Monday, 12 January 2015

گستاخ رسول ﷺ شریعت کے آئینے میں ۔ ترتیب و پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور پاکستان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گستاخ رسول مسلمان ہوکر بھی کافر:۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
القرآن=ولئن سالتھم لیقولن انما کنانخوض ونلعبoقل اباﷲا یاتہ و رسولہ کنتم تستھزئونo ولاتعتذرواقدکفرتم بعدایمانکم (سورہ توبہ آیت 66-65)
ترجمہ=اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرمائو کہ اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو۔بہانے نہ بنائو تم کافر ہوچکے ہو مسلمان ہوکر۔
تفسیر:۔ تفسیر در منثوراور الصارم علی المسلول میں ہے کہ یہ آیت مبارکہ اُس وقت نازل ہوئی جب غزوہ تبوک کے موقع پر بعض منافقین نے ایسی باتیں کیں جو حضوراکرم ﷺ کو اذیت کا باعث بنی مثلاً حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی آدمی کی اونٹنی گم ہوگئی تو جناب سرکارﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اونٹنی فلاں جنگل میں ہے اس پر ایک منافق بولا محمدصلی اللہ علیہ والہ وسلم غیب کیاجانیں۔تب یہ آیات اسی کی مذمت میں نازل ہوئیں تھیں
اس سے معلوم ہواکہ حضوراکرمﷺ کے علم غیب میں طعن کرنا بھی رسولﷺ کی توہین ہے اور علامت کفر ہے۔
گستاخِ رسولﷺ احادیث کے آئینے میں:
حدیث شریف:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال جب نبی کریمﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو آپﷺ نے اپنے سر انور پر’’خود‘‘(آہنی ٹوپی( پہن رکھی تھی جب آپ ﷺ نے اُسے اُتارا تو ایک شخص حاضر ہوا اورعرض کی یا رسول اللہﷺ ابن خطل (گستاخِ رسول) کعبۃ اللہ کے پردوں سے چمٹا ہواہے تو آپ ﷺ نے حکم دیا اُسے قتل کردو( مسلم شریف ،کتاب الحج، رقم الحدیث 3312،صفحہ نمبر572مطبوعہ دارالسلام ریاض سعودی عرب)
حدیث شریف:حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرمؑﷺنے فرمایا کعب بن اشرف (یہودی) کو کون قتل کریگا کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کواذیت(تکلیف) دی ہے۔محمد بن مسلمہ نے عرض کیا۔یارسول اللہﷺ ! کیا آپ پسند فرماتے ہیں کہ میں اس کو قتل کردوں ۔آپﷺ نے فرمایا جی ہاں۔ وہ کعب بن اشرف کے پاس گیا اور کہا کہ اس نے یعنی حضوراکرمﷺ نے ہم کو اوامر نواہی کا مکلف بنادیاہے اور ہم سے صدقات طلب کرتے ہیں محمد بن مسلمہ نے کہا کہ کعب بن اشرف نے کہا بخدا تم اس کے بعد اس سے بھی زیادہ تنگ پڑجائوگے۔
محمد بن مسلمہ نے کہا ہم نے اس کی اتباع کی ہے اور اس کا فراق پسند نہیں کرتے حتی کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا معاملہ کدھر جاتاہے وہ بہت دیر تک اس کے ساتھ محو گفتگو کرتے رہے حتی کہ اس پر قادر ہوگئے اور اس کو قتل کردیا۔(بخاری شریف جلد دوم،کتاب الجہاد ،رقم الحدیث 281،صفحہ نمبر153مطبوعہ شبیر برادرز لاہور پنجاب پاکستان)
حدیث شریف:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنی نجار سے ایک آدمی جوسورہ بقرہ اور سورہ ال عمران کو سیکھ رہاتھا اور کاتب وحی بھی تھا(یہ منافق بارگاہ مصطفوی میں گستاخی کا مرتکب ہوا) اور بھاگ کر اہل کتاب سے جاملا۔انہوں نے تعجب کیا ابھی ان کے پاس اُسے تھوڑا ہی عرصہ گزراتھا کہ وہ ہلاک ہوگیا لوگوں نے اس کیلئے قبر کھودکر اس میں دفن کردیا۔صبح ہوئی تو دیکھا کہ زمین نے اُسے باہر پھینک دیاہے اُسے پھر دفن کیا اگلے دن زمین پھراسے باہر پھینک دیااس سے اگلے دن پھر یہی ہوا اس پر لوگوں نے اسے ایسے ہی بے گورو کفن چھوڑدیا۔
( مسلم شریف عربی جلددوم صفحہ نمبر 370مطبوعہ کراچی)
حدیث شریف:حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ایک نابینا صحابی کی ام ولد تھی جو نبی کریم ﷺ کو سب و شتم کیاکرتی اور بدگوئی کرتی تھی اُس کا آقا منع کرتامگر بازنہ آتی ڈانٹ ڈپٹ کرتاتب بھی نہ کرتی۔ایک رات اس نے حضوراکرمﷺ کی بدگوئی کی اور سب و شتم کرتی رہی۔ پس صحابی رضی اللہ عنہ نے خنجر لے کر اس کے پیٹ پر رکھااور دبائو ڈال کر اسے قتل کردیا۔ چنانچہ اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان سے بچہ بھی برآمد ہواجس سے وہ خون میں لت پت ہوگئی۔صبح کے وقت نبی کریمﷺ سے اس بات کا ذکر ہوا تو آپ ﷺ نے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا۔میں ایسا کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کی قسم دیتاہوں اور اپنے حق کی جو میرا اس پر ہے کہ وہ کھڑا ہوجائے۔پس نابینا صحابی کھڑے ہوئے۔ لوگوں کو پھاندتے اور لرزتے ہوئے بڑھے، یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ کے سامنے جابیٹھے۔عرض گزار ہوئے کہ یارسول اللہﷺ ! میں اس کا مالک تھا وہ آپﷺکی شان میں بکواس کرتی تھی میں منع کرتاتو بازنہیں آتی تھی ڈانٹ ڈپٹ کرتاتب بھی نہ رکتی میرے اس سے دو بیٹے ہیں موتی جیسے اور میری غمخوارتھی۔گذشتہ رات جب وہ آپ ﷺ کو سب و شتم کرنے لگی اور ہجو گوئی (گستاخی) کی تو میں نے خنجر لے کر اس کے پیٹ پر رکھ دیا اور اس پر دبائو ڈال کر اسے قتل کردیا۔نبی کریمﷺ نے فرمایا لوگو! گواہ رہنا کہ اس کا خون رائیگاں گیا۔(سنن ابو دائود، کتاب الحدود، رقم الحدیث 4361صفحہ نمبر 613مطبوعہ دارالسلام ریاض سعودی عرب)
فائدہ:سرور کونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا گستاخ کافر و مرتد ہوجاتاہے گستاخ رسول ہرگز مسلمان نہیں رہتا۔وہ اپنی کلمہ گوئی کی اہانت رسول کے باعث خود ہی نفی کردیتاہے وہ اسلام کے دائرے سے باہر اور ایمان کی دولت سے محروم ہوجاتاہے خواہ دیکھنے والوں کوبظاہر حافظ و قاری وحاجی،مقررو قاضی عالم و فاضل اور مفتی وشیخ القرآن ہی کیوں نہ نظرآئے۔ اس کے تمام اعمال برباد ہیں مرتد واجب القتل ہے حکومت ایسے گندے وجود سے زمین کو پاک کردے جیسا کہ اس حدیث شریف میں خود حضور اکرمﷺ نے اپنی گستاخی کرنے والی عورت کے خون کو رائیگاں قرار دیااور اس کے قتل کاکوئی بدلہ نہیں دلوایاگیا لہٰذا ثابت ہواکہ گستاخ رسول واجب القتل ہے۔
گستاخ رسول صحابہ کرام کی نظر میں:۔
توہین رسالت اور صدیق اکبررضی اللہ عنہ:۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو والی یمن حضرت مہاجربن اُمیہ کے متعلق خبر ملی کہ وہاں (یمن میں )ایک عورت تھی جو حضوراکرمﷺ کی توہین میں اشعار گاتی تھی تو حضرت مہاجر رضی اللہ عنہ نے اس کے ہاتھ کاٹ دیئے اور اس کے اگلے دانت نکال دیئے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم نے اسے یہ سزانہ دی ہوتی تو تمہیں حکم دیتاکہ اس عورت کو قتل کردو۔کیونکہ انبیاء کرام کی گستاخی کی حددوسرے لوگوں کی(گستاخی کی) حدود کے مشابہ نہیں ہوتی ۔
(کتاب الشفاء صفحہ 222،الصارم علی المسلول صفحہ نمبر194)
توہین رسالت اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ:۔
حضرت مجاہد رضی اللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس ایک ایسے آدمی کو لایاگیا جس نے سرور کونینﷺ کو گالی دی تھی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کردیا پھر فرمایا اللہ تعالیٰ یا کسی نبی کو گالی دے تو اسے قتل کردو۔
(جواہر البحارجلد سوم صفحہ نمبر240الصارم علی المسلول صفحہ 195)
توہین رسالت اور مولیٰ علی رضی اللہ عنہ:۔
امام عبدالرزاق ابن تیمی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا جو شخص حضوراکرمﷺ کی طرف جھوٹ منسوب کرے اسے قتل کردیاجائے گا۔
(مصنف عبدالرزاق جلد پنجم صفحہ نمبر 306,307)
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور توہین رسالتﷺ :۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ جو کسی نبی کو گالی دے اسے قتل کردو اور جو میرے صحابہ کو گالی دے اسے کوڑے مارو(کتاب الشفاء جلد دوم صفحہ 122فتاوی خیریہ جلد اول صفحہ نمبر3)
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور توہین رسالتﷺ:۔
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایک (عیسائی) راہب گزرا جس کے بارے میں لوگوں نے کہا کہ یہ حضوراکرمﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرتاہے حضرت عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر میں اس سے گستاخانہ کلمات سن لیتاتو اس کی گردن اڑادیتا۔(جواہر البحار جلد سوم صفحہ نمبر241،تفسیر مظہری جلد چہارم صفحہ نمبر191،احکام القرآن جلد سوم صفحہ 85)
ادنیٰ سے بھی ادنیٰ ہو مسلمان تو اُس سے
برداشت نہ ہوپائے گی توہین رسالت
ناموس رسالت پر نہ ہوجو مرنے کی خواہش
بیکار ہے بیکار ہے ہر ایک عبادت
حضرت سعد ابن معاذ رضی اللہ عنہ اور توہین رسالت:۔
حضرت سعد ابن معاذ رضی اللہ عنہ نے یہود سے فرمایا کہ اگر تم نے دوبارہ بارگاہ رسالتﷺ میں’’راعنا‘‘کا لفظ بولا تو میں تمہیں قتل کردوں گا۔ (صاوی جلد اول صفحہ 47تفسیر خازن جلد اول صفحہ 72) کیونکہ اس لفظ میں توہین رسالتﷺ کا شبہ پایا جاتاہے ۔
آئو کہ کریں آج سے ہم سب یہ تہیہ
گستاخ نبیﷺ کیفرِ کردار کو پہنچے
اُلجھے گا جو عشاق سے مٹ جائے گا آخر
آواز مری دشمن سرکارﷺ کو پہنچے
گستاخ رسول علمائے اسلام کی نظر میں:۔
امام مصنف سراج الدین ابراہیم بن نجیم حنفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:۔
قول:اگر کوئی شخص حضوراکرمﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کی وجہ سے مرتد ہوا۔ اگر ایسا شخص توبہ بھی کر لے تو بھی اُسے قتل کردیاجائیگا اور قتل کو ساقط کرنے میں اس کی توبہ قبول نہ ہوگی خواہ وہ توبہ کرکے آئے یا اس کی توبہ پر شہادت موجود ہو باقی امور میں وجہء کفر کوئی اور شئے بن رہی ہو توتوبہ کا مسئلہ دیگر ہے۔اہانت رسالت میں نہیں۔
(بحوالہ:(النہرالفائق شرح کنزالدقائق مطبوعہ بیرون لبنان جلد تیسری صفحہ نمبر253)
2۔بحرالرائق جلد پنجم صفحہ نمبر125,126 مطبوعہ کوئٹہ ،الشیخ امام زین الدین ابن نحیم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:۔
ہر وہ شخص جو رسول اللہ ﷺ سے دلی بغض رکھے وہ مرتد ہوگا اس لئے آپﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والا بدرجہ اولیٰ مرتد ہوگا لہٰذا ایسے شخص کو قتل کردیاجائے اور اس کی توبہ قبول نہ ہوگی جس کی وجہ سے قتل کو ساقط کیاجاسکے یہی اہل کوفہ (احناف) اور امام مالک کا مسلک ہے۔
3۔تفسیر مظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کوئی بھی شخص جورسول اللہﷺ کی ذات عالیہ میں طعن کرے یا آپ ﷺ کے دین یاآپﷺ کے نسب یا من جملہ صفات میں سے کسی صفت میں یا آپ ﷺ کی طرف کوئی بھی برائی منسوب کرنے کی وجہ سے آپﷺ کو ایذا پہنچاتاہے یہ برائی خواہ صراحتاً ہو کنایتاً ہو یا اشارتاً ہو‘وہ کافر ہوجائے گا اگر(مسلمان نے ایسا کیا تو مرتد کہلائے گا) یہ کافر و مرتد پر اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں لعنت بھیجتاہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے جہنم کا عذاب تیار کررکھاہے۔
یہی قاضی صاحب مالابد کے صفحہ نمبر126پر رقمطراز ہیں:۔
جو ملعون سرکار دوعالمﷺ کی ذات عالیہ کی شان میں بکواس کرے یا اہانت کا مرتکب ہو یا دینی امور میں سے کسی امر کا یاحضوراکرمﷺ کے حلیہ مبارک میں سے کسی عضو کا یا آپﷺ کے اوصاف میں کسی وصف کا عیب نکالے ایساکرنے والاخواہ مسلمان تھا یا ذمی کافر یا حربی اگرچہ یہ سب کچھ اس نے مذاق میں کیا وہ واجب القتل ہے اور اس کی توبہ بھی قبول نہ ہوگی اس پر تمام اُمت کا اتفاق ہے۔
4۔علامہ امام خیر الدین رملی علیہ الرحمہ فتاویٰ خیریہ صفحہ 103مطبوعہ بیرون لبنان میں لکھتے ہیں۔ خیرالدین رملی علیہ الرحمہ نے فرمایا جو سرور کونین ﷺ کے لئے نازیبا کلمات کہتاہے وہ مرتد ہے اور اس کا حکم مرتدین کا حکم ہے (یعنی قتل کیاجانا) اس کی توبہ اصلاً قبول نہ ہوگی نیز اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے جو ایسے شخص کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافرہے۔
5۔ابنِ تیمیہ اپنی کتاب الصارم المسلول میں لکھتاہے:۔
گستاخ رسولﷺ سے توبہ کا مطالبہ کئے بغیر اسے قتل کیاجائیگا چاہے وہ اسلامی ملک کا رہنے والا ہو یا نہ ہو۔
ایمان کی کسوٹی ہے محبت شہہ دین کی
رہبر ہے مسلمان کا آئین رسالت
ہر شئے سے مقدم ہمیں ناموس نبیﷺ ہے
کیسے ہو گوارا بھلا توہین رسالت
6۔امام قاضی عیاض علیہ الرحمہ کتاب الشفاء جلد دوئم صفحہ نمبر29پر فرماتے ہیں۔
امام ابن عتاب مالکی علیہ الرحمہ کے حوالے سے لکھتے یں کہ آپ نے فرمایا کہ قرآن و حدیث اس بات کو واجب کرتے ہیں کہ جو بھی حضوراکرمﷺ کی ایذا کاارادہ کرے یا آپﷺ کی تنقیص کرے اشارتاً یاصراحتاً اگرچہ وہ توہین معمولی سی ہی کیوں نہ ہوتو اس کو قتل کرناواجب ہے۔
7۔امام احمدابن حنبل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔
جوشخص بھی حضوراکرمﷺ کو گالی دے یا آپ کی شان میں گستاخی کرے وہ مسلمان ہو یا کافر‘ اُسے قتل کیاجائے گا میرا خیال ہے کہ اس سے توبہ کا مطالبہ کئے بغیر قتل کردیاجائے گا۔ (الصارم المسلول صفحہ نمبر296)
8۔امام مالک علیہ الرحمہ کا فتویٰ
خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالک علیہ الرحمہ سے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا جو حضور اکرمﷺکی شان میں گستاخی کرے۔ ہارون الرشید نے لکھاتھا کہ عراق کے علماء نے شاتم رسول کو کوڑے لگانے کی سزا تجویز کی ہے آپ کا اس مسئلہ میں کیا فتویٰ ہے تو امام مالک علیہ الرحمہ نے غضب ناک ہوکر فرمایا ’’وہ اُمت زندہ کیسے رہے گی جو نبی مکرمﷺ کی شان میں سب و شتم (توہین رسالت) پر خاموش رہے جو کسی بھی نبی کو گالی دے اُسے قتل کیاجائیگا اور جو صحابہ کو گالی دے اسے کوڑے لگائے جائیں ‘‘۔(کتاب الشفاء جلد دوئم صفحہ نمبر223)
9۔امام ابوبکر احمدبن علی الرازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:۔
لیث نے ایسے مسلمان کے بارے میں فرمایا جو نبی پاکﷺ کو گالی دیتاہے بیشک اس(نام ونہاد مسلمان) سے نہ مناظرہ یاجائے نہ اسے مہلت دی جائے اور نہ ہی اس سے توبہ کا مطالبہ کیاجائے اور اسے اسی مقام پر ہی قتل کیاجائے (یعنی فوراً قتل کردیاجائے) اور یہی حکم توہین رسالت کرنے والے یہودی و نصرانی کاہے۔(کتاب : احکام القرآن)
10۔علامہ امام ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:۔
محیط میں ہے کہ بعض مشائخ کے نزدیک اگر کسی نے حضور اکرمﷺ کے شعر(بال)مبارک کو توہین کی نیت سے شعیر کہا تو وہ کافر ہوجائے گا اور بعض مشائخ کے نزدیک اگرچہ توہین کی نیت نہ بھی ہو تب بھی قائل کافر ہوجائیگا۔(رسائل ابن عابدین شامی صفحہ نمبر326مطبوعہ لاہور)
11۔امام قرطبی علیہ الرحمہ تفسیر قرطبی میں لکھتے ہیں:
اکثر علماء نے فرمایا کہ ذمی جب حضوراکرمﷺ کو گالی دے یا کسی بھی طریقے سے آپﷺ کی قدرومنزلت کم کرے تو اس کو قتل کیاجائے گا۔
(تفسیر قرطبی جلد 8صفحہ نمبر83)
12۔فقیہ قاضی خان کہتے ہیں:
کسی شئے میں حضوراکرمﷺ پر عیب لگانے والا کافرہوجائیگا اسی طرح بعض علماء نے فرمایا اگر کوئی شخص آپﷺ کے بال مبارک کو شعر کی بجائے شعیر(بصیغہ تقصیر) کہے تووہ کافر ہوجائے گا اور ابو حفض الکبیرسے منقول ہے کہ اگر کوئی شخص حضوراکرمﷺ کے کسی بال مبارک کی طرف بھی عیب منسوب کرتاہے تو وہ بھی کافر ہوجائے گا۔(فتاویٰ قاضی خان جلد چہارم صفحہ نمبر883)
اے نبی پاک ﷺلولاک پیمبر
بیٹھی ہے دوعالم پہ تری دھاک پیمبر
ہم پایہ تری عزت و ناموس کے کب ہے
یہ عظمت دین ،رفعتِ افلاک پیمبر
13۔حضرت علامہ امام شہاب الدین خفاجی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
حضرت ابوہریرہ سے منقول ہے کہ ایک روایت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جو بھی حضور اکرمﷺ کو گالی دے اس کے قتل کرنے پر تمام صحابہ کرام کا اجماع ہے ۔(شرح شفاء شریف جلد چہارم صفحہ نمبر485)
توہین رسالت کی سزا قتل ہے واجب
جو اس میں کرے شک وہ مسلمان نہیں ہے
جس میں نہ ہو سرکارﷺ پر مر مٹنے کا جذبہ
اس شخص کا کامل ابھی ایمان نہیں ہے
14۔امام محمد ابن سخون علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:۔
اس پر تمام علماء کا اجماع ہے کہ حضور اکرمﷺ کو گالی دینے والا کافرہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کی وعید ہے پوری اُمت کے نزدیک اس کا حکم قتل ہے اور جو اس کے کفر میں شک کرے وہ خود کافرہے۔(نسیم الریاض جلد چہارم صفحہ نمبر338)
15۔امام ابن ہمام حنفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں جو شخص حضور اکرمﷺ سے اپنے دل میں بغض رکھے وہ مرتد ہے اور آپﷺ کو گالی دینے والابدرجہ اولی مرتد ہوگاپھر ہمارے نزدیک اسے بطور حد(سزا) قتل کیاجائے۔(فتح القدیر جلد سوم صفحہ نمبر407)
16۔عثمان بن کنانہ سے مبسوط مروی ہے کہ مسلمانوں میں سے جو بھی حضوراکرمﷺ کو گالی دے(نازیبا الفاظ استعمال کرے) اسے قتل کیاجائے گا یا زندہ سولی پر لٹکایاجائیگا اور اس کی توبہ قبول نہ کی جائے گی۔ (کتاب الشفاء جلد دوئم صفحہ نمبر216)
17۔امام ابوبکر احمد بن علی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔
اس مسئلہ میں کسی مسلمان کا اختلاف نہیں کہ جس شخص نے بھی حضوراکرمﷺ کی توہین کی اور آپﷺ کو اذیت پہنچانے کا قصد کیا اور وہ مسلمان کہلاتاہو، وہ مرتد ہے اور مستحق قتل ہے۔ (احکام القرآن جلد 3صفحہ نمبر106)
اپناتو عقیدہ ہے یہی روز ازل سے
گستاخ نبیﷺ کوئی مسلمان نہیں ہے
ناموس رسالت سے نہیں جس کو سروکار
بدبخت ہے وہ صاحب ایمان نہیں ہے
توہین رسالت اور پاکستانی قوانین:۔
تعزیرات پاکستان دفعہ 295cحضوراکرمﷺ کیلئے توہین آمیز کلمات کا استعمال ۔’’کوئی شخص بذریعہ الفاظ زبانی ،تحریری یا اعلانیہ اشارتاً بہتان تراشی کرے اور حضوراکرمﷺ کے نام مبارک کی بے حرمتی کرے اُسے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی اور وہ جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا
نوٹ:عمر قید اور جرمانہ کی سزا وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے تحت 30اپریل 1991؁ء کو ختم ہوچکی ہے اب گستاخ رسول کیلئے پاکستانی قوانین کے تحت صرف اور صرف سزائے موت ہے۔
پاکستانی قانون میں پہلے سے گستاخ رسول کی سزا موت نہ تھی بلکہ علمائے اہلسنت خصوصاً حضرت علامہ مولانا سید شاہ تراب الحق قادری صاحب نے اپنی کوششوں سے جب آپ ممبر قومی اسمبلی تھے‘ گستاخ رسول کی سزا آئین کی شق 295cسے تحت سزائے موت تجویز کرواکر بارگاہ رسالت سے سعادت حاصل کی۔
گستاخ رسول کی توبہ کا کیا فائدہ؟
بعض لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ آتاہے کہ جب گستاخ رسول کی سزا موت ہی ہے تو پھر اُس کی توبہ سے کیسے فائدہ ؟سچے دل سے توبہ کرنے سے موت کے اس کی نماز جنازہ بھی پڑھی جائے گی اور ہمیشہ کیلئے جہنم میں جانے سے بچ جائے گا۔

آج کئی برس کے بعد حکومت پاکستان یہود ونصاریٰ اور قادیانیوں کوراضی کرنے کیلئے گستاخ رسول کی سزا میں ترمیم کرنے کے درپے ہے مگر حکومت پاکستان کو سوچنا چاہیے کہ گستاخ رسول کیلئے سزائے موت جناب رسالت مآبﷺ نے تجویز فرمائی ہے جسے کوئی بھی حاکم تبدیل نہیں کرسکتالہٰذا حکومت پاکستان امریکی ایماء پر اس سزا میں ترمیم کرنے کے خواب دیکھنا چھوڑدے کیونکہ جو فیصلہ چودہ سوسال پہلے حضوراکرمﷺ نے خود دیدیا اُسے کوئی بھی تبدیل نہیں کرسکتا۔گستاخ رسول کی نیت کا بھی اعتبار نہیں ہوگا وہ گستاخی کرنے کے بعد یہ کہے کہ میری گستاخی کی نیت نہ تھی اس کے باوجود علمائے اسلام کے فتوئوں کے تحت اُسے قتل کیاجائے گا

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...