حضرت سعید بن عبد اﷲ اَودی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا درآں حالیکہ وہ حالتِ نزع میں تھے۔ اُنہوں نے فرمایا : جب میں فوت ہوجاؤں تو میرے ساتھ وہی کچھ کرنا جس کا حکم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں فرمایا ہے۔ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی فوت ہوجائے اور اسے قبر میں دفن کرچکو تو تم میں سے ایک آدمی اُس کے سرہانے کھڑا ہوجائے اور اسے مخاطب کر کے کہے : اے فلاں ابن فلانہ! (فلانہ مؤنث کا صیغہ ہے جس سے مراد ہے کہ اسے اُس کی ماں کی طرف منسوب کرکے پکارا جائے گا.) بے شک وہ مدفون سنتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا. پھر دوبارہ مردے کو مخاطب کرتے ہوئے کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس آواز پر وہ بیٹھ جاتا ہے۔ پھر کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس پر وہ مردہ کہتا ہے : اﷲ تم پر رحم فرمائے، ہماری رہنمائی کرو. لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہوتا. پھر وہ کہے : اُس اَمر کو یاد کرو جس پر تم دنیا سے رُخصت ہوتے ہوئے تھے اور وہ یہ کہ اِس اَمر کی گواہی کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور پیغمبر ہیں؛ اور یہ کہ تو اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغمبر ہونے، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا. جب یہ سارا عمل کیا جاتا ہے تو منکر نکیر میں سے کوئی ایک دوسرے فرشتے کا ہاتھ پکڑتا ہے اور کہتا ہے : مجھے اِس کے پاس سے لے چلو، ہم اس کے ساتھ کوئی عمل نہیں کریں گے کیونکہ اس کو اِس کی حجت تلقین کر دی گئی ہے۔ سو اﷲ تعالیٰ اس کی حجت بیان کرنے والا ہوگا منکر نکیر کے علاوہ. پھر ایک آدمی نے کہا : یا رسول اﷲ! اگر میں اس کی ماں کو نہ جانتا ہوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اُسے اماں حواء کی طرف منسوب کرو. (اور یوں کہو : ) اے فلاں ابن حوائ.‘‘
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فرمایا : اس
کی اسناد صالح ہیں، جب کہ ضیاء مقدسی نے اسے احکام میں قوی قرار دیا ہے۔
ابن ملقن انصاری نے فرمایا : اس کے صرف ایک راوی سعید بن عبد اﷲ کو میں
نہیں جانتا، لیکن اس روایت کے کثیر شواہد ہیں جو اسے تقویت بہم پہنچاتے
ہیں.
=========================================
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 8 / 249، الرقم : 7979، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 324؛ 3 / 45، والعسقلاني في تلخيص الحبير، 2 / 135-136، وابن الملقن في خلاصة البدر المنير، 1 / 274-275، الرقم : 958، والهندي في کنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، 15 / 256-257، الرقم : 42406.
=========================================
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 8 / 249، الرقم : 7979، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 324؛ 3 / 45، والعسقلاني في تلخيص الحبير، 2 / 135-136، وابن الملقن في خلاصة البدر المنير، 1 / 274-275، الرقم : 958، والهندي في کنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، 15 / 256-257، الرقم : 42406.
No comments:
Post a Comment