مسلہ ایمانِ ابو طالب احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام : عرصہ دراز سے ہم سوشل میڈیا پر کام کر رہے ہیں کچھ دوستوں کے بار بار اصرار کے باوجود ہم نے اس مسلہ کو نہ چھیڑا وجہ یہ تھی کہ جمہور کے مؤقف سے ہٹ کر کچھ اہلِ علم اُن کے ایمان کے قائل ہیں اس لیئے ہمارا جواب ہر بار یہ تھا کہ اس مسلہ پر خاموشی بہتر ہے ۔ اب اس مسلہ پر لکھنے کی ضرورت اس لیئے شدت سے محسوس ہوئی کہ بعض نا ہنجار مبغضین کی طرف سے اس مسلہ کو لے اکابرینِ اہلسنّت کو غلیظ گالیاں تک دی جا رہی ہیں اِن جہلائے زمانہ کو اتنا بھی شعور نہیں کہ ان کی گالم گلوچ اور طعن و تشنیع کی زد میں کون کون سے ہستیاں آتی ہیں بشمول حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ۔ اس سے قبل تین حصّوں پر مشتمل اس مسلہ پر ہم تفصیل سے لکھ چکے ہیں اور اس مضمون میں صرف احادیث مبارکہ پیش کی جا رہی ہیں ہو سکتا یہ احادیثِ مبارکہ پڑھ کر اپنے اندر غلاظت ظاہر کر کے اکابرین اہلسنت کو گالیاں دینے والوں کو شاید شرم و حیاء آجائے اللہ تعالیٰ ہمیں تمام فتنوں سے بچائے آمین ۔ قارئینِ کرام سے صرف اتنی گزارش ہے کہ درج ذیل احادیث مبارکہ پڑھنے کے بعد ہم یہ اکابرینِ اہلسنّت کو مغلظات بکنے والوں سے اتنا سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا یہ سب صحابہ کرام ، تابعین رضی اللہ عنہم ، محدثین کرام علیہم الرّحمہ ناصبی و خارجی تھے ؟
مسند امام احمد اور عدم ایمان ابو طالب
حضرت سیّدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : لَمَّا تُوُفِّيَ أَبِي أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ : إِنَّ عَمَّكَ قَدْ تُوُفِّيَ قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ ، قُلْتُ : إِنَّهُ مَاتَ مُشْرِكًا ، قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ وَلَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي ، فَفَعَلْتُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَأَمَرَنِي أَنْ أَغْتَسِلَ ۔
ترجمہ : حضرت سیّدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب میرے والد فوت ہوئے تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خد مت میں حا ضر ہوا اور عرض کی : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچا فوت ہو گئے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جا کر انہیں کسی گڑھے میں چھپا دو ۔ میں نے عرض کی : یقیناً وہ تو مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوئے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جائیں اور انہیں دفنا دیں ، لیکن جب تک میرے پاس واپس نہ آئیں کوئی نیا کام نہ کریں ۔ میں نے ایسا ہی کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا ۔ (مسند احمد ۔ جلد اول مترجم اردو حدیث نمبر 759)،(مسند الطيالسي الجزء الاوّل عربی صفحہ نمبر 113 حدیث نمبر 122 ،حدیث صحیح وسنده ‘ حسن متصل ،چشتی)،(مسندابو داؤد طیالسی مترجم اردو جلد 1 صفحہ نمبر 98 حدیث 122 مطبوعہ پروگریسو بکس اردو بازار لاہور)
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ كَعْبٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ لَمَّا مَاتَ أَبُو طَالِبٍ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ فَقَالَ انْطَلِقْ فَوَارِهِ وَلَا تُحْدِثْ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي قَالَ فَانْطَلَقْتُ فَوَارَيْتُهُ فَأَمَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ دَعَا لِي بِدَعَوَاتٍ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهِنَّ مَا عَرُضَ مِنْ شَيْءٍ ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ابو طالب کا انتقال ہوگیا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ کا بوڑھا اور گمراہ چچا مر گیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا کر اسے کسی گڑھے میں چھپا دو اور میرے پاس آنے سے پہلے کسی سے کوئی بات نہ کرنا، چنانچہ میں گیا اور اسے ایک گڑھے میں چھپا دیا، نبی صلی اللہ علیہ نے اس کے بعد مجھے غسل کرنے کا حکم دیا اور مجھے اتنی دعائیں دیں کہ ان کے مقابلے میں کسی وسیع و عریض چیز کی میری نگاہوں میں کوئی حیثیت نہیں ۔ (مسند احمد ۔ جلد اول حدیث نمبر 1039)
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ قَالَ أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَهْوَنُ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا أَبُو طَالِبٍ وَهُوَ مُنْتَعِلٌ نَعْلَيْنِ مِنْ نَارٍ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اہل جہنم میں سب سے ہلکاعذاب ابو طالب کو ہوگا ، انہوں نے آگ کی دو جوتیاں پہن رکھی ہوں گی جس سے ان کا دماغ ہنڈیا کی طرح ابلتا ہوگا ۔ (مسند احمد ۔ جلد دوم حدیث نمبر 764،چشتی)
بخاری شریف اور عدم ایمان ابو طالب
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَغْنَيْتَ عَنْ عَمِّکَ فَإِنَّهُ کَانَ يَحُوطُکَ وَيَغْضَبُ لَکَ قَالَ هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ وَلَوْلَا أَنَا لَکَانَ فِي الدَّرَکِ الْأَسْفَلِ مِنْ النَّارِ ۔
ترجمہ : مسدد یحیی سفیان عبدالملک عبداللہ بن حارث حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابوطالب کو کچھ نفع پہنچایا کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف داری میں (مخالفوں پر) غصہ کیا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ صرف ٹخنوں تک آگ میں ہیں اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ دوزخ کے نچلے طبقہ میں ہوتے ۔ (صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ انبیاء علیہم السلام کا بیان ۔ حدیث 1116)(صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ انبیاء علیہم السلام کا بیان ۔ حدیث 1117)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ حَدَّثَنَا ابْنُ الْهَادِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذُکِرَ عِنْدَهُ عَمُّهُ فَقَالَ لَعَلَّهُ تَنْفَعُهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُجْعَلُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ النَّارِ يَبْلُغُ کَعْبَيْهِ يَغْلِي مِنْهُ دِمَاغُهُ ۔
ترجمہ : عبداللہ بن یوسف لیث ابن ہاد عبد اللہ بن خباب حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا (ابو طالب) کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امید ہے قیامت کے دن انہیں میری شفاعت کچھ نفع دے جائے گی کہ وہ آگ کے درمیان درجہ میں کردیئے جائیں گے کہ آگ ان کے ٹخنوں تک پہنچے گی جس سے ان کا دماغ کھولنے لگے گا ۔ (صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ انبیاء علیہم السلام کا بیان ۔ حدیث 1118،چشتی)
مسلم شریف اور عدم ایمان ابو طالب
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَی التُّجِيبِيُّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ جَائَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ عِنْدَهُ أَبَا جَهْلٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عَمِّ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کَلِمَةً أَشْهَدُ لَکَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ يَا أَبَا طَالِبٍ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُهَا عَلَيْهِ وَيُعِيدُ لَهُ تِلْکَ الْمَقَالَةَ حَتَّی قَالَ أَبُو طَالِبٍ آخِرَ مَا کَلَّمَهُمْ هُوَ عَلَی مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَأَبَی أَنْ يَقُولَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا وَاللَّهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْکَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا کَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِينَ وَلَوْ کَانُوا أُولِي قُرْبَی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی فِي أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّکَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَکِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَائُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ۔
ترجمہ : حرملة بن یحیی، عبداللہ بن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ بن مغیرہ کو ان کے پاس موجود پایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے چچا لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کا کلمہ کہہ دو میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کی گواہی دوں گا ابوجہل اور ابن امیہ کہنے لگے کیا تم عبدالمطلب کے دین سے پھر رہے ہو؟ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باربار کلمہ تو حید اپنے چچا ابوطالب کے سامنے پیش کرتے رہے اور یہی بات دھراتے رہے بالآخر ابوطالب نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کہنے سے انکار کردیا اور آخری الفاظ یہ کہے کہ میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تک مجھے روکا نہیں جائے گا میں تو برابر دعائے مغفرت کرتا رہوں گا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت (مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْ ا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْ ا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ) 9۔ التوبہ : 113) نازل فرمائی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنوں کے لئے یہ بات مناسب نہیں کہ مشرکوں کے لئے مغفرت کی دعا کریں اگرچہ وہ رشتہ دار ہوں جبکہ ان پر یہ ظاہر ہوگیا ہو کہ وہ دوزخی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ابوطالب کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب فرماتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَا ءُ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ) ۔ (صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 135)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ وَابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَا حَدَّثَنَا مَرْوَانُ عَنْ يَزِيدَ وَهُوَ ابْنُ کَيْسَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمِّهِ عِنْدَ الْمَوْتِ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ لَکَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَبَی فَأَنْزَلَ اللَّهُ إِنَّکَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ الْآيَةَ ۔
ترجمہ : محمد بن عباد، ابن ابی عمر، مروان، یزید یعنی ابن کیسان، ابوکیسان، ابوحازم ، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا سے ان کی موت کے وقت فرمایا لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کہہ دو میں قیامت کے دن اس کی گواہی دے دوں گا ابوطالب نے انکار کردیا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَا ءُ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ) 28۔ القصص : 56) نازل فرمائی یعنی بے شک تو ہدایت نہیں کر سکتا جسے تو چاہے لیکن اللہ ہدایت کرتا ہے جسے چاہے اور وہ ہدایت والوں کو خوب جانتا ہے ۔ (صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 137،چشتی)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ سَمِعْتُ الْعَبَّاسَ يَقُولُا قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا طَالِبٍ کَانَ يَحُوطُکَ وَيَنْصُرُکَ فَهَلْ نَفَعَهُ ذَلِکَ قَالَ نَعَمْ وَجَدْتُهُ فِي غَمَرَاتٍ مِنْ النَّارِ فَأَخْرَجْتُهُ إِلَی ضَحْضَاحٍ ۔
ترجمہ : ابن ابی عمر، سفیان، عبدالملک، بن عمیر، عبداللہ بن حارث، ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوطالب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے لوگوں پر غصے ہوتے تھے تو کیا ان باتوں کی وجہ سے ان کو کوئی فائدہ ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں میں نے انہیں آگ کی ش'دت میں پایا تو میں انہیں ہلکی آگ میں نکال کر لے آیا ۔ (صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 511)
نسائی شریف اور عدم ایمان ابو طالب
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنِي شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَالَ سَمِعْتُ نَاجِيَةَ بْنَ کَعْبٍ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ أَبَا طَالِبٍ مَاتَ فَقَالَ اذْهَبْ فَوَارِهِ قَالَ إِنَّهُ مَاتَ مُشْرِکًا قَالَ اذْهَبْ فَوَارِهِ فَلَمَّا وَارَيْتُهُ رَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ لِي اغْتَسِلْ ۔
ترجمہ : محمد بن مثنی، محمد، شعبہ، ابواسحاق، ناجیہ بن کعب، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ابوطالب گزر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم لوگ جاؤ اور ان کو زمین میں دبا دو۔ میں نے کہا وہ تو کافر و مشرک ہونے کی حالت میں مرے ہیں پس ان کو دبا دینا کیا ضروری ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جاؤ ان کو زمین میں دبا دو۔ میں جس وقت ان کو زمین میں دبا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا غسل کرو ۔ (سنن نسائی ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 192)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ سُفْيَانَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَقَ عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ کَعْبٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ عَمَّکَ الشَّيْخَ الضَّالَّ مَاتَ فَمَنْ يُوَارِيهِ قَالَ اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاکَ وَلَا تُحْدِثَنَّ حَدَثًا حَتَّی تَأْتِيَنِي فَوَارَيْتُهُ ثُمَّ جِئْتُ فَأَمَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِي وَذَکَرَ دُعَائً لَمْ أَحْفَظْهُ ۔
ترجمہ : عبید اللہ بن سعید، یحیی، سفیان، ابواسحاق ، ناجیة بن کعب، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بوڑھا چچا ابوطالب مر گیا ہے۔ اب ان کو کون آدمی دفن کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم لوگ جاؤ اور اپنے والد کو دفن کر کے آجاؤ اور تم لوگ کسی قسم کی کوئی نئی بات نہ کرنا چنانچہ میں گیا اور میں ان کو زمین کے اندر چھپا کر واپس آگیا پھر میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو غسل کرنے کا حکم فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے واسطے دعا فرمائی اور ایک دعا اس قسم کی بیان فرمائی کہ جو مجھ کو یاد نہیں ۔ (سنن نسائی ۔ جلد اول ۔ جنائز کے متعلق احادیث ۔ حدیث 2012،چشتی)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ ثَوْرٍ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ فَقَالَ أَيْ عَمِّ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کَلِمَةً أُحَاجُّ لَکَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ لَهُ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ يَا أَبَا طَالِبٍ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَمْ يَزَالَا يُکَلِّمَانِهِ حَتَّی کَانَ آخِرُ شَيْئٍ کَلَّمَهُمْ بِهِ عَلَی مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْکَ فَنَزَلَتْ مَا کَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِينَ وَنَزَلَتْ إِنَّکَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ ۔
ترجمہ : محمد بن عبد الاعلی، محمد و ابن ثور، معمر، زہری، سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد ماجد سے سنا کہ جس وقت (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا) ابوطالب کی وفات کا وقت آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے وہاں پر ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے میرے چچا! تم لَا اِلٰہِ اِلَّا اللہ کہو اس جملہ کی وجہ سے میں تمہارے واسطے بارگاہ الٰہی میں حجت کروں گا (سفارش کی کوشش کروں گا) اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ نے کہا اے ابوطالب! کیا تم عبدالمطلب کے دین سے نفرت کرتے ہو؟ پھر وہ دونوں ان سے گفتگو کرنے لگے۔ یہاں تک کہ ابوطالب کی زبان سے آخری جملہ یہ نکلا کہ میں تو عبدالمطلب کے دین پر ہی قائم ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں تمہارے واسطے اس وقت تک دعا مانگوں گا جب تک مجھ کو ممانعت نہ ہوگی اس پر آیت کریمہ مَا کَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِينَ نازل ہوئی ۔ (سنن نسائی ۔ جلد اول ۔ جنائز کے متعلق احادیث ۔ حدیث 2041)
ترمذی شریف اور عدم ایمان ابو طالب
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ کَيْسَانَ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ الْأَشْجَعِيُّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمِّهِ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ لَکَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ لَوْلَا أَنْ تُعَيِّرَنِي بِهَا قُرَيْشٌ أَنَّ مَا يَحْمِلُهُ عَلَيْهِ الْجَزَعُ لَأَقْرَرْتُ بِهَا عَيْنَکَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّکَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَکِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَائُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ کَيْسَانَ
محمد بن بشار، یحیی بن سعید، یزید بن کیسان، ابوحازم اشجعی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا (ابوطالب) سے فرمایا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہہ دیجئے تاکہ میں قیامت کے دن آپ کے متعلق ایمان کی گواہی دے سکوں۔ وہ کہنے لگے اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ قریش کہیں گے کہ (ابوطالب) نے موت کی گھبرا ہٹ کی وجہ سے کلمہ پڑھ لیا تو میں یہ کلمہ پڑھ کر تمہاری آنکھیں ٹھنڈی کر دیتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَا ءُ ) 28۔ القصص : 56) (بے شک تو ہدایت نہیں کر سکتا جسے تو چاہے لیکن اللہ ہدایت کرتا ہے جسے چاہے اور وہ ہدایت والوں کو خوب جانتا ہے۔) یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف یزید بن کیسان کی روایت سے جانتے ہیں ۔ (جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ قرآن کی تفسیر کا بیان ۔ حدیث 1136،چشتی)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ يَحْيَی قَالَ عَبْدٌ هُوَ ابْنُ عَبَّادٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَرِضَ أَبُو طَالِبٍ فَجَائَتْهُ قُرَيْشٌ وَجَائَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَ أَبِي طَالِبٍ مَجْلِسُ رَجُلٍ فَقَامَ أَبُو جَهْلٍ کَيْ يَمْنَعَهُ وَشَکَوْهُ إِلَی أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي مَا تُرِيدُ مِنْ قَوْمِکَ قَالَ إِنِّي أُرِيدُ مِنْهُمْ کَلِمَةً وَاحِدَةً تَدِينُ لَهُمْ بِهَا الْعَرَبُ وَتُؤَدِّي إِلَيْهِمْ الْعَجَمُ الْجِزْيَةَ قَالَ کَلِمَةً وَاحِدَةً قَالَ کَلِمَةً وَاحِدَةً قَالَ يَا عَمِّ قُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَقَالُوا إِلَهًا وَاحِدًا مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ قَالَ فَنَزَلَ فِيهِمْ الْقُرْآنُ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّکْرِ بَلْ الَّذِينَ کَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ إِلَی قَوْلِهِ مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ و قَالَ يَحْيَی بْنُ عِمَارَةَ ۔
ترجمہ : محمود بن غیلان وعبد بن حمید، ابواحمد، سفیان، اعمش، یحیی، عبد بن عباد، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ جب ابوطالب بیمار ہوئے تو قریش اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے۔ ابوطالب کے پاس ایک ہی آدمی کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ ابوجہل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں بیٹھنے سے منع کرنے کے لئے اٹھا اور لوگوں نے ابوطالب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکایت کی، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا بھتیجے ! اپنی قوم سے کیا چاہتے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ یہ لوگ ایک کلمہ کہنے لگیں اگر یہ لوگ میری اس دعوت کو قبول کرلیں گے تو عرب پر حاکم ہو جائیں گے اور عجمیوں سے جزیہ وصول کریں گے۔ ابوطالب نے پوچھا ایک ہی کلمہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ایک ہی کلمہ۔ چچا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہہ لیجئے۔ وہ سب کہنے لگے کیا ہم ایک ہی اللہ کی عبادت کرنے لگیں ہم نے تو کسی پچھلے دین میں یہ بات نہیں سنی (بس یہ من گھڑت ہے) راوی کہتے ہیں کہ پھر ان کے متعلق یہ آیات نازل ہوئیں (ص وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ بَلِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ عِزَّةٍ وَّشِقَاقٍ ) 38۔ص : 1-2) (قرآن کی قسم ! جو سراسر نصیحت ہے بلکہ جو لگ منکر ہیں وہ محض تکبر اور مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ہم نے انسے پہلے کتنی قومیں ہلاک کر دیں ہیں، سو انہوں نے بڑی ہائے پکار کی اور وہ وقت خلاصی کا نہ تھا اور انہوں نے تعجب کیا کہ ان کے پاس انہی میں سے ڈرانے ولاء آیا اور منکروں نے کہا کہ یہ تو ایک بڑا جادوگر ہے، کیا اس نے کئی معبودوں کو صرف ایک معبود بنادیا۔ بے شک یہ بڑی عجیب بات ہے اور ان میں سے سردار یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ چلو اور اپنے معبودوں پر جمے رہو۔ بے شک اس میں کچھ غرض ہے۔ ہم نے یہ بات اپنے پچھلے دین میں نہیں سنی۔ یہ تو ایک بنائی ہوئی بات ہے۔) ۔ یہ حدیث حسن ہے۔ بندار، یحیی بن سعید، سفیان، اعمش، یحیی بن عمارة ۔ (جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ قرآن کی تفسیر کا بیان ۔ حدیث 1180،چشتی)
ابو داؤد شریف اور عدم ایمان ابو طالب
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَقَ عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ کَعْبٍ عَنْ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ عَمَّکَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ قَالَ اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاکَ ثُمَّ لَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّی تَأْتِيَنِي فَذَهَبْتُ فَوَارَيْتُهُ وَجِئْتُهُ فَأَمَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِي ۔
ترجمہ : مسدد، یحیی، سفیان، ابواسحاق ، ناجیہ بن کعب، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ (جب میرے والد ابوطالب کا انتقال ہوا تو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے بوڑھے اور گمراہ چچا کا انتقال ہو گیا ہے آپ نے فرمایا جا اور اپنے باپ کو دفن کر آ اور اس کے علاوہ کوئی اور کام نہ کرنا یہاں تک کہ تو میرے پاس لوٹ آئے لہذا میں گیا اور ان کو دفن کر کے آ گیا۔ پس آپ نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا پس میں نے غسل کیا اور اپنے میرے لئے دعا فرمائی ۔ (سنن ابوداؤد ۔ جلد دوم ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 1446)
مزید اور کتب حدیث میں روایات موجود ہیں جس سے ابو طالب کے ایمان نہ لانے اور کفر پر فوت ہونے کی صحیح روایات موجود ہیں ۔ وہ کتب جن ذکر آیا یہ ہیں : مسند احمد ، مشکوہ شریف ، کنزالعمال ، حاکم مستدرک ، جامع صغیر ، مسند ابوداود طیالسی ، طبقات ابن سعد ، اسد الغابہ ، معجم طبرانی ، مصنف عبدالرزاق ، مصنف ابن ابی شیبہ ، مسند اسحق راہویہ ، مسند بزار ، مدارج النبوہ ، الوفاء ابن جوزی ، کتاب الشفاء ، حلیہ الاولیاء ، تاریخ ابن عساکر ، سیرت حلبیہ وغیرہ کتب دیکھی جاسکتی ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment