Sunday 18 January 2015

تعظیم کے مختلف درجے اورمسلمانوں کو مشرک کہنے والوں کا رد ۔ ترتیب و پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور پاکستان

0 comments

تعظیم کے معنی قول و فعل سے کسی کی بڑائی ظاہر کرنا، تو ہر چھوٹا جو اپنے کو واقعی چھوٹا سمجھتا ہے، وہ اپنے بڑے کی تعظیم کرتا ہے۔ اور ہر لحاظ سے اس کی بڑائی ظاہر کرتا ہے۔ شاگرد اپنے استاد کی۔ مرید اپنے پیر کی۔ اولاد اپنے باپ دادا کی اور نوکر اپنے مالک کی۔ یہاں تک کہ چھوٹا بھائی اپنے بڑے بھائی کی تعظیم کرتا ہے۔ اورکیوں نہ کرے کہ سرکار اقدسﷺ نے فرمایا: لیس منا من لم یرحم صغیرنا و لم یوقر کبیرنا (حوالہ ترمذی، مشکوٰۃ 423)

ترجمہ: جو ہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی تعظیم و توقیر نہ کرے وہ ہمارے راستے پر نہیں ہے۔

عرف عام میں تعظیم کے چار درجے ہیں

1۔ ان میں سب سے اعلیٰ درجہ تعظیم سجدہ ہے

2۔ دوسرا درجہ تعظیم رکوع ہے

3۔ تیسرا درجہ تعظیم دو زانو بیٹھنا ہے

4۔ چوتھا درجہ تعظیم کھڑا ہونا ہے

سجدہ سے تعظیم

سجدہ سے تعظیم اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کی تعظیم کرنا ہماری شریعت میں حرام ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ہے حدیث مروی ہے کہ آقائے دوجہاںﷺ نے فرمایا:

لوکنت امراحد ان یسجدہ لاحد لامرت المراۃ ان تسجد لزوجہا (مشکوٰۃ شریف 281)

ترجمہ: اگر میں کسی کو کسی مخلوق کے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو ضرورحکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔

اس حدیث کے تحت ملا علی قاری رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں۔

السجدۃ لاتحل لغیر اﷲ (مرقاۃ جلد سوم 467)

ترجمہ: اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو سجدہ جائز نہیں ہے۔ اور تحریر فرماتے ہیں شرح فقہ اکبر 230 میں السجدۃ حرام لغیرہ سبحانہ غیر اﷲ کے لئے سجدہ حرام ہے اور فتاویٰ عالمگیر جلد پنجم مصری 231 میں فتویٰ غرائب میں ہے

لایجوز السجود الا اﷲ تعالیٰ غیر اﷲ کے لئے سجدہ جائز نہیں

تعظیم کا دوسرا درجہ

تعظیم کا دوسرا درجہ یعنی بقدر رکوع جھک کر کسی کی تعظیم کرنا یہ بھی ہماری شریعت میں منع ہے۔ فتاویٰ عالمگیر جلد پنجم مصری 321 میں جواہر الاخلاطی سے ہے۔

الانحناء للسلطان او لغیرہ مکروہ لانہ بشبہ فعل المجوس

بادشاہ ہو یا کوئی دوسرا اس کے لئے بقدر رکوع جھکنا منع ہے کہ یہ آتش پرستوں کے فعل کے مشابہ ہے۔ شامی جلد پنجم 246 میں محیط سے ہے۔

یکرہ الانحناء للسلطان وغیرہ بادشاہ ہو یا کوئی دوسرا ہو اس کے لئے بقدر رکوع جھکنا منع ہے

تعظیم کا تیسرا اور چوتھا درجہ

تعظیم کا تیسرا اور چوتھا درجہ کہ کسی کی تعظیم کے لئے دو زانو بیٹھنا یا کھڑا ہونا یہ ہماری شریعت میں جائز ہیں۔ جب ابلیس مردود نبی کے اعلیٰ درجہ تعظیم سے انکار کرنے کے سبب دھتکار دیا گیا۔ مردود کردیا گیا تو جو شخص نبی کی تعظیم میں کھڑا ہونے سے بھی انکار کرے جوکہ تعظیم کا ادنیٰ درجہ ہیں تو وہ شخص بدرجہ اولیٰ مردود بارگاہ الٰہی ہوگا۔

جیسے کوئی بادشاہ اپنے محبوب کی تعظیم کے لئے درباریوںکو سجدہ کرنے کا حکم دے اور کوئی انکار کردے تو بادشاہ اس کو مردود قرار دے کر اپنے دربار سے نکال دے تو جو شخص اس کے محبوب کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونے سے بھی انکار کردے تو وہ بدرجہ اولیٰ بادشاہ کے عتاب کا مستحق ہوگا۔

تعظیم کے مختلف طریقے

تعظیم کے چار درجے بیان کئے گئے ان کے علاوہ تعظیم کے مختلف طریقے ہیں جن کو اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان فرمایا۔ اﷲ تعالیٰ پارہ 1 رکوع نمبر 5 میں فرماتا ہے۔

واستعینوا بالصبر والصلوٰۃ

صبر اور نماز سے مدد طلب کرو

صبر کی تین قسمیں ہیں جن کو اسی آیت کے تحت تفسیر صاوی میں بیان کیاگیا ہے۔

(1) مصیبت پر صبر کرنا (2) فرمانبرداریوں کی ہمیشگی پر صبر کرنا (3) گناہوں کے نہ کرنے سے صبر کرنا

فرمانبرداریوں کی ہمیشگی پر صبر کرنا اس میں نماز بھی شامل ہیں تو پھر اﷲ تعالیٰ نے صبر کے بعد صلوٰۃ کا ذکر کیوں فرمایا؟ اس کا جواب دیتے ہوئے علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے جلالین میں صلوٰۃ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:

افردھا بالذکر تعظیما لشانھا نماز کا الگ ذکر اس کی شان کی تعظیم کے لئے ہے

اسی طرح پارہ دوم رکوع نمبر 9 کی آیت مبارکہ (یاایھا الذین امنوا ادخلوا فی السلم کافۃ) کیشان نزول میں علامہ سیوطی علیہ الرحمہ نے فرمایا۔

نزل فی عبداﷲ بن سلام واصحابہ لما عطموا السبت

یہ آیت عبداﷲ بن سلام اور اس کے ساتھیوں کے حق میں نازل ہوئی جب انہوں نے سنیچر (ہفتہ) کے دن کی تعظیم کی۔ یعنی عبداﷲ بن سلام اور اس کے ساتھی پہلے یہودی تھے۔ مسلمان ہونے کے بعد وہ سنیچر کے دن کی عزت اس طرح کرتے تھے کہ اس روز شکار کو حرام سمجھتے تھے اور یہ اس دن کی تعظیم ہیں۔

اسی طرح پارہ 9 رکوع نمبر 4 میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ ذکر فرمایا کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں جادوگر جب میدان میں آئے تو انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دریافت کیا۔ اما ان تلقی واما ان تکون نحن الملقین (یا تو آپ علیہ السلام پہلے اپنا عصا ڈالیں یا تو ہم لوگ ڈالیں) تو جادوگروں کا یہ پوچھنا بھی تعظیم بنی تھی، اسی تعظیم کی بدولت وہ ایمان کی دولت سے مالا مال ہوئے تو پتہ چلا کہ نبی کی تعظیم کرنے سے ایمان نہیں جاتا بلکہ کافر ہو تو ایمان والا ہوجاتا ہے اور اگر ایمان والا ہو تو اس کا ایمان جلا پاتا ہے۔

شرک ٹھہرے جس میں تعظیم حبیب

اس برے مذہب پہ لعنت کیجئے

اسی طرح مردہ نہلانے کے تخت کو دھونی دینے کی علت بیان کرتے ہوئے شیخ برہان الدین ابو الاحسن علی مرغینانی فرماتے ہیں: لمافیہ من تعظیم المیت دھونی دینے میں میت کی تعظیم ہے۔ (ہدایہ ص 158 ج 1)

فقہائے کرام نے مسجدوں کی آرائش کو مستحب فرمایا۔ اس کی دلیل یہ بیان فرمائی کہ اس میں ان کی تعظیم ہے (شامی جلد اول 4442)

(نوٹ) معلوم ہوا کہ مسجدوں کو سجانا اور ان کو آراستہ کرنا ان کی تعظیم ہے اور یہ مستحب کام ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ صرف کھڑا ہونے کی تعظیم نہیں ہے بلکہ اس کے مختلف طریقے ہیں لہذا کسی کی آمد پر اسٹیشن جانا، اس کے گلے میں ہار ڈالنا، زندہ باد کے نعرے لگانا، اس کے لئے جلوس نکالنا، راستوں میں جھنڈیاں لگانا سب آنے والے کی تعظیم ہے۔ اسی طرح آنے والے کے لئے جگہ خالی کردینا اس کی تعظیم ہے۔ تعظیم نبی کو شرک کہنے والوں کے ہاں بھی غیر اﷲ کی تعظیم و تکریم کے بے شمار طریقے رائج ہیں مگر کسی دارالالفتاء کا کوئی مفتی ان باتوں کو شرک و کفر نہیں قرار دیتا، نہ حرام و ناجائز کہتا ہے لیکن جب اﷲ کے محبوب دانائے خفایا و غیوب جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفیﷺ کی تعظیم کی جاتی ہے تو آگ بگولا ہوجاتا ہے اور شرک وکفر کے گولے برسانے لگتا ہے۔

اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

شرک ٹھہرے جس میں تعظیم حبیب

اس برے مذہب پہ لعنت کیجئے

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔