Thursday, 4 June 2015

حکم جہاد قرآن و حدیث کی روشنی میں ( 9 )


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عمرو بن ام مکتوم نے غزوہ احد کے دن فرمایا میں نابیناآدمی ہوں آپ لوگ لشکر کا جھنڈا مجھے دے دیں کیونکہ اگر علمبردار [ جھنڈے والا ] پیچھے ہٹ جائے تو پورا لشکر شکست کھا جاتا ہے مجھے تو یہ پتہ ہی نہیں چلے گا کہ کون مجھ پر وار کرنا چاہتا ہے چنانچہ میں اپنی جگہ پر ڈٹا رہوں گا [ اور کسی حملے کے خوف سے پیچھے نہیں ہٹوں گا ] [یہ تو ان کا جذبہ تھا مگر ]اس دن جھنڈا برداری کی سعادت حضرت مصعب ابن عمیر رضی اللہ عنہ کو نصیب ہوئی۔ ( الجامع لاحکام القرآن )

٭ حضرت عبداللہ بن مبارک عطیہ بن ابی عطیہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کوفہ کی لڑائی کے دنوں میںحضرت ابن ام مکتوم کو دیکھا کہ وہ [شوق جہاد میں] اپنی لمبی زرہ کو لشکر کی صفوں کے درمیان گھسیٹتے پھر رہے تھے۔ (کتاب الجہاد لابن مبارک)

٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ آیت انفروا اخفافا وثقالا پڑھی تو فرمانے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جہاد کا حکم دیا ہے اور ہم بوڑھے ہوں یا جوان ہمیں نکلنے کا حکم دیا ہے[ان کے عزم اور تیاری کو دیکھ کر ] ان کے بیٹھے کہنے لگے کہ آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کے زمانے میں جہاد فرمایا ہے اب ہم آپ کی طرف سے جہاد کریں گے [ مگر وہ خود نکلے ] پھر انہوں نے سمندری لڑائی میں حصہ لیا اور دوران جہاد جہاز ہی پر انتقال فرمایا ان کے رفقاء نے کوئی جزیرہ ڈھونڈنا شروع کیا تاکہ انہیں دفن کر سکیں مگر انہیں سات دن بعد اس میں کامیابی ملی [ ان سات دنوں میں ] حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے جسم مبارک میں کوئی تغیر نہ آیا۔ (کتاب الجہاد لا بن مبارک)

٭ حضرت امام ضحاک رحمہ اللہ آیت کتب علیکم القتال وھو کرہ لکم کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جب جہاد کی آیت نازل ہوئی تو مسلمانوں پر یہ گراں گزری پھر جب اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کا اجرو ثواب ان کی فضیلت اور شہادت کے بعد ان کی زندگی اور ان کیلئے [ خاص ] روزی کا بیان فرمایا تو پھر [ اللہ تعالیٰ کے وعدں پر ] یقین رکھنے والوں نے جہاد پر کسی چیز کو ترجیح نہیں دی پس انہوں نے جہاد کو اپنا محبوب بنالیا اور اس میں انہیں خوب رغبت ہوگئی یہاں تک کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں جانے کیلئے سواری مانگتے تھے۔ مگر جب اللہ کے رسول ان کے لئے سواری نہ پاتے تو وہ روتے ہوئے واپس لوٹتے تھے اس غم میں کہ ان کے پاس جہاد کیلئے خرچہ نہیں ہے۔ (کتاب الجہاد لا بن مبارک)

٭ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم لوگوں پر تین سفر لازم کر دئیے گئے ہیں حج، عمرہ اور جہاد۔
٭ حضرت مکحول رحمہ اللہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ قبلہ رخ ہو کر دس قسمیں کھاتے اور فرماتے کہ جہاد تم پر فرض ہے پھر فرماتے کہ اگر تم چاہو تو میں [ تمہارے اطمینان قلب کے لئے ] مزید قسمیں بھی کھا سکتا ہوں۔ (مصنف عبدالرزاق)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...