درسِ قرآن موضوع آیت : اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ۔ حصّہ ششم
محترم قارئینِ کرام : اس قبل اس موضوع سے متعلق آپ پانچ حصّے پڑھ چکے ہیں آیئے اس موضوع سے متعلق حصّہ ششم پڑھتے ہیں :
قطبُ العالم دیوبند جناب رشید احمد گنگوہی صاحب ” یا رسول اللہ انظرحالنا ‘ یا نبی اللہ اسمع قالنا “ کے جواز یاعدم جواز کی بحث میں لکھتے ہیں : یہ خود معلوم آپ کو ہے کہ ندا غیر اللہ تعالیٰ کو دور سے شرک حقیقی جب ہوتا ہے کہ ان کو عالم سامع مستقل عقیدہ کرے ورنہ شرک نہیں ‘ مثلا یہ جانے کہ حق تعالیٰ انکو مطلع فرما دیوے گا یا باذنہ تعالیٰ انکشاف ان کو ہوجاوے گا یا باذنہ تعالیٰ ملائکہ پہنچا دیویں گے جیسا کہ درود کی نسبت وارد ہے ‘ یا محض شوقیہ کہتا ہو محبت میں یا عرض حال محل تحسر و حرمان میں ‘ ایسے مواقع میں اگرچہ کلمات خطابیہ بولتے ہیں لیکن ہرگز نہ مقصود اسماع ہوتا ہے نہ عقیدہ ‘ پس ان ہی اقسام سے کلمات مناجات واشعار بزرگان کے ہوتے ہیں کہ فی حد ذاتہ نہ شرک ہیں نہ معصیت مگر ہاں بہ وجہ موہم ہونے کے ان کلمات کا مجامع میں کہنا مکروہ ہے کہ عوام کو ضرر ہے اور فی حد ذاتہ ابہام بھی ہے ‘ لہذا نہ ایسے اشعار کا پڑھنا منع ہے اور نہ اس کے مولف پر طعن ہوسکتا ہے (الی قولہ) مگر اسی طرح پڑھنا اور پڑھوانا کہ اندیشہ عوام کا ہو بندہ پسند نہیں کرتا گو اس کو معصیت بھی نہیں کہہ سکتا مگر خلاف مصلحت وقت کے جانتا ہے ۔ (فتاوی رشیدیہ کامل ص ٢٨‘ مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز ‘ کراچی)
گویا محمد یا رسول اللہ کے نعروں سے علماء دیوبند کا منع کرنا ذاتی نا پسندیدگی کی وجہ سے ہے کوئی حکم شرعی نہیں ہے ۔ شیخ گنگوہی سے سوال کیا گیا :
سوال : اشعار اس مضمون کے پڑھنے : ” یا رسول کبریا فریاد ہے ‘ یا محمد مصفطے فریاد ہے ‘ مدد کر بہر خدا حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری تم سے ہر گھڑی فریاد ہے “ کیسے ہیں ؟
جواب : ایسے الفاظ پڑھنے محبت میں اور خلوت میں بایں خیال کہ حق تعالیٰ آپ کی ذات کو مطلع فرما دیوے یا محض محبت سے بلا کسی خیال سے جائز ہیں اور بعقیدہ عالم الغیب اور فریاد رس ہونے کے شرک ہیں اور مجامع میں منع ہیں کہ عوام کے عقائد کو فاسد کرتے ہیں ‘ لہذا مکروہ ہوں گے ۔ (فتاوی رشیدیہ کامل ص ٩٥‘ مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز کراچی،چشتی)
عام مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم الغیب نہیں سمجھتے ‘ عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ‘ البتہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی صفت عطا فرمائی ہے جس سے آپ پر حقائق غیبیہ منکشف ہوجاتے ہیں جس طرح ہم کو ایسی صفت عطا فرمائی ہے جس سے ہم پر عالم شہادت کے واقعات منکشف ہوجاتے ہیں ‘ نہ ہم بذاتہ شہادت (عالم ظاہر) کے عالم ہیں نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بذاتہ غیب کے عالم ہیں ۔ ہم پر اللہ تعالیٰ نے عالم شہادت منکشف کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ عزوجل نے عالم غیب بھی منکشف کیا ۔ یہی عام مسلمانوں کا عقیدہ ہے اور شیخ گنگوہی کی تصریح کے مطابق یہ شرک اور معصیت نہیں ہے بلکہ جائز ہے ‘ علماء اہل سنت اپنی تقاریر اور تصانیف میں عوام کو یہ فرق ہمیشہ سے ہر دور میں بتاتے رہتے ہیں اور عام مسلمان اس فرق کو جانتے ہیں ‘ اس لیے عوام کے جلسوں میں بھی اس قسم کے اشعار پڑھنا جائز ہیں کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک مانتا ہے اور اس کی عبادت بجا لاتا ہے اس کے متعلق یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مستقل سامع یا مستقل عالم گردانتا ہے ‘ البتہ ذاتی ناپسندیدگی کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے ۔
قطبُ العالم دیوبند جناب رشید احمد گنگوہی صاحب لکھتے ہیں : اور اولیاء کی نسبت بھی یہ عقیدہ ایمان ہے کہ حق تعالیٰ جس وقت چاہے ان کو علم و تصرف دیوے اور عین حالت تصرف میں حق تعالیٰ ہی مصرف ہے ‘ اولیاء ظاہر میں مصرف ہی معلوم ہوتے ہیں ‘ عین حالت کرامت و تصرف میں حق تعالیٰ ہی ان کے واسطے سے کچھ کرتا ہے ۔ (فتاوی رشیدیہ کامل ص ٤٩‘ مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز کراچی)
علامہ محمود الحسن دیوبندی (آیت) ” ایاک نستعین “ کی تفسیر میں لکھتے ہیں : اس کی ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بالکل ناجائز ہے ‘ ہاں اگر کسی مقبول بندہ کو محض واسطہ رحمت اور غیر مستقل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے تو یہ جائز ہے کہ یہ استعانت درحقیقت حق تعالیٰ ہی سے استعانت ہے ۔ (حاشیتہ القرآن الحکیم صفحہ نمبر ٢‘ مطبوعہ تاج کمپنی ‘ کراچی)
مفتی محمد شفیع دیوبندی لکھتے ہیں : اور حقیقی طور پر اللہ کے سوا کسی کو حاجت روانہ سمجھے اور کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے ‘ کسی نبی یا ولی وغیرہ کو وسیلہ قرار دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا اس کے منافی نہیں ۔ (معارف القرآن ‘ مطبوعہ ادارۃ المعارف ‘ کراچی ‘ ١٣٩٧ ھ)
قطبُ العالم دیوبند جناب رشید احمد گنگوہی صاحب اس سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ دعا میں بحق رسول وولی اللہ کہنا ثابت ہے یا نہیں ‘ بعض فقہا ومحدثین منع کرتے ہیں ‘ اس کا کیا سبب ہے ؟
جواب : بحق فلاں کہنا درست ہے اور معنی یہ ہیں کہ جو تو نے اپنے احسان سے وعدہ فرمالیا ہے اس کے ذریعہ سے مانگتا ہوں مگر معتزلہ اور شیعہ کے نزدیک حق تعالیٰ پر حق لازم ہے اور وہ بحق فلاں کے یہی معنی مراد رکھتے ہیں ‘ سو اس واسطے معنی موہم اور مشابہ معتزلہ ہوگئے تھے ‘ لہذا فقہاء نے اس لفظ کا بولنا منع کردیا ہے تو بہتر ہے کہ ایسا لفظ نہ کہے جو رافضیوں کے ساتھ تشابہ ہوجاوے فقط ۔ (فتاوی رشیدیہ کامل ص ٩٤‘ مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز کراچی،چشتی)
علاّمہ محمد سرفراز خاں صفدر دیوبندی لکھتے ہیں : یہاں ہم صرف ” المہند “ کی عبارت پر اکتفاء کرتے ہیں جو علماء دیوبند کے نزدیک ایک اجماعی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے ۔
جواب : ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک دعاؤں میں انبیاء واولیاء و صدیقین کا توسل جائز ہے ‘ ان کی حیات میں یا بعد وفات کے بایں طور کہے کہ یا اللہ ! میں بوسیلہ فلاں بزرگ کے تجھ سے دعا کی قبولیت اور حاجت برائی چاہتا ہوں ‘ اسی جیسے اور کلمات کہے ‘ چناچہ اس کی تصریح فرمائی ہے ہمارے مولانا محمد اسحاق دہلوی ثم المکی نے ‘ پھر مولانا رشید احمد گنگوہی نے بھی اپنے فتاوی میں اس کو بیان فرمایا ہے جو چھپا ہوا آج کل لوگوں کے ہاتھ میں موجود ہے اور یہ مسئلہ اس کی پہلی جلد کے صفحہ نمبر ٩٣ پر مذکور ہے ‘ جس کا جی چاہے دیکھ لے ۔ (انتہی المہند ص ١٢۔ ١٣) (تسکین الصدور ص ٤١٣‘ مطبوعہ ادارہ نصرۃ العلوم ‘ گوجرانوالہ)
جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالوں سے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : (ف) اس سے توسل بعد الوفات بھی ثابت ہوا اور علاوہ ثبوت بالروایۃ کے درایۃ بھی ثابت ہے کیونکہ روایت اول کے ذیل میں جو توسل کا حاصل بیان کیا گیا تھا ‘ وہ دونوں حالتوں میں مشترک ہے ۔ (نشر الطیب ص ٢٥٣‘ مطبوعہ تاج کمپنی ‘ کراچی)
حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ مبارک پر حاضر ہو کر بارش کی دعا کے لیے درخواست کی تھی اس کے متعلق دیوبندی شیخ الحدیث محمد سرفراز خاں صفدر لکھتے ہیں : اس روایت کے سب راوی ثقہ ہیں اور حافظ ابن کثیر ‘ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ سمہودی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ اس روایت کو صحیح کہتے ہیں ‘ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ ١٧ ھ اور ١٨ ھ کی ابتداء (تاریخ طبری ج ٤ ص ٩٨‘ البدایہ والنہایہ ج ٧ ص ٩١) اور مورخ عبدالرحمان بن محمد بن خلدون (المتوفی ٨٠٨ ھ) فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ ١٨ ھ کا ہے۔ (ابن خلدون ج ٢ ص ٩٦٩)
یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات حسرت آیات سے تقریبا سات آٹھ سال بعد پیش آیا ‘ اس وقت بکثرت حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھے ۔ خواب دیکھنے والے کوئی مجہول شخص نہیں تھے ‘ بلکہ جلیل القدر صحابی حضرت بلال بن حارث مزنی (المتوفی ٦٧ ھ) رضی اللہ عنہ تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس حاضر ہو کر طلب دعا اور سوال شفاعت شرک نہیں ورنہ یہ جلیل القدر صحابی یہ کارروائی ہرگز نہ کرتے ۔ یہ معاملہ نرے خواب کا نہیں ہے بلکہ اس سچے خواب کو خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تائید وتصویب حاصل ہے اور اس کارروائی کا حکم پہلے تو ” علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین الحدیث “ کے تحت سنیت کا ہوگا ورنہ استحباب اور اقل درجہ جواز سے کیا کم ہوگا ۔ (تسکین الصدور ص ٣٥٢۔ ٣٤٩“ ملخصا ‘ مطبوعہ ادارہ نصرۃ العلوم ‘ گوجرانوالہ،چشتی)
نیز یہی دیوبندی شیخ الحدیث محمد سرفراز خاں صفدر لکھتے ہیں : علاوہ ازیں متعدد کتابوں میں آپ کی قبر مبارک پر حاضر ہو کر طلب دعا کا تذکرہ ہے ‘ چناچہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ایک جماعت نے عتبی سے یہ مشہور حکایت نقل کی ہے جس جماعت میں شیخ ابومنصور الصباغ بھی ہیں ‘ انہوں نے اپنی کتاب ” الشامل “ میں بیان کیا ہے کہ عتبی فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کے پاس بیٹھا ہوا تھا ‘ کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا : السلام علیک یا رسول اللہ ! میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سنا ہے ” اور اگر بیشک وہ لوگ جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا تیرے پاس آتے پس وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے اور ان کے لیے رسول بھی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا تو وہ ضرور اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پاتے “ اس لیے میں اپنے گناہوں کی معافی مانگے کے لیے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارشی پیش کرنے آیا ہوں۔ اس کے بعد اس نے درد دل سے چند اشعار پڑھے اور جذبہ محبت کے پھول نچھاور کرکے چلا گیا ‘ اور اسی واقعہ کے آخر میں مذکور ہے کہ خواب میں اس کو کامیابی کی بشارت بھی مل گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے عتبی ! جا کر اعرابی سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کردی ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر ج ١ ص ٥٢٠) یہ واقعہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے ” کتاب الاذکار “ ص ١٨٥‘ طبع مصر میں اور علامہ ابوالبرکات عبد اللہ بن احمد النسفی الحنفی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی ٧١٠ ھ نے اپنی تفسیر ” مدارک “ ج ١ ص ٣٩٩ میں اور علامہ تقی الدین سبکی نے ” شفاء السقام “ ص ٤٦ میں اور شیخ عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ نے ” جذب القلوب “ میں ص ١٩٥ میں اور علامہ بحرالعلوم عبدالعلی نے ” رسائل الارکان “ ص ٢٨٠ طبع لکھنؤ میں نقل کیا ہے ‘ اور علامہ علی بن عبد الکافی السبکی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ سمہودی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ۔ عتبی کی حکایت اس میں مشہور ہے اور تمام مذاہب کے مصنفین نے مناسک کی کتابوں میں اور مورخین نے اس کا ذکر کیا ہے اور سب نے اس کو مستحسن قرار دیا ہے ‘ اس اسی طرح دیگر متعدد علماء نے قدیما وحدیثا اس کو نقل کیا ہے اور تھانوی صاحب لکھتے ہیں کہ مواہب میں بسند امام ابومنصور صباغ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن النجار رحمۃ اللہ علیہ اور ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ اور ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ نے محمد بن حرب ہلالی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ میں قبر مبارک کی زیاررت کرکے سامنے بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور زیارت کرکے عرض کیا کہ یا خیرالرسل ! اللہ نے آپ پر ایک سچی کتاب نازل فرمائی جس میں ارشاد ہے : (آیت) ” ولوانہم اذ ظلموا انفسھم جآءوک فاستغفرواللہ واستغفر لھم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما “ ۔ (النساء : ٦٤) اور میں آپ کے پاس اپنے گناہوں سے استغفار کرتا ہوا اور اپنے رب کے حضور میں آپ کے وسیلہ سے شفاعت چاہتا ہوا آیا ہوں پھر دو شعر پڑھے ‘ اور اس محمد بن حرب کی وفات ٢٢٨ ھ میں ہوئی ہے ‘ ١ ھ۔ غرض زمانہ خیر القرون کا تھا اور کسی سے اس وقت نکیر منقول نہیں بس حجت ہوگیا ۔ (نشر الطیب ص ٢٥٤) اور بانی دیوبند جناب محمد قاسم نانوتوی صاحب یہ آیت کریمہ لکھ کر کہتے ہیں : ” کیونکہ اس میں کسی کی تخصیص نہیں آپ کے ہم عصر ہوں یا بعد کے امتی ہوں ‘ اور تخصیص ہو تو کیونکر ہو آپ کا وجود تربیت تمام امت کے لیے یکساں رحمت ہے کہ پچھلے امتیوں کا آپ کی خدمت میں آنا اور استغفار کرنا اور کرانا جب ہی متصور ہے کہ قبر میں زندہ ہوں ‘ ١ ھ ۔ (آب حیات ص ٤٠) اور علامہ ظفر احمد عثمانی دیوبندی یہ سابق واقعہ ذکر کرکے آخر میں لکھتے ہیں کہ پس ثابت ہوا کہ اس آیت کریمہ کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی باقی ہے ۔ (اعلاء السنن ج ١٠ ص ٣٣٠) ان اکابر اور دیوبندی اکابرین کے بیان سے معلوم ہوا کہ قبر پر حاضر ہو کر شفاعت مغفرت کی درخواست کرنا قرآن کریم کی آیت کے عموم سے ثابت ہے ‘ بلکہ امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ اس معنی میں صریح ہے ۔ (شفاء القام ص ١٢٨) ، اور خیر القرون میں یہ کارروائی ہوئی مگر کسی نے انکار نہیں کیا جو اس کے صحیح ہونے کی واضح دلیل ہے ۔ (تسکین الصدور ص ٣٦٥۔ ٣٦٢‘ ملخصا ‘ مطبوعہ ادارہ نصرۃ العلوم ‘ گوجر انوالہ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ مبارک پر حاضر ہو کر دعا کی درخواست کرنے کو ناجائز ثابت کرنے کے لیے علامہ ابن تیمیہ ‘ علامہ ابن قیم اور شیخ ابن الہادی وغیرہم کی ایک یہ دلیل ہے کہ حضرت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ‘ ائمہ دین اور سلف صالحین سے ایسی کارروائی ثابت نہیں ‘ اگر یہ جائز ہوتی تو وہ ضرور ایسا کرتے ‘ اس کے جواب میں جناب محمد سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں : یہ ان حضرات کا ایک علمی مغالطہ ہے کیونکہ قبر کے پاس حاضر ہو کر سفارش کرانا اور طلب دعا ‘ نہ تو فرض و واجب ہے اور نہ سنت مؤکدہ ‘ تاکہ یہ حضرات اس پر خواہ مخواہ ضرور عمل کر کے دکھاتے اور اس کا رروائی کے نہ کرنے پر وہ ملامت کئے جاتے ‘ اس کارروائی کے مقر اس کو صرف جائز ہی کہتے ہیں اور جواز کے اثبات کے لیے حضرت بلال بن الحارث رضی اللہ عنہ کا یہ فعل جس کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تائید کی ہے کیا کم ہے ؟ اگر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما صحابی ہیں جنہوں نے ایسا نہیں کیا تو یقین جانئے کہ بلال بن الحارث اور ان کی اس کارروائی کے مصدقین بھی صحابہ کرام (رض) ہیں ‘ اگرچہ حافظ ابن تیمیہ یہ کارروائی تسلیم نہیں کرتے لیکن اس کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ کارروائی بعض متاخرین سے ثابت ہے ۔ (محصلہ قاعدہ جلیلہ ص ٧٢،چشتی)،(تسکین الصدور ص ٣٥٤‘ ملخصا ‘ مطبوعہ ادارہ نصرۃ العلوم ‘ گوجر انوالہ)
خلاصہ یہ ہے کہ تمام اکابر اور اصاغر علماء دیوبند کے نزدیک یا رسول اللہ کہنا جائز ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر مقربین کے وسیلہ سے دعا کرنا اور ان سے دعا کی درخواست کرنا بھی جائز ہے ‘ بلکہ سنت اور مستحب ہے اور ہم بھی اس سے زیادہ نہیں کہتے ۔
نداے غیر الہ اور توسل کے متعلق ہمارا موقف
انبیا کرام علیہم السلام اور اولیاء کرام علیہم الرّحمہ سے استمداد کے متعلق جو ہم نے احادیث اور فقہاء اسلام علیہم الرّحمہ کی عبارات نقل کی ہیں اس سے ہمارا صرف یہ منشاء ہے کہ عام مسلمان جو شدائد اور ابتلاء میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہہ کر پکارتے ہیں ‘ ان کا یہ پکارنا شرک نہیں ہے اور اس نداء کو شرک کہنا شدید ظلم اور زیادتی ہے کیونکہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہرحال اللہ کی مخلوق اور اس کا مقرب بندہ گردانتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ حقیقی کارساز صرف اللہ تعالیٰ ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء کرام کا ہر فعل اور ہر تصرف اللہ کے اذن ‘ اس کی مشیت اور اس کی دی ہوئی قدرت کے تابع ہے ‘ انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء کرام ہوں یا عام انسان ‘ اس کائنات میں جس سے بھی جو فعل صادر ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی قدرت سے صادر ہوتی ہے ‘ اور اللہ تعالیٰ کے بغیر کسی انسان کو کسی شے پر ذرہ بھی قدرت نہیں ہے ‘ اور اس اعتقاد کے ساتھ ندائے غیر اللہ کو علماء دیوبند بھی جائز کہتے ہیں ‘ جیسا کہ علامہ رشید احمد گنگوہی دیوبندی کے حوالے سے گزر چکا ہے ۔
اس اعتقاد کے ساتھ انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء کرام سے استمداد اور استغاثہ کرنا جائز ہے ۔
شیخ الحدیث علامہ محمد عبدالحکیم صاحب شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : البتہ یہ ظاہر ہے کہ جب حقیقی حاجت روا ‘ مشکل کشا اور کارساز اللہ تعالیٰ کی ذات ہے تو احسن اور اولی یہی ہے کہ اسی سے مانگا جائے اور اسی سے درخواست کی جائے اور انبیاء علیہم السّلام واولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کا وسیلہ اس کی بارگاہ میں پیش کیا جائے ‘ کیونکہ حقیقت ‘ حقیقت ہے اور مجاز ‘ مجاز ہے ‘ یا بارگاہ انبیاء علیہم السّلام و اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ سے درخواست کی جائے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کریں کہ ہماری مشکلیں آسان فرمادے اور حاجتیں برلائے اس طرح کسی کو غلط فہمی بھی پیدا نہیں ہوگی اور اختلافات کی خلیج بھی زیادہ وسیع نہیں ہوگی ۔ (ندائے یا رسول اللہ ص ١٢‘ مطبوعہ مرکزی مجلس رضا ‘ لاہور ‘ ١٤٠٥ ھ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment