Sunday, 14 June 2015
سوال : ۔ افطاری قبل از آذان کرنا مسنون ہے یا بعد از آذان ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب : ۔
قرآن پاک میں ہے :
وَكُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّواْ الصِّيَامَ إِلَى الَّيْلِ.
البقرة، 2 : 187
اور کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ تم پر صبح کا سفید ڈورا (رات کے) سیاہ ڈورے سے (الگ ہو کر) نمایاں ہو جائے، پھر روزہ رات (کی آمد) تک پورا کرو،
احادیث مبارکہ میں ہے :
حدثنا هشام بن عروة قال سمعت أبی يقول سمعت عاصم بن عمر بن الخطاب عن أبيه رضی الله عنه قال قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم اذا أقبل الليل من ها هنا وأدبر النهار من هاهنا وغربت الشمس فقد أفطر الصيام.
عاصم بن عمر بن خطاب، ان کے والد محترم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب رات اس طرف سے آ رہی ہو اور دن اس طرف سے جا رہا ہو اور سورج غروب ہو جائے تو روزہ دار روزہ افطار کرے۔
بخاری، الصحیح، 2 : 691، رقم : 1853، دار ابن کثیر الیمامۃ بیروت
مسلم، الصحیح، 2 : 772، رقم : 1100، دار احیاء التراث العربی بیروت
احمد بن حنبل، المسند، 1 : 48، رقم : 338، مؤسسۃ قرطبۃ مصر
بزار، المسند، 1 : 384، رقم : 260، مؤسسۃ علوم القرآن مکتبۃ بیروت المدینۃ
ابی یعلی، المسند، 1 : 206، رقم : 240، دار المامون اللتراث دمشق
ابن حزیمۃ، الصحیح، 3 : 273، رقم 2058، المکتب الاسلامی بیروت
ابن حبان، الصحیح، 8 : 280، رقم : 3513، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت
عبد الرزاق، المصنف، 4 : 227، رقم : 7595، المکتب الاسلامی بیروت
ابی عوانۃ، المسند، 2 : 186، رقم : 2785، دار المعرفۃ بیروت
حمیدی المسند، 1 : 12، رقم : 20، دار الکتب العلمیۃ مکتبۃ المتنبی بیروت، القاہرۃ
نسائی، السنن الکبری، 2 : 252، رقم : 3310، دار الکتب العلمیۃ بیروت
بیہقی، السنن الکبری، 4 : 216، رقم : 7794، مکتبۃ دار الباز مکۃ المکرمۃ
ایک اور حدیث پاک میں ہے :
عن عبد الله بن أبی أوفی رضی الله عنه قال کنا مع رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فی سفر وهو صائم فلما غربت الشمس قال لبعض القوم يا فلان قم فاجدح لنا فقال يا رسول الله لو أمسيت قال انزل فاجدح لنا قال يا رسول الله فلو أمسيت قال انزل فاجدح لنا قال ان عليک نهارا قال انزل فاجدح لنا فنزل فجدح لهم فشرب النبی صلی الله عليه وآله وسلم ثم قال اذا رأيتم الليل قد أقبل من هاهنا فقد أفطر الصائم.
حضرت عبد اللہ بن ابو اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب سورج غروب ہو گیا تو آپ نے ایک آدمی سے فرمایا : اے فلاں ! اٹھو اور ہمارے لیے ستو گھولو۔ عرض گزار ہوا کہ یا رسول اللہ ! شام ہونے دیجئے۔ فرمایا کہ اترو اور ہمارے لیے ستو بناؤ۔ عرض کی کہ یا رسول اللہ ! شام تو ہو جائے۔ فرمایا کہ اترو اور ہمارے لیے ستو گھولو۔ عرض گزار ہوا کہ ابھی تو دن ہے۔ فرمایا کہ اترو اور ہمارے لیے ستو بناؤ۔ پس وہ اترا اور ان کے لیے ستو بنائے۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوش فرمائے پھر فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ رات ادھر سے آ رہی ہے تو روزہ دار روزہ افطار کرے۔
بخاری، الصحیح، 2 : 691، رقم 1854
مسلم، الصحیح، 2 : 773، رقم : 1101
احمد بن حنبل، 4 : 382، رقم : 19432
ابی داؤد، السنن، 2 : 305، رقم : 2352
بزار، المسند، 8 : 264، رقم : 3325
ابن حبان، الصحیح، 8 : 278، رقم : 3511
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا روزہ افطار کرنے کا وقت غروب آفتاب ہے۔ جونہی غروب آفتاب ہو روزہ افطار کر لینا چاہیے۔ حدیث مبارکہ میں ہے۔
عن سهل بن سعد أن رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم قال لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر.
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگ ہمیشہ خیر وخوبی سے رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔
بخاری، الصحیح، 2 : 692، رقم : 1856
مسلم، الصحیح، 2 : 771، رقم : 1098
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 331
ترمذی، السنن، 3 : 82، رقم : 699، دار احیاء التراث العربی بیروت
ابن ماجہ نے یہ حدیث حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بیان کی ہے السنن، 1 : 542، رقم : 1698، دار الفکر بیروت
امام مالک، الموطا، 1 : 288، رقم : 624، دار احیاء التراث العربی، مصر
دارمی، السنن، 2 : 12، رقم : 1699، دار الکتاب العربی بیروت
ابو یعلی، المسند، 13 : 501، رقم : 7511
ابن خزیمۃ، الصحیح، 3 : 274، رقم : 2059
ابن حبان، الصحیح، 8 : 273، رقم : 3502
شافعی، المسند، 1 : 104، دار الکتب العلمیۃ بیروت
عبد الرزاق، المصنف، 4 : 226، رقم : 7592
ابی عوانۃ، المسند، 2 : 186، رقم : 2786
طبرانی، المعجم الکبیر، 6 : 139، رقم : 5768، مکتبۃ الزھراء الموصل
بیہقی، السنن الکبری، 4 : 237، رقم : 7907
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے :
عن أبی هريرة عن النبی صلی الله عليه وآله وسلم قال لا يزال الدين ظاهرا ما عجل الناس الفطر لأن اليهود والنصاری يؤخرون.
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ دین ہمیشہ غالب رہے گا جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے کیونکہ یہود ونصاری دیر کیا کرتے ہیں۔
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 450، رقم : 9809
ابی داؤد، السنن، 2 : 305، رقم : 2353
نسائی، السنن الکبری، 2 : 253، رقم : 3313
حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 1 : 596، رقم : 1573، دار الکتب العلمیۃ بیروت
ابن خزیمۃ، الصحیح، 3 : 275، رقم : 2060
ابن حبان، الصحیح، 8 : 273، رقم : 3503
ابن ابی شیبۃ، 2 : 277، رقم : 8944
8۔ جیسا کہ پہلے یہ بھی ذکر ہو چکا ہے کہ روزہ افطار کرنے کا وقت غروب آفتاب کے بعد ہے مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا جونہی وقت شروع ہو جائے روزہ افطار کر لینا چاہیے۔ تاخیر کرنا درست نہیں ہے۔
آئیے اب دیکھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزہ افطار کس طرح فرماتے تھے۔ حدیث مبارکہ میں ہے :
عن معاذ بن زهرة أنه بلغه أن النبی صلی الله عليه وآله وسلم کا اذا أفطر قال اللهم لک صمت وعلی رزقک أفطرت.
حضرت معاذ بن زہرہ کو یہ خبر پہنچی کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب افطار فرماتے تو کہتے۔ اے اللہ ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا۔
ابی داؤد، السنن، 2 : 306، رقم 2358
ابن ابی شیبۃ نے یہی حدیث مبارکہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت سے نقل کی ہے، المصنف، 2 : 344، رقم : 9744
عن سلمان بن عامر عمها قال قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم اذا کان أحدکم صائما فليفطر علی التمر فان لم يجد التمر فعلی الماء فان الماء طهور.
حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی روزہ دار ہو تو چاہیے کہ کھجور سے افطار کرے اگر کھجور میسر نہ آئے تو پانی سے کیونکہ پانی پاک کرنے والا ہے۔
ابی داؤد، السنن، 2 : 305، رقم : 2355
امام حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 1 : 597، رقم : 1575
ابن خزیمۃ، الصحیح، 3 : 278، رقم : 2067
حدثنا ثابت البنانی أنه سمع أنس بن مالک يقول کان رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم يفطر علی رطبات قبل أن يصلی فان لم تکن رطبات فعلی تمرات فان لم تکن حسا حسوات من ماء.
ثابت بنانی نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھنے سے پہلے تر کھجوروں کےساتھ روزہ افطار فرماتے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو خشک کھجوروں سے۔ یہ بھی نہ ہوتا تو پانی کے چند گھونٹ پی لیا کرتے۔
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 164، رقم 12698
ابی داؤد، السنن، 2 : 306، رقم : 2356
امام حاکم المستدرک علی الصحیحین، 1 : 597
دار قطنی، السنن، 2 : 185، رقم : 24، دار المعرفۃ بیروت
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غروب آفتاب کے فورا بعد روزہ افطار فرماتے تھے۔ کھجور ہوتی تو کھجور کےساتھ نہیں تو پانی کے ساتھ روزہ افطار فرماتے۔ باقی رہا مسئلہ دعا کا مروجہ دعا جو ہم مانگتے ہیں یہ تو نہیں لیکن یہ بھی اس میں چند الفاظ کا اضافہ ہے جو حضرت معاذ نے روایت کی ہے۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت
ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کے بارہ مہینے اپنے اندر کوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت ضرور رکھتے ہیں ۔ اسی طر...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
-
حق بدست حیدر کرار مگر معاویہ بھی ہمارے سردار محترم قارئین : اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما...
No comments:
Post a Comment