Tuesday, 30 June 2015

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 40 فرمان صدیق اکبر و فاروق اعظم رضی اﷲ عنہما : علی رضی اللہ عنہ میرے اور تمام مومنین کے مولا ہیں ۔

عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه : وَ قَدْ نَازَعَهُ رَجُلٌ فِي مَسْأَلَةٍ، فَقَالَ : بَيْنِي وَ بَيْنَکَ هَذَا الْجَالِسُ، وَ أَشَارَ إِلَی عَلِيِّ بْنِ أَبِي طالب رضی الله عنه، فَقَالَ الرَّجُلُ : هَذَا الْأَبْطَنُ! فَنَهَضَ عمر رضی الله عنه عَنْ مَجْلِسِهِ وَ أَخَذَ بِتَلْبِيْبِهِ حَتَّی شَالَهُ مِنَ الْأرْضِ، ثُمَّ قَالَ : أَتَدْرِيْ مَنْ صَغَّرْتَ، مَوْلَايَ وَ مَوْلَی کُلِّ مُسَلِمٍ! رَوَاهُ مُحِبُّ الدِّيْنِ أَحْمَدُ الطَّبَرِيُّ.
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے آپ کے ساتھ کسی معاملہ میں جھگڑا کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے اور تیرے درمیان یہ بیٹھا ہوا آدمی فیصلہ کرے گا۔ ۔ ۔ ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا۔ ۔ ۔ تو اس آدمی نے کہا : یہ بڑے پیٹ والا (ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا)! حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی جگہ سے اٹھے، اسے گریبان سے پکڑا یہاں تک کہ اسے زمین سے اوپر اٹھا لیا، پھر فرمایا : کیا تو جانتا ہے کہ تو جسے حقیر گردانتا ہے وہ میرے اور ہر مسلمان کے مولیٰ ہیں۔ اسے محب الدين طبری نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 67 : أخرجه محب الدين الطبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 128.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 39 فرمان صدیق اکبر و فاروق اعظم رضی اﷲ عنہما : علی رضی اللہ عنہ میرے اور تمام مومنین کے مولا ہیں ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے اٹھارہ ذی الحج کو روزہ رکھا اس کے لئے ساٹھ (60) مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھا جائے گا، اور یہ غدیر خم کا دن تھا جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا میں مؤمنین کا ولی نہیں ہوں؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مبارک ہو! اے ابنِ ابی طالب! آپ میرے اور ہر مسلمان کے مولا ٹھہرے۔ (اس موقع پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ’’ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 66 : أخرجه الطبرانی في المعجم الأوسط، 3 / 324، و خطيب البغدادی في تاريخ بغداد، 8 / 290، و ابن عساکر في تاريخ الدمشق الکبير، 45 / 176، 177، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 5 / 464، و رازی في التفسير الکبير، 11 / 139.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 38 فرمان صدیق اکبر و فاروق اعظم رضی اﷲ عنہما : علی رضی اللہ عنہ میرے اور تمام مومنین کے مولا ہیں ۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے، (راستے میں) ہم نے وادی غدیر خم میں قیام کیا۔ وہاں نماز کے لیے اذان دی گئی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دو درختوں کے نیچے صفائی کی گئی، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ ظہر ادا کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں کل مومنوں کی جانوں سے بھی قریب تر ہوں؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں ہر مومن کی جان سے بھی قریب تر ہوں؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں! راوی کہتا ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اے اللہ! اُسے تو دوست رکھ جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اور اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور اُن سے کہا : ’’اے ابن ابی طالب! مبارک ہو، آپ صبح و شام (یعنی ہمیشہ کے لئے) ہر مومن اور مومنہ کے مولا بن گئے ہیں۔ اس حدیث کو امام احمد اور ابن ابی شيبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 65 : أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 281، وابن أبی شيبة فی المصنف، 12 / 78، الحديث رقم : 12167.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 37 میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غلام ھوں حضرت عمر بن عبد الزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت یزید بن عمر بن مورق روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر میں شام میں تھا جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ لوگوں کو نواز رہے تھے۔ پس میں ان کے پاس آیا، اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کس قبیلے سے ہیں؟ میں نے کہا : قریش سے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ قریش کی کس (شاخ) سے؟ میں نے کہا : بنی ہاشم سے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ بنی ہاشم کے کس (خاندان) سے؟ راوی کہتے ہیں کہ میں خاموش رہا۔ اُنہوں نے (پھر) پوچھا کہ بنی ہاشم کے کس (خاندان) سے؟ میں نے کہا : مولا علی (کے خاندان سے)۔ اُنہوں نے پوچھا کہ علی کون ہے؟ میں خاموش رہا۔ راوی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا اور کہا : ’’بخدا! میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا غلام ہوں۔‘‘ اور پھر کہا کہ مجھے بے شمار لوگوں نے بیان کیا ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ پھر مزاحم سے پوچھا کہ اِس قبیلہ کے لوگوں کو کتنا دے رہے ہو؟ تو اُس نے جواب دیا : سو (100) یا دو سو (200) درہم. اِس پر اُنہوں نے کہا : ’’علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی قرابت کی وجہ سے اُسے پچاس (50) دینار دے دو، اور ابنِ ابی داؤد کی روایت کے مطابق ساٹھ (60) دینار دینے کی ہدایت کی، اور (اُن سے مخاطب ہو کر) فرمایا : آپ اپنے شہر تشریف لے جائیں، آپ کے پاس آپ کے قبیلہ کے لوگوں کے برابر حصہ پہنچ جائے گا۔ اس حدیث کو ابونعيم نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 52 : أخرجه أبو نعيم في حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 5 / 364، و ابن عساکر في التاريخ الدمشق الکبير، 48 / 233، و ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 69 / 127، ابن اثير في اسد الغابه فی معرفة الصحابه، 6 / 427، 428

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 36 جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے اور غدیر خم پر قیام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا، وہ لگا دیئے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے، جسے میں قبول کر لوں گا۔ تحقیق میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، جو ایک دوسرے سے بڑھ کر اہمیت کی حامل ہیں : ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے بعد تم ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہو اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے سامنے آئیں گی۔‘‘ پھر فرمایا : ’’بے شک اللہ میرا مولا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں۔‘‘ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا یہ ولی ہے، اے اللہ! جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو بھی عداوت رکھ۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘
الحديث رقم 45 : أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 109، الحديث رقم : 4576، والنسائی فی السنن الکبریٰ، 5 / 45، 130، الحديث رقم : 8148، 8464، والطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 166، الحديث رقم : 4969.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 35 جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے

عَنْ عُمَيْرِ بْنِ سَعْدٍ أنَّ عَلِيًّا جَمَعَ النَّاسَ فِي الرَّحْبَةِ وَ أنَا شَاهِدٌ، فَقَالَ : أنْشُدُ اﷲَ رَجُلًا سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، فَقَامَ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ رَجُلًا فَشَهِدُوا أنَّهُمْ سَمِعُوْا النَبِيٌّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : ذَالِکَ. رَوَاهُ الهيثمي.
’’حضرت عمیر بن سعد سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کھلے میدان میں یہ قسم دیتے ہوئے سنا کہ کس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے؟ تو اٹھارہ (18) افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔ اس حدیث کو ہیثمی نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 44 : أخرجه الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 108، و قال رواه الطبراني و أسناده حسن، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 158، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 4 / 171، و فيه 5 / 461، و حسام الدين الهندی في کنز العمال، 13 / 154، 155، الحديث رقم : 36480.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 34 جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے

عَنْ عَمَرٍو ذِيْ مُرٍّ وَ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ قَالَا : خَطَبَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ، فَقَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَهُ، اللَّهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ، وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَ أعِنْ مَنْ أعَانَهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’عمرو ذی مر اور زید بن ارقم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر خطاب فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، اور جو اِس کی نصرت کرے اُس کی تو نصرت فرما، اور جو اِس کی اِعانت کرے تو اُس کی اِعانت فرما۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے المعجم الکبير میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 43 : أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 5 / 192، الحديث رقم : 5059، و النسائی في ’خصائص امير المؤمنين علی بن ابی طالب رضی الله عنه، : 100، 101، الحديث رقم : 96، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 104، 106، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 4 / 170، وحسام الدين الهندی في کنزالعمال، 11 / 609، الحديث رقم : 32946.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 33 جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے

حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حجۃ الوداع کے موقع پرحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جسے غدیر خم کہتے ہیں۔ نماز باجماعت ہونے کی ندا آئی تو سارے مہاجرین و انصار جمع ہو گئے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور خطاب فرمایا : اے لوگو! تم کس چیز کی گواہی دیتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر کس کی؟ انہوں نے کہا : بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا ولی کون ہے؟ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ پھر فرمایا : تمہارا ولی اور کون ہے؟ تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا اور (حضرت علی رضی اللہ عنہ کے) دونوں بازو تھام کر فرمایا : ’’اللہ اور اُس کا رسول جس کے مولا ہیں اُس کا یہ (علی) مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ (اور) جو اِس (علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، اے اللہ! جو اِسے محبوب رکھے تو اُسے محبوب رکھ اور جو اِس سے بغض رکھے تو اُس سے بغض رکھ۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 42 : أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 2 / 357، الحديث رقم : 2505، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 106، و حسام الدين الهندی في کنزالعمال، 13 / 138، 139، الحديث رقم : 36437، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 179.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 32 جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے

حضرت حذیفہ بن اُسید غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو! مجھے لطیف و خبیر ذات نے خبر دی ہے کہ اللہ نے ہر نبی کو اپنے سے پہلے نبی کی نصف عمر عطا فرمائی اور مجھے گمان ہے مجھے (عنقریب) بلاوا آئے گا اور میں اُسے قبول کر لوں گا، اور مجھ سے (میری ذمہ داریوں کے متعلق) پوچھا جائے گا اور تم سے بھی (میرے متعلق) پوچھا جائے گا، (اس بابت) تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے ہمیں انتہائی جدوجہد کے ساتھ دین پہنچایا اور بھلائی کی باتیں ارشاد فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، جنت و دوزخ حق ہیں اور موت اور موت کے بعد کی زندگی حق ہے، اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں، اور اللہ تعالیٰ اہل قبور کو دوبارہ اٹھائے گا؟ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں! ہم ان سب کی گواہی دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! تو گواہ بن جا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! بیشک اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں تمام مؤمنین کا مولا ہوں اور میں ان کی جانوں سے قریب تر ہوں۔ جس کا میں مولا ہوں یہ اُس کا یہ (علی) مولا ہے۔ اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔ ’’اے لوگو! میں تم سے پہلے جانے والا ہوں اور تم مجھے حوض پر ملو گے، یہ حوض بصرہ اور صنعاء کے درمیانی فاصلے سے بھی زیادہ چوڑا ہے۔ اس میں ستاروں کے برابر چاندی کے پیالے ہیں، جب تم میرے پاس آؤ گے میں تم سے دو انتہائی اہم چیزوں کے متعلق پوچھوں گا، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ تم میرے پیچھے ان دونوں سے کیا سلوک کرتے ہو! پہلی اہم چیز اللہ کی کتاب ہے، جو ایک حیثیت سے اللہ سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری حیثیت سے بندوں سے تعلق رکھتی ہے۔ تم اسے مضبوطی سے تھام لو تو گمراہ ہو گے نہ (حق سے) منحرف، اور (دوسری اہم چیز) میری عترت یعنی اہلِ بیت ہیں (اُن کا دامن تھام لینا)۔ مجھے لطیف و خبیر ذات نے خبر دی ہے کہ بیشک یہ دونوں حق سے نہیں ہٹیں گی یہاں تک کہ مجھے حوض پر ملیں گی۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 41 : أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 3 / 180، 181، الحديث رقم : 3052، و في 3 / 67، الحديث رقم : 2683، و في 5 / 166، 167، الحديث رقم : 4971، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 164، 165، و حسام الدين الهندی في کنزالعمال، 1 / 188، 189، الحديث رقم : 957، 958، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 166، 167، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 5 / 463.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 31 جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے

ابو طفیل حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے حلفاً پوچھا کہ تم میں سے کون ہے جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن یہ فرماتے ہوئے سنا ہو : ’’کیا تم نہیں جانتے کہ میں مؤمنوں کی جانوں سے قریب تر ہوں؟ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو بھی اُسے دوست رکھ، اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔‘‘ (سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس گفتگو پر) بارہ (12) آدمی کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے اس واقعہ کی شہادت دی۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 40 : أخرجه الطبرانی في المعجم الاوسط، 2 / 576، الحديث رقم : 1987، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 106، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 157، 158، و محب الدين طبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 127، و حسام الدين الهندی في کنز العمال، 13 / 157، الحديث رقم : 36485.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 30 جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے

عَنْ عُمَيْرَةَ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه، أنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رضی الله عنه وَ هُوَ يَنْشُدُ فِي الرَّحْبَةِ : مَنْ سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ؟ فَقَامَ سِتَّةُ نَفَرٍ فَشَهِدُوْا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ.
’’عمیرہ بن سعد سے روایت ہے کہ اُنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کھلے میدان میں قسم دیتے ہوئے سنا کہ کس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے؟ تو (اِس پر) چھ (6) افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 39 : أخرجه الطبرانی في المعجم الاوسط، 3 / 134، الحديث رقم : 2275، و الطبرانی في المعجم الصغير، 1 / 64، 65، و النسائی في خصائص امير المؤمنين علی بن ابی طالب رضی الله عنه : 89، 91، الحديث رقم : 82، 85، و الهيثميفي مجمع الزوائد، 9 / 108، و البيهقی في السنن الکبری، 5 / 132، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 159، و مزی في تهذيب الکمال، 22 / 397، 398

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 29 جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے

عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِيْدَ بْنَ وَهْبٍ، قَالَ : نَشَدَ عَلِيٌّ رضی الله عنه النَّاسَ فَقَامَ خَمْسَةٌ أوْ سِتَّةٌ مِنْ أصْحَابِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَشَهِدُوْا أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’ابو اسحاق سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن وہب کو یہ کہتے ہوئے سنا : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے قسم لی جس پر پانچ (5) یا چھ (6) صحابہ نے کھڑے ہو کر گواہی دی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 38 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 366، و النسائی في خصائص امير المؤمنين علی بن ابی طالب رضی الله عنه : 90، الحديث رقم : 83، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابه، 2 / 598، 599، الحديث رقم : 1021، و المقدسی في الاحاديث المختاره، 2 / 105، الحديث رقم : 479، و البيهقی في السنن الکبریٰ، 5 / 131، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 104، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 160، و محب الدين الطبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 127.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 28 جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے

حضرت سعید بن وہب اور زید بن یثیع رضي اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھلے میدان میں لوگوں کو قسم دی کہ جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن کچھ فرماتے ہوئے سنا ہو کھڑا ہو جائے۔ راوی کہتے ہیں : چھ (آدمی) سعید کی طرف سے اور چھ (6) زید کی طرف سے کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے گواہی دی کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’کیا اللہ مؤمنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے اللہ! جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے اور تو اُس سے عداوت رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں’ طبرانی نے المعجم الاوسط اور المعجم الصغير میں اور ابن ابی شيبہ نے اپنی مصنف میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 37 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 118، والطبرانی في المعجم الأوسط، 3 / 69، 134، الحديث رقم : 2130، 2275، و الطبرانی في المعجم الصغير، 1 / 65، و ابن ابی شيبه في المصنف، 12 / 67، الحديث رقم : 12140، و النسائی في خصائص امير المؤمنين علی بن ابی طالب : 90، 100، الحديث رقم / 84، 95، و المقدسی في الاحاديث المختاره، 2 / 105، 106، الحديث رقم : 480، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 107، 108، و ابونعيم في حلية الأولياء و طبقات الاصفياء، 5 / 26، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 160، و حسام الدين الهندی في کنز العمال، 13 / 157، الحديث رقم : 36485.

اھل اسلام اور غلامان مصطفیٰ ﷺ کی خدمت میں اپیل


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آئیے نیکی اور خدمت دین کے اس کام میں ہمارا ساتھ دیجیئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادارہ پیغامُ القُرآن : ۔ دین کی خدمت میں کوشاں ادارے کے شعبہ جات : ۔
( 1 ) شعبہ تاجدار ختم نبوت ﷺ ختم نبوت ﷺ کے اس عظیم کام کو ھر زاویہ نگاہ سے سر انجام دیا جا رھا ھے آئیے آپ بھی ساتھ دیجیئے ؟
( 2 ) جامعہ فاطمۃ الزھرا رضی اللہ تعالیٰ عنھا للبنات
( 3 ) جامہ پیغامُ القُرآن للبنین ٰ( یعنی بچوں کی تعلیم و تربیت کا شعبہ )
( 4 ) بچیوں کو فری سلائ کڑاھائ سیکھانا
( 5 ) یتیم و بے سھارا بچیوں کی شادی وغیرہ کے تمام اخراجات
( 6 ) بے سھارا و یتیم بچوں کو فری دینی و جدید عصری تعلیمات دینا
( 7 ) کھانے پینے اور علاج معالجہ کی ادارے کی طرف سے فری سھولیات مہیا کرنا
نوٹ : ۔ چند دن قبل ادارہ کےلیئے 50 لاکھ مالیت پر مشتمل جگہ خرید گئ ھے جس 20 لاکھ ادا کر دیئے گئے ھیں باقی ادارے نے ادا کرنے ھیں ۔
اپیل : ۔ تمام اھل اسلام غلامان مصطفیٰ ﷺ سے اپیل کیجاتی ھے آئیے ھمارا ساتھ دیجیئے ؟ زکوٰۃ ، صدقات جاریہ جمع کرا کر دین کے اس عظیم کام میں اپنا حصّہ شامل فرمائیں ھم دعا دے سکتے ھیں آپ کو جزاکم اللہ خیرا کیونکہ ھم کسی بیرونی ملک کی ایڈ سے یہ کام نہیں کر رھے الحمد للہ اھل اسلام کے تعاون اور اللہ کے فضل و کرم سے یہ سلسلہ چل رھا ھے اور ان شاء اللہ چلتا رھے گا ھم رھیں یا نہ رھیں ان شاء اللہ ۔
اپنے عطیات ھمارے اس اکاؤنٹ نمبر میں جمع کرائیے اس یقین کامل کے ساتھ کہ آپ کا دیا گیا ایک ایک روپیہ خدمت دین میں ھی خرچ کیا جائے گا ان شاء اللہ : ۔
اکاؤنٹ نمبر 0001957900055503
فیض احمد چشتی : ۔ حبیب بینک کیولری گراؤنڈ برانچ لاھور پاکستان
موبائل رابطہ نمبر : ۔ 00923335555970
زیر سرپرست : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی خلیفہ مجاز پاکپتن شریف

Sunday, 28 June 2015

اھلسنّت و جماعت احناف رفع یدین کیوں نہیں کرتے دلائل

( 2 )
شارح بخاری امام ابن حجر عسقلانی نے دوٹوک لکھا ہے:
تمسکوا بحدیث جابر بن سمرۃ ’’اسکنوا فی الصلوٰۃ‘‘ لترک رفع الیدین عندالرکوع…۔(فتح الباری کتاب النفقات ،باب وجوب النفقۃ علی الاہل والعیال ج۱۱ص۴۲۹)
انہوں (محدثین)نے سیدنا جابر بن سمرہ ص کی حدیث’’اسکنو فی الصلوٰۃ‘‘سے دلیل پکڑی ہے اوراسے رکوع کے وقت رفع یدین نہ کرنے کی دلیل بنایاہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس حقیقت سے خوب پردہ اٹھادیا ہے کہ محدثین کی ایک جماعت نے اس حدیث کو رکوع کے وقت رفع یدین نہ کرنے کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس سے استدلال کیا ہے۔والحمدللہ علیٰ ذلک۔
امام بدرالدین عینی کا فیصلہ:
شارح بخاری حضرت امام عینی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
قلت فی الحدیث الاول انکار لرفع الید فی الصلوٰۃ وامر بالسکون فیھا۔(البنیایہ فی شرح الھدایہ ج۲ص۲۹۹)
میں کہتا ہوں کہ پہلی حدیث(سیدنا جابر بن سمرہ ص والی روایت) میں نماز میں رفع یدین کرنے کا انکار ہے اور سکون یعنی رفع یدین نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
قاضی عیاض مالکی کا حوالہ:
علامہ قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمۃ نے لکھا ہے:
قد ذکر ابن القصارھذا الحدیث حجۃ فی النھی عن رفع الا یدی علی روایۃ المنع من ذالک جملۃ۔
(الاکمال المعلم بفوائد المسلم ج۲ص۳۴۴)
ابن قصار نے ذکر کیا ہے کہ رفع یدین منع کرنے والی روایتوں میں سب سے واضح طور پر یہ حدیث حجت اور دلیل ہے رفع یدین روکنے پر۔
یعنی اس حدیث میں دوٹوک کھلے لفظوں کے ساتھ رسول اللہ ا نے رفع یدین کرنے سے منع فرمادیا ہے۔والحمد للہ علیٰ ذلک۔
ژ…ملا علی قاری علیہ الرحمۃ نے اس حدیث کو ’’نسخ رفع یدین‘‘کی دلیل بتایاہے۔ مرقاۃ ج۲ص۲۷۵ اورشرح نقایہ ج۱ص۷۸،موضوعات کبیر ص۵۹۴مترجم اور الاسرار المرفوعہ عربی ص۳۵۶ پر بھی نسخ کا قول کیاہے۔
ژ…ابن الملقن کے عمل سے بھی یہی واضح ہے کہ اس روایت کو عدم رفع کی بھی دلیل بنایا گیا ہے۔(البدرالمنیر ج۳ص۴۸۵)
ژ… امام جمال الدین ابوعبداللہ محمد بن یوسف زیلعی نے اس روایت کو ’’أحادیث اصحابنا ‘‘کے رفع یدین نہ کرنے پر استدلال کیا ہے۔
(نصب الرأیہ ج۱ ص۴۷۲)
ژ… علامہ ابو بکر بن مسعود کاسانی نے بدائع الصنائع ج۱ص۴۸۵۔
ژ… امام شمس الدین محمد بن احمدسرخسی نے المبسوط ج۱ص۱۴۔
ژ… امام بدرالدین عینی نے البنایہ شرح ھدایہ ج۲ص۲۹۴،اور عمدۃ القاری ج۵ص۳۹۸۔
ژ… علامہ زین الدین ابن نجیم المصری نے البحرالرائق ج۱ص۳۲۲۔
ژ…حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی تسلیم کیا ہے کہ احناف نے اس روایت کو اپنے مؤقف پر پیش کیا ہے۔ملاحظہ ہو! الدرایۃ علی الھدایۃ ص۱۱۲
ژ… علامہ عثمان بن علی زیلعی نے تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق ج۱ ص۱۲۰۔
ژ… مولانا محمد ہاشم سندھی نے کشف الرین ص۶۸ مترجم۔
ژ… اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے فتاویٰ رضویہ ج ۶ ص۱۵۵ ۔
ژ…علامہ ظفرالدین بہاری نے جامع الرضوی ج۲ص۳۹۶۔
ژ… مولانامحمد اچھروی نے مقیاس صلوٰۃ ص۲۰۸،۲۰۷پر۔
اور دوسرے کئی حضرات نے اس روایت کو رفع یدین نہ کرنے کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔
فقیر یہاں علمائے اہل سنت کی تحقیق اس اشکال کے جواب میں پیش کر رہا ہے ملاحظہ فرمائیں:
یہ اشکال غلط ہے،کیونکہ کسی محدث کا کسی حدیث کو کسی باب کے تحت نقل کرنا۔یہ محدث کی اپنی ذاتی رائے اور تحقیق ہے۔جس سے اختلاف کیا جاسکتاہے۔اس کا یہ معنیٰ نہیں ہوتا کہ اس حدیث کا وہی مطلب ہے جووہ محدث بیان کررہا ہے،بعض مرتبہ ایک محدث کسی روایت کو ایک باب کے تحت نقل کرتا ہے اور دوسرا محدث اسی حدیث کسی دوسرے عنوان کے تحت لکھتا ہے یہ بات علم حدیث کے ایک عام طالبعلم سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔
یہی بات حدیث مذکورہ کے متعلق بھی ہے ۔کیونکہ اس حدیث (جابر بن سمرہ ص والی روایت) کو اگر بعض محدثین نے تشہد وغیرہ کے باب میں نقل کیا ہے توکیا ہوا کئی دوسرے محدثین نے اسے خشوع وخضوع ، نمازمیں سکون اور حرکت نہ کرنے کے عنوان کے تحت بھی نقل کیا ہے۔اور اسے رفع یدین نہ کرنے کی بھی دلیل بنایا ہے۔مثلاً:
ژ…بخاری ومسلم کے استاذامام ابن ابی شیبہ نے اسے ’’ من کرہ رفع الیدین فی الدعا‘کے تحت لکھا ہے۔(مصنف ج۲ص۳۷۰ طبع ملتان)
ژ…امام سراج نے اسے ’’باب فی السکون فی الصلوٰۃ ‘‘میں نقل کیا ہے۔(مسند سراج ص ۲۴۳،۲۴۲)
ژ…امام بیہقی نے اسے ’’جماع ابواب الخشوع فی الصلوٰۃ والاقبال علیہما ‘‘ کے تحت ’’باب الخشوع فی الصلوٰۃ‘‘میں درج کیا ہے۔ (سنن کبریٰ ج۲ص۲۷۹)
ژ…امام ابوعوانہ نے اسے’’بیان النھی عن الاختصار فی الصلوٰۃ وایجاب الانتصاب والسکون فی الصلوٰۃ الا لصاحب العذر‘‘کے تحت لکھا ہے۔(مسند ابی عوانہ ج۲ص۸۵)
ژ…،قاضی شوکانی نے اسے رفع یدین نہ کرنے کی روایات میں نقل کیا ہے۔
(نیل الاوطار ج۲ص۱۸۴ باب رفع الیدین وبیان صفتہ ومواضعہ)
ژ…امام بخاری کی طرف منسوب کتاب’’ جزء رفع الیدین ‘‘سے ثابت ہے کہ اسے ’’رفع یدین‘‘نہ کرنے کی دلیل اس دور میں بھی بنایا گیا تھا۔ملاحظہ ہو! ص۳۲ طبع گرجاکھی کتب خانہ گوجرانوالہ۔
ژ… ابن حجر عسقلانی نے بھی اس روایت کو رفع یدین نہ کرنے کی روایات میں ذکر کرکے اس چیز کو تسلیم کیا ہے کہ ان کے زمانے یا اس سے بھی قبل کے لوگوں نے اس روایت سے رفع یدین نہ کرنا مراد لیا ہے۔
( تلخیص الحبیر ج۱ص۲۲۱)
ژ…علامہ نووی کے عمل سے بھی یہ بات ظاہر ہے۔ملاحظہ ہو! المجمو ع شرح المہذب ج۳ص۴۰۳،السندھی علی النسائی ج۱ص۱۷۶۔
ژ…امام ابن حبان نے اس حدیث کو ’’ذکر مایستحب للمصلی رفع الیدین عند قیامہ من الرکعتین من صلوٰ تہ‘‘میں درج کیا ہے۔
(صحیح ابن حبان ج۴ ص۱۷۸)

اھلسنّت و جماعت احناف رفع یدین کیوں نہیں کرتے دلائل

 ( 1 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
• حضرت عبداللہ ابن الزبیر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا تو اس سے منع فرمادیا۔ اور فرمایا: ’’ یہ کام رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا پھر اس کو چھوڑ دیا تھا ‘‘۔ (اوجز المسالک ج ۲ ص ۱۶۱ بحوالہ
• خلفاء راشدین نے رفع یدین نہیں کیا : اس سے پہلے دار قطنی کے حوالے سے ذکر کیا گیا کہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما رفع یدین نہیں کرتے تھے اور بھی کچھ حوالے ذکر کئے جاتے ہیں۔ * حضرت اسود سے مروی ، انہوں نے فرمایاکہ ’’ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ نماز میں صرف پہلی تکبیر میں ہاتھ اٹھاتے تھے اور دوبارہ ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۱ ص ۲۳۷، شرح معانی الاثار ،ج ۱ ص ۱۱۱ مکتبہ رحیمیہ دیوبند) * عاصم بن کلیب نے اپنے والد سے روایت کی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز میں پہلی تکبیر میں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے اور اس کے بعد نہیں اٹھاتے تھے (شرح معانی الاثار ۱؍۱۶۳) محدث و فقیہ امام ابوجعفر طحاوی متوفی ۳۲۱ ؁ھ نے حضرت علی کے اثر مذکور کو نقل فرمانے کے بعد تحریر فرمایا ’’ ایسا نہیں ہوسکتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا پھر بھی انہوں نے رفع یدین اپنی مرضی سے چھوڑ دیا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علی کے نزدیک رفع یدین کا عمل منسوخ ہو چکا تھا۔ ‘‘ (طحاوی شریف ج۱ ص ۱۶۳) اکثر صحابہ کرام نے رفع یدین نہیں کیا : خلفاء راشدین کے علاوہ حضرت ابن مسعود حضرت ابن عباس ، حضرت ابن عمر، حضرت جابر بن سمرہ ، حضرت براء بن عازب ، حصرت ابن الزبیر ، ابوسعید الخدری وغیرہ ہم رضی اللہ عنہم نے رفع یدین نہیں فرمایا۔

جامع ترمذی ،سنن ابو داؤد اور سنن نسائي میں ہے: ترجمہ:حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ہم سے فرمایا کہ کیا میں تم لوگوں کو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جیسی نمازنہ پڑھادوں؟ حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ہمیں یہ کہہ کرنماز پڑھائی تو ایک ہی دفعہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھائے ۔(ترمذی ،ابوداود ،نسائی)

غیر مقلدین اھلحدیث کے امامُ الکل فی الکل نذیر حسین صاحب دہلوی اپنے فتاویٰ نذیریہ جلد1 صفحہ 141 میں لکھتا ھے : ۔

کہ رفع یدین میں جھگڑا کرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دونوں ثابت ہیں ، دلایل دونوں طرف ہیں۔

نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالی جماعتِ غیر مقلدین کے بڑے اونچے عالم اور مجدد وقت تھے ، ان کی کتاب روضہ الندیہ غیر مقلدین کے یہاں بڑی معتبر کتاب ہے، نواب صاحب اس کتاب میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ھے ۔

۔"رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں۔۔۔(صفحہ 148)"۔
اور یہ قول بھی نقل کیا ھے : ۔ ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ (صفحہ 150)۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے۔

غیر مقلدین کے بڑے اکابر بزرگوں کی ان باتوں سے پتا چلا کہ ان لوگوں کے نزدیک رفع یدین کرنا اور نہ کرنا دونوں آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور دونوں سنت ہیں،

نماز میں تکبیر اپولیٰ کے علاوہ رفع یدین نہ کرنے کا بیان احادیث مبارکہ روشنی میں : ۔ آخری پوسٹ 14

عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَيْبٍ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّ عَلِيًا رضي الله عنه کَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ لَا يَعُوْدُ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

عاصم بن کلیب اپنے والد کلیب سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ صرف تکبیر تحریمہ میں ہی ہاتھوں کو اٹھاتے تھے پھر دورانِ نماز میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔

الحديث رقم 27 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 1 / 213، الرقم : 2444.

نماز میں تکبیر اپولیٰ کے علاوہ رفع یدین نہ کرنے کا بیان احادیث مبارکہ روشنی میں : ۔ 13

عَنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ : رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَکْبِيْرَةٍ، ثُمَّ لَا يَعُوْدُ. رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ.

حضرت اسود بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو نماز ادا کرتے دیکھا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ تکبیر تحریمہ کہتے وقت دونوں ہاتھ اٹھاتے، پھر (بقیہ نماز میں ہاتھ) نہیں اٹھاتے تھے۔

الحديث رقم 26 : أخرجه الطحاوي في شرح معاني الآثار، 1 / 294، الرقم : 1329.

نماز میں تکبیر اپولیٰ کے علاوہ رفع یدین نہ کرنے کا بیان احادیث مبارکہ روشنی میں : ۔ 12

عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيْهِ، قَالَ : رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّي يُحَاذِيَ بِهِمَا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : حَذْوَ مَنْکَبَيْهِ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْکَعَ، وَبَعْدَ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّکُوْعِ، لَا يَرْفَعُهُمَا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : وَلَا يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ. رَوَاهُ أَبُوْعَوَانَةَ.

حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز شروع کرتے وقت اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھایا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکوع کرنا چاہتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے، اور بعض نے کہا دونوں سجدوں کے درمیان (ہاتھ) نہیں اٹھاتے تھے۔

الحديث رقم 25 : أخرجه أبو عوانة في المسند، 1 / 423، الرقم : 1572.

نماز میں تکبیر اپولیٰ کے علاوہ رفع یدین نہ کرنے کا بیان احادیث مبارکہ روشنی میں : ۔ 11

عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضي الله عنه قَالَ : صَلَّيْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَأَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ رضي اﷲ عنهما، فَلَمْ يَرْفَعُوْا أَيْدِيَهِم إِلَّا عِنْدَ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ.

حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما کے ساتھ نماز پڑھی، یہ سب حضرات صرف نماز کے شروع میں ہی اپنے ہاتھ بلند کرتے تھے۔

الحديث رقم 24 : أخرجه الدارقطني في السنن، 1 / 295، وأبويعلي في المسند، 8 / 453، الرقم : 5039، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 79، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 101.

نماز میں تکبیر اپولیٰ کے علاوہ رفع یدین نہ کرنے کا بیان احادیث مبارکہ روشنی میں : ۔ 10

عَنِ الْأَسْوَدِ أَنَّ عَبْدَ اﷲِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه کَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ التَّکْبِيْرِ، ثُمَّ لَا يَعُوْدُ إِلَي شَيءٍ مِنْ ذَلِکَ. وَيَأْثِرُ ذَلِکَ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم. رَوَاهُ أَبُوْحَنِيْفَةَ.

حضرت اسود روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اُٹھاتے تھے، پھر نماز میں کسی اور جگہ ہاتھ نہ اٹھاتے اور یہ عمل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا کرتے۔

الحديث رقم 23 : أخرجه الخوارزمي في جامع المسانيد، 1 / 355.

نماز میں تکبیر اپولیٰ کے علاوہ رفع یدین نہ کرنے کا بیان احادیث مبارکہ روشنی میں : ۔ 9

عَنِ الْبَرَاءِ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَي قَرِيْبٍ مِنْ أُذُنَيْهِ ثُمَّ لَا يَعُوْدُ. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ.

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے، اور پھر ایسا نہ کرتے۔

الحديث رقم 22 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : الصلاة، باب : من لم يذکر الرفع عند الرکوع، 1 / 287، الرقم : 750، وعبد الرزاق في المصنف، 2 / 70، الرقم : 2530، وابن أبي شيبة في المصنف، 1 / 213، الرقم : 2440، والدارقطني في السنن، 1 / 293، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 1 / 253، الرقم : 1131.

نماز میں تکبیر اپولیٰ کے علاوہ رفع یدین نہ کرنے کا بیان احادیث مبارکہ روشنی میں : ۔ 8

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ وَخَالِدُ بْنُ عَمْرٍو وَ أَبُوْحُذَيْفَةَ رضي الله عنهم، قَالُوْا : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بِإِسْنَادِهِ بِهَذَا، قَالَ : فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، وَ قَالَ بَعْضُهُمْ : مَرَّةً وَاحِدَةً. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ.


’’حضرت حسن بن علی، معاویہ، خالد بن عمرو اور ابو حذیفہ رضی اللہ عنھم روایت کرتے ہیں کہ سفیان نے اپنی سند کے ساتھ ہم سے حدیث بیان کی (کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) پہلی دفعہ ہی ہاتھ اٹھائے، اور بعض نے کہا : ایک ہی مرتبہ ہاتھ اٹھائے۔‘‘

الحديث رقم 21 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : التطبيق، باب : من لم يذکر الرفع عند الرکوع، 1 / 286، الرقم : 749.

نماز میں تکبیر اپولیٰ کے علاوہ رفع یدین نہ کرنے کا بیان احادیث مبارکہ روشنی میں : ۔ 7

عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اﷲِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه : أَلاَ أُصَلِّي بِکُمْ صَلَاةَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَ : فَصَلَّي فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ، وَالنَّسَائِيُّ وَزَادَ : ثُمَّ لَمْ يُعِدْ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

حضرت علقمہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا میں تمہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟ راوی کہتے ہیں : پھر اُنہوں نے نماز پڑھائی اور ایک مرتبہ کے سوا اپنے ہاتھ نہ اٹھائے۔‘‘ امام نسائی کی بیان کردہ روایت میں ہے : ’’پھر انہوں نے ہاتھ نہ اٹھائے۔

الحديث رقم 20 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : التطبيق، باب : من لم يذکر الرفع عند الرکوع، 1 / 286، الرقم : 748، والترمذي في السنن، کتاب : الصلاة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : رفع اليدين عند الرکوع، 1 / 297، الرقم : 257، والنسائي في السنن، کتاب : الافتتاح، باب : ترک ذلک، 2 / 131، الرقم : 1026، وفي السنن الکبري، 1 / 221، 351، الرقم : 645، 1099، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 388، 441، وابن أبي شيبة في المصنف، 1 / 213، الرقم : 2441.

نماز میں تکبیر اپولیٰ کے علاوہ رفع یدین نہ کرنے کا بیان احادیث مبارکہ روشنی میں : ۔ 6

حضرت ابوقلابہ سے روایت ہے کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا : کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز نہ بتاؤں؟ اور یہ نماز کے معینہ اوقات کے علاوہ کی بات ہے۔ سو انہوں نے قیام کیا، پھر رکوع کیا تو تکبیر کہی پھر سر اٹھایا تو تھوڑی دیر کھڑے رہے۔ پھر سجدہ کیا، پھر تھوڑی دیر سر اٹھائے رکھا پھر سجدہ کیا۔ پھر تھوڑی دیر سر اٹھائے رکھا۔ انہوں نے ہمارے ان بزرگ حضرت عمرو بن سلمہ کی طرح نماز پڑھی۔ ایوب کا بیان ہے وہ ایک کام ایسا کرتے جو میں نے کسی کو کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ دوسری اور چوتھی رکعت میں بیٹھا کرتے تھے۔ فرمایا : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ٹھہرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم اپنے گھر والوں کے پاس واپس جاؤ تو فلاں نماز فلاں وقت میں پڑھنا۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے ایک اذان کہے اور جو بڑا ہو وہ تمہاری امامت کرے۔
الحديث رقم 19 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : المکث بين السجدتين إتمام التکبير في الرکوع، 1 / 282، الرقم : 785.

نماز میں تکبیر اپولیٰ کے علاوہ رفع یدین نہ کرنے کا بیان احادیث مبارکہ روشنی میں : ۔ 5

ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہر نماز میں تکبیر کہتے خواہ وہ فرض ہوتی یا دوسری، ماہِ رمضان میں ہوتی یا اس کے علاوہ جب کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور جب رکوع کرتے تو تکبیر کہتے۔ پھر (سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہتے۔ پھر سجدہ کرنے سے پہلے (رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ) کہتے۔ پھر جب سجدے کے لئے جھکتے تو (اَﷲُ اَکْبَرُ) کہتے۔ پھر جب سجدے سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے، پھر جب (دوسرا) سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے، پھر جب سجدے سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے، پھر جب دوسری رکعت کے قعدہ سے اٹھتے تو تکبیر کہتے، اور ہر رکعت میں ایسا ہی کرتے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہو جاتے۔ پھر فارغ ہونے پر فرماتے : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! تم سب میں سے میری نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے ساتھ زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تادمِ وِصال اسی طریقہ پر نماز ادا کی۔
الحديث رقم 18 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : يهوي بالتکبير حين يسجد، 1 / 276، الرقم : 770، وأبوداود في السنن، کتاب : الصلاة، باب : تمام التکبير، 1 / 221، الرقم : 836.

نماز میں تکبیر اپولیٰ کے علاوہ رفع یدین نہ کرنے کا بیان احادیث مبارکہ روشنی میں : ۔ 4

عَنْ أَبِي بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رضي الله عنه يَقُولُ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِذَا قَامَ إِلَي الصَّلَاةِ، يُکَبِّرُ حِينَ يَقُوْمُ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَرْکَعُ، ثُمَّ يَقُوْلُ : (سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ). حِينَ يَرْفَعُ صُلْبَهُ مِنَ الرَّکْعَةِ. ثُمَّ يَقُوْلُ وَهُوَ قَائِمٌ : (رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ). قَالَ عَبْدُ اﷲِ : (وَلَکَ الْحَمْدُ). ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَهْوِي، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَسْجُدُ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، ثُمَّ يَفْعَلُ ذَلِکَ فِي الصَّلَاةِ کُلِّهَا حَتَّي يَقْضِيَهَا، وَ يُکَبِّرُ حِينَ يَقُوْمُ مِنَ الثِّنْتَيْنِ بَعْدَ الْجُلُوْسِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 17 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : التکبير إذا قام من السجود، 1 / 272، الرقم : 756، ومسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : إثبات التکبير في کل خفض ورفع في الصلاة، 1 / 293، الرقم : 392.
’’حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو کھڑے ہوتے وقت تکبیر کہتے پھر رکوع کرتے وقت تکبیر کہتے پھر (سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہتے جب کہ رکوع سے اپنی پشت مبارک کو سیدھا کرتے پھر سیدھے کھڑے ہوکر (رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ) کہتے۔ پھر جھکتے وقت تکبیر کہتے۔ پھر سر اٹھاتے وقت تکبیر کہتے۔ پھر سجدہ کرتے وقت تکبیر کہتے پھر سجدے سے سر اٹھاتے وقت تکبیر کہتے۔ پھر ساری نماز میں اسی طرح کرتے یہاں تک کہ پوری ہوجاتی اور جب دو رکعتوں کے آخر میں بیٹھنے کے بعد کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے۔‘‘

نماز میں تکبیر اپولیٰ کے علاوہ رفع یدین نہ کرنے کا بیان احادیث مبارکہ روشنی میں : ۔ 3

عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي الله عنه قَالَ : صَلَّيْتُ خَلْفَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه، أَنَا وَعِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، فَکَانَ إِذَا سَجَدَ کَبَّرَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ کَبَّرَ، وَإِذَا نَهَضَ مِنَ الرَّکْعَتَيْنِ کَبَّرَ، فَلَمَّا قَضَي الصَّلَاةَ، أَخَذَ بِيَدِي عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ فَقَالَ : قَدْ ذَکَّرَنِي هَذَا صَلَاةَ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم، أَوْ قَالَ : لَقَدْ صَلَّي بِنَا صَلَاةَ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 16 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : إتمام التکبير في السجود، 1 / 272، الرقم : 753، ومسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : إثبات التکبير في کل خفض ورفع في الصلاة، 1 / 295، الرقم : 393، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 444.
’’حضرت مطرف بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی جب انہوں نے سجدہ کیا تو تکبیر کہی جب سر اٹھایا تو تکبیر کہی اور جب دو رکعتوں سے اٹھے تو تکبیر کہی۔ جب نماز مکمل ہو گئی تو حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : انہوں نے مجھے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز یاد کرا دی ہے (یا فرمایا : ) انہوں نے مجھے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز جیسی نماز پڑھائی ہے۔

نماز میں تکبیر اپولیٰ کے علاوہ رفع یدین نہ کرنے کا بیان احادیث مبارکہ روشنی میں : ۔ 2

عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّهُ کَانَ يُصَلِّي لَهُمْ، فَيُکَبِّرُ کُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ، فَإِذَا انْصَرَفَ قَالَ : إِنِّي لَأَشْبَهُکُمْ صَلَاةً بِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 15 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : إتمام التکبير في الرکوع، 1 / 272، الرقم : 752، ومسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : اثبات التکبير في کل خفض ورفع في الصلاة، 1 / 293، الرقم : 392، والنسائي في السنن، کتاب : التطبيق، باب : التکبير للنهوض، 2 / 235، الرقم : 1155، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 236، الرقم : 7219، ومالک في الموطأ، 1 / 76، الرقم : 166، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 1 / 221.
’’حضرت ابو سلمہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ انہیں نماز پڑھایا کرتے تھے، وہ جب بھی جھکتے اور اٹھتے تو تکبیر کہتے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : تم میں سے میری نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔‘‘

نماز میں تکبیر اپولیٰ کے علاوہ رفع یدین نہ کرنے کا بیان احادیث مبارکہ روشنی میں : ۔ 1

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رضي الله عنه قَالَ : صَلَّي مَعَ عَلِيٍّ رضي الله عنه بِالْبَصْرَةِ، فَقَالَ : ذَکَّرَنَا هَذَا الرَّجُلُ صَلَاَةً، کُنَّا نُصَلِّيهَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَذَکَرَ أَنَّهُ کَانَ يُکَبِّرُ کُلَّمَا رَفَعَ وَکُلَّمَا وَضَعَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
الحديث رقم 14 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : إتمام التکبير في الرکوع، 1 / 271، الرقم : 751، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 78، الرقم : 2326، والبزار في المسند، 9 / 26، الرقم : 3532.
’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے فرمایا : انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بصرہ میں نماز پڑھی تو انہوں نے ہمیں وہ نماز یاد کروا دی جو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ) جب بھی اٹھتے اور جھکتے تو تکبیر کہا کرتے تھے۔‘‘

سوال : ۔ اہل حدیث کہتے ہیں‌ کہ رفع یدین والی تمام احادیثیں صحیح ہیں اور حنفی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس بھی دلیل موجود ہے۔ دو طرفہ دلائل موجود ہیں ایک عام آدمی کیا کرے ؟ مہربانی کر کے تفصیلی جواب دیں اور یہ بھی بتائیں کہ اسناد کے اعتبار سے مضبوط دلیل کس کی ہے ۔ شکریہ


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب : ۔ بخاری شریف کی حدیث مبارکہ بھی صحیح ہے اور مسلم شریف کی حدیث مبارکہ بھی درست اور صحیح ہے۔ ہم احناف یہ نہیں کہتے کہ رفع یدین والی حدیث صحیح نہیں ہے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اوائل اسلام میں رفع یدین کیا جاتا تھا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے منسوخ کر دیا۔ دین اسلام میں یہ ایک بڑی خوبی ہے کہ حالات کے مطابق اور لوگوں کے احوال کے مطابق حکم دیا جاتا ہے قرآن مجید میں بھی ناسخ آیات اور منسوخ آیات موجود ہیں، اس طرح حدیث مبارکہ میں بھی ناسخ و منسوخ موجود ہیں لیکن یہ ہر کسی کا کام نہیں، ماہر علما کرام یہ پہچان کر سکتے ہیں کہ فلاں حدیث منسوخ ہے اور فلاں نہیں ۔رفع یدین کو مندرجہ ذیل حدیث مبارکہ سے منسوخ کہتے ہیں :

امام مسلم یہ روایت کرتے ہیں :

عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة الخ

(صحيح مسلم، 1 : 201، طبع ملک سراج الدين لاهور)

جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام ہماری طرف تشریف لائے۔ (ہم نماز پڑھ رہے تھے) فرمایا کیا وجہ سے کہ میں تمہیں شمس قبیلے کے سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ نماز میں سکون سے رہا کرو۔

اس حدیث پاک میں رفع یدین سے منع کیا گیا اور تشبیہ دی کہ شمس قبیلہ کے گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ نہ اٹھاؤ۔

یہ حدیث امام احمد بن حنبل نے بھی روایت کی ہے، امام ابو داؤد نے بھی روایت کی ہے، مسند ابی عوانہ میں بھی روایت کی گئی، امام بیہقی نے سنن کبری میں روایت کی ہے، امام ترمذی اور امام ابو داؤد حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں :

قال ابن مسعود الا اصلی بکم صلوٰة رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فصلی فلم يرفع يديه الا فی اول مرة

ابن مسعود رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی اور تمام صحابہ سے فقہی ہیں، وہ  فرماتے ہیں کہ لوگوں کیا میں تمہیں وہ نماز پڑھاؤں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز ہے؟ تو نماز پڑھائی اور رفع یدین نہیں کیا سوائے پہلی مرتبہ کے۔

اگر رفع یدین منسوخ نہ ہوتا تو آپ ضرور کرتے چونکہ ان کے نزدیک منسوخ تھا۔ اس لیے فرمایا کہ وہ نماز پڑھاؤں جو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نماز ہے، حالانکہ تمام عمر صحابہ کرام آپ ہی کی طرح نماز ادا کرتے۔ معلوم ہوا جب رفع یدین منسوخ ہوا تو آپ نے محسوس کیا کہ صحابہ کو بتا دوں۔

Saturday, 27 June 2015

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 27 جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے

حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وسیع میدان میں دیکھا، اُس وقت آپ لوگوں سے حلفاً پوچھ رہے تھے کہ جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن ۔ ۔ ۔ جس کامیں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ ۔ ۔ فرماتے ہوئے سنا ہو وہ کھڑا ہو کر گواہی دے۔ عبدالرحمن نے کہا : اس پر بارہ (12) بدری صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کھڑے ہوئے، گویا میں اُن میں سے ایک کی طرف دیکھ رہا ہوں۔ ان (بدری صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم) نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’کیا میں مؤمنوں کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں، اور میری بیویاں اُن کی مائیں نہیں ہیں؟‘ سب نے کہا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ! اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولاہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔ اس حدیث کوامام احمد بن حنبل اور ابويعلی نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 36 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 119، و أبويعلی في المسند، 1 / 257، الحديث رقم : 563، و الطحاوی في مشکل الآثار، 2 / 308، و المقدسی في الاحاديث المختاره، 2 / 80، 81، الحديث رقم : 458، و خطيب بغدادی في تاريخ بغداد، 14 / 236، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 156، 157، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 161، و محب الدين الطبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 128.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 26 جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے

حضرت زاذان بن عمر سے روایت ہے، آپ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مجلس میں لوگوں سے حلفاً یہ پوچھتے ہوئے سنا : کس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ اس پر تیرہ (13) آدمی کھڑے ہوئے اور انہوں نے تصدیق کی کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اس کو امام احمد بن حنبل اور طبرانی نے المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 35 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 84، و الطبرانی في المعجم الاوسط، 3 / 69، الحديث رقم : 2131، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابه، 2 / 585، الحديث رقم : 991، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 107، و ابن ابی عاصم في کتاب السنه : 604، الحديث رقم : 1371، و البيهقی في السنن الکبریٰ، 5 / 131، و أبو نعیم في حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 5 / 26، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 5 / 462، و حسام الدين الهندی في کنز العمال، 13 / 158، الحديث رقم : 36487.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 25 جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے

عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ، قَالَ اسْتَشْهَدَ عَلِيٌّ النَّاسَ، فَقَالَ : أنْشُدُ اﷲَ رَجُلًا سَمِعَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : اللّٰهُمَّ! مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ، قَالَ : فَقَامَ سِتَّةَ عَشَرَ رَجُلاً، فَشَهِدُوْا۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے گواہی طلب کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’اے اللہ! جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے اور تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ پس اس (موقع) پر سولہ (16) آدمیوں نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 34 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 370، و الطبرانی في المعجم الکبير، 5 / 171، الحديث رقم : 4985، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 106، و محب الدين أحمد الطبری في ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی : 125، 126 وأيضا في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 127، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 5 / 461.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 24 جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے

عَنْ رِيَاحِ ْبنِ الْحَارِثِ قَالَ : بَيْنَا عَلِیٌّ رضی الله عنه جَالِسٌ فِي الرَّحْبَةِ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ وَ عَلَيْهِ أَثْرُ السَّفَرِ فَقَالَ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا مَوْلَايَ فَقِيْلَ مَنْ هَذَا؟ قَالَ : أَبُوْأَيُوْبَ الْاَنْصَارِيُّ قَالَ : أَبُوْأَيُوْبَ سَمِعْتَُرسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيُّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِيْ الْمُعْجِمِ الْکَبِيْرِ وابْنُ أبِي شَيْبَةَ.
’’حضرت ریاح بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس دوران جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ صحن میں تشریف فرما تھے ایک آدمی آیا، اس پر سفر کے اثرات نمایاں تھے، اس نے کہا : السلام علیک اے میرے مولا! پوچھاگیا یہ کون ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ابو ایوب انصاری ہیں۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں اور ابن ابی شيبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 33 : أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 4 / 173، الحديث رقم : 4052، 4053، و ابن ابي شيبة في المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32073، والنيسابوری فی شرف المصطفی، 5 : 495

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 23 جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے

حضرت ریاح بن حارث سے روایت ہے کہ ایک وفد نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور کہا : اے ہمارے مولا! آپ پر سلامتی ہو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا : میں کیسے آپ کا مولا ہوں حالانکہ آپ تو قومِ عرب ہیں (کسی کو جلدی قائد نہیں مانتے)۔ اُنہوں نے کہا : ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے : ’’ جس کا میں مولا ہوں بے شک اس کا یہ (علی) مولا ہے۔‘‘ حضرت ریاح نے کہا : جب وہ لوگ چلے گئے تو میں نے ان سے جا کر پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ انصار کا ایک وفد ہے‘ ان میں حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے اور طبرانی نے المعجم الکبير میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 32 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 419، و الطبرانی في المعجم الکبير، 4 : 173، 174، الحديث رقم : 4052، 4053، و ابن ابی شيبه في المصنف، 12 / 60، الحديث رقم : 12122، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابه، 2 / 572، الحديث رقم : 967، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 103، 104، و محب طبری فيالرياض النضره فی مناقب العشره، 2 / 169، و محب الدين الطبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 126، و ابن کثير في البدايه و النهايه، 4 / 172، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 5 / 462.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 22 جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے

ابوطفیل سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ایک کھلی جگہ (رحبہ) میں جمع کیا، پھر اُن سے فرمایا : میں ہر مسلمان کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیرخم کے دن (میرے متعلق) کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے وہ کھڑا ہو جائے۔ اس پر تیس (30) افراد کھڑے ہوئے جبکہ ابونعيم نے کہا کہ کثير افراد کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے گواہی دی کہ (ہمیں وہ وقت یاد ہے) جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں سے فرمایا : ’’کیا تمہیں اس کا علم ہے کہ میں مؤمنین کی جانوں سے قریب تر ہوں؟‘‘ سب نے کہا : ہاں، یا رسول اﷲ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا یہ (علی) مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے اور تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ جب میں وہاں سے نکلا تو میرے دل میں کچھ شک تھا۔ اسی دوران میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ملا اور اُنہیں کہا کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔ (اس پر) زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے کہا : تو کیسے انکار کرتا ہے جبکہ میں نے خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ایسا ہی فرماتے ہوئے سنا ہے؟ اس حدیث کو ابن حبان، احمد بن حنبل اور حاکم نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 31 : أخرجه ابن حبان في الصحيح، 15 / 376، الحديث رقم : 6931، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 370، و أحمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 682، رقم : 1167، و الحاکم في المستدرک، 3 / 109، الحديث رقم : 4576، و البزار في المسند، 2 / 133، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 104، و ابن ابی عاصم في کتاب السنه : 603، الحديث رقم : 1366، و البيهقی في السنن الکبریٰ، 5 / 134، و محب الدين أحمد الطبری في الرياض النضرة فی مناقب العشره، 3 / 127، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 156، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 5 / 460، 461.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 21 جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے

حضرت عطیہ عوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے زید بن ارقم سے پوچھا : میرا ایک داماد ہے جو غدیر خم کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں آپ کی روایت سے حدیث بیان کرتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس حدیث کو آپ سے (براہِ راست) سنوں۔ زید بن ارقم نے کہا : تم اہلِ عراق ہو تمہاری عادتیں تمہیں مبارک ہوں۔ میں نے ان سے کہا کہ میری طرف سے انہیں کوئی اذیت نہیں پہنچے گی۔ (اس پر) انہوں نے کہا : ہم جحفہ کے مقام پر تھے کہ ظہر کے وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بازو تھامے ہوئے باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے لوگو! کیا تمہیں علم نہیں کہ میں مومنوں کی جانوں سے بھی قریب تر ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔‘‘ عطیہ نے کہا : میں نے مزید پوچھا : کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا : ’’اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے اُسے تو بھی دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو بھی عداوت رکھ؟‘‘ زید بن ارقم نے کہا : میں نے جو کچھ سنا تھا وہ تمہیں بیان کر دیا ہے۔ اس حدیث کو امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 30 : أخرجه احمد بن حنبل فی المسند، 4 / 368، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 195، الحديث رقم : 5070.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 20 جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سائل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کھڑا ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نماز میں حالتِ رکوع میں تھے۔ اُس نے آپ رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی کھینچی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے انگوٹھی سائل کو عطا فرما دی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُس کی خبر دی۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی : (بے شک تمہارا (مدد گار) دوست اللہ اور اُس کا رسول ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اللہ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کو پڑھا اور فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔ اس حدیث کوامام احمد بن حنبل، امام حاکم اورامام طبرانی نے المعجم الکبير اورالمعجم الاوسط میں روایت کیاہے۔‘‘
الحديث رقم 29 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 : 119 وفيه أيضا، 4 / 372، و الحاکم في المستدرک، 3 / 119، 371، الحديث رقم : 4576، 5594، والطبرانی في المعجم الاوسط، 7 / 129، 130، الحديث رقم : 6228، و الطبرانی في المعجم الکبير، 4 / 174، الحديث رقم : 4053، و في، 5 / 195، 203، 204، الحديث رقم : 5068، 5069، 5092، 5097، و الطبرانی في المعجم الصغير، 1 / 65، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 7 / 17، و الهيثمی في موارد الظمآن : 544، الحديث رقم : 2205، وخطيب البغدادی في تاريخ بغداد، 7 / 377.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 19 جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے

عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه أنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ.
 (خود) حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے، اور طبرانی نے المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 28 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 152، و الطبرانی في المعجم الاوسط، 7 / 448، الحديث رقم : 6878، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 107، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابه، 2 / 705، الحديث رقم : 1206، و ابن ابی عاصم في کتاب السنه : 604، الحديث رقم : 1369، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 : 161، 162، 163، و ابن کثير في البدايه و النهايه، 4 / 171، وحسام الدين الهندی في کنز العمال، 13 / 77، 168، الحديث رقم : 32950، 36511.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 18 جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے

حضرت میمون ابو عبد اﷲ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک وادی۔ . . جسے وادئ خم کہا جاتا تھا۔ . . میں اُترے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کا حکم دیا اور سخت گرمی میں جماعت کروائی۔ پھر ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا درآنحالیکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سورج کی گرمی سے بچانے کے لئے درخت پر کپڑا لٹکا کر سایہ کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا تم نہیں جانتے یا (اس بات کی) گواہی نہیں دیتے کہ میں ہر مومن کی جان سے قریب تر ہوں؟‘‘ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’پس جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ ! تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے اور اُسے دوست رکھ جواِسے دوست رکھے۔ اس حدیث کو امام احمد نے اپنی’’ مسند ‘‘میں اور بیہقی نے ’’السنن الکبریٰ ‘‘میں اور طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 27 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 372، والبيهقي في السنن الکبریٰ، 5 / 131، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 195، الحديث رقم : 5068، بسنده.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 17 جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کے غزوہ میں شرکت کی جس میں مجھے آپ سے کچھ شکوہ ہوا۔ جب میںحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں واپس آیا تو میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کے بارے میں تنقیص کی۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے بریدہ! کیا میں مومنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ تو میں نے عرض کیا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمدنے اپنی مسند میں، امام نسائی نے ’’السنن الکبریٰ‘‘ میں اور امام حاکم اور ابن ابی شيبہ نے روایت کیا ہے اور امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘
الحديث رقم 26 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 347، الحديث رقم : 22995، والنسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 130، الحديث رقم : 8465، والحاکم في المستدرک، 3 / 110، الحديث رقم : 4578، وابن ابي شيبه في المصنف، 12 / 84، الحديث رقم : 12181.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 16 جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے

عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ : أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي حَجَّتِهِ الَّتِي حَجَّ، فَنَزَلَ فِي بَعْضِ الطَّرِيْقِ، فَأَمَرَ الصَّلاَةَ جَامِعَةً، فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ رضي الله عنه ، فَقَالَ : أَلَسْتُ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟ قَالُوْا : بَلَی، قَالَ : أَلَسْتُ أوْلٰی بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ؟ قَالَوْا : بَلَی، قَالَ : فَهَذَا وَلِيُّ مَنْ أَنَا مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، اللَّهُمَّ! عَادِ مَنْ عَادَاهُ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ.
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حج ادا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راستے میں ایک جگہ قیام فرمایا اور نماز باجماعت (قائم کرنے) کا حکم دیا، اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا میں مومنوں کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں ہر مومن کی جان سے قریب تر نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس یہ (علی) ہر اس شخص کا ولی ہے جس کا میں مولا ہوں۔ اے اللہ! جو اسے دوست رکھے اسے تو بھی دوست رکھ (اور) جو اس سے عداوت رکھے اُس سے تو بھی عداوت رکھ۔‘‘ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 25 : أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمه، باب فضائل أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 1 / 88، الحديث رقم : 116.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 15 جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے

عَنْ سَعْدِ بْنِ أبِي وَقَّاصٍ، قَالَ فِي رِوَايَةٍ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعِليٌّ مَوْلَاهُ، وَ سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزَلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی، إِلاَّ أنَّهُ لاَ نَبِيَّ بَعْدِيْ، وَ سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : لَأعْطِيَنَّ الرَّأيَةَ الْيَوْمَ رَجُلاً يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ. رَوَاهُ ابْنُ ماَجَةَ وَالنَّسَائِيّ.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (حضرت علی رضی اللہ عنہ سے) یہ فرماتے ہوئے سنا : تم میرے لیے اسی طرح ہو جیسے ہارون علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام کے لیے تھے، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں، اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (غزوۂ خبیر کے موقع پر) یہ بھی فرماتے ہوئے سنا : میں آج اس شخص کو جھنڈا عطا کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 24 : أخرجه ابن ماجة فی السنن، المقدمه، باب فی فضائل أصحاب رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 45، الحديث رقم : 121، و النسائي في الخصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي الله عنه، : 32، 33، الحديث رقم : 91.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 13 علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اہلِ بیت میں سے ہیں

حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ . . . یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما۔ . . سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہاکہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 23 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علي بن أبی طالب رضی الله عنه، 5 / 633، الحديث رقم : 3713، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الحديث رقم : 5071، 5096.
وَ قَدْ رُوِيَ هَذَا الحديث عَنْ حُبْشِيّ بْنِ جُنَادَةْ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ.
أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 134، الحديث رقم : 4652، والطبرانی فی المعجم الکبير، 12 / 78، الحديث رقم : 12593، ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1359، وحسام الدين الهندی فی کنزالعمال، 11 / 608، رقم : 32946، وابن عساکرفی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144، و خطيب البغدادی فی تاريخ بغداد، 12 / 343، و ابن کثير فی البدايه و النهايه، 5 / 451، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 108.
وَ قَد رُوِيَ هَذَا الحديث أيضا عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ.
أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1355، وابن ابی شيبه فی المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32072
وَقَدْ رُوِيَ هَذَ الحديث عَنْ ايُوْبٍ الْأَنْصَارِيِّ فِي الْکُتْبِ الآتِيَةِ.
أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1354، والطبرانی فی المعجم الکبير، 4 / 173، الحديث رقم : 4052، والطبرانی فی المعجم الاوسط، 1 / 229، الحديث رقم : 348.
وَقَدَرُوِيِّ هَذَالحديث عَنْ بُرَيْدَةَ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.
أخرجه عبدالرزاق فی المصنف، 11 / 225، الحديث رقم : 20388، و الطبرانی فی المعجم الصغير، 1 : 71، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143، وابن ابی عاصم فی السنه : 601، الحديث رقم : 1353، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 146، وابن کثيرفی البدايه و النهايه، 5 / 457، وحسام الدين هندی فی کنز العمال، 11 / 602، رقم : 32904.
وَقَدْ رُوِيَ هَذَالحديث عَنْ مَالِکِ بْنِ حُوَيْرَثٍ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.
أخرجه الطبرانی فی المعجم الکبير، 19 / 252، الحديث رقم : 646، و ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 106.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 13 علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اہلِ بیت میں سے ہیں

عَنْ أَبِيْ بَرْزَةَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لاَ يَنْعَقِدُ قَدَمَا عَبْدٍ حَتَّي يُسْأَلَ عَنْ أَرْبَعَةٍ عَنْ جَسَدِهِ فِيْمَا أَبْلَاهُ، وَعُمْرِهِ فِيْمَا أَفْنَاهُ، وَ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اکْتَسَبَهُ وَ فِيْمَا أَنْفَقَهُ، وَ عَنْ حُبِّ أَهْلِ الْبَيْتِ فَقِيْلَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ! فَمَا عَلَامَةُ حُبِّکُمْ فَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَی مَنْکَبِ عَلِيٍّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوسَطِ.
’’حضرت ابو برزۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آدمی کے دونوں قدم اس وقت تک اگلے جہان میں نہیں پڑتے جب تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے سوال نہ کر لیا جائے، اس کے جسم کے بارے میں کہ اس نے اسے کس طرح کے اعمال میں بوسیدہ کیا؟ اور اس کی عمر کے بارے میں کہ کس حال میں اسے ختم کیا؟ اور اس کے مال کے بارے میں کہ اس نے یہ کہاں سے کمایا اورکہاں کہاں خرچ کیا؟ اور اہل بیت کی محبت کے بارے میں؟ عرض کیا گیا : یا رسول اﷲ! آپ کی (یعنی اہل بیت کی) محبت کی کیا علامت ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شانے پر مارا (کہ یہ محبت کی علامت ہے) اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 22 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 348، الحديث رقم : 2191، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 346.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 12 علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اہلِ بیت میں سے ہیں

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمانِ خداوندی : ’’اے اہلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے‘‘ کے بارے میں کہا ہے کہ یہ آیت مبارکہ پانچ تن کے حق میں نازل ہوئی؛ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم کے حق میں، اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 20 : أخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، 3 / 380، الحديث رقم : 3456، و الطبراني في المعجم الصغير، 1 / 231، الحديث رقم : 375، و إبن حيان في طبقات المحدثين باصبهان، 3 / 384، و خطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 10 / 278.
.............................................................................................
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ ’’ اے محبوب! فرما دیجئے کہ میں تم سے صرف اپنی قرابت کے ساتھ محبت کا سوال کرتا ہوں‘‘ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ کی قرابت والے کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی، فاطمہ، اور ان کے دونوں بیٹے(حسن اور حسین)۔ اس حدیث کو طبرانی نے’’ المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 21 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 47، الحديث رقم : 2641، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 168.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 11 علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اہلِ بیت میں سے ہیں

پروردہء نبی حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حضرت اُمّ سلمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر میں یہ آیت مبارکہ. . . اے اہلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے۔ . . نازل ہوئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم کو بلایا اور ایک چادر میں ڈھانپ لیا. حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اِلٰہی! یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے ہر آلودگی کو دور کردے اور انہیں خوب پاک و صاف فرما دے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 19 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب التفسير، باب و من سورة الأحزاب، 5 / 351، الحديث رقم : 3205، و في کتاب المناقب، باب مناقب أهل بيت النبي، 5 / 663، الحديث رقم : 3787، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 292، و الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 2 / 451، الحديث رقم : 3558، و فيه أيضاً، 3 / 158، الحديث رقم : 4705، و الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 54، الحديث رقم : 2668، و أحمد بن حنبل أيضاً في فضائل الصحابة، 2 / 587، الحديث رقم : 994.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 10 علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اہلِ بیت میں سے ہیں

حضرت صفیہ بنت شیبہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے : حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی جس پر سیاہ اُون سے کجاووں کے نقش بنے ہوئے تھے۔ حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل فرما لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے ساتھ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اے اہلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تمہیں خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 17 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل أهل بيت النبي، 4 / 1883، الحديث رقم : 2424، و إبن أبي شيبه في المصنف، 6 / 370، الحديث رقم : 36102، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابه، 2 / 672، الحديث رقم : 1149، و إبن راهويه في المسند، 3 / 678، الحديث رقم : 1271، و الحاکم في المستدرک، 3 / 159، الحديث رقم : 4707، و البيهقي في السنن الکبري، 2 / 149.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 9 علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اہلِ بیت میں سے ہیں

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ ’’آپ فرما دیں آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ‘‘ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا، پھر فرمایا : یا اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔
الحديث رقم 16 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب رضی الله عنه، 4 / 1871، الحديث رقم : 2404، والترمذي في الجامع الصحيح، کتاب تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، باب : و من سورة آل عمران، 5 / 225، الحديث رقم : 2999، وفي کتاب المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، باب : (21)، 5 / 638، الحديث رقم : 3724، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 185، الحديث رقم : 1608، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 63، الحديث رقم : (13169 - 13170)، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 107، الحديث رقم : 8399، و الحاکم في المستدرک، 3 / 163، الحديث رقم : 4719.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 8 سیدۂ کائنات فاطمۃ الزھراء رضی اﷲ عنہا سے شادی

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : یہ جبرئیل امین علیہ السلام ہیں جو مجھے خبر دے رہے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے فاطمہ سے تمہاری شادی کر دی ہے۔ اور تمہارے نکاح پر (ملاء اعلیٰ میں) چالیس ہزار فرشتوں کو گواہ کے طور پر مجلس نکاح میں شریک کیا، اور شجر ہائے طوبی سے فرمایا : ان پر موتی اور یاقوت نچھاور کرو، پھردلکش آنکھوں والی حوریں اُن موتیوں اور یاقوتوں سے تھال بھرنے لگیں۔ جنہیں (تقریب نکاح میں شرکت کرنے والے) فرشتے قیامت تک ایک دوسرے کو بطور تحائف دیتے رہیں گے۔ اس کو امام محب الدین احمد الطبری نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 14 : أخرجه محب الدين أحمد الطبري في الرياض النضره في مناقب العشره، 3 / 146 و في ذخائر العقبي في مناقب ذَوِي القربي : 72
.............................................................................................
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس ایک فرشتے نے آ کر کہا ہے اے محمد! اﷲ تعالیٰ نے آپ پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے : میں نے آپ کی صاحبزادی فاطمہ کا نکاح ملاء اعلیٰ میں علی بن ابی طالب سے کر دیا ہے، پس آپ زمین پر بھی فاطمہ کا نکاح علی سے کر دیں۔ اس کو امام محب الدین احمد الطبری نے روایت کیا۔‘‘

الحديث رقم 15 : أخرجه محب الدين أحمد الطبري في ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : 73

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 7 سیدۂ کائنات فاطمۃ الزھراء رضی اﷲ عنہا سے شادی


حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیاہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کردوں۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 12 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 156، رقم؛ 10305، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 204، والمناوي في فيض القدير، 2 / 215، و الحسيني في البيان و التعريف، 1 / 174.
.............................................................................................
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ حضرت اُم ایمن رضی اﷲ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی شادی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ فاطمہ کے پاس جائیں یہاں تک کہ وہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس آگئے (یہ حکم اس لیے فرمایا گیا کہ یہودیوں کی مخالفت ہو کیونکہ یہودیوں کی یہ عادت تھی کہ وہ شوہر کی اپنی بیوی سے پہلی ملاقات کرانے میں تاخیر کرتے تھے)۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دروازے پر کھڑے ہوگئے اور سلام کیا اور اندر آنے کی اجازت طلب فرمائی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اجازت دی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا یہاں میرا بھائی ہے؟ تو ام ایمن نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں. آپ کا بھائی کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرا بھائی علی بن ابی طالب ہے پھر انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! وہ آپ کے بھائی کیسے ہو سکتے ہیں؟ حالانکہ آپ نے اپنی صاحبزادی کا نکاح ان کے ساتھ کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ام ایمن ! وہ اسی طرح ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کا ایک برتن منگوایا اور اس میں اپنے ہاتھ مبارک دھوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پانی میں سے کچھ آپ رضی اللہ عنہ کے سینہ پر اور کچھ آپ رضی اللہ عنہ کے کندھوں کے درمیان چھڑکا۔ پھر حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو بلایا پس آپ اپنے کپڑوں میں لپٹی ہوئی آئیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ پانی آپ رضی اﷲ عنہا پر بھی چھڑکا پھر فرمایا : خدا کی قسم! اے فاطمہ! میں نے تمہاری شادی اپنے خاندان میں سے بہترین شخص کے ساتھ کر دی ہے اور تمہارے حق میں کوئی تقصیر نہیں کی۔ حضرت ام ایمن فرماتی ہیں کہ مجھے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے جہیز کی ذمہ داری سونپی گئی پس جو چیزیں آپ رضی اﷲ عنہا کے جہیز میں تیار کی گئیں ان میں ایک چمڑے کا تکیہ تھا جو کھجور کی چھال سے بھرا ہوا تھا اور ایک بچھونا تھا جو آپ رضی اﷲ عنہا کے گھر بچھایا گیا۔ اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبری‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 13 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 8 / 24.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 6 بچوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : وہ بیان کرتے ہیں کہ امت میں سے سب سے پہلے حوض کوثر پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے والے اسلام لانے میں سب سے اول علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، امام طبرانی اور امام ہیثمی نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 10 : أخرجه ابن أبي شيبه في المصنف، 7 / 267، الحديث رقم : 35954، و الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 265، الحديث رقم : 6174، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102، والشيباني في الآحاد والمثاني، 1 / 149، الحديث رقم : 179
.............................................................................................
حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز ادا کی اور وہ اس وقت دس سال کے تھے اور حضرت محمد بن عبد الرحمٰن بن زرارہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا جب آپ رضی اللہ عنہ کی عمر نو سال تھی اور حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر نو سال تھی اور حسن بن زید بیان کرتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نو سال سے بھی کم عمر میں اسلام لائے لیکن آپ نے اپنے بچپن میں بھی کبھی بتوں کی پوجا نہیں کی تھی۔ اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبری‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 11 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 3 / 21

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 5 بچوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے

حضرت حبہ عرنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا : میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 8 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 141، الحديث رقم : 1191، وابن ابي شيبة في المصنف، 6 / 368، الحديث رقم : 32085، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 1 / 149، الحديث رقم : 179.
.............................................................................................
حضرت حبہ عرنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر ہنستے ہوئے دیکھا اور میں نے کبھی بھی آپ رضی اللہ عنہ کو اس سے زیادہ ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کے دانت نظر آنے لگے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے اپنے والد ابو طالب کا قول یاد آگیا تھا۔ ایک دن وہ ہمارے پاس آئے جبکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا اور ہم وادیء نخلہ میں نماز ادا کر رہے تھے، پس انہوں نے کہا : اے میرے بھتیجے! آپ کیا کر رہے ہیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے کہا : جو کچھ آپ کر رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں لیکن آپ کبھی بھی (تجربہ میں) میری عمر سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے والد کی اس بات پر ہنس دئیے پھر فرمایا : اے اﷲ! میں نہیں جانتا کہ مجھ سے پہلے اس امت کے کسی اور فرد نے تیری عبادت کی ہو سوائے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے، یہ تین مرتبہ دہرایا پھر فرمایا : تحقیق میں نے عامۃ الناس کے نماز پڑھنے سے سات سال پہلے نماز ادا کی۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 9 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 99، الحديث رقم : 776، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102، و الطيالسي في المسند، 1 / 36، الحديث رقم : 188.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 4 بچوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے

حضرت اسماعیل بن ایاس بن عفیف کندی صاپ نے والد سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک تاجر تھا، میں حج کی غرض سے مکہ آیا تو حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے ملنے گیا تاکہ آپ سے کچھ مال تجارت خرید لوں اور آپ رضی اللہ عنہ بھی ایک تاجر تھے۔ بخدا میں آپ رضی اللہ عنہ کے پاس منی میں تھا کہ اچانک ایک آدمی اپنے قریبی خیمہ سے نکلا اس نے سورج کی طرف دیکھا، پس جب اس نے سورج کو ڈھلتے ہوئے دیکھا تو کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے لگا۔ راوی بیان کرتے ہیں : پھر اسی خیمہ سے جس سے وہ آدمی نکلا تھا ایک عورت نکلی اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے کھڑی ہوگئی پھر اسی خیمہ میں سے ایک لڑکا جو قریب البلوغ تھا نکلا اور اس شخص کے ساتھ کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا اے عباس! یہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا : یہ میرابھتیجا محمد بن عبداﷲ بن عبدالمطلب ہے۔ میں نے پوچھا : یہ عورت کون ہے؟ انہوں نے کہا : یہ ان کی بیوی خدیجہ بنت خویلد ہے۔ میں نے پوچھا : یہ نوجوان کون ہے؟ تو انہوں نے کہا : یہ ان کے چچا کا بیٹا علی بن ابی طالب ہے۔ راوی کہتے ہیں : پھر میں نے پوچھا کہ یہ کیا کام کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا یہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ نبی ہیں حالانکہ ان کی اتباع سوائے ان کی بیوی اور چچا زاد اس نوجوان کے کوئی نہیں کرتا اور وہ یہ بھی گمان کرتے ہیں کہ عنقریب قیصر و کسری کے خزانے ان کے لئے کھول دیئے جائیں گے۔ راوی بیان کرتے ہیں : عفیف جو کہ اشعث بن قیس کے بیٹے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ اس کے بعد اسلام لائے، پس اس کا اسلام لانا اچھا ہے مگر کاش اﷲ تبارک و تعالیٰ اس دن مجھے اسلام کی دولت عطا فرما دیتا تو میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تیسرا اسلام قبول کرنے والا شخص ہو جاتا۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 7 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 209 و الحديث رقم : 1787، و ابن عبد البر في الإستيعاب، 3 / 1096، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 388، الحديث رقم : 6479.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 3 بچوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے

حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا : حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے پہلے اسلام لائے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 5 : أخرجه احمد بن حنبل في المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 603، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 119، وابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 3 / 21.
.............................................................................................
حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد جس شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں اور ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد سب سے پہلے جو شخص اسلام لایا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 6 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 373، الحديث رقم : 3542، و الطيالسي في المسند، 1 / 360، الحديث رقم : 2753.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 2 بچوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیر کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی اور منگل کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 3 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 640، الحديث رقم : 3728، و الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 121، الحديث رقم : 4587، و المناوي في فيض القدير، 4 / 355.
.............................................................................................
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض نے کہا : سب سے پہلے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لائے اور بعض نے کہا : سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ اسلام لائے جبکہ بعض محدثین کا کہنا ہے کہ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور بچوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں کیونکہ وہ آٹھ برس کی عمر میں اسلام لائے اور عورتوں میں سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہونے والی حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا ہیں۔‘‘

الحديث رقم 4 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 642، الحديث رقم : 3734.

فضائل و مناقب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 1 بچوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے

’ایک انصاری شخص ابو حمزہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘
الحديث رقم 1 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علی، 5 / 642، الحديث رقم : 3735، و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 406، الحديث رقم : 12151، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102.
.............................................................................................
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 2 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 367، و الحاکم في المستدرک، 3 / 447، الحديث رقم : 4663، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 371، الحديث رقم : 32106، و الطبراني في المعجم اکبير، 22 / 452، الحديث رقم : 1102.

بدعت کی تعریف و اقسام ( 12 ) آخری حصّہ


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگر لفظِ ‘‘بدعت’’ اور ‘‘اِحداث’’ کی حسنہ اور سیئہ میں تقسیم نہ ہوتی اور اِن کا معنی ہی ضلالت و گمراہی ہوتا تو اِن اَلفاظ کی نسبت کبھی بھی اَعمالِ حسنہ اور اَفعالِ خیر کی طرف نہ کی جاتی اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ الفاظ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے استعمال کرتے۔

تقسیمِ بدعت پر اِستدلال کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درج ذیل فرمان نہایت اہم ہے جسے حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اُون کے کپڑے پہنے ہوئے کچھ دیہاتی حاضر ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی بدحالی اور ان کی ضرورت کو دیکھا تو لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی۔ لوگوں نے کچھ دیر کی، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور پر غصہ کے آثار ظاہر ہوئے، پھر ایک انصاری درہموں کی تھیلی لے کر حاضر ہوا، پھر دوسرا آیا اور پھر لانے والوں کا تانتا بندھ گیا، حتی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے، تب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

1. مَنْ سَنَّ فِيْ الْاِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ لَهُ مِثْلُ اَجْرٍ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِهِمْ شَيْئٌ وَ مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرٍ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ اَوْزَارِهِمْ شَيْئٌ.

    مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2674

    مسلم، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقه، 2 : 705، رقم : 1017

    نسائی، السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقه، 5 : 55، 56، رقم : 2554

    ابن ماجه، السنن، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، رقم : 203

    احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357.359

    دارمی، السنن، 1 : 141، رقم : 514

    ابن ابی شيبه، المصنف، 2 : 350، رقم : 9803

    بيهقی، السنن الکبریٰ، 4 : 175، رقم : 7531

‘‘جس شخص نے مسلمانوں میں کسی ‘‘نیک طریقہ ’’ کی ابتدا کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کمی نہیں ہو گی، اور جس شخص نے مسلمانوں میں کسی برے طریقے کی ابتداء کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اس شخص کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔’’

اِمام مسلم (261ھ)نے اس حدیثِ مبارکہ کا باب ‘‘من سن سنة حسنة او سيئة’’ قائم کیا ہے یعنی جس نے اچھی سنت اور بری سنت کا طریقہ وضع کیا۔ امام مسلم نے یہ باب قائم کر کے واضح کر دیا کہ یہاں پر لفظِ سنت سے مراد سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں ہے۔ ان کے نزدیک یہ ضروری نہیں کہ جہاں بھی لفظِ سنت استعمال ہو وہاں اس سے مراد سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، سنت صحابہ یا سنت خلفاء راشدین ہی ہو گا ۔ اگر ایسا ہوتا تو امام مسلم کبھی بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی نسبت ‘‘سیئۃ’’ کا لفظ استعمال نہ کرتے کیونکہ جو معروف اور متداول معنی میں سنت ہے وہ کبھی سیئۃ ہو ہی نہیں سکتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو سیئہ یا برا کہنے والا کافر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت عین دین ہے اور بدعت اس کی مخالف اور ضد ہے لہٰذا امام مسلم نے ‘‘سنۃ حسنۃ’’ اور ‘‘سنۃ سیئۃ’’ کی اصطلاح استعمال کر کے اپنا مذہب واضح کر دیا کہ یہاں سنت سے مراد سنتِ رسول نہیں بلکہ بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ ہے۔ بات واضح ہو گئی کہ زیرِ بحث حدیثِ مبارکہ میں لفظِ سنت اپنے شرعی معنی میں یعنی سنتِ رسول یا سنتِ خلفاء راشدین کے معنی میں نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی عمل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر مبنی ہو تو وہ کبھی سیئہ ہو ہی نہیں سکتا اور جو عمل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت نہیں بلکہ نیا عمل ہے تو وہ بدعت ہے کیونکہ بدعت کہتے ہی ‘‘نئے کام’’ کو ہیں۔

اگر کوئی اعتراض کرے کہ اس سے تو صرف ‘‘سنت’’ ہی مراد ہے بدعت مراد نہیں لی جا سکتی تو اس کا جواب یہ ہے کہ (معاذ اﷲ) اگر اس سے مراد صرف ‘‘سنت‘‘ ہی ہوتا تو کیا وہاں ‘‘حسنہ’’ کہنے کی ضرورت تھی؟ کیا کوئی سنت غیر حسنہ بھی ہو سکتی ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ عمل کرنے کے حوالے سے ‘‘من عمل’’ تو کہہ سکتے ہیں مگر ‘‘من سن’’ کہنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ جب سنت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہو تو پھر عام آدمی اس سے کیا ‘‘راہ’’ نکالے گا وہ تو صرف عمل اور اتباع کا پابند ہے پس ثابت ہوا کہ ‘‘سن’’ سے مراد نیا عمل اور بدعت ہے۔

علامہ نووی (676ھ) ‘‘شرح صحیح مسلم (1 : 327)’’ میں لکھتے ہیں :

حدیث کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة(1) میں عموم مراد نہیں ہے اور تخصیص کی دلیل یہ حدیث مبارکہ ہے : ‘‘من سنّ فی الاسلام سنّة حسنة.’’ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ‘‘کل بدعة ضلالة’’ میں بدعت سے مراد محدثاتِ باطلہ اور بدعاتِ مذمومہ ہیں۔

(1) 1. أبو داود، السنن، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة، 4 : 200، رقم : 4607

2. ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب العلم، باب ما جاء فی الأخذ بالسنة، 5 : 44، رقم : 2676

3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42

4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126

5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5

جس طرح بدعت کی دو قسمیں ہیں، بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی، اسی طرح سنت کی بھی دو قسمیں ہیں، سنتِ شرعی اور سنتِ لغوی۔ سنتِ شرعی سے مراد سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنتِ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم ہے اور جو سنت شرعی نہیں صاف ظاہر ہے وہ سنت لغوی ہو گی۔ سنتِ لغوی سے مراد نیا کام، نیا عمل، کوئی نیا طریقہ اور نیا راستہ ہے۔ ائمہ اور محدثین نئے کام اور نئے عمل کو بدعت بھی کہتے ہیں اِس طرح آپ سنتِ لغوی کو بدعتِ لغوی بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ جو کام سنت نہیں صاف ظاہر ہے پھر وہ بدعت ہی ہو گا اور اسی بدعت کو مصطلحین نے حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کیا ہے۔
بدعتِ حسنہ کی اصل ‘‘سنۃ حسنۃ‘‘ہے

مذکورہ حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ‘‘منْ سنَّ فِيْ الْاِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً’’ یعنی جس کسی نے اسلام میں کسی ‘‘نیک طریقہ‘‘ کی ابتداء کی۔ اب یہاں مطابقت پیدا کرنے اور نفسِ مسئلہ کو سمجھنے کیلئے صحیح مسلم ہی کی دوسری حدیث ‘‘مَنْ اَحْدَثَ فی اَمْرِنَا هَذَا’’ کو اس کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ ہر اِحداث ممنوع و مردود نہیں بلکہ صرف وہ اِحداث ممنوع ہو گا جس کی کوئی اصل یا نظیر دین میں نہ ہو۔

زیرِ بحث حدیثِ مبارکہ میں اس نئے راستے کو ‘‘سنۃ حسنۃ’’ کہا گیا ہے یعنی وہ راستہ تھا تو نیا مگر اپنے نئے پن کے باوجود اچھا تھا، بھلائی اور خیر کا راستہ تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نئے راستے کو جسے سنۃ حسنۃکے ساتھ ساتھ دیگر اَحادیث مبارکہ میں سنۃ صالحۃ،(1) سنۃ خیر،(2) سنۃِ ہدیٰ،(3) نعم البدعۃ(4) اور بدعۃ ھدی(5) وغیرہ بھی کہا گیا ہے۔ شریعت اس نئے راستے یا طریقے کو اپنانے کے بارے میں کیا راہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اس حوالے سے اسی حدیثِ مبارکہ میں فرمایا گیا : ‘‘فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ لَهُ مِثْلُ اَجْرٍ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ أجُوْرِهِمْ شَيْئٌ’’ (اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس کے نامہء اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کمی نہیں ہو گی۔) اب اس حدیث کی رو سے اچھا نیا راستہ نکالنا بدعتِ حسنہ ہو گیا، لہٰذا ثابت ہوا کہ بدعتِ حسنہ کی اصل سنتِ حسنہ ہے کیونکہ ہر بدعتِ حسنہ اپنی اپنی اصل میں سنت ہے۔ اسی طرح فرمایا گیا کہ جس نے مسلمانوں میں کوئی برا طریقہ ایجاد کیا اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اس شخص کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا جس نے وہ برا طریقہ ایجاد کیا۔ امام مسلم کے مذہب، اس حدیث کے باب اور متنِ حدیث سے ثابت ہو گیا کہ سنتِ حسنہ سے مراد بدعتِ حسنہ ہے اور سنتِ سیئہ سے مراد بدعتِ سیئہ ہے۔

(1) مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سنَّ فی الاسلام سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2673

(2) ترمذي، السنن، کتاب العلم ، باب ما جاء فيمن دعا إلی هدی فاتبع او إلی ضلالة، 5 : 43، رقم : 2675

(3) ابن عبد البر، التمهيد،24 : 327

(4) بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906

(5) مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، و من دعا إلی هدی او ضلالة، 4 : 2060، رقم : 2674

امام مسلم اسی باب میں دوسری سند کے ساتھ ایک اور حدیث بعض الفاظ کے تغيُر کے ساتھ لائے ہیں۔ حضرت جریر بن عبد اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

2. لاَ يَسُنُّ عَبْدٌ سُنَّةً صَالِحَةً يُعْمَلُ بِهَا بَعْدَهَ ثُمَّ ذَکَرَ تَمَامَ الْحَدِيْثِ.

    مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سنَّ فی الاسلام سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2673

    احمد بن حنبل ، المسند، 4 : 360 رقم : 19206

ْ‘‘جو شخص کسی نیک طریقہ کو ایجاد کرتا ہے جس پر اسکے کے بعد عمل کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد حسب سابق حدیث ہے۔’’

اسی طرح اِمام ابو القاسم ہبۃ اللہ لالکائی (418ھ) حضرت ابو ہریرہ ص سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما یا :

3. من سن سنة حسنة هدی فأتبع عليها کان له أجره و مثل أجور من اتبعه غير منقوص من أجورهم شيئ، و من سن سنة ضلالة فأتبع عليها کان عليه وزره و مثل أوزار من اتبعه غير منقوص من أوزارهم شيئ.

    اللالکائی، إعتقاد أهل السنة، 1 : 52، رقم : 7

    احمد بن حنبل،المسند، 2 : 520، رقم : 10759

‘‘جس نے کسی ‘‘نیک طریقہ’’ کی ابتدا کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس کا اسکو اجر ملے گا اور اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کمی نہیں ہو گی، اور جس شخص نے کسی ‘‘برے طریقہ’’ کی ابتداء کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اسے اسکا گناہ ملے گا اور اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اس شخص کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔’’

اِمام ابنِ عبد البر (463ھ) نے بھی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث نقل کی ہے جس میں ‘‘سنۃ ھدی’’ اور ‘‘سنۃ ضلالۃ’’ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں :

4. من سن سنة هدی فاتبع عليها کان له اجره او مثل اجر من منقوص من أجورهم شيئا و من سن سنة ضلالة فاتبع عليها کان عليه وزرها و مثل اوزار من منقوص من اوزارهم شيئا.

ابن عبد البر، التمهيد، 24 : 237

‘‘جس نے کسی ‘‘اچھے طریقے’’ کی ابتدا کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس کا اس کو اجر ملے گا اور اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کمی نہیں ہو گی، اور جس شخص نے کسی ‘‘برے طریقے’’ کی ابتداء کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اسے اس کا گناہ ملے گا اور اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اس شخص کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔’’

ان اَحادیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ‘‘سنۃ حسنۃ’’ کے ساتھ ساتھ دوسری اصطلاحات ‘‘سنۃ صالحۃ’’ اور ‘‘سنۃ ھدی’’ بھی استعمال فرمائی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف اَحادیث میں مختلف اِصطلاحات اس لیے استعمال فرمائی ہیں تاکہ یہ تصور واضح ہو جائے کہ لفظِ سنت ہر جگہ اپنے معروف اور متداول معنی میں نہیں بلکہ اس کے حسنہ اور سيِّئہ ہونے کا اِنحصار اُس ‘‘نئے کام’’ پر ہے جس کی طرف اِس کی نسبت کی جا رہی ہے۔ نفسِ مسئلہ سے متعلق آخری حدیث جو اِمام مسلم (261ھ)نے اسی باب کے ذیل میں نقل کی ہے وہ درج ذیل ہے :

5. عَنْ أَبِي هُرَيْرَة أَنَّ رَسُوْل اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ دَعَا إِلَی هُدًی، کَانَ لَهُ مِنَ الأجْرِ مِثْلَ أُجُوْرِ مَنْ يَتَّبِعُهُ، لَا يُنْقِصُ ذَلِکَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئًا. وَمَنْ دَعَا إِلَی ضَلَالَةٍ، کَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ يَتَّبِعُهُ، لَا يُنْقِصُ ذَلِکَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا.

    مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، و من دعا إلی هدی او ضلالة، 4 : 2060، رقم : 2674

    ترمذي، السنن، کتاب العلم عن رسول اﷲA، باب ما جاء فيمن دعا إلی هدی فاتبع او إلی ضلالة، 5 : 43

    ابو داؤد، السنن، کتاب السنة، باب لزوم السنة، 4 : 201، رقم : 4609

    ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 1 : 75، رقم : 206

    ابن حبان، الصحيح باب ذکر الحکم فيمن دعا إلی هدی او ضلالة فاتبع عليه، 1 : 318، رقم : 112

    دارمی، السنن، 1 : 141، رقم : 513

    احمد بن حنبل، المسند، 2 : 397، رقم : 9149

    أبو عوانة، المسند، 3 : 494، رقم : 5823

‘‘حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے ہدایت کی طرف بلایا اس کے لئے اس راستے پر چلنے والوں کی مثل ثواب ہے اور ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہ ہوگا اور جس نے گناہ کی دعوت دی اس کے لئے بھی اتنا گناہ ہے جتنا اس بد عملی کا مرتکب ہونے والوں پر ہے اور ان کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔’’
جوڑوں (pairs) کے نظام سے اِستدلال

اس حدیث اور اس سے قبل بیان کی گئی دیگر اَحادیثِ مبارکہ میں ایک قدرِ مشترک ہے اور ان میں باقاعدہ ایک منطقی ربط ہے وہ یہ کہ جس طرح کائنات کی ہر چیز میں جوڑا جوڑا ہوتا ہے اِسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصطلاحات کے بھی متقابل جوڑے بیان فرمائے ہیں یعنی اگر اللہ کے نظامِ تخلیق اور نظامِ قدرت میں متقابل جوڑے مثلاً بیٹا بیٹی، عورت مرد، بھائی بہن، نر مادہ، اسی طرح اچھا برا، اونچا نیچا، امیر غریب، مشرق و مغرب، زمین و آسمان، ظاہر و باطن وغیرہ ہو سکتے ہیں تو پھر وہی جوڑا جوڑا بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ میں کیوں نہیں ہو سکتا ؟۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر چیز کو دُہرا دُہرا جوڑا اور دو دو کر کے بیان فرمایا ہے تو پھر بدعت کی تقسیم میں یہ جھگڑا کیوں کھڑا کر دیا جاتا ہے کہ اس کی تقسیم نہیں ہو سکتی، حالانکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد مقامات پر اَحادیثِ مبارکہ میں اصطلاحات کے متقابل جوڑے بیان کیے ہیں مثلاً تقسیمِ بدعت کے حوالے سے اِصطلاحات کے درج ذیل متقابل جوڑوں کو اَحادیثِ مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے :

نعم البدعۃ (1) ۔۔۔۔۔ بدعت ضلالۃ (2)

دعوتِ ھُدًی (3) ۔۔۔۔۔ دعوتِ ضلالۃ (4)

سنۃ حسنۃ (5) ۔۔۔۔۔ سنۃ سیئۃ (6)

سنۃ ھدیً (7) ۔۔۔۔۔ سنۃ ضلا لۃ (8)

سنۃ صالحۃ (9) ۔۔۔۔۔ سنۃ ضلا لۃ (10)

سنۃ خیر (11) fg سنۃ شر (12)

(1) بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906

(2) ترمذي، السنن، کتاب العلم ، باب ما جاء فی الأخذ بالسنة واجتناب البدع، 5 : 45، رقم : 2677

(3) مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، و من دعا إلی هدی او ضلالة، 4 : 2060، رقم : 2674

(4) ايضاً،

(5) مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2674

(6) مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2674

(7) ابن عبد البر، التمهيد، 24 : 327

(8) ابن عبد البر، التمهيد، 24 : 327

(9) مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سنَّ فی الاسلام سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2673

(10) ابن عبد البر، التمهيد، 24 : 327

(11) ترمذي، السنن، کتاب العلم ، باب ما جاء فيمن دعا إلی هدی فاتبع او إلی ضلالة، 5 : 43، رقم : 2675

(12) ترمذي، السنن، کتاب العلم ، باب ما جاء فيمن دعا إلی هدی فاتبع او إلی ضلالة، 5 : 43، رقم : 2675

ان ساری تفصیلات سے ثابت ہوا کہ جوڑوں کے اس فطری نظام کو نہ ماننا اصل میں اللہ کے نظامِ تخلیق، نظامِ قدرت، نظامِ شریعت، نظامِ احکام اور نظامِ اجر و ثواب کا انکار کرنا ہے۔

‘‘مَنْ دَعَا اِلٰی ضَلاَلة’’ سے اِستدلال جس طرح ‘‘مَنْ دَعَا اِلَی هُدًی’’ میں لفظِ ہدایت عام ہے اسی طرح ‘‘من دعا الی ضلالة’’ میں ضلالۃ کا کلمہ بھی عام ہے، لہٰذا اب کوئی بھی عمل جو گمراہی پر مبنی ہو وہ ضلالہ ہو گا۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ صرف وہی اعمال جنہیں کتاب و سنت میں حرام کہا گیا ہے ضلالہ شمار ہوں گے اور اس کے علاوہ بے شمار وہ اعمال جو دین میں نقصان کا باعث ہیں، جو اَخلاق اور شرم و حیاء کے خلاف ہیں، جو عقائد و مذہب کے خلاف ہیں، جو معاشرتی اقدار کے خلاف ہیں ‘‘ضلالۃ’’ شمار نہیں ہوں گے ،بلکہ اس کے برعکس وہ تمام اعمال جن کے حرام ہونے کا اگرچہ کتاب و سنت میں ذکر نہ ہو لیکن وہ روحِ دین سے متناقض و متخالف ہوں ‘‘ضلالۃ’’ہوں گے۔

زیر بحث حدیثِ مبارکہ میں ضلالۃ اور ھُدی کے الفاظ باہم متقابل ہیں۔ اگر مفہومِ مخالف یعنی ضلالۃ کے مفہوم کو پہلے متعین کر لیا جائے تو اس کے بعد متقابل مفہوم خود بخود متعین ہو جائے گا، جیسے مسئلہ توحید اور شرک میں اگر توحید کا مفہوم پہلے متعین کر لیا جائے تو شرک کا مفہوم خود بخود واضح ہو جائے گا مثلاً اگر کوئی یہ کہے کہ غیر اللہ کو وسیلہ بنانا شرک ہے تو سوال پیدا ہو گا کہ پھر کیا اللہ کو وسیلہ بنایاجائے گا؟ اور اگر اللہ کو وسیلہ بنایا جائے گا تو پھر اللہ کس کے لیے وسیلہ ہو گا یعنی مقصود کون ہو گا؟ کیونکہ وسیلہ مقصود نہیں ہوتا بلکہ یہ مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ وسیلہ اللہ کا حق نہیں بلکہ مخلوق کا حق ہے، لہٰذا مخلوق کو اگر اس کا حق دیا گیا تو وہ شرک کیسے ہو گیا؟ اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جب دو چیزیں متقابل ہوں اور ان میں سے ایک کا مفہوم پہلے متعیّن کر لیا جائے تو دوسری کو سمجھنا اور اس کا اِطلاق کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

‘‘صحیح مسلم’’ کی مذکورہ روایت میں ہم نے پہلے ‘‘من دعا الی ضلالة’’ کا مفہوم متعین کیا ‘‘من دعا الی هدًی’’ کا نہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ ‘‘ھدًی’’ پر تو بحث اور اختلاف ہے۔کوئی کہہ سکتا کہ اس سے مراد صرف سنت ہے حالانکہ ہم سنت کے علاوہ بھی بے شمار اُمورِ خیر مراد لیتے ہیں، لہٰذا جو چیز بحث طلب ہے اس کا تعین تو نہیں ہو گا اور جس کا تعین آسان ہے اس کا کر لیا جائے۔ مذکورہ حدیث میں لفظِ ‘‘ضلالۃ’’ عام ہے جس کا اِطلاق ہر قسم کے ضلالات، سيِّئات، قبیحات اور کریہات پر ہوتا ہے یعنی وہ نئے اُمور جو محرّمہ ہوں یا مفضی اِلی الحرام یا اُمت کو گمراہی کی طرف لے جا رہے ہوں، سب ‘‘ضلالۃ’’ میں داخل ہوں گے لہٰذا جس طرح ضلالۃ کو عام اور وسیع تناظر میں لیا جائے گا اسی طرح اس کے متقابل ‘‘من دعا الی هدًی’’ کے مفہوم کو بھی عام اور وسیع تناظر میں لیا جائے گا۔ یعنی ‘‘ھُدًی’’ سے مراد کتاب و سنت کے حکم کی طرف بلانا بھی ہے۔ اور ایسے بے شمار اعمالِ صالحہ کی طرف بھی جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں کوئی صریح حکم نہیں ملتا۔ جیسے اس طرح کے اُمورِ خیر کی طرف دعوت کہ جس سے لوگوں کے اَخلاق سنور جائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ٹوٹا ہوا تعلق بحال ہو جائے، لوگوں کے اندر عبادت کا ذوق و شوق پیدا ہو جائے، چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کے ادب و اِحترام کا جذبہ پیدا ہو جائے، تلاوتِ قرآن اور صدقہ و خیرات کی ترغیب ملے، الغرض کوئی بھی خیر کا پہلو جو اُمت میں بہتری کا سبب بنے ‘‘مَنْ دَعَا اِلَی هُدًی’’ میں شامل ہو گا۔ اس سے ثابت ہوا کہ صحیح حدیث کی روشنی میں دونوں متقابل چیزوں کے راستوں کا کھلنا اور ان پر اَجر و گناہ، دونوں صورتوں میں متحقق ہوتے ہیں۔

امام ترمذی (279ھ) اسی مفہوم کی ایک اور حدیث حضرت جریر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

6. مَنْ سَنَّ سُنَّةَ خَيْرٍ فَاتُّبِعَ عَلَيْهَا، فَلَهُ أَجْرُهُ، وَ مِثْلُ أُجُوْرِ مَنِ اتَّبََعَهُ غَيْرَ مَنْقُوْصٍ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئًا، وَ مَنْ سَنَّ سُنَّةَ شَرٍّ فَاتُّبِعَ عَلَيْهَا، کَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهُ، وَ مِثْلُ أَوْزَارِ مَنِ اتَّبَعَهُ غَيْرَ مَنْقُوْصٍ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئًا.

    ترمذي، السنن، کتاب العلم ، باب ما جاء فيمن دعا إلی هدی فاتبع او إلی ضلالة، 5 : 43، رقم : 2675

    عسقلانی، فتح الباری، 13 : 302

    مبارکپوری ،تحفة الأحوذی، 7 : 365

    ابن حزم، المحلی، 8 : 16

‘‘جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا پھر اس پر عمل کیا گیا تو اس کے لئے اپنا ثواب بھی ہے اور اسے عمل کرنے والوں کے برابر ثواب بھی ملے گا۔ جبکہ انکے ثواب میں کوئی کمی (بھی) نہ ہوگی۔ اور جس نے برا طریقہ جاری کیا پھر وہ طریقہ اپنایا گیا تو اس کے لئے اپنا گناہ بھی ہے اور ان لوگوں کے گناہ کے برابر بھی جو اس پر عمل پیرا ہوئے۔ بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کچھ کمی ہو۔’’

یہ حدیثِ مبارکہ اِمام ترمذی کتاب العلم میں باب ما جاء فيمن دعا الی هدیً فاتبع أو إلی ضلالة کے ذیل میں لائے ہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ اگر ‘‘من دعا الی هدیً’’ کو سنت کے ساتھ مخصوص کر دینا ہوتا تو امام ترمذی لفظِ ‘‘ھدًی’’ استعمال کرنے کی بجائے فقط ‘‘سنۃ‘‘ کا لفظ استعمال کرتے یعنی واضح طور پر کہہ دیتے کہ ہر وہ چیز جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کی سنت نہیں، وہ بدعت اور ضلالت و گمراہی ہے تو اس طرح ضلالت کے متقابل لفظِ سنت اور ھدًی ہوتے مگر چونکہ ایسا نہیں لہٰذا انہوں نے ضلالۃ کے مقابلے میں لفظ ھدًی استعمال کیا تاکہ اس میں اُمورِ سنت کے ساتھ ساتھ وہ اُمور بھی داخل ہو جائیں جو مبنی بر خیر اور تابع سنت ہیں۔ جس طرح سنتوں کو نفل، مستحبات، حسنات اور اعمالِ خیر بھی کہہ دیتے ہیں اسی طرح ‘‘ھدًی’’ میں سنت اور تابع سنت تمام اُمور آ جاتے ہیں۔ امام مسلم (261ھ) نے بھی امام ترمذی کی طرح باب من سن سنة حسنة أو سيئة و من دعا إلی هدی أو ضلالة قائم کر کے اس کے ذیل میں مَنْ دَعَا اِلی هدًی والی حدیث بیان کی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ امام مسلم کا بھی وہی مذہب ہے جو امام ترمذی کا ہے۔

زیر بحث حدیثِ مبارکہ میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ جس طرح ‘‘صحیح مسلم’’ کی حدیث میں سنۃ حسنۃ اور سنۃ سیئۃ کی اِصطلاح اِستعمال ہوئی تھی اسی طرح ترمذی کی اس حدیث میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پاک سے سنۃ خیرٍ اور سنۃ شرٍّ کی اِصطلاح استعمال ہوئی۔ یہاں سنت سے مراد سنتِ شرعی نہیں ہے بلکہ سنتِ لغوی ہے ورنہ یہ تقسیم نہ ہوتی کیونکہ سنتِ شرعی کبھی ‘‘شرّ‘‘ نہیں ہو سکتی وہ خیر ہی خیر ہوتی ہے، لہٰذا یہاں ‘‘سنۃ خیر’’ سے مراد کوئی نیا کام، کوئی اُسوہ اور کوئی اچھا طریقہ مراد ہے۔ پس ثابت ہوا کہ جب سنت شرعی مراد نہ رہی تو نئے کام کی وجہ سے اسے بدعت کہیں گے دوسرے لفظوں میں اسے بدعت خیر اور بدعت شر بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور آنے والے زمانوں میں سنت خیر یا بدعت خیر کے اجراء اور پھر اس پر عمل کرنے والوں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجر کی نوید سنائی ہے کہ جس نے کوئی نیا کام کیا جو میری سنت میں نہیں تھا یعنی بدعت تھا مگر خیر اور بھلائی کا کام تھا اس کے لیے اجر ہے۔ اسی طرح اگر شر اور برائی کی بدعت کا آغاز کیا تو اس پر گناہ ہے۔ مختصر یہ کہ نصوصِ قطعیہ سے بدعت کی تقسیم ثابت ہوتی ہے۔

امام ترمذی نے اس حدیث کے فوراً بعد ‘‘باب ما جاء فی الاخذ بالسنة وإجتناب البدعة’’ قائم کیا ہے۔ اس باب میں وہ سنت کے مقابلے میں اجتناب عن البدعۃ کی بحث لائے لہٰذا یہاں سنت سے مراد سنتِ شرعی اور بدعت سے مراد بدعتِ سیئہ ہو گی۔ اَصل میں اِمام ترمذی یہاں اُوپر نیچے دو باب قائم کر کے اپنا علمی مسلک اور مذہب بیان کر رہے ہیں، پہلے اُنہوں نے باب ما جاء فيمن دعا الی هدی فاتُّبِعَ أوْ إِلی ضَلالَة قائم کیا اور اس کے فوراً بعد باب ماجاء فی الاخذ بالسنة و اجتناب البدعة قائم کیا۔ پہلے باب میں لفظ ھدًی اور ضلالۃ میں وسعت اور تعمیم ہے جبکہ دوسرے باب میں چونکہ سنت کے متقابل لفظ بدعت ہے لہٰذا اس میں تخصیص اور تقیید ہے۔ یعنی سنت سے مراد سنتِ شرعی اور بدعت سے مراد بدعتِ سیئہ ہے۔ یعنی دو باب قائم کرنے کا مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اِمام ترمذی کے نزدیک ہر نیا کام سیئہ اور ضلالہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دوسرے باب میں حدیث فعليکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدين المهديين کو ذکر کیا ہے جس کے مفہوم کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اور اپنے خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت کے ساتھ معین و محصور کر کے سنتِ شرعیہ قرار دے دیا لہٰذا جب سنت کا معنی متعین کر دیا تو اس کے متقابل اور متضاد بدعتِ سیئۃ ہو گی، اسی حدیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ایسی بدعات سیئات سے خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : وإياکم ومحدثاتِ الأمورِ فإنّها ضلالة (1) یعنی میرے امر کے خلاف جو محدثات الامور یعنی فتنہء ارتداد، فتنہ انکار زکوٰۃ، فتنہ ادعاء نبوت وغیرہ سر اٹھائیں انہیں چھوڑ دینا اور میری اور میرے صحابہ کی سنت کو مضبوطی سے تھام لینا۔ گویا یہاں پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدعت کے معنی کو اتنی بڑی شناخت کے ذیل میں ذکر کر کے اپنی اور خلفاء راشدین کی سنت کے متقابل ٹھہرایا۔ جب اس باب کو امام ترمذی نے الگ کر دیا تو باقی جتنے بھی نئے کام بچے ان کے لیے دونوں راستے کھول دیے گئے، اسی لیے اس سے پچھلے باب کی حدیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنۃ خیر اور سنۃ شر کے الفاظ استعمال کیے کہ اگر نئے امور نیکی، بھلائی اور خیر پر مبنی ہوں گے تو سنت حسنہ یا بدعتِ حسنہ ہوں گے اور اگر برائی، ضلالت اور گمراہی پر مبنی ہوں گے تو سنت سیئہ یا بدعت سیئہ ہوں گے۔

(1) 1. ترمذی، الجامع الصحيح، ، کتاب العلم، باب ما جاء فی الأخذ بالسنة و اِجتناب البدع، 5 : 44، رقم : 2676

2. أبو داود، السنن، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة، 4 : 200، رقم : 4607

3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42

4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126

5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5

امام ترمذی اس سے اگلے باب میں حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

7. مَنْ أحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْ أمِيْتَتْ بَعْدِي، فَإِنَّ لَهُ مِنَ الأجْرِ مِثْلَ مَنْ عَمِلَ بِهَا، مِنْ غَيْرِ أنْ يَنْقُصَ مِنْ أجُوْرِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ ابْتَدَعَ بِدْعَةَ ضَلَالَةٍ لاَ تَرْضِی اﷲَ وَرَسُوْلَهُ، کَانَ عَلَيْهِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِهَا، لَا يَنْقُصُ ذَلِکَ مَنْ أوْزَارِ النَّاسِ شَيْئًا.

    ترمذی، السنن، کتاب العلم ، باب ما جاء فی الأخذ بالسنة واجتناب البدع، 5 : 45، رقم : 2677

    ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب مَن احيا سنّة قد ا ميتت، 1 : 76، رقم : 209

    بزار، المسند، 8 : 314، رقم : 3385

    طبرانی، المعجم الکبير، 17 : 16، رقم : 10

    بيهقی، کتاب الإعتقاد، 1 : 231

    منذری، الترغيب والترهيب، 1 : 49، رقم : 97

‘‘جس نے میرے بعد کوئی ایسی سنت زندہ کی جو مردہ ہو چکی تھی تو اس کیلئے بھی اتنا ہی اجر ہو گا جتنا اس پر دیگر عمل کرنے والوں کے لئے۔ اس کے باوجود ان کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور جس نے گمراہی کی بدعت نکالی جسے اللہ عزوجل اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پسند نہیں کرتے تو اس پر اتنا ہی گناہ ہے جتنا اس برائی کا دیگر ارتکاب کرنے والوں پر ہے اور اس سے ان کے گناہوں کے بوجھ میں بالکل کمی نہیں آئے گی۔’’

اِس حدیثِ مبارکہ میں لفظِ سنت کو بدعت کے متقابل لایا گیا ہے۔ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ سنت ہر جگہ بدعت کے متقابل نہیں ہوتی لیکن جس حدیثِ مبارکہ میں تخصیص کے ساتھ سنت کو بدعت کے مقابلے میں لایا جائے تو وہاں سنت سے مراد سنتِ شرعیہ اور بدعت سے مراد بدعت شرعیہ ہوتی ہے۔ یہ ایسی بدعت ہوتی ہے جس کے کرنے سے کوئی نہ کوئی سنت ترک ہوتی ہے اس موقف کی تائید مسند احمد کی درج ذیل روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

8. مَا اَحْدَثَ قَوْمٌ بِدْعَةً اِلَّا رُفِعَ مِثْلُهَا مِنَ السُنَّةِ فَتَمَسُّکٌ بِسُنَّةٍ خَيْرٌ مِنْ اِحْدَاثِ بِدْعَةً.

احمد بن حنبل، المسند، 4 : 105، رقم : 17095

‘‘جب کوئی قوم دین میں بدعت کا آغاز کرتی ہے تو اس کے مثل ایک سنت اُٹھا لی جاتی ہے لہٰذا سنت کو مضبوطی سے پکڑ نا، اِحداثِ بدعت سے بہتر ہے۔’’
‘‘بِدْعَۃ ضَلَالَۃ‘‘ فرمانے میں حکمت

زیر نظر حدیثِ مبارکہ میں وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَةً فرمانے کی بجائے اِضافت کے ساتھ وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَةَ ضَلَالَةٍ فرمایا یعنی جس نے گمراہی کی بدعت ایجاد کی۔ اس سے قبل اس سے ملتی جلتی تراکیب سنۃ سیئۃ اور سنۃ شر کی صورت میں گزر چکی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر بدعت ‘‘ضلا لۃ‘‘ نہیں ہوتی اگر ہر بدعت گمراہی کی بدعت ہوتی تو آقا علیہ الصلوۃ والسلام کبھی اضافت کے ساتھ یہ کلمہ نہ فرماتے۔ اگر بدعت کے معنی ہی ضلالت و گمراہی ہوتے تو کبھی بھی بدعۃ ضلالۃٍ نہ فرمایا جاتا جیسے عبادۃ خیر، عبادۃ صالحہ اور صلاۃ خیر کی اصطلاح استعمال نہیں ہوتی کیونکہ جو کلمہ خود اپنے معنی میں واضح ہو اور اس میں تقسیم کی گنجائش نہ ہو یا اس کا مدمقابل کوئی نہ ہو تو اس میں اِضافت لگانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی البتہ بعض اوقات زور اور تاکید پیدا کرنے کے لئے مرکب توصیفی آ جاتا ہے لہٰذا جب ‘‘بدعۃ ضلالۃٍ’’ فرمایا تو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح کر دیا کہ میری مراد یہاں نیکی اور بھلائی کے نیک کام نہیں بلکہ برائی اور گمراہی کے کام ہیں۔ الغرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث ‘‘کل بدعة ضلالة’’ کا مفہوم متعین فرما دیا کہ ہر بدعت گمراہی نہیں بلکہ صرف وہ بدعت گمراہی ہو گی جو مبنی برضلالت ہو گی۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بدعۃ ضلالۃ ہمیشہ ‘‘اماتتِ سنت’’ کے مقابلے میں آتی ہے۔ اس سے کوئی نہ کوئی سنت متروک ہوتی ہے۔ اسی بدعت کے لئے فرمایا گیا کہ جس نے اس کے مقابلے میں سنت کو زندہ کیا اس کے لئے اجر ہے اور جس نے ایسی بدعت کی راہ نکالی جو سنت کے ترک کا باعث ہو تو وہ گمراہی ہے۔

اب اَربابِ فکر و دانش خود فیصلہ کریں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفلِ میلاد، اولیاء اﷲ کے لئے اِیصالِ ثواب، نمازوں کے بعد مصافحہ، اَذان کے بعد صلوۃ و سلام اور دیگر جمیع اُمورِ صالحات سے کون سی سنت متروک ہو رہی ہے، بلکہ یہ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر مبنی اعمال ہیں۔ اب ان تفصیلات سے بدعۃ ضلالۃ کا مفہوم متعین ہو گیا کہ آپ کسی عمل کو اس وقت تک بدعتِ سیئہ، بدعتِ ضلالہ اور بدعتِ شرعیہ نہیں کہہ سکتے جب تک اس کے متقابل کوئی سنت ثابت نہ ہو کہ اس عمل نے اس سنت کو متروک کر دیا ہے یا یہ بدعت اس سنت سے ٹکراتی ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر نئے کام پر کل بدعة ضلالة کا حکم نہیں لگایا جا سکتا لہٰذا اب اگر کوئی یہ کہے کہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہوتا ہے تو اس کے مقابلے میں کہا جائے گا کہ نہیں بلکہ کل بدعۃ سیئۃ ضلالۃ یعنی صرف بدعت سیئہ باعثِ ضلالت ہو گی۔ اب اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ آپ نے یہ معنی کہاں سے نکال لیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے من ابتدع بدعة ضلالة  میں بدعۃ ضلالۃ کو مضاف، مضاف الیہ کر کے اس معنی کو خود متعین فرما دیا ہے کہ کوئی عمل اس وقت تک بدعت ضلالہ نہیں ہو گا جب تک وہ کسی خاص سنت کے ترک ہو جانے کاسبب نہ بنے۔

معروف اہلِ حدیث عالم مولانا صدیق حسن خان بھو پالی (1307ھ) بھی واضح طور پر لکھتے ہیں کہ ہر نئے کام کو بدعت کہہ کرمطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت صرف اس کام کو کہا جائے گا جس سے کوئی سنت متروک ہو اور جو نیا کام کسی امرِ شریعت سے متناقض نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے۔ شیخ وحید الزماں (1327ھ) اپنی کتاب ‘‘ہدیۃ المہدی’’ کے صفحہ نمبر 117 پر بدعت کے حوالے سے علامہ بھوپالی کا یہ قول نقل کرتے ہیں :

البدعة الضلالة المحرمة هی التی ترفع السنة مثلها والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة بل هی مباح الاصل.

‘‘بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے۔’’

گویا بھوپالی صاحب نے ہر اُس نئے عمل کو بدعت ماننے سے اِنکار کر دیا ہے جس کے مدّمقابل کوئی خاص سنت ترک نہ ہو. اُنکے نزدیک ایسا ہر نیا عمل اپنی اصل میں مباح اور جائز ہے۔

اس حوالے سے ایک بہت اہم دلیل یہ ہے کہ وہ نیا کام جسے اُمت کی اکثریت اچھا سمجھ کر کر رہی ہو اور ان کرنے والوں میں صرف ان پڑھ دیہاتی لوگ اور عوام الناس ہی نہ ہوں بلکہ اُمت کے اکابر علماء، فقہاء، محققین اور مجتہدین بھی شامل ہوں تو وہ کام کبھی برا یعنی بدعتِ ضلالہ نہیں ہو سکتا لہٰذا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمہور اُمت کا کسی کام کو کثرت کے ساتھ کرنا دلیل شرعی بنا دیا یعنی جمہور امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی۔ اس کی دلیل مسند احمد بن حنبل کی درج ذیل روایت ہے جس میں حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

9. إِنَّ اﷲَ نَظَرَ فِی قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلبَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم خَيْرَ قُلُوْبِ الْعِباد ،ِ فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوْبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم فَوَجَدَ قُلُوْبَ أصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ، يُقَاتِلُوْنَ عَلَی دِيْنِهِ، فَمَا رَأی الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ حَسَنٌ وَ مَا رَاَوْا سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ سَيِّئٌ.

    احمد بن حنبل، المسند، 1 : 379، رقم : 3600

    طبرانی،المعجم الکبير ، 9 : 112، رقم : 8583

    بزار، المسند، 5 : 212، رقم : 1816

    حاکم ، المستدرک، 3 : 83، رقم : 4465

    بيهقی ، المدخل اِلی السنن الکبری ، 1 : 114

    طيالسی ، المسند، 1 : 33، الحديث رقم : 246

‘‘اللہ عزوجل نے بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو قلبِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام بندوں کے دلوں سے بہتر پایا لہٰذ اِسے اپنی ذات کیلے منتخب فرما لیا۔پھر رسالت کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعو رضی اللہ عنہم فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل کے بعد پھر لوگوں کے دلوں کی طرف نظر کی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ کے دلوں کو تمام بندوں کے دلوں سے بہتر پایا تو اُنہیں اپنے نبی کا وزیر بنا دیا جو اُس نبی کے دین کے لیے مقاتلہ کرتے ہیں۔ پس جس کام کو مسلمان اچھا جانیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی اچھا ہے اور جس کام کو یہ برا جانیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی برا ہے‘‘

زیرِ بحث موضوع پر مزید دلائل سے قبل مذکورہ حدیثِ مبارکہ میں ضمنًا ایک بات کو سمجھ لینا ضروری ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چالیس سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد نبوت و رسالت ملی اور پھر نبوت و رسالت کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اَوصافِ حسنہ سے نوازا گیا۔ یہ بات غلط ہے بلکہ ‘‘فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم خَيْرَ قُلُوْبِ العِبَادِ فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ فَابْتَعَثَه بِرِسَالَتِهِ’’ کے الفاظ واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب دلوں سے اچھے دل والا بعثت سے پہلے بنایا گیا یعنی شانِ محبوبیت پہلے دی گئی اور نبوت و رسالت کے ساتھ مبعوث بعد میں فرمایا گیا۔ نفسِ مضمون سے متعلقہ بات مذکورہ حدیث مبارکہ میں یہ ہے کہ حضورA نے اعمالِ حسنہ اور اعمالِ قبیحہ کے تعیّن کے لئے یہ دلیل شرعی دے دی کہ مسلمان بالعموم جس کام کو اچھا جانیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی اچھا ہے اور جس کو یہ برا جانیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی برا ہے۔ اِمام طبرانی(360ھ) المعجم الکبیر میں اس روایت کو درج ذیل الفاظ کے ساتھ نقل کرتے ہیں :

10. مَارَاٰهُ المُؤْمِنُوْنَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ حَسَنٌ وَ مَارَاٰهُ المُوْمِنُوْنَ قَبِيْحًا فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ قَبِيْحٌ.

    طبرانی، المعجم الکبير، 9 : 112، رقم : 8583

    احمد بن حنبل، المسند، 1 : 379، رقم : 3600

    حاکم، المستدرک، 3 : 83، رقم : 4465

    بيهقی، المدخل اِلی السنن الکبری ، 1 : 114

    طيالسی، المسند، 1 : 33، الحديث رقم : 246

‘‘جس کام کو مومنین اچھا جانیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی اچھا ہے اور جس کام کو مومنین برا جانیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی برا ہے۔’’

اب یہاں پر قرآن و حدیث کی بات نہیں ہو رہی بلکہ ایک نئی دلیل دی جا رہی ہے کہ اُمتِ مسلمہ کی اکثریت کبھی قبیح کام پر متفق نہیں ہو سکتی۔ اس لئے فرمایا مسلمان جسے عام طور پر اچھا جانیں وہ اﷲ کے ہاں بھی اچھا ہے اور مسلمان جسے برا جانیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی برا ہے۔ یعنی مسلمانوں کا کسی چیز کو بالعموم اچھا جاننا شرعًا دلیل ہے۔ اس سے یہ استدلال ہوتا ہے کہ اگر کوئی خاص عمل جو اپنی ہیئت کذائیہ میں نیا ہے۔ کتاب و سنت کی نصوص، عہدِ رسالتمآب اور عہدِ صحابہ میں ثابت نہیں مگر اُمتِ مسلمہ کی اکثریت اس کو اچھا جانتی ہے تو یہ بھی حسنہ ہے۔ اگر کوئی سوال کرے کہ یہ کیسے حسنہ ہو گیا تو اس کا جواب مذکورہ روایت میں ہے کہ جس کو مسلمان اچھا جانیں وہ حسنہ ہے۔ لہٰذا اگر اس کی ہئیت کذائیہ ثابت نہیں تو مذکورہ دلیل کی بنا پر اس کی اصل اور دلیل ثابت ہے جس کی وجہ سے وہ بدعتِ سیّئہ نہ رہی۔ اَب میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانا اس میں ذکر و اَذکار، صلوۃ و سلام، نعت خوانی ان تمام اَعمالِ حسنہ کی اصل مذکورہ روایت ہے۔ یہی روایت اِمام بزار رحمۃ اللہ علیہ (229ھ) نے ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے :

11. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : فَمَا رَآهُ الْمُؤْمِنُ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ حَسَنٌ وَ مَا رَآهُ الْمُؤْمِنُوْنَ قَبِيْحًا فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ قَبِيْحٌ.

    بزار، المسند، 5 : 212، رقم : 1816

    طبرانی، المعجم الکبير، 9 : 112، رقم : 8583

    احمد بن حنبل ، المسند، 1 : 379، رقم : 3600

    حاکم ، المستدرک، 3 : 83، رقم : 4465

    بيهقی ، المدخل اِلی السنن الکبری ، 1 : 114

    طيالسی ، المسند، 1 : 33، رقم : 246

‘‘حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جس (عمل) کو کوئی مومن اچھا جانے وہ (عمل) اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جسے تمام مومنین برا جانیں وہ خدا کے نزدیک بھی بُرا ہے۔’’

اس حدیثِ مبارکہ میں بہت ہی اہم نکتہ بیان ہوا ہے کہ ہر وہ نیا کام جو مصلحتِ دینی پر مبنی ہو اور اسے کوئی مردِ مؤمن جو متقی، عالم، فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ مجتہدانہ بصیرت کا حامل بھی ہو، وہ اسے اچھاجانے تو وہ مباح اور جائز ہے۔ یعنی دلائلِ شرعیہ پر نظر رکھنے والا مردِ مو من کبھی بھی غیر شرعی اُمور کو جائز نہیں کہتا۔ اس حوالے سے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح بخاری کی درج ذیل حدیث بھی نفسِ مضمون کو سمجھنے میں مدد دے گی جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اِذَا حَکَمَ الحَاکِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اَصَابَ فَلَهُ اَجْرَان وَ اِذَا حَکَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اَخْطَأ فَلَهُ اجْر.

    بخاری، الصحيح، کتاب الاعتصام، باب اجر الحاکم اِذا اجتهد، 6 : 2676، رقم : 6919

    مسلم، الصحيح، کتاب الأقضيه، باب بيان اجر الحاکم اِذا اجتهد فأصاب او اخطأ، 3 : 1342، رقم : 1716

    ترمذی، الجا مع الصحيح، ابواب الاحکام، باب ماجاء فی القاضی يصيب ويخطیٰ، 3 : 615، رقم : 1326

    أبو داود،السنن، کتاب القضاء، باب فی القاضی يخْطِی، 3 : 299، رقم : 3574

    نسائی، السنن، کتاب آداب القضاة، باب الاصابة فی الحکم، 8 : 223، رقم : 5381

    ابن ماجه، السنن، کتاب الأحکام، باب الحاکم يجتهد فيصيب الحق، 2 : 776، رقم : 2314

‘‘جب کوئی حاکم اجتہاد سے فیصلہ کرے اور صحیح فیصلہ کر دے تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور جب اجتہاد سے فیصلہ کرے اور اس سے غلطی ہو جائے تو بھی اس کے لئے ایک اجر ہے۔’’

یہ صرف مجتہد کی شان ہے کہ اس کا اجتہاد، اجتہادِ صحیح تھا مگر نتیجہ خطاء کی صورت میں نکلا تو اس کے لئے بھی اجر ہے۔ ایسے ہی مجتہد کے متعلق فرمایا گیا کہ مَا رَاٰهُ المُؤْمِنُ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ حَسَنٌ یعنی جس کو کوئی ایک مردِ مومن جو دلیلِ شرعی، تقوٰی اور صالحیت پر قائم رہنے والا ہو، اچھا جانتا ہو وہ اﷲ کے نزدیک بھی اچھا ہے۔ لہٰذا کسی کام کو اچھا سمجھ کر قبول کرنے کے لئے تو ایک مردِ مومن کا اچھا سمجھنا بھی کافی ہے۔ لیکن اس کے برعکس کسی کام کو ضلالہ، گمراہی اور مردود قرار دینے کے لئے فرمایا : ‘‘ما راٰه المؤمنون قبيحًا فهو عِنْدَ اﷲِ قَبِيْحٌ’’ یعنی جس کو سارے مومن مل کر برا کہیں تب وہ اﷲ کے ہاں برا ہوگا۔ کسی کام کو بدعتِ سیّئہ قرار دینے کے لئے ضروری ہے کہ اُمت کی اکثریت اسے بدعتِ ضلالہ اور بدعتِ قبیحہ سمجھے۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ کسی کام کو اچھا سمجھنے کے لئے صرف ایک مردِ مومن کافی ہے۔ اس پر دلیل کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی دلیل فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَا رَاٰهُ المُؤمِنُ حَسَنٌ فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ حَسَنٌ ہے اور فرمانِ رسولA پر دلیل طلب کرنا کفر ہے۔ مگر اس کے باوجود سمجھانے کے لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ اگر کوئی ایک مومن بھی کسی چیز کو حسن کہے تو وہ حسن کیوں ہے؟ اس لئے کہ یہاں مومن سے مراد ‘‘مومنِ مجتہد‘‘ ہے اور ایسے مومن کے لئے فرمایا گیا : اِذَا حَکَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أخْطَأ فَلَهُ اَجْرٌ کہ اگر مومنِ مجتہد خطاء بھی کر بیٹھے تو بھی اس کے لئے اجر ہے۔ چونکہ اس مومنِ مجتہد کا فیصلہ ہر صورت میںـ باعثِ اجر ہے اس لئے اس کو ‘‘حسن‘‘ فرمایا گیا۔ جو لوگ اس پر عمل کریں گے ان کا اجر بھی اس کو دیا جائے گا کیونکہ مومن سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ایسا عمل ایجاد کرے گا جو سنت فوت ہونے کہ باعث ہو کیونکہ اس کا ٹکراؤ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے نہیں ہے کیونکہ وہ خود بھی عامل بالسنہ ہے۔ اس لئے جب وہ حکم دیتا ہے تو حسن ہوتا ہے لیکن کسی امر کو قبیح اور ضلالہ کہنا بہت بڑی بات ہے اس لئے فرمایا : مَا رَاٰهُ الْمُوْمِنوْنَ قَبِيْحًا فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ قَبِيْحٌ : یہاں لفظِ ‘‘مؤمنون’’ جمع کا صیغہ استعمال کیا یعنی جس عمل کو کثرت سے مؤمنین قبیح کہیں وہ عند اﷲ بھی قبیح ہو گا۔ مطلب یہ ہے کہ جمہور اُمت کبھی ضلالت و قباحت پر جمع نہیں ہو سکتی، اس لئے کہ اس کے پیچھے اُمت کی اکثریت اور اﷲ کی نصرت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اُمت کی اسی اکثریت کو حدیث مبارکہ میں ‘‘الجماعۃ’’ اور ‘‘السواد الاعظم’’ کہا گیا ہے۔ ‘‘جامع ترمذی’’ کی کتاب الفتن کے باب ما جاء فی لزوم الجماعة میں حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إِنَّ اﷲَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي (أوْ قَالَ أمَّةَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم) عَلَی ضَلَالَةٍ، وَيَدُ اﷲِ مَعَ الْجَمَاعَةِ، وَمَنْ شَذَّ شُذََّ إِلَی النَّار.

    ترمذی، السنن، کتاب الفتن ، باب ما جاء فی لزوم الجماعة، 4 : 466، رقم : 2167

    حاکم، المستدرک، 1 : 201، رقم : 397

    مناوی، فيض القدير، 2 : 271

‘‘اللہ تعالیٰ میری اُمت (یا فرمایا : اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ تعالیٰ کی حفاظت کا ہاتھ ہے اور جو شخص جماعت سے جدا ہوا وہ آگ میں ڈال دیا گیا۔’’

اِس حدیثِ مبارکہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سو فی صد افرادِ اُمت کبھی گمراہی پر مجتمع نہیں ہونگے بلکہ اس سے مراد ہمیشہ اکثریت ہوتی ہے کہ اُمت کی اکثریت کبھی ضلالہ پر مجتمع نہیں ہوگی کیونکہ يَدُ اﷲِ مَعَ الْجَمَاعَة یعنی اﷲ کی حفاظت کا ہاتھ ہمیشہ جماعت پر ہوتا ہے۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسی باب میں ایک اور حدیث روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمہور اُمت کے ساتھ رہنے اور دوسرے چھوٹے چھوٹے فرقوں، مسلکوں اور گروہوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

عليکم بالجماعة و اياکم والفرقة فان الشيطان مع الواحد وهو من الاثنين أبعد من اراد بحبوحة الجنة فليلزم الجماعة.

    ترمذی،الجامع الصحيح، کتاب الفتن، باب ماجاء فی لزوم الجماعة، 4 : 465، رقم : 2165

    احمد بن حنبل ، المسند، 5 : 370، رقم : 23194

    بيهقی، السنن لکبری ، 5 : 388، رقم : 9225

    بيهقی، شعب الايمان، 7 : 488، رقم : 11085

    هيثمی، مجمع الزوائد، 5 : 217

‘‘تم پر جماعت کے ساتھ ملے رہنا لازم ہے اور علیحدگی سے بچو کیونکہ شیطان ایک کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ دو آدمیوں سے دور رہتا ہے (لہٰذا) جو شخص جنت کا وسط (اعلیٰ درجات) چاہتا ہے اس کے لئے جماعت سے وابستگی لازمی ہے۔’’

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تلقین فرمائی کہ شیطان سے بچنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ فرقوں اور گروہوں کو چھوڑ کر جماعت کے ساتھ وآبستہ ہو جاؤ ۔جماعت اور سوادِ اعظم کی اہمیت اُجاگر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اثنان خير من واحد وثلاثة خير من اثنين واربعة خير من ثلاثة فعليکم بالجماعة فإن اﷲ لن يجمع أمتی إلا علی هدي.

    احمد بن حنبل، المسند، 5 : 145، رقم : 21190

    هيثمی، مجمع الزوائد، 1 : 177

    ابن ابی شيبه، المصنف، 7 : 457، رقم : 37192

    بيهقی، شعب الايمان، 6 : 67، رقم : 7517

    ابن ابی عاصم، السنة، 1 : 42، رقم : 85

‘‘(کسی مسئلے پر) دو کا ایک کے مقابلے میں جمع ہونا بہتر ہے۔ اسی طرح تین دو کے مقابلے میں بہتر ہیں اور چار تین کے مقابلے میں۔ تم پر (اکثریتی) جماعت کی پیروی لازم ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ میری اُمت کو سوائے ہدایت کے کسی غلط بات پر جمع نہیں ہونے دے گا۔’’

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمثیل سے سمجھایا کہ دو کا اکٹھا ہونا ایک سے بہتر ہے۔ تین کا دو سے بہتر ہے اور چار کا تین سے بہتر ہے۔ یہ مثالیں دینے کے فورًا بعد فرمایا : علیکم بالجماعۃ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اکثریت کو جماعت کا درجہ دے دیا اور اُمت کو نصیحت کی کہ وہ سب سے بڑی جماعت کے ساتھ ہو جائیں۔ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ (405ھ) نے ‘‘المستدرک’’ میں حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے روایت کی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لَا يَجْمَعُ اﷲُ هَذِهِ الأمَّةَ عَلَی الضَّلَالَةِ أبَدًا وَ قَالَ : يَدُ اﷲِ عَليَ الْجَمَاعَةِ، فاتبعوا السواد الاعظم، فانه من شذّ شذّ فی النار.

    حاکم، المستدرک علی الصحيحين، کتاب العلم، 1 : 200، رقم : 391

    ترمذی، الجامع الصحيح،کتاب الفتن، باب ماجاء فی لزوم الجماعة، 4 : 266، رقم : 2167

    نسائی، السنن، کتاب المحاربة، باب قتل من فارق الجماعة، 7 : 92، رقم : 4020

    طبرانی، المعجم الاوسط، 7 : 193، رقم : 7249

    طبرانی، المعجم الکبير، 1 : 186، رقم : 489

‘‘اللہ تعالیٰ اِس اُمت کو کبھی بھی گمراہی پر اکٹھا نہیں فرمائے گا اور فرمایاجماعت پر اﷲ کا ہاتھ ہوتا ہے پس تم سوادِ اعظم کی اتباع کرو کیونکہ جو ان سے الگ ہوا گویا وہ آگ میں جا گرا۔’’

اس حدیثِ مبارکہ نے بالکل واضح کر دیا اور تخصیص کر دی کہ اﷲ کا دستِ حفاظت اس مسلک پر ہوگا جو سب سے بڑا مسلک یعنی سوادِ اعظم ہوگا تو گویا جس مسلک پر اُمت کی اکثریت قائل اور عامل ہو گی اس پر اﷲ تعالیٰ کی حفاظت کا ہاتھ ہو گا۔ اسی حوالے سے ‘‘سنن ابن ماجہ’’ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إنّ اُمّتی لا تجتمع علی ضلالة فاذا رائتم اختلافاً فعليکم بالسواد الاعظم.

    ابن ماجه، السنن، کتاب السنن، باب السواد الاعظم، 2 : 1303، رقم : 3950

    ا بن حميد، المسند، 1 : 367، رقم : 1220

    ديلمی، الفردوس بماثور الخطاب، 1 : 411، رقم : 1662

    ابونعيم اصفهانی، حلية الاؤلياء، 9 : 238

    ذهبی، سير اعلام النبلاء، 12 : 196

‘‘بیشک میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہو گی پس جب تم اختلاف دیکھو توتم پر سوادِ اعظم (اکثریتی جماعت) کے ساتھ رہنا لازم ہے۔’’

اس حدیثِ مبارکہ میں بصورتِ اختلاف سوادِ اعظم کے ساتھ جڑے رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ‘‘سنن ابن ماجہ’’ کی کتاب الفتن کے باب افتراق الامم میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

وَ الَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَتَفْتَرِقَنَّ أمَّتِيْ عَلٰی ثَلَاثٍ وَ سَبْعِيْنَ فِرْقَةً َوَاحِدَةً فِی الْجَنَّةِ وَ ثِنْتَانِ وَ سَبْعُوْنَ فِی النَّارِ قِيْلَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ مَنْ هُمْ قَالَ الْجَمَاعَةُ.

    اِبنِ ماجه، السنن،کتاب الفتن، باب اِفتراق الاُ مم ، 2 : 1322 ، رقم : 3992

    ابن أبی عاصم، السنه، 1 : 23، رقم : 36

    طبرانی، المعجم الکبير، 18 : 70، رقم : 129

    اللالکا ئی، إعتقاد اهل السنة، 1 : 101، رقم : 149

‘‘قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے، میری اُمت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو گی۔جن میں سے ایک جنت اور بہتر جہنم میں ہوں گے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! وہ جنتی کون ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو جماعت کو پکڑے رہیں گے۔’’

سنن ابن ماجہ کی اس روایت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک پیمانہ مقرر فرما دیا کہ اُمت کی اکثریت جن عقائد کو اپنائے گی وہ صحیح ہوں گے۔ لہٰذا بڑے مسلک یعنی سوادِ اعظم کے ساتھ جڑے رہنا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج جو اعمال اُمت کی اکثریت میں رائج ہیں انہیں بدعتِ ضلالہ اور گمراہی کہا جاتا ہے حالانکہ چند خاص طبقات کو چھوڑ کر پورا عالمِ عرب اہلِ سنت و جماعت کے طریقے پر عامل ہے۔ مراکش، سوڈان، الجزائر، ترکی، یونان، ایران، عراق، فلسطین، اُردن، شام اور مصر کے عوام کی بھاری اکثریت اہلِ سنت کے طور طریقوں، شعائر اور کلچر پر عامل ہے۔ اگرچہ مختلف ممالک میں ادائیگی کے طریقے ذرا مختلف ہیں مگر بنیادی عقائد ایک ہی ہیں۔ المختصر یہ کہ یہ تمام بنیادی عقائد جن کو بعض لوگ تقسیمِ بدعت کے قائل نہ ہونے کی وجہ سے بدعتِ ضلالہ، گمراہی اور شرک وغیرہ کہتے ہیں، جمہورِ اُمت انہیں مباح اور جائز سمجھتی ہے کیونکہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ‘‘اِنَّ اُمتی لا تجتمع علی الضلالة’’ کے مطابق اُمت کی اکثریت کبھی گمراہ نہیں ہو سکتی، لہٰذا اُن کے عقائد اقرب الی الکتاب و سنۃ ہیں اور انہیں ضلالہ و گمراہی کہنا بذات خود جہالت و گمراہی ہے۔

تقسیمِ بدعت پرمعروف کتب کی فہرست

بدعت کی اقسام اور تفصیلات کو متعدد ائمہ حدیث اور فقہاء نے اپنی کتب میں اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے جن میں سے چند معروف کتب کے نام درج ذیل ہیں :

    الجامع لأحکام القرآن، از امام قرطبی(671ه)، 2 : 87

    شعب الايمان، از اِمام بيهقی(458ه)، 3 : 177

    المدخل الی السنن الکبری، از امام بيهقی(458ه)، 1 : 206

    احياء العلوم الدين، از امام غزالی(505ه)، 2 : 3

    النهاية فی غريب الحديث والأثر، از ابن اثير جزری(606ه)، 1 : 106

    قواعد الاحکام فی مصالح الانام، از عز الدين بن عبد السلام (660ه)، 2 : 173

    تهذيب الاسماء واللغات، از امام نووی(676ه)، 3 : 22

    انوار البروق فی انوار الفروق، از امام قرافی(684ه)، 4 : 202

    لسان العرب، از ابن منظور افريقی(711ه)، 8 : 6

    منهاج السنه، از ابن تيميه (728ه)، 4 : 224

    سير اعلام النبلاء ، از امام ذهبی(748ه)، 8 : 458

    تفسير القرآن العظيم، از ابن کثير(774ه)، 1 : 161

    الاعتصام، از امام شاطبی(790ه)، 2 : 111.115

    المنثور فی القواعد، از امام زرکشی(794ه)، 1 : 217

 جامع العلوم و الحکم فی شرح خمسين حديثا من جوامع الکلم، از ابن رجب حنبلی(795ه) : 160

    الکواکب الدراری فی شرح صحيح البخاری، از علامه کرمانی(796ه)، 9 : 154

    اکمال اکمال المعلم، از علامه وشتانی مالکی(828ه)، 3 : 23

    فتح الباری، از ابن حجر عسقلانی(852ه)، 4 : 253

    عمدة القاری شرح صحيح البخاری، از علامه عينی(855ه)، 11 : 126

    مکمل اکمال المعلم، از علامه سنوسی مالکی(895ه)، 3 : 23

    القول البديع فی الصلاة علی الحبيب الشفيع، از امام سخاوی(902ه) : 192

    فتح المغيث شرح الفية الحديث، از امام سخاوی(902ه)، 2 : 27

    حسن المقصد فی عمل المولد، از امام سيو طی(911ه) : 51

    الديباج علی صحيح مسلم بن الحجاج، از امام سيوطی(911ه)، 2 : 445

    تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، از امام سيو طی(911ه)، 1 : 105

    الحاوی للفتاوٰی، از امام سيوطی(911ه)، 1 : 192

    سبل الهدٰی والرشاد، از علامه صالحی شامی(911ه)، 1 : 370

    ارشاد الساری لشرح صحيح بخاری، از امام قسطلانی(923ه)، 3 : 426

    اليواقيت والجواهر فی بيان عقائد الأکابر، از علامه شعرانی(973ه)، 2 : 288

    فتاویٰ الحديثيه، از ابن حجر مکی(974ه) : 130

    مرقاة المفا تيح ،از ملا علی قاری(1014ه)، 1 : 216

    فيض القدير شرح الجامع الصغير، از علامه مناوی(1031ه)، 1 : 439

    سيرت حلبيه از علامه حلبی(1044ه)، 1 : 136

    أشعة اللمعات، از شيخ عبدالحق محدث دهلوی(1052ه)، 1 : 125

    درّ مختار علی هامش الرد، از علامه حصکفی (1088ه)، 1 : 362

    شرح الموطا، ازامام زرقانی(1122ه)، 1 : 238

    تاج العروس من جواهر القاموس، از مرتضی زبيدی(1205ه)، 11 : 9

    حاشيه طحطاوی علی مراقی الفلاح، از امام طحطاوی(1231ه) : 114

    ردالمحتار شرح درالمختار، از علامه شامی(1252ه)، 1 : 524

    نيل الأوطار شرح منتقي الأخبار، از علامه شوکانی(1255ه)، 3 : 325

    روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم، از علامه آلوسی(1270ه)، 27 : 192

    هدية المهدی، از شيخ وحيد الزمان(1327ه) : 117

    عون المعبود شرح سنن أبی دائود ،از عظيم آبادی(1329ه)، 12 : 235

    مجمع بحار الانوار، از علامه طاهر پتنی، 1 : 80

    حواشی الشروانی، علامه شروانی، 10 : 235

    تحفة الاحوذی، عبد الرحمن مبارکپوری(1353ه)، 7 : 366

    فتح الملهم شرح صحيح مسلم، از شبير احمد عثمانی(1369ه)، 2 : 406

    مغنی المحتاج اِلیٰ معرفة معانی الفاظ المنهاج، از امام شربينی، 4 : 436

    اَوجز المسالک الی مؤطا مالک، از علامه زکرياکاندهلوي(1402ه)، 2 : 297

    فتاوی اللجنة الدائمة للبحوت العلمية و الإفتائ، از ابن باز(1421ه)، 2 : 325

    مفاهيم يجب ان تصح، از شيخ علوی مالکی(1425ه) : 102.106

خلاصہ بحث

اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر عمل کو اس ڈھب پر اور اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جاتا کہ یہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تھا یا نہیں اور بعد میں کب شروع ہوا بلکہ اس کو پرکھنے کے لئے ہمیں یہ اَمر ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا کہ کسی عمل کی ہیئت کبھی رسم و رواج پر منحصر ہوتی ہے اور کبھی وقت کی ضرورتوں اور تقاضوں پر مبنی ہوتی ہے۔ کبھی اس کام میں کئی حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں اور کبھی کئی مصلحتیں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔

غور و فکر کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس نئے کام کی کوئی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے یا نہیں؟ کیا بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کا کوئی ثبوت قرآن و سنت میں موجود ہے؟ یا پھر وہ کام اس لئے بھی قابل مذمت ٹھہرتا ہے کہ اس سے کسی واجب، سنت یا مستحب وغیرہ پر اثر پڑتا ہے یا اس کا ان کے ساتھ اختلاف یا تعارض رونما ہوتا ہے۔

اگر کسی عمل کی اصل قرآنِ حکیم یا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہو جائے تو پھر وہ طعن و تشنیع اور گمراہی یا گناہ وغیرہ کا باعث نہیں رہتا اور اگر بفرضِ محال قرآن و سنت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ثابت نہ بھی ہو لیکن اس سے قرآن و سنت کی مخالفت نہ ہوتی ہو تو پھر بھی وہ کسی قسم کی قباحت کا باعث نہیں بنتا اور نہ ہی اس پر طعن و تشنیع جائز ہے ہاں صرف اس صورت میں کوئی بدعت ناجائز اور قبیح کے زمرے میں شامل ہو کر قابل مذمت ٹھہرے گی جب قرآن و سنت پر پرکھنے کے بعد یہ ثابت ہو جائے کہ یہ قرآن و سنت کی فلاں نص کے خلاف ہے یا شریعت کے فلاں حکم کی مخالفت میں ہے۔

بدعت کا معنی و مفہوم واضح کرتے ہوئے اِس پر بار بار زور دیا جا چکا ہے کہ کوئی بھی نیا کام اس وقت ناجائز اور حرام قرار پاتا ہے جب وہ شریعتِ اسلامیہ کے کسی حکم کی مخالفت کر رہا ہو اور اسے ضروریاتِ دین سمجھ کر قابلِ تقلید ٹھہرا لیا جائے یا پھر اسے ضروریاتِ دین شمار کرتے ہوئے اس کے نہ کرنے والے کو گناہگار اور کرنے والے کو ہی مسلمان سمجھاجائے، تو اس صورت میں بلاشبہ جائز اور مباح بدعت بھی ناجائز اور قبیح بن جاتی ہے اور اگر جائز اور مستحسن بدعت میں ناجائز امور کو شامل کر دیا جائے جن کی رو سے روحِ اسلام کو نقصان پہنچ رہا ہو تو بلاشبہ وہ بدعت بھی قابلِ مذمت ہو گی اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اسے ہدفِ تنقیدو تنقیص بنانے کا کوئی جواز نہیں۔

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...