Tuesday, 16 June 2015

مزارات اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ پر نذر و نیاز اور تبرک کی حقیقت


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مزاراتِ اولیاء پر نذر و نیاز دینے اور وہاں ’’لنگر‘‘ پکانے یا کھانے کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ یہ ایک نیک عمل ہے جس کی اصل قرآن و سنت میں موجود ہے۔ یہ صدقہ جاریہ کی ایک مستحسن صورت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کو نواز رکھا ہے۔ ’’اطعام الطعام‘‘ تعلیمات قرآن و سنت کی معروف اصطلاح اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ سورۃ الدھر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور مخلص بندوں کی خصوصیات بیان فرمائی ہیں جن میں ضرورت مندوں اور ناداروں کو کھانا کھلانا بنیادی خصوصیت قرار دیا گیا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًاO إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًاO إِنَّا نَخَافُ مِن رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًاO

’’اور (اپنا) کھانا اﷲ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیںo (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کیلئے تمہیں کھلا رہے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواستگار ہیں اور نہ شکرگزاری کے (خواہشمند) ہیںo ہمیں تو اپنے ربّ سے اُس دن کا خوف رہتا ہے جو (چہروں کو) نہایت سیاہ (اور) بدنما کر دینے والا ہےo‘‘

الدهر، 76 : 8 - 10

یہ کام اہل اﷲ کے نزدیک نفلی عبادت سے زیادہ باعثِ ثواب ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ مخلوقِ خدا کی خدمت دراصل اللہ تعالیٰ کو خوش رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا نمایاں وصف ہے اور اسوۂ حسنہ کے اتباع میں تمام صوفیاء کا معمول رہا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود یتیموں، مسکینوں اور ناداروں کا سہارا اور ملجا تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی متعدد احادیث میں ’’اطعام الطعام‘‘ کی ترغیب اور حکم موجود ہے۔ بلکہ بعض صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی تعریف اور بنیادی خصوصیات میں کھانا کھلانے اور دوسرے کی خیر خواہی چاہنے کو شامل فرمایا۔ ملاحظہ ہو فرمان نبوی :

1۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی نے سوال کیا :

أَيُّ الْاِسْلَامِ خَيْرٌ؟ قَالَ : تُطْعِمُ الطَّعَامَ وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَی مَنْ عَرَفْتَ وَ مَنْ لَمْ تَعْرِفْ.

’’بہترین اسلام کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو کھانا کھلائے اور سلام کرے اس شخص کوجس کو تو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب افشاء السلام، 1 : 19، رقم : 28
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب تفاضل الإيمان، 1 : 65، رقم : 39
3. ابوداؤد، السنن، کتاب الأدب، باب في افشاء السلام، 4 : 350، رقم : 5194

2۔ اسی طرح مشہور صحابی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت فرمایا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جس کی بجا آوری سے میں جنت کا حق دار ٹھہر سکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

أطْعِمِ الطَّعَامَ، وَ أفْشِ السَّلَامَ، وَصِلِ الْأرْحَامَ، وَصَلِّ بِالَّيْلِ وَالنَّاسُ نَيامٌ تَدْخُلُ الْجَنَّة بِسَلَامٍ.

’’ضرورت مند کو کھانا کھلاؤ، سلام (سلامتی اور خیر خواہی) کو عام کرو، صلہ رحمی کرو اور دوسرے لوگ نیند کے مزے لے رہے ہوں تو تم اٹھ کر نماز (تہجد) پڑھا کرو (ان اعمال کے باعث تم) سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘

1. ابن حبان، الصحيح، 6 : 299، رقم : 2559
2. حاکم، المستدرک، 4 : 144، رقم : 7174

3۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس وقت مدینہ تشریف لائے تو اول کلام جو میں نے ان سے سنا وہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ وَ أَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصَلُّوْا وَالنَّاسُ نِيَامٌ تَدْخُلُوا الْجَنَّة بِسَلَامٍ.

’’لوگو! سلام کو عام کرو اور کھانا کھلاؤ اور جب لوگ سو رہے ہوں، نماز پڑھو تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘

1. ترمذي، السنن، کتاب صفة القيامة، 4 : 652، رقم : 2485
2. ابن ماجه، السنن، کتاب الأطعمة، 2 : 1083، رقم : 3251
3. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 451، رقم : 23835

4۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے اس سے مماثل روایت ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اطعام الطعام کو اﷲ کی عبادت کا ہم پلہ عمل قرار دیتے ہوئے فرمایا :

اعْبُدُوا الرَّحْمٰنَ وَ أَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَ أَفْشُوا السَّلَامَ تَدْخُلُوا الْجَنَّة بِسَلَامٍ.

’’تم رحمٰن کی عبادت کرو اور کھانا کھلاؤ اور سلام عام کرو ان تین امور کی انجام دہی کے ثمر کے طور پر تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘

1. ترمذی، السنن، کتاب الأطعمة، باب فضل اطعام الطعام، 4 : 2870، رقم : 1855
2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 170، رقم : 6587
3. دارمی، السنن، 2 : 148، رقم : 2081
4. بزار، المسند، 6 : 383، رقم : 2402
5. بخاری، الأدب المفرد، 1 : 340، رقم : 981

آپ نے قرآن و سنت کے واضح احکام کو ملاحظہ کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھانا کھلانے کا کس قدر اہتمام اور تاکید کے ساتھ ذکر فرمایا۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ کے متقی، پرہیزگار، مخلصین اور محبین، اللہ تعالیٰ سے قربت اور اخلاص کا دعویٰ کریں اور اس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و اطاعت کا دم بھی بھریں لیکن ان کے ہاں مخلوقِ خدا کو خیر خواہی نہ ملے، بھوکوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب اور عملی مظاہرہ نہ ہو چنانچہ مقربینِ بارگاہِ ایزدی جب حیات ہوتے ہیں خود بھی مخلوق کے لیے سراپا خیر ہوتے ہیں، ان کے دوست دشمن، امیر غریب جاننے والے اور غیر سب کے لیے ان کا دست عطا کھلا رہتا ہے اور جب وہ دنیا سے چلے جاتے ہیں تو اس وقت بھی ان کے اس عمل خیر میں انقطاع نہیں ہوتا۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جہاں جہاں ایسے مزارات ہیں وہاں قائم لنگرخانوں میں نادار، غریب اور مفلوک الحال لوگ پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔ انہیں دو وقت کا کھانا مفت ملتا ہے تو یہ خود ایک بہت بڑی انسانی خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی میں ان کے اخلاصِ عمل کو برکت سے نواز کر ان کے وصال کے بعد بھی ایصالِ ثواب کی یہ سبیل جاری رکھی ہوئی ہے۔ یہ دراصل زمین پر مائدۃ الرحمن (الوہی دسترخوان) ہے جس کی سعادت سے یہی عظیم المرتبت لوگ نوازے جاتے ہیں۔ انسانی استطاعت و طاقت سے یہ ممکن نہیں ہوتا بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی توفیق اور عنایت سے ہی اس قدر وسیع اسباب و وسائل میسر آتے ہیں۔

برصغیر پاک و ہند میں ایسے مزارات بکثرت موجود ہیں مثلاً سیدنا علی بن عثمان الہجویری المعروف داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت بابا فرید مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ پاک پتن شریف، خواجہ ھند حضرت معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ، حضرت بہاؤ الدین ذکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مجدد الف ثانی، شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح کے سینکڑوں مراکز اور مقامات ہیں جہاں آج بھی ہزاروں اور لاکھوں ایسے لوگ کھانا کھاتے ہیں جو بے روزگار اور بے سہارا ہوتے ہیں۔ غریب اور یتیم بچے، عورتیں، بوڑھے اور بیمار، سب بلاتمیز رنگ و نسل، عقیدہ و مذہب ان آستانوں پر آزادانہ کھاتے پیتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق حضرت داتا صاحب کے احاطۂ مزار میں ہر روز 20 سے 30 ہزار لوگ مختلف شکلوں میں ’’لنگر‘‘ سے کھانا حاصل کرتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں بھوکوں، بے روزگاروں اور ضرورت مندوں کو کھانا کھلانا کوئی معمولی بات نہیں۔

یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی خصوصی عطاء سے ہی ممکن ہے ورنہ دنیا کا کوئی بادشاہ، دولت مند شخص یا تنظیم ایسا کرنے کی صلاحیت و قدرت نہیں رکھتی۔ پھر یہ سلسلہ دو چار دنوں یا مہینوں سے نہیں بلکہ صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ ایسے نیک اور خدمتِ خلق پر مبنی عمل کو بلاسوچے سمجھے شرک و بدعت اور حرام کہنا بجائے خود بہت بڑی جسارت ہے۔ جیسا کہ اوپر ہم عرض کر چکے ہیں کہ یہ ’’اطعام الطعام‘‘ کے فرمانِ الٰہی پر عمل درآمد کی ایک بہترین شکل ہے۔ جائز مشروع اور مخلوقِ خدا کیلئے مفید عمل کو بلادلیل ناجائز عمل کہنا دراصل دین میں تجاوز ہے۔ یہ ایک طرف کی سوچ اور نقطۂ نظر ہے۔

دوسری طرف اس سے بھی زیادہ قباحتیں موجود ہیں۔ انہی قباحتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کئی لوگوں نے اس لنگر یا نذر و نیاز کے کھانے سے متعلق بہت سی خود ساختہ باتیں گھڑ رکھی ہیں۔ کہیں اس کی شفا کے مبالغہ آمیز تذکرے کیے جاتے ہیں، کہیں اس کے عدمِ استعمال پر انجام بد سے ڈرایا جاتا ہے اور کسی جگہ کا لنگر ہر گناہ اور معصیت سے چھٹکارے کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ بزرگانِ دین کے مزارات اور ان کی قربت بلاشبہ باعثِ خیر و برکت ہے اور ان کے آستانوں پر توسلاً اللہ پاک بیماروں کو شفا بھی دیتا ہے مگر یہ سب فوائد اضافی ہیں بنیادی غرض و غایت تو ضرورت مندوں کی بھوک کا ازالہ ہے۔

علاہ ازیں بعض مقامات اور مزارات پر اس نیک عمل کو بے جا پابندیوں اور اضافی شرطوں سے خاص کردیا جاتا ہے مثلاً شیرینی کے ساتھ مختلف تحریریں لکھ دی جاتی ہیں جن کے ذریعے زائرین پر نفسیاتی طور پر ترغیب و ترھیب سے اثر انداز ہونے کی کوشش بھی کی جاتی ہے کہ ’’یہ کھانے سے اتنے پھیرے اور اسی طرح کی نیاز کی مزید تقسیم ضروری ہے۔‘‘ وغیرہ۔

یہ سب رسوم و رواج جہالت اور مزارات کے غلط استعمال کی مختلف شکلیں ہیں ایسی قباحتوں سے صاحبِ مزار کو یقینا تکلیف پہنچتی ہے اس لئے ایسے امور سے ہر ممکن بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ عرس کی شیرینی کھانے کے فضائل بیان کرنے اور نہ کھانے والے کو محروم سمجھے جانے کی کوئی اصل نہیں ہے۔

اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ عرس کی شیرینی کے متعلق یہ کہنا کہ جوکوئی اِس کو کھائے گا اُس کا جنت مقام و دوزخ حرام ہے یہ کہنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟

انہوں نے جواب دیا : ’’یہ کہنا جزاف اور یاوہ گوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کس کا جنت مقام اور کس پر دوزخ حرام ہے۔ عرس کی شیرینی کھانے پر اللہ و رسول کا کوئی وعدہ ایسا نہیں ثابت جس کے بھروسہ پر یہ حکم لگا سکیں۔ یہ تقول علی اﷲ کے مترادف ہے اور وہ ناجائز ہے۔

قال اﷲ تعالی : اَطَّلَعَ الْغَيبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا (مريم، 19 : 78)، قال اﷲ تعالی : أَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اﷲِ مَالَا تَعْلَمُوْن (البقرة، 2 : 80).

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’وہ غیب پر مطلع ہے یا اس نے (خدائے) رحمن سے (کوئی) عہد لے رکھاہے؟ (اسی طرح) اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ’’تم اللہ پر یونہی (وہ) بہتان باندھتے ہو جو تم خود بھی نہیں جانتے۔‘‘

امام احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرّحمہ ، فتاویٰ رضويه، 4 : 219

No comments:

Post a Comment

ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت

ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کے بارہ مہینے اپنے اندر کوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت ضرور رکھتے ہیں ۔ اسی طر...