راوی حسن الحدیث پر ہی فائز ہوتا ہے اور زبیر علی زئی غیرمقلد کا بھی یہ منہج ہے اپنی کتب میں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...