Saturday, 13 June 2015

وھابیت تاریخ کے آئینے میں


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تاریخ وہابیت ایک ایسی پینٹنگ کی مانند ہے جس میں تشدد اور انتھا  پسندی کے رنگ بھرے ہیں۔ محمد بن سعود کے ساتھ ابن وہاب کا اتحاد امت اسلام کے لئے بڑا منحوس ثابت  ہوا۔ اسی اتحاد کا نتیجہ تھا کہ نجدی بدوؤں نے اطراف و اکناف کے علاقوں کے بے گناہ مردوں، خواتین اور بچے بوڑھوں کا نہایت ہی بہیمانہ طریقے سے قتل عام کیا اور ان کی مال و دولت کو لوٹتے رہے۔ عبدالوہاب کے بعد اس کےبیٹوں نے بھی اسکی راہ کو جاری رکھا اسی طرح محمد بن سعود کے بیٹوں نےبھی اپنے آبائي اتحاد کو جاری رکھتے ہوئے اپنے نئے فرقے کی ترویج میں کوئي کسر نہیں چھوڑی۔ عبدالعزیز بن محمد بن سعود نے وہابیت کو پھیلانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس نے نہایت ہی بے رحمی سے مسلمانوں کا قتل عام کرکے سارے جزیرۃ العرب میں رعب و وحشت پھیلادیا تھا۔ اسی وہابی حکمران نے اپنے بیٹے سعود کے ہمراہ عالم اسلام کے مقدس ترین شہروں منجملہ مکہ و مدینے میں موجود مقدس مقامات کو منہدم کرکے ان شہروں پر قبضہ کرلیا تھا۔ یاد رہے وہابی سپاہ نے کربلا  پر حملے کرنے اور بارگاہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تاراج کرنے کے بعد اسلام کے مقدس ترین شہر مکہ معظمہ پر قبضہ کیا تھا۔ آج کے پروگرام میں مکے پر وہابیوں کے قبضے کے بارے میں گفتگو کریں گے۔

موسیقی

علماء اسلام کا خیال ہے کہ اگر عبدالعزیز بن سعود اور اسکے بیٹوں کا تشدد نہ ہوتا تو نہ فرقہ وہابیت پھیل سکتا تھا اور نہ ہی حجاز میں سعودی حکومت قائم ہوسکتی تھی۔ وہابیوں اور آل سعود کا یہ شیوہ بن چکا تھا کہ ہر غیر وہابی خواہ سنی ہو یا شیعہ واجب القتل ہے اور اس کا مال و ناموس مباح ہیں۔ جب تک تیل  کا انکشاف نہیں ہوا تھا وہابی مسلمانوں کے قتل و غارت سے اپنا خرچ پورا کرتے تھے۔ عبدالعزیز اور سعود کے مکہ، مدینے اور طائف پر قابض ہونے سے سارے جزیرۃ العرب میں ان کا رعب پھیل گيا۔ آل سعود اور وہابی سپاہ نے مکے مدینے اور طائف پرحملوں کے دوران مشاہد مقدسہ کو مسمار کردیا جن میں اھل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افراد کی بھی مطہر قبریں تھیں۔ وہابیوں نے حرمین شریفین میں آل رسول کے مقبروں کو ویران کرکے اپنے خشک اور جاھلانہ افکار ونظریات کو رواج دینے کی بھر پور کوشش کی۔

وہابیوں نے کربلا و نجف پر حملے کرنے کےبعد اٹھارہ سو دو میں حجاز کے دیگر شہر یعنی طائف پر حملہ کیا۔ یہ حملہ عبدالعزیز کے زمانے میں اور اسکے بیٹے سعود کی کمان میں کیا۔''

عراق کے نامدار شاہر جمیل صدیقی زہاوی طائف پر وہابیوں کےقبض کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہابیوں کے گھناونے ترین جرائم میں اھل طائف کا قتل عام ہے، وہابیوں نے چھوٹے بڑیےکسی پر رحم نہیں کیا، انہوں نے شیر خوار بچوں کو تک نہیں بخشا اور ماؤں کی گودوں میں بچوں کو ذبح کردیا، قران کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا ء کا قتل عام کیا اور جب گھروں میں کوئي باقی نہ بچا تو دوکانوں اور بازاروں کا رخ کرکے لوٹ مارمچائي اور مسجدوں کو بھی نہیں چھوڑا جو بھی ان مقامات میں پایا گيا اسے تہ تیغ کردیا یہاں تک کہ رکوع و سجود میں بھی لوگوں کو قتل کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ وہابی جارحین نے قرآن کریم اور صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دیگر حدیث کی کتابوں کو راستوں میں پھینک دیا اور انہیں روندتے ہوئے گذر گئے۔ وہابیوں نے طائف کے عوام کا قتل عام کرنے کے بعد علماء مکہ کے نام ایک خط بھیجا اور انہیں وہابیت قبول کرنے کی دعوت دی۔ شاہ فضل رسول قادری عرف ہندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب سیف الجبار میں لکھا ہےکہ علماء مکہ نے خانہ کعبہ کے پاس جمع ہوکر وہابیوں کےخط کا جواب لکھنا شروع کیا۔ جب یہ خط لکھا جارہا تھا تو طائف کے لٹے ہوئے لوگوں کا ایک قافلہ مکہ پہنچا اور انہوں نے اپنی روداد سنائي ۔ مکہ میں یہ خبر آگ کی طرح  پھیل گئي کہ وہابی مکے پر حملہ کرنےوالے ہیں ۔ لوگوں میں اس خبر سے وحشت پھیل گئي۔ دوسری طرف سے مذاہب اربعہ کے مفتیوں اور علماء نے جو دیگر اسلامی شہروں سے حج اور عمرہ کرنے مکہ آئےہوئے تھے وہابیوں کو کافر قراردیتے ہوئے کہا کہ وہابی مسلمان نہیں ہیں اور ان کے خلاف جہاد کرنا واجب ہے۔ علماء نے امیر مکہ سے اصرار کیا کہ وہابیوں کےخلاف صف آرائ کرے اور جنگ کے لئے تیار ہوجائے۔

وہابیوں کے خلاف جہاد پر علماء اسلام کے اتفاق کے باوجود مکہ کے باشندے وہابیون کے خلاف جنگ پر آمادہ نہ ہوئے۔ سعود بن عبدالعزیز نے مکہ کے نام ایک اور خط لکھ کر دھمکی دی کہ تین دنوں کے اندر اندر خانہ خدا کے زائرین کے ہمراہ مکہ خالی کردیا جائے۔ اس دھمکی کے بعد مکے کے امیر نے بعض فضلا اور علماء کے  ہمراہ سعود بن عبدالعزیز سے ملاقات کی اور مکے کے لئے امان کی درخواست کی۔ سعود نے ان کے لئے امان نامہ لکھا اور بارہ سو اٹھارہ میں محرم کے مہینے میں مکے میں بغیر جنگ کے داخل ہوا۔ اس نے اھل مکہ کو جمع کر کے انہیں وہابیت کی طرف دعوت دی اور ان سے بیعت لی۔ اس نے خدا رسول ﷺ اور اسلام کے بارے میں اپنے نظریات کے مطابق گفتگو کی اور مکے لوگوں کو مجبور کیا کہ اس کی سپاہ کے ہمراہ مکے بھر میں موجود مقدس مقامات کو مسمار کردیں۔

وہابیوں نے مکہ معظمہ پر تسلط حاصل کرنے کےبعد بزرگان دین کے مقبروں کو مسمار کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے پیدائش کی گنبد مسمار کردی اسی طرح حضرت امیرالمومنین علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جائے پیدائش کے گنبدوں کو مسمار کردیا۔ وہابیوں نے خانہ خدا کے اطراف اور زمزم کنویں پر بنائي گئي عمارتیں منہدم کردیں۔ وہابی جب مقدس مقامات کو منہدم کرتے تو ناچ گانے میں مشغول ہوجاتے تھے۔ وہ مقدس مقامات کو گراتے ہوئے ڈھول بجاتے تھے اور ناچتے تھے۔ کویت کے ا ھل سنت دانشور ڈاکٹر رفاعی اپنی کتاب " وہابی بھائيوں کے لئے نصیحت " کے زیر عنوان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ آپ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریک حیات ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبری کی رہائيش گاہ منہدم کرنے پر راضی ہوگئے اور کسی طرح کی رد عمل ظاہر نہ کیا جبکہ وہ گھر محل نزول وحی قرآن تھا، آپ لوگ خدا سے نہیں ڈرتے اور پیغمبر سے شرم نہیں کرتے۔وہ لکھتے ہیں کہ تم لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے  پیدائش کو ویران کرکے وہاں مال مویشی کا بازار بنادیا لیکن خدا نے صالح افراد کے ذریعے اس مقدس مقام کو تمہارے چنگل سے نکال کر کتب خانے میں تبدیل کردیا۔

وہابیوں کا ایک ظالمانہ ترین اقدام مکہ میں موجود عظیم کتب خانے میں آگ لگا کر اسے خاکستر میں تبدیل کرنا تھا۔ اس عظیم کتب خانے کا نام المکتب العربیہ تھا اور اس میں ساٹھ ہزار کتابیں تھیں، جن میں چالیس ہزار قلمی نسخے تھے۔ ان قلمی نسخوں میں امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دستھائے مبارک کا لکھا ہوا قران کریم بھی تھا، اسکے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے لکھے ہوئے مصاحف نیز کتابیں بھی تھیں۔ اس کتب خانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہتھیار بھی حفاظت سے رکھے گئے تھے۔ اس میں زمانہ جاہلیت کے بت جیسے لات و عزی اور مناۃ بھی رکھے گئے تھے۔ مورخین کا کہنا ہے کہ وہابیوں نے شرک و کفر کے آثار کا بہانہ بنا کر اس کتب خانے کو آگ لگائي تھی اور ایک تاریخی خزانہ کو لمحوں میں خاک میں ملادیا تھا۔

ماضی کی تاریخ اور بزرگوں کے تاریخی آثار کی حفاظت تہذیب و تمدن کا اہم جز شمار ہوتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کی تاریخ و تہذیب کی عکاسی کرنے میں تاریخی آثار اہم کردار ادا کرتے ہیں اسی وجہ سے حکومتیں اور قومیں اپنی ماضی کے آثار کی حفاظت کرتی ہیں، اسکے علاوہ انہیں دیکھ  کرعبرت حاصل کی جاسکتی ہے ، اسی بناپر آج کی قومیں اپنے ماضی کے آثار کی حفاظت کرنے میں بڑی محنت کرتی ہیں۔ اسلام جو تمام تہذیبوں سے زیادہ ترقی یافتہ اور انسانی اصولوں پر مشتمل ھے اس نے بھی بزرگوں کے آثار کی حفاظت پر تاکید کی ہے بنابریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اھل بیت و اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کی یادگار اشیاء کی حفاظت کرنا، انہیں خراج عقیدت پیش کرنا اور ان کی زحمتوں کی قدردانی کرنے کے معنی میں ہے اور اس کے برعکس ان کے آثار کو مٹانا فکری جمود، ہٹ دھرمی اور جہالت کی علامت ہے۔

تاریخ کی کتابیں اور سفرنامے گواہی دے رہےہیں کہ حجاز اور دیگر اسلامی سرزمینوں جاہلانہ تعصب کے مارے وہابیوں نے سیکڑوں مقبرے اور مقدس مقامات شرک کو کفر کے بہانے منہدم کئے ہیں۔
مزید تفصیل ۔ تاریخ نجد و حجاز اور شب جائے کہ من بودم میں پڑھئیے ۔

No comments:

Post a Comment

گیارہویں شریف ایصال ثواب ہے اور جواز کا ثبوت

گیارہویں شریف ایصال ثواب ہے اور جواز کا ثبوت محترم قارئینِ کرام : گیارہویں شریف ایک ایسا نیک عمل ہے کہ صدیوں سے مسلمانوں میں جاری ہے لیکن تح...