Saturday 25 January 2020

درس قرآن موضوع سورہ احزاب آیت نمبر 45 حصّہ سوم

0 comments
درس قرآن موضوع سورہ احزاب آیت نمبر 45 حصّہ سوم

محترم قارئینِ کرام : اس موضوع پر حصّہ اوّل و دوم امید ہے آپ پڑھ چکے ہونگے آیئے اب حصّہ سوم پڑھتے ہیں :

اس آیت میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو شاہد فرمایا ہے ‘ اور شاہد کا معنی ہے گواہی دینے ولا ‘ اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے شاہد ہونے کے چار محمل ہیں ‘ ایک محمل یہ ہے کہ آپ اپنی امت کے حق میں قیامت کے دن گواہی دیں گے ‘ دوسرا محمل یہ ہے کہ آپ لا الہ الا اللہ کی گواہی دینے والے ہیں اور تیسرا محمل یہ ہے کہ آپ دنیا میں امور آخرت کی گواہی دیں گے اور چوتھا محمل یہ ہے کہ آپ اعمال امت پر شاہد ہیں ۔ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ جو اپنی امت کے حق میں گواہی دیں گے اس کا ذکر اس آیت میں ہے :
وکذلک جعلنکم امۃ وسطا لتکونوا شھدا آء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا ۔ (البقرہ : ١٤٣) اور اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جائو اور یہ رسول تمہارے حق میں گواہ ہوجائیں ۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : قیامت کے دن ایک نبی آئے گا اور اس کے ساتھ ایک شخص ہوگا ‘ اور ایک نبی آئے گا اور اس کے ساتھ دو شخص ہوں گے ‘ اور ایک نبی آئے گا اس کے ساتھ زیادہ لوگ ہوں گے ‘ اس سے کہا جائے گا کیا تم نے اپنی قوم کو تبلیغ کی تھی ؟ وہ کہے گا ہاں ! پھر اس کی قوم کو بلایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کیا انہوں نے تم کو تبلیغ کی تھی ‘ وہ کہیں گے نہیں ! پھر اس نبی سے کہا جائے گا تمہارے حق میں کون گواہی دے گا ؟ وہ کہیں گے (سیدنا) محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) کی امت ‘ پھر (سیدنا) محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) کی امت کو بلایا جائے گا ‘ اور کہا جائے گا : کیا انہوں نے تبلیغ کی تھی ؟ وہ کہیں گے ہاں ! پھر کہا جائے گا تم کو اس کا کیسے علم ہوا ؟ وہ کہیں گے کہ ہمارے نبی (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) نے ہمیں یہ خبر دی تھی کہ (سب) رسولوں نے تبلیغ کی ہے ‘ اور یہ اس آیت کی تفسیر ہے ۔ (سنن کبری للنسائی ج ٦ ص ٢٩٢‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١١ ھ،چشتی)
اس آیت اور اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) تمام امتوں کے احوال پر مطلع ہیں اور آپ اپنی امت کے اعمال کا بھی مشاہدہ فرماتے ہیں کیونک آپ اپنی امت کی گواہی دیں گے اور گواہی میں اصل یہ ہے کہ مشاہدہ کرکے اور دیکھ کر گواہی دی جائے ‘ اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے ۔

حافظ عماد الدین اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ بیان کرتے ہیں : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اللہ کے کچھ فرشتے سیاحت کرنے والے ہیں وہ مجھے میری امت کا سلام پہنچاتے ہیں ‘ اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا میری حیات تمہارے لیے بہتر ہے تم باتیں کرتے ہو اور تمہارے لیے حدیث بیان کی جاتی ہے اور میری وفات (بھی) تمہارے لیے بہتر ہے ‘ تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں۔ میں جو نیک عمل دیکھتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں ‘ اور میں جو براعمل دیکھتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں ۔ (البدایہ والنہایہ ج ٤ ص ٢٥٧‘ طبع جدید ‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

شاہد ہونے کا دوسرا محمل یہ ہے کہ ہمارے نبی سید نا محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) اللہ تعالیٰ کی توحید پر اور لا الہ ا لا اللہ پر شاہد ہیں اور آپ نے امت کو بھی یہ حکم دیا ہے کہ اللہ کی توحید اور اس کی ذات اور صفات کی شہادت دیں ‘ اور آپ جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی ذات اور صفات کی شہادت دیتے ہیں یہ آپ کی خصوصیت نہیں ہے بلکہ تمام انبیاء اور رسل علیہم السّلام نے اور ان کی امتوں نے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی ذات اور صفات کی شہادت دی ہے ‘ اور آپ کی اور باقی نبیوں اور رسولوں کی شہادت میں فرق یہ ہے کہ تمام نبیوں اور رسولوں نی اللہ کی توحید اور اسکی ذات وصفات کی شہادت فرشتوں سے سن کردی ہے اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی ذات وصفات کی شہادت دیکھ کر اور مشاہدہ کرکے دی ہے ‘ بلکہ ساری کائنات اللہ کے واحد ہونے کی شہادت سن کردیتی ہے اور آپ تنہا اور واحد ایسے شاہد ہیں جس نے اللہ کو دیکھ کر اس کے واحد ہونے کی شہادت دی ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں میں صرف آپکو شاہد فرمایا ہے ‘ آپ نیجس چیز کی بھی شہادت دی ہے وہ دیکھ کر اور مشاہدہ کرکے شہادت دی ہے ‘ کرسی اور عرش ہو یا لوح و قم ہو ‘ فرشتے ہوں یا جنات ہوں یا جنت اور دوزخ ہو آپ نے ہر چیز کو دیکھ کر اور مشاہدہ کرکے شہادت دی ہے اور جیسے آپ شاہد ہیں کائنات میں ایسا کوئی دوسرا شاہد نہیں ہے ۔
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو توحید پر شاہد بنایا ہے توحید کا مدعی نہیں بنایا کیونکہ جس چیز کا دعوی کیا جاتا ہے وہ خلاف ظاہر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی توحید تو اس کائنات میں ظاہر ہے بلکہ اظہر من السمس ہے ۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ١٧٣)
میں کہتا ہوں کہ اگر توحید ظاہر اور اظہر من الشمس ہوتی تو ساری دنیا اس کی منکر کیوں ہوتی اور اس کو منوانے کے لیے اتنے نبیوں اور رسولوں نے ظاہر کیا اور سب سے زیادہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) نے اس کی توحید کو آشکارا کیا ‘ اللہ تو ہمیشہ سے واحد تھا لیکن اس کی توحید کے اتنے ماننے والے نہ تھے آپ نے اللہ کے واحد ہونے کی شہادت دی تو کائنات کی ہر حقیقت نے اللہ کو واحد کہا۔ آپ نے اللہ کی توحید کی شہادت دی اور اللہ نے آپ کی رسالت کی شہادت دی سو فرمایا : فاشھدوا وانا معکم من الشھدین ۔ (آل عمران : ٨١) تم (بھی ان کی رسالت کے اقرار پر) گواہ ہو جائو اور میں (بھی) تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں ۔
واللہ یعلم انک لرسولہ ۔ (المنافقون : ١) ، اور اللہ خوب جانتا ہے کہ بیشک آپ ضرور اس کے رسول ہیں ۔
وشاہد ومشھود ۔ (البروج : ٣) ، شاہد کی قسم اور مشہود کی قسم !
آپ اللہ کی توحید پر شاہد اور اللہ آپ کی رسالت پر شاہد ہے سو آپ شاہد بھی ہیں اور مشہود بھی ہیں ۔

اور شاہد کا تیسرا محمل یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ دنیا میں امور آخرت پر شاہد ہیں آپ جنت کے اور دوزخ کے شاہد ہیں اور میزان اور صراط کے شاہد ہیں ‘ آپ نے جس کے جنتی ہونے کی شہادت دی اس پر جنت واجب ہوگئی اور جس کے دوزخی ہونے کی شہادت دی اس پر دوزخ واجب ہوگئی ‘ آپ نے دس صحابہ کا نام لے کر فرمایا کہ وہ جنت میں ہیں ۔ اس سلسلہ میں یہ حدیث ہے : حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا ابوبکر جنت میں ہیں ‘ عمر جنت میں ہیں ‘ عثمان جنت میں ہیں ‘ سعید بن زید جنت میں ہیں ‘ ابو عبیدہبن الجراح جنت میں ہیں ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٧٤٧،چشتی)(مسنداحمد ج ١ ص ١٩٣)(مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٨٣٥)(صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٠٠٢)

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے منہ مبارک سے سنا ہے وہ فرما رہے تھے طلحہ اور زبیر دونوں جنت میں میرے پڑوس میں ہوں گے ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٧٤١‘ المستدرک ج ٣ ص ٣٦٥‘ کتاب الضعفاء للعقیلی ج ٤ ص ٢٩٤‘ الکامل لابن عدی ج ٧ ص ٢٤٨٩)

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا طلحہ نے اپنے لیے جنت کو واجب کرلیا ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٧٣٨۔ ١٦٩٢)

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص شہید کو زمین پر چلتے پھرتے دیکھنے سے خوش ہو وہ طلحہ بن عبید اللہ کو دیکھ لے ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٧٣٩‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٤٥‘ حلیۃ الاولیاء ج ٣ ص ١٠٠)

اسی طرح جن لوگوں کے متعلق ہمارے نبی سیدنا محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) نے دوزخی ہونے کی شہادت دی ان کا دوزخی ہونا واجب ہے ‘ اس سلسلہ میں یہ احادیث ہیں : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا میں نے دیکھا جہنم کی بعض آگ بعض کو کھارہی تھی ‘ اور میں نے عمروبن لحی کو دیکھا وہ دوزخ میں اپنی آنتیں گھسیٹ رہا تھا اور یہ وہ پہلا شخص ہے جس نے بتوں کے لیے اونٹینو کو نامزد کیا تھا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٦٢٤)(صحیح مسلم رقم الحدیث : بلاتکرار : ٩٠١‘ رقم الحدیث المسلسل : ٢٠٥٧)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث کے آخر میں روایت ہے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا میں نے دوزخ میں ایک ڈھال والے شخص کو دیکھا جو اپنی ڈھال سے حجاج کے کپڑے چرایا کرتا تھا اگر کسی کو پتاچل جاتا تو وہ کہتایہ کپڑا میری ڈھال میں اٹک گیا تھا ‘ اور جب وہ شخص غافل ہوتا تو وہ کپڑا لے جاتا ‘ اور میں نے دوزخ میں ایک عورت کو دیکھا جس نے بلی کو باندھ کر رکھا تھا ‘ اس کو کچھ کھانیکو دیا اور نہ اس کو آزاد کیا کہ وہ زمین پر پڑی ہوء ی کوئی چیزکھالیتی حتی کہ وہ بلی بھوک سے مرگئی ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : بلا تکرار : ٩٠٤‘ رقم الحدیث المسلسل : ٢٠٦٧،چشتی)(سنن ابودائود رقم الحدیث : ١١٧٨)

نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا اعمال امت پر شاہد ہونا اور یہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے شاہد ہونے کا چوتھا محمل ہے :
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا اللہ کے کچھ فرشتے سیاحت کرتے ہیں جو میری امت کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا میری زندگی تمہارے لیے بہتر ہے تم حدیث بیان کرتے ہو اور تمہارے لیے حدیث بیان کی جاتی ہے ‘ اور وفات (بھی) تمہارے لیے بہتر ہے مجھ پر تمہارے اعمال پیش کیے جاتے ہیں جو نیک عمل دیکھتا ہوں ان پر اللہ کی حمد کرتا ہوں اور میں جو برے عمل دیکھتا ہوں ان پر اللہ سے استغفار کرتا ہوں ۔ (مسند البز اررقم الحدیث : ٨٤٥‘ حافظ الھیشمی نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے ‘ مجمع الزوائد ج ٩ ص ٢٤،چشتی)

علامہ سید محمود آلوسی حنفی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں : اگر یہ کہا جائے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اپنے زمانہ کے امتیوں کے اعمال پر شاہد تھے پھر تو بات بالکل واضح ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ آپ بعد کے امتیوں کے اعمال پر بھی شاہد تھے تو اس میں یہ اشکال ہے کہ حضرت ابوبکر ‘ حضرت انس ‘ حضرت حذیفہ ‘ حضرت سمرہ اور حضرت ابو بردہ نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے روایت کیا ہے کہ میرے اصحاب میں سے کچھ لوگ حوض پر وارد ہوں گے ‘ حتی کہ میں ان کو دیکھ کر اور پہچانکر کہوں گا اے رب میرے اصحاب ! میرے اصحاب ! پس مجھ سے کہا جائے گا آپ از خود نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے عبد دین میں کیا نئے کام نکالے ہیں ! ہاں اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ کو یہ تو علم تھا کہ آپ کے بعد آپ کی امت کے لوگ کیا نیک کام کریں گے اور کیا برے کام کریں گے ‘ لیکن آپ کو ان معین لوگوں کا علم نہیں تھا کہ کون نیک کام کرنے والے ہیں اور کون برے کام کرنے والے ہیں تاکہ اس حدیث اور مسند بزار کی عرض اعمال والی حدیث میں تطبیق ہوجائے ‘ اس کا دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ آپ کو نیکی کرنیوالے اور گناہ کرنے والے معین لوگوں کا بھی علم تھا لیکن قیامت کے دن آپ بھول گئے ‘ اور بعض صوفیاء کرام نے یہ اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بندوں کے اعمال پر مطلع فرما دیا تھا اور آپ نے ان کے اعمال کو دیکھا تھا اس لیے آپ کو شاہد فرمایا ۔ مولانا جلال الدین رومی قدس سرہ العزیز نے مثنوی میں فرمایا : درنظر بودش مقامات العباد زاں سبب نامش خدا شاہد نہاد ۔ ترجمہ : آپ کی نظر میں بندوں کے مقامات تھے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام شاہد رکھا ۔ (روح المعانی جز ٢٢ ص ٦٥ ملخصا مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

ہمارے نزدیک اس اشکال کا صحیح جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں علم کی نفی نہیں ہے درایت کی نفی ہے کیونکہ فرشتے یہ نہیں کہیں گے انک لا تعلم بلکہ یہ کہیں گے انک لا تدری ‘ اور درایت کا معنی ہے کسی چیز کو اپنی عقل اور قیاس سے جاننا یعنی آپ ان لوگوں کے مرتد ہونے کو اپنی عقل اور اپنی قیاس سے نہیں جانتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم سے جانتے ہیں ‘ باقی رہا یہ کہ پھر آپ نے یہ کیوں فرمایا کہ یہ میرے اصحاب ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا انہیں اصحابی فرمانا عدم علم کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اس لیے تھا کہ پہلے ان کو یہ امید ہو کہ ان کو پانی ملے گا اور پھر جب ان کو حوض سے دور کیا جائے گا اور ان کی امید ٹوٹے گی تو ان کو زیادہ عذاب ہوگا ‘ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اصیحابی سے پہلے ہمزہ استفہام کا محذوف ہو ‘ یعنی کیا یہ میرے صحابی ہیں ؟ جن کے چہرے سیاہ ‘ اعمال نامے بائیں ہاتھ میں ‘ آنکھیں نیلی ‘ چہرے تاریک اور مرجھائے ہوئے ہیں یہ میرے صحابہ ہیں ؟ میرے اصحاب کے تو چہرے اور ہاتھ پیر سفید اور روشن ہیں ان کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں ہیں اور اور ان کے چہرے کھلے ہوئے اور شاداب ہیں ۔ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں مومنوں اور کافروں کی جو علامتیں بیان کی گئی ہیں کہ ان کے چہرے سفید ہوں گے اور اعمال نمے دائیں ہاتھ میں ہوں گے اور کافروں کے چہرے سیاہ اور اعمال نامے ان کے بائیں ہاتھ میں ہوں گے ان علامتوں سے میدان محشر میں موجود ہر شخص کو علم ہوگا کہ مومن کون ہے اور کافر کون ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو یہ علم نہ ہو کو کون آپ کا صحابی ہے اور کون نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر دنیا میں امت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں سو آپ کو علم تھا کہ کون ایمان پر قائم رہا اور کون مرتد ہوگیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ تو دنیا میں امت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں کہ میرے حوض پر ایسے ایسے لوگ آئیں گے سو آخرت کا علم تو دور کی بات ہے آ نے دنیا میں ہی اپنے علم کی وسعت کا اظہار فرمادیا ہے ۔

علامہ عبدالرحمٰن سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتےہیں : امام عماد الدین اسماعیل بن ہبۃ اللہ ، اپنی تصنیف مزیل الشبہات فی اثبات الکرامات میں فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے محاصرہ کے دنوں میں فرمایا ؛ مجھے اس کھڑکی میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی زیارت ہوئی ، فرمایا ، ان لوگوں نے تمہارا محاصرہ کررکھا ہے ؟ عرض کی! جی ہاں ! آپ نے ایک ڈول لٹکایا جس میں پانی تھا، میں نے سیر ہوکر پانی پیا۔ یہاں تک کہ میں اس کی ٹھنڈک اپنے سینے اور دونوں کندھوں کے درمیان محسوس کررہا ہوں۔ پھر فرمایا؛۔اگرچاہو تو ان کے خلاف تمہیں مدد دیجائے اور اگرچاہوتوہمارے پاس افطار کرو۔ میں نے آپ کے پاس افطار کرنے کو ترجیح دی۔ چنانچہ اسی دن شہید کردیئے گئے ۔
علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ مشہور ہے اور کتب حدیث میں سند کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ امام حارث بن اسامہ نے یہ حدیث اپنی مسند میں اور دیگر ائمہ نے بھی بیان کی ہے۔ امام عمادالدین نے اسے بیداری کا واقعہ قرار دیا ہے ۔ (الحاوی للفتاوی، جلد ۲ صفحه ۲۶۲ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان،چشتی)
اسی کتاب کے صفحہ نمبر ۲۵۶ پر امام سیوطی مزید لکھتے ہیں : امام ابن ابی جمرہ فرماتے ہیں کہ بعض صحابہ (میراگمان ہے کہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں ، سیوطی) کو خواب میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی زیارت ہوئی ، انہیں یہ حدیث یاد آئی (کہ جسے خواب مں زیارت ہوئی وہ بیداری میں بھی زیارت کرے گا) اور اس بارے میں غوروفکر کرتے رہے ۔ پھر ایک ام المومنین (میراگمان ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، سیوطی) کے پاس حاضر ہوئے اور ماجرا بیان کیا ۔ ام المومنین نے انہیں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا آئنہ لاکردکھایا ۔ صحابی کہتے ہیں کہ میں نے آئینہ دیکھا تو مجھے اپنی صورت نہیں ، بلکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی صورت مبارکہ دکھائی دی ۔ (الحاوی للفتاوی صفحہ ۲۵۶ جلد ۲) ، امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ مزید صفحہ 256 پر یہ بھی تحریر کرتےہیں کہ : اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا وعدہ شریفہ پورا کرنے کے لیئے خواب میں دیدار سے مشرف ہونے والوں کو بیداری میں دولتِ دیدار عطا کی جاتی ہے اگرچہ ایک مرتبہ ہی ہو ۔ عوام الناس کو یہ دولت گراں مایہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت حاصل ہوتی ہے ، وہ حضرات جو پابند سنت ہوں انہیں ان کی کوشش اور سنت کی حفاظت کے مطابق زندگی بھر بکثرت یا کبھی کبھی زیارت حاصل ہوتی ہے ، سنت مطہرہ کی خلاف ورزی اس سلسلے میں بڑی رکاوٹ ہے ۔ آگے مزید لکھتے ہیں : امام مسلم حضرت عمران بن حصین صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے سلام کہا جاتا تھا ۔ میں نے گرم لوہے کے ساتھ داغ لگایا تویہ سلسلہ منقطع ہوگیا ۔ اور جب یہ عمل ترک کیا تو سلام کا سلسلہ پھر جاری ہوگیا ۔ علامہ ابن اثیر نے نہایہ میں فرمایا؛ فرشتے انہیں سلام کہتے تھے جب انہوں نے بیماری کی وجہ سے گرم لوہے سے علاج کیا تو فرشتوں نے سلام کہنا چھوڑ دیا کیونکہ گرم لوہے سے داغ لانا توکل ، تسلیم ، صبر اور اللہ تعالیٰ سے شفا طلب کرنے کے خلاف ہے ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ داغ لگانا ناجائز ہے ، ہاں ! یہ توکل کے خلاف ہے جو اسباب کے اختیار کرنے کے مقابلے میں بلند درجہ ہے ۔ (الحاوی للفتاوی ۔ بیروت جلد 2۔ صفہ ۲۵۷،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حاضر و ناظر ہیں دیوبندیوں اور وہابیوں کا اقرار

دیوبندیوں کے امامُ الحدیث جناب علامہ محمد زکریا کاندہلوی لکھتے ہیں کہ : بعض عارفین کا قول ہے کہ تشہد میں ایھا النبی کا یہ خطاب ممکنات اور موجودات کی ذات میں حقیقت محمدیہ کے سرایت کرنے کے اعتبار سے ہے ، چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز پڑھنے والوں کی ذات میں موجود اور حاضر ہوتے ہیں اس لئے نماز پڑھنے والوں کو چائیے کہ اس بات کا خصوصیت کے ساتھ خیال رکھیں اور آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس حاضری سے غافل نہ ہوں تاکہ قرب و معیت کے انوارات اور عرفت کے اسرار حاصل کرنے میں کامیاب رہیں ۔ (اؤجزُالمسالک جز ثانی صفحہ نمبر 225 مطبوعہ دارالقلم دمشق)

غیر مقلدوں کے امام نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر حال اور ہر آن میں مومنین کے مرکز نگاہ اور عابدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں ، خصوصیات کی حالت میں انکشاف اور نورانیت ذیادہ قوی اور شدید ہوتی ہے ، بعض عارفین کا قول ہے کہ تشہد میں ایھا النبی کا یہ خطاب ممکنات اور موجودات کی ذات میں حقیقت محمدیہ کے سرایت کرنے کے اعتبار سے ہے ، چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز پڑھنے والوں کی ذات میں موجود اور حاضر ہوتے ہیں اس لئے نماز پڑھنے والوں کو چائیے کہ اس بات کا خصوصیت کے ساتھ خیال رکھیں اور آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس حاضری سے غافل نہ ہوں تاکہ قرب و معیت کے انوارات اور عرفت کے اسرار حاصل کرنے میں کامیاب رہیں ۔ ( مسک الختام شرح بلوغ المرام جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 244) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔