Sunday, 5 January 2020

مسٸلہ ایمانِ ابو طالب حصّہ سوم

مسٸلہ ایمانِ ابو طالب حصّہ سوم
محترم قارئینِ کرام : ایمانِ ابو طالب کے متعلق ہم نے حصّہ اوّل میں عرض کر دیا تھا کہ اس مسٸلہ میں اختلاف موجود ہے مگر ہم نے جمہور کے مؤقف کو اپنانا ہے اس مسٸلہ میں تشدد کسی صورت جائز نہیں ہے اور حصّہ دوم میں بھی ہم نے اس موضوع پر دلائل پیش کیے ۔ حضرت ابو طالب کی شخصیت دونوں فریقین کے نزدیک قابلِ احترام ہے اُن کی خدمات کی وجہ سے ۔ لہٰذا اس مسلہ میں احتیاط یہ ہے کہ خاموشی اختیار کی جائے کسی بھی جانب سے پُر تشدد رویہ اور گالم گلوچ نہیں ہونی چاہیئے ہم نے پہلے دو حصّوں اور بعد میں مختلف حوالہ جات پیش کیے مقصد صرف اُن لوگوں کو آئینہ دیکھانا تھا جو مسٸلہ ایمانِ ابو طالب کو لے کر اکابرینِ اہلسنت کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں ایسے لوگوں کو یہ جاننا ضروری ہے کہ اُن کے متصبانہ رویے کی زد میں کون کون آ رہا ہے اب آیئے حصّہ سوم ایمانِ حضرت ابو طالب کے قائلین کے دلائل اور تحقیق ساتھ دیگر دلائل پڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں فتنوں سے محفوظ رکھے آمین ۔

ابو طالب کے ایمان کے متعلق شیعہ علماء کا مؤقف

شیعہ عالم ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی متوفی ٠٦٤ ھ القصص : ٦٥ کی تفسیر میں لکھتے ہیں : حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہما) ‘ مجاہد ‘ حسن اور قتادہ وغیر ہم سے مروی ہے کہ یہ آیت ( القصص : ٦٥) ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ اور ابو عبداللہ اور ابو جعفر سے مروی ہے کہ ابو طالب مسلمان تھے اور اسی پر امامیہ کا اجماع ہے اور ان کا اس میں اختلاف نہیں ہے اور ان کے اس پر دلائل قاطعہ ہیں ‘ یہاں ان کو ذکر کا موقی نہیں ہے۔ ( البتیان ج ٨ ص ٤٦١‘ داراحیاء التراث العربی بیروت)

شیعہ عالم ابو علی الفضل بن الحسن الطبرسی (من علماء القرن السادس) الانعم : ٦٢ کی تفسیر ہیں لکھتے ہیں : ابو طالب کے ایمان پر اہل بیت کا اجماع ہے اور ان کا اجماع حجت ہے کیونکہ وہ اس ثقلین میں سے ایک ہیں جن کے ساتھ تمسک کرنے کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا ہے ‘ آپ نے فرمایا اگر تم ان کے ساتھ تمسک کرو گے تو گمراہ نہیں ہو گے ‘ اور اس پر یہ بھی دلیل ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) فتح مکہ کے دن اپنے والد ابو قحافہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے کر گئے ‘ وہ اسلام لے آئے ‘ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اس بوڑھے کو کیوں لے کر آئے ‘ وہ نابینا تھے ‘ میں خود ان کے پاس آجاتا ‘ حضرت ابوبکر نے کہا میرا ارادہ تھا اللہ تعالیٰ ان کو اجر عطا فرمائے گا ‘ اور اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے مجھے اپنے باپ کے اسلام لانے سے زیادہ خوشی ابوطالب کے اسلام لانے سے ہوئی تھی جس کے اسلام لانے سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئی تھیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے سچ کہا۔ ابوطالب کے وہ اقوال اور اشعار جن سے ان کے اسلام کا پتا چلتا ہے بہت زیادہ ہیں ‘ بعض اشعار یہ ہیں :
الم تعلموا اناوجد نا محمدا نبیا کموسی خط فی اول الکتب ۔
کیا تم کو معلوم نہیں کہ ہم نے محمد کو موسیٰ کی طرح نبی پایا ان کا ذکر پہلی کتابوں میں لکھا ہوا ہے ۔
الاان احمد قد جاء ھم بحق ولم یاتھم بالکذب ۔
سنو بیشک احمد ان کے پاس حق لے کر آئے ہیں اور وہ جھوٹ نہیں لائے ۔ (مجمع البیان جز ٤ ص ٥٤٤۔ ٤٤٤‘ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ‘ ٤٠٤١ ھ)

شیعہ عالم محمد حسین الطباطبائی القصص : ٦٥ کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ابوطالب کے ایمان کے متعلق ائمہ اہل بیت کی روایات مشہور ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق اور آپ کے دین کے برحق ہونے کے متعلق ان کے اشعار بہت زیادہ ہیں ‘ اور جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کمسن تھے توا نہوں نے ہی آپ کو پناہ دی تھی ‘ اور بعثت کے بعد ہجرت سے پہلے انہوں نے ہی آپ کی حفاظت کی تھی اور مہاجرین اور انصار نے ہجرت کے بعد دس سال تک جو آپ کی نصرت اور حفاظت کی ہے اس کے برابر ہجرت سے پہلے دس سال تک ابوطالب نے آپ کی حفاظت کی ۔ (المیزان ج ٦١ ص ٧٥‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ ا ایران ‘ ٢٦٣١ ھ)

شیخ طبرسی نے جو روایت پیش کی ہے اس کا کوئی حوالہ ذکر نہیں کیا ‘ اور نہ ان اشعار کی کوئی سند ہے ۔

ایمانِ ابو طالب کے متعلق ایک حدیث کی تحقیق

حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : فلما رأی حرص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علیه قال :یا ابن أخي! والله، لو لا مخافة السبة علیك وعلی بني أبیک من بعدي، وأن تظن قریش أني إنما قلتھا جزعا من الموت لقلتھا، لا أقولھا إلا لإسرک بھا ، قال: فلما تقارب من أبي طالب الموت قال: نظر العباس إلیه یحرک شفتیه، قال: فأصغی إلیه بأذنه، قال: فقال: یا ابن أخي ! واللہ، لقد قال أخي الکلمة التي أمرته أن یقولھا، قال: فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : لم أسمع ۔
ترجمہ : جب ابو طالب نے اپنے (ایمان کے) بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرص دیکھی تو کہا : اے بھتیجے ! اللہ کی قسم ، اگر مجھے اپنے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھائیوں پر طعن و تشنیع کا خطرہ نہ ہوتا ، نیز قریش یہ نہ سمجھتے کہ میں نے موت کے ڈر سے یہ کلمہ پڑھا ہے تو میں کلمہ پڑھ لیتا ۔ میں صرف آپ کو خوش کرنے کیلئے ایسا کروں گا ۔ پھر جب ابو طالب کی موت کا وقت آیا تو عباس نے ان کو ہونٹ ہلاتے ہوئے دیکھا ۔ انہوں نے اپنا کان لگایا اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ) کہا : اےبھتیجے ! یقیناً میرے بھائی نے وہ بات کہہ دی ہے جس کے کہنے کا آپ نے اُنہیں حکم دیا تھا ۔ (السیرۃ لابن ھشام: ۴۱۷/۱، ۴۱۸،چشتی)(المغازي لیونس بن بکیر: ص ۲۳۸)(دلائل النبوۃ للبیھقي: ۳۴۶/۲)

یہ روایت ضعیف ہے

امام ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اس حدیث کی سند کا ایک راوی نا معلوم ہے ۔ اس کے برعکس صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو طالب کفر کی حالت میں فوت ہوئے ۔ (تاریخ ابن عساکر: ۳۳/۶۶)

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ھٰذا إسنادمنقطع ۔۔۔۔"الخ ، یہ سند منقطع ہے ۔۔۔۔۔ (تاریخ الاسلام: ۱۵۱/۲)

علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : إن في السند مبھما لا یعرف حاله ، وھو قول عن بعض أھله، وھذا إبھام في الاسم و الحال، و مثله یتوقف فیه لو انفرد........ و الخبر عندي ما صح لضعف في سندہ" ۔
ترجمہ : اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے ، جس کے حالات معلوم نہیں ہوسکے ، نیز یہ اُس کے بعض اہل کی بات ہے جو کہ نام اور حالات دونوں میں ابہام ہے ۔ اس جیسے راوی کی روایت اگر منفرد ہو تو اس میں توقف کیا جاتا ہے ۔۔۔ میرے نزدیک یہ روایت سند کے ضعیف ہونے کی بنا پر صحیح نہیں ۔ (البدایة و النھایة لابن کثیر: ۱۲۳/۳ ۔ ۱۲۵)

امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بسند فیه لم یسم ...... و ھذا الحدیث لو کان طریقه صحیحا لعارضه ھذا الحدیث الذی ھو أصح منه فضلا عن أنه لا یصح ۔
ترجمہ : یہ روایت ایسی سند کے ساتھ مروی ہے جس میں ایک راوی کا نام ہی بیان نہیں کیا گیا .... اس حدیث کی سند اگر صحیح بھی ہو تو یہ اپنے سے زیادہ صحیح حدیث کے معارض ہے ۔ اس کا صحیح نہ ہونا مستزاد ہے ۔ (فتح الباری لابن حجر: ۱۸۴/۷)

امام بدر الدین عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : في سند ھذا الحدیث مبھم لا یعرف حاله، وھذا إبھام في الاسم و الحال، و مثله یتوقف فیه لو انفرد ۔
ترجمہ : اس حدیث کی سند میں ایک مبہم راوی ہے جس کے حالات معلوم نہیں ہوسکے۔ نام اور حالات دونوں مجہول ہیں۔ اس جیسے راوی کی روایت اگر منفرد ہو تو اس میں توقف کیا جاتا ہے ۔ (شرح ابي داؤد للعیني الحنفي: ۱۷۲/۶)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ ۔
ترجمہ : نبی اور ایمان والوں کو لائق نہیں کہ مشرکوں کی بخشش چاہیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہوں جبکہ انہیں کھل چکا کہ وہ دوزخی ہیں ۔ (سورہ التوبہ : ١١٣)

ابوطالب کا مرتے وقت کلمہ نہ پڑھنا اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے زندہ کافروں اور منافقوں سے ترک تعلق اور محبت نہ رکھنے کا حکم دیا تھا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مردہ کافروں سے بھی اظہار برأت کرنے کا حکم دیا ہے ، اس آیت کے شان نزول میں اختلاف ہے ، صحیہ یہ ہے کہ یہ آیت ابوطالب کے متعلق نازل ہوئی ہے جیسا کہ اس صحیح حدیث سے واضح ہوتا ہے : سعید بن مسیب اپنے والد مسیب بن حزن سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابوطالب پر موت کا وقت آیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس تشریف لے گئے ۔ اس وقت اس کے پاس ابوجہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ بھی تھے ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے چچا لا الہ الا اللہ کہیے ، میں اس کلمہ کی وجہ سے اللہ کے پاس آپ کی سفارش کروں گا ، تو ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ نے کہا اے ابو طالب ! کیا تم عبد المطلب کی ملت سے اعراض کرتے ہو ؟ پس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تک مجھے منع نہ کیا جائے میں تمہارے لیے استغفار کرتا رہوں گا، تب یہ آیت نازل ہوئی ماکان للنبی والذین امنوا ان یستغفر و اللمشرکین ۔ الایہ ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٣٦٠)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤،چشتی)(سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٠٣٥) (مسند احمد ج ٥ ص ٤٣٣)(اسباب النزول للواحدی رقم الحدیث : ٥٣٠)(سیرت ابن اسحاق ج ١ ص ٢٣٨۔ ٢٣٧)

اس حدیث پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ ابو طالب کی موت ہجرت سے تین سال پہلے ہوئی ہے اور سورة التوبہ ان سورتوں میں سے ہے جو مدینہ میں آخر میں نازل ہوئیں ، امام واحدی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت سے استغفار کرتے رہے ہوں حتیٰ کہ مدینہ میں اس سورت کے نازل ہونے تک استغفار کرتے رہے ہوں اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے استغفار ترک کردیا ۔ اس جواب کو اکثر اجلہ علماء نے پسند کیا ہے امام رازی اور علامہ آلوسی اور علامہ ابو حفص دمشقی علیہم الرّحمہ وغیرہم ان میں شامل ہیں ۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور جواب یہ ذکر کیا ہے کہ سورة توبہ کے مدنی ہونے کا معنی یہ ہے کہ اس کی اکثر اور غالب آیات مدنی ہیں ، اس لیے اگر یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی ہو تو وہ سورة توبہ کے مدنی ہونے کے منافی نہیں ہے ۔ اس حدیث میں تصریح ہے کہ ابوطالب نے تادم مرگ کلمہ نہیں پڑھا اور اسلام کو قبول نہیں کیا ۔

ابوطالب کے ایمان کے متعلق ایک روایت (جس کے متعلق ہم نے اوپر عرض کر دیا ہے) کا جواب امام ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند کے ساتھ حسب ذیل روایت بیان کی ہے ، اس سے شیعہ ابوطالب کا ایمان ثابت کرتے ہیں : از عباس بن عبد اللہ بن معبد از بعض اہل خود از ابن اسحق ، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوطالب کی بیماری کے ایام میں اس کے پاس گئے تو آپ نے فرمایا : اے چچا ! لا الہ الا اللہ پڑھئے ، میں اس کی وجہ سے قیامت کے دن آپ کی شفاعت کروں گا۔ ابوطالب نے کہا اے بھتیجے ! اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ میرے بعد تمہیں اور تمہارے اہل بیت کو یہ طعنہ دیا جائے گا کہ میں نے موت کی تکلیف سے گھبرا کر یہ کلمہ پڑھا ہے تو میں یہ کلمہ پڑھا لیتا اور میں صرف تمہاری خوشنودی کے لیے یہ کلمہ پڑھتا ، جب ابوطالب کی طبیعت زیادہ بگڑی تو اس کے ہونٹ ہلتے ہوئے دیکھے گئے ، عباس نے ان کا کلام سننے کے لیے اپنے کان ان کے ہونٹوں سے لگائے، پھر عباس نے اپنا سر اوپر اٹھا کر کہا یا رسول اللہ ! بیشک اللہ کی قسم ! اس نے وہ کلمہ وہ پڑھ لیا ہے جس کا آپ نے ان سے سوال کیا تھا ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے نہیں سنا ۔ (سیرت ابن اسحاق ج ١ ص ٢٣٨، مطبوعہ دارالفکر) یہ روایت صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور دیگر احادیث صحیحہ کے خلاف ہے ، نیز یہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ امام ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو ایک مجہول شخص سے روایت کیا ہے ، ثانیاً جس وقت کی یہ روایت ہے اس وقت حضرت عباس اسلام نہیں لائے تھے ، پھر ان کا یا رسول کہنا کس طرح تسلیم کیا جاسکتا ہے ؟ ثالثاً یہ کہ اس روایت میں خود تصریح ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے نہیں سنا ، رابعاً یہ روایت حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی صحیح روایت کے خلاف ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے ۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : اس روایت کی سند منقطع ہے اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ جو اس حدیث کے راوی ہیں اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے اور مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ابوطالب کی عاقبت کے متعلق سوال کیا کہ آپ نے ابوطالب کو کیا نفع پہنچایا ، وہ آپ کی موافقت کرتا تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! وہ ٹخنوں تک آگ میں ہے اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ دوزخ کے آخری طبقہ میں ہوتا ، اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٨٨٣، ٦٢٠٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠٩،چشتی) اور یہ ضعیف روایت اس صحیح حدیث سے تصادم کی قوت نہیں رکھتی ۔ (دلائل النبوۃ ج ٢ ص ٣٤٦)

ایمانِ ابو طالب حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی نظر میں

تاجدار گولڑہ حضرت سیّد پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں : آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچے اور پھوپھیاں حارث ، قثم ، حمزہ ، عباس ، ابوطالب ، عبدالکعبہ ، جحل ، ضرّار ، غیداق ، ابولہب ، صفیہ ، عاتکہ ، اروی ، اُمّ حکیم ، بّرہ ، امیمہ اس جماعت میں سے حضرت حمزہ و عباس و حضرت صفیہ رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین وعلیھن ایمان لائے ۔ اور حاشیہ میں لکھا ہے کہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں تین حضرات کے مشرف با اسلام ہونے کو جمہور علماء کا مذہب قرار دیا ہے ۔ (تحقیق الحق فی کلمة الحق صفحہ نمبر 153 مطبوعہ گولڑہ شریف،چشتی)۔(یعنی ابو طالب ایمان نہیں لائے تھے)

حضرت سیّد میر عبدالواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ اور ایمانِ ابو طالب

محترم قارئینِ کرام : سبع سنابل کے حوالے سے رافضیوں نے یہ دھوکا دینے کی کوشش کی ہے کہ حضرت سیّد میر عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ ابو طالب کو مسلمان سمجھتے تھے ۔ جب یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ رافضیوں کو بولنے سے پہلے لکھنے سے پہلے یہ سوچنا چاہئے تھا کہ سبع سنابل شریف اب بھی چھپ رہی ہے جو چاہے وہ پڑھ کر خود ہی اندازہ لگا سکتا ہے کہ حضرت سیّد میر عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ کا وہی موقف ہے جو جمیع اہل سنت و جماعت کے اکابرین کا موقف ہے یعنی ابو طالب کا خاتمہ کفر پر ہوا ۔ اب آئیے سبع سنابل شریف کی عبارت آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں آپ خود فیصلہ کر لیجئے گا ۔

حضرت سیّد میر عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ سبع سنابل شریف میں فرماتے ہیں : میرے بھائی اگر چہ مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فضائل و شرف کے کمالات اہل معرفت کے دلوں میں نہیں سماں سکتے اور ان کے سچے دوستوں کے نہاں خانوں میں منزل نہیں بنا سکتے اس کے با وجود ان کے ان نسب عالوں میں اپنا کامل اثر نہیں دکھا سکتے خواہ وہ آباؤ اجداد ہوں یا اولاد در اولاد چنانچہ ابو طالب میں اس نسب نے کوئی اثر نہیں کیا حالانکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان کے بارے میں بلیغ کوشش فرماتے رہے لیکن چونکہ خدائے قدوس جل و علا نے ان کے دل پر روز اول ہی سے مہر لگا دی تھی لہذا جواب دیا اخرت النار على العار میں عار پر نار کو ترجیح دیتا ہوں جیسا کہ مشہور ہے منقول ہے کہ جب ابو طالب کا انتقال ہوا مولی علی کرم اللہ وجہہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ خبر پہنچائی کہ مات عمك الضال حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گمراہ چچا کا انتقال ہوگیا بیت کبھی ایسے گوہر پیدا کرنے والے گھرانہ میں ابو طالب جیسے کو (خالق بے نیاز) پتھر پھینکنے والا بنا دیتا ہے ۔ (سبع سنابل صفحہ نمبر 90 مطبوعہ حامد اینڈ کمپنی اردو بزار لاہور،چشتی)

شیخ المشائخ والاولیاء حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و لہ وسلّم کے سمجھانے کا حضرت ابو طالب پر کچھ اثر نہ ہوا اور حالت کفر میں انتقال ہوا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و لہ وسلّم آپ کے گمراہ چچا کا انتقال ہو گیا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و لہ وسلّم نے فرمایا جاؤ انہیں دفن کر دو ۔ (فوائد الفواد مترجم اردو صفحہ نمبر 364 پندرہویں مجلس،چشتی) ۔

شیخ المشائخ والاولیاء حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ابو طالب کی قسمت میں ایمان نہیں تھا اس لیئے اس نعمت سے محروم رہے ۔ (افضل الفوائد ، ہشت بہشت مترجم صفحہ نمبر 73 مطبوعہ شبیر برادرز اردو بازار لاہور)

خود کو چشتی ، پیر اور سنیوں کا خطیب کہلانے والوں کے نام چشتیوں کے سردار شیخ المشائخ والاولیاء حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام ۔

ایمانِ ابو طالب حضرت سیّد داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں

حضرت سیّد علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : دلائل لانے والوں میں سے ابو طالب سے بڑھ کر کوئی نہ تھا اور حقانیت کی دلیل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بزرگ تر کچھ نہیں ہو سکتی تھی مگر جبکہ جریانِ حکمِ شقاوت ابو طالب پر ہو چکا تھا ۔ لا محالہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ اقدس بھی اُسے فائدہ نہ پہنچا سکی ۔ (یعنی ابو طالب ایمان کی دولت سے محروم رہے) ۔ (کشف المحجوب مترجم صفحہ نمبر 448 مطبوعہ مکتبہ شمس و قمر جامعہ حنفیہ غوثیہ بھاٹی چوک لاہور،چشتی)

استدلال میں سے ابو طالب سے بڑھ کر کوئی نہ تھا اور حقانیت کی دلیل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بزرگ تر کچھ نہیں ہو سکتی تھی ، ابو طالب کےلیئے چونکہ بد بختی کا حکم جاری ہو چکا تھا ۔ (توفیق الٰہی اُن کے مقدر میں نہ تھی) ۔ لا محالہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ اقدس بھی اُسے فائدہ نہ پہنچا سکی ۔ (توفیق الٰہی اُن کے مقدر میں نہ تھی) ۔ (یعنی ابو طالب ایمان کی دولت سے محروم رہے) ۔ (کشف المحجوب مترجم قدیم صفحہ نمبر 432 مطبوعہ ناشرانِ قرآن لمیٹڈ اردو بازار لاہور)

امامُ العارفین ، محبوبِ یزدانی حضرت سلطان سیّد مخدوم اشرف سمنانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچاؤں میں سے ابو طالب تھے جن کا انتقال حالتِ کفر میں ہوا ۔ (لطائفِ اشرفی فارسی حصّہ دوم صفحہ نمبر 315 مطبوعہ مکتبہ سمنانی فردوس کالونی کراچی،چشتی)،(لطائفِ اشرفی اردو حصّہ سوئم صفحہ نمبر 499)

حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچاؤں میں سے بجز حضرت امیر حمزہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کے کوئی مسلمان نہ ہوا ۔ ابو طالب اور ابو لہب نے زمانہ اسلام کا پایا لیکن اس کی توفیق نہ پائی جمہور علماء کا یہی مذہب ہے ۔ (مدارج النبوت مترجم اردو جلد دوم صفحہ نمبر 576 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور پاکستان،چشتی)

ایمانِ ابو طالب حضرت خواجہ سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں

سلطان التارکین بُرھانُ العاشقین حضرت خواجہ سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مختار ہیں جو کام کیا اللہ عز و جل کی اجازت سے کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بہت کوشش کی میرا چچا ابو طالب ایمان لے آئے مگر ابو طالب نے کہا مجھے شرم آتی ہے لوگ کیا کہیں گے بھتیجے کی اطاعت کر لی میں نے اس عار کی وجہ سے دوزخ کو اختیار کر لیا ہے ۔ اخترت النار علی العار ۔ (نافع السالکین مترجم اردو صفحہ نمبر 357، چشتی)،(نافع السالکین مترجم اردو صفحہ نمبر 365 مطبوعہ شعاع ادب مسلم مسجد چوک انار کلی لاہور)

امام احمد رضا قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اس میں شک نہیں کہ ابوطالب تمام عمر حضور سیّد المرسلین سیّدالاولین و الاخرین سیدالابرار صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلی آل وسلم الٰی یوم القرار کی حفظ و حمایت و کفایت و نصرت میں مصروف رہے ۔ اپنی اولاد سے زیادہ حضور کو عزیز رکھا، اور اس وقت میں ساتھ دیا کہ ایک عالم حضور کا دشمنِ جاں ہوگیا تھا ، اور حضور کی محبت میں اپنے تمام عزیزون قریبیوں سے مخالفت گوارا کی ، سب کو چھوڑ دینا قبول کیا ، کوئی دقیقہ غمگساری و جاں نثاری کا نامرعی نہ رکھا ، اور یقیناً جانتے تھے کہ حضور افضل المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اﷲ کے سچے رسول ہیں ، ان پر ایمان لانے میں جنت ابدی اور تکذیب میں جہنم دائمی ہے ، بنوہاشم کو مرتے وقت وصیت کی کہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تصدیق کرو فلاح پاؤ گے ، نعت شریف میں قصائدان سے منقول ، اور اُن میں براہ فراست وہ امور ذکر کیے کہ اس وقت تک واقع نہ ہوئے تھے ۔ بعد بعثت شریف ان کا ظہور ہوا، یہ سب احوال مطالعہ احادیث و مراجعتِ کُتب سیر سے ظاہر ، ایک شعر ان کے قصیدے کا صحیح بخاری شریف میں بھی مروی :

وابیض یستسقی الغمام بوجھہ مال الیتامٰی عصمۃ للارامل
ترجمہ : وہ گورے رنگ والے جن کے رُوئے روشن کے توسّل سے مینہ برستا ہے ، یتیموں کے جائے پناہ بیواؤں کے نگہبان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ ت)
(صحیح البخاری ابواب الاستسقاء باب سوال الناس الامام الاستسقاء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۳۷)

محمد بن اسحٰق تابعی صاحبِ سیر و مغازی نے یہ قصیدہ بتما مہما نقل کیا جس میں ایک سو ۱۱۰ دس بیتیں مدحِ جلیل و نعتِ منیع پر مشتمل ہیں ۔ شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ ، شرح سفر السعادۃ میں اس قیصدہ کی نسبت فرماتے ہیں : دلالت صریح داروبرکمال محبت ونہایت نبوت او ، انتہی ۔
ترجمہ : یہ قصیدہ ابوطالب کی رسول ا ﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ کمال محبت اور آپ کی نبوت کی انتہائی معرفت پر دلالت کرتا ہے ۔ (ت) ۔ (شرح سفر السعادۃ فصل دربیان عیادت بیماراں مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ص ۲۴۹)

مگر مجردان امور سے ایمان ثابت نہیں ہوتا ۔ کاش یہ افعال واقوال اُن سے حالتِ اسلام میں صادر ہوتے تو سیّدنا عباس بلکہ ظاہراً سیّدنا حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے بھی افضل قرار پاتے اور افضل الاعمام حضور افضل الانام علیہ وعلٰی آلہ وافضل الصلوۃ والسلام کہلائے جاتے ۔ تقدیر الہٰی نے بربنا اُس حکمت کے جسے وہ جانے یا اُس کا رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انہیں گروہِ مسلمین و غلامانِ شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں شمار کیا جانا منظور نہ فرمایا فاعتبروایا اولی الابصار ۔ ( القرآن الکریم ۵۹/ ۲ ) (تو عبر ت لو اے نگاہ والو! ت) ۔ (شرح المطالب فی مبحث ابی طالب(۱۳۱۶ھ)،(مطالب کی وضاحت ابُوطالب کی بحث میں)

محترم قارئینِ کرام : ان تمام دلائل کے باوجود بعض ناہنجاروں کی طرف سے صرف اکابرین اہلسنت میں سے بعض کو تنقید کا نشانہ بنانا ، سوقیانہ جملے کسنا اُن کے بغض باطن کی دلیل نہیں تو کیا ہے ؟ کبھی ان لوگوں نے سوچا کہ اِن کی نفرت و غلاظت کی زد میں کون کون آرہا ہے ؟ اللہ تعالیٰ جملہ اہلسنّت کو اِن فتنہ پروروں اور فتنوں سے محفوظ فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...