Friday 24 January 2020

درس قرآن موضوع سورہ احزاب آیت نمبر 45 حصّہ دوم

0 comments
درس قرآن موضوع سورہ احزاب آیت نمبر 45 حصّہ دوم
محترم قارئینِ کرام : اس موضوع پر حصّہ اوّل امید ہے آپ پڑھ چکے ہونگے آیئے اب حصّہ دوم پڑھتے ہیں :

امام عبد اللہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ باب ماجآء فی شھادۃِ النبی صلی اللہ علیہ وسلم علیٰ امتِہِ میں فرماتے ہیں : ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمیں ایک انصاری نے منہال ابن عمرو سے خبر دی کہ انہوں نے حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہردن صبح وشام نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی امت آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہے ، تو آپ انہیں ان کی علامتوں اور اعمال سے پہچانتے ہیں ۔ اسی لیئے آپ ان کے بارے میں گواہی دیں گے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ (فکیف اِذَا جئنا من کل امتہِِ بشھید وجئنابک علیٰ ھٰؤلآءِ شھیدا) ۔ (امام محمد بن احمد القرطبی ، التذکرۃ المکتبۃ التوفیقیہ صفحہ نمبر ۳۳۹)،(الجامع لاحکام القرآن دارعالم الکتب للنشر والتوزيع عبدالعزيز بن آل سعود صفحه نمبر ۱۹۸سعودي عرب وطبع بيروت جلد نمبر ۵ صفحہ نمبر ۱۹۸،چشتی)،(تفسیر قرطبی مترجم اردو جلد سوم صفحہ نمبر 207 مطبوعہ ضیاء القرآن لاہور)

حاضر و ناظر کی تین صورتیں ہیں ایک جگہ رہ کر سارے عالم کو دیکھنا ۔ آن کی آن میں سارے عالم کی سیر کر لینا ۔ ایک وقت میں چند جگہ ہونا ۔ ان آیات میں فرمایا گیا کہ آپ بایں جسم پاک وہاں موجود نہ تھے ان میں یہ کہاں ہے کہ آپ ان واقعات کو ملاحظہ بھی نہیں فرما رہے تھے اس جسد عصری سے وہاں نہ ہونا اور ہے اور ان واقعات کو مشاہدہ فرمانا کچھ اور بلکہ منکرین جن آیات کو انکار کے طور پر پیش کرتے ہیں اُن کا مطلب ہی یہ ہے کہ اے محبوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ آپ وہاں بہ ایں جسم موجود نہ تھے لیکن پھر بھی آپ کو ان واقعات کا علم اور مشاہدہ ہے جس سے معلوم ہوا کہ آپ سچے نبی ہیں یہ آیات تو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا حاضر و ناظر ہونا ثابت کر رہی ہیں ۔ اور اگر اب بھی کوئی منکر باضد ہے تو پھر ان آیات کا جواب دیں ۔

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ ۔ (سورۃ الفجر آیت 6)
ترجمہ : کیا تم نے نہ دیکھا تمہارے ربّ نے عاد کے ساتھ کیسا کیا ۔

وَثَمُودَ ٱلَّذِينَ جَابُواْ ٱلصَّخْرَ بِٱلْوَادِ ۔ (سورۃ الفجر آیت 9)
ترجمہ : اور ثمود جنہوں نے وادی میں پتھر کی چٹانیں کاٹیں ۔

وَفِرْعَوْنَ ذِى ٱلأَوْتَادِ ۔ (سورۃ الفجر آیت 10)
ترجمہ : اور فرعون جو میخا کرتا ۔

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ ٱلْفِيلِ ۔ (سورۃ الفیل آیت 1)
ترجمہ : کیا تم نے نہیں دیکھا تمہارے ربّ نے ہاتھی والوں کا کیا حال کیا ۔

اور یہ بھی بھولیئے کہ یہاں یہ نہیں فرمایا گیا کہ "کیا تم نے نہیں پڑھا " یا " کیا تمہیں نہیں بتایا گیا" ۔ بلکہ اللہ عزوجل یہی فرماتا ہے کہ کیا تم نے نہیں دیکھا ۔

اسی لئے تفسیرِ صاوی میں سورۃ القصص کی آیت کے ماتحت ہے کہ : وھذا بالنظر الی العالم الجسمانی لا قامۃ الحجۃ علی الخصم واما بالنظر الی العالم الروحانی فھو حاضر رسالۃ کل رسول وما وقع من لدن ادم الی ان ظھر، بجسمہ الشریف ۔
ترجمہ : یہ فرمانا کہ موسٰی علیہ السلام کے اس واقعہ کی جگہ نہ تھے جسمانی لحاظ سے ہے عالم روحانی کی حیثیت سے حضور عصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر رسول کی رسالت اور آدم علیہ السلام سے لے کر آپ کے جسمانی ظہور تک کے تمام واقعات پر حاضر ہیں ۔

نیز ہجرت کے دن غار ثور میں صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو لئے ہوئے جلوہ گر ہیں کہ کفّار مکہ دروازہ غار پر آ پہنچے حضرت صدیق پریشان ہوئے تو حضور نے فرمایا ۔

لا تحزن ان اللہ معنا ۔ (سورۃ التوبہ آیت 40)
ترجمہ : غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔

کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہمارے ساتھ تو ہے مگر کفّار کے ساتھ نہیں لٰہذا نعوذ بااللہ خدا ہر جگہ نہیں ، کیونکہ کفّار بھی تو عالم ہی میں تھے ۔ تو جس طرح اس کلام میں توجیہہ ہوگی کہ اس کلام سے مراد ہے کہ اللہ رحم و کرم سے ہمارے ساتھ ہے اور جبر و قہر سے کفار کے ساتھ اسی طرح ان آیات میں بھی کہا جائے گا کہ بطریق ظاہریہ جسدِ عنصری آپ اس وقت ان کے پاس نہ تھے ۔

اب آئیے قرآنِ کریم سے اس کے اثبات میں کچھ آیت ملاحظہ کریں ۔

يٰأَيُّهَا ٱلنَّبِيُّ إِنَّآ أَرْسَلْنَٰكَ شَٰهِداً وَمُبَشِّراً وَنَذِيراً۔ (سورۃ الاحزاب آیت 46)۔
اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا ۔

یہاں ترجمہ میں حاضر و ناظر پر اعتراض کیا جاتا ہے تو لفظ شاہد شہود سے مشتق ہے اور شہود حضور ہے ۔ شاہد مشاہدہ سے ہے اور مشاہدہ رویت سے ۔ تو بیشک شاہد ہیں ، بیشک حاضر ہیں ، بیشک ناظر ہیں ۔ دعائے میت میں جو لفظ "شاھدنا" آتا ہے وہ اسی شہود سے مشتق ہے جس کے معنی حاضر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد پھر "غائبنا" کہا جاتا ہے ۔ یا یہ شہادت سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گواہی دینا اس مادہ سے شاہد کے معنی گواہی دینے والا ہوا ۔ بہرحال مراد شاہد ، حاضر و ناظر اور گواہ تین معنوں کے درمیان ہی ہوئی اور ہر معنی سے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا حاضر و ناظر ہونا ثابت ہو رہا ہے ۔ شاہد کا معنی گواہ لینے کی صورت میں بھی ہمارا مقصود حاصل ہے ، کیونکہ شریعت مطہرہ میں دیکھی ہوئی چیزوں ہی کی گواہی مقبول ہے ، ان دیکھی کی مردود ۔(چشتی)

وَيَكُونَ ٱلرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيداً ۔ (سورۃ البقرۃ آیت 143)
ترجمہ : اور یہ رسول تمھارے نگہبان و گواہ ۔

تفسیر روح البیان میں اس آیت کے تحت ہے : ومعنی شھادۃ الرسول علیھم الملاعۃ علی رتبۃ کل متدین بدینۃ وحقیقۃ التی ھو علیھا من دینہ وحجابہ الذی ھو بہ محجوب عن کمال دینہ فھو یعرف ذنوبھم وحقیقۃ ایمالھم واعمالھم وحسناتھم وسیاتھم واخلاصھم ونفاقھم وغیر ذلک بنورالحق ۔
ترجمہ : مسلمانوں پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی شہادت کے یہ معنی ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہر دین دار کے دین کے مرتبوں پر اور اپنے دین میں سے جس حقیقت پر وہ ہے اس پر اور وہ حجاب جس کے سبب دین کے کمال سے محجوب ہو گیا ہے سب پر مطلع اور خبردار ہیں تو وہ امت کے گناہوں، ان کے ایمان کی حقیقتوں، ان کے اعمال، ان کی نیکیوں ، برائیوں اور ان کے اخلاص و نفاق سب کو نور حق کے ذریعہ جانتے پہچانتے ہیں ۔

فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَـٰؤُلاۤءِ شَهِيداً ۔ (سورۃ النسا آیت 41)۔
ترجمہ : تو کیسی ہوگی جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں اور اے محبوب تم کو ان سب پر گواہ و نگہبان بناکر لائیں ۔

وَمَآ أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ۔(سورۃ الانبیا آیت 107)۔
اور ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کیلئے۔

اس آیت میں اللہ عزوجل نے تمام منکرین کا ردّ فرما دیا کہ منکرین بھی اللہ عزوجل کو رب العالمین تو مانتے ہیں ۔ اور اس آیت میں رب العالمین اپنے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو رحمۃ للعلمین قرار دے رہا ہے ۔ یعنی جہاں جہاں ربّ کی ربّوبیت ہے وہاں وہاں مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی رحمت بھی ہے ۔ تمام عالمین کے لئے رحمت ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے گذرے ہوئے اور آنے والے تمام زمانوں میں کل عالمین میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی رحمت موجود رہی اور رہے گی ۔

وَهُوَ ٱلْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُم حَفَظَةً حَتَّىٰ إِذَا جَآءَ أَحَدَكُمُ ٱلْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لاَ يُفَرِّطُونَ ۔ (سورۃ الانعام آیت 61)
ترجمہ : اور تم پر نگہبان مقرر کئے رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آتی ہے تو ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کرلیتے ہیں اور وہ کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔

روح البیان میں آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ : قال مجاهد قد جعلت الارض لملك الموت كالطشت يتناول من حيث يشاء ۔
ترجمہ : ملک الموت کے لئے ساری زمین طشت کی طرح کر دی گئی ہے کہ جہاں سے چاہیں لے لیں ۔
لیس علی ملک الموت صعوبۃ قبض الارواح وان کثرت وکانت فی امکنۃ متعددۃ ۔
ترجمہ : ملک الموت پر روحیں قبض کرنے میں کوئی دشواری نہیں اگرچہ روحیں زیادہ ہوں اور مختلف جگہ میں ہوں ۔

یہ تو سبھی کو تسلیم ہے کہ دنیا بھر میں ایک ہی آن میں کئیں اموات ہوتی ہیں اور ہر اس روح کو قبض کرنے ملک الموت موجود ہوتے ہیں ۔ تو جب ملک الموت کے لئے ایک ہی وقت میں مختلف مقامات پر حاضر ہونا قبول ہے تو پھر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کہ جن کا علم تمام مخلوقات سے برتر ، تو پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے لئے یہ کمال ماننے میں کیا چیز مانع ہے ؟

ٱلنَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِٱلْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ۔ (سورۃ الاحزاب آیت 6)
ترجمہ : یہ نبی مسلمانوں کا انکی جان سے زیادہ مالک ہے ۔

اس آیت کے متعلق بانیٗ دارالعلوم دیوبند قاسم نانوتوی لکھتے ہیں : النبی اولی بالؤمنین من انفسھم کو بعد لحاظ صلہ من انفسھم دیکھئے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اپنی امت کے ساتھ وہ قرب حاصل ہے کہ ان کی جانوں کو بھی ان کے ساتھ حاصل نہیں کیوں کہ اولٰی بمعنی اقرب ہے اور اگر بمعنی ادب یا اولٰی بالتصرف ہو تب بھی یہی بات لازم آئے گی کیونکہ اجنیت و اولویت بالتصوف کے لئے اقربیت تو وجہ ہو سکتی ہے پر بالعکس نہیں ہو سکتا ۔ (تحذیرالناس صفحہ نمبر 14)

مشکوٰۃ باب المعجزات میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے : نعی النبی علیہ السلام زیدا جعفر وابن رواحۃ للناس قبل ان یاتیھم خبرھم فقال اخذا الرایۃ زید فاصیب الی حتٰی اخذا الرایۃ سیوف اللہ یعنی خالد ابن الولید حتٰی فتح اللہ علیھم ۔(چشتی)
ترجمہ : حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے زید اور جعفر اور ابن رواحہ کو ان کی خبر موت آنے سے پہلے لوگوں کو خبر موت دے دی ۔ فرمایا کہ اب جھنڈا زید نے لے لیا اور وہ شہید ہو گئے ۔ یہاں تک کہ جھنڈا اللہ کی تلوار خالد ابن ولید نے لیا تا آنکہ اللہ نے ان کو فتح دے دی ۔

مشکوٰۃ جلد دوم باب الکرامات کے بعد باب وفاۃ النبی علیہ السلام میں ہے : وان موعدکم الحوض وانی لا نظر الیہ وانا فی مقامی ۔
ترجمہ : تمہاری ملاقات کی جگہ حوض کوثر ہے ۔ میں اس کو اسی جگہ سے دیکھ رہا ہوں ۔

مشکوٰۃ باب تسویۃً الصف میں ہے : اقیموا صفوفکم فانی ارکم من ورانی ۔
ترجمہ : اپنی صفیں سیدھی رکھو کیونکہ ہم تم کو اپنے پیچھے بھی دیکھتے ہیں ۔

امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ مواہب الدنیہ میں زیارۃ قبرہ الشریف میں فرماتے ہیں : وقد قال علماء نالا فرق بین موتہ وحیوتہ علیہ السلام فی مشاھدتہ لامتہ ومعرفتہ باحوالھم ونیاتھم وعزائمھم و خواطرھم وذالک جلی عندہ لا خفاء بہ ۔
ترجمہ : ہمارے علماء نے فرمایا کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی زندگی اور وفات میں کوئی فرق نہیں اپنی امت کو دیکھتے ہیں اور ان کے حالات و نیات اور ارادے اور دل کی باتوں کو جانتے ہیں یہ آپ کو بالکل ظاہر ہے ۔ اس میں پوشیدگی نہیں ۔

مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :وقال الغزالی سلم علیہ اذا دخلت فے المسجد فانہ علیہ السلام یحضر فی المسجد ۔
ترجمہ : امام غزالی نے فرمایا کہ جب تم مسجد میں جاؤ تم حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو سلام عرض کرو کیونکہ آپ مسجدوں میں موجود ہیں ۔

احیاء العلوم جلد اول باب چہارم فصل سوم نماز کی باطنی شرطوں میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : واحضرنی قلبک النبی علیہ السلام وشخصہ الکریم وقل السلام علیک ایھا النبی ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔
ترجمہ : اور اپنے دل میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اور آپ کی ذات پاک کو حاضر جانو اور کہو السلام علیک ایھا النبی ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

مصباح الہدایت ترجمہ عوارف المعارف مصنفہ شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ میں ہے : بس باید کہ بندہ ہمچناں کہ حق سبحانہ را پیوستہ بر جمیع احوال خود ظاہراً و باطناً واقف و مطلع بیند رسول اللہ علیہ السلام رانیز ظاہر و باطن حاضر داند۔ تا مطالعہ صورت تعظیم دوقات اور ہموارہ بہ محافظت آداب حضرتش دلیل بوداز ۔ مخالفت دے سر ادا علاناً شرم داردو ہیچ دقیقہ از وقائق آداب صحبے اوفر نہ گزارو ۔
ترجمہ : پس چاہئیے کہ بندہ جس طرح حق تعالٰی کو ہر حال میں ظاہر و باطن طور پر واقف جانتا ہے ۔ اسی طرح حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی ظاہر و باطن جانے تاکہ آپ کی صورت کا دیکھنا آپ کی ہمیشہ تعظیم وقار کرنے اور اس بارگاہ کے ادب کی دلیل ہو جاوے اور آپ کی ظاہر و باطن میں مخالفت سے شرف کرے اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی صحبت پاک کے ادب کا کوئی دقیقہ نہ چھوڑے ۔(چشتی)

ہزدم مسمٰی بہ سلوک اقرب السبل بالتوجہ سیدالرسل میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : باچندیں اختلاف و کثرت مذاہب کہ در علماء امت ہست یک کس رادریں مسئلہ خلافی نیست کہ آنحضرت علیہ السلام بحقیقت حیات بے شائبہ مجاز تو ہم تاویل دائم و باقی است و بر اعمال امت حاضر و ناظر است و مرطالبان حقیقت راومتو جہان آنحضرت رامفیض و مربی (ادخال الساں) ۔
ترجمہ : اس اختلاف و مذاہب کے باوجود جو علمائے امت میں ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ حضور علیہ السلام حقیقی زندگی سے بغیر تاویل و مجاز کے احتمال کے باقی اور دائم ہیں اور امت کے اعمال پر حاضر و ناظر ہیں اور حقیقت کے طلبگار اور حاضرینِ بارگاہ کو فیض رساں اور مربّی ۔

یہی شیخ عبدالحق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں : ذکر کن اور ادرود بفرست بردے علیہ السلام وباش درحال ذکر گویا حاضر است پیش تو در حالت حیات دمی بینی توادر امتادب باجلال و تعظیم و ہیبت و حیا و ہدانکہ دے علیہ السلام می بیند وحی شنود کلام ترازیرا کہ دے علیہ السلام متصف است بصفات الہیہ دیکے از صفات الہی آں است کہ انا جلیس من ذکرنی ۔
ترجمہ : حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو یاد کرو اور درود بھیجو اور حالت ذکر میں ایسے رہو کہ حضور حالتِ حیات میں تمہارے سامنے ہوں اور تم ان کو دیکھتے ہو ادب اور جلال اور تعظیم اور ہیبت و حیاء سے رہو اور جانو کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ دیکھتے اور سنتے ہیں تمہارے کلام کو کیونکہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ صفات الٰہی سے موصوف ہیں اور اللہ کی ایک صفت یہ ہے کہ میں اپنے ذاکر کا ہم نشین ہوں ۔

اسی مدارج النبوۃ میں ہے کہ : اگر بعد ازاں گوید کہ حق تعالٰی را حالتے وقدرتے بخشیدہ است کہ در ہر مکانے کۃ خواہد تشریف بخسند خواہ بعینیہ بمثال خواہ بر آسمان و خواہ بر زمین خواہ درقبر یا غیر دے صورتے دارد باوجود ثبوت نسبت خاص بقبر درہمہ حال ۔
ترجمہ : اس کے بعد اگر کہیں کہ رب تعالٰی نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے جسم پاک کو ایسی حالت و قدرت بخشی ہے کہ جس ماکن میں چاہیں تشریف لے جائیں خواہ بعینہ اس جسم سے خواہ جسم مثالی سے خواہ آسمان پر خواہ قبر میں تو درست ہے۔ قبر سے ہر حال میں خاص نسبت رہتی ہے ۔

مثنوی شریف میں حارث ابن نعمان رضی اللہ عنہ کے متعلق ایک قصے کو مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ اس انداز میں نقل کرتے ہیں :

ہشت جنت ہفت دوزخ پیش من
ہست پیدا ہم چوں بت ایں پیش ہن
یک بیک دامی شناسم خلق را
ہمچو گندم من زجو در آسپا
کہ بہشتی کہ وزیگانہ کی است
پیش من پیدا چو مورد ماہی است
من بگویم یا فرد بندم نفس
لب گزیدش مصطفٰی یعنی کہ بس

ترجمہ : میرے سامنے 8 بہشت اور 7 دوزخ ایسے ظاہر ہیں
جیسے ہندو کے سامنے بت ہیں
ہر ایک مخلوق کو ایسا پہچانتا ہوں
جیسے چکی میں جو اور گیہوں
کہ جنتی کون ہے اور دوزخی کون
میرے سامنے یہ سب مچھلی اور چیونٹی کی طرح ہیں
چپ رہوں یا کچھ اور کہوں
حضور نے ان کا منہ پکڑ لیا کہ بس

جب اس آفتاب کے زرّوں کی نظر کا یہ حال کہ جنت و دوزخ ، عرش و فرش ، جنتی و دوزخی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو اس آفتابِ عالی مقام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نظر کا کیا پوچھنا ہے ۔

صاحب عقل کو کافی ہے اشارے کی زباں
ورنہ سو بار دلائل بھی ہے بیکار و عبث

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر یہ آیت نازل ہوئی یا یھا النبی انا ارسلنک شاھدا ومبشرا ونذیرا تو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت علی اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہما کو بلایا آپ ان دونوں کو یمن کی طرف بھیجنے کا حکم دے چکے تھے ‘ آپ نے فرمایا تم دونوں جا کر لوگوں کو بشارت دینا ‘ اور ان کو متنفر نہ کرنا ‘ اور آسان احکام بیان کرنا اور مشکل احکام نہ بیان کرنا ‘ کیونکہ مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی ہے : اے نبی ! ہم نے آپ کو آپ کی امت کے اوپر شاہد بنا کر بھیجا ہے ‘ اور جنت کی بشارت دینے والا اور دوزخ سے ڈرانے والا اور لا الہ الا اللہ کی شہادت کی دعوت دینے والا اور قرآن کی روشنی دینے والا چراغ بناکر ۔ (المعجم الکبیر ج ١١ ص ٢٤٨‘ رقم الحدیث : ١١٨٤١‘ داراحیاء التراث العربی بیروت،چشتی)

عطاء بن یسار بیان کرتے ہیں کہ میری حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ عنما سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا مجھے بتائیے کہ تورات میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی کیا صفات ہیں ‘ انہوں نے کہا تورات میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بعض وہ صفات ہیں جن کا قرآن مجید میں ذکر ہے : یا یھا النبی انا ارسلنک شاھدا ومبشرا ونذیرا ۔ (الاحزاب : ٤٥) اور آپ کو امیین کی پناہ بنایا ‘ آپ میرے بندے اور رسول ہیں ‘ میں نے آپ کا نام متوکل رکھا ہے آپ بد مزاج اور سخت طبیعت نہیں ہیں اور بازاروں میں شور نہیں کرتے اور نہ برائی کا جواب برائی سے دیتے ہیں ‘ لیکن آپ معاف کردیتے ہیں اور بخش دیتے ہیں ‘ اور اللہ اس وقت تک آپکی روح کو قبض نہیں کرے گا جب تک کہ آپ کی سبب سے ٹیڑھی قوم کو سیدھا نہیں کردیتا بایں طور کہ وہ سب کہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے ‘ اور جب تک آپ کے سبب سے اندھی آنکھوں اور بند کانوں اور مقفل دنوں کو کھول نہیں دیتا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٣٨۔ ٢١٢٥‘ دار ارقم بیروت)

علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس آیت میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے چھ اسماء ہیں ‘ شاہد ‘ مبشر ‘ نذیر ‘ داعی الی اللہ ‘ سراج اور منیر ۔

حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا میرے پانچ اسماء ہیں ‘ میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں ماحی (شرک اور کفر کو مٹانے والا) ہوں ‘ اللہ میرے سبب سے کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ہوں ‘ میرے قدموں میں لوگوں کا حشر کیا جائے گا اور میں عاقب ہوں ( سب نبیوں کے بعد آنے والا) ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٥٣٢‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٥٤ )

اور اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام رئوف رحیم رکھا ہے ۔ (سورہ التوبہ : ١٢٨ )

علام ابوبکر بن العربی رحمۃ اللہ علیہ نے احکام القرآن میں الاحزاب : ١٣ کی تفسیر میں آپ کے سٹرسٹھ (٦٧) اسماء ذکر کیئے ہیں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ایک سوا سی اسماء ہیں ۔ (الجامع لا حکام القرآن جز ١٤ ص ١٨٢‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا امت کے حق میں شاہد ہونا ۔۔۔ مزید تفصیل حصّہ سوم میں پڑھیں ۔ (طالبِ دعا و دع گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔