Thursday, 4 June 2015

جہاد فرض کفایہ کی تعریف و احکام


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
( ۱ ) تمام علماء کرام کا اتفاق ہے کہ جب تک کافر اپنے ملکوں میں ہوں تو ان سے جہاد کرنا اور ان کے ملکوں پر چڑھائی کرنا فرض کفایہ ہے۔

( ۲ ) حضرت سعید ابن المسیب اور علامہ ابن شبرمہ [جیسے حضرات تابعین ] کے نزدیک ہر حال میں جہاد فرض عین ہے [ کیونکہ جو شخص بغیر جہاد کئے مر جائے اور اس نے جہاد کی نیت بھی نہ کی ہو تو وہ منافقت کے ایک حصے پہ مرتا ہے چونکہ نفاق سے بچنا اور ایمان لانا فرض عین ہے اسی لئے جہاد بھی فرض عین ہے یہ دونوں حضرات اور ان کے ہم خیال اکابر اس طرح کے اور بھی دلائل جہاد کے ہرحال میںفرض عین ہونے پر پیش فرماتے ہیں ]

( ۳ ) فرض کفایہ کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اگر اتنے لوگ جہاد کیلئے نکل کھڑے ہوں جو اس کام کیلئے کافی ہو رہے ہوں تو باقی لوگوں سے جہاد کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے اور ان پر جہاد چھوڑنے کا گناہ بھی نہیں رہتا لیکن اگر سارے مسلمان جہاد چھوڑ کر بیٹھ جائیں تو صحیح قول کے مطابق جتنے بھی لوگ شرعی معذور نہیں ہیں وہ سب گنہگار ہوجائیں گے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اس صورت میں سب لوگ گنہگار ہوں گے معذور بھی اور غیر معذور بھی۔

( ۴ ) فرض کفایہ کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ سال میں ایک مرتبہ ضرور کافروں کے کسی ملک یا علاقے پر حملہ کیا جائے اور اس سے زیادہ بار حملہ کرنا بغیر کسی اختلاف کے افضل ہے اور مسلمانوں کیلئے یہ ہرگز جائز نہیں ہے کہ وہ کوئی سال ایسا گزاریں جس میں انہوں نے کافروں پر حملہ نہ کیا ہو البتہ مندرجہ ذیل مجبوریوں کی وجہ سے ایسا کرنا جائز ہے، مسلمانوں کی کمزوری دشمن کی بہت زیادہ کثرت، مسلمانوں کی مکمل شکست اور مکمل خاتمے کا خطرہ، سامان کی کمی، جانوروں کے چارے کی کمی وغیرہ [ یعنی ان ضروریات اور اعذار کی وجہ سے فرض کفایہ جہاد کو موخر کیا جا سکتا ہے تاکہ مسلمان اچھی طرح تیاری کر سکیں لیکن اگر جہادفرض عین ہوچکا ہو تو پھر موخر کرنے کی گنجائش نہیں رہتی جیسا کہ آگے اس کا ذکر آئے گا ] لیکن اگر تاخیر کیلئے کوئی ضرورت یا عذر نہ ہو تو پھر ایک سال تک جہاد کا ناغہ کرنا ہرگز جائز نہیں ہے اس بات کو امام شافعی رحمہ اللہ نے مکمل وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔(کتاب الام ص ۱۶۸ج۔۴)

( ۵ ) امام الحرمین رحمہ اللہ (المتوفی ۴۷۸) ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اس بارے میں زیادہ بہتر قول حضرات اصولیین کا ہے وہ فرماتے ہیں کہ جہاد ایک قہری دعوت ہے [ یعنی اسلام ایک ایسی دعوت ہے جس کے پیچھے طاقت کارفرما ہوتی ہے ] اس لئے جس قدر ممکن ہو اسے ادا کرنا چاہئے تاکہ دنیا میں یا تو مسلمان باقی رہیں یا ذمی [ یعنی وہ کافر کو مسلمانوں کو جزیہ دیتے ہوں ] چنانچہ [ فرض کفایہ کی ادائیگی کیلئے ] سال میں ایک مرتبہ جہاد کی تخصیص نہیں کرنی چاہئے بلکہ اگر ایک سے زیادہ مرتبہ حملہ کرنے کا امکان ہو تو اس سے دریغ نہ کیا جائے، حضرات فقہاء کرام نے سال میں ایک مرتبہ جہاد کی جو بات فرمائی ہے تو اس کا تعلق اس سے ہے کہ عام طور پر ہر سال میں ایک ہی بار یہ ممکن ہوتا ہے کہ اسلامی لشکر کی تیاری کے لئے افراد و اموال کو جمع کیا جا سکے۔ (روضۃ الطالبین ص۲۰۹ج۔ ۱ )؂
(۶ ) حنابلہ میں سے صاحب المغنی [ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ ] فرماتے ہیں کہ اگر کوئی عذر نہ ہوتوسال میں کم از کم ایک بار جہاد کرنا [ یعنی خود کافروں کے ملک پر حملہ کرنا ] فرض ہے۔ اور اگر ایک مرتبہ سے زائد کی ضرورت پڑے تو وہ بھی فرض ہوگا کیونکہ جہاد فرض کفایہ ہے [ تو جب تک کفایت نہ ہو اس کی فرضیت باقی رہے گی] اس لئے جتنی مرتبہ کی ضرورت ہوگی اتنی مرتبہ فرض ہوگا۔ (المغنی ص۳۴۸ج۔۸)

(۷) امام قرطبی رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے امام پر سال میں ایک مرتبہ دشمنان اسلام کی طرف لشکر بھیجنا فرض ہے امام یا خود اس لشکر کے ساتھ نکلے گا یا پھر اپنے کسی معتمد کو بھیجے گا۔ پھر یہ امام یا اس کا نائب دشمنان اسلام کے پاس پہنچ کر انہیں اسلام کی دعوت دیں گے اور [ دعوت قبول نہ کرنے کی صورت میں] ان کی طاقت کو توڑیں گے اور اللہ کے دین کو غالب کریں گے اور یہاں تک [ ان سے لڑیں گے] کہ یا تو وہ مسلمان ہوجائیں یا جزیہ دینا منظور کرلیں۔ (الجامع لاحکام القرآن ص ۱۵۲ج۔۸)

(۸) جہاد فرض نہیں ہے بچے، پاگل، عورت اور اس شخص پر جو کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو جس کی وجہ سے وہ جہاد نہ کر سکے۔ لیکن ایک آنکھ سے معذوری، سردرد، داڑھ کے درد اور ہلکے بخار کی وجہ سے جہاد کی فرضیت ساقط نہیں ہوتی اسی طرح اس شخص پر بھی جہاد فرض ہے جو معمولی لنگڑا ہو یہ امام احمد رحمہ اللہ کا مسلک ہے اور میرے خیال میں کسی [ فقیہ ] کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
(المغنی لابن قدامہ۔ صف ۳۴۷،۳۴۸۔ج۔۸)

( ۹ ) علماء کرام کا اتفاق ہے کہ [ فرض کفایہ ] جہاد مسلمان والدین کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے ماں باپ کی غیر موجودگی میں دادا دادی کا بھی یہی حکم ہے بلکہ صحیح قول کے مطابق والدین کے ہوتے ہوئے بھی دادادادی سے اجازت ضروری ہے۔(المغنی لابن قدامہ۔ص۳۵۸ج۔۸)
مسئلہ: اگر کسی کو اس کے والدین نے جہاد کی اجازت دے دی مگر پھر انہوں نے اجازت واپس لے لی اب اگر اجازت کی واپسی ان کے لڑکے کے محاذ جنگ پر پہنچنے سے پہلے ہوئی ہے تو لڑکے پر لازم ہے کہ واپس آجائے مگر یہ کہ واپسی میں اسے جان ومال کا یا دوسرے مجاہدین کے دل ٹوٹنے کا خطرہ ہو [ اگر ایسا ہو تو وہ واپس نہ آئے ] اگر اسے راستے میں ماں باپ کی طرف سے اجازت واپس لینے کی اطلاع ملی مگر وہ اکیلا واپس آنے میں خطرہ محسوس کرتا ہے تو اگر اسے راستے میں کہیں قیام کی جگہ مل جائے تو وہاں رکا رہے اور جب لشکر واپس آئے تو ان کے ساتھ یہ بھی لوٹ آئے لیکن اگر والدین نے جنگ شروع ہونے کے بعد اپنی اجازت واپس لے لی تو ایسے وقت میں اس کیلئے واپس آنا حرام ہے۔ [کیونکہ جب دونوں لشکر آمنے سامنے آجائیں تو جہاد فرض عین ہوجاتا ہے اور فرض عین میں والدین کی اجازت ضروری نہیں ہوتی۔] (المغنی لابن قدامہ ص۳۵۹ ج۔۸)

( ۱۰ ) [ جہاد اگر فرض کفایہ ہو تو ] اس آدمی کے نکلنے کا کیا حکم ہے جس پر قرضہ ہو۔ اس بارے میں فقہاء کرام کے مختلف اقوال میں امام ابوبکر ابن المنذر نے کتاب الاشراف میں لکھا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے تو ایسے مقروض شخص کو جہاد میں جانے کی اجازت دی ہے جس کے پاس قرض کی ادائیگی کیلئے کچھ نہ ہو امام اوزاعی رحمہ اللہ نے بھی مقروض شخص کو بغیر قرض خواہ کی اجازت کے نکلنے کی رخصت دی ہے امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مقروض آدمی کیلئے جہاد میںنکلنے کی اجازت تب ہے جب وہ اپنے قرض خواہوں سے پوچھ لے خواہ قرض خواہ مسلمان ہوں یا کافر۔ ( کتاب الام ص۱۶۳ج۔۴)
ابن المنذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ احد کی لڑائی میںحضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے والد جہاد میںنکلے تھے حالانکہ ان پر قرض تھا۔ (صحیح بخاری)

اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو بھی ان کے مقروض ہونے کا علم تھا مگر کسی نے انہیں جہاد میں نکلنے سے نہیں روکا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مقروض آدمی کیلئے جہاد منع نہیں ہے بشرطیکہ اس نے ایسا ترکہ چھوڑا ہو جس سے قرض کی ادائیگی ہو سکتی ہو۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی مسلک ہے اور انہوں نے ابن المنذر کی طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد حضرت عبداللہ بن حرام کے واقعے سے دلیل پکڑی ہے۔ (المغنی لابن قدامہ ص ۲۶۰ج۔۸)واللہ اعلم۔
امام ابو زکریا نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر مقروض تنگ دست ہو تو اسے جہاد سے نہیں روکا جائے گا کیونکہ اس سے فوری ادائیگی کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا اور اگر مقروض تنگ دست نہ ہو تو اگر وہ قرضے کی ادائیگی کیلئے اپنا کوئی ایسا نائب بنا جائے جو اس کے موجودہ مال میں سے قرض ادا کر سکے تو ایسے مقروض کو جہاد میں نکلنے کی اجازت ہے لیکن اگر وہ اپنے نائب کو کسی غیر موجود مال میں سے قرض ادا کرنے کا کہے تو پھر اس کیلئے نکلنا جائز نہیں ہوگا۔ اور اگر قرضے کی ادائیگی کیلئے کوئی وقت مقرر ہے تو پھر [ اس وقت سے پہلے ] مقروض کو جہاد میں نکلنے سے نہیں روکا جائے گا یہی قول زیادہ صحیح ہے۔ (روضۃ الطالبین ص ۲۱۰ج۔۱۰)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...