درسِ قرآن موضوع آیت : کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ۔ حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ؕ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوۡرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ؕ فَمَنۡ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ؕ ۔ (سورہ العمران آیت نمبر 185)
ترجمہ : ہر جان کو موت چکھنی ہے اور تمہارے بدلے تو قیامت ہی کو پورے ملیں گے جو آگ سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچا ۔
انسان ہو ں یا جن یا فرشتہ ، غرض یہ کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا ہر زندہ کو موت آنی ہے اور ہر چیز فانی ہے ۔
جنگ احد کی ہزیمت پر جو مسلمان رنجیدہ اور غمزدہ تھے اس آیت میں بھی گذشتہ آیات کی طرح ان کو تسلی دی گئی ہے اور منافقوں کے طعن کا جواب دیا ہے ‘ منافق یہ کہتے تھے اس جنگ میں ہمارے مشورہ پر عمل کیا جاتا اور مسلمان شہر بند ہو کر لڑتے تو اس جنگ میں اس قدر مسلمان مارے نہ جاتے ‘ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ ہر شخص نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اگر بہ فرض محال وہ مسلمان اس جنگ میں نہ مارے جاتے تب بھی انہوں نے ایک نہ ایک دن مرنا تھا ‘ پہلے کوئی ہمیشہ پہلے زندہ رہا نہ اب ہمیشہ زندہ رہے گا ‘ پھر تم ان مسلمانوں کے مرنے پر غم کیوں کرتے ہو ! خصوصا اس لیے کہ وہ شہادت کی موت مرے ہیں اور شہداء اللہ کے نزدیک زندہ ہیں ان کو رزق دیا جاتا ہے اور وہ اللہ کی ان نعمتوں پر بہت خوش ہیں ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے تم کو دنیا میں ایمان اور اعمال صالحہ کا اجر عطا فرمایا ہے ‘ تم کو جنگ بدر میں فتح عطا کی ‘ اور جب تک تم مکہ مکرمہ میں رہے تم کو کفار کے قتل کرنے سے بچائے رکھا حتی کہ تم ہجرت کر کے مدینہ میں آگئے اور جہاد میں اللہ تم کو جو فتح وظفر ‘ مال غنیمت اور دشمن پر تسلط عطا فرماتا ہے ‘ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کا دنیا میں تھوڑا سا اجر ہے اس کا پورا پورا اجر تم کو قیامت کے دن دیا جائے گا ‘ ’ توفیہ “ کا معنی کسی چیز کو پورا پورا کرنا ہے ‘ مومنوں کو دنیا میں جو نعمتیں دی ہیں وہ تھوڑی ہیں ان کو پوری پوری نعمتیں آخرت میں دی جائیں گی ۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٤١ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا دنیا مومن کا قیدخانہ ہے اور کافر کی جنت ہے ۔ (کتاب الزھد ص ٣٧‘ مطبوعہ دارالباز مکہ مکرمہ ١٤١٤ ھ،چشتی)
اسی طرح کفار کو جو مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کا سامنا ہوتا ہے یا ان کا جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے یہ بہت تھوڑ عذاب ہے انکو پورا پورا عذاب آخرت میں دیا جائے گا جو دائمی عذاب ہوگا ۔
موت کی یاد اور اس کی تیاری کی ترغیب
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار پر موت مقرر فرما دی ہے اوراس سے کسی کو چھٹکارا ملے گا اور نہ کوئی اس سے بھاگ کر کہیں جا سکے گا ۔ موت روح کے جسم سے جدا ہونے کا نام ہے اور یہ جدائی انتہائی سخت تکلیف اور اذیت کے ساتھ ہو گی اور اس کی تکلیف دنیا میں بندے کو پہنچنے والی تمام تکلیفوں سے سخت تر ہو گی ۔ موت اور اس کی سختی کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : وَ جَآءَتْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ؕ ذٰلِکَ مَا کُنۡتَ مِنْہُ تَحِیۡدُ ۔ (سورہ ق ۱۹)
ترجمہ : اور موت کی سختی حق کے ساتھ آگئی ، (اس وقت کہا جاتا ہے) یہ وہ (موت) ہے جس سے تو بھاگتا تھا ۔
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت کعب احبار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا ’’اے کعب رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُُ ، ہمیں موت کے بارے میں بتائیے ۔ حضرت کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی : اے امیر المؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ، موت ایک ایسی کانٹے دار ٹہنی کی طرح ہے جسے کسی آدمی کے پیٹ میں داخل کیا جائے اور اس کا ہر کانٹا ایک ایک رگ میں پیوست ہو جائے ، پھر کوئی طاقتور شخص اس ٹہنی کو اپنی پوری قوت سے کھینچے تو اس ٹہنی کی زد میں آنے والی ہر چیز کٹ جائے اور جو زد میں نہ آئے وہ بچ جائے ۔ (احیاء العلوم، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثالث فی سکرات الموت وشدتہ۔۔۔ الخ، ۵/۲۱۰)
حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’مومن پر دنیا اور آخرت کا کوئی خوف موت سے بڑھ کر نہیں ، یہ خوف آروں سے چیرنے ،قینچیوں سے کاٹنے اور ہانڈیوں میں ابالنے سے بھی زیادہ سخت ہے ۔ اگر کوئی میت قبر سے نکل کر دنیا والوں کو موت کی سختیاں بتا دے تو وہ نہ زندگی سے نفع اٹھا سکیں گے اور نہ نیند سے لذت حاصل کر سکیں گے ۔ (احیاء العلوم، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثالث فی سکرات الموت وشدتہ۔۔۔ الخ، ۵/۲۰۹)
مروی ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وصال ہو ا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا اے میرے خلیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ، تم نے موت کو کیسا پایا ؟ آپ نے عرض کی : جس طرح گرم سیخ کو تر روئی میں رکھا جائے پھر اسے کھینچ لیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ہم نے آپ پر موت کو آسان کیا ہے ۔ (احیاء العلوم، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثالث فی سکرات الموت وشدتہ۔۔۔ الخ، ۵/۲۰۹)
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : بے شک رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے سامنے پانی کا ایک برتن رکھا ہوا تھا ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اپنے دونوں ہاتھ پانی میں داخل کرتے ، پھر انہیں چہرۂ انور پر ملتے اور کہتے : بے شک موت میں تکلیف ہوتی ہے ۔ پھر دستِ مبارک اٹھاکر فرماتے ’’رفیق اعلیٰ میں ۔ یہاں تک کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی روح قبض کر لی گئی اور دستِ مبارک جھک گیا ۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب سکرات الموت، ۴/۲۵۰، الحدیث: ۶۵۱۰،چشتی)
حضرت عبداللہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا نے فرمایا ’’میں نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے وصال کے وقت جو سختی دیکھی اس کے بعد مجھے کسی کی آسان موت پر رشک نہیں ہے ۔ (ترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی التشدید عند الموت، ۲/۲۹۵، الحدیث: ۹۸۱)
جب حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کے بیٹے نے ان سے کہا : اے بابا جان! آپ کہا کرتے تھے کہ کوئی عقلمند انسان مجھے نَزع کے عالَم میں مل جائے تو میں اس سے موت کے حالات دریافت کروں ، تو آپ سے زیادہ عقل مند کون ہو گا ،برائے مہربانی آپ ہی مجھے موت کے حالات بتا دیجئے ۔ آپ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’اے بیٹے ! خدا کی قسم،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے دونوں پہلو ایک تخت پر ہیں اور میں سوئی کے نکے کے برابر سوراخ سے سانس لے رہا ہوں اور ایک کانٹے دار شاخ میرے قدموں کی طرف سے سر کی جانب کھینچی جا رہی ہے ۔ (التذکرہ للقرطبی، باب ما جاء انّ للموت سکرات۔۔۔ الخ، ص۲۴)
ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم تو سر تا پا گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اورہمارے اوپر موت کی سختیوں کے علاوہ نجانے اور کتنی مصیبتیں آئیں گی اس لئے عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ موت کو بکثرت یاد کیا جائے اور دنیا میں رہ کر موت اور اس کے بعد کی تیاری کی جائے ۔
حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو اپنا تابعدار بنا لے اور موت کے بعد کے لئے عمل کرے اور عاجز وہ شخص ہے جو اپنی خواہشات پر چلتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید بھی کرتا ہو ۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۲۵-باب، ۴/۲۰۷)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے ساتھ تھا کہ ایک انصاری آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کو سلام کیا اور عرض کی :یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، کونسا مومن افضل ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’جس کے اخلاق عمدہ ہوں ۔ اس نے عرض کی : سب سے زیادہ عقلمند کون ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہو اور اس کی اچھی طرح تیاری کرتا ہو تو وہی سب سے زیادہ عقلمند ہے ۔ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الموت والاستعداد لہ، ۴/۴۹۶، الحدیث: ۴۲۵۹،چشتی)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور میں وہاں موجود افراد میں سے دسواں تھا ۔ اسی دوران ایک انصاری شخص آئے اور عرض کی :یا رسول اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ،لوگوں میں سب سے زیادہ عقلمند اور محتاط کون ہے؟نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’وہ لوگ جوموت آنے سے پہلے اسے زیادہ یاد کرتے اور اس کے لئے زیادہ تیاری کرتے ہیں وہی عقلمند ہیں ،وہ دنیا کی شرافت اور آخرت کی بزرگی لے گئے ۔ (معجم الکبیر، ۱۲/۳۱۸، الحدیث: ۱۳۵۳۶)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ موت کی یاد اور اس کے بعد کی تیاری کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ’’جب اس دار فنا سے ایک نہ ایک دن کوچ کرنا ہی ہے تو عقلمند انسان کو چاہئے کہ وہاں کی تیاری کرے جہاں ہمیشہ رہنا ہے ۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے فرمایا ، دنیا میں ایسے رہو جیسے مسافر بلکہ راہ چلتا ۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم : کن فی الدنیا کانّک غریب۔۔۔ الخ، ۴/۲۲۳، الحدیث: ۶۴۱۶)
تو مسافر جس طرح ایک اجنبی شخص ہوتا ہے اور راہ گیر راستے کے کھیل تماشوں میں نہیں لگتا کہ منزل مقصود تک پہنچنے میں ناکامی ہو گی اسی طرح مسلمان کو چاہیے کہ دنیا اور اس کی رنگینیوں میں نہ پھنسے اور نہ ایسے تعلقات پیدا کرے کہ مقصود اصلی حاصل کرنے میں آڑے آئیں اور موت کو کثرت سے یاد کرے کہ دنیا اور اس کی لذتوں میں مشغول ہونے سے روکے گی، حدیث میں ہے : لذتوں کو توڑ دینے والی موت کو کثرت سے یاد کرو ۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی ذکر الموت، ۴/ ۱۳۸، الحدیث: ۲۳۱۴)
مگر کسی مصیبت پر موت کی آرزو نہ کرے کہ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے اور ناچار کرنی ہی پڑے تو یوں کہے، یااللہ ! مجھے زندہ رکھ جب تک میری زندگی میرے لئے بہتر ہو ، اور موت دے جب میرے لئے بہتر ہو ۔ (بخاری، کتاب المرضی، باب تمنّی المریض الموت، ۴/۱۳، الحدیث: ۵۶۷۱،چشتی)
یونہی مسلمان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے نیک گمان رکھے اوراس کی رحمت کا امیدوار رہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ایک نوجو ان کے پاس اس حال میں تشریف لے گئے کہ وہ مرنے کے قریب تھا ۔ ارشادفرمایا : تو اپنے آپ کو کس حال میں پاتا ہے ؟ عرض کی : یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، اللہ تعالیٰ سے امید ہے اور اپنے گناہوں سے ڈر ۔ ارشاد فرمایا : ’’یہ دونوں خوف اور امیداس موقع پر جس بندے کے دل میں ہوں گے اللہ تعالیٰ اسے وہ دے گا جس کی امید رکھتا ہو اور اس سے امن میں رکھے گا جس سے خوف کرتا ہے ۔ (ترمذی، کتاب الجنائز، ۱۱-باب، ۲/۲۹۶، الحدیث: ۹۸۵)
یاد رکھئے رُوح قبض ہونے کا وقت بہت ہی سخت وقت ہے کہ اسی پر سارے اعمال کا دارومدار ہے بلکہ ایمان کے اُخْرَوی نتائج اسی پر مُرَتَّب ہوں گے کہ اعتبار خاتمہ ہی کا ہے اور شیطان لعین ایمان لینے کی فکر میں ہے جس کو اللہ تعالیٰ اس کے مکر و فریب سے بچائے اور ایمان پر خاتمہ نصیب فرمائے وہ ہی مراد کو پہنچا ۔ (بہار شریعت ، موت آنے کا بیان ، حصہ چہارم،۱/۸۰۶-۸۰۷)
موت سے مستثنی رہنے والے نفوس کا بیان
اس آیت میں پر ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی ذات پر نفس کا اطلاق کیا ہے ارشاد ہے : کتب علی نفسہ الرحمہ ۔ (سورہ الانعام : ١٢)
ترجمہ : اس نے (محض اپنے کرم سے) اپنے اوپر رحمت کو لازم کرلیا ہے ‘
ونفخ فی الصور فصعق من فی السموت ومن فی الارض الا من شآء اللہ ۔ (سورہ الزمر : ٦٨)
ترجمہ : اور صور پھونکا جائے گا جو آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب بےہوش ہوجائیں گے مگر جن کو اللہ چاہے ۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سب لوگوں کو موت نہیں آئے گی اور کچھ مخلوق ایسی ہوگی جو قیامت کے صور سے بھی صرف بےہوش ہوگی مرے گی نہیں اور زیر بحث آیت کا تقاضا ہے کہ ہر نفس پر موت آئے حتی کہ اللہ پر بھی اور ان پر بھی ۔ اس کا جواب یہ ہے یہ زیر بحث آیت عام عام مخصوص نہ البغض ہے ‘ اللہ تعالیٰ اور جن کا اللہ تعالیٰ نے استثناء فرمایا ہے (مثلا انبیاء علیہم السّلام اور شہدائے کرام) وہ اس آیت کے عموم سے مستثنی ہیں ‘ امام رازی نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اس آیت میں نفس سے مراد وہ مکلف ہیں جو دار تکلیف میں حاضر ہیں ۔ (تفسیر کبیر ج ٣ ص ١١٢) لیکن یہ جواب صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کا تقاضا ہے کہ پھر بچوں اور دیوانوں پر موت نہ آئے اسی طرح جمادات اور نباتات پر موت نہ آئے حالانکہ ان سب پر موت آئے گی صحیح جواب وہی ہے جس کو ہم نے ذکر کیا ہے : (مزید حصّہ دوم میں پڑھیں)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment