Tuesday, 9 June 2015

تصرف و کرامات کا ثبوت احادث مبارکہ کی روشنی میں ( 7 )

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت قیس بن حجاج روایت کرتے ہیں اس سے جس نے انہیں بتایا کہ مصر فتح ہونے کے بعد اہل مصر (گورنر مصر) حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جب عجمی مہینہ بونہ شروع ہوا۔ اور عرض کیا : اے امیر! ہمارے اس دریائے نیل کا ایک معمول ہے جس کی تعمیل کے بغیر اس میں روانی نہیں آتی۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بتاؤ تو وہ کیا معمول ہے؟ ان لوگوں نے جواب دیا : جب اس مہینہ کی بارہ تاریخ آتی ہے تو ہم ایک کنواری لڑکی اس کے والدین کی رضا مندی سے حاصل کرتے ہیں اور پھر اسے عمدہ سے عمدہ زیورات اور کپڑے پہنا کر اس دریائے نیل کی نذر کر دیتے ہیں۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ سب کچھ اسلام میں نہیں ہوگا۔ اسلام زمانہ جاہلیت کی تمام (بے ہودہ) رسوم کو ختم کرتا ہے۔ (راوی نے) کہا : اہل مصر بونہ، ابیب اور مَسرِی تین ماہ تک اس حکم پر قائم رہے۔ نیل کی روانی رُکی رہی پانی کا قطرہ نہ رہا۔ دریائے نیل کی روانی کو بند دیکھ کر لوگوں نے ترک وطن کا ارادہ کیا۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے تمام حالات کی امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ اے عمرو بن عاص! تم نے جو کچھ کیا درست کیا۔ اسلام نے سابقہ (بے ہودہ) رسوم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ میں اپنے اس خط کے اندر ایک رقعہ بھیج رہا ہوں۔ اسے دریائے نیل میں ڈال دینا۔ پس جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا خط حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ تک پہنچا تو انہوں نے اس خط کو کھولا تو اس میں درج ذیل عبارت تھی۔’’اﷲ تعالیٰ کے بندے امیرالمومنین عمر کی طرف سے مصر کے دریائے نیل کے نام! حمدو صلاۃ کے بعد (اے دریا) اگر تو اپنی مرضی سے بہتا ہے تو ہرگز نہ بہہ! اور اگر اﷲ واحدو قہار ہی تجھے رواں کرتا ہے تو ہم خداوندِ واحد و قہار سے سوال کرتے ہیں کہ وہ تجھے جاری کر دے۔ چنانچہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے وہ رقعہ دریائے نیل میں ڈال دیا۔ جب رقعہ ڈالا ہفتہ کے دن صبح لوگوں نے دیکھا کہ ایک رات میں اﷲ تعالیٰ نے سولہ ہاتھ (پہلے سے بھی) اونچا پانی دریائے نیل میں جاری فرما کر اہل مصر سے اسی دن سے آج تک اس قدیم ظالمانہ رسم کو ہمیشہ کے لیے ختم فرما دیا۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ=========================================
الحديث رقم 34 : أخرجه اللالکائي في کرامات الأولياء، 1 / 119، الرقم : 66، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 13 / 103، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 465، والرازي في التفسير الکبير، 21 / 88، والحموي في معجم البلدان، 5 / 335.

No comments:

Post a Comment

ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت

ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کے بارہ مہینے اپنے اندر کوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت ضرور رکھتے ہیں ۔ اسی طر...