Thursday, 30 January 2020

احناف کی نماز احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں مکمل پانچ حصّے یکجا

احناف کی نماز احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں مکمل پانچ حصّے یکجا

حصّہ اوّل کا لنک
احناف کی نماز احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں حصّہ اوّل

محترم قارئینِ کرام : یوں توکتب احناف میں نمازکے لاتعداد مسائل مذکور ہیں اوربحمدہٖ تعالی تمامی مسائل قرآن و حدیث سے ثابت ہیں ، معاذاللہ کوئی ایک بھی ایسامسئلہ نہیں ہے جسے فقہائے احناف علیہم الرّحمہ نے محض اپنی مرضی سے وضع کرلیا ہو ۔ لیکن بعض کم علم حضرات یہ گمان کرتے ہیں کہ احناف جس طریقہ سے نماز ادا کرتے ہیں یہ طریقہ قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ۔ اوریہ محض ان کا گمان فاسد اور فکرِ کاسد ہے ۔

واضح رہے کہ جن مسائل پر جو احادیث اس مختصر مضمون میں مذکور ہیں ، ان احادیث طیبہ کے علاوہ بھی لاتعداد احادیث احناف کی تائید میں موجود ہیں لیکن اس مختصر مضمون میں اکثرمسائل پرصرف ایک ایک حدیث ہی پیش کی گئی ، سوائے چند مسائل کے کہ ان میں ایک سے زائد احادیث مذکور ہوئیں ۔ نیزاحادیث طیبہ کی سند سے بھی بحث محض اختصارکے سبب نہیں کی گئی ۔ پس جوشخص وضاحت چاہے وہ کتبِ مطولہ کا مطالعہ کرے ۔

(1) نماز کی شرائط متقدمہ پوری کرنے کے بعد جب نمازکے لیے کھڑا ہوتوسب سے پہلے نمازکی نیت کرے ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد گرامی ہے : حدثناالحمیدی عبداللہ بن الزبیرقال حدثناسفیان قال حدثنایحیی بن سعیدالانصاری قال اخبرنی محمدبن ابراہیم التمیمی انہ سمع علقمۃبن وقاص اللیثی یقول سمعت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ علی المنرقال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول انماالاعمال بالنیات ۔
ترجمہ : اعمال کی صحت نیت پرموقوف ہے ۔ اس حدیث کوامام بخاری نے اپنی صحیح میں حدیث نمبر۱،۵۹۱۶،۹۳۴۶)،(اورامام مسلم نے اپنی صحیح میں حدیث نمبر۰۳۵۳)(اورامام ابوداودنے اپنی سنن میں حدیث نمبر۲۸۸۱)(اورترمذی نے اپنی جامع میں حدیث نمبر۱۷۵۱)(اورنسائی نے اپنی سنن میں حدیث نمبر۴۷،۴۸۳۳ ،۷۳۴۳،چشتی)(اورامام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں حدیث نمبر۷۱۲ روایت فرمایا ۔ الفاظ و سند صحیح بخاری کی ذکرکی گئی ہے)

(2) نیت کے بعد تکبیرکہہ کرنمازشروع کرے ۔ کیونکہ قرآن عظیم میں فرمایا : وربک فکبر ۔
ترجمہ : اوراپنے رب ہی کی پس بڑائی بیان کر ۔ (سورہ مدثرآیت نمبر۳) ۔۔۔ مزید تفصیل اس لنک میں دیئے گئے مکمل مضمون میں پڑھیں : https://faizahmadchishti.blogspot.com/2020/01/blog-post_27.html
حصّہ دوم کا لنک
https://faizahmadchishti.blogspot.com/2020/01/blog-post_28.html
حصّہ سوم کا لنک
https://faizahmadchishti.blogspot.com/2020/01/blog-post_74.html
حصّہ چہارم کا لنک
https://faizahmadchishti.blogspot.com/2020/01/blog-post_90.html
حصّہ پنجم کا لنک
https://faizahmadchishti.blogspot.com/2020/01/blog-post_30.html

احناف کی نماز احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں حصّہ پنجم

احناف کی نماز احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں حصّہ پنجم
(20) نہ سرکوزیادہ پست کرے اورنہ ہی بلندکرے ۔ جیسا کہ ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ : حدثنامحمدبن عبداللہ بن نمیرحدثناابوخالدیعنی الاحمرعن حسین المعلم قال ح وحدثنا اسحاق بن ابراہیم واللفظ لہ قال اخبرناعیسی بن یونس حدثناحسین المعلم عن بدیل بن میسرۃ عن ابی الجوزاء عن عائشۃقالت کان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یستفتح الصلاۃ بالتکبیر والقراء ۃبالحمدللہ رب العالمین وکان اذارکع لم یشخص رأسہ ولم یصوبہ ولکن بین ذلک وکان اذارفع رأسہ من ارکوع لم یسجدحتی یستوی قائماوکان اذارفع رأسہ من السجدۃلم یسجدحتی یستوی جالساوکان یقول فی کل رکعتین التحیۃوکان یفرش رجلہ الیسی وینصب رجلہ الیمنی ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم نمازکی ابتداء تکبیرکے ساتھ فرماتے اورقراء ت کی ابتداء الحمدللہ رب العالمین کے ساتھ کرتے ۔ اورجب رکوع فرماتے تونہ تواپنے سراقدس کواوپراٹھاکررکھتے اورنہ ہی زیادہ پست فرماتے بلکہ اس کے درمیان رکھتے ۔ اورجب اپناسراقدس رکوع سے اٹھاتے تواس وقت تک سجدہ نہ فرماتے جب تک سیدھے کھڑے نہ ہوجاتے ۔ اورجب اپنا سراقدس سجدہ سے اٹھاتے تواس وقت (دوسرا) سجدہ نہ فرماتے جب تک کہ سیدھے بیٹھ نہ جاتے ۔ اورہردورکعت میں تحیت (قعدہ برائے التحیات) فرماتے ۔ اور(بیٹھنے میں) اپنا بایاں پاؤں بچھاتے اور دایاں پاؤں کھڑا کرتے ۔ (اس حدیث کوامام مسلم نے اپنی صحیح میں حدیث نمبر۸۶۷ روایت فرمایا الفاظ وسندصحیح مسلم کے ذکرکیے گئے ہیں)

(21) کم از کم تین بار سبحان ربی العظیم کہے ۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثناعبدالملک بن مروان الاحوازی حدثناابوعامروابوداود عن ابن ابی ذئب عن اسحاق بن یزیدالھذلی عن عون بن عبداللہ عن عبداللہ بن مسعودقال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اذارکع احدکم فلیقل ثلاث مرات سبحان ربی العظیم وذلک ادناہ واذاسجدفلیقل سبحان ربی الاعلی ثلاثاوذلک ادناہ ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص رکوع کرے تو تین بار سبحان ربی العظیم کہے اور یہ کم ازکم مقدارہے ۔ اور جب سجدہ کرے تو تین بارسبحان ربی الاعلی کہے اور یہ اس کی کم ازکم مقدار ہے ۔ (اس حدیث کوامام ابوداودنے اپنی سنن میں ۲۵۷،چشتی)(امام ترمذی نے اپنی جامع میں ۲۴۲)(اورامام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں ۰۸۸ ، روایت فرمایا الفاظ وسند سنن ابی داود کے ذکرکیے گئے ہیں)

(22) سر کو اٹھاتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ کہے اور کھڑے ہوکر ربنالک الحمد کہے ۔ جیسا کہ پہلے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث بیان ہوئی ۔

(23) اگرامام کے پیچھے ہو تو امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے اور مقتدی ربنالک الحمد کہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ :حدثناعبد اللہ بن یوسف قال اخبرنامالک عن سمی عن ابی صالح عن ابی ھریرۃرضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قال ازاقال الامام سمع اللہ لمن حمدہ فقولقااللھم ربنا لک الحمدفانہ من وافق قولہ قول الملائکۃغفرلہ ماتقدم من ذنبہ ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللھم ربنالک الحمد کہو ۔ کیونکہ جس کا قول فرشتوں کے قول کے موفق ہو جائے گا اس کے گذشتہ گناہوں کی مغفرت کردی جائے گی ۔ (اس حدیث کوامام بخاری نے اپنی صحیح میں حدیث نمبر۴۵۷،۹۸۹۲)(امام مسلم نے اپنی صحیح میں حدیث نمبر۷۱۶)(امام ابوداودنے اپنی سنن میں حدیث نمبر۲۲۷)(امام ترمذی نے اپنی جامع میں حدیث نمبر۷۴۲ ، روایت فرمایا الفاظ و سند صحیح البخاری کے ذکر کیے گئے ہیں)

(24) جب تک سیدھا کھڑانہ ہو جائے سجدہ نہ کرے ۔ جیساکہ مسئلہ نمبر(20) کے ضمن میں حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی سے مروی حدیث میں بیان ہوا ۔

(25) پھرسجدہ کرے ۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد گرامی ہے : یایھاالذین آمنواارکعواواسجدوا ۔
ترجمہ : اے ایمان والو ! رکوع اور سجدہ کرو ۔ (سورۃالحج آیت نمبر۷۷)

(26) تکبیرکہتا ہوا سجدہ میں جائے ۔ جیسا کہ مسئلہ نمبر(17) کے ضمن میں حضرت ابوہریوہ رضی اللہ تعالی عنہ والی حدیث میں بیان ہوا ۔

(27) سجدہ میں جاتے وقت پہلے اپنے گھٹنے زمین پررکھے ، پھراپنے دونوں ہاتھوں کوزمین پر رکھے ۔ جیسا کہ حضرت وائل بن حجررضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثناسلمۃبن شبیب واحمدبن ابراہیم الدورقی والحسن بن علی الحلوانی وعبداللہ بن منیروغیرواحدقالواحدثنایزیدبن ھرون اخبرناشریک عن عاصم بن کلیب عن ابیہ عن وائل بن حجرقال رأیت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ازاسجدیضع رکبتیہ قبل یدیہ واذانھض رفع یدیہ قبل رکبتیہ ۔
ترجمہ : میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا ، جب سجدہ فرماتے تو اپنے دونوں گھٹنوں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پہلے رکھتے اور جب کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے ۔ (اس حدیث کوامام ترمذی نے اپنی جامع میں حدیث نمبر۸۴۲ ، روایت فرمایا الفاظ و سند جامع الترمذی کے ذکر کیے گئے ہیں،چشتی)

(27) سات ہڈیوں پرسجدہ کرے : (1 ، 2) دونوں پاؤں ، (3 ، 4) دونوں گھٹنے ، (5 ، 6) دونوں ہاتھ (7) ناک اور پیشانی کی ہڈی ۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ : حدثنامعلی بن اسدقال حدثناوھیب عن عبداللہ بن طاووس عن ابیہ عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھماقال قال النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم امرت ان اسجدعلی سبعۃاعظم علی الجبھۃواشاربیدہ علی انفہ والیدین والرکبتین واطراف القدمین ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات ہڈیوں پر سجدہ کروں ، پیشانی پر اور اپنے ناک کی طرف اشارہ فرمایا (یعنی پیشانی اور ناک کی ہڈی کو ایک ہی شمار فرمایا) اور دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے کنارے ۔ (اس حدیث کوامام بخاری نے اپنی صحیح میں حدیث نمبر۸۶۷،۰۷۷،۳۷۷)(امام مسلم نے اپنی صحیح میں حدیث نمبر۵۵۷،۶۵۷،۸۵۷)(امام ترمذی نے اپنی جامع میں حدیث نمبر۳۵۲)(امام نسائی نے اپنی سنن میں حدیث نمبر۵۸۰۱،۳۰۱۱،چشتی)(امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں حدیث نمبر۳۷۸ ، روایت فرمایا الفاظ و سند صحیح بخاری کے ذکر کیے گئے ہیں)

(29) چہرہ دونوں ہاتھوں کے درمیان رکھے اورہاتھوں کو کانوں کے مقابل رکھے ۔ جیسا کہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : حدثناابوبکرۃقال حدثنامؤمل قال حدثناسفیان الثوری عن عاصم بن کلیب الجرمی عن ابیہ عن وائل بن حجرقال کان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اذاسجدکانت یداہ حیال اذنیہ ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم جب سجدہ فرماتے آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کے مبارک ہاتھ آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کے کانوں کے مقابل ہوتے ۔ (اس حدیث کوامام طحاوی نے شرح معانی الآثار میں جلد۱ ص۲۴۴ روایت کیا الفاظ و سند شرح معانی الآثار کے ذکرکیے گئے ہیں)

(30) اپنے پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ کی جانب متوجہ کرے ۔ جیسا کہ حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثنایحیی بن بکیرقال حدثنااللیث عن خالدعن سعیدعن محمدبن عمروبن حلحلۃ عن محمدبن عمروبن عطاء وحدثنااللیث عن یزیدبن ابی حبیب ویزیدبن محمدعن محمد بن عمروبن حلحلۃعن محمدبن عمروبن عطاء انہ کان جالسامع نفرمن اصحاب النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فذکرناصلاۃالنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فقال ابوحمیدالساعدی اناکنت احفظکم لصلاۃرسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم رأیتہ…………فاذاسجد…………استقبل باطراف اصابع رجلیہ القبلۃ ۔
ترجمہ : میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا…………جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم نے سجدہ فرمایا…………تواپنے پاؤں کی انگلیوں کے کناروں کوقبلہ کی جانب موڑا ۔ (اس حدیث کوامام بخاری نے اپنی صحیح میں حدیث نمبر۵۸۷ ، روایت فرمایا الفاظ و سند صحیح البخاری کے ذکر کیے گئے ہیں)

(31) کم از کم تین بار سبحان ربی الاعلی کہے ۔ جیسا کہ مسئلہ نمبر(21) کے ضمن میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں بیان ہوا ۔

(32) تکبیر کہتا ہوا سجدہ سے اٹھے ۔ جیسا کہ مسئلہ نمبر(17) کے ضمن میں حضرت ابوہریوہ رضی اللہ تعالی عنہ والی حدیث میں بیان ہوا ۔

(33) بیٹھنے میں اپنا بایاں پاؤں بچھائے اور دائیں پاؤں کو کھڑا کرے ۔ جیسا کہ مسئلہ نمبر (20) کے ضمن میں حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی سے مروی حدیث میں بیان ہو ا۔

(34) جب تک سیدھا بیٹھ نہ جائے دوبارہ سجدہ نہ کرے ۔ جیسا کہ مسئلہ نمبر (20) کے ضمن میں حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی سے مروی حدیث میں بیان ہوا ۔

(35) پہلی اور تیسری رکعت میں دوسرے سجدہ سے جب اٹھے تو بیٹھے بغیر ، سیدھا کھڑا ہوجائے ۔ جیسا کہ متعدد احادیث و آثار میں وارد ہوا ہے لیکن یہاں پر بنظر اختصار صرف ایک اثر بیان کیا جاتا ہے جو حضرت نعمان بن ابی عیاش رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : حدثناابوخالدالاحمرعن محمدبن عجلان عن النعمان بن ابی عیاش قال ادرکت غیر واحدمن اصحاب النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فکان اذارفع رأسہ من السجدۃفی اول رکعۃ والثالثۃقام کماھوولم یجلس ۔
ترجمہ : میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کے کئی ایک صحابہ رضی اللہ عنہم کو پایا ، پس جب وہ پہلی اور تیسری رکعت میں سجدہ سے سر اٹھاتے ، فوراً کھڑے ہو جاتے اور نہ بیٹھتے ۔ (اس حدیث کو امام ابن ابی شیبۃ نے اپنی مصنف میں جلد۱ص۱۳۴ ، روایت فرمایا الفاظ اور سند مصنف ابن ابی شیبۃ کے ذکر کیے گئے ہیں،چشتی)

(36) اٹھتے ہوئے پہلے اپنے ہاتھوں کو اٹھائے پھر گھٹنوں کو اٹھائے ۔ جیسا کہ مسئلہ نمبر (27) کے ضمن میں حضرت وائل بن حجررضی اللہ تعالی عنہ والی حدیث میں مذکور ہوا ۔

(37) ہر دو رکعت میں قعدہ کرے ۔ جیساکہ مسئلہ نمبر (20) کے ضمن میں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا والی حدیث میں مذکور ہوا ۔

(38) بیٹھنے میں اپنے بائیں پاؤں کو بچھائے اور دایاں پاؤں کھڑا کرے ۔ جیسا کہ مسئلہ نمبر (20) کے ضمن میں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا والی حدیث میں مذکور ہوا ۔

(39) دایاں ہاتھ دائیں ران پر اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھے ۔ جیسا کہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : حدثناابوکریب حدثناعبداللہ بن ادریس حدثناعاصم بن کلیب الجرمی عن ابیہ عن ابن حجرقال قدمت المدینۃقلت لانظرن الی صلاۃرسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فلماجلس یعنی للتشھدافترش رجلہ الیسری ووضع یدہ الیسری یعنی علی فخذہ الیسری ونصب رجلہ الیمنی ۔
ترجمہ : میں مدینہ طیبہ حاضر ہوا تو میں نے کہا کہ میں حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کی نماز ضرور دیکھوں گا ۔ پس جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم بیٹھے یعنی تشھد کے لیے تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم نے اپنا بایاں پاؤں بچھایا اور اپنا بایا ہاتھ رکھا یعنی اپنی بائیں ران پر ۔ اور اپنا دایاں پاؤں کھڑا کیا ۔ (اس حدیث کوامام ترمذی نے اپنی جامع میں حدیث نمبر۹۶۲ ، روایت فرمایا اور اسے حسن صحیح کہا الفاظ اور سند جامع ترمذی کے ذکر کیے گئے ہیں)

(40) مندرجہ ذیل التحیات پڑھے : التحیات للہ والصلوات والطیبات السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃاللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباداللہ الصلحین اشھدان لاالہ الااللہ واشھدان محمداعبدہ ورسولہ ۔
جیساکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے فرمایا : حدثناابونعیم حدثناسیف قال سمعت مجاھدایقول حدثنی عبداللہ بن سخبرۃابومعمرقال سمعت ابن مسعودیقول علمنی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وکفی بین کفیہ التشھدکمایعلمنی السورۃمن القرآن التحیات للہ والصلوات والطیبات السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃاللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباداللہ الصلحین اشھدان لاالہ الااللہ واشھدان محمداعبدہ ورسولہ ۔
ترجمہ : مجھے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم نے اس حالت میں ، کہ میری ہتھیلی آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھی ، اس طرح تشھد سکھایا ، جس طرح مجھے قرآن کی سورت سکھاتے : التحیات للہ والصلوات والطیبات السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃاللہ وبرکاتہ السلام علیناوعلی عباداللہ الصلحین اشھدان لاالہ الااللہ واشھدان محمداعبدہ ورسولہ ۔ (اس حدیث کوامام بخاری نے اپنی صحیح میں (حدیث نمبر۸۸۷،۱۹۷،۷۲۱۱،۲۶۷۵،۴۹۷۵)امام مسلم نے اپنی صحیح میں (حدیث نمبر۹۰۶)امام ابوداودنے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۵۲۸)امام ترمذی نے اپنی جامع میں (حدیث نمبر۶۶۲،۳۲۰۱)امام نسائی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۰۵۱۱)امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر ۹۸۸)امام احمدبن حنبل نے اپنی مسند میں (حدیث نمبر۱۸۳۳،۹۳۴۳،چشتی)امام ابن ابی شیبۃنے اپنی مصنف میں (جلد۱ص۵۲۳)امام بیہقی نے السنن الکبری میں (جلد۲ص۸۳۱) امام عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں (جلد۲ص۹۹۱)امام طبرانی نے معجم کبیرمیں (جلد۸ص۵۵۳) اوردیگرکثیرمحدثین نے روایت فرمایا۔(الفاظ اورسندصحیح البخاری کے ذکرکیے گئے ہیں)

(41) پہلے تشھد میں التحیات سے زیادہ کچھ نہ پڑھے ۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک طویل حدیث کے ضمن میں مروی ہے کہ : حدثنایعقوب قال حدثنی ابی عن ابن اسحاق قال حدثنی عن تشھدرسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فی وسط الصلاۃوفی آخرھاعبدالرحمن بن الاسودبن یزیدالنخعی عن ابیہ عن عبداللہ بن مسعودقال…………ثم ان کان فی وسط الصلاۃ نھض حین یفرغ من تشھدہ وان کان فی آخرھادعابعدتشھدہ ماشاء اللہ ان یدعوثم یسلم ۔
ترجمہ : پھراگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم نماز کے درمیان میں ہوتے تو تشھد سے فارغ ہوتے ہی کھڑے ہو جاتے ۔ اور اگر نماز کے آخر میں ہوتے تو تشھد کے بعد جو اللہ چاہتا دعا فرماتے پھرسلام پھیر دیتے ۔ (اس حدیث کوامام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں حدیث نمبر۱۵۱۴ روایت فرمایا الفاظ اورسندمسنداحمدکے ذکرکیے گئے ہیں۔)

(42) فرائض کی آخری دونوں رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑھے ۔ جیسا کہ جناب ابوقتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثناموسی بن اسماعیل قال حدثناھمام عن یحیی عن عبداللہ بن ابی قتادۃعن ابیہ ان النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کان ئقرء فی الظھرفی الاولیین بام الکتاب وسورتین وفی الرکعتین الاخریین بام الکتاب۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم ظھرکی پہلی دونوں رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دوسورتیں پڑھتے ۔ اورآخری دونوں رکعتوں میں فاتحہ کی تلاوت فرماتے ۔ (اس حدیث کوامام بخاری نے اپنی صحیح میں (حدیث نمبر۴۳۷)اورامام مسلم نے اپنی صحیح میں (حدیث نمبر۶۸۶،چشتی)روایت فرمایا۔(الفاظ وسندصحیح البخاری کے ذکرکیے گئے ہیں)

(43) آخری تشھد میں التحیات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کی ذات عالیہ پر ہدیہ درود بھیجے ۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثناالشیخ ابوبکربن اسحاق انبأمحمدبن ابراہیم بن ملحان حدثنایحیی بن بکیر حدثنا اللیث عن خالدبن یزیدعن سعیدبن ابی ھلال عن یحیی بن السباق عن رجل من بی الحارث عن ابن مسعودعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم انہ قال اذاتشھداحدکم فی الصلاۃ فلیقل اللھم صل علی محمدوعلی آل محمدوبارک علی محمدوعلی آل محمدوارحم محمدا وآل محمدکماصلیت وبارکت وترحمت علی ابراہیم انک حمیدمجید ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص نمازمیں تشھد کرے تو اسے چاہیئے کہ کہے : اللھم صل علی محمدوعلی آل محمدوبارک علی محمدوعلی آل محمدوارحم محمداوآل محمدکماصلیت وبارکت وترحمت علی ابراہیم انک حمیدمجید ۔ (اس حدیث کوامام بیہقی نے السنن الکبری میں (جلد۲ص۷۹۳)امام حاکم نے المستدرک میں (حدیث نمبر۲۴۹)روایت فرمایا۔(الفاظ وسندمستدرک للحاکم کے مذکور ہیں)

(44) سلام سے پہلے دعا کرے ۔ جیسا کہ مسئلہ نمبر(41) کے ضمن میں مذکور حدیث میں بیان ہوا ۔

(45) دائیں طرف اور بائیں طرف سلام پھیرے ۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثنامحمدبن کثیراخبرناسفیان وحدثنااحمدبن یونس حدثنازائدۃح وحدثنامسدد حدثنا ابوالاحوص ح وحدثنامحمدبن عبیدالمحاربی وزیادبن ایوب قالاحدثناعمربن عبیدالطنافسی ح وحدثناتمیم بن المنتصراخبرنااسحاق یعنی ابن یوسف عن شریک ح وحدثنااحمدبن منیع حدثنا حسین بن محمدحدثنا اسرائیل کلھم عن ابی اسحاق عن ابی الاحوص والاسود عن عبداللہ ان النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کان یسلم عن یمینہ وعن شمالہ حتی یری بیاض خدہ السلام علیکم ورحمۃاللہ السلام علیکم ورحمۃاللہ ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم اپنی دائیں طرف اور اپنی بائیں طرف سلام کرتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کے رخسارہ کی سفیدی نظرآتی ۔ (اور ان کلمات سے سلام فرماتے) السلام علیکم و رحمۃ اللہ ، السلام علیکم و رحمۃ اللہ ۔ (اس حدیث کوامام ابوداودنے اپنی سنن میں حدیث نمبر۵۴۸) (امام ترمذی نے اپنی جامع میں حدیث نمبر۲۷۲)(امام نسائی نے اپنی سنن میں حدیث نمبر۵۰۳۱)(امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں حدیث نمبر۴۰۹)(امام احمدبن حنبل نے اپنی مسند میں حدیث نمبر۶۱۵۳ ، روایت فرمایا الفاظ و سند سنن ابی داود کے ذکرکیے گئے ہیں)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

درسِ قرآن موضوع آیت : کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ۔ حصّہ دوم

درسِ قرآن موضوع آیت : کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ۔ حصّہ دوم
محترم قارئینِ کرام : اس آیتِ مبارکہ کے متعلق حصّہ اوّل آپ نے پڑھا اب آیئے حصّہ دوم پڑھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سو جو شخص دوزخ سے دور کیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہی کامیاب ہے اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے ۔ (سورہ آل عمران : ١٨٥)

اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کا اس کے سوال اور کوئی مقصود نہیں ہونا چاہیے کہ اس کو دوزخ کے عذاب سے نجات مل جائے اور وہ جنت میں پہنچ جائے اور جو شخص دنیا کی رنگینیوں میں ڈوب کر اللہ تعالیٰ کے احکام سے غافل ہو جائے اس کیلیے یہ دنیا دھوکے کا سامان ہے اور جس نے اللہ کے احکام کی اطاعت اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی سیرت پر عمل کرنے کے لیے دنیا سے تعلق رکھا اس کے لیے دنیا اچھی متاع ہے ‘ اس آیت کے دو جز ہیں ‘ ایک جہنم سے دوری اور جنت کا وصال اس کو کامیابی فرمایا ہے اور دنیا کی بےثباتی ہے پہلے جز کے متعلق حسب ذیل احادیث ہیں :

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا جنت میں ایک کوڑے جتنی جگہ دنیا اور مافیہا سے بہتر ہے اور اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو سو جو شخص دوزخ سے دور کیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہی کامیاب ہے ۔ (سورہ آل عمران : ١٨٥)

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّم نے فرمایا اللہ کی راہ میں صبح یا شام کرنا دنیا اور مافیہا سے بہتر ہے اور جنت میں تم میں سے کسی ایک کے کوڑے جتنی جگہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہے ۔ (کتاب الزھد ص ٢٩۔ ٢٧ مطبوعہ دارالباز مکہ مکرمہ ١٤١٤ ھ،چشتی)

امام احمد بن شعیب نسائی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٣٠٣ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک مرتبہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے ساتھ نماز پڑھی آپ جب عذاب کی آیت پڑھتے تو ٹھہر کر اس سے پناہ مانگتے اور جب بھی رحمت کی آیت پڑھتے تو ٹھیر کر اس کی دعا کرتے۔ (سنن نسائی ج ١ ص ١٥٦ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)
امام ابودؤاد سجستانی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٧٥ ھ نے اس حدیث کو حضرت عون بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٤١ ھ نے اس حدیث کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔ (سنن ابوداؤد ج ١ ص ٢٢٩‘ رقم الحدیث ٨٧٣‘ مطبوعہ دارلجیل بیروت ‘ مسند احمد ج ٦ ص ١١٩‘ مطبوعہ بیروت)

امام ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ حاکم نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٤٠٥ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی یہ دعا ہوتی تھی : اے اللہ ! ہم تجھ سے تیری رحمت کے موجبات اور مغفرت کے موکدات کا سوال کرتے ہیں اور ہر گناہ سے محفوظ رہنے کا اور ہر نیکی کے حصول کا اور جنت کی کامیابی کا ‘ اور تیری مدد سے دوزخ سے نجات کا ‘ یہ حدیث امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔ (علامہ ذہبی نے بھی اس کو مقرر رکھا ہے) ۔ (المستدرک ج ١ ص ٥٢٥‘ مبطوعہ دارالباز مکہ مکرمہ،چشتی)

امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٧٥ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا وجہ اللہ کے وسیلہ سے صرف جنت کا سوال کیا جائے (سنن ابو داؤد ج ٢ ص ١٣١‘ رقم الحدیث ١٦٧١‘ مطبوعہ دارالجیل بیروت ‘ ١٤١٢ ھ)
امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ یہ دعا کرتے تھے : اے اللہ میں سستی ‘ بڑھاپے ‘ قرض اور گناہ سے تیری پناہ میں آتا ہوں ‘ اے اللہ ! میں دوزخ کے عذاب ‘ دوزخ کے فتنہ ‘ قبر کے فتنہ ‘ قبر کے عذاب ‘ مال کے شر کے فتنہ ‘ فقر کے شر کے فتنہ اور مسیح دجال کے شر کے فتنہ سے تیری پناہ میں میں آتا ہوں ‘ اے اللہ میری (بہ ظاہر) خطاؤں کو برف اور اولوں کے پانی سے دھودے ‘ اے اللہ ! میری (بظاہر) خطاؤں سے میرے دل کو اس طرح صاف کر دے جس طرح سفید کپڑے کو میل سے صفا کردیا جاتا ہے ‘ اے اللہ ! میرے اور میری خطاؤں کے درمیان اس طرح دوری کر دے جس طرح تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان دوری کی ہے۔ (صحیح البخاری ج ٧ ص ٣٠٧‘ ٦٣٧٥‘ مطبوعہ دارالباز مکہ مکرمہ،چشتی)(صحیح مسلم ج ٤ ص ٢٠٧٨‘ رقم الحدیث ٢٧٠٥‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)(الجامع الصحیح ج ٥ ص ٥٢٥‘ رقم الحدیث ٣٤٩٥‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)(سنن نسائی ج ٢ ص ٣١٥‘ مطبوعہ نور محمد کراچی)(مسنداحمد ج ٦ ص ٣٠٧‘ ٥٧‘ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)
امام محمد بن یزید ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٧٣ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ہمیں اس دعا کی قرآن کی سورت کی طرح تعلیم دیتے تھے : اے اللہ ! میں عذاب جہنم سے تیری پناہ میں آتا ہوں ‘ اے اللہ ! میں عذاب قبر سے تیری پناہ میں آتا ہوں ‘ اے اللہ ! میں مسیح دجال کے فتنہ سے تیری پناہ میں آتا ہوں ‘ اے اللہ ! میں زندگی اور موت کے فتنہ سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ (سنن ابن ماجہ ج ٢ ص ١٢٦٢‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)

علامہ شہاب الدین احمد بن ابوبکر بوصیری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٨٤٠ ھ نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی اصل صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں ہے اور اس کی سند حسن ہے ۔ (زوائد ابن ماجہ ص ٤٩٣‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤١٤ ھ)

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا جس نے اللہ تعالیٰ سے تین بار جنت کا سوال کیا جنت کہتی ہے اے اللہ ! اس کو جنت میں داخل کر دے اور جس نے تین بار جہنم سے پناہ طلب کی جہنم کہتی ہے اے اللہ اس کو جہنم سے پناہ میں رکھ ۔ (الجامع الصحیح ج ٤ ص ٧٠٠‘ رقم الحدیث ٢٥٧٢‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)(سنن ابن ماجہ ج ٢ ص ١٤٥٢‘ رقم الحدیث ٤٣٤٠‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت،چشتی)(المستدرک ج ١ ص ٥٣٥‘ مطبوعہ دارالباز مکہ مکرمہ)
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب تم اللہ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو (الجامع الصحیح ج ٤ ص ٦٧٥‘ رقم الحدیث ٢٥٣٠‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت سنن کبری للبیہقی ج ٩ ص ١٥٢ ‘۔ ١٥‘ مطبوعہ نشر السنہ ملتان ‘ مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٧١‘ مطبوعہ بیروت ‘ تاریخ کبیر للبخاری ج ٤ ص ١٤٦‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٣١٨٣)

امام ابو یعلی احمد بن علی موصلی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٣٠٧ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے پاس ایک اعرابی آیا آپ نے اس کو عزت بخشی ‘ وہ آپ کے بلانے پر آیا تھا ‘ آپ نے اس سے فرمایا تم اپنی حاجت کا سوال کرو ‘ اس نے کہا ہمیں ایک اونٹنی دیجئے تاکہ ہم اس پر سوار ہوں اور ہمارے گھروالے اس کا دودھ دو ہیں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کیا تم بنواسرائیل کی بڑھیا کی مثل ہونے سے بھی عاجز ہو ‘ صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ ! بنو اسرائیل کی بڑھیا کیسی تھی ؟ آپ نے فرمایا جب حضرت موسیٰ بنواسرائیل کو لے کر مصر سے روانہ ہوئے تو راستہ بھول گئے حضرت موسیٰ نے فرمایا اس کا کیا سبب ہے ؟ تو علماء بنواسرائیل نے کہا جب حضرت یوسف علیہ السلام کی موت کا وقت آیا تو انہوں نے ہم سے یہ عہد لیا تھا کہ ہم اس وقت تک مصر سے نہ نکلیں جب تک کہ ان کی نعش کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پوچھا ان کی قبر کا کس کو علم ہے ؟ تو انہوں نے کہا بنو اسرائیل کی ایک بڑھیا کو اس کا علم ہے ‘ اس کو بلایا گیا وہ آئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ہماری حضرت یوسف علیہ السلام کی قبر کی طرف رہنمائی کرو ‘ اس بڑھیا نے کہا جب تک تم میری ایک بات نہیں مانو گے میں نہیں بتاؤں گی ‘ پوچھا تمہاری بات کیا ہے ؟ اس نے کہا میں جنت میں تمہارے ساتھ رہوں ‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کو یہ مرتبہ دینا مکروہ جانا ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ اس کو یہ مرتبہ دے دیں ‘ تب وہ ان کو ایک ایسی جگہ لے گئے جو سمندر کے پانی میں ڈوبی ہوئی تھی ‘ اس بڑھیا نے کہا اس جگہ کو پانی سے خالی کرو ‘ سو اس جگہ کو خالی کیا گیا ‘ بڑھیا نے کہا اس جگہ کھدائی کرو ‘ پھر انہوں نے وہاں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی نعش کو نکالا ‘ جب انہوں نے ان کی نعش کو اوپر اٹھایا تو ان پر گم شدہ راستہ روز روشن کی طرح واضح ہوگیا۔ (اس حدیث میں یہ دلیل بھی ہے کہ اللہ کے رسول جنت عطا کرتے ہیں اور ان سے جنت کا سوال کرنا جائز ہے)
مسندابو یعلی ج ٦ ص ٣٩٢، ٣٩١‘ رقم الحدیث ٧٢١٨‘ مطبوعہ مؤسسہ علوم القرآن بیروت ‘ حافظ الہیثمی نے لکھا ہے کہ امام ابو یعلی کی اس حدیث کی سند صحیح ہے ‘ مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٧١‘ ناصر البانی نے بھی یہی لکھا ہے ‘ سلسلۃ الصحیحہ رقم : ٥٣١٢ حاکم نیشا پوری نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند امام بخاری اور امام مسلم کی شرط کے مطابق ہے اور حافظ ذہبی نے اس کی تائید کی ہے ‘ المستدرک ج ٢ ص ٥٧٢‘ ٥٧١‘ ٤٠٥‘ ٤٠٤‘ امام ابن حبان نے بھی اس کو روایت کیا ہے الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ج ٢ ص ٧١‘ موارد الظمان ص ٦٠٣‘ حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی اس کو درج کیا ہے ‘ المطالب العالیہ ج ٣ ص ٢٧٤‘ امام طبرانی نے بھی اس کو روایت کیا ہے المعجم الاوسط ج ٨ ص ٢٦٩۔ ٢٦٨‘ مطبوعہ مکتبہ المعارف ریاض،چشتی)

حافظ نور الدین علی بن ابی بکر الہیثمی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٨٠٧ ھ بیان کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جس بندہ نے سات بار جہنم سے پناہ مانگی جہنم دعا کرتی ہے کہ اے اللہ اس کو مجھ سے پناہ میں رکھ اور جس شخص نے سات بار جنت کا سوال کیا ‘ جنت دعا کرتی ہے کہ اے اللہ ! اس کو مجھ میں سکونت عطا فرما ‘ اس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں یونس بن خباب ایک ضعیف راوی ہے ۔ (مجمع الزوائد ج ١٠ ص ٧١‘ مطبوعہ دارالکتاب العرابی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)
ہر چند کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے لیکن فضائل اعمال میں حدیث ضعیف بالاجماع معتبر ہوتی ہے اور اس کی تائید میں ہم احادیث صحیحہ نقل کرچکے ہیں نیز قرآن مجید میں تصریح ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قیامت کے عذاب سے پناہ کی دعا کی اور جنت کے حصول کی دعا کی : ” ولا تخزنی یوم یبعثون “ (الشعراء : ٨٧)
ترجمہ : اور حشر کے دن مجھے شرمندہ نہ کرنا ۔
” واجعلنی من روثۃ جنۃ النعیم “۔ (الشعراء : ٨٥)
ترجمہ : اور مجھے نعمت والی جنت کے وارثوں میں شامل کردے ۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو جنت نہیں مدینہ چاہیے اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں مدینہ کے محبوب ہونے سے انکار نہیں لیکن مدینہ اس لیے محبوب ہے کہ وہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کا مسکن ہے لیکن جس جگہ آپ کا جسد اطہر رکھا ہوا ہے وہ جنت ہے آپ نے فرمایا میرے منبر اور بیت کے درمیان جو جگہ ہے وہ جنت کی کیا ریوں میں سے ایک کیا ری ہے ۔ (صحیح مسلم ج ٢ ص ١٠١٠ مطبوعہ بیروت ‘ سنن کبری للبیہقی ج ٥ ص ٢٤٦‘ کشف الاستار عن زوائد البزار ج ٢ ص ٥٦)
خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اب بھی جنت میں ہیں اور آخرت میں بھی جنت میں ہوں گے تو اول آخر جنت ہی مطلوب ہے ۔ البتہ یہ واضح رہے کہ جس جگہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کا جسد اطہر ہے وہ جگہ کعبہ ‘ جنت حتی کہ عرش سے بھی افضل ہے ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا میرے منبر اور بیت کے درمیان جو جگہ ہے وہ جنت کی کیا ریوں میں سے ایک کیا ری ہے ۔ (صحیح مسلم ج ٢ ص ١٠١٠ مطبوعہ بیروت ‘ سنن کبری للبیہقی ج ٥ ص ٢٤٦‘ کشف الاستار عن زوائد البزار ج ٢ ص ٥٦،چشتی)

محترم قارئینِ کرام : اس عنوان پر کافی طویل بحث اس لیئے کی ہے کیونکہ آج کل بعض جعلی صوفی اور بناوٹی درویش جنت کی بہت تحقیر کرتے ہیں اور جنت طلب کرنے سے اپنا مقام بہت بلند سمجھتے ہیں ‘ الہ العلمین ! جنت تو بہت اعلی اور ارفع مقام ہے ہم جنت کے کب لائق ہیں اگر تو نے ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا لیا تو تیرا یہ بھی ہم پر بہت بڑا کرم ہوگا ‘ اے ارحم الراحمین ‘ ہم تیری اور تیرے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی اطاعت میں جنت کی طلب کرتے ہیں اور ہم خوب جانتے ہیں کہ ہم جنت کے اہل نہیں ہیں :

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے ۔ (سورہ آل عمران : ١٨٥)
دنیا کی رنگینیوں اور دل فریبیوں سے بےرغبتی پیدا کرنے کے متعلق آیات : ” انما الحیوۃ الدنیا لعب ولھو وزینۃ و تفاخر بینکم وتکاثر فی الاموال والاوالاد کمثل غیث اعجب الکفار نباتہ ثم یھیج فتراہ مصفرا ثم یکون حطا ماوفی الاخرۃ عذاب شدید و مغفرۃ من اللہ ورضوان وما الحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور ۔ (سورہ الحدید : ٢٠ )
ترجمہ : یقین کرو کہ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا ہے ‘ اور عارضی زینت اور ایک دوسرے پر فخر و برتری ہے اور مال اور اولاد میں زیادتی طلب کرنا ہے ‘ اس کی مثال اس بارش کی طرح ہے جس سے پیدوار کسانوں کو اچھی لگتی ہے پھر وہ (پیداوار) خشک ہوجاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے اور آخرت میں (نافرمانوں کے لیے) سخت عذاب ہے اور (فرمانبرداروں کے لیے) اللہ کی مغفرت ہے ‘ اور (اس کی) خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے ۔
زین للناس حب الشھوات من النسآء والبنین والقناطیر المقنطرۃ من الذھب والفضۃ والخیل المسومۃ والانعام والحرث ذالک متاع الحیوۃ الدنیا واللہ عندہ حسن الماب ۔ (سورہ آل عمران : ١٤)
ترجمہ : لوگوں کے لئے عورتوں سے خواہشات کی اور بیٹوں کی اور سونے اور چاندی کے خزانوں کی اور نشان زدہ گھوڑوں کی اور مویشیوں اور کھیتی باڑی کی محبت خوش نما بنادی گئی ہے یہ دنیا کی زندگی کا (عارضی) سامان ہے اور اللہ ہی کے پاس اچھا ٹھکانا ہے ۔
من کان یرید الحیوۃ الدنیا وزینتھا نوف الیھم اعمالھم فیھا وھم فیھا لایبخسون۔ اولئک الذین لیس فی الاخرۃ الا النار وحبط ما صنعوا فیھا وبطل ماکانوا یعملون ۔ (سورہ ھود : ١٦۔ ١٥)
ترجمہ : جو لوگ (صرف) دنیا اور اس کی زینت کے طالب ہیں ہم انہیں دنیا میں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیں گے اور اس میں ان سے کمی نہیں کی جائے گی ‘ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں دوزخ کے سوا کچھ نہیں ‘ اور دنیا میں انہوں نے جو کام کیے وہ ضائع ہوگئے اور انہوں نے جو عمل کیے وہ رائیگاں چلے گئے۔
دنیا کی رنگینیوں اور دل فریبیوں سے بےرغبتی پیدا کرنے کے متعلق احادیث :
امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے میرا کندھا پکڑ کر فرمایا تم دنیا میں اس طرح رہو جیسے مسافر ہو یا سڑک پار کرنے والے اور حضرت ابن عمریہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کہتے ہیں تھے کہ جب شام ہو تو تم صبح کا انتظار نہ کرو ‘ اور جب صبح ہو تو تم شام کا انتظار نہ کرو (یعنی مسلسل نیک عمل کرتے رہو) اور اپنی صحت کے ایام میں بیمار کے لیے عمل کرلو ‘ اور زندگی میں موت کے لیے عمل کرلو ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث ٦٤١٦)
حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا دنیا سفر کرتی ہوئی جارہی ہے اور آخرت سفر کرتی ہوئی آرہی ہے اور ان میں سے ہر ایک کے بیٹے ہیں تو تم ابن الآخرت بنو الدنیا نہ بنو ‘ کیونکہ آج عمل کا موقع ہے اور حساب نہیں ہے اور کل حساب ہوگا اور عمل کا موقع نہیں ہوگا ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث ٦٤١٦،چشتی)
عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ تشریف لائے اور شہداء احد پر نماز جنازہ پڑھی پھر آپ منبر کی طرف گئے اور فرمایا میں تمہارا پیش رو ہوں ‘ اور میں تمہارے حق میں گواہی دوں گا ‘ اور خدا کی قسم ! بیشک میں اب بھی ضرور اپنے حوض کی طرف دیکھ رہا ہوں ‘ اور بیشک مجھے روئے زمین کے تمام خزانوں کی چابیاں دے دی گئی ہیں اور خدا کی قسم بیشک مجھے تمہارے متعلق ہرگز یہ خدشہ نہیں ہے کہ تم سب میرے بعد مشرک ہوجاؤ گے ‘ لیکن مجھے تمہارے متعلق یہ خدشہ ہے کہ تم دنیا میں رغبت کرو گے ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٦٤٢٦)
حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا اگر ابن آدم کے لیے مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کو تلاش کرے گا ‘ اور ابن آدم کے پیٹ کو مٹی کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی ‘ اور توبہ کرنے والے کی توبہ کو اللہ قبول فرماتا ہے۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٦٤٣٦)
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا تم میں سے کون اپنے اس مال کا وارث ہے جو اس کو اپنے مال میں بہت پسند ہو ‘ صحابہ نے کہا ہم میں سے ہر شخص اپنے مال کو بہت پسند کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا اس کا مال تو وہ ہے جو اس نے پہلے بھیج دیا اور جو اس نے بچا کر رکھا ہے وہ اس کے وارث کا مال ہے ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٦٤٤٢)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : سامان کی کثرت غنی نہیں ہے غنی نفس کا استغناء ہے ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٦٤٤٦)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے خوان پر نہیں کھایا حتی کہ آپ کا وصال ہوگیا اور آپ نے پتلی چپاتی نہیں کھائی حتی کہ آپ فوت ہوگئے ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٦٤٥٠)
حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا بیان کرتی ہیں کہ سیدنا محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی آل نے جس دن بھی دو قسم کے طعام کھائے تو ان میں ایک قسم کھجور تھی ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٦٤٥٥)
حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا بیان کرتی ہیں کہ سیدنا محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کا بستر ایک چمڑا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٦٤٥٦)
حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا بیان کرتی ہیں کہ ہم پر ایسا مہینہ آتا تھا کہ پورے مہینہ آگ نہیں جلتی تھی ‘ ہم صرف کھجور کھاتے تھے اور پانی پیتے تھے الا یہ کہ کبھی گوشت آجاتا ۔
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے دعا کی اے اللہ ! آل محمد کو اتنا رزق دے جس سے رشتہ حیات برقرار رہ سکے ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٦٤٦٠)،(صحیح البخاری ج ٧ ص ٢٣٢۔ ٢١٨‘ ملتقطا “ مطبوعہ دارالباز مکہ مکرمہ،چشتی)

امام مسلم بن حجاج قشیری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا بیان کرتی ہیں کہ سیدنا محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ مدینہ آئے آپ کی آل نے تین دن مسلسل گندم نہیں کھایا حتی کہ آپ رفیق اعلی سے جا ملے ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٤٧٠)
حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا بیان کرتی ہیں کہ سیدنا محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کبھی ایک دن میں دو مرتبہ روٹی اور زیتوں کا تیل پیٹ بھر کر نہیں کھایا ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٤٧٤)
حضرت عتبہ بن غزوان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے ساتھ ساتواں شخص تھا اور ہمارا طعام درخت کے پتوں کے سوا اور کوئی چیز نہیں تھی ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٤٦٧)
حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ایک بازار سے گزرے تو لوگوں نے آپ کو گھیر لیا ‘ آپ چھوٹے کانوں والے ایک مردہ بکری کے بچے کے پاس سے گزرے آپ نے اس کا کان پکڑ کر فرمایا تم میں سے کون شخص اس کو ایک درہم کے بدلہ میں خریدنا پسند کرتا ہے لوگوں نے کہا ہم اس کو کسی چیز کے بدلہ میں خریدنا پسند نہیں کرتے ‘ ہم اس کا کیا کریں گے ! آپ نے فرمایا کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ یہ تم کو مل جائے ؟ لوگوں نے کہا بہ خدا اگر یہ زندہ ہوتا پھر بھی اس میں عیب تھا کیونکہ اس کے کان چھوٹے ہیں اور اب تو یہ مردہ ہے ! آپ نے فرمایا بہ خدا اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی کم تر ہے ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٥٧)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں دو لوٹ آتی ہیں اور ایک رہ جاتی ہے ‘ اس کے ساتھ اس کے گھر والے ‘ اس کا مال اور اس کا عمل جاتا ہے اس کا اہل اور اس کا مال لوٹ آتے ہیں اور اس کا عمل رہ جاتا ہے ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٠، ٢٩،چشتی)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی کو مالی اور جسمانی حالت میں افضل دیکھے تو فورا اس شخص کو دیکھے جو اس سے کمتر ہو اور جس سے یہ افضل ہو۔ (رقم الحدیث : ٢٩٦٣) ۔ (صحیح مسلم ج ٤ ص ٢٢٨٣۔ ٢٢٧٣‘ ملتقطا مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمای : ابن آدم ان تین چیزوں کے سوا اور کسی چیز میں حق میں نہیں ہے ‘ اس کے رہنے کے لیے گھر ہو ‘ اس کا ستر ڈھانپنے کے لیے لباس ہو ‘ روٹی کا ٹکڑا اور پانی ہو ۔ (جامع ترمذی رقم الحدیث : ٢٣٤١)
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا اگر اللہ کے نزدیک دنیا ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ اس میں سے کسی کافر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پلاتا ۔ (رقم الحدیث : ٢٣٢٠)
حضرت ابوبکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ! کون سا شخص سب سے اچھا ہے ؟ آپ نے فرمایا جس کی عمر لمبی ہو اور اس کے عمل اچھے ہوں ‘ اس نے کہا کون سا شخص سب سے برا ہے ؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا جس کی عمر لمبی ہو اور اس کے عمل برے ہوں ۔ (جامع ترمذی رقم الحدیث : ٢٣٣٠)
حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے بھوک کی شکایت کی اور ہم نے اپنا پیٹ کھول کر ایک ایک پتھر بندھا ہوا دکھایا تو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے اپنے پیٹ سے (بندھے ہوئے) دو پتھر دکھائے ۔ (جامع ترمذی رقم الحدیث : ٢٣٧١)
حضرت خولہ بنت قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے جس کو یہ مال حق کے ساتھ ملے اس کے لیے اس مال میں برکت دی جائے گی ‘ بسا اوقات لوگ اللہ اور اس کے رسول کے مال سے ناحق لے لیتے ہیں، ان کے لیے قیامت کے دن آگ کے سوا کچھ نہیں (جامع ترمذی رقم الحدیث : ٢٣٧٥)،(الجامع الصحیح ج ٤ ص ٥٨٢۔ ٥٦٠‘ ملتقطا مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی خلیفہ مجاز پاکپتن شریف خطیب لاہور پاکستان)

Wednesday, 29 January 2020

درسِ قرآن موضوع آیت : کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ۔ حصّہ اوّل

درسِ قرآن موضوع آیت : کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ۔ حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ؕ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوۡرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ؕ فَمَنۡ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ؕ ۔ (سورہ العمران آیت نمبر 185)
ترجمہ : ہر جان کو موت چکھنی ہے اور تمہارے بدلے تو قیامت ہی کو پورے ملیں گے جو آگ سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچا ۔

 انسان ہو ں یا جن یا فرشتہ ، غرض یہ کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا ہر زندہ کو موت آنی ہے اور ہر چیز فانی ہے ۔

جنگ احد کی ہزیمت پر جو مسلمان رنجیدہ اور غمزدہ تھے اس آیت میں بھی گذشتہ آیات کی طرح ان کو تسلی دی گئی ہے اور منافقوں کے طعن کا جواب دیا ہے ‘ منافق یہ کہتے تھے اس جنگ میں ہمارے مشورہ پر عمل کیا جاتا اور مسلمان شہر بند ہو کر لڑتے تو اس جنگ میں اس قدر مسلمان مارے نہ جاتے ‘ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ ہر شخص نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اگر بہ فرض محال وہ مسلمان اس جنگ میں نہ مارے جاتے تب بھی انہوں نے ایک نہ ایک دن مرنا تھا ‘ پہلے کوئی ہمیشہ پہلے زندہ رہا نہ اب ہمیشہ زندہ رہے گا ‘ پھر تم ان مسلمانوں کے مرنے پر غم کیوں کرتے ہو ! خصوصا اس لیے کہ وہ شہادت کی موت مرے ہیں اور شہداء اللہ کے نزدیک زندہ ہیں ان کو رزق دیا جاتا ہے اور وہ اللہ کی ان نعمتوں پر بہت خوش ہیں ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے تم کو دنیا میں ایمان اور اعمال صالحہ کا اجر عطا فرمایا ہے ‘ تم کو جنگ بدر میں فتح عطا کی ‘ اور جب تک تم مکہ مکرمہ میں رہے تم کو کفار کے قتل کرنے سے بچائے رکھا حتی کہ تم ہجرت کر کے مدینہ میں آگئے اور جہاد میں اللہ تم کو جو فتح وظفر ‘ مال غنیمت اور دشمن پر تسلط عطا فرماتا ہے ‘ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کا دنیا میں تھوڑا سا اجر ہے اس کا پورا پورا اجر تم کو قیامت کے دن دیا جائے گا ‘ ’ توفیہ “ کا معنی کسی چیز کو پورا پورا کرنا ہے ‘ مومنوں کو دنیا میں جو نعمتیں دی ہیں وہ تھوڑی ہیں ان کو پوری پوری نعمتیں آخرت میں دی جائیں گی ۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٤١ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا دنیا مومن کا قیدخانہ ہے اور کافر کی جنت ہے ۔ (کتاب الزھد ص ٣٧‘ مطبوعہ دارالباز مکہ مکرمہ ١٤١٤ ھ،چشتی)

اسی طرح کفار کو جو مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کا سامنا ہوتا ہے یا ان کا جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے یہ بہت تھوڑ عذاب ہے انکو پورا پورا عذاب آخرت میں دیا جائے گا جو دائمی عذاب ہوگا ۔ 

موت کی یاد اور اس کی تیاری کی ترغیب

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار پر موت مقرر فرما دی ہے اوراس سے کسی کو چھٹکارا ملے گا اور نہ کوئی اس سے بھاگ کر کہیں جا سکے گا ۔ موت روح کے جسم سے جدا ہونے کا نام ہے اور یہ جدائی انتہائی سخت تکلیف اور اذیت کے ساتھ ہو گی اور اس کی تکلیف دنیا میں بندے کو پہنچنے والی تمام تکلیفوں سے سخت تر ہو گی ۔ موت اور اس کی سختی کے بارے میں اللہ  تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : وَ جَآءَتْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ؕ ذٰلِکَ مَا کُنۡتَ مِنْہُ تَحِیۡدُ  ۔ (سورہ ق ۱۹)
ترجمہ : اور موت کی سختی حق کے ساتھ آگئی ، (اس وقت کہا جاتا ہے) یہ وہ (موت) ہے جس سے تو بھاگتا تھا ۔

حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت کعب احبار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا ’’اے کعب رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُُ ، ہمیں موت کے بارے میں بتائیے ۔ حضرت کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی : اے امیر المؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ، موت ایک ایسی کانٹے دار ٹہنی کی طرح ہے جسے کسی آدمی کے پیٹ میں داخل کیا جائے اور اس کا ہر کانٹا ایک ایک رگ میں پیوست ہو جائے ، پھر کوئی طاقتور شخص اس ٹہنی کو اپنی پوری قوت سے کھینچے تو اس ٹہنی کی زد میں آنے والی ہر چیز کٹ جائے اور جو زد میں نہ آئے وہ بچ جائے ۔ (احیاء العلوم، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثالث فی سکرات الموت وشدتہ۔۔۔ الخ، ۵/۲۱۰)

حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’مومن پر دنیا اور آخرت کا کوئی خوف موت سے بڑھ کر نہیں ، یہ خوف آروں سے چیرنے ،قینچیوں سے کاٹنے اور ہانڈیوں میں ابالنے سے بھی زیادہ سخت ہے ۔ اگر کوئی میت قبر سے نکل کر دنیا والوں کو موت کی سختیاں بتا دے تو وہ نہ زندگی سے نفع اٹھا سکیں گے اور نہ نیند سے لذت حاصل کر سکیں گے ۔ (احیاء العلوم، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثالث فی سکرات الموت وشدتہ۔۔۔ الخ، ۵/۲۰۹)

مروی ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وصال ہو ا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا اے میرے خلیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ، تم نے موت کو کیسا پایا ؟ آپ نے عرض کی : جس طرح گرم سیخ کو تر روئی میں رکھا جائے پھر اسے کھینچ لیا جائے ۔ اللہ  تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ہم نے آپ پر موت کو آسان کیا ہے ۔ (احیاء العلوم، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثالث فی سکرات الموت وشدتہ۔۔۔ الخ، ۵/۲۰۹)

حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا  فرماتی ہیں : بے شک رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے سامنے پانی کا ایک برتن رکھا ہوا تھا ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اپنے دونوں ہاتھ پانی میں داخل کرتے ، پھر انہیں چہرۂ انور پر ملتے اور کہتے : بے شک موت میں تکلیف ہوتی ہے ۔ پھر دستِ مبارک اٹھاکر فرماتے ’’رفیق اعلیٰ میں ۔ یہاں تک کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی روح قبض کر لی گئی اور دستِ مبارک جھک گیا ۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب سکرات الموت، ۴/۲۵۰، الحدیث: ۶۵۱۰،چشتی)

حضرت عبداللہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا  نے فرمایا ’’میں نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے وصال کے وقت جو سختی دیکھی اس کے بعد مجھے کسی کی آسان موت پر رشک نہیں ہے ۔ (ترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی التشدید عند الموت، ۲/۲۹۵، الحدیث: ۹۸۱)

جب حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کے بیٹے نے ان سے کہا : اے بابا جان! آپ کہا کرتے تھے کہ کوئی عقلمند انسان مجھے نَزع کے عالَم میں مل جائے تو میں اس سے موت کے حالات دریافت کروں ، تو آپ سے زیادہ عقل مند کون ہو گا ،برائے مہربانی آپ ہی مجھے موت کے حالات بتا دیجئے ۔ آپ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’اے بیٹے ! خدا کی قسم،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے دونوں پہلو ایک تخت پر ہیں اور میں سوئی کے نکے کے برابر سوراخ سے سانس لے رہا ہوں اور ایک کانٹے دار شاخ میرے قدموں کی طرف سے سر کی جانب کھینچی جا رہی ہے ۔ (التذکرہ للقرطبی، باب ما جاء انّ للموت سکرات۔۔۔ الخ، ص۲۴)

ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم تو سر تا پا گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اورہمارے اوپر موت کی سختیوں کے علاوہ نجانے اور کتنی مصیبتیں آئیں گی اس لئے عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ موت کو بکثرت یاد کیا جائے اور دنیا میں رہ کر موت اور اس کے بعد کی تیاری کی جائے ۔

حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو اپنا تابعدار بنا لے اور موت کے بعد کے لئے عمل کرے اور عاجز وہ شخص ہے جو اپنی خواہشات پر چلتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید بھی کرتا ہو ۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۲۵-باب، ۴/۲۰۷)

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ  کے ساتھ تھا کہ ایک انصاری آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ  کو سلام کیا اور عرض کی :یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، کونسا مومن افضل ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’جس کے اخلاق عمدہ ہوں ۔ اس نے عرض کی : سب سے زیادہ عقلمند کون ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہو اور اس کی اچھی طرح تیاری کرتا ہو تو وہی سب سے زیادہ عقلمند ہے ۔ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الموت والاستعداد لہ، ۴/۴۹۶، الحدیث: ۴۲۵۹،چشتی)

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  فرماتے ہیں : میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ  کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور میں وہاں موجود افراد میں سے دسواں تھا ۔ اسی دوران ایک انصاری شخص آئے اور عرض کی :یا رسول اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ،لوگوں میں سب سے زیادہ عقلمند اور محتاط کون ہے؟نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’وہ لوگ جوموت آنے سے پہلے اسے زیادہ یاد کرتے اور اس کے لئے زیادہ تیاری کرتے ہیں وہی عقلمند ہیں ،وہ دنیا کی شرافت اور آخرت کی بزرگی لے گئے ۔ (معجم الکبیر، ۱۲/۳۱۸، الحدیث: ۱۳۵۳۶)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ موت کی یاد اور اس کے بعد کی تیاری کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ’’جب اس دار فنا سے ایک نہ ایک دن کوچ کرنا ہی ہے تو عقلمند انسان کو چاہئے کہ وہاں کی تیاری کرے جہاں ہمیشہ رہنا ہے ۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے فرمایا ، دنیا میں ایسے رہو جیسے مسافر بلکہ راہ چلتا ۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم : کن فی الدنیا کانّک غریب۔۔۔ الخ، ۴/۲۲۳، الحدیث: ۶۴۱۶)
تو مسافر جس طرح ایک اجنبی شخص ہوتا ہے اور راہ گیر راستے کے کھیل تماشوں میں نہیں لگتا کہ منزل مقصود تک پہنچنے میں ناکامی ہو گی اسی طرح مسلمان کو چاہیے کہ دنیا اور اس کی رنگینیوں میں نہ پھنسے اور نہ ایسے تعلقات پیدا کرے کہ مقصود اصلی حاصل کرنے میں آڑے آئیں اور موت کو کثرت سے یاد کرے کہ دنیا اور اس کی لذتوں میں مشغول ہونے سے روکے گی، حدیث میں ہے : لذتوں کو توڑ دینے والی موت کو کثرت سے یاد کرو ۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی ذکر الموت، ۴/ ۱۳۸، الحدیث: ۲۳۱۴)
مگر کسی مصیبت پر موت کی آرزو نہ کرے کہ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے اور ناچار کرنی ہی پڑے تو یوں کہے، یااللہ ! مجھے زندہ رکھ جب تک میری زندگی میرے لئے بہتر ہو ، اور موت دے جب میرے لئے بہتر ہو ۔ (بخاری، کتاب المرضی، باب تمنّی المریض الموت، ۴/۱۳، الحدیث: ۵۶۷۱،چشتی)
یونہی مسلمان کو چاہیے کہ اللہ  تعالیٰ سے نیک گمان رکھے اوراس کی رحمت کا امیدوار رہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ایک نوجو ان کے پاس اس حال میں تشریف لے گئے کہ وہ مرنے کے قریب تھا ۔ ارشادفرمایا : تو اپنے آپ کو کس حال میں پاتا ہے ؟ عرض کی : یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، اللہ تعالیٰ سے امید ہے اور اپنے گناہوں سے ڈر ۔ ارشاد فرمایا : ’’یہ دونوں خوف اور امیداس موقع پر جس بندے کے دل میں ہوں گے اللہ تعالیٰ اسے وہ دے گا جس کی امید رکھتا ہو اور اس سے امن میں رکھے گا جس سے خوف کرتا ہے ۔ (ترمذی، کتاب الجنائز، ۱۱-باب، ۲/۲۹۶، الحدیث: ۹۸۵) 
یاد رکھئے رُوح قبض ہونے کا وقت بہت ہی سخت وقت ہے کہ اسی پر سارے اعمال کا دارومدار ہے بلکہ ایمان کے اُخْرَوی نتائج اسی پر مُرَتَّب ہوں گے کہ اعتبار خاتمہ ہی کا ہے اور شیطان لعین ایمان لینے کی فکر میں ہے جس کو اللہ تعالیٰ اس کے مکر و فریب سے بچائے اور ایمان پر خاتمہ نصیب فرمائے وہ ہی مراد کو پہنچا ۔ (بہار شریعت ، موت آنے کا بیان ، حصہ چہارم،۱/۸۰۶-۸۰۷)

موت سے مستثنی رہنے والے نفوس کا بیان

اس آیت میں پر ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی ذات پر نفس کا اطلاق کیا ہے ارشاد ہے : کتب علی نفسہ الرحمہ ۔ (سورہ الانعام : ١٢) 
ترجمہ : اس نے (محض اپنے کرم سے) اپنے اوپر رحمت کو لازم کرلیا ہے ‘

ونفخ فی الصور فصعق من فی السموت ومن فی الارض الا من شآء اللہ ۔ (سورہ الزمر : ٦٨) 
ترجمہ : اور صور پھونکا جائے گا جو آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب بےہوش ہوجائیں گے مگر جن کو اللہ چاہے ۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سب لوگوں کو موت نہیں آئے گی اور کچھ مخلوق ایسی ہوگی جو قیامت کے صور سے بھی صرف بےہوش ہوگی مرے گی نہیں اور زیر بحث آیت کا تقاضا ہے کہ ہر نفس پر موت آئے حتی کہ اللہ پر بھی اور ان پر بھی ۔ اس کا جواب یہ ہے یہ زیر بحث آیت عام عام مخصوص نہ البغض ہے ‘ اللہ تعالیٰ اور جن کا اللہ تعالیٰ نے استثناء فرمایا ہے (مثلا انبیاء علیہم السّلام  اور شہدائے کرام) وہ اس آیت کے عموم سے مستثنی ہیں ‘ امام رازی نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اس آیت میں نفس سے مراد وہ مکلف ہیں جو دار تکلیف میں حاضر ہیں ۔ (تفسیر کبیر ج ٣ ص ١١٢) لیکن یہ جواب صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کا تقاضا ہے کہ پھر بچوں اور دیوانوں پر موت نہ آئے اسی طرح جمادات اور نباتات پر موت نہ آئے حالانکہ ان سب پر موت آئے گی صحیح جواب وہی ہے جس کو ہم نے ذکر کیا ہے : (مزید حصّہ دوم میں پڑھیں)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

احناف کی نماز احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں حصّہ چہارم

احناف کی نماز احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں حصّہ چہارم
(15) تکبیرِ اولی کے علاوہ رفع یدین نہ کرے کیونکہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثناابوبکرۃقال حدثنامؤمل قال حدثناسفیان قال حدثنایزیدبن ابی زیادعن ابن ابی لیلی عن البراء بن عازب رضی اللہ عنہ قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذاکبرلافتتاح الصلاۃرفع یدیہ حتی یکون ابھاماہ قریبامن شحمتی اذنیہ ثم لایعود ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب نمازشروع کرنے کے لیے تکبیر کہتے تو رفع یدین فرماتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دونوں انگوٹھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دونوں کانوں کی لوکے قریب ہوجاتے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم (ساری نمازمیں) رفع یدین نہ فرماتے ۔ (اس حدیث کوامام اعظم ابوحنیفہ نے اپنی مسند میں حدیث نمبر۶۰۲)(امام ابوداودنے اپنی سنن میں حدیث نمبر۰۴۶،۱۴۶)(امام دارقطنی نے اپنی سنن میں حدیث نمبر ۹۳۱۱ ،۳۴۱۱)(امام ابن ابی شیبۃ نے اپنی مصنف میں جلد۱ص۷۶۲)(امام عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں جلد۲ص۱۷،چشتی)(اور امام طحاوی نے شرح معانی الآثار میں جلد۱ ص۴۸۳ روایت فرمایا الفاظ و سند شرح معانی الآثارکے ذکرکیے گئے ہیں)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثناابن ابی داودقال حدثنانعیم بن حمادقال حدثناوکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبدالرحمن بن الاسودعن علقمۃعن عبداللہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃثم لایعود ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پہلی تکبیرکے وقت رفع یدین فرماتے ، پھر رفع یدین نہ فرماتے ۔ (اس حدیث کو امام طحاوی نے شرح معانی الآثارمیں جلد۱ص۴۸۳ روایت فرمایا الفاظ و سند شرح معانی الآثارکے ذکر کیے گئے ہیں)

انہی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری حدیث مروی ہے فرمایا : حدثناابوعثمان سعیدبن محمدبن احمدالحناط وعبدالوھاب بن عیسی بن ابی حیۃ قال احدثنااسحاق بن ابی اسرائیل حدثنامحمدبن جابرعن حمادعن ابراہیم عن علقمۃعن عبداللہ قال صلیت مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم ومع ابی بکرومع عمررضی اللہ عنہمافلم یرفعواایدیھم الاعندالتکبیرۃالاولی فی افتتاح الصلاۃ ۔
ترجمہ : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ ، حضرت ابوبکر صدیق کے ساتھ ، حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہما کے ساتھ نمازادا کی ۔ پس ان تینوں نے ، نمازکی ابتداء میں پہلی تکبیرکے علاوہ رفع یدین نہ فرمایا کرتے ۔ (اس حدیث کو امام دارقطنی نے اپنی سنن میں حدیث نمبر۴۴۱۱،چشتی)(امام ابن عدی نے کامل میں جلد۶ص۲۵۱ روایت فرمایا الفاظ و سند سنن دارقطنی کے ذکرکیے گئے ہیں)

حضرت علقمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی نے فرمایا : حدثناعثمان بن ابی شیبۃحدثناوکیع عن سفیان عن عاصم یعنی ابن کلیب عن عبدالرحمن بن الاسودعن علقمۃقال قال عبداللہ بن مسعودالااصلی بکم صلاۃرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال فصلی فلم یرفع یدیہ الامرۃ ۔
ترجمہ : کیا میں تمہارے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نماز ادا نہ کروں ۔ علقمہ کہتے ہیں کہ جناب عبد اللہ بن مسعود نے نماز ادا فرمائی اور سوائے ایک بار کے رفع یدین نہ فرمایا ۔ (اس حدیث کوامام ابوداود نے اپنی سنن میں حدیث نمبر۹۳۶)(امام ترمذی نے اپنی جامع میں حدیث نمبر۸۳۲)(امام نسائی نے اپنی سنن میں حدیث نمبر۸۴۰۱)(اور امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں ۴۹۹۳)(امام ابن ابی شیبۃ نے اپنی مصنف میں جلد۱ص۷۶۲،چشتی)(اور امام دار قطنی نے علل میں جلد۴ص۱۷۱ روایت فرمایا ۔ اورامام ترمذی نے اسے حسن فرمایا الفاظ اور سند سنن ابی داود کے ذکر کیے گئے ہیں)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : حدثنامحمدبن عثمان بن ابی شیبۃحدثنامحمدبن عمران بن ابی لیلی حدثنی ابی حدثناابن ابی لیلی عن الحکم عن مقسم عن ابن عباس رضی اللہ عنہماعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لاترفع الایدی الافی سبع مواطن حین یفتتح الصلاۃ وحین یدخل المسجدالحرام فینظرالی البیت وحین یقوم علی الصفاوحین یقوم علی المروۃوحین یقف مع الناس عشیۃ عرفۃ وبجمع والمقامین حین یرمی الجمرۃ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ہاتھ سات مقامات کے علاوہ نہ اٹھائے جائیں ، جب نماز کو شروع کرے ، جب مسجد حرام میں داخل ہو تو بیت اللہ کو دیکھے ، جب صفا پر کھڑا ہو ، جب مروہ پر کھڑا ہو ، جب لوگوں کے ساتھ عرفۃ کی رات وقوف کرے ، اور جمع میں اور مقامین میں جب کہ رمی جمار کرے ۔ (اس حدیث کوامام طبرانی نے معجم کبیرمیں جلد۰۱ص۸۷،۴۴۱ روایت کیا) (اورامام ابن ابی شیبۃ نے اپنی مصنف میں جلد۱ص۸۶۲ اس حدیث کو حضرت عبد اللہ بن عباس سے موقوفاً روایت فرمایا الفاظ اور سند معجم کبیر کے ہیں)

حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے راوی ہیں : عن علی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان یرفع یدیہ فی اول الصلاۃثم لایعود ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نمازکی ابتداء میں رفع یدین فرماتے پھر دوبارہ رفع یدین نہ کرتے ۔ (اس حدیث کو امام دار قطنی نے علل میں جلد۴ص۶۰۱ روایت کیا)
اِن احادیث مبارکہ میں اس بات کی صراحت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نمازکی ابتداء میں رفع یدین فرماتے اس کے بعدرفع یدین نہ فرماتے ۔ اس کے علاوہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ نمازیں ادا کیں ، اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے تعلیم کردہ طریقے کے مطابق نماز ادا کی ، ان میں سے کئی ایک صحابہ کے بارے میں بھی احادیث موجود ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز کی ابتداء میں رفع یدین کرتے اوراس کے بعد رفع یدین نہ کرتے ۔ جیساکہ عاصم بن کلیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ : حدثناابوبکرۃقال حدثناابواحمدقال حدثناابوبکرالنھشلی قال حدثناعاصم بن کلیب عن ابیہ ان علیارضی اللہ عنہ کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃمن الصلاۃثم لایرفع بعد ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نمازکی پہلی تکبیرمیں رفع یدین فرماتے ، اس کے بعد رفع یدین نہ فرماتے ۔ (اس حدیث کوامام محمد نے اپنی موطأ میں ص۵۵)(امام ابن ابی شیبۃ نے اپنی مصنف میں جلد۱ص۷۶۲،چشتی)(اورامام طحاوی نے شرح معانی الآثارمیں جلد۱ص۵۸۳ روایت کیا الفاظ وسندشرح معانی الآثارکے ذکرکیے گئے ہیں)

حضرت مجاھد رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثناابن ابی داودقال حدثنااحمدبن یونس قال حدثناابوبکربن عیاش عن حصین عن مجاھدقال صلیت خلف ابن عمررضی اللہ عنہمافلم یکن یرفع یدیہ الافی التکبیرۃالاولی من الصلاۃ ۔
ترجمہ : میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز ادا کی تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نماز کی پہلی تکبیر کے علاوہ رفع یدین نہ فرماتے تھے ۔ (اس حدیث کوامام ابن ابی شیبۃ نے اپنی مصنف میں جلد۱ص۷۶۲)(اور امام طحاوی نے شرح معانی الآثارمیں جلد۱ص۶۸۳ روایت کیا الفاظ و سند شرح معانی الآثار کے ذکر کیے گئے ہیں)

حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : حدثناابن ابی داودقال حدثنااحمدبن یونس قال حدثناابوالاحوص عن حصین عن ابراھیم قال کان عبداللہ لایرفع یدیہ فی شیئ من الصلاۃالافی الافتتاح ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نماز کے اندر ”سوائے ابتداء کے“ بالکل رفع یدین نہ فرماتے تھے ۔ (اس حدیث کو امام ابن ابی شیبۃ نے اپنی مصنف میں جلد۱ص۷۶۲)(امام عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں جلد۲ص۱۷)(اور امام طحاوی نے شرح معانی الآثارمیں جلد۱ص۸۸۳ روایت کیا الفاظ و سند شرح معانی الآثارکے ذکر کیے گئے ہیں)

حدثناابن ابی داودقال حدثناالحمانی قال حدثنایحیی بن آدم عن الحسن بن عیاش عن عبدالملک بن ابجرعن الزبیربن عدی عن ابراہیم عن الاسودقال رأیت عمربن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃثم لایعود ۔
ترجمہ : میں نے حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو نمازکی پہلی تکبیر کے وقت رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا ۔ اس کے بعد دوبارہ آپ نے رفع یدین نہ فرمایا ۔ (اس حدیث کو امام بیہقی نے السنن الکبری میں جلد۲ص۶۸)(امام ابن ابی شیبۃ نے اپنی مصنف میں جلد۱ص۷۶۲،چشتی)(اور امام طحاوی نے شرح معانی الآثارمیں جلد۱ ص۸۸۳،۹۸۳ روایت کیا امام طحاوی نے اس حدیث کوصحیح فرمایا الفاظ و سند شرح معانی الآثارکے ذکر کیے گئے ہیں)

یہ دس احادیث مبارکہ ہیں جو اس بات پرواضح دلالت کر رہی ہیں کہ پہلی تکبیر کے علاوہ رفع یدین نہیں کرنا چاہیئے ۔ اور پھرخلفائے راشدین رضی اللہ عنہم جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ظاہری حیات طیبہ کے آخری ایام کی نمازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اقتداء میں اداکیں ، ان خلفائے راشدین میں سے حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر فاروق ، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کا عمل بیان ہوا کہ آپ حضرات پہلی تکبیر کے علاوہ رفع یدین نہ فرماتے تھے ۔ یونہی حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہم جیسے فقہاء صحابہ بھی ، جن کی زندگیوں کا بڑا حصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت میں گزرا ، رفع یدین نہ فرماتے تھے جیسا کہ گذشتہ احادیث میں بیان ہوا ۔
لہٰذا جن احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رفع یدین کا بیان آیا ہے وہ منسوخ قرارپائیں گی ۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پہلے رفع یدین فرمایا ، پھر ترک فرما دیا ۔ اور اس پر دلیل یہ ہے کہ خلفائے راشدین جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حیات طیبہ کی آخری نمازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ ادا کیں ، وہ حضرات رفع یدین نہ کیا کرتے تھے ۔ پس اگر رفع یدین منسوخ نہ ہوچکا ہوتا تو یہ جلیل القدرصحابہ کبھی بھی رفع یدین کو چھوڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خلاف کام نہ کرتے ۔ جب ان صحابہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے پہلی تکبیر کے علاوہ رفع یدین نہ فرمایا تو یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی ظاہری زندگی کے آخری ایام میں رکوع میں جانے سے پہلے اوربعد رفع یدین کو ترک فرما دیا تھا ۔ اوراسی وجہ سے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم رفع یدین نہ فرماتے تھے ۔

(16) پھر رکوع کرے ۔ قرآن عظیم میں اللہ جل مجدہ کا ارشاد گرامی ہے : یایھا الذین آمنوا ارکعوا واسجدوا ۔
ترجمہ : اے ایمان والو رکوع اور سجدہ کرو ۔ (سورۃالحج آیت نمبر۷۷)

(17) رکوع میں جاتے ہوئے تکبیر کہے ۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثنایحیی بن بکیرقال حدثنااللیث عن عقیل عن ابن شھاب قال اخبرنی ابوبکربن عبدالرحمن بن الحارث انہ سمع اباھریرۃیقول کان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اذاقام الی الصلاۃیکبرحین یقوم ثم یکبرحین یرکع ثم یقول سمع اللہ لمن حمدہ حین یرفع صلبہ من الرکعۃثم یقول وھوقائم ربنالک الحمدثم یکبرحین یھوی ثم یکبرحین یرفع رأسہ ثم یکبرحین یسجدثم یکبرحین یرفع رأسہ ثم یفعل ذلک فی الصلاۃکلھاحتی یقضیھاویکبرحین یقوم من الثنتین بعدالجلوس ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب نمازکے لیے کھڑے ہوتے ، جب کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے ، پھر جب رکوع کرتے تو تکبیر کہتے ، پھر جب رکوع سے اپنی کمر کو اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہتے ۔ پھر کھڑے ہو کر ربنالک الحمد کہتے ، پھر نیچے جاتے ہوئے تکبیرکہتے ، پھرجب اپنا سراقدس اٹھاتے تو تکبیر کہتے ، پھرجب سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے ، پھر جب اپنا سراقدس سجدہ سے اٹھاتے تو تکبیر کہتے ۔ پھر یونہی اپنی ساری نماز میں ، نماز پوری ہونے تک ، فرماتے ۔ اور پھر جب دوسری رکعت سے بیٹھنے کے بعد کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے ۔ (اس حدیث کوامام بخاری نے اپنی صحیح میں حدیث نمبر۷۴۷)(امام مسلم نے اپنی صحیح میں (حدیث نمبر۱۹۵،چشتی)امام نسائی نے اپنی سنن میں حدیث نمبر۸۳۱۱)(امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں حدیث نمبر۴۷۴۹ روایت فرمایا الفاظ اور سند صحیح بخاری کے ذکر کیے گئے ہیں)

(18) اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھے اور انگلیوں کو کشادہ رکھے ۔ جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثناہ بھامحمودایضاحدثناالحسین بن احمدبن منصورسجادۃحدثنابشربن الولیدالقاضی حدثنا کثیربن عبداللہ ابوھاشم قال سمعت انس بن مالک یقول قال لی النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یابنی اذاتقدمت الی الصلاۃفاستقبل القبلۃوارفع یدیک وکبرواقرء مابدالک فاذارکعت فضع یدیک علی رکبتیک وفرق بین اصابعک ۔
ترجمہ : مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : اے بیٹے ! جب تو نمازکے لیے آئے تو اپنا چہرہ قبلہ کہ طرف کر اور اپنے ہاتھوں کو اٹھا اور تکبیر کہہ اور جو تیرے ذہن میں آئے اسے پڑھ ۔ پس جب رکع کرے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھ اور اپنی انگلیوں کو کشادہ کر ۔ (اس حدیث کوامام ابن عدی نے الکامل میں جلد۶ص۶۶)(عقیلی نے الضعفاء میں جلد۴ص۸)(امام طبرانی نے معجم اوسط میں حدیث نمبر۹۵۱۶ اور معجم صغیرمیں حدیث نمبر۷۵۸) (امام ازرقی نے اخبار مکہ میں ایک طویل حدیث کے ضمن میں روایت فرمایا ۔ امام ابن حبان نے اپنی صحیح میں حدیث نمبر۴۱۵ حضرت عبداللہ بن عمرسے ایک طویل حدیث کے ضمن میں روایت فرمایا الفاظ و سند الکامل لابن عدی کے ذکر کیے گئے ہیں)

(19) اپنی کمر کو سیدھا رکھے ۔ جیسا کہ حضرت وابصۃ بن معبد رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثناابرہیم بن محمدبن یوسف الفریابی حدثناعبداللہ بن عثمان بن عطاء حدثناطلحۃ بن زیدعن راشد قال سمعت وابصۃبن معبدیقول رأیت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یصلی فکان اذارکع سوی ظھرہ حتی لوصب علیہ الماء لاستقر ۔
ترجمہ : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو نمازپڑھتے ہوئے دیکھا پس جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رکوع فرماتے اپنی پیٹھ کو سیدھا فرماتے حتی کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیٹھ پر پانی بھی ڈالا جائے تو ٹھہر جائے ۔ (اس حدیث کوامام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں حدیث نمبر۲۶۸)(امام طبرانی نے معجم صغیرمیں حدیث نمبر۳۶۳۵ روایت فرمایا الفاظ و سند سنن ابن ماجہ کے ذکرکیے گئے ہیں)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...