زکوٰۃ کا مفہوم
لغت میں زکوٰۃ کا معنی پاکیزگی، نمو، اضافہ
اور برکت ہے۔ مال اور دولت سے انسان میں حرص، بخل، تکبر، تمرد اور فسق و
فجور کی صفاتِ رذیلہ پیدا ہوتی ہیں۔ مالی عبادات کے طور پر اﷲ تعالیٰ نے
زکوٰۃ فرض کی ہے تاکہ انفاق فی سبیل اﷲ سے ان اخلاقی امراض کا ازالہ ہو اور
انسان میں قناعت، جود و سخا، انکسار اور تقویٰ و حسن عمل کی اعلیٰ صفات
پیدا ہوں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ان کے اموال سے زکوٰۃ وصول کر کے ان کے
(قلب و ذہن) کا تزکیہ کیجئے‘‘ (توبہ) قرآن کی رو سے زکوٰۃ ادا کر کے
مالدار، مفلس و نادار پر احسان نہیں کرتا بلکہ وہ حق دار کو اس کا وہ حق
لوٹاتا ہے جو مال و دولت عطا کرنے والے ربِ کریم نے اس کے مال میں شامل کر
رکھا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور ان (مال داروں) کے مال میں سائل اور
مال سے محروم لوگوں کا حق ہے۔‘‘ (الذاریات: 19) گویا قرآن مجید کا پیغام
یہ ہے کہ جو شخص استطاعت کے باوجود زکوٰۃ ادا نہیں کرتا وہ حق تلفی کرنے
والا، ظالم اور غاصب ہے، کیونکہ وہ نادار کے حق کو لوٹانے سے عملاً منکر
ہے۔
وجوبِ زکوٰۃ
مالدار پر زکوٰۃ فرض ہونے کی شرائط یہ ہیں:
اسلام، عاقل ہونا، بالغ ہونا، نصابِ شرعی کا مالک ہونا (یعنی صاحبِ نصاب
ہونا) اور نصاب پر پورا ایک قمری سال گزر جانا۔
نصابِ زکوٰۃ
اس سے مراد وہ کم از کم مالیت ہے، جس کا
مالک ہونے سے مسلمان پر زکوٰۃ فرض ہو جاتی ہے۔ اور نصابِ شرعی کی مقدار یہ
ہے: 612.36 گرام چاندی یا اس کی رائج الوقت قیمت کے مساوی نقد رقم، یا مال
تجارت جو اس کی حاجت اصلیہ سے زائد ہو یا 87.48 گرام سونا یا اس کی رائج
الوقت قیمت کے مساوی نقد رقم یا مالِ تجارت جو اس کی حاجتِ اصلیہ سے زائد
ہو۔ آج کل چاندی اور سونے کے نصاب کی مالیت تقریباً ایک اور سات کی نسبت
ہے۔ فقہائے کرام نے یہ کہا ہے کہ اگر اموال متفرق ہوں (یعنی کچھ سونا اور
کچھ چاندی اور دیگر اموال) یا صرف چاندی تو چاندی ہی کے نصاب کا اعتبار ہو
گا تاکہ ناداروں کو فائدہ ہو۔
حولانِ حول کامفہوم
وجوبِ زکوٰۃ کے لیے ضروری ہے کہ مال پر سال
گزر جائے۔ اسے فقہی اصطلاح میں ’’حولانِ حول‘‘ کہتے ہیں۔ شریعت کی رو سے جس
دن کوئی بالغ مسلمان مرد یا عورت زندگی میں پہلی بار مندرجہ بالاتفصیل کے
مطابق کم از کم نصاب کا مالک ہو جائے تو اسلامی کیلنڈر کی اسی تاریخ سے وہ
’’صاحبِ نصاب‘‘ قرار پاتا ہے لیکن اس پر اسی دن سے زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی
تاوقتیکہ اس نصاب پر اس کی ملکیت میں ایک پورا قمری سال گزر نہ جائے۔ لیکن
یہ امر پیشِ نظر رہے کہ سال بھر کے دوران ’’صاحبِ نصاب‘‘ کی ملکیت میں کم
از کم نصاب کا رہنا ضروری ہے، ہر مال پر (خواہ وہ نقد رقم ہو یا سونا چاندی
کی صورت میں ہو یا صنعت و تجارت کا مال ہو) سال گزرنا زکوٰۃ واجب ہونے کے
لیے لازمی نہیں ہے۔ اگر مال کے ہر جز پر سال گزرنے کی شرط کو لازمی قرار
دیا جائے تو تاجر حضرات کے لیے زکوٰۃ کی تشخیص تقریباً ناممکن العمل ہو
جائے، کیونکہ مال کی آمد و خرچ کا سلسلہ روز جاری رہتا ہے، بلکہ تنخواہ دار
آدمی بھی ہر ماہ کی تنخواہ سے کچھ پس انداز کرتا ہے۔ لہٰذا مال کے ہر حصے
کی مدت الگ ہوتی ہے۔ مذکورہ بالا تشریح کی روشنی میں زکوٰۃ کی تشخیص کی
مقررہ تاریخ سے چند دن قبل بھی اگر کوئی مال ’’صاحبِ نصاب‘‘ کی ملکیت میں آ
جائے تو اسے پہلے سے موجود مال میں شامل کر کے کل مالیت پر زکوٰۃ ادا کرنا
ضروری ہے۔
اموالِ تجارت پر زکوٰۃ
مسلمان تاجر کی ملکیت میں جو بھی مال ہے،
یعنی نقد رقم، بینک اکاؤنٹ، بانڈز، ڈیپازٹس، سونا، چاندی اور مالِ تجارت
وغیرہ، سب کی مالیت پر زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے۔ زکوٰۃ ادا کرنے کی غرض سے
سونا، چاندی اور مالِ تجارت کی وہ قیمت معتبر ہے جو وجوبِ زکوٰۃ کے وقت ہو
گی۔ یعنی قیمت خرید کا اعتبار نہیں ہے۔ لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ
مسلمان تاجر کو وجوبِ زکوٰۃ کی مقررہ تاریخ پر اپنے مالِ تجارت کی محتاط
اسٹاک چیکنگ اور یعنی صحیح قیمت کا تعین کرنا چاہیے۔
صنعت کاروں کی تشخیص
وہ کارخانہ جو پیداواری مقاصد کے لیے
استعمال ہو رہا ہے، اس کی زمین، عمارت، متعلقہ تنصیبات اور مشینری کی قیمت
پر جو صنعتی پیداواری مقاصد میں استعمال ہو رہی ہے، زکوٰۃ عائد نہیں ہو گی۔
البتہ مسلمان صنعت کار کو اپنے دیگر تمام اموال کے ساتھ کارخانے میں موجود
خام مال اور تیار مال پر بھی زکوٰۃ ادا کرنی ہو گی۔
تشخیص زکوٰۃ کے وقت کا واجب الادا قرض کا مسئلہ
تاجر حضرات کا اکثر مارکیٹ میں لین دین جاری
رہتا ہے، کسی سے کچھ لینا ہے اور کسی کو کچھ دینا ہے۔ تجارت سے ہٹ کر بعض
اوقات لوگوں کا شخصی لین دین بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا تشخیصِ زکوٰۃ کے وقت واجب
الوصول رقم کو اپنی مالیت میں جمع کر کے اس سے واجب الادا رقم کو منہا کر
دیا جائے۔ اس کے بعد جو مجموعی مالیت بنے گی اس پر زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔
طویل میعادی قرض اور صنعتی قرض کا مسئلہ
ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کا قرض، بعض
صنعتی اور تجارتی قرضوں کی ادائیگی فی الفور لازم نہیں ہوتی بلکہ وہ پانچ،
دس، پندرہ سال یا اس سے بھی زائد مدت پر محیط ہوتے ہیں۔ ماہانہ یا سالانہ
اقساط واجب الادا ہوتی ہیں۔ فوری ادائیگی کا نہ قرض خواہ ادارہ مطالبہ کرتا
ہے اور نہ ہی مقروض فرد فوری طور پر بارِ قرض سے سبکدوش ہونا چاہتا ہے۔ اس
کا واضح ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنی ملکیت میں رقم ہونے کے باوجود مقررہ اقساط
سے زیادہ ادا نہیں کرتا۔ ورنہ یہ سوال زیرِ بحث آنے کی نوبت ہی نہ آئے۔
ایسے قرضوں کے بارے میں ہمارے فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ یہ وجبِ زکوٰۃ اور
ادائیگی کے لیے مانع نہیں ہیں۔ اس کی ایک مثال فقہاء نے بیوی کے مہر مؤجل
کی دی ہے کہ بیوی مطالبہ نہیں کرتی اور شوہر کا عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ
وہ سرِ دست ادا نہیں کرنا چاہتا، لہٰذا شوہر تشخیص زکوٰۃ کے وقت ایسے دین
مہر کو اپنی کل مالیت سے منہا نہ کرے۔ میعادی قرضوں کی نوعیت بھی اس سے
مختلف نہیں ہے۔ اسی طرح طویل المدتی صنعتی قرضوں کا معاملہ ہے، ایک طرف تو
اِن قرضوں کے مقابل اتنی یا اس سے زیادہ مالیت کے اثاثے موجود ہوتے ہیں،
صنعت بیمار قرار پاتی ہے لیکن صنعت کار کی مالی صحت پر اس کے اثرات مرتب
نہیں ہوتے۔ اس کے بنگلے، ذاتی جائیدادیں، کاریں، غیرملکی مہنگے سفر ان کے
اور ان کے اہل و عیال کی بود و باش اور رہن سہن انتہائی تمول کی سطح پر نظر
آتے ہیں۔ کچھ ہمارے ملکی قوانین، انکم ٹیکس وغیرہ کے پیچیدہ قوانین، بیورو
کریسی کے بے کراں صوابدیدی اور انضباطی اختیارات ایسی وجوہ ہیں کہ کالے
دھن اور سفید دھن کا مسئلہ آج تک حل نہیں ہو پایا۔ ہمارے اہلِ ثروت اور
صنعت کاروں کو اﷲ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ معاملہ شفاف رکھنا چاہیے تاکہ کل
قیامت کے دن اپنے ہی جمع کردہ مال سے نہ داغے جائیں۔
مکان، دکان، فلیٹس اور پلاٹوں پر زکوٰۃ
ذاتی استعمال کا مکان زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہے۔
وہ مکان، یا پلاٹ یا دکانیں یا فلیٹس جو کرائے پر چڑھے ہوئے ہیں، ان کی
سالانہ آمدنی وضع مصارف کے بعد مالکِ جائیداد کی مجموعی سالانہ آمدنی میں
جمع ہو گی اور تمام ذرائع آمدن سے اختتام سال پر جو رقم پس انداز ہو گی، اس
سب پر زکوٰۃ ہے۔ ایسے مکانات، پلاٹس، دکانیں یا فلیٹس جو کارباری اور
تجارتی مقاصد کے لیے ہیں، یعنی نفع کمانے کی غرض سے، ان سب کی مالیت پر
زکوٰۃ ہے۔ اور اس میں قیمت خرید کا نہیں ہے بلکہ موجودہ قیمت کا اعتبار ہو
گا۔ بطور انویسٹمنٹ پلاٹس اور جائیدادیں خریدنے والوں کے لیے یہ سب سے
زیادہ قابلِ توجہ مسئلہ ہے۔ کرائے پر دیئے ہوئے مکان، دکان، فلیٹس وغیرہ کے
ڈیپازٹ کی رقم جو جائیداد کے مالک کے پاس بطور زرِ ضمانت جمع ہے، اس کی
زکوٰۃ رقم کا اصل مالک (کرایہ دار) ادا کرے گا، اسی طرح تاجر حضرات، ایجنسی
ہولڈرز کی جو رقوم بطور ضمانت کسی ادارے یا فرم کے پاس جمع ہیں اور قابلِ
واپسی ہیں، اس رقم کی زکوٰۃ بھی اصل مالک کو ادا کرنی ہو گی۔
اگر صاحبِ نصاب کی قرض کی رقم پھنسی ہوئی ہے
اور مقروض نادہندہ ہے لیکن اس کی واپسی کی آس قائم ہے تو اس کی زکوٰۃ دے
دینی چاہیے۔ اگر نہ دی تو ملنے پر گزشتہ ساری مدت کی زکوٰۃ واجب الادا ہو
گی۔ البتہ قرض کی ڈوبی ہوئی رقم کی زکوٰۃ اگر نہ دی تو وہ جواب دہ نہیں ہو
گا۔
استعمال کے زیورات پر زکوٰۃ
سونا اور چاندی از روئے شریعت خلقی طور پر
مال ہیں۔ لہٰذا یہ کسی بھی ہئیت میں ہوں، ان پر زکوٰۃ واجب ہے۔ مثلاً برتن،
مالیاتی سکے، سونے یا چاندی کی ڈلی استعمال کے زیورات وغیرہ۔ عبداﷲ بن عمر
العاص رضی اﷲ عنہ سے راویت ہے کہ ایک خاتون اپنی ایک لڑکی کو لے کر رسول
اﷲ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس لڑکی کے ہاتھوں میں سونے کے موٹے اور بھاری
کنگن تھے۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’تو کیا تم اس بات پر خوش ہو گی کہ اﷲ
تعالیٰ (زکوٰۃ نہ دینے کی بناء پر) ان کنگنوں کے عوض قیامت کے دن تمہیں آگ
کے کنگن پہنائے؟‘‘ یہ (وعیدِ عذاب) سنتے ہی اس نے وہ کنگن اتار کر رسول اﷲ ﷺ
کو دے دیئے اور عرض کیا کہ یہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی راہ میں صدقہ ہیں۔
(سنن ابی داؤد، سنن نسائی، جامع ترمذی) حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی
ہیں کہ مَیں سونے کے ’’اوضاح‘‘ (ایک خاص زیور کا نام ہے) پہنتی تھی۔ مَیں
نے اس کے بارے میں رسول اﷲ ﷺ سے پوچھا: ’’یا رسول اﷲؐ! کیا یہ بھی اس کنز
میں شامل ہے؟‘‘ (جس پر سورۃ توبہ آیت 34، 35 میں عذابِ جہنم کی وعید آئی
ہے) حضور ﷺ نے فرمایا: ’’جو سونے کے زیورات اتنی مقدار کو پہنچ جائیں کہ ان
پر زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے اور ان کی زکوٰۃ ادا کر دی جائے تو ان پر کنز کا
اطلاق نہیں ہوتا۔‘‘ (سنن ابی داؤد، مؤطا امام مالک) اگر سونا چاندی مخلوط
ہو یا کسی اور چیز کی ملاوٹ اس میں ہو تو غالب جز کا اعتبار ہو گا۔ یعنی
اگر شے مخلوط میں غالب مقدار سونا ہے تو اسے سونا قرار دے کر زکوٰۃ ادا
کرنی ہو گی ورنہ نہیں، البتہ ہیرے اور دوسرے قیمتی پتھر مثلاً زمرد، عقیق،
یاقوت وغیرہ تو اگر وہ تجارت کے لیے ہیں تو ان پر زکوٰۃ ہے، ذاتی استعمال
میں ہوں تو ان پر زکوٰۃ نہیں ہے۔
بچوں کی شادی کے لیے مخصوص زیورات پر زکوٰۃ
اگر صاحبِ نصاب نے اپنے بیٹوں یا بیٹیوں کی
شادی کے لیے زیورات بنوا کر رکھے ہوئے ہیں، تو اس کی دو صورتیں ہیں، ایک تو
یہ کہ اس نے اولاد کو اس کا مالک بنا دیا ہے، دوسری یہ کہ بدستور اس کی
مِلک میں ہیں، جو بھی صورت ہو وہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ نہیں۔ البتہ اگر وہ بیٹا
یا بیٹی جس کی شادی کے لیے اس کے والد نے رقم الگ کر رکھی ہے، نابالغ ہے
اور وہ حقیقتاً اس کا وکیل ہے، اور یہ اس کا محض زکوٰۃ سے بچنے کا حیلہ
نہیں ہے، تو اس مال پر زکوٰۃ نہیں ہے، کیونکہ اب وہ حکماً اس نابالغ بچے کا
مال ہے اور فقہ حنفی میں نابالغ کے مال پر زکوٰۃ نہیں ہے۔
حج کے لیے جمع شدہ رقم پر زکوٰۃ
اگر کسی نے حج کے لیے رقم جمع کر رکھی ہے
اور نیت یہ ہے کہ اس رقم کو حج پر صرف کرے گا تو وہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ نہیں
ہے۔ ہاں البتہ اگر حکومت کے پاس اس مَد میں جمع کرا دیئے ہیں تو وہ زکوٰۃ
سے مستثنیٰ ہوں گے۔
پھنسا ہوا قرض زکوٰۃ میں محسوب نہیں ہوتا
اگر مقروض نادہندہ اور نادار ہے تب بھی
پھنسی ہوئی رقم کے لیے یہ نیت کر لینا کہ وہ زکوٰۃ میں عنداﷲ محسوب ہو
جائے، ایسی نیت کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی، جب تک کہ ابتداً نادار کو
دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت نہ کی جائے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اب اسے زکوٰۃ
کی رقم دے دے اور مقروض اس رقم کا مالک بن کر ادائے قرض میں اسے واپس کر
دے، یہ شرعاً جائز ہے لیکن یہ آزادانہ تصرف ہو گا، زکوٰۃ دیتے وقت یہ شرط
عائد نہیں کی جا سکتی۔ نیز فقہاء کرام نے ادائے زکوٰۃ میں اس امر کو مستحسن
قرار دیا ہے کہ زیادہ فقراء کو فائدہ پہنچایا جائے۔ لہٰذا کسی ایک مستحق
کو زکوٰۃ کی بھاری رقم دے دینا جائز تو ہے لیکن شرعاً پسندیدہ امر نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment