Thursday, 22 January 2015

درد دل رکھتا ہوں آپ کے سامنے

درد دل رکھتا ہوں آپ کے سامنے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : الحَمْدُ ِلله ہم مسلمان ہیں ۔ اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پختہ ایمان رکھتے ہیں ۔ بحیثیت مسلمان زندگی بھر ہمیں تقویٰ اختیار کرنے ، اور اللہ عزوجل کی رسی مضبوطی سے پکڑنے اور آپس میں اختلافات نہ کرنے اور مسلمان مرنے کا حکم ہے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
 ترجمہ : اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہرگز نہ مرنا مگر مسلمان اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم میں بیر تھا اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ کردیا تو اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی ہوگئے اور تم ایک غار دوزخ کے کنارے پر تھے سے تم آپس میں بھائی ہوگئے اور تم ایک غار دوزخ کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچا دیا اللہ تم سے یوں ہی اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم ہدایت پاٶ ۔ (سورۂ آل عمران : 103-102/3)

 اللہ تعالیٰ نے دیگر احکام کے ساتھ ہمیں یہ حکم بھی دیا کہ ہم دین اسلام کی تبلیغ حکمت ، موعظت حسنہ اور سب سے بہتر گفتگو کے طریقے کے ذریعے کریں ، ارشاد ہوتا ہے : ترجمہ : اپنے رب کی راہ کی طرف بلائو، پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو، بے شک تمہارا رب خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکا اور وہ خوب جانتا ہے راہ والوں کو ۔ (سورۂ نحل: 125/16)

 ہمارا کام ہے نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے روکنا تاکہ دارین میں ہم فلاح پاجائیں ۔ ارشاد ہوتا ہے : ترجمہ : اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری سے منع کریں اور یہی لوگ مراد کو پہنچے ۔ (سورۂ آل عمران: 104/3)

 پھر اس کے ساتھ ساتھ ایک اصول بھی عطا فرمایا کہ حق واضح ہونے کے بعد اختلاف میں نہ پڑے رہنا ورنہ بڑے عذاب کے مستحق ٹھہرو گے ، ارشاد ہوتا ہے : ترجمہ : اور ان جیسے نہ ہونا جو آپس میں پھٹ گئے اور ان میں پھوٹ پڑگئی بعد اس کے کہ روشن نشانیاں انہیں آچکی تھیں اور ان کےلیے بڑا عذاب ہے ۔ (سورۂ آل عمران: 105-102/3)

 اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں تقویٰ سات قسم کا ہے  : ⬇
 (1) کفر سے بچنا یہ بفضلہ تعالیٰ ہر مسلمان کو حاصل ہے ۔
 (2) بدمذہبی سے بچنا یہ ہر سنی کو نصیب ہے ۔
 (3) ہر کبیرہ سے بچنا ۔
 (4) صغائر سے بھی بچنا ۔
 (5) شبہات سے احتراز ۔
 (6) شہوات سے بچنا ۔
 (7) غیر کی طرف التفات سے بچنا یہ اخص الخواص کا منصب ہے اور قرآن عظیم ساتوں مرتبوں کا ہادی ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ)

 مگر ہمارا کردار کیا ہوتا جارہا ہے ۔
 تقویٰ کی قسم نمبر تین سے آخری نمبر تک میں سے ہمارا کتنوں پر عمل ہے ؟ پھر کیا ان پر ندامت بھی ہے یا برائے نام ’’تقویٰ‘‘ ہے ؟ ہمارے آپس کے اختلافات کا عالم یہ ہے کہ آپس میں تکفیر و تضلیل اور تفسیق کے فتوئوں کا تبادلہ ۔ آپس میں فروعی معاملات میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ۔ تبلیغ دین میں حکمت کا فقدان ، مستحب و مباحات پر بضد ڈٹے رہنا پہچان اگرچہ اس وقت ان پر عمل نہ کرنا بہتر بلکہ واجب ہو ، بے جا مباحثوں اور مناظروں میں پڑنا باعث فخر ، جبکہ بھائی چارے کی فضا قائم کرنا باعث خسران بنا ہوا ہے ۔ افسوس بالائے افسوس کہ حق واضح ہونے کے باوجود ہمارا اس طرح کا رویہ اختیار کرے رہنا ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حواس خمسہ کے ساتھ عقل کی نعمت بھی بخشی ہے تاکہ ہم حق کو دیکھ سکیں ، سن سکیں اور سمجھ سکیں ۔ اگر ہم یہ حواس ہوتے ہوئے بھی حق نہ دیکھ پائیں ، نہ حق سن سکیں اور نہ اسے سمجھ سکیں تو کیا جانوروں سے بھی بدتر اور مستحق نار نہیں ٹھہریں گے ۔ ارشاد ہوتا ہے : ترجمہ : اور بے شک ہم نے جہنم کےلیے پیدا کیے بہت جن اور آدمی وہ دل رکھتے ہیں ، جن میں سمجھ نہیں اور وہ آنکھیں جن سے دیکھتے نہیں اور وہ کان جن سے سنتے نہیں وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر گمراہ وہی غفلت میں پڑے ہیں ۔ (سورۂ اعراف: 179/7)

 ہمیں تو حق بات سمجھنے کےلیے قلب سلیم ، حق دیکھنے کےلیے نور بصیرت اور حق سننے کی سماعت عطا کی گئی تھی ۔ مگر کیا ہم حق دیکھتے ہوئے بھی اندھے نہیں ہیں ۔ کیا ہم حق سنتے ہوئے بھی بہرے نہیں ہیں ۔ کیوں شرما شرمی میں حق سمجھنے ، دیکھنے اور سننے سے رکے ہوئے ہیں ۔ امتِ مسلمہ ایک ہے ، ﷲ ایک ، قرآن ایک ، رسول ایک ، دین ایک ، قبلہ ایک ، مگر کیا ہم بھی گزشتہ امتوں کی طرح آپس میں اختلافات کرکے فرقے فرقے نہیں ہو گئے ، کیا ہم میں سے ہر گروہ بس اسی پر اکتفا نہیں کیے بیٹھا جو اس خاص کے گروہ کے پاس ہے ، اگرچہ غلط ہی ہو! ارشاد ہوتا ہے : ترجمہ : اور بے شک یہ تمہارا دین ایک ہی دین ہے اور میں تمہارا رب ہوں تو مجھ سے ڈرو ، تو ان کی امتوں نے اپنا کام آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا ۔ ہر گروہ جو اس کے پاس ہے اس پر خوش ہے ۔ (سورۂ مومنون: 53-52/23)

 قرآن کریم مزید وضاحت کرتا ہے کہ اگر یہ گروہ بندی کسی غلط فہمی کی وجہ سے بلاقصد ہو گئی ، تو گناہ نہیں ۔ توبہ کر کے اس سے برأت کرلی جائے ۔ ﷲ تعالیٰ بخش دے گا ۔ لیکن اگر جان بوجھ کر گروہ بندی کی ہے تو یہ بلاشبہ گناہ ہے ، ارشاد ہوتا ہے : ترجمہ : اور تم پر اس میں کچھ گناہ جو نادانستہ تم سے صادر ہوا ، وہاں وہ گناہ ہے جو دل کے قصد سے کرو اور ﷲ بخشنے والا مہربان ہے ۔ (سورۂ احزاب: 5/33)

 لہٰذا ہر سنی صحیح العقیدہ گروہ غور و فکر کرے کہ یہ گروہ بندی و اختلافات دانستہ ہیں یا نادانستہ ۔ استفت قلبک ۔ جب اخلاص کے ساتھ غور و فکر کریں گے تو ﷲ تعالیٰ اپنے دین کی خدمت کےلیے شرح صدر فرما کر نورِ بصیرت عطا کردے گا اور اگر یہ غور و فکر نہ کی بلکہ ہٹ دھرمی رہی تو دل سخت ہو جائے گا اور یہ گمراہی کی علامت ہے ، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : ترجمہ : تو کیا وہ جس کا سینہ ﷲ نے اسلام کےلیے کھول دیا تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہے ، اس جیسا ہو جائے گا جو سنگ دل ہے تو خرابی ہے ان کی جن کے دل یاد خدا کی طرف سے سخت ہو گئے ہیں ، وہ کھلی گمراہی میں ہیں ۔ (سورۂ زمر: 22/39)

قرآن و سنت میں بے شمار روشن دلیلیں موجود ہیں ، جن سے بندہ اپنی گمراہی کو جان سکتا ہے ، کیا اپنا حال دنیا بھر میں دیکھنے کے باوجود ہمارے دل نرم نہیں ہوتے، کیا قرآن پڑھ کر بھی نہیں ۔ ﷲ تعالیٰ ایمان والوں سے فرماتا ہے :
 ترجمہ : کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں ﷲ کی یاد اور اس حق کےلیے جو اترا اور ان جیسے نہ ہوں جن کو پہلے کتاب دی گئی پھر ان پر مدت دراز ہوئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت فاسق ہیں ۔ (سورۂ حدید: 16/57)

 ہم اپنی تقریروں اور تحریروں میں صراحتاً اور کنایتاً ایک دوسرے کے خلاف زبان و قلم استعمال کرتے ہیں ، عیب جوئی کرتے ہیں ، خود ساختہ اصولوں پر سب کو پرکھتے ہیں ، حتیٰ کہ دنیا سے رخصت ہو جانے والوں کو بھی نہیں بخشتے ، حالانکہ بحیثیت مسلمان ہماری صفت یہ بتائی گئی تھی کہ : ترجمہ : (وہ لوگ جو اس طرح) عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب ! ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ ، اے رب ! ہمارے بے شک توہی نہایت مہربان رحم والا ہے ۔ (سورۂ حشر: 10/59)

 مگر ہم کسی اور سمت چلے گئے ہیں ، اکثریت میں ہونے کے باوجود ، اقلیت کا تاثر دکھائی دیتا ہے، ہمارا دشمن تو ہمیں ایک متحد گروہ سمجھتا ہے ، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا رویہ اس کے برعکس ہے ، کیا ہم اس فرمان الٰہی کی عملی تصویر دکھائی نہیں دیتے ۔ ترجمہ : آپس میں اس کی آنچ سخت ہے (یعنی جب وہ آپس میں لڑیں تو بہت شدت اور قوت والے ہیں) تم انہیں ایک جتھا سمجھو گے اور ان کے دل الگ الگ ہیں یہ اس لیے کہ وہ بے عقل لوگ ہیں ۔ (سورۂ حشر: 14/59)

 کیا یہی حال ہمارا نہیں ہوتا جا رہا کہ بے عقل ہوتے جارہے ہیں ، جس کی وجہ سے دل مختلف ہوتے جا رہے ہیں بلکہ جو کچھ زبانوں پر ہے ، دلوں میں اس سے زیادہ دوسروں کےلیے غبار بھرا ہوا ہے ۔ آج ہمیں اہلسنت و جماعت کا ایک مضبوط مرکز بنانے اور اسے تقویت بخشنے کی ضرورت ہے
 دنیائے اہلسنت کے اجزائے ترکیبی افرادی اعتبار سے تین قسم کے ہیں : ⬇

 1 ۔ علماء کرام ۔
 2 ۔ عوام ۔
 3 ۔ امراء یعنی اغنیا ۔

اعلیٰ حضرت ، صاحبِ بصیرت ، امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے اہلسنت و جماعت کو مضبوط کرنے کےلیے تین نکاتی ایجنڈا عطا فرمایا ہے ۔ فرماتے ہیں : آج دنیائے اہلسنت کو خالص اہل سنت و جماعت کی ایک قوت اجتماعی کی ضرور ضرورت ہے ، مگر اس کےلیے تین چیزوں کی سخت حاجت ہے : ⬇

 1 ۔ علماء کا اتفاق ۔
 2 ۔ تحمل ساق قدر باطلاق ، یعنی : بقدر طاقت مشقت کو برداشت کرنا اور ۔ 3 ۔ امراء کا انفاق لوجہ الخلاق ۔ یعنی : اہلسنت کے مالدار ، رٶسا اور امراء کا ﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے مال خرچ کرنا ۔
 پھر خود ہی ان نکات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : افسوس یہاں یہ سب باتیں مفقود ہیں ۔ فان ﷲ وانا الیہ راجعون ۔
ہمارے علماء کرام کی حالت
 علماء کی یہ حالت ہے کہ :
 1 ۔ رئیسوں سے بڑھ کر آرام طلب ہیں ۔
 2 ۔ حمایت دین و مسلک کے نام سے گھبراتے ہیں ۔
 3 ۔ جو بندۂ خدا اپنی جان دین و مسلک حق پر وقف کرے اسے احمق بلکہ مفسد سمجھتے ہیں ۔
 4 ۔ مداہنت یعنی : سستی ان کے دلوں میں رچی بسی ہوئی ہے ۔
 5 ۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں کہ ایام ندوہ میں ہندوستان بھر کا تجربہ ہوا ، عبارات ندوہ سن کر ضلالت ضلالت کی رٹ لگادیں اور جب کۂے : حضرت ! لکھ دیجیے ، فرماتے : ’’بھائی لکھوائو نہیں، ہمارے فلاں دوست برا مانیں گے‘‘  ’’ہمارے فلاں استاد کو برا لگے گا‘‘ ۔ آج بھی یہی حال ہے ، بند کمرے میں گمراہ کی گمراہی کا حکم ، باہر آکر خاموشی گویا حکم کالعدم ۔
 6 ۔ اس میں سے بہت سوں کویہ خیال ہے کہ مفت میں اوکھلی میں سر دے کر موسل کون کھائے ، یعنی : مفت میں اپنی جان کو کیوں خطرے میں ڈالا جائے ، کیونکہ ایسا کیا تو :
ا ۔ بدمذہب دشمن ہو جائیں گے ۔
ب ۔ دانتوں پر رکھ لیں گے ۔
ت ۔ گالیاں پبھتیاں کسیں گے ، اخباروں اور اشتہاروں میں چھاپیں گے ۔
ث ۔ طرح طرح کے بہتان اور افتراء اچھالیں گے ۔ لہٰذا اچھی بھلی جان کو کون جنجال میں ڈالے ۔
7 ۔ بعض کو یہ فکر لاحق کہ حمایت مذہب کی ، تو صلح کلی نہ رہے گی اور ہر دل عزیزی جاکر پلاٶ ، قورمے ، نذرانہ میں فرق آئے گا ۔ یا کم از کم آٶ بھگت تو عام نہ رہے گی ۔ یعنی مفادات پورے نہ ہوں گے ۔
8 ۔ بلا تحقیق حقیقی اپنے طلبہ اور معتقدین کے کان بھرنے سے اکابرین کی مخالفت ، تضلیل و تفسیق بلکہ بعض جری تو تکفیر پر اتر آتے ہیں ۔
9 ۔ کبھی ایک ہی نشست میں جمع بھی ہوجائیں تو موقع ملتے ہی دوسروں پر بے جا تنقید شروع کر دیتے ہیں جس سے عوام اہلسنت پر بہت برا اثر پڑتا ہے ۔
10 ۔ زیادہ تر ایک ہی قسم کے فروعی مسائل پر ، ایک ہی جیسا مواد جمع کرنا شعاربن گیا ہے ، یقین نہ آئے تو دکانوں پر جاکر دیکھیں : ’’وسیلہ‘‘ ، ’’یارسول ﷲ کہنے کا جواز‘‘ ، ’’اعراس کا ثبوت ‘ج‘، ’’فلاں کا رد‘‘ ، ’’فلاں کی گمراہیاں‘‘ ، ’’میلاد منانے کے دلائل‘‘ وغیرہ جیسے موضوعات پر تقریباً سب ہی طبع آزمائی کر چکے ہیں ۔ ہنوز یہ ’’سلسلہ مبارکہ‘‘ جاری ہے 
11 ۔ جن موضوعات پر قلم اٹھانا آج کے دور میں ضروری ہے ۔ ان پر قلم نہیں اٹھاتے ، مثلاً کتب حدیث خصوصاً سنن اربعہ میں سے ان کتب کی اردو شروحات ، جو اب تک لکھی نہیں گئیں ، احناف کے نزدیک اصول حدیث وغیرہ موضوعات ۔
12 ۔ میڈیا چینلز پر آنا تقریبا آج کے دور میں شاید سب ہی چاہتے ہیں ، لیکن جو آتے ہیں ، ان میں ماسوائے چند احکام و مسائل بتانے میں تسامح کا شکار نظر آتے ہیں ۔ ایک صاحب نے میڈیا چینل پر فرمایا : یہ حدیث امام طبرانی علیہ الرحمہ نے ’’معجم کبیر‘‘ کی ’’کتاب الطہارۃ‘‘ میں نقل کی ہے ۔ عقل مند را اشارہ کافی است ۔
 علماۓ کرام کے اتفاق کاعالم ۔ اتفاق علماء کا یہ حال ہے کہ :
1 ۔ آپس میں حسد کابازار گرم ہے ۔
2 ۔ اگر ایک کا نام ’’جھوٹ موٹ‘‘ بھی مشہور ہو جائے تو بہت سے سچے مشہور و معروف علماء اس بے چارے کے مخالف ہو جاتے ہیں ، اس کی توہین و تشنیع میں دیگر گمراہوں اور بدمذہبوں کے ہم زبان ہو کر کہتے ہیں کہ ’’ہیں‘‘ لوگ اسے پوچھتے ہیں اور ہمیں نہیں پوچھتے ۔ میڈیا چینلز پر اس کی مثالیں باآسانی ملاحظہ کی جا سکتی ہیں ۔

 اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا کردار ۔ علماء کرام کےلیے مشعل راہ ہے ۔ آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : فقیر میں لاکھوں عیب ہیں ، مگر میرے رب نے مجھے حسد سے بالکل پاک رکھا ہے ، اپنے سے جسے زیادہ پایا اگر وہ دنیا کے مال و منال میں زیادہ ہے ، تو قلب نے اندر سے اسے حقیر جانا ، پھر حسد کیا حقارت پر ؟ اور اگر دینی شرف و افضال میں زیادہ ہے اس کی دست بوسی و قدم بوسی کو اپنا فخر جانا ، پھر حسد کیا اپنے معظم بابرکت پر ؟ اپنے میں جسے حمایت دین پر دیکھا ، اس کے نشر فضائل اور خلق کو اس کی طرف مائل کرنے میں تحریراً و تقریراً ساعی رہا ۔ اس کےلیے عمدہ القاب وضع کر کے شائع کیے ، جس پر میری کتاب ’’المعتمد المستند‘‘ وغیرہ شاہد ہیں‘‘ ۔

 لمحہ فکریہ

 کیا ہم دوسروں کے نشر فضائل ، خلق کو مائل کرنے کےلیے کرتے ہیں ۔ کیا تحریراً و تقریراً اس کی کوئی دس مثالیں ہر سنی عالم پیش کر سکتا ہے ۔

 حسد کیوں پیدا ہوتا ہے ؟ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ’’حسد شہرت طلبی سے پیدا ہوتا ہے اور میرے رب کریم کے وجہ کریم کےلیے حمد ہے کہ میں نے کبھی اس کےلیے خواہش نہ کی بلکہ ہمیشہ اس سے نفور اور گوشہ نشینی کا دلدادہ رہا‘‘ ۔

 اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی قابلِ اتباع دو صفات

 آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : میرا جلسوں اور انجمنوں کے دوروں سے دور رہنا انہی دو وجہ پر تھا ۔ اول : حب خمول یعنی : گمنامی اور دوم زمانہ می نخر و عیب وغیر از نیم نیست
 کجا برم خر خود را بایں کساد متاع
 عنی : زمانہ عیب دار کو خریدتا نہیں اور میرے پاس اس کے علاوہ نہیں ہے ، اس کھوٹے سامان کے ساتھ اپنے گدھے کوکہاں لے کر جاٶں ۔ اور اب تو سالہا سال سے شدت ہجوم کار وانعدام کجلی فرصت و غلبۂ ضعف و نقاہت نے بالکل ہی بٹھا دیا ہے، جسے میرے احباب نے نازک مزاجی بلکہ بعض حضرات نے غرور و تکبر پر حمل کیا ہے، اور ﷲ اپنے بندہ کی نیت جانتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 29 صفحہ 599-598،چشتی)

2 : ہمارے کارکنوں کی حالت
 ادھر بچارے ہمارے کارکنوں کا حال یہ ہے کہ : ⬇

 انہیں وہ چالیں اور وہ جال معلوم نہیں کہ جس سے خارجی ، ناصبی ، رافضی اور بدمذہب فرقے (خذلہم ﷲ تعالیٰ) بندگانِ خدا کو فریب دے کر نہ صرف اپنے ہم مذہبوں بلکہ اپنے ہم مشربوں سے روپیہ اینٹھتے ہیں ۔ اس کام کےلیے ریاکاری و نفاق ، مکر و خداع اور بے حیائی و بے عزتی لازم ہے ، وہ نہ ہم میں ہے نہ ہماری شریعت اس کی اجازت دے ، پھر کام کیوں کر چلے ۔

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے نام پر چندہ

ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ کوئی ایک نمبری وہابی ایک با اثر صوفی کے یہاں چندہ لینے گیا ، انہوں نے فرمایا : سنا ہے تم احمد رضا کے مخالف ہو ، کہا : ’’حاشا ! میں تو اسی در کا کتا ہوں‘‘ اور کتا بن کر پانچ سو روپے لے آیا ۔

3 : ہمارے امیروں کی حالت
 بے چارے ہمارے امیر واغنیاء لوگوں کا حال یہ ہے کہ : ⬇

1 ۔ یہ اغنیاء نام و نمود چاہتے ہیں ۔
2 ۔ معصیت بلکہ صریح گمراہی و ضلالت کے کاموں میں ہزاروں لاکھوں اڑادیں اور خزانوں کے منہ کھول دیں ۔
3 ۔ یونیورسٹی ، کالجز ، اسکولوں ، ریلیف فنڈ ، فیشن شو وغیرہ کاموں کےلیے تو بہت جلد لاکھوں جمع ہو جاتا ہے ۔
4 ۔ کراچی کے ایک مدرسہ و مسجد کو ، جو غیروں کے تصرف میں ہے ، صرف ایک سنی نے دو کروڑ روپے دیے ۔
5 ۔ مگر کیا کسی سنی مدرسہ یا مسجد کو بھی یہ دن نصیب ہوتا ہے ؟ الا ماشاء ﷲ 
6 ۔ اول تو یہ لوگ دین و مسلک حق کی تائید کیا کریں گے ۔ یہ تو دین و مسلک حق کا نام لیتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں ۔
7 ۔ اور کہتے ہیں کہ میاں ! یہ تو ان مولویوں کے جھگڑے ہیں ، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ۔
8 ۔ اور اگر شرما شرمی میں کچھ معمولی رقم چندہ بھی مقرر کرلیں تو (جب تک اصرار اور سر پر سوار نہ ہوا جائے ، معمولی رقم بھی ادا کرنے سے جی چراتے ہیں) ۔ (سورۂ نسا ، 75/3)
9 ۔ بلکہ حال یہ ہے کہ اگر ان سے چندے کا تقاضا کرلیا جائے تو بگڑ جاتے ہیں ۔
10 ۔ اور اگر انہیں ڈھیل دے دی جائے تو سوئے رہتے ہیں ۔
11 ۔ ان سب کے علاوہ ایک بڑی کمی ہمارے ان امراء اور مالداروں کی بے توجہی اور لاپرواہی کی بھی ہے ۔

 دنیائے اہلسنت سے سوال
 اب دل پر ہاتھ رکھ کر سچ سچ فرمائیں کہ وہ قوم جوکہ اپنے میں سے کسی ’’عالم ذی فضل‘‘ کو ترقی کرتا نہ دیکھ سکے ۔ اپنے ناقصوں کو ’’کامل‘‘ اور اپنے قاصروں کو ’’ذی فضل‘‘ بنانے کی کیا کوشش کرے گی ؟ حاشا یہ کلیہ تو نہیں ہے ، مگر اکثر کا حکم کل کا حکم ہوتا ہے ۔ (ماخوذ : فتاویٰ رضویہ جلد 29 صفحہ 599-598،چشتی)

تبلٕغِ دین کے مشن میں ہمارا ساتھ دیجیے : ⬇

دین کا درد رکھنے والے مسلمان بھائیوں ، بیٹوں اور سبھی احباب سے گذارش ہے کہ : فتنوں کے اس دور میں فتنوں کا مقابلہ کرنے ، دین کی نشر و اشاعت کرنے اور دینی تعلیم عام کرنے میں ہمارا ساتھ دیں ۔ ادارہ کےلیے جگہ کی خریداری و تعمیر ۔ دین کی نشر و اشاعت ، دینی کتب تفاسیر قرآن اور کتب احادیث عربی اردو کی شروحات و دیگر اسلامی کتب کی : آیئے تفاسیر قرآن اور کتب احادیث کی خریداری میں ہمارا ساتھ دیجیے اور مستحق بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیم دینے کے اخراجات کے سلسلہ میں صاحب حیثیت مسلمان تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیرا ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : فیض احمد چشتی اکاؤنٹ نمبر 0001957900055503 حبیب بینک کیولری گراؤنڈ برانچ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں ۔ 03009576666 ،03215555970 ، اللہ تعالیٰ آپ سب کو اجرِ عظیم عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...