معراج النبی ﷺ کی حکمتیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اللہ تعالیٰ کے کاموں میں بہت حکمتیں ، اور رموز و اسرار کا ر فرماہوتے ہیں ۔حضور علیہ السلام کی معراج کے فلسفہ میں بھی بہت سی روایات ہیں ۔ بنابریں علماءکرام حضور ﷺ کے معراج کےلئے جانے میں کئی حکمتیں بیان کرتے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں ۔
حکمت نمبر1:”قصیدة البردہ“ للشیخ البوصیری رحمة اللہ علیہ کی شرح ”عَصِی ±دَة الشَّھدَة“میں العلامة عمر بن احمد الخرپوتی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :”ان دونوں شعروں میں رسول اللہ ﷺ کے معراج شریف کی حکمت کی طرف اشارہ ہے ۔اور وہ یہ کہ چار ہزار سال سے بڑے درجہ کے فرشتوں کی مجلس میں چار مسائل پر بحث ہو رہی تھی لیکن وہ اس کو حل نہ کر سکے پھر حضور ﷺ کی بعثت ہوئی تو ان فرشتوں کو یقین ہوا کہ یہ مشکل مسائل آپ ہی سے حل ہو سکیں گے ۔“
تو اُن سب فرشتوں نے اپنی مشکل کشائی کےلئے بارگاہ الہٰی میں نیاز مندی اور زاری سے استدعا کی ۔تو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو اپنی طرف بلایا اور ”قَابَ قَو ±سَی ±نِ اَو ± اَد ±نٰی فَاَو ±حیٰ اِلٰی عَب ±دِہ مَا اَو ±حٰی۔کے مقام سے مشرف فرمایا اور وہاں جو وحی ہوئی اس میں سے ایک یہ ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ : ”میں نے اپنے رب کریم کو احسن صورت میں دیکھا “ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ کون سے مسائل ہیں جن میں بڑے مرتبے والے فرشتے بحث کر رہے ہیں ؟ میں نے عرض کیا اے میرے رب تو ہی جانتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنا بے مثل( قدرت کا ) ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا حتیٰ کہ اس کی ٹھنڈک کا اثر (فیضان خدا وندی کا ظہور) میں نے اپنے سینہ میں پایا ۔اسکے بعد فرمایا اے پیارے محمد ﷺ جانتے ہو کہ وہ کون سے مسائل ہیں ۔جن میں بڑے مرتبے والے فرشتے بحث کر رہے ہیں ۔(اور اُلجھے ہوئے ہیں اس کا حل نہیں پا سکتے )میں نے عرض کی ۔ ہاں(چار مسائل) کفارات اور منجیات ،درجات اور مہلکات ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا سچ کہا تو نے اے پیارے محمد ﷺ اسکے بعد اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا کہ اے میرے فرشتو! اب تم نے اپنی مشکلات کا حل کرانے کا موقعہ پا لیا ہے ۔لہٰذا تم اپنی اشکال حل کرالو۔ تو حضرت اسرافیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ ۔
”کفارات“ کیا ہیں؟ یعنی وہ کون سے کام ہیں جن کے سبب اللہ تعالیٰ بندوں کے گناہوں کو بخش دیتا ہے ۔؟
حضور ﷺ نے فرمایا کہ وہ تین کام ہیں۔ایک یہ کہ سخت سردی وغیرہ میں وضو کو مکمل کیا جائے ،یعنی تمام اعضائے وضو پر پورے طور پر پانی پہنچایا جائے تاکہ وضو صحیح ،کامل و مکمل ہو جائے ،تو ایک یہ کام گناہوں کی مغفرت کا موجب ہے۔ دوسرا یہ کہ نماز کو باجماعت ادا کرنے کی نیت سے پاپیادہ چل کر جانا ۔تیسرا یہ کہ ایک نماز کی ادائیگی کے بعد دوسری آنے والی نماز کے انتظار میں بیٹھنا ۔
پھر میکائیل علیہ السلام نے عرض کی کہ :”درجات “ کیا ہیں ؟یعنی وہ کون سے کام ہیں جن سے انسان کے درجے بلند ہوتے ہیں ۔حضور ﷺ نے فرمایا کہ ! اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کےلئے بھوکوں کو کھانا کھلانااور سلام کو لوگوں میں عام کرنا یعنی واقف و ناواقف کو سلام کرنا اور رات کے وقت نماز (نوافل) پڑھنا جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی کہ ۔”منجیات“ کیا ہیں ؟یعنی وہ کون سے کام ہیں کہ جن پر عمل کرنے سے عذاب سے نجات ملتی ہے ؟حضور ﷺ نے فرمایا کہ :وہ یہ کام ہیں ظاہری اور پوشیدہ حالات میں ہر طرح (اور ہمیشہ) اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنا اور فقر و غنی (غریبی و مالداری) ہر دوحال میں میانہ روی اختیار کرنا اور غصے و نرمی دونوں حالتوں میں یکساں عدل و انصاف کرنا ۔پھر حضرت عزرائیل علیہ السلام نے عرض کی کہ:”مہلکات“کیا ہیں ؟ یعنی جن کاموں کے کرنے سے انسان ہلاک ہو جاتا ہے۔؟ حضور ﷺ نے فرمایا :وہ تین کام ہیں ایک یہ کہ بخیل کی اطاعت یعنی بخیل جس طرح حکم کرے اس پر عمل کرتا چلا جائے اور کنجوسی اختیار کئے رکھے۔دوسرا یہ ہے کہا خوہشات نفس کی اتباع کی جائے ۔تیسرا یہ کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے اچھا گمان کرے۔پھر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میرے حبیب مصطفےٰ ﷺ نے تمام سوالات کے جواب درست بیان فرمائے ہیں اور جو کچھ کہا وہ سب صحیح اور سچ کہا ہے ۔(عصیدة الشہدہ المعروف بہ خرپوتی صفحہ نمبر 171)
تشریح حدیث:مذکورہ بالا حدیث شریف سے ہر صاحب فہم کو مندرجہ ذیل حکمتیں واضح نظر آتی ہیں ۔
اولاً: اللہ تعالیٰ خود بھی براہِ راست فرشتوں کی مشکل حل فرما سکتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے دنیا والوں کو یہ بتلانا چاہا کہ میری بارگاہ میں ابلیس کی طرح ڈائریکٹ آنے کی جرا ¿ت نہ کرو بلکہ میرے حبیب پاک ﷺ کے وسیلہ عظمیٰ کے ذریعہ رسائی حاصل کیا کرو۔
ثانیاً: اللہ تعالیٰ خود بھی فرشتوں کی مشکل حل فرما سکتا تھا ۔مگر منشائے ایزدی میں حضور ﷺ کی شان کا اظہا ر مقصود تھا ۔
ثالثاً: حضور ﷺ نے پہلے ”انت تعلم“ کہا کہ تو ہی جانتا ہے اور پھر دوسری بار سب کچھ بتادیا ۔اس سے ایک بہت بڑا مسئلہ اور اشکال حل ہو گیا اور وہ یوں کہ جب نفی اور اثبات کے دلائل میں تعارض ہو جائے تو پھر نفی کو قبل العلم یا علم ذاتی پر معمول کیا جائے ۔
حکمت نمبر2:حضور ﷺ متواتر تجلیات الہٰی کے مشاہدہ کے باعث مقام شنید سے مقام دید تک پہنچ جائیں اور علم الیقین کی سرحد سے عین الیقین کی سرحد پر ترقی فرمائیں اور پھر حق الیقین کے زیور سے آراستہ و پیر راستہ ہو جائیں ۔
حکمت نمبر3:حضور ﷺ کی فضیلت تمام کائنات پر ظاہر ہو جائے چنانچہ پہلے بیت المقدس میں امام الانبیاءبنایا تا کہ آپﷺ کی شان انبیاءعلیہم السلام پر روشن ہو جائے ۔اس کے بعد بیت المعمور میں فرشتوں کی امامت عطا ہوئی تاکہ فرشتوں پر آپ کی فضیلت متحقق ہو جائے ۔
حکمت نمبر 4: حضور علیہ السلام حبیب ﷺ تھے اور محبوب کو ساری کائنات پر اطلاع ہوتی ہے ۔دیکھئے یہ دنیا کے مجازی بادشاہ جب کسی بندے کو اپنی محبت سے سرفراز و مخصوص کیا کرتے ہیں تو تمام سلطنت اس کے زیر نگین کر دیا کرتے ہیں ۔تو رب العزت جل شانہ ¾ نے جب آپ ﷺ کو اپنا حبیب بنایا تو آپ ﷺ کو ممتاز کر کے زمین کے خزانوں پر مطلع فرمایا جیسا کہ حدیث شریف میں ہے ۔”زمین میرے لئے سمیٹی گئی تو مجھے اس کے مشارق و مغارب دکھادئےے گئے ۔
تشریح:اس حدیث شریف میں ”مشرق و مغرب “ نہیں فرمایا بلکہ بصیغہ جمع” مشارق و مغارب“ فرمایا ۔کیونکہ مختلف موسموں میں سورج کا مشرق و مغرب مقام طلوع و غروب بدلتا رہتا ہے ۔مقصد یہ ہے کہ زمین کا ہر حصہ دکھادیا گیا ۔پھر آپ ﷺ کو معراج کےلئے آسمان پر لے گئے حتیٰ کہ آپﷺ نے ملکوت سماوی (آسمانی سلطنت) کی سیر فرمائی۔ آپ کو یہ اختیارات تفویض فرمائے گئے کہ جس کسی کو آپ ﷺ اپنی شفاعت کی دولت سے شرف عطا فرمائیں گے وہ سعادت مند ہو جائیگا۔
حکمت نمبر5: یہ ہے کہ حضور ﷺ وحی کی تمام اقسام سے شرف پائیں اور اُس کی (وحی کی) تمام اقسام سے افضل وہ جو کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے واسطہ کے بغیر ہو اس لئے مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ آیت ”آمَنَ الرِّسُو ±لُ“حضرت جبرائیل علیہ السلام کے واسطہ کے بغیر حضورﷺ نے معراج کی رات اللہ تعالیٰ سے سنی تھی ۔
حکمت نمبر6:”تفسیر ات “ میں لکھا ہے کہ جب کائنات کا وجود عالم شہود میں ظاہر ہوا تو سب سے پہلے زمین نے فخر کیا اور کہا کہ میں حیوانات کی خوراک کا معدن ہوں پھولوں اوپودوں کے اُگنے کی جگہ ہوں ۔میوہ جات کی پرورش کا مقام ہوں ۔لطف ربانی سے ”وَال ±اَر ±ضَ فَرَش ±نٰھَا“یعنی ”ہم نے زمین کا فرش بچھایا ہے۔“ کا شفر میری بساط پر بچھایا ہے ۔آسمان نے کہا: کہ خوب صورت ستارے میرے دم سے روشن ہیں اور وَزَیَّنَّھَا لِلنَّاظِرِی ±ن۔یعنی ”ہم نے زینت دے رکھی ہے آسمان کو دیکھنے والوں کےلئے ۔“ کی زینت میرے وجود سے قائم ہے ۔وَفِی السَّمَائِ رِز ±قُکُم ± وَمَا تُو ±عَدُو ±نَ ۔’آسمان میں ہے تمہارا رز ق اور وہ سب کچھ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے “ (یعنی جو کچھ بھی تمہارا مقسوم ہے وہیں ہے ۔) کی غیر متناہی نعمتوں کی امانت میرے پاس موجود ہے۔کرسی نے کہا :وَسِعَ کُر ±سِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَال ±اَر ±ضَ۔”گھیرے ہوئے ہے اس کی کرسی آسمانوں اور زمین کو “کی آیت میری شان میں نازل ہوئی ہے ۔لوح نے کہا میں تو عشق اور اسرار محبت کا گنجینہ ہوں اور اہل معرفت کی روحوں کےلئے سکینہ ہوں ،علوم غیبی کا مظہر اور حکم الہٰی کا منبع اور انوار قدسی کا مطلع ہوں۔قلم نے کہا: کہ میں راز دارِ ”ن وَال ±قَلَمِ “کے حقائق سے ہوں ۔عرش نے کہا : کہ میں رحمت رحمانی کی جلوہ گاہ ہوں ،اور ”اَلرَّح ±مٰنُ عَلَی ال ±عَر ±شِ اس ±تَوٰی“”یعنی رحمان عرش پر قائم ہے “ کے ارشاد عالی سے مجھے سرفراز فرمایا گیا ہے ۔
تو ان سب کو اللہ تعالیٰ کا فرمان ذی شان ہوا کہ ہماراایک محبوب جس کے سامنے سب کچھ اس طرح ہے جس طرح سور ج کے مقابلے میں ایک ذرہ یا کہ دریا کی نسبت ایک قطرہ۔تو اُس وقت تمام ارکان کائنات نے درخواست کی کہ اے اللہ ہمارے وجود کو اس پاک ہستی کے مبارک قدم سے مشرف فرما ۔تو اللہ تعالیٰ نے انکی درخواست کو قبول فرماکر حضور ﷺ کو اجرام فلکی (آسمانوں )) پر بلند فرمایا ہے ۔
حکمت نمبر 7:ایک یہ بھی حکمت ہے کہ تمام تر اشیاءحضور ﷺ کے زیر قدم ہو جائیں اور تمام کو آپ ﷺ کی ذات عالیہ سے نسبت کا فخر حاصل ہو اور آپ ﷺ کو کسی چیز کی احتیاج نہ ہو ۔
حکمت نمبر 8:بشریت بشریت کی رٹ لگانے والے نورانیت مصطفےٰ ﷺ و حقیقت مجتبیٰ ﷺ کا انکار کرنے والے کہا کرتے ہیں کہ ”دیکھئے ہم بھی کھاتے پیتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ بھی کھاتے پیتے تھے ۔ہم بھی زمین پر چلتے پھرتے ہیں اور وہ بھی اسی زمین پر چلتے پھرتے تھے ۔جس سے یہ معلوم ہوا کہ وہ بھی ہماری طرح بشر ہی تھے ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو معراج کروا کر یہ بتادیا کہ تمہارے چلنے پھرنے اور انکے چلنے پھرنے میں بہت بڑا فرق ہے ۔ کیونکہ تم اپنے کھانے پینے میں زمین کی پیدا کردہ خوراک کے محتاج ہو لیکن وہ اس کے محتاج نہیں اور یو نہی تم اپنے چلنے پھرنے میں زمین کے محتاج ہو لیکن وہ اس کے محتاج نہیں کہ وہ تو آسمان اور عرش پر بھی چل پھر سکتے ہیں ۔
حکمت نمبر9:معراج شریف کا سب سے بڑا فلسفہ یہ ہے کہ ہر نبی نے اللہ تعالیٰ کے وجود ہستی وحدانیت کی گواہی دی تھی لیکن کسی نے بھی اللہ تعالیٰ کو دیکھا نہ تھا اب گروہ انبیاءعلیہم السلام میں ایک ہستی ایسی بھی تو ہونی چاہےے جو خود اپنے سر کی آنکھوں سے اس کا دیدار کرے اور اس دولت سے متمتع و بہرہ مند ہو تاکہ جملہ انبیاءکرام علیہ السلام کی سمعی و شنیدہ گواہی کی انتہاءاس کی بصری اور دیدہ گواہی پر ہو۔
حکمت نمبر10:جب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ :” میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں۔“ تو فرشتوں نے عرض کیا تھا کہ اے مولا! جس مخلوق میں مفسد اور خون ریز بھی ہوں گے ۔ہم جیسے اطاعت شعار اور کلی طور پر فرمانبردار طبقہ کی موجودگی میں ان کو خلیفہ بنانے میں کیا راز پنہاں ہیں۔ تو اُس وقت فرشتوں کو سردست اجمالی طور پر یہ جو اب دیا گیا کہ۔ اِنِّی ± اَع ±لَمُ مَالَا تَع ±لَمُو ±ن۔یعنی” اس کے پیدا کرنے میں جو حکمتیں اور نکات و فلسفے ہیں وہ میں جانتا ہوں۔“ تمہیں ابھی وہ حقائق معلوم نہیں ہیں۔علماءفرماتے ہیں کہ یہ اشارہ خصوصیت کے ساتھ آنحضرت ﷺ کے وجود مسعود کی طرف تھا پھر جب حضور ﷺ کو خلعت محبوبی سے نوازا گیا اور آپ ﷺ کو معراج کروائی گئی تو تمام فرشتوں خصوصاً ملاءاعلیٰ (بڑی شان والے فرشتوں) نے حضور ﷺ کی محبت سے وابستہ ہونے پر فخر کیا ۔
اس کو سمجھا نے کےلئے یہ مثال عرض کی جاتی ہے کہ یوسف علیہ السلام کے عشق میں جب زلیخاں کے گرفتار ہونے کا شہرہ ہو ا تو پانچ سرکاری ملازموں کی بیویوں نے وہاں مصر میں ایک مقام پر بیٹھ کر اس بارے میں یوں گفتگو کی تھی کہ عزیز مصر کی عورت اپنے غلام پر فریفة ہو چکی ہے ۔جو کہ ہمارے نزدیک یہ اُس کی کھلی غلطی ہے ۔ پھر جب ان عورتوں کی اس گفتگو کا علم ہوا توزلیخا نے چالیس عورتوں کو دعوت دی جن میں یہ پانچ مذکورہ عورتیں بھی شامل تھیں اور ان کے اعزاز میں کھانے کا اہتمام کیا اور اس موقعہ پر حضرت یوسف علیہ السلام کو وہاں اس مجلس میں بلایا ۔تو آپ کے حسن و جمال کے مشاہدہ میں تمام عورتیں ہوش و حواس کھو بیٹھیں ،یہاں تک کہ پھل کی بجائے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے اور بر ملا پکار اُٹھیں۔مَاھٰذَا بَشَرًا اِن ± ھٰذَا اِلاَّ مَلَک µ کَرِی ±م۔(پارہ 12رکوع 14)
یعنی اس کا اجمال با کمال تو یہ رہا ہے کہ یہ تو بشر ہے ہی نہیں بلکہ اپنی نورانی صورت کے لحاظ سے یہ تو کوئی با عزت فرشتہ معلوم ہوتا ہے ۔“تو یونہی اللہ تعالیٰ نے محبوبﷺ کو معراج کروا کر اور فرشتوں کو آپکی زیارت سے بہرہ ور فرما کر اور آپ کے حس و جمال و شان رفیع و باکمال کا مشاہدہ کروا کر انکی زبانی حضور ﷺ کی شان ارفع و اعلیٰ کا اعتراف کروایا ۔معراج مصطفےٰ ﷺ کی حکمتیں اور فلسفے تو ابھی اور بہت سے ہیں لیکن اب اسی پر اکتفا کرتے ہوئے رات کو معراج ہو نیکی کچھ حکمتیں لکھوں گا
حکمت نمبر11:قصیدہ بردہ شریف کی عربی شرح ” عصیدة الشھدہ“المعروف بہ خرپوتی شریف میں لکھا ہے ۔
”رات کو معراج کےلئے اس لئے مخصوص فرمایا گیا کہ رات مقام محبت سے مخصوص ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو اپنا حبیب اور خلیل بنایا ہے اور رات دوستوں کو جمع کرنے کےلئے بنائی گئی ہے اور مقام خلوت جو رات کو حاصل ہوتا ہے وہ دن کو حاصل نہیں ہوتا۔“(خرپوتی شریف صفحہ نمبر173)
آگے فرماتے ہیں :”بعض فضلاءنے فرمایا ہے کہ معراج کا خاص طور پر رات کو ہونا اس لئے ہے کہ ایماندار لوگوں کے ایمان بالغیب (غیب پر، اور بن دیکھے ایمان ) میں زیادتی ہو جائے اور کافروں اور منکروں کی آزمائش میں زیادتی ہو جائے ۔“(خرپوتی شریف صفحہ نمبر173)
کیونکہ رات کے حالات بہ نسبت دن کے زیادہ پوشیدہ ہوتے ہیں ۔اس لئے جو مان لیں گے ان کا ایمان بالغیب اور زیادہ ہوجائے گا اور جو انکار کریں گے ان کا کفر اور کھل جائے گا اور اس معراج کے قصہ سے صدیق اور زندیق میں امتیاز ہو جاتا ہے ۔
مزید فرماتے ہیں :”بعض علماءکرام نے فرمایا ہے کہ ایک مرتبہ دن نے رات سے کہا تھا کہ مجھے تجھ پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ مجھ میں سورج ظاہر ہوتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے رات کو اطمینان دلانے کےلئے دن کو خطاب ہوا کہ تجھے فخر نہ کرنا چاہےے ۔کیونکہ اگر دنیا کا سورج تیرے اندر طلوع ہوتا ہے ۔تو یہ بھی تو دیکھ کہ کائنات کے وجود اور ظہور کا سورج معراج کے موقعہ پر رات کے وقت آسمان پر جلوہ گر ہو گا۔(خرپوتی شریف صفحہ نمبر173)
مزید فرماتے ہیں:”بعض عارفین نے فرمایا ہے کہ رات کو معراج ہونے میں یہ حکمت ملحوظ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے رات کی نشانی مٹادی یعنی اس کو دھندلا کر دیا اور دن کو روشن رکھا تو رات مغموم و پریشان تھی ۔بنا بریں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو رات کے وقت معراج کرائی تاکہ دن اور رات میں برابری ہو جائے اور رات کی غمگینی کا مداوا ہو جائے ۔(خرپوتی شریف صفحہ نمبر173)
واضح ہو کہ رات میں معراج ہونے کی ابھی بہت سی مزید حکمتیں لکھنا باقی ہےں ۔لیکن طوالت مضمون کے ڈر سے سب چیزیں یہاں نہیں لکھی جا سکتیں ۔اس لئے اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔اب رہی یہ بات کہ معراج مکہ مکرمہ سے ہوئی اور ہجرت سے قبل ہوئی ۔ہجرت کے بعد اور مدینہ منورہ سے کیوں نہ ہوئی ۔سو اس کی بھی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ حصہ جو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے ۔انوار معراجیہ سے خالی نہ رہ جائے ۔
یوں تو معراج کے فلسفے کے سلسلے میں بہت سی باتیں لکھنا باقی ہیں ۔لیکن یہ چند باتیں اچانک ذہن میں آئی جو کہ قارئین کی خدمت میں پیش کر دی ہیں ۔اب مخالفین اہلسنت کے ایک اعتراض کا جواب دیا جاتا ہے ۔جو یہ لوگ اکثر عوام الناس کو پریشان کرنے کےلئے بیان کرتے رہتے ہیں ۔
اعتراض:بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ جو ایک مرتبہ دنیا سے انتقال کر جائے پھر وہ دنیا والوں سے غافل ہوجایا کرتا ہے کہ نہ تو اسے اہل دنیا کی کچھ خبر ہوا کرتی ہے اور نہ ہی وہ کسی کی کچھ مدد کر سکتا ہے ۔تو بس جو جنتی ہو گئے ہیں وہ تو وہاں کی نعمتوں کے مزے لوٹنے میں مصروف و منہمک ہوا کرتے ہیں اور جو جہنمی ہو اکرتے ہیں ظاہر ہے کہ وہ تو اپنے عذاب میں گرفتار ہوتے ہیں ان کو بھلا اس بات کی مہلت کب ملا کرتی ہے کہ وہ کسی دوسرے کیطرف کوئی توجہ کر سکیں کہ انکی توبس اپنی جان کے لالے پڑے ہوتے ہیں ۔ غرض کہ دنیا سے چلا جانے والا کوئی بھی کسی کی کچھ مدد نہیں کر سکتا نہ تو وہاں اس عالم میں اور نہ ہی یہاں اس عالم دنیا میں ۔
جواب: اولاً: معراج شریف کی صحیح روایات سے اس نظریہ کو باطل ثابت کر دیا ہے کیونکہ معراج کی رات حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضور محبوب خدا ﷺ کی خدمت میں 9 دفعہ عرض کر کے فرض شدہ پچاس نمازوں کی پانچ کروائی ہیں یہ صحیح ہے کہ کمی و تخفیف حضور ﷺ کی شفاعت و عرض و معروض سے واقع ہوئی ہے لیکن یہ بھی تو حقیقت ہےاکہ حضور ﷺ کی اس طرف توجہ تو حضرت کلیم اللہ علیہ السلام نے کرائی تھی ۔لہٰذا اس سے بالکل بلا شک و شبہ واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ وفات پا جانے کے بعد اللہ والے مدد کر سکتے ہیں اور اگر کوئی سر پھر اوفات یا فتہ کی مدد کا قائل نہ ہو تو پھر اس کو چاہےے کہ وہ نمازیں پچاس ہی پڑھا کرے کیونکہ منجانب اللہ پچاس نمازوں کا فرض کیا جانا تو صحیح طور پر ثابت ہے ۔اب جو ان میں تخفیف ہو گئی تو وہ موسیٰ علیہ السلام کی مدد اور حضور ﷺ کی شفاعت سے ہوئی اور موسیٰ علیہ السلام تو ہزار سال پہلے وصال فر ما چکے تھے ۔لہذا اب دو راستوں میں سے ایک راستہ ضرور اپنانا ہو گا کہ یا تو بعد از وفات اللہ والوں کی مدد و امداد کے قائل ہو جائیں اور یا پھر اپنی ضد پر قائم رہتے ہوئے ایک دن رات میں پچاس نمازیں بطور فریضہ الہٰی کے ادا کر کے دکھائیں اور یہ دوسرا راستہ ہی ایسے ضدی لوگوں کو راس آئے گا کیونکہ وہ خواہ مخواہ ایک وفات پائے ہوئے انسان کی امداد اور امداد بھی معمولی نہیں اتنی بڑی اہم امداد کے قائل ہو کر بقول خود شرکیہ خیالات کو بھلا کیوں اپنے دل و دماغ میں جگہ دیں گے ۔
ثانیاً: اور پھر یہ بھی تو معلوم ہوا کہ حضور ﷺ بار بار بارگاہ ِ خدا وندی میں جا اور آ رہے ہیں ۔مگر اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتا کہ پیارے یہ دنیا نہیں یہ تو خدائی دربار ہے یہاں بھلا سفارش کا کیا مطلب چلے جاﺅ واپس بس جو ایک دفعہ کہہ دیا ۔اس سفارش کے عقیدے سے دنیا والوں کو متعارف نہ کراﺅ کہ (منکرین کے خیال کے مطابق) شرک کا دروازہ کھل جائے گا۔ (معاذ اللہ ) غرضیکہ اللہ تعالیٰ کا یہ نہ فرمانا اہلسنت کے عقائد کو ثابت کرتا ہے ۔
ثالثاً : شب معراج کے واقعات و روایات سے معلوم ہوا کہ انبیاءعلیہم السلام بعد از وفات زندہ ہوتے ہیں اور اپنی قبروں میں نمازیں بھی پڑھا کرتے ہیں ۔جیسا کہ حضور ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قبر شریف میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا ۔
رابعاً : شب معراج کی روایات سے یہ بھی معلوم ہواکہ انبیاءکرام علیہم السلام کی رفتار اتنی تیز ہوا کرتی ہے کہ وہ براق کی رفتار سے بھی تیز ہوتی ہے ۔ براق کی رفتار کا یہ عالم ہے کہ جہاں تک نگاہ کام کرتی ہے وہاں اس کا ایک قدم ہوتا ہے ۔اب دیکھئے کہ اس قدر تیز رفتاری کے باوجود بھی براق پیچھے رہ گیا اور موسیٰ علیہ السلام بیت المقدس میں پہلے جا پہنچے ۔کیونکہ محبوب خدا ﷺ کا استقبال جو کرنا تھا ۔
پھر یونہی بیت المقدس میں نماز ،انبیاءعلیہم السلام کے خطبوں اور حضور رحمت عالم ﷺ کے خصوصی و عظیم الشان خطبے اور پھر جدالانبیاءعلیہم السلام حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی ثالثی اور اول الخلق و خاتم الانبیاءخلاصہ کائنات محبوب خدا ﷺ کی جملہ انبیاءسابقین علیہم السلام پر برتری ،فضیلت و رفعت کا مجمع انبیاءمیں اعلان کرنے کے بعد حضور شاہِ معراج ﷺ جب براق پر سوار ہو کر آسمانوں کی سیر کو چلے اور براق اپنی پوری رفتار کے ساتھ اوپر چلا جا رہا تھا ۔مگر نبی کی رفتار کا عالم تو دیکھئے کہ موسیٰ علیہ السلام پھر بھی تیز رفتاری میں اس سے نمبر لے گئے اور چھٹے آسمان پر اسکے پہنچنے سے پہلے ہی جا پہنچے۔ کیونکہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اپنا خصوصی مقام تھا اور یہاں بھی انہوں نے حضور شاہِ معراج محبوب خدا ﷺ کا استقبال کرنا تھا ۔
اب یہاں پر دو میں سے ایک بات ضرور تسلیم کرنی پڑے گی ۔یا تو یہ کہا جائے کہ موسیٰ علیہ السلام کا ایک وجود تو قبر میں نماز ادا کر رہا ہے اور وہ دوسرے وجود کے ساتھ پہلے سے چھٹے آسمان پر موجود تھے اور عین اس وقت بیت المقدس سے چھٹے آسمان پر نہیں گئے تھے ۔
یا پھر یہ کہا جائے کہ عین اسی وقت اپنی خدا داد تیز رفتاری کے ساتھ براق سے پہلے بیت المقدس سے پرواز کر چھٹے آسمان پر جا پہنچے تھے ۔تو ان دو باتوں میں سے جو بات بھی کہی جائے اہلسنت کا عقیدہ و مسلک ہی ثابت ہو تا ہے ۔چنانچہ پہلی صورت میں شخص واحد کا د و قالبوں اور جسموں کے ساتھ بیک وقت متعدد جگہوں میں موجود ہونا ثابت ہے اور یہی مسئلہ حاضر و ناظر کا اصل مفہوم ہے ۔
مذکورہ بالا پہلی صورت میں ایک شخص کےلئے متعدد وجود ثابت ہوتے ہیں کہ وہ اپنے ایک وجود کے ساتھ ایک جگہ پر موجود اور دوسرے وجود کے ساتھ عین اُسی وقت دوسری جگہ پرموجود ہوتا ہے ۔اور دوسری صورت میں نبی کی اس بے انتہا اور عام مخلوق کے فہم سے وراءسرعت رفتار کا ثبوت ملا ۔کہ وہ آن واحد میں قبر کے اندر بھی موجود اور نماز میں مشغول اور اسی آن بیت المقدس میں حاضر اوربا جماعت نماز کی ادائیگی کےلئے تیار اور پھر عین اُس آن میں چھٹے آسمان پر موجود تھے ۔ جس سے یہ معلوم ہوا کہ ایک نبی کی رفتار کا یہ عالم ہے کہ یہ زمین اور آسمان اس کےلئے ایک قدم کی حیثیت نہیں رکھتے اور وہ (نبی ) آنِ واحد میں زمین و آسمان کے اندر جہاں چاہیں موجود ہو سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو یہ سرعت یہ قوت اور طاقت عطا فرما رکھی ہے ۔
پھر یہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سرعت رفتار اور قوت و طاقت کی بات ہو رہی ہے ۔تو اب اندازہ کیجئے اور خود ہی سوچئے کہ جب موسیٰ علیہ السلام کی تیز رفتاری ، قوت و طاقت کا یہ عالم ہے تو پھر سید الانبیاء،محبوب خدا شاہِ معراج صاحب دیدار حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی رفتار و طاقت کا کیا عالم ہو گا؟اب اگرلگی لپٹی رکھنے اور حق کو تسلیم کرنے میں لیت و لعل کرنے کی عادت نہ ہو تو حقیقت مذکورہ کے پیش نظر مسئلہ حاضر و ناظر کی حقانیت کو تسلیم کئے بغیر چارہ ہی نہیں ہے اور کوئی بھی صاحب عقل سلیم اس سے انکار نہیں کر سکتا اور پھر حضور ﷺ نے متعدد انبیاءعلیہم السلام کو حج کرتے دیکھا ہے ۔جیسا کہ صحیح روایات میں وارد ہے ۔تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ والے بعد از وفات و وصال کسی ایک جگہ میں مقید نہیں ہوا کرتے بلکہ جہاں جانا چاہیں اللہ تعالیٰ کے اذن اور خدا کی عطا کردہ طاقت کے ساتھ آ جا سکتے ہیں اور یہی مسلک ہے اہلسنت و جماعت کا جو کہ بحمد اللہ واضح طور پر دلیل سے ثابت ہوا ۔
اللہ تعالیٰ حق سمجھنے کی توفیق دے ۔آمین
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment