مسٸلہ ایمانِ ابو طالب حصّہ دوم
محترم قارئینِ کرام : اس مسلہ کے متعلق پہلا حصّہ اُمید ہے آپ پڑھ چکے ہونگے آیئے اب اس موضوع سے متعلق دوسرا حصّہ پڑھتے ہیں :
سیدنا مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : أَنَّ أَبَا طَالِبٍ لَمَّا حَضَرَتْهُ الوَفَاةُ، دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ، فَقَالَ : أَيْ عَمِّ، قُلْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ : يَا أَبَا طَالِبٍ، تَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَلَمْ يَزَالاَ يُكَلِّمَانِهِ، حَتَّى قَالَ آخِرَ شَيْءٍ كَلَّمَهُمْ بِهِ : عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ، مَا لَمْ أُنْهَ عَنْهُ فَنَزَلَتْ : ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الجَحِيمِ﴾ (التوبة : 113) وَنَزَلَتْ : ﴿إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ﴾ (القصص : 56)
ترجمہ : حضرت سعید بن مسیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو اس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ‘ آپ نے ان کے پاس ابوجہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ بن المغیرہ کو پایا ۔ آپ نے فرمایا : اے چچا لا الٰہ الا اللہ کہیے ‘ میں اس کلمہ کی وجہ سے اللہ کے پاس آپ کی شفاعت کروں گا ‘ تو ابوجہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ نے کہا کیا تم عبدالمطلب کی ملت سے اعراض کرو گے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان پر مسلسل کلمہ توحید پیش کرتے رہے ‘ اور وہ دونوں اپنے بات دہراتے رہے ‘ حتیٰ کہ ابو طالب نے آکر میں یہ کہا کہ وہ عبد المطلب کی ملت پہر ہے اور لا الٰہ الا اللہ پڑھنے سے انکار کردیا ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں تمہارے لیے اس وقت تک استغفار کرتا رہوں گا جب تک کہ مجھے اس سے منع نہ کردیا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ماکان للنبی والذین امنوا ان بستٖفر وا للمشرکین۔ (التوبۃ : ٣١١) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اور مومنین کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لیے استغفار کریں ۔ اور اللہ تعالیٰ نے ابو طالب کے لیے یہ آیت نازل فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا : انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء ج ۔ (القصص : ٦٥) بیشک آپ جس کو پسند کریں اس کو ہدایت یافتہ نہیں بنا سکتے ‘ لیکن اللہ جس کو چاہے اس کو ہدایت یافتہ بنا دیتا ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٧٧٤‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٢‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٣٠٢‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٤٧٠٤٢)
یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ ابوطالب کافر تھے ۔ انہوں نے مرتے وقت کلمہ پڑھنے سے انکار کر دیا تھا ۔ ان کو ہدایت نصیب نہیں ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ان کے حق میں دعا کرنے سے منع کر دیا تھا ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمِّهِ: قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ لَكَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، قَالَ: لَوْلَا أَنْ تُعَيِّرَنِي قُرَيْشٌ، يَقُولُونَ: إِنَّمَا حَمَلَهُ عَلَى ذَلِكَ الْجَزَعُ لَأَقْرَرْتُ بِهَا عَيْنَكَ، فَأَنْزَلَ اللهُ : ﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾ ۔ (۲۸-القصص : ٥٦) ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا سے فرمایا آپ کہیے لا الٰہ الا اللہ قیامت کے دن اس کلمہ کی وجہ سے میں آپ کے حق میں شہادت دوں گا ۔ ابوطالب نے کہا اگر قریش مجھے عار نہ دلاتے اور یہ نہ کہتے کہ موت کی گھراہٹ میں انہوں نے کلمہ توحید پڑھ لیا تو میں یہ کلمہ پڑھ کر تمہاری آنکھوں کو ٹھنڈا کردیتا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء ۔ (سورۃُ القصص : ٦٥) ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٨٨١٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٢‘ مسند احمد ج ٢ ص ٤٣٤۔ ١٤٤‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٠٧٢٦‘ دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٢ ص ٥٤٣‘ ٤٤٣)
عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ نَفَعْتَ أَبَا طَالِبٍ بِشَىْءٍ فَإِنَّهُ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ قَالَ " نَعَمْ هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ وَلَوْلاَ أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرْكِ الأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ .
ترجمہ : سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : اے اللہ عزّ و جل کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا آپ نے ابو طالب کو کوئی فائدہ دیا ۔ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیئے دوسروں سے غصے ہو جایا کر تے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں ! (میں نے اُنہیں فائُدہ پہنچایا ہے) وہ اب با لائی طبقے میں ہیں ۔ اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے نچلے حصے میں ہو تے ۔ (صحیح البخاری : 548/1، ح : 3883، صحیح المسلم : 115/1۔ ح : 209،چشتی)،(صحيح مسلم - كتاب الإيمان باب شَفَاعَةِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لأَبِي طَالِبٍ وَالتَّخْفِيفِ عَنْهُ بِسَبَبِهِ ۔ 531)
امام ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ (733-853ھ) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : فھذا شان من مات علي الكفر، فلو كان مات علي التوحيد لنجا من النار أصلا والاحاديث الصححة والاخبار المتكاثرة طاقحة بذلك ۔
ترجمہ : یہ صورتحال تو اس شخص کی ہوتی ہے جو کفر پر فوت ہوا ہو ۔ اگر ابوطالب توحید پر فوت ہوتے تو آگ سے مکمل طور پر نجات پا جاتے ۔ لیکن بہت سی احادیث و اخبار اس (کفر ابو طالب) سے لبریز ہیں ۔ (الاصابته في تميز الصحابته لابن حجر : 241/7)
حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم وذكر عنده عمه فقال : لعله تنفعه شفاعتي يوم القيامة، فيجعل في ضحضاح من النار يبلغ كعبيه يغلي منه دماغه ۔
ترجمہ : انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں آپ کے چچا (ابوطالب) کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شاید کہ ان کو میری سفارش قیامت کے دن فائدہ دے اور ان کو جہنم کے بالائی طبقے میں رکھا جائے جہاں عذاب صرف ٹخنوں تک ہو اور جس سے (صرف) ان کا دماغ کھولے گا ۔ (صحیح البخاری : 548/1، ح3885، صحیح المسلم : 115/1، ح210)
حضرت سیدنا عبد اللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : أَهْوَنُ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا أَبُو طَالِبٍ وَهُوَ مُنْتَعِلٌ بِنَعْلَيْنِ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ ۔
ترجمہ : جہنمیو ں میں سب سے ہلکے عذاب والے شخص ابو طالب ہوں گے ۔ وہ آگ کے جوتے پہنے ہوں گے جن کی وجہ سے اُن کا دماغ کھو ل رہا ہو گا ۔ (صحیح المسلم : ح : 515)
حضرت سیدنا مولا علی بن طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : لَمَّا تُوُفِّيَ أَبِي أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ : إِنَّ عَمَّكَ قَدْ تُوُفِّيَ قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ ، قُلْتُ : إِنَّهُ مَاتَ مُشْرِكًا، قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ وَلَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي ، فَفَعَلْتُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَأَمَرَنِي أَنْ أَغْتَسِلَ ۔
ترجمہ : جب میرے والد فوت ہوئے تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خد مت میں حا ضر ہوا اور عرض کی : آپ کے چچا فوت ہو گئے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جا کر انہیں کسی گڑھے میں دبا دو ۔ میں نے عرض کی : یقیناً وہ تو مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوئے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جائیں اور انہیں دفنا دیں ، لیکن جب تک میرے پاس واپس نہ آئیں کوئی نیا کام نہ کریں۔“ میں ایسا ہی کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا ۔ (مسند الطيالسي الجزء الاوّل عربی صفحہ نمبر 113 حدیث نمبر 122 ،حدیث صحیح وسنده ‘ حسن متصل،چشتی)،(مسندابو داؤد طیالسی مترجم اردو جلد 1 صفحہ نمبر 98 حدیث 122 مطبوعہ پروگریسو بکس اردو بازار لاہور)
ایک روایت کے الفاظ ہیں : إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ، قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاكَ، ثُمَّ لَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي، فَذَهَبْتُ فَوَارَيْتُهُ، وَجِئْتُهُ، فَأَمَرَنِي، فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِي ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گمراہ چچا فوت ہو گئے ہیں ان کو کون دفنائے گا ؟ ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جائیں اور اپنے والد کو دفنا دیں ۔ (مسند الامام احمد : 97/1،چشتی)(سنن ابي داؤد : 3214) (سنن النسائي : 190، 2008 ، واللفظ لهٗ ، وسندهٗ حسن) ، اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے الاصابته في تميز الصحابته لابن حجر : 114/7) اور امام ابنِ جارود رحمۃ اللہ علیہ (550ھ) نے ”صحیح“ قرار دیا ہے ۔ یہ حدیث نص قطعی ہے کہ ابو طالب مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ تک نہیں پڑھی ۔
محترم قارئینِ کرام : مسئلہ ایمانِ ابوطالب کے بارے میں بعض لوگ قدر غلو سے کام لے رہے ہیں کہ اللہ کی پناہ ۔ سنی کہلانے والے بڑے بڑے پیر بھی اس مسئلے میں متبع روافض نظر آرہے ہیں ۔ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وجہ سے ابو طالب کے متعلق خاموشی کو احوط سمجھتے ہیں ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اجلہ صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم اور ائمہ و فقہا علیہم الرّحمہ کے خلافِ عمل ، ابوطالب کے قصیدے پڑھے جائیں اور ابوطالب کو مسلمان نہ سمجھنے والوں کے متعلق گندی زبان استعمال کی جائے ۔ قائلین ایمانِ ابوطالب ہوش کے ناخن لیں ، شاید انہیں معلوم نہیں کہ صحیح حدیث کے مطابق حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ فداہ ابی وامی بھی ابوطالب کو ” ضال “ سمجھتے تھے ۔ تو کیا ان رافضی ذہنیت والے پیرانِ فرتوت کی زد میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بھی نہیں آجاتے ۔ ان باطنی رافضیوں اور ظاہری خارجیوں کی زد میں صرف حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ہی نہیں دیگر اہل بیت واصحاب رسول رضی اللہ عنہم بھی آجاتے ہیں جو ایمانِ ابوطالب کے قائل نہیں تھے ۔
حضرت سیدنا اُسامہ رضی اللہ عنہ کا انتہائی واضح بیان ملاحظہ ہو : وَكَانَ عَقِيلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ هُوَ وَطَالِبٌ، وَلَمْ يَرِثْهُ جَعْفَرٌ وَلَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا شَيْئًا لِأَنَّهُمَا كَانَا مُسْلِمَيْنِ، وَكَانَ عَقِيلٌ وَطَالِبٌ كَافِرَيْنِ ۔ (صحیح بخاری 1588)
ترجمہ : عقیل اور طالب دونوں ابوطالب کے وارث بنے تھے ، لیکن (ابو طالب کے بیٹے) سیدنا جعفر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما نے اُن کی وراثت سے کچھ بھی نہ لیا کیونکہ وہ دونوں مسلمان تھے جبکہ عقیل اور طالب دونوں کا فر تھے ۔ (صحیح البخاری:1588،صحیح المسلم:33/2،ح:1614مختصراً)
یہ روایت بھی بین دلیل ہے کہ ابوطالب کفر کی حا لت میں فوت ہو گئے تھے ۔ اسی لئے عقیل اور طالب کے برعکس حضرت سیدنا جعفر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما اُن کے وارث نہیں بنے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان عالیشان ہے : لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ، وَلَا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ ، نہ مسلمان کافر کا وارث بن سکتا ہے نہ کافر مسلمان کا ۔ (صحیح البخاری:551/2،ح:6764،چشتی)(صحیح المسلم :33/2، ح :1614)
امام ابنِ عساکر رحمۃ اللہ علیہ (499-571ھ) فرماتے ہیں : وقيل : إنهُ أَسلَمَ وَلَا يَصِحٌ إسلامُهُ ۔
ترجمہ : ایک قول یہ بھی ہے کہ ابوطالب مسلمان ہو گئے تھے ، لیکن ان کا مسلمان ہونا ثابت نہیں ہے ۔ (تاریح ابن عساکر:307/66)
ابوطالب کے ایمان لائے بغیر فوت ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بہت صدمہ ہوا تھا ۔ وہ ہقیناً پوری زندگی اسلام دوست رہے ۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے وہ ہمیشہ اپنے دل میں ایک نرم گو شہ رکھتے رہے لیکن اللہ کی مرضی کہ وہ اسلام کی دولت سے سرفراز نہ ہو سکے ۔
حافظ ابنِ کثیر (700-774ھ) ابو طالب کے کفر پر فوت ہونے کے بعد لکھتے ہیں : وَلَوْلَا مَا نَهَانَا اللَّهُ عَنْهُ مِنَ الِاسْتِغْفَارِ لِلْمُشْرِكِينَ، لَاسْتَغْفَرْنَا لابي طَالب وترحمنا عَلَيْهِ ۔
ترجمہ : اگر اللہ تعالیٰ نی ہمیں مشرکین کے لیے استغفار کرنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو ہم ابوطالب کے لیے استغفار کر تے اور اُن کے لیے رحم کی دعا بھی کرتے ۔ (سیرةالرسول ابن کثیر:132/2)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : فلما رأی حرص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم علیه قال : یا ابن أخي! والله، لو لا مخافة السبة علیك وعلی بني أبیک من بعدي، وأن تظن قریش أني إنما قلتھا جزعا من الموت لقلتھا، لا أقولھا إلا لإسرک بھا، قال: فلما تقارب من أبي طالب الموت قال: نظر العباس إلیه یحرک شفتیه، قال: فأصغی إلیه بأذنه، قال: فقال: یا ابن أخي ! واللہ، لقد قال أخي الکلمة التي أمرته أن یقولھا، قال: فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : لم أسمع ۔
ترجمہ : جب ابو طالب نے اپنے( ایمان کے) بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حرص دیکھی تو کہا : اے بھتیجے ! اللہ کی قسم ، اگر مجھے اپنے بعد آپ اور آپ کے بھائیوں پر طعن و تشنیع کا خطرہ نہ ہوتا ، نیز قریش یہ نہ سمجھتے کہ میں نے موت کے ڈر سے یہ کلمہ پڑھا ہے تو میں کلمہ پڑھ لیتا۔ میں صرف آپ کو خوش کرنے کیلئے ایسا کروں گا۔ پھر جب ابو طالب کی موت کا وقت آیا تو عباس نے ان کو ہونٹ ہلاتے ہوئے دیکھا ۔ انہوں نے اپنا کان لگایا اور (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے) کہا : اے بھتیجے ! یقیناً میرے بھائی نے وہ بات کہہ دی ہے جس کے کہنے کا آپ نے اُنہیں حکم دیا تھا ۔ (السیرۃ لابن ھشام: ۴۱۷/۱، ۴۱۸، المغازي لیونس بن بکیر: ص ۲۳۸،چشتی)(دلائل النبوۃ للبیھقي: ۳۴۶/۲)
یہ روایت سخت"ضعیف" ہے : امام ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اس حدیث کی سند کا ایک راوی نا معلوم ہے ۔ اس کے برعکس صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو طالب کفر کی حالت میں فوت ہوئے ۔ (تاریخ ابن عساکر: ۳۳/۶۶)
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ھٰذا إسنادمنقطع ۔ "الخ ، یہ سند منقطع ہے ۔ (تاریخ الاسلام: ۱۵۱/۲)
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : "إن في السند مبھما لا یعرف حاله، وھو قول عن بعض أھله، وھذا إبھام في الاسم و الحال، و مثله یتوقف فیه لو انفرد........ و الخبر عندي ما صح لضعف في سندہ" ۔
ترجمہ : اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے ، جس کے حالات معلوم نہیں ہوسکے ، نیز یہ اُس کے بعض اہل کی بات ہے جو کہ نام اور حالات دونوں میں ابہام ہے۔ اس جیسے راوی کی روایت اگر منفرد ہو تو اس میں توقف کیا جاتا ہے ۔۔۔ میرے نزدیک یہ روایت سند کے ضعیف ہونے کی بنا پر صحیح نہیں ۔ (البدایة و النھایة لابن کثیر: ۱۲۳/۳ ۔ ۱۲۵)
امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بسند فیه لم یسم...... و ھذا الحدیث لو کان طریقه صحیحا لعارضه ھذا الحدیث الذی ھو أصح منه فضلا عن أنه لا یصح ۔
ترجمہ : یہ روایت ایسی سند کے ساتھ مروی ہے جس میں ایک راوی کا نام ہی بیان نہیں کیا گیا.... اس حدیث کی سند اگر صحیح بھی ہو تو یہ اپنے سے زیادہ صحیح حدیث کے معارض ہے۔ اس کا صحیح نہ ہونا مستزاد ہے ۔ (فتح الباری لابن حجر: ۱۸۴/۷)
امام بدر الدین عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : في سند ھذا الحدیث مبھم لا یعرف حاله، وھذا إبھام في الاسم و الحال، و مثله یتوقف فیه لو انفرد ۔
ترجمہ : اس حدیث کی سند میں ایک مبہم راوی ہے جس کے حالات معلوم نہیں ہوسکے ۔ نام اور حالات دونوں مجہول ہیں۔ اس جیسے راوی کی روایت اگر منفرد ہو تو اس میں توقف کیا جاتا ہے۔ (شرح ابي داؤد للعیني الحنفي: ۱۷۲/۶)
ایمانِ ابو طالب حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی نظر میں
تاجدار گولڑہ حضرت سیّد پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں : آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچے اور پھوپھیاں حارث ، قثم ، حمزہ ، عباس ، ابوطالب ، عبدالکعبہ ، جحل ، ضرّار ، غیداق ، ابولہب ، صفیہ ، عاتکہ ، اروی ، اُمّ حکیم ، بّرہ ، امیمہ اس جماعت میں سے حضرت حمزہ و عباس و حضرت صفیہ رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین وعلیھن ایمان لائے ۔ اور حاشیہ میں لکھا ہے کہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں تین حضرات کے مشرف با اسلام ہونے کو جمہور علماء کا مذہب قرار دیا ہے ۔ (تحقیق الحق فی کلمة الحق صفحہ نمبر 153 مطبوعہ گولڑہ شریف،چشتی)
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچاؤں میں سے بجز حضرت امیر حمزہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کے کوئی مسلمان نہ ہوا ۔ ابو طالب اور ابو لہب نے زمانہ اسلام کا پایا لیکن اس کی توفیق نہ پائی جمہور علماء کا یہی مذہب ہے ۔ (مدارج النبوت مترجم اردو جلد دوم صفحہ نمبر 576 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور پاکستان،چشتی)
حضرت میر عبدالواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ اور ایمانِ ابو طالب
محترم قارئینِ کرام : سبع سنابل کے حوالے سے رافضیوں نے یہ دھوکا دینے کی کوشش کی ہے کہ حضرت میر عبدالواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ ابو طالب کو مسلمان سمجھتے تھے ۔ جب یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ رافضیوں کو بولنے سے پہلے لکھنے سے پہلے یہ سوچنا چاہئے تھا کہ سبع سنابل شریف اب بھی چھپ رہی ہے جو چاہے وہ پڑھ کر خود ہی اندازہ لگا سکتا ہے کہ حضرت میر عبدلواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ کا وہی موقف ہے جو جمیع اہل سنت و جماعت کے اکابرین کا موقف ہے یعنی ابو طالب کا خاتمہ کفر پر ہوا ۔ اب آئیے سبع سنابل شریف کی عبارت آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں آپ خود فیصلہ کر لیجئے گا ۔
حضرت میر عبدالواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ سبع سنابل شریف میں فرماتے ہیں : میرے بھائی اگر چہ مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فضائل و شرف کے کمالات اہل معرفت کے دلوں میں نہیں سماں سکتے اور ان کے سچے دوستوں کے نہاں خانوں میں منزل نہیں بنا سکتے اس کے با وجود ان کے ان نسب عالوں میں اپنا کامل اثر نہیں دکھا سکتے خواہ وہ آباؤ اجداد ہوں یا اولاد در اولاد چنانچہ ابو طالب میں اس نسب نے کوئی اثر نہیں کیا حالانکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان کے بارے میں بلیغ کوشش فرماتے رہے لیکن چونکہ خدائے قدوس جل و علا نے ان کے دل پر روز اول ہی سے مہر لگا دی تھی لہذا جواب دیا اخرت النار على العار میں عار پر نار کو ترجیح دیتا ہوں جیسا کہ مشہور ہے منقول ہے کہ جب ابو طالب کا انتقال ہوا مولی علی کرم اللہ وجہہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ خبر پہنچائی کہ مات عمك الضال حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گمراہ چچا کا انتقال ہوگیا بیت کبھی ایسے گوہر پیدا کرنے والے گھرانہ میں ابو طالب جیسے کو (خالق بے نیاز) پتھر پھینکنے والا بنا دیتا ہے ۔ (سبع سنابل صفحہ نمبر 90 مطبوعہ حامد اینڈ کمپنی اردو بزار لاہور) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ العزیز) ۔ (طالبِ دعا ودعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment