Monday, 4 May 2015

بیت المقدس سے سفر معراج کے آغاز کی حکمتیں


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رب کائنات نے ارشاد فرمایا :

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ.

(بنی اسرائيل : 1)

’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے شب معراج نہایت فضیلت والی رات ہے اس لئے کہ اس رات آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ پاک سے ملاقات اور دیدار کی سعادت نصیب ہوئی۔ قرآن مجید کے بعد سب سے بڑا معجزہ اللہ رب العزت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسراء و معراج کی صورت میں عطا فرمایا۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کو اس سے بڑھ کر اور کیا شان و فضیلت نصیب ہو سکتی ہے کہ آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ملاقات، دیدار، اس کے کلام کا سماع، بلا حجاب گفتگو، خصوصی خلوت اور حضوری عطا ہوئی۔

شب معراج آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی خوشیوں کی رات ہے۔ جس رات آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی خوشی، مسرت، فرحت، لذت و حلاوت انتہاء و عروج پر ہے اس رات سے بڑھ کر آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی زندگی میں کوئی اور خوشی کی رات نہیں ہے۔ پس اس رات کو امت خوشی منائے، آقا علیہ الصلاۃ والسلام کو یاد کرے اور ان پہ درود و سلام بھیجے۔ جس رات کی ساعتوں میں آقا علیہ الصلاۃ والسلام خود خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہوئی، اس سے بڑھ کر ان کے لئے اور کوئی نعمت نہیں، باقی ساری نعمتیں ہمارے لئے ہیں۔

سفرِ معراج کے مراحل میں سے پہلا مرحلہ اسراء تھا یعنی مسجد حرام (مکہ) سے القدس (مسجد اقصیٰ) تک کا سفر۔ اس سفر میں کیا حکمتیں پنہاں تھیں؟ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے جب اللہ کے حضور اوپر ہی جانا تھا تو پھر مکہ سے مسجد اقصیٰ (القدس) کیوں لے جایا گیا؟ اس روٹ کو کیوں اختیار کیا گیا؟ سیدھا کعبۃ اللہ یعنی صحن کعبہ سے ہی براق کے ذریعے اوپر کیوں نہیں لے جایا گیا؟

اللہ تعالیٰ اپنے ہر کام کی حکمت خوب جانتا ہے، انسان تو اتنی حکمتیں جان سکتا ہے جتنا اس کا فہم، عقل، بصیرت، فراست اور علم و مطالعہ اس کو اجازت دیتا ہے۔ تاہم ائمہ و محدثین نے سفرِ معراج کے پہلے مرحلہ ’’اسراء‘‘ کی درج ذیل حکمتیں بیان فرمائی ہیں :
1۔ معجزہ معراج کی دلیل۔ بیت المقدس تک کا سفر

ہجرت سے ایک سال قبل معجزہ معراج کے وقت مکہ میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 300 تھی جبکہ شہر مکہ کی آبادی اس وقت 10 لاکھ کے قریب تھی۔ اس وقت مکہ انٹرنیشنل Trade Center تھا، وہاں بین الاقوامی کلچرل و بزنس فیسٹیول اور نمائشیں ہوتی تھیں۔ اس ماحول میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان کرنا تھا کہ میں آج رات کے تھوڑے سے حصہ میں آسمانوں پر گیا، سدرۃ المنتہٰی اور عرش پر گیا، فوق العرش گیا اور اللہ سے ہمکلام ہو کر آیا۔ یہ سب سن کر لامحالہ انہوں نے انکار کیا کیونکہ وہ تو چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھ کر انکار کر گئے تھے کہ یہ جادو ہے، لہذا یہ کون مانتا کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام چشم زدن میں رات کے تھوڑے سے حصہ میں آسمان، عرش اور فوق العرش سے ہو کر واپس آ گئے ہیں۔ پس انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس معجزہ کا انکار کیا اور اس پر دلیل مانگی۔

دلیل اسے کہتے ہیں جو دلیل مانگنے والے کی سمجھ میں بھی آ سکے، دلیل ہوتی ہی اس لئے ہے کہ وہ سمجھ میں آئے تاکہ دعویٰ کو مان سکیں۔ دلیل بھی اگر سمجھ میں نہ آئے تو اسکے دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ دلیل شہادت کو کہتے ہیں جسے Verify کیا جا سکے، اس پر تسلی ہو اور دلیل مانگنے والے کی سمجھ میں آئے تاکہ جو نظر نہیں آ رہا وہ نظر آنے والی دلیل کے ذریعے مانا جا سکے۔

اللہ کو معلوم تھا کہ جب میرا محبوب دعویٰ معراج کرے گا تو کفار و مشرکین دلیل مانگیں گے تو ان کو وہ دلیل دینی پڑے گی جو نظر آنے والی اور سمجھ میں آنے والی ہو۔ اگر کعبۃ اللہ سے سیدھا آسمانوں پر اور پھر وہاں سے پار چلے گئے تو کفار و مشرکین کے دلیل مانگنے پر کیا فرمائیں گے، اس لئے کہ آسمانوں اور اُس سے اوپر کی بات کو بطور دلیل بیان نہ کر سکتے تھے کیونکہ انہوں نے تو اوپر کی دنیا کو دیکھا ہی نہیں تھا، انہیں کیا سمجھاتے، انہیں آسمانی کائنات کا کیا پتہ کہ اوپر کیا کیا چیزیں ہیں اور کیا نہیں ہیں؟ کیا درست مانیں اور کیا نہ مانیں؟ پس یہ منکرین کے لئے کوئی دلیل نہ بنتی تھی۔ دلیل یہ بنتی تھی کہ ایسی جگہ کا بیان کیا جائے جو انکار کرنے والوں نے دیکھ رکھی ہو۔

معجزہ معراج کا انکار کرنے والے تین طبقے تھے۔

    کفار و مشرکین
    یہود
    نصاریٰ

کفار ومشرکین میں سے اکثریت نے یروشلم، القدس اور مسجدِ اقصیٰ کو دیکھا ہوا تھا اور وہ تجارت کی غرض سے شام آتے جاتے تھے۔ معجزہ معراج کا انکار کرنے والے صرف کفار و مشرکین ہی نہیں بلکہ یہودو نصاریٰ بھی تھے اور انہیں بیت المقدس سے تاریخی وابستگی تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک سب کا قبلہ بیت المقدس تھا اس لئے یہودی و عیسائی بھی بیت المقدس سے آگاہ تھے۔

پس اللہ رب العزت نے چاہا کہ محبوب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیجانا تو اوپر ہی ہے مگر ایسے راستے سے لے جاتا ہوں جو بعدازاں آپ کے اس سفر کا انکار کرنے والوں کے لئے دلیل بن سکے اور اُن پر حجت تمام ہو جائے۔ اس لئے کہ اگر سیدھا اوپر لے جاتا ہوں تو آسمانی کائنات کو کسی نے دیکھا ہوا ہی نہیں ہے، وہ دلیل مانگیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں کہ پہلے آسمان پر یہ تھا اور دوسرے پر یہ تھا، وہ کیا جانیں، وہ تو پہلے ہی منکر ہیں۔ لہذا یہاں سے آقا علیہ الصلاۃ والسلام کو پہلے مسجد اقصیٰ لے جایا گیا، پھر واپس مسجد اقصیٰ پر اتارا گیا۔ قرآن نے بھی جب دعویٰ کیا تو فرمایا : ۔۔۔ أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى۔۔۔ یعنی دعویٰ میں بھی مسجد اقصیٰ کا نام لیا کہ وہاں سے اوپر گئے۔ جب ایک شخص نے وہ جگہ دیکھی ہوئی نہ ہو اور اس کے دعویٰ میں اس کو Highlight کر دیا جائے کہ میں آسمانوں تک وہاں سے ہو کر گیا، اس مسجد کے اندر انبیاء کرام کو جماعت کروائی نیز جن کو یہ دعویٰ سنایا جا رہا ہے ان سب کو یقین ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج تک زندگی میں وہاں جسمانی طور پر نہیں گئے۔ پاس اس صورت حال میں مسجد اقصیٰ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پورے دعویٰ کی دلیل بن گئی۔

کفار و مشرکین خوش ہو گئے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعویٰ کے ایک حصہ بیت المقدس تک جانے کو پکڑتے ہیں اور ان سے سوال کرتے ہیں اور اگر ان کا وہاں تک کا جانا درست اور سچا ثابت ہو گیا تو پھر اوپر جانا بھی درست ہو گا۔ اس لئے کہ رات کے تھوڑے سے حصہ میں کوئی بیت المقدس، مسجد اقصیٰ سے واپس نہیں آ سکتا جیسے آسمانوں سے جا کر واپس نہیں آ سکتا ایسے ہی بیت المقدس سے ہو کر واپس مکہ نہیں آ سکتا۔ یہ تو مہینوں کا سفر ہے اگر یہ ثابت ہو گیا اور انہوں نے ہمارے سوالات کے جوابات صحیح دے دیئے تو اتنا حصہ سچ ثابت ہونے پر دلیل بن جائے گی کہ باقی دعویٰ بھی حق ہے۔

اللہ پاک نے معجزہ معراج کے دعویٰ کو حق ثابت کرنے کے لئے بیت المقدس کو بطور دلیل پیش کرنا تھا اس لئے پہلے بیت المقدس لے گئے تاکہ کفار و مشرکین، یہود ونصاریٰ اور منکرین دلیل مانگنا چاہیں تو اس دلیل کو مانگیں جو انہوں نے بھی دیکھ رکھی ہو۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان کیا تو یہی ہوا کہ کہا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں دلیل دیں، فرمایا : پوچھو جو دلیل پوچھتے ہو؟ انہوں نے مسجد اقصیٰ کی تفصیلات پوچھیں۔ اللہ کا ارادہ بھی یہی تھا کہ جب وہ مسجد اقصیٰ کی تفصیلات پوچھیں گے تو وہ آسمانوں اور اس سے اوپر کے سفر کے لئے دلیل بن جائے گی اور اوپر کا دعویٰ خود بخود حق ثابت ہو جائے گا۔

اسی طرح جیسے لا الہ الا اللہ پر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دلیل بنایا گیا کہ مان لو اللہ ہے اور ایک ہے۔ اللہ کو تو کسی نے دیکھا نہیں، کیسے مان لیں کہ وہ ایک ہے، ہے بھی یا نہیں؟ اگر واقعی ہے تو کتنے ہیں؟ کیا اس کی اولاد بھی ہے؟کہا گیا لا الہ الا اللہ دعویٰ ہے تو اس کی دلیل کیا ہے؟ اللہ نے فرمایا کہ دعویٰ تو دکھائی دے نہیں رہا کیونکہ دکھائی دینے والا ہے نہیں پس اس کی دلیل ایسی بناتے ہیں جو دکھائی دے اور نظر آئے لہذا دلیل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنا دیا۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ ط اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ.

(يونس : 16)

’’بے شک میں اس (قرآن کے اترنے) سے قبل (بھی) تمہارے اندر عمر (کا ایک حصہ) بسر کر چکا ہوں، سو کیا تم عقل نہیں رکھتے‘‘۔



اللہ کی توحید کی اگر دلیل مانگتے ہو تو میری چالیس سال کی زندگی کو دیکھو جو تمہارے سامنے گزری ہے۔ اللہ کی وحدانیت دعویٰ ہے اور میری صداقت، پاکیزگی و طہارت دلیل ہے۔ اگر مجھ میں کوئی نقص نہ ملے تو پھر میرے دعویٰ کو مان لینا، اگر میرا دلیل ہونا رد ہو جائے تو پھر اللہ کے ہونے کا دعویٰ بھی رد کر دینا۔

جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو قابل دید حقیقت تھی ان کو لا الہ الا اللہ کے اس مقدمہ میں جو نظر آنے والا نہیں ہے دلیل بنایا۔ اسی طرح معراج کا جو حصہ نظر آنے والا نہیں تھا، اس دعویٰ پر اس حصہ کو دلیل بنایا جو نظر آتا تھا اور جس کے بارے میں مخالفوں کو علم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی وہاں نہیں گئے اور خود انہوں نے دیکھا ہوا تھا اور پہچان کر سکتے تھے کہ درست اطلاع ہے یا معاذ اللہ غلط ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب انہوں نے مجھ سے سوال کرنے شروع کئے تو وہ لمحہ میری زندگی میں بڑا عجیب تھا۔ میری زندگی میں کبھی ایسا سخت وقت نہیں آیا۔ جب یک لخت مجھ سے انہوں نے ایسے ایسے سوال کرنا شروع کر دیئے کہ آپ مسجد اقصیٰ گئے تو بتائیں اس کے دروازے کتنے ہیں، کھڑکیاں کتنی ہیں؟ ایک لمحہ حیرت کا آیا کہ یہ کیسے سوال شروع کر دیئے۔ Visitor کسی جگہ جائے تو کیا کبھی یہ چیزیں گنتا ہے۔ اگر آپ کسی بلڈنگ، ہسپتال، گھر، سکول، مسجد، دفتر، وغیرہ میں جائیں یا منہاج القرآن کے گوشہ درود میں آئیں تو میں آپ سے پوچھوں کہ گنبد کی کتنی کھڑکیاں ہیں اگرچہ آپ گھنٹوں سے بیٹھے ہوں تو آپ اس وقت ہر گز جواب نہیں دے سکیں گے۔ ہزاروں چیزیں ہیں جو ہر روز استعمال کرتے ہیں مگر ان کے بارے پتہ نہیں ہوتا۔ یہ فطری بات ہے کہ چھوٹی چھوٹی چیزیں کوئی نہیں دیکھتا۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام اپنی شان عبدیت بیان کر رہے ہیں اور اپنی عاجزی کی شان بیان کر رہے ہیں کہ میں حیرت کی کیفیت میں تھا کہ انہوں نے یہ کیا پوچھا ہے۔ پھر خدا کے ہاں محبوبیت کا عالم بیان فرماتے ہیں کہ ایک لمحہ بھی بیتا نہیں تھا کہ اللہ رب العزت نے پورا بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کا نقشہ میرے آنکھوں کے سامنے رکھ دیا، وہ جو پوچھتے میں گن گن کر وہی بتاتا تھا۔

اللہ نے الی السمائ، الی العرش والی الفوق العرش، الی ثم دنا فتدلی وقاب قوسین او ادنی تک کے سفر کی دلیل مسجد اقصیٰ کو بنایا اور اعتراض کرنے والوں کی زبانیں بند کر دیں۔ یہودیوں کا بھی یہ مرکز تھا چاہا کہ تم بھی جی بھر کے پوچھ لو۔۔۔ عیسائیوں کا بھی یہ مرکز تھا (چونکہ عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت بیت اللحم میں ہوئی) چاہا کہ تم بھی پوچھ لو۔۔۔ اور کفار و مشرکین کے تجارتی قافلے ہر وقت آتے جاتے تھے، چاہا تم بھی پوچھ لو۔۔۔ جس کا جتنا جی چاہے سوال کر لو۔ اگر آسمانوں کی بات کو دلیل کے طور پر پیش کیا تو تمہاری سمجھ میں کیا آنا ہے جو چاہیں کہتے جائیں تمہیں کیا خبر ہے۔ لہذا وہ بات کی جس کی انہیں بھی خبر تھی۔

پس بیت المقدس لے جانے کی پہلی حکمت یہ ہے کہ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے جانا بقیہ سفر کی دلیل بنایا جا سکے۔
2۔ عمودی عروج

مسجد اقصیٰ سے معراج کا سفر شروع کرانے کی دوسری حکمت کو بعض ائمہ اور بزرگوں نے بیان فرمایا ہے البتہ امام ابن حجر عسقلانی نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ بہر صورت چونکہ بعضوں نے اس دلیل کو بیان کیا لہذا میں بھی اس کو بیان کر رہا ہوں۔ آسمان دنیا کا دروازہ مسجد اقصیٰ کے بالکل اوپر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو پسند کیا کہ جب عروج ہو تو وہ عمودی ہو، سیدھا 90 ڈگری میں سفر جائے، Zigzage نہ ہو، اس میں عزت اور شان ہے۔ اگر ایک سیدھا خط 90 ڈگری کا کھینچا جائے تو اس میں خوبصورتی ہوتی ہے اور اگر یہ دائیں بائیں ہل جائے تو اس میں خوبصورتی نہیں ہوتی۔ اللہ نے چاہا کہ زمین سے آسمان کی طرف عروج ہو تو وہ بھی بالکل سیدھا ہو۔ آسمان دنیا کا دروازہ بالکل مسجد اقصیٰ کے اوپر 90 ڈگری خط استواء پر ہے۔ پس اس سبب کی وجہ سے آقا علیہ الصلاۃ والسلام کو وہاں سے سفر کرایا۔

آسمان دنیا کے دروازہ کے دربان Gate Keeper کا نام اسماعیل ہے، اس کے ماتحت بارہ ہزار ملائکہ کام کرتے ہیں۔ اس سے اندازہ کر لیں کہ وہ کتنا بڑا دروازہ ہو گا۔ ملائکہ کا آسمان کی طرف عروج اور زمین پر اترنا بھی اسی باب السماء الدنیا سے ہے۔ گویا یہ ایک Express Way ہے۔ زمین سے آسمان کی طرف کی High Way ہے یعنی مسجد اقصیٰ سے باب السماء الدنیا تک سیدھا راستہ ہے۔ بعض علماء نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ مسجد اقصیٰ سے آسمان دنیا اقرب ہے۔
3۔ الجمع بین القبلتین

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اپنی عبادت کے لئے دو قبلہ بنائے۔ سب سے پہلا قبلہ کعبۃ اللہ ہے۔ اسے آدم علیہ السلام نے بنایا تھا۔ طوفان نوح کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبۃ اللہ کو تعمیر کیا اور بعد ازاں اسی تعمیر کی بنیاد پر مختلف ادوار میں تعمیرِ نو، مرمت اور تزئین و آرائش کا کام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور تک چلتا رہا۔ گویا سب سے قدیمی قبلہ یہی ہے۔

اس کے بعد دوسرا قبلہ بیت المقدس بنا جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے بنایا۔ اس وجہ سے حضرت عیسیٰ تک انبیاء علیہم السلام کی کثیر تعداد نے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی۔ حتی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق، اپنے پیدائشی علاقہ سے ہجرت کر کے بلاد شام آئے اور بالآخر القدس میں آباد ہوئے۔ ان کا مزار بھی مسجد اقصیٰ سے تقریباً 40 میل کے فاصلہ پر الخلیل شہر کے اندر حرم ابراہیمی میں واقع ہے۔

القدس سے آ کر آپ نے کعبۃ اللہ تعمیر کیا اور حضرت ہاجرہ و حضرت اسماعیل علیہ السلام کو یہاں آباد کروایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کو یہاں نہیں بھیجا، اس لئے کہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد نے بنی اسرائیل بننا تھا اور بنی اسرائیل کا قبلہ بیت المقدس میں بننا تھا، اس لئے ان کی اولاد القدس میں آباد ہوئی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بچپن ہی سے مکہ بھیج دیا کیونکہ بنو اسماعیل علیہ السلام سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنا تھا لہذا کعبۃ اللہ وہاں بنوایا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمر بھر کبھی بیت المقدس میں تشریف نہیں لے گئے تھے۔ اللہ رب العزت نے چاہا کہ میں اس سفر میں الجمع بین القبلتین کر دوں۔ محبوب کے ایک ہی سفر میں دونوں قبلے جمع ہو جائیں اور اس سفر کی فضیلت ہو جائے۔ زمینی سفر کی ابتداء کعبۃ اللہ یعنی مسجد حرام سے ہو اور آسمان کے لئے سفر کی ابتداء مسجد اقصیٰ سے ہو۔ پس دونوں قبلے آقا علیہ الصلاہ والسلام کے سفر میں جمع کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر کروایا۔
4۔ انبیاء پر فضیلت

اکثر انبیاء علیہم السلام نے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی جبکہ کوئی ایک فضیلت بھی ایسی نہیں جو دوسرے انبیاء میں ہو مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس میں نہ ہو لہذا اللہ رب العزت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کو بیت المقدس کی طرف ہجرت کے ذریعے یہ فضیلت بھی عطا فرمائی تاکہ محبوب کی زندگی کا یہ گوشہ خالی نہ رہے۔
5۔ میدانِ محشر سے مانوسیت

قیامت کے دن القدس /  بیت المقدس میدان محشر بنے گا۔ عرفات بھی میدان محشر ہو گا اور یہ جگہ میدان محشر کا وسط بنے گا جہاں بعث بعد الموت ہو گی، حشر و نشر، حساب و کتاب ہو گا، امتیں اٹھیں گی۔ یہ خطہ میدان محشر کا مرکز بننا ہے۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے حرم پاک سے بیت المقدس کا سفر کرایا تاکہ وہاں آپ کے قدم لگ جائیں تاکہ جب آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی امت یوم حشر اٹھے تو اسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں سے مانوسیت پیدا ہو، اجنبیت پیدا نہ ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارک کی برکت وہاں ڈالنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہاں تک سفر کرایا تاکہ امت کو یوم حشر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارک حوصلہ دے رہے ہوں۔ پس اللہ نے چاہا کہ قیامت کے دن جو میدان محشر بنے گا اس پر بھی میرے محبوب کے قدم لگ جائیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سجدہ گاہ بن جائے۔ مسجد اقصیٰ پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انبیاء کی امامت کروائی اور جب قیامت کا دن ہو گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دن بھی امام ہوں گے۔ گویا اس زمین کے محشر میں بدلنے سے پہلے ہی حضور کو اس زمین کا امام بنایا۔
6۔ بیت المقدس۔ ۔ ۔ قبلہ مصطفوی

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت مدینہ کے بعد 18 ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا فرماتے رہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ المکرمۃ میں تھے اس وقت بھی نماز کی ادائیگی کے دوران اس رخ پر کھڑے ہوتے کہ سامنے کعبۃ اللہ ہوتا اور بیت المقدس بھی اسی سمت میں آ جاتا مگر اس وقت سامنے کعبۃ اللہ ہوتا تھا۔ جب مدینہ ہجرت فرمائی تو کعبۃ اللہ اور بیت المقدس کی سمت 180 زاویہ پر مخالف سمت ہو گئی جیسے مشرق و مغرب یاشمال و جنوب۔ اب دونوں قبلے ایک سمت میں جمع نہیں ہو سکتے تھے۔ اس صورت حال میں ایک سمت کو چھوڑنا تھا اور ایک کو رکھنا تھا۔

مدینہ میں چونکہ اکثریت یہود کی تھی اور ان کا قبلہ بیت المقدس تھا اور مدینہ میں مکہ کی طرح دونوں قبلے ایک سمت میں جمع بھی نہیں ہو سکتے۔ صحابہ کرام، تابعین، ائمہ، مفسرین نے بیت المقدس کو قبلہ بنانے کے کئی ایک اسباب بیان فرمائے اُن میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ چونکہ یہاں اکثریت یہود کی ہے اور اگر یہ مسلمان ہو جائیں تو اسلام کو قوت پہنچے گی۔ پس ان کی دلجوئی کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش ہوئی کہ بیت المقدس ہی قبلہ بنے۔ بیت المقدس کو قبلہ بنانے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی اعراض نہ تھا کیونکہ یہ انبیاء کرام کا قبلہ تھا۔ پس یہود کی دلجوئی کے لئے ترجیح دی تاکہ یہود کے دل میں یہ خیال آئے کہ مسلمانوں نے ہمارے قبلہ کو اختیار کر لیا ہے اور ہم سے اتنا زیادہ تضاد و اختلاف نہیں رکھتے۔ ہمارے قبلہ کو رد نہیں کیا اور یہ عمل ان کے دلوں کو نرم کر دے۔ پس یہی امر الہٰی ہو گیا اور بیت المقدس کو قبلہ بنایا گیا۔ بعد ازاں کئی یہودیوں کے دلوں پر اس کا اثر بھی ہوا۔

پس اس سبب کے تحت تقریباً ڈیڑھ سال تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی اور بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش بدلی اور کعبۃ اللہ کو قبلہ بنا دیا گیا۔ اس لئے کہ کئی بدبخت یہود ایسے تھے کہ انہوں نے طعنہ دینا شروع کر دیا کہ اپنا قبلہ الگ کیوں نہیں بنا لیتے۔

اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ میرے محبوب نے ہجرت کے بعد جس قبلہ کی طرف منہ کر کے ڈیڑھ سال نماز ادا کرنی ہے اس کو دیکھا ہی نہ ہو تو یہ میرے محبوب کی شان کے لائق نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ ہجرت سے ایک سال پہلے ہی اس جگہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے گیا جس طرف ہجرت کے بعد ڈیڑھ سال منہ کر کے نماز پڑھنی تھی۔ یہاں آقا علیہ الصلاہ والسلام کے قدمین لگوائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امامت کروائی تاکہ یہ قبلہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ہو جائے۔ اب یہ قبلہ صرف حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت ذکریا علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نہ رہا بلکہ اب وہ قبلہ مصطفوی بھی بن گیا کیونکہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے کل انبیاء کی یہاں امامت کروائی۔

پس مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سفر کروانے کی ایک حکمت یہ بھی تھی تاکہ وہ قبلہ بھی قبلہ مصطفوی بن جائے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو آنکھوں سے دیکھ لیں اور قدموں سے شرف بخش دیں تاکہ ہجرت کے بعد جب اس طرف منہ کر کے نماز پڑھیں تو کسی کے ذہن میں یہ خیال نہ آئے کہ اللہ کا پیغمبر اور محبوب اس قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہے جسے زندگی میں دیکھا ہی نہیں ہے۔
7۔ بیت المقدس۔۔ ارواحِ انبیاء کا مجمع

بیت المقدس ارواح انبیاء کا مجمع ہے۔ ہزارہا انبیاء کرام کے مزارات اس کے اردگرد موجود ہیں۔ وہیں ہجرت کر کے گئے اور وہیں مدفون ہوئے۔ کیونکہ انبیاء کی اکثریت وہاں مدفون ہے لہذا یہ ان کی ارواح کا مرکز ہے۔ اس لئے قرآن نے کہا :

الَّذِيْ بٰـرَکْنَا حَوْلَه.

(الاسراء : 1)

’’جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے‘‘۔

یہ نہیں کہا کہ جس کو ہم نے برکت دی بلکہ فرمایا کہ اس کے گردو نواح اور اس کے ماحول کو برکت دی۔ ماحول کو برکت کیوں ملی؟ اس لئے کہ ہزارہا انبیاء کرام وہاں مدفون ہیں۔ انبیاء کے مقدس اجساد، ارواح اور مزارات وہاں موجود ہیں۔ اللہ نے چاہا کہ میں اپنے محبوب کو یہاں سے گزار کر لے جاؤں جیسے سدرۃ المنتہٰی سے گزارا۔ کل عالم سماوات کے ملائکہ وہاں ایک ہی جگہ جمع ہو گئے۔ ایک ایک پتہ پر لاتعداد ملائکہ جمع تھے۔ وہاں سے گزارا تاکہ تمام ملائکہ ایک ہی جگہ پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کر لیں۔ جس طرح آسمانی کائنات میں جو مقام سدرۃ المنتہٰی کو دیا اس طرح زمینی سفر میں بیت المقدس کو وہ مقام عطا فرمایا کہ چونکہ انبیاء کی اکثریت وہیں مدفون ہے لہذا سارے انبیاء زیارت کر لیں نیز سارے انبیاء کا گھر چونکہ وہ جگہ ہے لہذا اللہ نے چاہا کہ تمام انبیاء کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا شرف بھی نصیب ہو جائے اور آقا علیہ الصلاۃ والسلام کا استقبال بھی ہو جائے۔
8۔ تجلیاتِ الہٰیہ کے مراکز کی زیارت

اللہ رب العزت نے چاہا کہ جن جن جگہوں پر اللہ کے نور کی تجلی چمکی ہے یا اللہ کے گھر بنے ہیں یا اللہ کسی سے ہمکلام ہوا ہے یا اللہ نے اپنا کلام اتارا ہے یا اس کی تجلی کا انعکاس ہوا ہے ان ساری جگہوں پر میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم لگ جائیں، ان جگہوں پر میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاضری ہو جائے، وہ جگہیں میرے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا حصہ بن جائیں اور وہ سارے مقام میرے محبوب کی زندگی میں داخل ہو جائیں۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ نیز اس روایت کو امام بیہقی نے بھی حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ معراج کے سفر کے پہلے مرحلہ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر میں درج ذیل مبارک جگہوں پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹھہرے اور نوافل ادا فرمائے :

    ارضِ طیبہ (مدینہ) : جو جگہ ہجرتِ گاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بننے والی تھی۔
    وادی مدین : اس جگہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ نے کلام فرمایا اور ایک درخت سے اللہ کا نور ظہور پذیر ہوا۔
    طور سینا : جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ ہمکلام ہوا اور اپنی تجلی طور سینا پر نازل فرمائی تھی۔
    القدس : بیت اللحم جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے ولادت ہے اور جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے وقت اللہ کی تجلی ظاہر ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ حضرت مریم علیہ السلام سے ہمکلام ہوا تھا۔

ان مبارک جگہوں کو اپنے قدوم مبارکہ سے منور فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے۔ وہاں تمام انبیاء علیہم السلام کی ارواح جمع تھی۔ حدیث میں آیا ہے کہ

بُعِثَ اٰدَمَ وَمَنْ دُوْنَه لِرَسُوْلِ اللّٰهُ بتلکْ الليله.

اس شب معراج آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے لئے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء کرام کو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ مبعوث فرمایا۔

پہلے جن جن راستوں سے آقا علیہ الصلاۃ والسلام کا براق گزرا حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قبروں سے آقا علیہ الصلاۃ والسلام پر سلام عرض کرتے گئے اور جب بیت المقدس پہنچے تو اللہ رب العزت نے انہیں اس طرح مبعوث فرمایا کہ ان کی ارواح اپنے جسموں کے ساتھ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے استقبال کے لئے مسجد اقصیٰ میں موجود تھیں۔

مسجد اقصیٰ میں اس موقع پر جملہ انبیاء اور کثیر ملائکہ موجود تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو زیارت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تین مواقع دیئے۔

    جن انبیاء کرام کی قبور راستے میں آئیں انہوں نے وہاں اپنی قبروں میں کھڑے ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی۔
    مسجد اقصیٰ میں جملہ انبیاء کرام نے زیارت کی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کی۔
    جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمانوں پر پہنچے تو پہلے آسمان سے ساتویں آسمان تک انبیاء کرام کی ارواح اجساد کے ساتھ متشکل ہوکر استقبال کے لئے وہاں موجود تھیں۔

اسی طرح ملائکہ، حورالعین اور غلمان کو بھی زیارت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تین مواقع فراہم کئے گئے۔

    ملائکہ نے مسجد اقصیٰ میں بھی زیارت کی۔
    آسمانوں تک لے جانے کے دوران بھی زیارت کی۔
    سدرۃ المنتہٰی پر بھی زیارت کی۔

مسجد اقصیٰ میں جلسہ معراج کا انعقاد

تمام انبیاء کرام نے آقا علیہ الصلاۃ والسلام کا استقبال کیا۔ اس کے بعد انبیاء کرام نے صفیں بنائیں، جبرائیل امین علیہ السلام نے اذان کہی، آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے ان سب کو نماز پڑھائی۔

امامت کروانے کے بعد تمام انبیاء کرام ایک اجتماع کی صورت میں بیٹھ گئے۔ امام بیہقی، امام ہیثمی، امام بزار، حافظ ابن کثیر، امام ابن جریر اور کثیر ائمہ تفسیر نے بیان کیا ہے کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی امامت میں انبیاء کرام کے نماز پڑھنے کے بعد جلسہ معراج منعقد ہوا۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطاب سے قبل پانچ انبیاء کرام نے خطابات کئے۔

جس طرح مہمان خصوصی کے خطاب سے پہلے مقامی مقررین خطابات کرتے ہیں اسی طرح مسجد اقصیٰ میں منعقدہ جلسہ معراج سے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خطابات کئے۔ بیت المقدس چونکہ ایک طرح کا ان انبیاء کرام کا مسکن اور گھر ہے لہذا انہوں نے جملہ انبیاء کرام کی نمائندگی کرتے ہوئے مختصر خطابات کئے۔ ان خطابات کے بعد آخری خطاب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہوا۔
جلسہ معراج سے آقا علیہ الصلاۃ والسلام کا خطاب

اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِی اَرْسَلَنِيْ رَحْمَةً لِلْعَالَمِيْن.

’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے ساری کائناتوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطاب کے پہلے ہی جملہ میں تمام مخلوقات اور جہانوں کے لئے اپنا رحمت بنا کر بھیجا جانا بیان فرمایا۔ آپ اندازہ کریں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطاب کا آغاز اس رات رحمت کے بیان سے کیا۔ یہ معراج کی رات کا ایک بہت بڑا پیغام ہے۔

اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی رسالت کا بیان فرمایا :

وَکَآفَةً لِلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا.

’’اور مجھے کل بنی نوع انسان کے لئے خوشخبری اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا‘‘۔

غور کریں! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطاب کا آغاز اپنی وسعت سے کر رہے ہیں کہ اس اللہ کی تعریف جس نے مجھے سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا، اپنا تعارف رحمۃ للعالمین سے کروایا۔ اس کے بعد انسانوں کی بات کی، مسلمانوں کی بات نہیں کی۔ ہمارا طرز عمل کیا ہے؟ ہمارے دل اور سوچیں تنگ ہو چکی ہیں جبکہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام جن و انس، حیوانات، نباتات، شجر و حجر الغرض کل کائنات کے لئے رحمت ہونا بیان فرما رہے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کآفۃ للناس فرما کر پوری انسانیت کی بات کی ہے۔ محض اپنی امتِ اجابت یعنی مسلمانوں کی بات نہیں کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسیع ہیں، ان چھوٹے دائروں سے اونچے ہیں۔

اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کی شان بیان فرمائی :

وَاَنْزَلَ عَلَيَ الْفُرْقَان فِيْهِ تِبْيَانٌ کُلّ شئٍی.

’’اس اللہ نے مجھ پر حق و باطل میں فرق کرنے والا قرآن اتارا جس میں ہر شے کا بیان ہے‘‘۔

اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو بیان فرمایا :

وَجَعَلَ اُمَّتِيْ خَيْرَ اُمَّةِ اُخْرِجَتْ لِلنَّاس.

’’اللہ تعالیٰ نے میری امت کو کل امتوں سے اعلیٰ، افضل اور خیر بنایا یعنی خیرالامم بنایا‘‘۔

پھر فرمایا :

وَجَعَلَ اُمَّتِيْ وَسَطًا.

’’اور اللہ تعالیٰ نے میری امت کو اعتدال والی امت بنایا‘‘۔ یعنی میری امت Moderation اور اعتدال والی امت ہے، انتہا پسند نہیں ہے۔

امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ تمام افراد جن کی طبیعتوں میں اللہ تعالیٰ نے اعتدال اور توسط دیا ہے، تنگ نظر و انتہا پسند نہیں ہیں، تشدد پسند نہیں ہیں، انہیں مبارک ہو کہ ان پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فخر فرما رہے ہیں اور سوا لاکھ انبیاء کرام کے سامنے اپنی امت کی یہ شان بیان فرما رہے ہیں کہ میری امت معتدل و متوسط امت ہے۔ پھر فرمایا :

وَجَعَلَ اُمَّتِيْ هُمُ الْاَوَّلُوْنَ وَالْاٰخِرُوْن.

’’اور اللہ تعالیٰ نے میری امت کو وہ درجہ دیا ہے کہ سب سے اول بھی وہی ہوں گے اور سب سے آخر بھی وہی ہوں گے‘‘۔

یعنی قیامت والے دن بعث میں سب سے اول ہوں گے، جنت میں داخلے میں بھی سب سے اول ہوں گے، حساب و کتاب دینے میں بھی اول ہوں گے اور آخری اس طرح ہیں کہ جملہ انبیاء کرام کی امم کے بعد ہیں چونکہ میں آخری ہوں۔ پس میری امت کو اولیت کی شان بھی دی اور آخریت کی شان بھی میری امت کو دی۔

اس خطبہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے پوری کائنات کی بات کی، پھر پوری انسانیت کی بات کی، پھر قرآن کی شان بیان کی، پھر امت مسلمہ کی افضلیت و اعتدال اور درجہ کی بات کرنے کے بعد اپنی ذات مبارکہ کو بیان فرمایا کہ

وَشرَحَ لِيْ صَدْرِيْ.

’’اور اللہ نے میرا سینہ میرے لئے کھول دیا‘‘۔

یعنی میرے اوپر اللہ نے کوئی چیز بند نہیں رکھی، ہر چیز منکشف کر دی‘‘۔

وَوَضَعَ عَنِّيْ وِزْرِيْ.

’’اور میرے اوپر سے سارے بوجھ اتار دیئے‘‘۔

یعنی ہر قسم کے بوجھ اتارتے ہوئے مجھے سکون عطا فرمایا اور اشارہ اس طرف بھی ہے کہ مجھے Relax کیا، میرے لئے کوئی Tensionنہیں رکھی۔

وَلَسَوْفَ يُعْطِيْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی

 کے مصداق مجھ پر اتنی عطائیں کیں کہ کوئی Tension نہیں رکھی، Stress نہیں رکھا، ہر طرح کی Tension اور Stress کو دور فرما کر مجھے Relax رکھا۔ الغرض مجھے میرے مولیٰ نے خوش کر دیا۔

وَرَفَعَ ذِکْرِيْ.

’’اور اللہ نے میرے ذکر کو بلند کیا‘‘۔

یعنی ورفعنالک ذکرک کے مصداق میرے ذکر کو اتنا بلند کیا کہ اب جہاں اللہ کا نام آتا ہے وہاں میرا نام بھی ساتھ آتا ہے۔

وَجَعَلَنِيْ فَاتِحًا خَاتِمًا.

اور اللہ نے مجھے فاتح بنایا یعنی سلسلہ نبوت کو شروع کرنے والا بنایا، مجھ سے سلسلہ نبوت شروع ہوا۔ کنت نبيا وادم بين الروح والجسد حضرت آدم کی تشکیل بھی ابھی نہ ہوئی تھی، اس وقت میرے نبوت کا اجراء ہو چکا تھا۔ اس طرح مجھ پر ہی سلسلہ نبوت ختم ہوا۔

آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے اس خطاب کے ختم ہونے کے بعد سیدنا ابراہیم علیہ السلام جلسہ کو برخاست کرنے کے لئے کھڑے ہوئے اور آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم نے سن لیا، یہ وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم سب پر فضیلت عطا کی۔ گویا انہوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو آپ نے فرمایا اس کی ہم تصدیق کرتے ہیں۔

اس جلسہ معراج کے بعد نور کے حصار اور فرشتوں کے جھرمٹ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آسمانوں کی طرف لے جایا گیا اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفر معراج کا پہلا مرحلہ ’اسراء‘‘ مسجد اقصیٰ پر ختم ہوا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطاب میں اپنی امت کو رحمت، وسعت، انسانیت اور اعتدال کا پیغام دیا کہ اگر میری امت میرے اس پیغام اور تعلیمات پر عمل کرے گی تو رہتی دنیا تک عزت پائے گی اور سربراہی و بادشاہی سے سرفراز ہو گی۔ اگر اس راستے سے ہٹے گی تو میری امت ان نعمتوں کو کھو دے گی۔

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...