Thursday 23 January 2020

حضرت سیّدنا امام علی بن موسی رضا رضی اللہ عنہما

0 comments
 حضرت سیّدنا امام علی بن موسی رضا رضی اللہ عنہما
حضرت سیّدنا امام علی بن موسی رضا رضی اللہ عنہما کے روضۂ انور پہ حاضری کا شرف نصیب ہوا ۔ آپ رضی اللہ عنہ امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ کے فرزند اور امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے پوتے ہیں ۔

شجرۂ مبارکہ

سیّدنا امام علی الرضا بن امام موسیٰ الکاظم بن امام جعفر الصادق بن امام محمد الباقر بن امام علی زین العابدین السجاد بن سید الشہداء امام حسین بن امیر المؤمنین امیر المشارق والمغارب اسد اللہ الغالب علی المرتضیٰ و سیّدۃ النساء فاطمۃ الزہرا بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) (سلام اللہ علیہم اجمعین)

ولادتِ مبارکہ: 148 ھ ذی القعدہ ( مدینہ منورہ)

شہادت : 203 ھ صفر المظفر (طُوس ، خراسان) موجودہ مشہد ، ایران ، آپ (رضی اللہ عنہ) کی ولادتِ مبارکہ سے صرف ایک ماہ قبل آپ رضی اللہ عنہ کے دادا جان سیّدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا وصال مبارک ہوا ۔

امام علی بن موسیٰ الرضا رضی اللہ عنہ سے ہماری محبت و مؤدّت کتابِ الٰہی و سُنّت ِ مُصطفےٰ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے قائم کی ہے ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی ۔
ترجمہ : اے حبیب (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) آپ فرما دیجئے ! میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور ﷲ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں) ۔ (الشوریٰ ۲۳ ) ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمانِ مبارک ہے جسے سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے روایت فرمایا : وَ اسَاسُ الْاسْلَامِ حُبِّیْ وَ حُبُّ اھْلُ بَیْتِیْ ’’ اور اسلام کی اساس میری اور میرے اہلِ بیت کی محبت ہے ‘‘ ۔ (ابن عساکر فی التاریخ۔ علاؤ الدین المتقی فی الکنز العمال) ۔

شیخ الاسلام ابن حجر ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے الصواعق المحرقہ میں نقل فرمایا ہے کہ کہ جب امام علی رضا رضی اللہ عنہ نیشا پور میں داخل ہو رہے تھے تو ایک ہجوم زیارت کیلئے موجود تھا جہاں آپ نے یہ سند ’’سلسلۃ الذھب‘‘ بیان فرمائی ۔ کشف الخِفا میں امام عجلونی نے مسند الفردوس کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ جب آپ نیشا پور میں داخل ہو رہے تھے تو امام الحدیث اسحاق ابن راہویّہ نے آپ کی سواری کی مہار تھام رکھی تھی ۔ محدثین لکھتے ہیں کہ علما نے عرض کیا کہ ہمارے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی کوئی حدیث ارشاد فرمائیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : فقال حدثني أبي موسى الكاظم عن أبيه جعفر الصادق عن أبيه محمد الباقر عن أبيه زين العابدين عن أبيه الحسين عن أبيه علي بن أبي طالب رضي الله عنهم قال حدثني حبيبي و قرة عيني رسول الله صلي الله عليه و سلم .…. قال أحمد لو قرأت هذا الإسناد على مجنون لبرىء من جنته،چشتی)

آپ نے اپنے والد گرامی (امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ) سے لیکر اپنے نانا جان (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) تک سند بیان کی ۔ مجھے (یعنی امام علی رضا )کو حدیث بیان کی میرے والد موسیٰ کاظم نے ، وہ روایت کرتے ہیں اپنے والد امام جعفر صادقؑ سے ، وہ اپنے والد امام محمد باقرؑ سے ، وہ اپنے والد امام زین العابدینؑ سے ، وہ اپنے والد امام حسینؑ سے ، وہ اپنے والد امیر امؤمنین علی ابن ابی طالب سے ، وہ کہتے ہیں مجھے فرمایا میرے حبیب اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک سیّدی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) نے ۔

اور پھر حدیث پاک پڑھی ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اس سند پہ تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اِن روایات کی سند کو پڑھ کر کسی پاگل شخص پہ پھونک دیا جائے تو وہ پاگل پن سے نجات پا جائے گا ۔ ہم پہ اللہ پاک کا کرم ہے کہ ہم اس سلسلۃ الذہب سونے کی زنجیر سے وابستہ ہیں ۔

حدیث ’’سلسلۃ الذہب‘‘ متعدد محدثین نے اپنی اپنی کتب میں روایت فرمائی ہے : (مثلاً) (1) سنن ابن ماجہ (2) الشريعة أبو بكر محمد بن الحسين الآجُرِّيُّ البغدادي المتوفى: 360ھ (3) معجم الاوسط ، امام طبرانی (4) الإبانة الكبرى ، محدث ابن بطة ، متوفی ۳۸۷ ھ (5) حِلیۃ الاولیأ ، امام ابو نُعیم الاصفہانی (6) شُعب الایمان اور الاعتقاد و الھدایہ میں امام بیھقی نے (7) امالی ابن بشران ۔

درج بالا میں سیّدنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے یہ سند مبارکہ پڑھ کر دَم کرنے کا جو قول نقل ہوا ہے اُن کے علاوہ بھی محدثین نے اس بات کی توثیق و تائید فرمائی ہے ، امام ابو نُعیم اصفہانی نے یہ حدیث پاک نقل کرنے کے بعد لکھا ہے ، وَكَانَ بَعْضُ سَلَفِنَا مِنَ الْمُحَدِّثِينَ إِذَا رَوَى هَذَا الْإِسْنَادَ، قَالَ….. الخ ’’ اور ہمارےسلف صالحین محدثین میں سے جب کوئی ا ن اسناد کو روایت کرتا تو وہ فرماتا: اگر یہ سند کسی پاگل پہ پڑھی جائے تو وہ درست ہوجائے ۔

اس طاہر و طیّب سند کیساتھ جو احادیث آپ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمائیں وہ یہ ہیں : بالفاظ امام ابن ماجہ : الْإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ، وَقَوْلٌ بِاللِّسَانِ، وَعَمَلٌ بِالْأَرْكَانِ ۔
’’ ایمان نام ہے دل سے (اللہ پاک کی) معرفت،اورزبان سے اقرار اورارکان کیساتھ عمل کا ۔

بالفاظ امام ابو نُعیم اصفہانی : " قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: «إِنِّي أَنَا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِي، مَنْ جَاءَنِي مِنْكُمْ بِشَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ بِالْإِخْلَاصِ دَخَلَ فِي حِصْنِي , وَمَنْ دَخَلَ فِي حِصْنِي أَمِنَ مِنْ عَذَابِي» . هَذَا حَدِيثٌ ثَابِتٌ مَشْهُورٌ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِنْ رِوَايَةِ الطَّاهِرِينَ عَنْ آبَائِهِمُ الطَّيِّبِينَ، ۔
ترجمہ : اللہ عزوجل نے ارشادفرمایا کہ :بے شک میں اللہ ہوں میرے علاوہ کوئی معبود نہیں پس تم میری عبادت کرو،تم میں سے جومیرے پاس آیا اس حال میں کہ وہ اخلاص سے " لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ " کی شھادت دیتا ہے تو وہ میری پناہ میں آجائے گا ، اورجومیری پناہ میں آگیاوہ میرے عذاب سے امان میں آجائےگا"۔یہ حدیث پاک طاہرین کی روایت سے جواپنے طیبین آباء (رضی اللہ عنہم) سے اس اسناد کے ساتھ کی ہے ثابت اورمشہورہے ۔

امام علی رضا رضی اللہ عنہ کی ولادت و تربیّت کا احوال بیان کرتے ہوئے خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخ بغداد میں لکھتے ہیں : حضرت اما م علی بن موسى بن جعفر بن محمد بن علي بن حسين بن علي بن ابی طالب، ابو الحسن (رضی اللہ عنہ) آپ (رضی اللہ عنہ) کالقب " رضا" اورآپ (رضی اللہ عنہ) کی والدہ ماجدہ ام ولد نوبیہ ، آپ (سلام اللہ علیھا) کااسم مبارک "مسکینہ "ہے اور آپ (رضی اللہ عنہ) کی ولادت باسعادت مد ینۃ النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) میں ایک سو اڑتالیس ہجری میں ہوئی اوروہیں پہ آپ (رضی اللہ عنہ) پروان چڑھے ، اورآپ (رضی اللہ عنہ) نے اپنے والدماجد ، اپنے چچا حضرت اسماعیل ، حضرت عبداللہ ، حضرت اسحق ، حضرت علی بن جعفر ، اور حضرت عبدالرحمٰن بن ابی الموالی القرشی اوراہلِ حجازکے دوسرے لوگوں سے حدیث پاک کی سماعت فرمائی ۔

خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں : آپ (رضی اللہ عنہ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی مسجد میں اس وقت فتوٰی دیتے تھے،جبکہ آپ رضی اللہ عنہ کی عمرمبارک ابھی تقریباً بیس سال تھی ، اور آپ (رضی اللہ عنہ) خراسان اوراس کے علاہ کئی ملکوں میں حدیث پاک بیان فرمایا کرتے تھے ۔

امام علی رضا رضی اللہ عنہ کے کم عمری میں ہی کمالاتِ علمی کے اظہار کا اعتراف محدث ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی کتاب ’’ المنتظم في تاريخ الأمم والملوك ‘‘ میں کیا ہے ۔ محدث ابن جوزی لکھتے ہیں : وكان يفتي في مسجد رسول الله صلَّى اللَّه عَلَيْهِ وسلم وهو ابن نيف وعشرين سنة ۔
ترجمہ : اور آپ (رضی اللہ عنہ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی مسجد میں فتوٰی دیتے تھے ، اور آپ (رضی اللہ عنہ) کی عمرمبارک اس وقت تقریباً بیس سال تھی ۔

حضرت امام علی بن موسی الرضا رضی اللہ عنہ کی شخصیتِ مبارکہ کا عکس آئمہ کبار کی کتب میں : محدثِ کبیر امام ابن حبان " الثقات " میں آپ (رضی اللہ عنہ) کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں : امام علی بن موسیٰ رضا جوکہ على بن موسى بن جعفر بن محمد بن على بن الحسين بن على بن أبى طالب أبو الحسن (سلام اللہ علیہھم) ہیں ، آپ (رضی اللہ عنہ) اہلِ بیت سادات میں سے اورسب سے عقل مند ، ہاشمیوں میں سے اجل اوران میں سے سب سے عظیم ہیں ۔

امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے سیر اعلام النبلأ میں ابن جریر الطبری کے حوالہ سے لکھا ہے : پس آپؑ سے بڑھ کر کوئی افضل ،عالم یا پرہیز گا رنہ تھا،اورآپ کا نام آلِ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) میں سے "رضا " ہے ۔

سیّد المفسرین امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ الکوثر کی تفسیر میں امام علی رضا رضی اللہ عنہ اور دیگر آئمہ اہلِ بیت کو سورہ کوثر کے عملی اظہار کے طور پہ لکھا ہے ، مُلاحظہ ہو : اور تیسرا قول : کوثر سے مراد حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی اولاد مبارک ہے ، ائمہ دین نے فرما یا : کیونکہ یہ سورت ان لوگوں کے رد میں نازل ہوئی جنہوں نے (معاذاللہ ) حضورنبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی اولاد مبارک نہ ہونے پر برا کہا ، تو اس کا معانی یہ ہے کہ اللہ پاک آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کو ایسی نسل عطا فرمائے گا جو مرورِ زمانہ تک قائم ودائم رہے گی ، پس تو غوروفکر کر کہ کتنے اہل ِ بیت عظام (سلام اللہ علیھم اجمعین) کو شہید کر دیا گیا ، پھر بھی ان سے عالم بھرا ہوا ہے ، پھر تو غوروفکر کر کہ ان (اہل ِ بیت عظام سلام اللہ علیھم اجمعین) میں کئی اکابر علماء کرام موجود ہیں جیسا کہ امام باقر ، امام صادق ، امام موسی ، امام رضا (سلام اللہ علیھم اجمعین) اور ان کی آل سے نفوسِ زکیہ اوران کی امثال ۔(چشتی)

محدث ابن جوزی ’’المنتظم‘‘ میں آپ رضی اللہ عنہ کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہیں : حضرت امام علی بن موسى بن جعفر بن محمد بن علی بن حسين بن علی (سلام اللہ علیہم) کے بارے میں واضح فضل ، آپ کے روشن علم ، ظاہر تقوٰی ، اور خالص زہد ، دنیا سے کنارہ کشی اورلوگوں میں آپ کا قبولِ عام ہونا معلوم ہوا ہے پس یہ تمام چیزیں اس چیزکو واضح کرتی ہیں جس پر تواترسے خبریں آرہی ہیں ، اور (آپ کی تعریف و توصیف میں) زُبانیں متفق ہیں ۔

امام یوسف بن اسماعیل نبھانی رحمۃ اللہ علیہ "جامع کراماتِ اولیاء " میں لکھتے ہیں : حضرت امام علی بن موسی الرضا کاظم ابن جعفر صادق اکابر ائمہ میں سے عظیم شخصیت تھے ، امت میں اہلِ بیت (رضی اللہ عنہم) کا بہت بڑاچراغ ، نبوت کا دمکتا ماہتاب ، علم وعرفان اور کرم وجوانمردی کا خزانہ اورعظیم القدر ومشہورالذکر تھے ۔ اور آپ (رضی اللہ عنہ) کی کرامات شمار سے باہر ہیں ۔

امام یوسف بن اسماعیل نبھانی رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں : شیخ عبداللہ شبراوی اپنی کتا ب "اتحاف بحب الاشراف "میں سید ی علی رضا (رضی اللہ عنہ) کے حالات ِ زندگی تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کے مناقب بڑے بلند اورصفات بہت عمدہ ہیں ، آپ (رضی اللہ عنہ) ہاشمی خاندان کے چشم وچراغ تھےاور آپ کی جڑاوراصل حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تھے ، اورآپ (رضی اللہ عنہ) کی کرامات لاتعداد تھیں اوراتنی زیادہ مشہور ہیں کہ اُن میں کس کس کا ذکرکیاجائے ۔

امام یوسف بن اسماعیل نبھانی حضرت امام علی بن موسی الرضا (رضی اللہ عنہ) کا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے باطنی تعلق کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : امام حاکم نیشاپوری نے محمد بن عیسٰی بن ابی حبیب سے روایت کیا ،کہا کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کوخواب میں دیکھا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس جگہ تشریف فرماتھے،جہاں ہمارے شہر میں حاجی حضرات اترا کرتے تھے ، میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس ایک تھال دیکھا جو کھجور کے پتوں سے بنایا گیا تھا ، اس میں صیحانی کھجوریں تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے اٹھارہ کھجوریں عطافرمائیں ۔ بیس دن بعد میرے ہاں مدینہ منورہ سے (سیدنا) علی رضا (سلام اللہ علیہ) تشریف لائے اور اسی جگہ اُ ترے جہاں میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زیارت کی ، لوگ (امام)علی رضا کی کی بارگاہ میں سلام عرض کرنے کے لیے ٹوٹ پڑے ۔ میں بھی آپ رضی اللہ عنہ کی زیارت کے لیے گیا دیکھا تو آپ رضی اللہ عنہ بالکل اسی جگہ تشریف فرماہیں اور آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک تھال میں کھجوریں پڑی ہوئی ہیں ، آپ رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک مٹھی بھر کر کھجوریں مجھےعطافرمائیں ۔ میں نے لینے کے بعد ان کی گنتی کی توبرابراٹھارہ تھیں جتنی حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خواب میں مجھے عطافرمائی تھیں ، میں نے امام علی رضا سے عرض کیا حضور کچھ اورعنائیت فرمادیں ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرما یا : اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم زیادہ عطافرماتے تو میں بھی زیادہ دے دیتا ۔ (سبحان اللہ)

خلافتِ عباسیّہ میں ولی عہدی

عباسی خلیفہ مامون کے دور میں آپ کو ولی عہدِ خلافت نامزد کیا گیا ، امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخ الخلفا میں لکھا ہے :201 ھجری میں مامون نے اپنے بھائی کو ولی عہد کے منصب سے معزول کر کے امام علی رضا بن موسیٰ کاظم بن جعفر صادق (سلام اللہ علیہم) کو اپنا ولی عہد مقرر کر دیا ، اس بِنا پر (مامون کے قبیلہ کے سیاسی مخالف ) لوگوں نے مامون پہ شیعیت کا الزام بھی لگایا اور افواہ مشہور کی کہ مامون خلافت سے دستبردار ہو کر سلطنت امام علی رضا کو تفویض کرنا چاہتا ہے ، مامون نے آپ رضی اللہ عنہ کے نام کے سکے بھی جاری کروائے ، یہ تمام باتیں بنی عباس کے کچھ لوگوں کو سخت ناگوار گزریں چنانچہ انہوں نے ابراہیم بن مہدی سے بیعت کر کے مامون کے خلاف بغاوت کر دی۔

محدث ابن جوزی ’’المنتظم‘‘ میں لکھتے ہیں : اورآپ کو رضاکا نام دیا گیا ہے کیونکہ امیرالمؤمنین کی طرف سے آپ کو رضاحاصل تھی ، اورامیرالمؤمنین کے گھرکے افراد اور جو مدینہ منورہ میں تھے اس کے بڑے ، لشکر اور جوعام مسلمان تھے ان سب نے آپ (رضی اللہ عنہ) کے دستِ اقدس پہ (ولی عہدی کی ) بیعت کی ۔

ابن جوزی مزید لکھتے ہیں : مامون نے آپ رضی اللہ عنہ کو اپنی جانب بلانے کا حکم دیا اور اس نے آپ کو اپنا ولی عہد بنایا جس طرح کہ اس کا ذکر پہلے گزر گیا۔جب انہوں (عبّاسیوں) نے دیکھا کہ خلافت حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہٗ کی اولاد کی طرف چلی گئی ہے تو انہوں نے (بغضِ علی رضی اللہ عنہ کی وجہ سے ) امام علی بن موسی کاظم سلام اللہ علیہما کی عیب جوئی کی ۔

جیسا کہ پہلے بیان گزر چکا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ مدینہ سے خراسان کی جانب (نیشا پور) میں تشریف لائے جہاں عوام و خواص نے آپ کا شاندار استقبال کیا ۔ آپ کی شخصیّتِ مبارکہ اور کردار سے عامۃ الناس میں آپ کی مقبولیّت کا کوئی اندازہ نہ تھا ، جس سے تختِ شاہی کے کنگرے کانپنے لگے ۔ بعض روایات کے مطابق حاسدین و منافقین نے ۲۰۳ ھ میں طُوس کے قصبہ سنا باد میں آپ کو زہر کے ذریعے شہید کیا ۔ آپ کا مزار مبارک طوس (خراسان) میں بنایا گیا جو کہ موجودہ ایران کا شہر مشہد کہلاتا ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی قبرِ انور سے آج بھی لاکھوں لوگ آپ کے فیض و انوار کے چشموں سےسیراب ہوتے ہیں ۔

سخیوں کا دَر ہے منگتے خالی نہیں لوٹتے

امام علی رضا رضی اللہ عنہ کی مزارِ مُقدّس پہ اکابرمحدّثین و علما کی حاضری

مشہور محدّث امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ (م 354ھ) حضرت امام علی رضا بن موسیٰ علیہ السلام کے مزار مبارک کے بارے میں اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : قد زرته مراراً کثيرة، وما حلّت بي شدّة في وقت مقامي بطوس ، وزرت قبر علي بن موسي الرضا صلوات ﷲ علي جده وعليه، ودعوت ﷲ تعاليٰ إزالتها عنّي إلا استجيب لي، وزالت عنّي تلک الشدّة وهذا شئ جرّبته مراراً فوجدته کذلک ، أماتنا ﷲ علي محبة المصطفيٰ وأهل بيته صلي ﷲ وسلم عليه وعليهم أجمعين ۔
ترجمہ : میں نے اُن کے مزار کی کئی مرتبہ زیارت کی ہے ، شہر طوس قیام کے دوران جب بھی مجھے کوئی مشکل پیش آئی اور حضرت امام موسیٰ رضا رضی اللہ عنہ کے مزار مبارک پر حاضری دے کر ، اللہ تعالیٰ سے وہ مشکل دور کرنے کی دعا کی تو وہ دعا ضرور قبول ہوئی ، اور مشکل دور ہوگئی ۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے میں نے بارہا آزمایا تو اسی طرح پایا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم اور آپ کے اہلِ بیت صلی ﷲ وسلم علیہ وعلیہم اجمعین کی محبت پر موت نصیب فرمائے ۔ (ابن أبي حاتم رازي ، کتاب الثقات ، 8 : 457، رقم : 14411،چشتی)

حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں مجموعۂ صحاح کی معروف کتاب ’’صحیح ابن خزیمہ‘‘ کے مرتبہ امام ابنِ خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت نقل فرماتے ہیں : ابوبکر محمد بن مومل کہتے ہیں: میں حدیث والوں کے امام ، ابوبکر بن خزیمہ، ابن علی ثقفی اور اسا تذہ کی ایک جماعت کے ساتھ امام علی بن موسی الرضا رضی اللہ عنہ کی قبرِ انور کی زیارت کے قصد سے طوس (موجودہ مشہد) کی طرف روانہ ہوا۔ میں نے امام ابن خزیمہ کو دیکھا کہ وہ امام (رضی اللہ عنہ) کے مزار مبارک کی اس قدر تعظیم کررہے تھے اور اس کے سامنے اس قدر تواضع اور تضرع و زاری کررہے تھے کہ ہم حیران رہ گئے ۔

امام علی الرضا بن موسیٰ الکاظم علیہما السلام کے اقوالِ مبارکہ (انتخاب از سیر اعلام النبلا ، امام شمس الدین الذہبی) :

جس نے کہا کہ قرآن مخلوق ہے وہ کافرہے ۔

ہرشئے مقدر ہے یہاں تک کہ عجز اوردانائی ۔

حضرت ابی صلَّت نے امام رضی اللہ عنہ کی ایک دُعا روایت فرمائی ہے : اللَّهُمَّ كَمَا سَتَرْتَ عَلَيَّ مَا أَعْلَمُ فَاغْفِرْ لِي مَا تَعْلَمُ وَكَمَا وَسِعَنِي عِلْمُكَ فَلْيَسَعْنِي عَفْوُكَ، وَكَمَا أَكْرَمْتَنِي بِمَعْرِفَتِكَ، فَاشْفَعْهَا بِمَغْفِرَتِكَ يَا ذَا الجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ ۔
ترجمہ : اے اللہ جس طرح تو نے میرے ان گناہوں پہ پردہ ڈالا جومیں جانتاہوں پس تو ان گناہوں کو بھی معاف فرماجو تیرے علم میں ہیں (اورمیں نہیں جانتا) اورجس طرح تیراعلم وسیع ہے تو اسی طرح عفوبھی (مجھ پہ )وسیع فرما ، اورجس طرح تُو نے اپنی معرفت کےساتھ مجھے عزت عطافرمائی ہے تو اےذوالجلال والاکرام اپنی مغفرت کےساتھ ( میرے ) گناہوں کو معاف فرما ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔