محمدﷺ کی محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے
اسی میں گر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
الحمدﷲ! ہم مسلمان ہیں اور مسلمانوں کے نزدیک سب سے بڑی نعمت اور مرکزِ محبت حضور اکرم نور مجسمﷺ کی ذات ہے۔ آپﷺ کی محبت و الفت ہمارے ایمان کی اساس ہے۔ ایک مسلمان اپنے متعلق، اپنے والدین کے متعلق حتی کہ اپنے بچوں کے متعلق تو ہر غلط بات برداشت کرسکتا ہے مگر اپنے آقا ومولیٰ جان کائناتﷺ کی شان میں ہونے والی گستاخی ہرگز ہرگز برداشت نہیں کرسکتا۔ آپﷺ کی ذات بابرکات تو بہت ہی بلند و بالا ذات ہے۔ آپﷺ سے نسبت رکھنے والی چیزوں کی بھی بے ادبی اور گستاخی کوئی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا۔
گزشتہ کچھ ماہ سے وطن عزیز میں ایک واقعہ زیر بحث ہے اور وہ واقعہ آسیہ نامی عیسائی عورت سے متعلق ہے جس نے 14 جون 2009ء بروز اتوار شانِ رسالت مآبﷺ میں گستاخی کی تھی، جس کی مکمل داستان آپ کے سامنے پیش کی جارہی ہے جس کو پڑھنے کے بعد آپ کو اس واقعہ کی مکمل آگاہی حاصل ہوجائے گی۔
آسیہ نامی عیسائی عورت ننکانہ صاحب کے نواحی گائوں اٹانوالی چک نمبر 3 گ ب تھانہ صدر ننکانہ صاحب کی رہائشی ہے۔ اس کا کردار پورے گائوں میں قابل اعتراض مشہور ہے۔ مادر پدر آزادی کی دلدادہ ہے۔ سرعام قابل اعتراض گفتگو کرتی ہے۔ اس کی بڑی بہن کی شادی اس کے نام نہاد خاوند عاشق کے ساتھ ہوئی تھی۔ جس سے اس کے خاوند کے تین بچے موجود ہیں۔ جب اس کی بڑی بہن کو بچے کی امیدواری ہوئی اور زچگی کے دن قریب آئے تو آسیہ اپنی بہن کے گھر کا کام کاج کرنے اس کے گھر آگئی۔ اپنی بہن کے گھر چند دن رہائش کے دوران اس کے خاوند (جوکہ اب آسیہ کا بھی خاوند ہی بن چکا ہے) سے ناجائز تعلقات قائم کرلئے اور حاملہ ہوگئی۔ والدین نے حمل چھپانے کی غرض سے شادی کرنا چاہی تو اس نے اپنی بہن کے خاوند عاشق مسیح کے سوا کسی اور سے شادی کروانے سے انکار کردیا بلکہ بغاوت کرکے زبردستی عاشق کے گھر رہنے لگی اور عاشق اپنی بیوی کے گھر موجود ہونے کے باوجود راتیں آسیہ کے ساتھ بسر کرنے لگا۔ اس پر بیوی نے سخت احتجاج کیا تو عاشق نے مار پیٹ کر اسے گھر سے نکال دیا۔ اب اصل بیوی، بے گھر اور سالی گھر والی بن کر زندگی گزارنے لگی۔ (ایسی حرکت پر ہی پنجابی میں کہا جاتا ہے ’’اگ لین آئی تے گھر دی مالک بن بیٹھی) عیسائی مذہب میں ایک بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں، لیکن آسیہ نے اہل دیہہ اور برادری والوں کے اصرار کے باوجود عاشق کے گھر سے جانے سے انکار کردیا۔ آسیہ اور عاشق کے اس خلاف مذہب اقدام پر عیسائی برادری نے بھی سخت احتجاج کیا اور ان کا معاشرتی بائیکاٹ کرنے کی دھمکیاں دیں لیکن دونوں نے کسی بات کی پرواہ نہ کی اور شادی کا سوانگ رچا ڈالا۔ دنیا کے دکھاوا کے لئے، مذہبی روایات کے برعکس عاشق نے آسیہ سے نام نہاد شادی کرلی اور دونوں بہنوں کو اکھٹا اپنے گھر آباد کرلیا جوکہ آج بھی دونوں حقیقی بہنیں عاشق کے گھر آباد ہیں۔ آسیہ قدرے پڑھی لکھی اور‘‘ روشن خیال’’ عورت ہے۔ اسی روشن خیالی کی وجہ سے این جی اوز کی آنکھ کا تارا بن گئی اور علاقے میں عیسائی مذہب کی تبلیغ کرنے لگی۔ دیہات میں چونکہ عورتیں کھیتوں میں مزدوری کرتی ہیں، آسیہ نے یہ طریقہ بنا رکھا تھا کہ عورتوں کے ساتھ مزدوری کے بہانے چلی جاتی اور اپنے ساتھ کام کرتی، عورتوں کو باتوں باتوں میں عیسائی مذہب کی تبلیغ کرتی۔
اسی معمول کے مطابق 14-6-2009 کو گائوں کی عورتیں ادریس نامی زمیندار کے کھیتوں میں فالسہ کے باغ میں فالسہ توڑنے گئیں، آسیہ بھی ان عورتوں میں موجود تھی۔ عورتیں عام طور پر دوپہر کا کھانا ساتھ ہی کھیتوں میں لے جاتی ہیں۔ جب عورتیں دوپہر کا کھانا کھانے بیٹھیں تو آسیہ نے مافیہ بی بی، آسیہ بی بی دختران عبدالستار کے گلاس میں پانی پی لیا۔ انہوں نے اس کے جھوٹے گلاس میں پانی پینے کی بجائے اپنا سالن والا برتن خالی کرکے اس میں پانی پی لیا۔ اس بات کو آسیہ نے اپنی توہین سمجھ کر دونوں بچیوں کے ساتھ توتکار کرکے مذہبی گفتگو شروع کردی۔ دوران گفتگو آسیہ نے نبی اکرمﷺ اور قرآن مجید کے بارے میں انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کئے۔ جن کا خلاصہ اس طرح سے ہے۔
’’تمہارے نبی موت سے ایک ماہ قبل سخت بیمار پڑے رہے۔ حتی کہ تمہارے نبی کے منہ اور کانوں میں (نعوذ باﷲ) کیڑے پڑگئے تھے۔ تمہارے نبی نے مال و دولت کے لالچ میں خدیجہ سے شادی کی اور مال و دولت بٹورنے کے بعد اسے گھر سے نکال دیا۔ قرآن اﷲ کا کلام نہیں بلکہ خود سے بنائی گئی کتاب ہے‘‘
یہ باتیں مافیہ بی بی، آسیہ بی بی دختران عبدالستار کے علاوہ یاسمین دختر اﷲ رکھا اور کھیت میں موجود دیگر کئی عورتوں نے سنیں تو مسلمان عورتوں کا مشتعل ہونا ایک فطری عمل تھا۔ انہوں نے آسیہ کو اپنا منہ بند رکھنے اور اپنے الفاظ واپس لینے کی بابت کہا، آسیہ کے انکار پر جھگڑا شروع ہوگیا۔ جھگڑے کا شور سن کر کھیت کا مالک ادریس اوراس کی بیوی جو قریبی ڈیرہ پر موجود تھے، موقع پرآگئے۔ معاملہ سنا اور آسیہ نے مذکورہ بیان شدہ الفاظ کا کہنا تسلیم کیا۔ ادریس نے اسے اپنے کھیتوں میں سے چلے جانے کاکہا تو وہ چلی گئی۔ مسلمان عورتوں نے گائوں پہنچ کر یہ بات اپنے اپنے گھروں میں کی تو گائوں میں اشتعال پیدا ہوگیا اور گائوں کے معزز افراد پر مشتمل پنچائیت اکھٹی ہوئی جس میںعیسائی لوگ بھی موجود تھے۔ آسیہ کو بلاکر مذکورہ گفتگو کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے ان الفاظ کا کہنا تسلیم کیا اور معافی بھی مانگی۔ اس پر گائوں میں مزید اشتعال پیدا ہوگیا۔ اور لوگ آسیہ کو قتل کرنے کے درپے ہوگئے۔ گائوں کے نمبردار نے گائوں والوں کو سمجھایا کہ اس نے جو جرم کیا ہے، اس کی سزا موت ہی ہے۔ جو عدالت اسے دے گی، تم اسے قتل کرکے کیوں اپنے ذمے جرم لیتے ہو اور اس طرح قتل کردیئے جانے سے دیگر ممالک میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا بھی اندیشہ ہے۔ مناسب ہے کہ اسے قانون کے حوالے کردیا جائے۔ نمبردار صاحب کے سمجھانے پر گائوں والوں نے اس کے خلاف قاری محمد سالم کی مدعیت میں تھانہ صدر ننکانہ صاحب میں برائے اندراج مقدمہ درخواست گزاری تو 19-6-2010 کو پولیس نے مقدمہ نمبر 326/09 بجرم 295/C درج کرکے تفتیش محمد ارشد ڈوگر SI کے سپرد ہوئی۔ جس نے ریڈ کرکے ملزمہ کو اس کے گھر سے گرفتار کرلیا اور اس کا ڈاکٹری معائنہ کرانے کی استدعا کی لیکن ملزمہ نے ڈاکٹری معائنہ کرانے سے انکار کردیا۔ ملزمہ سے کوئی برآمدگی مطلوب نہ ہونے کی بناء پر اسی دن اسے مجسٹریٹ کے روبرو پیش کرکے جوڈیشل جیل شیخوپورہ بھیج دیا گیا۔ اس مقدمہ کی اطلاع جب RPO شیخوپورہ رینج کو ہوئی تو اس نے اس مقدمہ کی حساسیت کے پیش نظر بروئے چٹھی انگریزی نمبری 18523-26/Leagalمورخہ 24-6-2009 اس کی تفتیش سید محمد امین بخاری SP انویسٹی گیشن شیخوپورہ کے سپرد کردی۔ سید محمد امین بخاری SP انویسٹی گیشن شیخوپورہ نے مثل مقدمہ طلب کرکے ملاحظہ کی اور فریقین کو مورخہ 29-6-2009 کو اپنے دفتر طلب کیا۔ 29-6-2009 کو مدعی فریق کی جانب سے گواہان FIR سمیت 27 افراد نے جبکہ ملزمہ کی جانب سے 4 افراد نے پیش ہوکر اپنے بیانات ریکارڈ کرائے۔ وہاں پر ملزمہ آسیہ کے خاوند عاشق مسیح نے آسیہ کی برحلف صفائی دینے سے انکار کردیا۔ فریقین کے بیانات سنے جوکہ ضمنی نمبر 3 مرتبہ مورخہ 29-6-2009 میں مفصل درج ہیں۔ بیانات سننے کے بعد ضمنی نمبر 3 پہرہ نمبر 12 میں لکھا کہ ’’معاملہ سنگین ہے، ریڈر خود کو حکم کیا کہ ادریس نامی کاشتکار جس کے کھیتوں میں وقوعہ ہوا ہے، اسے بھی طلب کیا جائے اور ملزمہ جیل میں بند ہے۔ اس سے ملاقات کے لئے سپرنٹنڈنٹ جیل کو درخواست لکھی جائے‘‘ مورخہ 4-7-2009 کو محمد ادریس مذکور نے SP انویسٹی گیشن کے روبرو پیش ہوکر اپنا مفصل بیان ریکارڈ کروادیا جوکہ ضمنی نمبر 4 مرتبہ 4-7-2009 میں مفصل درج شدہ ہے۔ محمد ادریس نے بتایا کہ وقوعہ کے بعد گائوں میں حاجی علی احمد کے ڈیرہ اکھٹا ہوا جہاں لوگوں کی موجودگی میں ملزمہ نے حضور پاکﷺ کی شان میں گستاخانہ باتیں کرنے کا اعتراف کیا۔ جبکہ اسی دن ریڈر SP انویسٹی گیشن نے علاقہ مجسٹریٹ صاحب کی خدمت میں ملزمہ سے جیل میں دریافت حالات کرنے کی اجازت طلب کی جو اسی دن اجازت دے دی گئی تو مورخہ 6-7-2009کو SP انویسٹی گیشن شیخوپورہ معہ عملہ متعلقہ، ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ پہنچا، ملزمہ آسیہ سے جیل کے اندر ملاقات کرکے دریافت حالات کی اور اپنی مرتبہ ضمنی نمبر 5 پہرہ نمبر 5 میں لکھا کہ ’’مندرجہ بالا حالات کی روشنی میں مسمات آسیہ بی بی کا حضور پاکﷺ کی شان میں اور قرآن پاک کے متعلق گستاخانہ باتیں کرنا ثابت ہوا ہے جو مقدمہ ہذا میں صحیح گنہگار پائی گئی ہے‘‘ اپنی تفتیش مکمل کرکے ملزمہ کو گنہگار لکھ کر مثل واپس تھانہ صدر ننکانہ صاحب ارسال کردی۔ جہاں سے مورخہ12-7-2009 کو محمد ایوب I/SHO تھانہ صدر نے حالات تفتیش مقدمہ کی روشنی میں ملزمہ کو گنہگار قرار دے کر مثل چالان مقدمہ مکمل کرکے ہمراہ بیانات گواہان متعلقہ دفتر میں جمع کرادیا۔ جوکہ معمول کے مطابق 14-9-2009 کو چالان عدالت میں پہنچا اور سماعت جناب نوید اقبال صاحب ایڈیشنل سیشن جج ننکانہ صاحب کے سپرد ہوئی۔ 3-10-2009 جناب محمد نوید اقبال ایڈیشنل سیشن جج صاحب ننکانہ صاحب نے ملزمہ پر فرد جرم عائد کرکے مقدمہ کی باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔ استغاثہ کی طرف سے جناب میاں ذوالفقار علی ایڈووکیٹ جبکہ ملزمہ کی طرف سے وکلاء کا ایک مضبوط پینل جن میں ایس کے چوہدری، سید رشید حسین اور میاں محمد اجمل ایڈووکیٹس شامل ہیں عدالت میں پیش ہوتا رہا۔ پرائیویٹ گواہان ہر تاریخ پیشی پر عدالت میں حاضر ہوتے رہے لیکن کبھی وکلاء کی ہڑتال اور کبھی معزز جج صاحب کی چھٹی کی وجہ سے کئی ماہ تک گواہان کے بیانات ریکارڈ نہ ہوسکے۔ بالاخر 1-6-2010 گواہان استغاثہ قاری محمد سالم، مافیہ بی بی، عاصمہ بی بی، محمد افضل نے 15-6-2010 کو محمد رضوان SI نے، 6-7-2010 محمد ارشد سب انسپکٹر (تفتیشی افسر) اور سید محمد امین بخاری SP انویسٹی گیشن شیخوپورہ (تفتیشی افسر) نے 1-10-2010 کو محمد ادریس (جس کے فالسہ کے باغ میں وقوعہ ہوا تھا) نے بطور گواہ عدالت میں پیش ہوکر اپنا اپنابیان قلمبند کروایا۔ جبکہ 20-10-2010 کو ملزمہ کا بیان ریکارڈ ہوا۔ کئی ماہ تک مقدمہ زیر سماعت رہا۔ اسی دوران ملزمہ نے سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ میں درخواست ہائے ضمانت پیش کیں جونامنظور ہوئیں۔ سماعت مکمل ہونے پر ملزمہ گناہ گار ثابت ہوگئی تو مورخہ 8-11-2010 کو جناب محمد نوید اقبال صاحب ایڈیشنل سیشن جج صاحب ننکانہ صاحب نے ملزمہ کو سزائے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سنادی۔ ملزمہ کے وکیل رائے اجمل ایڈووکیٹ نے فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ جناب نوید اقبال صاحب نے میرٹ پر فیصلہ کیا ہے۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران مجھے کوئی تعصب نظر نہیں آیا۔ ملزمہ آسیہ کے دفاع میں شہادت کمزور ہونے کی بناء پر میں نے شہادت عدالت میں پیش نہیں کی۔ وکیل موصوف کا یہ بیان مورخہ 26-11-2010 ملکی اخبارات میں شائع ہوا۔ مکمل پولیس ریکارڈ جس میں مدعی، گواہان، ملزمہ اور پولیس کے مفصل بیانات لگے ہوئے ہیں اور مفصل عدالتی فیصلہ جس میں پورے مقدمہ کا خلاصہ اور حالات و واقعات بیان کرنے کے بعد سزائے موت سنائی گئی ہے، کی فوٹو اسٹیٹ کاپی میرے پاس موجود ہے جس کی روشنی میں یہ تحریر تیار کی جارہی ہے۔
اگلے دن معمول کے مطابق یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو میڈیا میں شور برپا ہوگیا جوکہ آج تک جاری ہے۔ گورنر پنجاب جناب سلمان تاثیر صاحب اس سلسلہ میںبہت پیچ و تاب کھارہے ہیں۔ 20-11-2010 کو گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے اپنی بیٹیوں اور بیوی کو ساتھ لے کر جیل کے اندر ملزمہ سے ملاقات کی۔ ملزمہ کو اپنے ساتھ بٹھا کر پریس کانفرنس کی۔ پولیس اور عدلیہ کی کئی ماہ کی انکوائری اور تحقیقات پر بیٹھے بٹھائے قلم پھیر کر ملزمہ کو بے گناہ قرار دے دیا اور اسے جلد ہی بری کردیئے جانے کی نوید سنا کر اور ایک درخواست پر دستخط کروا کر چلے گئے۔ میڈیا پر یہ خبربھی آچکی ہے کہ ملزمہ کو شیخوپورہ جیل سے کہیں اور نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔
ایف آئی آر
ابتدائی رپورٹ نسبت جرم قابل دست اندازی پولیس رپورٹ شدہ زیر دفعہ 154 مجموعہ ضابطہ فوجداری نمبر 15682326/9 تھانہ صدر ننکانہ ضلع ننکانہ صاحب تاریخ وقوعہ 14-4-09
1
تاریخ و وقت
رپورٹ
بحوالہ 23-19-6-09
بوقت 6/15 بجے شام
6
تھانہ سے روانگی کی تاریخ و وقت
اسپیشل
رپورٹ
2
نام و سکونت اطلاع دہندہ و مستغیث
درخواست ازان قاری محمد سالم ولد حافظ غلام جیلانی قوم اعوان سکنہ چک نمبر 3 اٹانوالی مرسلہ مہدی حسن ASI تھانہ صدر ننکانہ
3
مختصر کیفیت جرم (معہ دفعہ) و مال اگر کچھ کھویا گیا ہے
جرم 295/C
4
جائے وقوعہ و فاصلہ تھانہ سے اور سمت
بحد رقبہ چک نمبر 3 اٹانوالی بفاصلہ 7 میل جانب شمال از تھانہ
5
کارروائی متعلقہ تفتیش اگر اطلاع درج کرنے میں کچھ توقف ہوا ہو تو اس کی وجہ بیان کی جائے
بلا توقف
دستخط محمد رضوان ASI عہدہ محرر
(ابتدائی اطلاع نیچے درج کرو)
نوٹ: اطلاع کے نیچے اطلاع دہندہ کا دستخط یا مہر یا نشان انگوٹھا ہونا چاہئے اور افسر تحریر کنندہ (ابتدائی اطلاع) کے دستخط بطور تصدیق ہونے چاہئیں۔ بخدمت جناب SHO صاحب تھانہ صدر ننکانہ صاحب جناب عالی گزارش ہے کہ سائل چک نمبر 3 گ ب اٹانوالی تھانہ صدر ننکانہ صاحب تحصیل و ضلع ننکانہ صاحب کا رہائشی ہے اور مسجد صدیق اکبر میں بطور امام مسجد خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ مورخہ 14-6-09 کو بروز اتوار ادریس ولد احمد علی قوم آرائیں سکنہ دیہہ کی زمین میں آسیہ زوجہ عاشق مسیح جو عیسائی مذہب کی مبلغہ ہے، گائوں کی دیگر عورتوں جن میں عاصمہ بی بی دختر عبدالستار، مافیہ بی بی دختر عبدالستار، یاسمین دختر اﷲ رکھا شامل ہیں، فالسہ توڑ رہی تھیں، آسیہ الزام علیہا نے کہا آپ مسلمانوں کے نبی (معاذ اﷲ) کیا ہیں، وہ وفات سے صرف ایک ماہ قبل چارپائی پر بیمار پڑے رہے اور تمہارے نبی کے منہ اور کانوں میں کیڑے پڑے اور تمہارے (نبیﷺ) نے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہ سے محض مال کی خاطر شادی کی اور مال لوٹنے کے بعد انہیں گھر سے نکال دیا۔ مزید قرآن پاک کے متعلق کہا کہ وہ اﷲ کا کلام نہیں بلکہ خود بنائی گئی کتاب ہے۔ یہ سب باتیں عاصمہ بی بی، مافیہ، یاسمین مذکوران و دیگران نے مجھے اور گائوں کے لوگوں کو بتائیں۔ آج مورخہ 19-6-09 کو سائل معہ محمد افضل ولد محمد طفیل قوم گجر، مختار احمد ولد مشتاق احمد قوم راجپوت ساکنان دیہہ نے عاصمہ بی بی وغیرہ اور آسیہ الزام علیہا کو بلوایا اور 14-6-09کے وقوعہ کے متعلق آسیہ مذکوریہ سے پوچھا تو اس نے اقرار کیا کہ مجھ سے واقعی میں نے نبی کریم اور قرآن پاک کی توہین کی مرتکب ہوئی ہوں اور معافی مانگتی ہوں۔ آسیہ مذکوریہ ملزمہ نے توہین رسالتﷺ اور توہین قرآن کا ارتکاب کرکے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے، دعویدار ہوں، آسیہ ملزمہ مذکوریہ کے خلاف توہین رسالتﷺ اور توہین قرآن پاک کرنے پر مقدمہ درج کرکے کارروائی مطابق قانون کی جاوے عرضے دستخظ اردو قاری محمد سالم ولد حافظ غلام جیلانی قوم اعوان سکنہ چک نمبر 3 اٹانوالی تحصیل و ضلع ننکانہ (امام مسجد صدیق اکبر چک نمبر 3 اٹاموالی)
کارروائی پولیس: اس وقت میں معہ کانسٹیبل ارشد علی 842/C کانسٹیبل نبیل نواز 909/C بسواری سرکاری گاڑی نمری 7631/SAG جس کا ڈرائیور محمد یٰسین نمبر 468/C برائے گشت پل نہر چندر کوٹ موجود ہوں کہ مسمی قاری محمد سالم مستغیث مذکور نے میرے پیش ہوکر درخواست مضمون بالا میرے پیش کی میں نے سردست جرم 295/C پائی جاکر درخواست ہذا بغرض اندراج مقدمہ بدست کانسٹیبل محمد ارشد 842/C ارسال تھانہ ہے، مقدمہ درج کرکے نمبر مقدمہ سے اطلاع دی جاوے میں معہ ہمراہی ملازمان بغرض تفتیش روانہ موقع کا ہوتا ہوں۔ نیز اسپیشل رپورٹ ہائے جابجا افسران مجاز بھجوائی جاویں دستخط اردو مہدی حسنASI تھانہ صدر ننکانہ صاحب از پل نہر چندر کورٹ بوقت 5:45 بجے شام
از تھانہ: حسب آمدہ درخواسدت مضمون بالا مقدمہ عنوان بالا درج رجسٹر کرکے اصل درخواست معہ نقل FIR بغرض تفتیش بدست آرندہ کانسٹیبل عقب بوجہ معاملہ سنگین نوعیت محمد ارشد ڈوگر SI ارسال ہے، نیز اسپیشل رپورٹ ہائے جابجا افسران مجاز بھجوائی جارہی ہیں دستخط اردو محمد رضوان ASI محرر تھانہ صدر ننکانہ صاحب 19-6-09
کتاب اﷲ نے شاتمین رسول اور مخالفین انبیاء کو ذلیل ترین مخلوق قرار دیا۔ ارشاد باری ہے:
ان الذین یحادون اﷲ ورسولہ اولٰئک فی الاذلین (المجادلۃ 20/58)
’’بے شک وہ لوگ جو اﷲ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ سب لوگ انتہائی ذلیل لوگوں میں ہیں‘‘
وہ لوگ جو رسول اﷲﷺ کو دکھ اور ایذا دیتے ہیں ان کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا:
ان الذین یؤدون اﷲ ورسولہ لعنہم اﷲ فی الدنیا والاخرۃ واعدلہم عذاباً مہینا (الاحزاب 58/33)
’’بے شک وہ لوگ جو اﷲ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں، اﷲ بھی انہیں دنیا اور آخرت میں اپنی رحمت سے دور کردیتا ہے اور اس نے ایسے لوگوںکے لئے رسوا کن عذاب تیار کررکھا ہے‘‘
اس آیت کی تشریح میں جمہور مفسرین نے یہ بات نقل کی ہے:
مدینہ میں کچھ اوباش آوارہ صفت، بدمزاج اور منافقین شاتمین حضورﷺ کے گھر والوں کے لئے تشبیب بکتے، گھرانہ رسول کی توہین کرتے، افواہیں پھیلاتے، دکھ دینے والی باتیں کرتے۔ قرآن حکیم نے انہیں ملعون کہا اور صاف واشگاف اعلان کردیا۔ یہ دھتکارے ہوئے ملعون لوگ جہاں ملیں گرفتار کرلئے جائیں اور انہیں قتل کردیا جائے۔ اس گینگ کا سرغنہ کعب بن اشرف تھا۔ حضورﷺ نے مسجد نبوی میں اعلان فرمایا کہ تم میں سے کوئی ہے جو مجھے کعب بن اشرف کے بارے میں سکون دے (حضرت) محمد بن مسلمہ رضی اﷲ عنہ نے اجازت چاہی کہ اسے آئینہ میں اتارنے کے لئے مجھے کچھ کمزور باتیں کرنے کی اجازت دی جائے۔ بارگاہ نبوت سے اجازت ملی اب اگلا ماجرا ’’بخاری‘‘ کی روایت کردہ حدیث میں تفصیلات ملاحظہ ہو۔ امام بخاری نے اپنی ‘‘جامع’’ کی دوسری جلد میں صفحہ پانچ سو چھہتر پر یہ حدیث بیان کی۔
رسول محتشمﷺ نے فرمایا ‘‘کعب بن اشرف کا ذمہ کون لیتا ہے؟ اس نے اﷲ اور اس کے رسول کو ایذا دی ہے ’’ محمد بن مسلمہ کھڑے ہوئے اور عرض کی آپ پسند فرماتے ہیں کہ میں اسے قتل کردوں۔ آپ نے فرمایا ‘‘جی ہاں’’ محمد بن مسلمہ نے کہا پھر آپ مجھے اجازت مرحمت فرمادیں کہ میں اسے کچھ تعریفی کلمات کہہ سکوں۔ رسول اﷲﷺ نے اجازت مرحمت فرمادی، محمد بن مسلمہ، کعب بن اشرف کے پاس گئے اور کہا یہ محمدﷺ ہم سے صدقہ طلب کررہے ہیں، انہوں نے ہمیں تنگ کررکھا ہے، میں تجھ سے مقرر میعاد پر سودا کرنے آیا ہوں۔کعب بن اشرف نے کہا آپ لوگ محمد سے ضرور کبیدہ ہوں گے۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ہم نے ان کی اطاعت کی ہے لیکن اب چاہتے ہیں کہ چھوڑ دیں، دیکھتے ہیں ان کی دعوت کا انجام کیا ہوتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تو ایک یا دو وسق (20) پر سودا ادھار دے۔ کعب بن اشرف نے کہا کہ دے دوں گا لیکن اس شرط پر کہ تم اپنی عورتیں میرے پاس رہن (یعنی، گروی) رکھ دو جواباً کہا گیا کہ عورتیں تمہارے پاس کس طرح رہن رکھی جاسکتی ہیں۔ فتنہ کا ڈر ہے، اس لئے کہ تو عربوں میں حسین شخص ہے۔ پھر کعب بن اشرف نے کہا کہ بیٹے رہن رکھ دو کہا گیا کہ تو اگر انہیں گالی دے گا تو یہ چیز باعث عار ہوگی لیکن اگر تم قبول کرو تو تم ہم اسلحہ رہن رکھ سکتے ہیں۔ اس طرح سودا مکمل کرنے کے لئے محمد بن مسلمہ نے کعب کو رات کے وقت بلالیا۔ جب وہ قلعہ سے اتر کر ان کے پاس آیا تو محمد بن مسلمہ اور کعب کے رضاعی بھائی ابو نائلہ نے اسے ٹھکانے لگادیا۔ کعب بن اشرف کا قتل حضورﷺ کی گستاخی کی سزا تھی (تلخیص)
(بخاری، کتاب المغازی، باب قتل کعب بن اشرف، حدیث نمبر 4037)
گستاخ رسولﷺ کی سزا پر امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کی روایت کردہ ایک دوسری حدیث ملاحظہ ہو۔ اس حدیث کو حضرت براء بن عازب رضی اﷲ عنہ نے روایت کیا:
حضور علیہ السلام نے (کچھ حضرات کو) جو انصار تھے، ابو رافع یہودی کی طرف بھیجا، ان لوگوں کا قائد حضرت عبداﷲ بن عتیک کو بنایا۔ یہ ابو رافع نبی علیہ السلام کو ایذا دیتا تھا اور آپ کے خلاف لوگوں کی مدد کیا کرتا تھا۔ وہ سرزمین حجاز میں اپنے ایک قلعے میں رہتا تھا، جب وہ گروہ قلعہ کے قریب گیا تو سورج غروب ہوچکا تھا اور لوگ اپنے ٹھکانوں پر واپس آرہے تھے۔ اب عبداﷲ نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم حضرات اپنی جگہ پر بیٹھ جائو میں چلتا ہوں، دربان کو نرم کرنے کی کوشش کروں گا شاید میں اس طرح قلعے میں داخل ہوجائوں، وہ آگے بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ دروازے کے قریب پہنچ گئے پھر انہوں نے چادر لپیٹ لی۔ گویا وہ رفع حاجت کررہے ہیں، لوگ قلعے میں داخل ہوگئے، دربان نے پکارا، اے اﷲ کے بندے! تو اندر داخل ہو کیونکہ میں دروازہ بند کرنا چاہتا ہوں۔ اب میں (عبداﷲ بن عتیک) اندر چلا گیا، میں چھپ گیا، جب سب لوگ اندر آگئے تو اس (دربان) نے دروازہ بند کردیا پھر اس نے چابیاں اندر ایک میخ پر لٹکادیں اور وہ اپنے ایک بالاخانے میں تھا۔ جب اس کے پاس سے قصہ گو چلے گئے۔ اب میں اوپر چڑھا میں جو دروازہ بھی کھولتا اندر سے اندر بند کرکے آگے بڑھتا تھا تاکہ اگر لوگوں کو پتہ بھی چل جائے تو مجھ تک نہ پہنچ پائیں تاکہ میں اسے قتل کرسکوں، میں اب اس تک پہنچ گیا۔ وہ ایک تاریک گھر (کمرہ) میں اپنے اہل خانہ کے درمیان سورہا تھا، مجھے پتہ چل رہا تھا کہ وہ کس حصے میں ہے۔ میں نے پکارا اے ابو رافع! اس نے کہا یہ کون ہے؟ میں آواز کی طرف لپکا اور اسے تلوار کی ایک ضرب لگائی مجھ پر دہشت طاری تھی۔ یہ ضرب کافی نہیں تھی۔ وہ چلاّیا میں کمرے سے نکل گیا۔ میں کچھ فاصلے پر رک گیا پھر اندر داخل ہوکر کہا اے ابو رافع! یہ آواز کیا تھی وہ بولا تیری ماں مرے (اس نے اب اسے کوئی اپنا محافظ سمجھا ہوگا) ابھی ایک شخص نے کمرے میں مجھے تلوار ماری ہے۔ فرماتے ہیں پھر میں نے اسے شدید زخم بھری تلوار ماری مگر وہ تاحال مرا نہیں تھا پھر میں نے تلوار کا کنارہ اس کے پیٹ میں اتار دیا۔ تلوار پشت کی طرف سے نکل گئی۔ مجھے یقین ہوگیا کہ وہ مرگیا ہے۔ میں ایک ایک دروازہ کھول کر باہر نکل کر ایک سیڑھی سے اترا۔ میں نے سمجھا کہ میں زمین پر پہنچ گیاہوں مگر میں تو چاندنی رات میں گرچکا تھا۔ میری پنڈلی ٹوٹ گئی۔ میں نے پگڑی سے اسے باندھ دیا۔ پھر چل کر میں گیٹ پر آکر بیٹھ گیا اور اپنے طور پر کہا کہ میں رات کو باہر نہیں نکلوں گا جب تک مجھے پتہ نہ چل جائے کہ میں نے اسے قتل کردیا ہے۔ جب (سحری) کو مرغ چلاّیا تو موت کی خبر دینے والا قلعہ کی دیوار پر آیا اور کہا میں اہل حجاز کے تاجر ابو رافع کی موت کی خبر دے رہا ہوں۔ اب میں اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور کہا نجات ہوگئی۔ اﷲ تعالیٰ نے ابو رافع کو مار دیا۔ اب میں سید کُل علیہ السلام کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا، سارا واقعہ آپ کو سنایا۔ آپ نے فرمایا ‘‘پائوں پھیلا دے ’’ میں نے اپنا پائوں پھیلادیا۔ آپ نے اس پر (ہاتھ مبارک) پھیرا۔ ایسا معلوم ہوا کہ اسے کبھی کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔
(بخاری، کتاب المغازی، حدیث 4039)
عبداﷲ ابن خطل نبی کریمﷺ کی ہجو کرتا تھا یعنی وہ ایسے اشعار کہتا کہ جس میں حضورﷺ کی برائی بیان کرتا تھا، اس کی دو لونڈیاں بھی حضورﷺ کی گستاخی کرتی تھیں۔فتح مکہ کے بعد جب وہ غلاف کعبہ میں چھپا ہوا تھا۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا ‘‘اسے قتل کردو کیوں نہ یہ کعبے کے پردے میں پناہ لئے ہو’’ (صحیح بخاری)
ایک شخص بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اﷲﷺ! میرا باپ آپ کی گستاخی کیا کرتا تھا۔ میں نے اسے قتل کردیا۔ یہ بات آپ پر گراں نہ گزری اور اس طرح آپ کا خون ‘‘ھدر’’ رہا۔ یہ روایت ابن قانع کی ہے۔(کتاب الشفائ، قاضی عیاض)
ہارون الرشید نے حضرت امام مالک رحمتہ اﷲ علیہ سے مسئلہ پوچھا گستاخ رسول کی سزا کیا کوڑے سے مارنا کافی نہیں، اس پر حضرت امام نے فرمایا:
’’اے امیر المومنین! گستاخ رسول گستاخی کے بعد بھی زندہ رہے تو پھر امت کو زندہ رہنے کا حق نہیں۔ رسول اﷲﷺ کے گستاخ کو فی الفور گرفتار کرکے قتل کردیا جائے’’ ۔
ردالمحتار میں امام محمد بن سحنون کی روایت ہے:
تمام علماء کا اس پر اجماع ہے حضورﷺ کو گالی دینے والا آپ کی شان میں کمی کرنے والا کافر ہے اور تمام امت کے نزدیک وہ واجب القتل ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے صاحبزادے حضرت محمد رضی اﷲ عنہ کے دور میں ایک امام جس کا نام عبداﷲ بن نواحہ تھا۔ قرآن کی آیات کا مذاق اڑایا اور مفاہیم کے ردوبدل سے یہ الفاظ کہے:
’’قسم ہے آٹا پیسنے والی عورتوں کی جو اچھی طرح گوندھتی ہیں پھر روٹی پکاتی ہیں پھر ثرید بناتی ہیں پھر خوب لقمے لیتی ہیں’’ اس پر حضرت نے اسے قتل کا حکم سنایا اور لمحہ بھر بھی تاخیر نہیں فرمائی۔ (مصنف ابن ابی شبہ، کتاب الجہاد)
حضرت عمر بن عبدالعزیز کے تاریخی الفاظ ملاحظہ ہوں۔
’’جو شخص حضورﷺ کی بارگاہ میں گستاخی کرے، اس کا خون حلال اور مباح ہے ‘‘(کتاب الشفائ)
اس جملے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کے لئے عدالتی کارروائی ہو تو فبہا ورنہ پورا معاشرہ سستی اور کوتاہی پر مجرم ہوگا۔ ان ہی خیالات کا اظہار بارہا پنجاب ہائی کورٹ کے معزز جج ‘‘میاں نذیر اختر’’ فرماچکے ہیں۔
اب سنئے حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کے بارے میں آپ نے ایک موقع پر شاتمین دین و رسول کو قتل کرنے کے بعد جلا دینے کا حکم صادر فرمایا۔ یہ روایت بھی ‘‘بخاری ’’ کی ہے۔
حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں میرے والد گرامی کہتے تھے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جو کسی نبی کو سب کرے اسے قتل کردو اور جو کسی صحابی کو برا بھلا کہے اسے کوڑے مارو’’ (المعجم الصغیر للطبرانی، باب العین)
’’الاشباہ والنظائر’’ میں ہے۔
’’کافر اگر توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول کرلی جائے لیکن اس کافر کی توبہ قبول نہیں جو نبی کریمﷺ کے حضور گستاخیاں کرتا ہے۔‘‘
’’نسائی شریف’’ کی حدیث ہے کہ ایک شخص نے ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو سب کیا۔ آپ کے ایک عقیدت مند نے اجازت چاہی کہ اسے قتل کردیا جائے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’یہ حق صرف حضرت محمدﷺ کا ہے کہ انہیں (بکواس کرنے والے کو) قتل کردیا جائے’’ (سنن نسائی، کتاب تحریم الدم، حدیث 4077)
’’ابن ماجہ’’ نے روایت کیا کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ نے ایک مرتد کو قتل کی سزا دی۔ اس پر ’’فتح القدیر’’ کا مولف لکھتا ہے کہ جو شخص حضورﷺ کے خلاف غلیظ زبان استعمال کرے اس کی گردن اڑا دی جائے۔(فتح القدیر، کتاب السیر)
محدث عبدالرزاق روایت فرماتے ہیں:
’’خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ نے کچھ مرتدوں کو آگ میں جلادیا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے عرض کی اے ابوبکر! آپ نے خالد کو کھلا چھوڑ دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا میں اﷲ کی تلوار کو نیام میں نہیں ڈال سکتا‘‘(مصنف عبدالرزاق، کتاب الجہاد، حدیث 9470)
’’سنن ابی دائود’’ کی حدیث ہے:
حضرت عکرمہ روایت کرتے ہیں کہ یہ بات ہمیں حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہا نے بتائی۔ ایک اندھے کی ام ولد تھی۔ وہ حضورﷺ کو گالیاں بکتی تھی اور اسلام کے خلاف اعتراض کرتی تھی۔ وہ نابینا شخص اس کو روکتا لیکن وہ باز نہ آتی۔ ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود وہ اپنے ہفوات سے باز نہ آئی۔ ایک رات وہ حضورﷺ کو سب و شتم کرنے لگی تو نابینا صحابی اٹھا اور خنجر لیا اور اس کے پیٹ میں اتار دیا اور اس عورت کو قتل کردیا۔ صبح صبح یہ واقعہ رحمت عالمﷺ کو سنایا گیا۔ آپﷺ فرمانے لگے ’’جس آدمی نے ایسا کیا ہے اس پر میرا حق ہے وہ کھڑا ہوجائے‘‘ وہ شخص لڑکھڑاتے ہوئے آگے بڑھا اور حضورﷺ کے سامنے بیٹھ گیا اور تسلیم کیا کہ یارسول اﷲﷺ میں اس عورت کا قاتل ہوں۔ یہ آپ کو گالیاں دیا کرتی تھی اور اسلام پر اعتراض کیا کرتی تھی۔ پس میں نے گزشتہ رات خنجر سے اسے قتل کردیا۔ حالانکہ میرے اس سے موتیوں جیسے دو بیٹے تھے۔ حضورﷺ نے فرمایا ‘‘سنو! سنو! تم سب گواہ ہو کہ اس کا خون ‘‘ھدر’’ ہے’’ (ابو دائود، کتاب الحدود، حدیث نمبر 4351)
اس حدیث میں غوروفکر کے لئے کافی مواد موجود ہے کہ اس عاشق رسولﷺ نے ماورائے عدالت اس عورت کو قتل کیا لیکن حضورﷺ نے اس کے خون کو ‘‘ھدر’’ قرار دیا۔
حضور انورﷺ مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو شہرنور میں ایک بوڑھا جس کی عمر ایک سو بیس سال تھی اور نام اس کا ابو عفک تھا۔ اس نے انتہائی دشمنی کا اظہار کیا۔ لوگوں کووہ حضورﷺ کے خلاف بھڑکاتا، نظمیں لکھتا جن میں اپنی بدباطنی کا اظہار کرتا۔ جب حارث بن سوید کو موت کی سزا سنائی گئی تو اس ملعون نے ایک نظم لکھی جس میں حضورﷺ کو گالیاں بکیں۔ حضورﷺ نے جب اس کی گستاخیاں سنیں تو فرمایا:
’’تم میں سے کون ہے جو اس غلیظ اور بدکردار آدمی کو ختم کردے‘‘
سالم بن عمیر نے اپنی خدمات پیش کیں۔ وہ ابو عفک کے پاس گئے دراں حالیکہ وہ سورہا تھا۔ سالم نے اس کے جگر میں تلوار زور سے کھبو دی۔ ابو عفک چیخا اور آنجہانی ہوگیا۔(کتاب المغازی، للواقدی، سریۃ قتل ابی عفک، 163/1)
حویرث بن نقیذ رسول اﷲﷺ کو گالیاں دیا کرتا۔ ایک بار حضرت عباس مکہ سے مدینہ جارہے تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا اور حضرت ام مکتوم رضی اﷲ عنہا مدینہ جانے کے لئے ان کے ساتھ نکلیں۔ ظالم حویرث نے سواری کو اس طرح ایڑھ لگائی کہ دونوں شہزادیاں سواری سے گرگئیں۔ رسول اﷲﷺ نے اسے موت کی سزا سنائی۔ فتح مکہ کے موقع پر حویرث نے خود کو ایک مکان میں بند کردیا۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے اسے تلاش کرلیا اور اپنے آقاﷺ کے حکم پر اسے قتل کردیا۔(کتاب المغازی للواقدی،281/2)
’’بخاری شریف’’ کی روایت ہے۔ معاویہ بن مغیرہ نامی ایک گستاخ کو رسول اﷲﷺ نے گرفتار کروالیا اور فرمایا ‘‘ایک سچا مسلمان ایک ہی سانپ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا، اے معاویہ بن مغیرہ! تم اب کسی صورت میں بھی واپس نہیں جاسکتے‘‘
پھر فرمایا ’’اے زبیر! اے عاصم! اس کا سر قلم کردو‘‘
’’فتاویٰ بزازیہ ‘‘میں ہے اور یہ حنفی فقہ کی معروف کتاب ہے۔
جب کوئی شخص حضورﷺ یا انبیاء میں سے کسی بھی نبی کی توہین کرے اس کی شرعی سزا قتل ہے اور اس کی توبہ یقینا قبول نہیں ہوگی۔
’’فتاویٰ قاضی خان‘‘ میں ہے کہ حضورﷺ کے ساتھ منسوب کسی چیز میں عیب نکالنے والا شخص کافر ہے۔ جبکہ ‘‘الاشباہ’’ کے مصنف نے فرمایا اور وہ واجب القتل ہوگا۔ جیسے کسی شخص نے حضورﷺ کے بال مبارک کے بارے میں (بطور اہانت) تصغیر کا صیغہ استعمال کرکے تنقیص کی۔ (فتاوی قاضی خان، کتاب السیر، 574/3)
علامہ حصاص رازی لکھتے ہیں‘‘ مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان کہنے والا جو شخص حضورﷺ کی ذات پاک کے خلاف بے ادبی کی جسارت کرے وہ مرتد ہے اور قتل کا مستحق ہے۔’’ (احکام القرآن للرازی، سورۂ توبہ، 128/3)
’’عالمگیری ’’ میں ہے کہ جو شخص کہے حضورﷺ کی چادر یا بٹن میلا کچیلا ہے اور اس قول سے مقصود عیب لگانا ہو، اس شخص کو قتل کردیا جائے گا۔
علامہ خفاجی ‘‘نسیم الریاض’’ میں فرماتے ہیں۔ اگر کسی شخص نے کسی شخص کے علم کو حضورﷺ کے علم سے زیادہ جانا اس نے توہین کی۔ اس لئے وہ واجب القتل ٹھہرا۔
قاضی عیاض فرماتے ہیں ‘‘ یمن کے گورنر مہاجر بن امیہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو اطلاع دی وہاں ایک عورت مرتد ہوگئی۔ اس نے حضورﷺ کی شان میں گستاخی والا گیت گایا۔ گورنر نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا اور سامنے والے دو دانت توڑ دیئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو پتہ چلا تو آپ نے فرمایا۔ اگر تو فیصلہ کرکے عمل نہ کراچکا ہوتا تو میں اس عورت کے قتل کرنے کا حکم صادر کرتا۔ اس لئے کہ نبیوں کے گستاخ قابل معافی نہیں ہوتے‘‘
حضورﷺ کے گستاخ کی سزا یہی ہے کہ وہ واجب القتل ہے۔ اس کی توبہ قبول نہیں، چاروں مسالک یہی ہیں۔
علامہ زین الدین ابن نجیم ‘‘البحر الرائق ’’ میں ارشاد فرماتے ہیں۔ حضورﷺ کو سب و شتم کرنے والے کی سزا قتل ہے۔ اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔
پاکستان کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، اسی سرزمین پر غازی عبدالقیوم، غازی علم دین اور عامر چیمہ شہید جیسے پاسبان ناموس رسالت کی آرام گاہیں ہیں جنہوں نے تحفظ ناموس رسالت کے لئے اپنی جانیں بارگاہ رسالتﷺ میں پیش کردیں۔
اسی سرزمین پر کچھ عرصہ قبل ایک گستاخ کا حمایتی اٹھ کر کھڑا ہوا جسے ایک غازی نے واصل جہنم کردیا مگر افسوس کہ موجودہ ظالم و جابر حکومت نے اسے شہید قرار دیا۔ میں ان سربراہان مملکت سے سوال کرتا ہوں کہ کیا گستاخ رسول ملعونہ آسیہ کا حمایتی کبھی شہید قرار دیا جاسکتا ہے؟ قانون ناموس رسالت کو کالا قانون کہنے والا کبھی شہید قرار دیا جاسکتا ہے؟ قانون ناموس رسالت کے متعلق یہ کہنا کہ میں اس قانون کو جوتی کی نوک پر رکھتا ہوں، کیا ایسے شخص کو شہید قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیا ایک شرابی گورنر کو شہید قرار دیا جاسکتا ہے؟
جس بلاول بھٹو زرداری کو دین کا معنیٰ نہیں معلوم، ایسا شخص بیان دیتا ہے کہ ‘‘سلمان تاثیر کو گستاخ رسول کہنا بھی حضورﷺ کی شان میں گستاخی ہے’’ لیجئے صاحب! اب بلاول صاحب ہمیں دین سمجھائیں گے۔
الغرض کہ ہمارا مطالبہ صرف ایک ہی ہے کہ جب گستاخ رسول ملعونہ آسیہ کا جرم ثابت ہوچکا ہے، تو پھر حکومت پاکستان اس کی سزا میں پس و پیش سے کام کیوں لے رہی ہے؟ جب اسے عدالت نے پھانسی کی سزا سنا دی ہے تو پھر اس ملعونہ کی پھانسی پر عمل درآمد کیوں نہیں ہورہا؟ ہم حکومت کی اس خاموشی کو کیا سمجھیں؟
مغربی آقائوں کی مداخلت یا ان کا دبائو یا ڈالروں کی بارش؟ کتنے افسوس کی بات ہے جب بے نظیر کی جاء مقتل کی بے حرمتی کی گئی تو پوری پیپلز پارٹی سراپا احتجاج بن گئی، پورے ملک میں ریلیاں اور احتجاجی جلوس نکالے گئے۔ سندھی ٹوپی کے خلاف بولا گیا تو پوری پیپلز پارٹی سراپا احتجاج بن گئی اور پورے ملک میں طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا مگر جب سید عالمﷺ کی ناموس پر حملہ ہوا تو یہی لوگ اور ان کے لیڈر خاموش تماشائی بن گئے۔ کیا یہ تمہارا طرز عمل ہے؟ کیا آج تمہاری نظروں میں حضور سید عالمﷺ کی ناموس کی کوئی اہمیت نہیں؟
ہم جانتے ہیں کہ حکومت موقع تلاش کررہی ہے کہ کسی طرح ملعونہ آسیہ کو بیرون ملک اس کے مغربی آقائوں کے حوالے کردیا جائے لیکن حکومت یاد رکھے کہ آج بھی ناموس رسالت کے محافظ اس سرزمین پر زندہ ہیں۔
خدا کی قسم! اس سرزمین پر غازی علم دین، غازی عبدالقیوم اور عامر چیمہ شہید کے پیروکار بپھرے ہوئے ہیں جو سمندر کی طرح نکلیں گے اور اس گستاخ کا سرتن سے جدا کردیں گی۔
لہذا اب حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا تحفظ ناموس رسالت یا تحفظ گستاخ رسول ( ﷺ ) ؟
No comments:
Post a Comment