Saturday, 13 June 2015
امام کے پیچھے قراءت منع ھے قرآن اور تفاسیر کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قرآن کریم مع التفسیر : ۔
قال اللہ عزوجل: وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الاعراف :204)
اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت نماز کے بارے میں نازل ہوئی۔
قال أحمد: فالناس على أن هذا في الصلاة وعن سعيد بن الْمُسَيَّبِ و الحسن و إبراهيم و محمد بن كعب و الزهري أنها نزلت في شأن الصلاة وقال زيد بن أسلم و أبو العالية كانوا يقرأون خلف الإمام فنزلت : (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ) وقال أحمد في رواية أبي داود : أجمع الناس على أن هذه الآية في الصلاة ولأنه عام فيتناول بعمومه الصلاة۔ (المغنی لابن قدامۃ ج2ص117، مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ ج22ص150)
تفسیر نمبر 1 : ۔
قَدْ اخرج الامام المحدث أبو بكر أحمد بن الحسين بن علي البيهقي م 458 ھ :أخبرنا أبو الحسن علي بن أحمد بن عبدان أنا أحمد بن عبيدا لصَّفَّارُ ، نا عبيد بن شَرِيكٍ ، نا ابن أبي مريم ، نا ابن لَهِيعَةَ ، عن عبد الله بن هُبَيْرَةَ ، عن عبد الله بن عباس ، « أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قرأ في الصلاة فقرأ أصحابه وراءه فخلطوا عليه فنزل (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا) فهذه في المكتوبة » ثم قال ابن عباس : « وإن كنا لا نستمع لمن يقرأ إنا إذًا لأجفىٰ من الحمير »
(کتاب القراءۃ للبیہقی ص109رقم الحدیث:255)
تحقیق السند: اسنادہ حسن ورواتہ ثقات۔
اعتراض : ۔
اس سند میں ایک راوی عبد اللہ بن لھیعہ بن عقبہ ضعیف و مجروح ہے ۔لہذا یہ روایت حجت نہیں ۔
جواب : ۔
اولاً۔۔۔۔ امام عبد اللہ بن لھیعہ بن عقبہ بن فرحان م174 ھ صحیح مسلم ،ابو داؤد ،ترمذی ، ابن ماجہ ،وغیرہ کے راوی ہیں، یہ مختلف فیہ راوی ہیں ۔ بعض حضرات نے اگرچہ ان پر کلام کیا ہے لیکن بہت سے ائمہ نے ان کو الحافظ،الامام الکبیر، عالم، محدث، العلا مۃ، محدث الد یار المصریۃ قرار دیا ہے۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: لم یکن بمصر مثل ابن لھیعۃ وکثرت حدیثہ و ضبطہ واتقانہ
(العِبَر فی خبر مَنْ غَبَر للذھبی ج؛ 1 ؛ص؛135 ، تذکر ۃ الحفاظ للذھبی ؛ج؛ 1 ص؛174 ،سیر اعلام النبلاء للذھبی ج؛6؛ص284 ، التھذیب لابن حجر ؛ج3ص631 رقم الترجمہ 4134 ، التقریب لابن حجر :ص353 رقم الترجمہ3563)
محدثین کے ہاں جو راوی مختلف فیہ ہو اس کی روایات حسن درجہ کی ہو تی ہیں۔(فتح المغیث للسخاوی : ج۳ ص۳۵۹، قواعد فی علوم الحدیث: ص75)
لہذا یہ روایت حسن ہے۔
امام ابو عیسی ترمذی رحمہ اللہ ایک حدیث کی سند نقل کرتے ہیں:
حدثنا قتیبۃ ثنا ابن لھیعۃ عن یزید بن ابی حبیب عن ابی الخیر عن عقبۃ بن عامر قال الخ
(جامع الترمذی ؛ج1ص؛288 باب ماجاء ما یحل من اموال اھل الذمۃ )
اس کے بعدفرماتے ہیں: ” ھذا حدیث حسن ” اور اس میں ابن لھیعۃ موجود ہے۔
اور علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد میں کئی مقامات پر ابن لھیعۃ کی حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ مثلاً
1:وعن جابر رضي الله عنه قال : أمر النبي صلى الله عليه و سلم سُحَيْمًا أَنْ يُؤَذِّنَ في الناس أن ” لا يدخل الجنة إلا مؤمن “
رواه أحمد وفيه ابن لهيعة وإسناده حسن (ج1ص213)
2:وعن عبد الله بن الحارث أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : لوددت أن بيني وبين أهل نجران حجابا من شدة ما كانوا يجادلونه ۔
رواه البزار والطبراني في الكبير وفيه ابن لهيعة وحديثه حسن (ج1ص387)
3:وعن معاوية بن خديج قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : غدوة في سبيل الله أو روحة خير من الدنيا وما فيها ۔
رواه أحمد والطبراني وفيه ابن لهيعة وهو حسن الحديث وبقية رجاله ثقات (ج3ص428)
ثانیاً۔۔۔۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الحسن وھوفی الاحتجاج کالصحیح عند الجمہور
(اختصار فی علوم الحدیث لابن کثیر ص؛ 39النوع الثانی)
نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بسند صحیح موقو فاً روایت مروی ہے جو اس کی موید ہے۔
أخبرنا أبو زكريا بن أبي إسحاق المزكي ، أنا أبو الحسن أحمد بن محمد بن عَبْدُوس ، نا عثمان بن سعيد نا عبد الله بن صالح ، حدثني معاوية بن صالح ، عن علي بن أبي طلحة ، عن ابن عباس ، في قوله : « (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا) يعني في الصلاة المفروضة »
(کتاب القراءۃ للبیھقی ؛ص88 رقم الحدیث 222)
ایک مقام پرزبیر علی زئی غیر مقلد نے مر فو ع ضعیف کو بوجہ موقوف صحیح کے حسن قرار دیا ہے (نورالعینین لعلی زئی ص333) جبکہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما مرفوعاًضعیف نہیں بلکہ حسن ہے تو یہ موقوف صحیح کی وجہ سے مزید قوی بن جائے گی۔لہذا یہ روایت حسن لذاتہ ہے اور ترک قراءت خلف الامام پر واضح دلیل ہے ۔
تفسیر نمبر 2 : ۔
قد روی الامام الحافظ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد أبي حاتم بن إدريس بن المنذر التميمي الحنظلي الرازي م 327 ھ: حدثنا يونس بن عبد الاعلى انبا ابن وهب ، ثنا أبو صخر عن محمد بن كعب القرظى : قال كان رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) إذا قرا في الصلاة اجابه من وراءه إذا قال بسم الله الرحمن الرحيم قالوا مثل ما يقول حتى تنقضي الفاتحة والسورة فلبث ما شاء الله ان يلبث ثم نزلت : وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ فَقَرَاَ وانْصَتُوا .
(تفسیر ابن ابی حاتم الرازی ج4ص259رقم9493)
تحقیق السند: اسنادہ صحیح علی شرط مسلم
اعتراض : ۔
یہ روایت مرسل ہے کیونکہ محمد بن کعب القرظی (م40ھ علی الاصح) تابعی ہیں صحابی نہیں، اور مرسل حجت نہیں۔
جواب:
مرسل عند الجمہور حجت اور قابل قبو ل ہے ۔
1:قال الامام أبو جعفر مُحَمَّدُ بْنُ جَرِيرٍ الطَّبَرِىُّ م 310ھ: واجمع التابعون باسر ھم علی قبول المرسل ولم یات عنھم انکارہ ولا عن احد من الائمۃ بعد ھم الی راس الماتین (قواعد فی علوم الحدیث للعثمانی: ص 146 ،ص147)
2:قد قال الامام عبد الرحمن الشہیر بابن رجب الحنبلی م795ھ: قد استدل کثیر من الفقہا ء بالمرسل۔۔۔۔ و حُکِیَ الاحتجاج بالمرسل عن اھل الکوفۃ وعن اھل العراق جملۃً و حکاہ الحاکم عن ابراہیم النخعی و حماد بن ابی سلیمان وابی حنیفۃ و صاحبیہ(شرح علل الترمذی لابن رجب ص244)
3:وقال الامام المحدث ظفر احمد العثمانی م1394ھ : اما الاجماع فھوان الصحابۃ والتابعین اجمعوا علی قبول المراسیل من العدل (قواعد فی علوم الحدیث ص؛140 )
نیز اس مرسل کی تائید حدیث ابن عباس متصل مرفوع سے بھی ہوتی ہے [جو پہلےتفسیر نمبر1 کے تحت گزر چکی ہے] لہذا یہ مرسل حجت ہے ۔
اعتراض:
عبدالرحمن مبارکپوری صاحب نے لکھا ہے کہ آیت ”واذا قرء القراٰن“ مکی ہے اور امام کے پیچھے قراءۃ کرنے کا حکم مدینہ طیبہ میں نازل ہوا ہے۔ لہذا متقدم حکم سے متاخر حکم کے خلاف استدلال درست نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی روایات موجود ہیں جو مدینہ میں قراءۃ خلف الامام کے جواز پر دلالت کرتی ہیں ۔
1:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جو شخص امام کے پیچھےسورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی (موطاامام مالک ص29)
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس پر اجماع ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ 7ھ میں مسلمان ہوئے تھے (تلخیص الحبیر ص114)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ مدنی ہیں اور انہوں نے قراءۃ خلف الامام کا ذکر کیا ہے (تحقیق الکلام ج2ص28ملخصاً)
جواب: یہ اعتراض درحقیقت کوئی وزن نہیں رکھتا ۔
اولاً:۔۔۔ آپ کا عمل قراءت خلف الامام پر اس وجہ سے ہے کہ اس کے راوی صحابہ مدنی ہیں تو پھر وہ کثیر صحابہ کرام مثلاًحضرت ابوموسی اشعری، حضرت جابر بن عبداللہ ،حضرت انس بن مالک ،حضرت زید بن ثابت ، رضی اللہ عنہم جو مدنی ہیں اور ان سے (اور خود حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی) ترک قراءۃ خلف الامام کی روایتیں مروی ہیں ان پر آپ کا عمل کیوں نہیں؟
ثانیاً:۔۔۔ سورہ اعراف مدنی ہے۔جیسا کہ علامہ ابن کثیر اپنی تفسیر ج4ص254میں ،اور نواب صدیق حسن خان صاحب اپنی تفسیر فتح البیان ج3ص393میں لکھتے ہیں کہ سورہ اعراف مدنی ہے۔ کیونکہ اس سورت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی امت یہود کا واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور ظاہر ہے کہ یہود کا مرکز مدینہ طیبہ میں تھا نہ کہ مکہ مکرمہ میں ۔
نیز اس آیت کا شان نزول بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ (مدنی صحابی) سے یہی مروی ہے کہ یہ آیت نماز کے بارے میں نازل ہوئی۔ پس ترک قراءت خلف الامام کا حکم مدنی ہی ہے۔
ثالثاً۔۔۔ لیجیے ہم یہ بھی تصریح پیش کر دیتے ہیں کہ خاص یہی آیت مدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔ چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے ایک روایت نقل کرتے ہیں :
أخبرنا أبو عبد الله محمد بن عبد الله الحافظ رحمه الله أنا عبد الرحمن بن الحسن القاضي ، نا إبراهيم بن الحسين ، نا آدم بن أبي إياس ، نا ورقاء ، عن ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ ، عن مجاهد ، قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ في الصلاة فسمع قراءة فتى من الأنصار فنزل وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا (کتاب القراءۃ للبیھقی ؛ص107رقم الحدیث 248)
اس روایت میں ذکر ہے کہ آپ صلى الله علیہ وسلم جب قراءت فرما رہے تھے تو ایک انصاری نوجوان کی قراءت سنی تب یہ آیت نازل ہوئی اور یہ بات واضح ہے کہ انصار مدینہ منورہ ہی میں تھے۔
رابعاً۔۔۔ اگر آیت کو مکی بھی قرار دیا جائے تب بھی ہمارے مدعی پر کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ کئی آیات ایسی ہیں جن کا نزول مکرر ہوا ہے یعنی جو مکہ و مدینہ دونوں میں نازل ہوئیں اور مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ آیت مکہ و مدینہ دونوں میں نازل ہوئی، اس لیے کہ نماز جس طرح مدینہ میں مشروع تھی اسی طرح ابتداء اسلام میں مکہ میں بھی تو مشروع تھی۔ مکہ میں ترک قراءت کا مسئلہ سمجھانے کے لیے یہ آیت پہلی مرتبہ نازل ہوئی اور مدینہ میں یہی مسئلہ سمجھانے کے لیے دوبارہ نازل ہوئی[جیسا کہ مدنی صحابی سے مروی ہے]
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
گیارہویں شریف ایصال ثواب ہے اور جواز کا ثبوت
گیارہویں شریف ایصال ثواب ہے اور جواز کا ثبوت محترم قارئینِ کرام : گیارہویں شریف ایک ایسا نیک عمل ہے کہ صدیوں سے مسلمانوں میں جاری ہے لیکن تح...
 
- 
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
- 
حق بدست حیدر کرار مگر معاویہ بھی ہمارے سردار محترم قارئین : اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما...
- 
بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے یزید پلید کی بیعت کی کا جواب محترم قارئینِ کرام : اکثر رافضیوں اور نیم رافضیوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ بعض صحاب...
 
 
 
No comments:
Post a Comment