Saturday, 4 January 2020

درسِ قرآن موضوع آیت : اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ۔ مکمل چھ (6) حصّے

درسِ قرآن موضوع آیت : اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ۔ مکمل چھ (6) حصّوں کے لنک یہ ہیں احباب ان لنکس میں پڑھ سکتے ہیں :

حصّہ اوّل
درسِ قرآن موضوع آیت : اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ۔ حصّہ اوّل

اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ۔ (سورۃ فاتحہ آیت نمبر 4)
ترجمہ : ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں ۔

محترم قارئینِ کرام : اِس آیتِ مبارکہ میں تقدیم مفعول مفید حصر ہے ۔ یعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں ۔ تیرے غیر کی نہ عبادت کرتے ہیں اور نہ تیرے غیر سے مدد چاہتے ہیں۔ عبادت کے معنی ہیں بندگی۔ بندگی کا مفہوم ہے، غایت تذلل اور خشوع و خضوع، دوسرے لفظوں میں غایت تعظیم سے بھی اسے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ جس کا تعلق محض اعتقاد سے ہے ۔ بعض لوگ عبادت کے معنی میں اعتقاد کو شامل نہیں کرتے ، بلکہ محض اعمال کو عبادت قرار دیتے ہیں۔ وہ سخت غلطی پر ہیں۔ اگر عبادت کے معنی میں اعتقاد کا اعتبار نہ کیا جائے اور محض عمل کو عبادت قرار دے دیا جائے تو سجدہ تحیت و تعظیم اور سجدہ عبادت سب کا ایک ہی حکم ہو، کیونکہ ہر صورت میں عمل صرف سجدہ ہے۔ لیکن بالاجماع غیر اللہ کے لئے سجدہ تحیت و تعظیم محض نا جائز و حرام ہیں اور سجدہ عبادت شرک خالص ہے۔ یہ فرق نیت اور اعتقاد کے بغیر نہیں نکل سکتا۔ ثابت ہوا کہ عبادت اعتقاد قلبی کے بغیر نہیں ہوتی ۔ رہا فقہاء کرام کا بعض اعمال کو غیر اللہ کی عبادت قرار دے کر حکم تکفیر جاری کرنا، تو یاد رہے کہ وہ تکفیر فقہی ہے، کلامی نہیں، فقہاء کی بحث عمل سے ہوتی ہے۔ اعتقاد ان کا مبحث نہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ کسی کی تعظیم اس کی عبادت نہیں، بلکہ غایت تعظیم عبادت ہے۔ اس لئے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا : وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ ۔ جب شعائر اللہ کی تعظیم ان کی عبادت کے بجائے قلوب کا تقویٰ ٹھہری تو اللہ کے وہ مقرب اور محبوب بندے، جن کے ساتھ شعائر دین وابستہ ہیں، کی تعظیم ان کی عبادت کیونکر قرار پا سکتی ہے؟ بلکہ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ محبوبانِ خدا تعالیٰ کی تعظیم اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے تو یقینا صحیح اور درست ہو گا ۔

استحقاقِ عبادت

پوجا ، بندگی ، غایت تعظیم انتہائے تذلل و خشوع و خضوع اور عبادت کا مستحق وہی ہو سکتا ہے جو اپنے وجود میں مستقل بالذات ہو، کسی کا محتاج نہ ہو۔ جس کا وجود واجب بالذات ہو گا، وہ اپنے ہر کمال اور اپنی ہر صفت میں بھی استقلالِ ذاتی سے متصف ہو گا۔ یعنی اس کا کوئی کمال اور کوئی صفت کسی کی دی ہوئی نہ ہو گی بلکہ اس کے تمام کمالات و صفات بمقتضائے ذات ہوں گے۔ جو موجود یہ شان نہیں رکھتا وہ عبادت کے لائق نہیں ہو سکتا ۔ ظاہر ہے کہ یہ شان صرف اللہ تعالیٰ کی ہے کہ وہی واجب الوجود ہے اور اپنے ہر کمال میں مستقل بالذات ہے۔ لہٰذا عبادت کے قابل وہی اور صرف وہی ہے۔ اسکے سوائے کسی کو معبود ٹھہرانا گویا اسے واجب الوجود اور ہر صفت میں مستقل بالذات ماننا ہے ۔ مزید تفصیل اس لنک میں دیئے گئے مکمل مضمون میں پڑھیں : https://faizahmadchishti.blogspot.com/2019/12/blog-post_97.html
حصّہ دوم
https://faizahmadchishti.blogspot.com/2019/12/blog-post_95.html
حصّہ سوم
https://faizahmadchishti.blogspot.com/2019/12/blog-post_22.html
حصّہ چہارم
https://faizahmadchishti.blogspot.com/2019/12/blog-post_21.html
حصّہ پنجم
https://faizahmadchishti.blogspot.com/2019/12/blog-post_74.html
حصّہ ششم
https://faizahmadchishti.blogspot.com/2020/01/blog-post_4.html
اہلِ علم سے گزارش ہے کہیں غلطی پائیں تو ضرور آگاہ فرمائیں جزاکم اللہ خیرا آمین ۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...