۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نسل آف نیشنل افیئرز (سی این اے) قومی مسائل پر سوچ بچار کرنے والوں کا فورم سے جو گزشتہ پندرہ سال سے باقاعدگی کے ساتھ ہفتہ وار نشست منعقد کررہا ہے۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی ایسا سیاسی و مذہبی رہنما اور دانشور ہو جس نے اس فورم میں بطور گیٹ کیپر شرکت نہ کی ہو۔ سی این اے کو ایک نمائندہ قومی فورم کہا جاسکتا ہے کیونکہ اخبارات کے سینئر ایڈیٹر‘ سینئر کالم نویس‘ کالجوں اور یونیورسٹی کے پروفیسر تجارت وکالت اور سیاست سے تعلق رکھنے والے افراد‘ ریٹائرڈ فوجی‘ مذہبی جماعتوں سے جڑے ہوئے افراد اور سرونگ سرکاری ملازمین اس فورم کے مستقل رکن ہیں۔ نشست کی صدارت عام طور پر مصطفی میرانی کرتے ہیں جو کرنٹ ایشوز پر بحث کو اوپن کرتے ہیں اور شرکاء اپنے مشاہدات و تاثرات بیان کرتے ہیں۔ گزشتہ نشست میں مصطفی پر بحث کو اوپن کرتے ہیں اور شرکاء اپنے مشاہدات و تاثرات بیان کرتے ہیں گزشتہ نشست میں مصطفی میرانی شریک نہ ہوسکے اور اس کی صدارت فورم کے سینئر رکن کرنل (ر) اکرام اﷲ نے کی۔ کرنل صاحب نے فورم کی روایت کے برعکس مجھے ڈسکشن اوپن کرنے کی دعوت دی اور کرنٹ ایشو کا انتخاب بھی مجھ پر چھوڑ دیا۔ میں نے توہین آمیز کارٹونوں کی عالمی میڈیا میں اشاعت پر بات کی۔ فورم کے تمام شرکاء نے توہین رسالت کی اس شرمناک کوشش کی پرزور مذمت کرتے ہوئے گہرے دکھ اور کرب کا اظہار کیا اور اس المیہ کے پس منظر اور پیش منظر پر مدلل روشنی ڈالی۔
فورم کے اراکین متعلق تھے کہ توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے پیچھے سازش کار فرما ہے جو اسلام دشمنی پر مبنی ہے۔ کیونکہ یہ خاکے احتجاج کے باوجود ڈنمارک کے علاوہ کئی دوسرے ملکوں نے بھی شائع کئے۔ مسلم امہ نے اس المیہ کے خلاف احتجاج کیا مگر مسلم ممالک کے حکمران اور سیاسی و مذہبی لیڈر پرزور احتجاج اور مذمت سے قاصر رہے۔ ڈاکٹر اجمل نیازی نے کہا کہ وہ اس واقعہ کے بعد غازی علم دین شہید کے مزار گئے اور آنسو بہائے ان کی جانب سے یہ مذمت اور احتجاج کا انوکھا اظہار تھا۔ عالم اسلام کو یورپی مصنوعات پر پابندی لگانی چاہئے کیونکہ اقتصادی بائیکاٹ کے علاوہ اور کوئی حربہ کارگر نہیں ہوگا۔ ایک اخبار کے سینئر ایڈیٹر نے کہا۔ لاہور کے ایک لاء کالج کے پرنسپل نے بتایا کہ انہوں نے اپنے رفقاء اور طلباء کو مشورہ دیا کہ وہ بی بی سی کو سخت پیغامات ارسال کریں تاکہ بی بی سی توہین آمیز خاکے ٹیلی کاسٹ کرنے سے باز رہے۔ ان کا خیال تھا کہ پارلیمنٹ کو توہین رسالتﷺ کا خصوصی قانون پاس کرنا چاہئے جس کا اطلاق پاکستان کی علاقائی سرحدوں کے باہر بھی ہوسکے۔
یونیورسٹی کے پروفیسر نے جو عالمی سیمیناروں میں شریک ہوتے رہتے ہیں‘ اپنے ذاتی مشاہدے کے حوالے سے بتایا کہ یہودی اسرائیل اور اپنے برگزیدہ لیڈروں کے بارے میں معمولی تنقید بھی برداشت نہیں کرتے اور کئی یورپی ممالک میں نازی ازم کا پرچار اور ہولوکاسٹ (یہودیوں کا قتل عام) سے انکار فوجداری جرم ہے۔ سعودی عرب‘ لیبیا‘ کویت اور ایران نے احتجاج کے طور پر ڈنمارک اور ناروے سے اپنے سفیر واپس بلالئے مگر پاکستان کی حکومت نے سخت اقدام سے گریز کیا ہے نوجوان کالم نگار نے رائے ظاہر کی۔ ایک دانشور کے خیال میں مسلم ممالک کے حکمران چونکہ غیر نمائندہ اور غیر منتخب ہیں‘ اس لئے وہ عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرنے کی بجائے عالمی طاقتوں کے دبائو میں رہتے ہیں ۔ایک دانشور (جو سرکاری ملازم بھی ہیں) کا موقف تھا کہ آزادی اظہار کا ایک بہانہ ہے۔ توہین سالتﷺ جیسا انتہائی اقدام سوچی سمجھی اسکیم ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹ کسی ملک کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ دوسرے ملکوں کے شہریوں کے مذہب اور عقیدے کی توہین کرے۔ ایک صحافی کا خیال تھا کہ عالم اسلام میں امریکہ کے خلاف نفرت روز بروز بڑھ رہی ہے لہذا اس نے نفرت کا رخ یورپ کی جانب موڑنے کے لئے توہین آمیز خاکے یورپی اخبارات میں شائع کرائے ہیں۔ سی این اے کے اجلاس میں حکومت اور سیاسی لیڈروں سے سخت اور موثر موقف اختیار کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ سی این اے کے ارکان نے اتفاق رائے سے اس اہم اور حساس موضوع پر سیمینار منعقد کرانے کا فیصلہ کیا۔
اور اب ذرا براہ راست گفتگو ہوجائے۔ کوئی انسان اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا‘ جب تک وہ حضرت محمدﷺ کی رسالت اور حرمت کا اقرار نہ کرلے۔ کلمہ میں یہی اقرار شامل ہے۔ ہم ہر نماز میں حضور اکرمﷺ پر درود وسلام بھیجتے ہیں اس کے بغیر ہماری نماز مکمل نہیں ہوسکتی۔ قرآن پاک رسول خداﷺ کی صفات سے بھرا پڑا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے دلوں میں حضورﷺ کی محبت کمزور کیوں پڑنے لگی ہے۔ ہم خشوع و خضوع کے ساتھ نعتیں پڑھتے اور سنتے ہیں۔ عید میلاد النبیﷺ پر بجلی کے قمقمے روشن کرتے ہیں مگر اپنے دلوں کے اندر چراغ مصطفی روشن نہیں کرتے ۔ ہم مسلمانوں نے خط لکھ کر نواسہ رسول کو کوفہ بلایا اور پھر خود ہی اپنے ہاتھوں سے آل رسولﷺ کو شہید کردیا۔
اقبال نے درست کہا تھا۔
یوں تو مرزا بھی ہو سید بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلمان بھی ہو
مسلمان ہونا اتنا آسان نہیں ہے جتنا ہم نے تصور کرلیا ہے۔ مسلمان ہونے کے لئے شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا پڑتا ہے۔ جب ہمارے اپنے کردار ہی سیرت رسولﷺ کے مطابق نہیں اور بدن ہی روح محمدﷺ سے خالی ہیں تو غیر مسلم ہمیں شکار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کریں گے۔ ہم مسلمان اگر اپنے ذاتی کردار مضبوط اور مستحکم کرلیں تو دنیا کی کوئی قوم ہمیں چیلنج کرنے کی جرات نہیں کرسکتی۔
امریکہ طاقت کے نشے میں سرشار ہے۔ اس نے ایک جانب القاعدہ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کے خلاف عالمی جنگ شروع کررکھی ہے اور دوسری جانب ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے جن کی وجہ سے لوگ انتہا پسندی کی جانب مائل ہورہے ہیں۔ جنرل (ر) حمید گل نے ایک پبلک فورم پر کہا ہے کہ اگر امریکہ اور مغرب نے ہماری اسلامی غیرت اور حمیت کو للکارا تو وہ خودکش حملہ کرنے پر راغب ہوں گے۔ امریکہ نے پاکستان کے زلزلہ زدگان کی مدد کرکے جو ہمدردی حاصل کی‘ اسے پہلے باجوڑ پر حملہ کرکے اور اب توہین رسالتﷺ کے اقدام سے نظریں چرا کر گنوا دیا ہے‘ القاعدہ عالم اسلام کو متحرک نہیں کرسکی۔ ڈنمارک‘ ناروے اور دوسرے یورپی ممالک نے توہین آمیز خاکے شائع کرکے پورے عالم اسلام میں جوش و خروش اور ولولہ پیدا کردیا ہے۔
عالم اسلام کے مسلمان بیدار ہورہے ہیں‘ انہوں نے پرجوش اجتماعی مظاہرے کئے ہیں۔ کچھ مظاہرے پر تشدد بھی ہوئے جن میں مسلمانوں کی اپنی جانیں بھی قربان ہوگئیں۔ مغرب نے مسلمانوں کے خلاف انتہائی اقدام کیا ہے اس کے خلاف احتجاج ہرصورت ہونا چاہئے مگر یہ احتجاج موثر مگر پرامن ہونا چاہئے۔ مسلمان اگر اپنی املاک کو نقصان پہنچائیں گے تو اسلام دشمن عناصر اپنے مقاصد میں کامیاب نظر آئیں گے۔ تاریخ کے معروف جنرل پیٹن (Patten) نے کہا تھا۔
’’آپ اپنے ملک کے لئے جان دے کر کبھی جنگ نہیں جیت سکتے۔ آپ صرف اس صورت میں جنگ جیت سکتے ہیں کہ دوسروں کو اپنے ملکوں کے لئے مرنے دیں۔‘‘ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان اگر یورپی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیں تو یورپ اور امریکہ کے کارخانے بند ہوجائیں۔ اس سے بڑا مہلک اور موثر ہتھیار اور کوئی ہو نہیں سکتا۔
نائن الیون کے بعد اسلام امریکہ اور یورپ میں بڑی تیزی سے پھیلا ہے۔ مسلمانوںکی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ غیر مسلم خوفزدہ ہیں۔ ہمیں دانشمندی پر مبنی حکمت عملی وضع کرنی ہے۔ مہم جوئی سے گریز کرنا ہے‘ تاکہ امریکہ اور یورپ کے مسلمان بھی محفوظ اور مامون رہیں۔ او آئی سی کوئی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ عالم اسلام کے دانشوروں کا امتحان ہے۔ وہ عالمی کانفرنس بلائیں اور ایسا متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں جو اسلام اور انسانیت کی بقاء کا ضامن ہو۔ لاہور ہائی کورٹ بار اگر توہین آمیز خاکوں کا مسئلہ عالمی عدالت انصاف میں لے جائے تو یہ ایک دانشمندانہ اقدام ہوگا۔ آج ہر فورم پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں کارروائی سے عمل کی جانب قدم اٹھانا ہے۔ اگر مسلمان ناموس رسالتﷺ کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے تو پھر اجتماعی موت ان کا مقدر ہوگی۔
پاکستانی حکمران عالم اسلام کے رہبر ہونے کے دعویدار رہے ہیں۔ پاکستان کو عملی طور پر ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اسلام کا قلعہ ہے اور عالم اسلام کی رہبری کے قابل ہے۔ پاکستان کے حکمران اگر ناموس رسالتﷺ کے تحفظ کو یقینی نہیں بنا سکتے تو پھر انہیں رہبری کا خیال دل سے نکال دینا چاہئے۔ ہم بش کو خوش کرنے کے لئے ہر قدم اٹھانے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں مگر اپنے رسولﷺ کو خوش کرنے کے لئے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہم میں اتنی جرات بھی نہیں کہ یورپی ممالک سے اپنے سفیر بھی واپس بلالیں۔
اگر مسلمان ممالک عراق پر متفقہ موقف اختیار کرتے تو امریکہ کا عراق پر حملہ آسان نہ ہوتا۔ اب بھی عالم اسلام کو ایران کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہئے اگر مسلمان ممالک مشترکہ حکمت عملی طے کرنے میں ناکام رہے تو وہ باری باری امریکہ اور مغرب کے عزائم کا شکار ہوتے رہیں گے۔ مسلمان ملکوں کے حکمرانوں اور عوام کی سوچ میں فاصلے بڑھتے جارہے ہیں۔ جو عالم اسلام کے مستقبل کے لئے انتہائی مہلک ثابت ہوسکتے ہیں۔ عوام اور حکمرانوں کی سوچ میں ہم آہنگی پیدا کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ حقیقی جمہوریت کے اصول پر مکمل عمل کیا جائے۔
مسلمان حکمران اپنے تحفظ پر اربوں روپے خرچ کررہے ہیں۔ وہ اسلام کے خلاف میڈیا وار کا مقابلہ کرنے اور اسلام کے تحفظ کے لئے وائس آف اسلام کے نام سے میڈیا چینل شروع کیوں نہیں کرتے۔ یارسول اﷲﷺ مسلمان کتنے ہی گناہ گار کیوں نہ ہوں‘ وہ بیدار ہیں اور آپﷺ کی ناموس اور حرمت و دفاع کے لئے اپنی جان اور اپنے مال کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔
(روزنامہ جناح 16 فروری 2006)
فورم کے اراکین متعلق تھے کہ توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے پیچھے سازش کار فرما ہے جو اسلام دشمنی پر مبنی ہے۔ کیونکہ یہ خاکے احتجاج کے باوجود ڈنمارک کے علاوہ کئی دوسرے ملکوں نے بھی شائع کئے۔ مسلم امہ نے اس المیہ کے خلاف احتجاج کیا مگر مسلم ممالک کے حکمران اور سیاسی و مذہبی لیڈر پرزور احتجاج اور مذمت سے قاصر رہے۔ ڈاکٹر اجمل نیازی نے کہا کہ وہ اس واقعہ کے بعد غازی علم دین شہید کے مزار گئے اور آنسو بہائے ان کی جانب سے یہ مذمت اور احتجاج کا انوکھا اظہار تھا۔ عالم اسلام کو یورپی مصنوعات پر پابندی لگانی چاہئے کیونکہ اقتصادی بائیکاٹ کے علاوہ اور کوئی حربہ کارگر نہیں ہوگا۔ ایک اخبار کے سینئر ایڈیٹر نے کہا۔ لاہور کے ایک لاء کالج کے پرنسپل نے بتایا کہ انہوں نے اپنے رفقاء اور طلباء کو مشورہ دیا کہ وہ بی بی سی کو سخت پیغامات ارسال کریں تاکہ بی بی سی توہین آمیز خاکے ٹیلی کاسٹ کرنے سے باز رہے۔ ان کا خیال تھا کہ پارلیمنٹ کو توہین رسالتﷺ کا خصوصی قانون پاس کرنا چاہئے جس کا اطلاق پاکستان کی علاقائی سرحدوں کے باہر بھی ہوسکے۔
یونیورسٹی کے پروفیسر نے جو عالمی سیمیناروں میں شریک ہوتے رہتے ہیں‘ اپنے ذاتی مشاہدے کے حوالے سے بتایا کہ یہودی اسرائیل اور اپنے برگزیدہ لیڈروں کے بارے میں معمولی تنقید بھی برداشت نہیں کرتے اور کئی یورپی ممالک میں نازی ازم کا پرچار اور ہولوکاسٹ (یہودیوں کا قتل عام) سے انکار فوجداری جرم ہے۔ سعودی عرب‘ لیبیا‘ کویت اور ایران نے احتجاج کے طور پر ڈنمارک اور ناروے سے اپنے سفیر واپس بلالئے مگر پاکستان کی حکومت نے سخت اقدام سے گریز کیا ہے نوجوان کالم نگار نے رائے ظاہر کی۔ ایک دانشور کے خیال میں مسلم ممالک کے حکمران چونکہ غیر نمائندہ اور غیر منتخب ہیں‘ اس لئے وہ عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرنے کی بجائے عالمی طاقتوں کے دبائو میں رہتے ہیں ۔ایک دانشور (جو سرکاری ملازم بھی ہیں) کا موقف تھا کہ آزادی اظہار کا ایک بہانہ ہے۔ توہین سالتﷺ جیسا انتہائی اقدام سوچی سمجھی اسکیم ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹ کسی ملک کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ دوسرے ملکوں کے شہریوں کے مذہب اور عقیدے کی توہین کرے۔ ایک صحافی کا خیال تھا کہ عالم اسلام میں امریکہ کے خلاف نفرت روز بروز بڑھ رہی ہے لہذا اس نے نفرت کا رخ یورپ کی جانب موڑنے کے لئے توہین آمیز خاکے یورپی اخبارات میں شائع کرائے ہیں۔ سی این اے کے اجلاس میں حکومت اور سیاسی لیڈروں سے سخت اور موثر موقف اختیار کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ سی این اے کے ارکان نے اتفاق رائے سے اس اہم اور حساس موضوع پر سیمینار منعقد کرانے کا فیصلہ کیا۔
اور اب ذرا براہ راست گفتگو ہوجائے۔ کوئی انسان اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا‘ جب تک وہ حضرت محمدﷺ کی رسالت اور حرمت کا اقرار نہ کرلے۔ کلمہ میں یہی اقرار شامل ہے۔ ہم ہر نماز میں حضور اکرمﷺ پر درود وسلام بھیجتے ہیں اس کے بغیر ہماری نماز مکمل نہیں ہوسکتی۔ قرآن پاک رسول خداﷺ کی صفات سے بھرا پڑا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے دلوں میں حضورﷺ کی محبت کمزور کیوں پڑنے لگی ہے۔ ہم خشوع و خضوع کے ساتھ نعتیں پڑھتے اور سنتے ہیں۔ عید میلاد النبیﷺ پر بجلی کے قمقمے روشن کرتے ہیں مگر اپنے دلوں کے اندر چراغ مصطفی روشن نہیں کرتے ۔ ہم مسلمانوں نے خط لکھ کر نواسہ رسول کو کوفہ بلایا اور پھر خود ہی اپنے ہاتھوں سے آل رسولﷺ کو شہید کردیا۔
اقبال نے درست کہا تھا۔
یوں تو مرزا بھی ہو سید بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلمان بھی ہو
مسلمان ہونا اتنا آسان نہیں ہے جتنا ہم نے تصور کرلیا ہے۔ مسلمان ہونے کے لئے شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا پڑتا ہے۔ جب ہمارے اپنے کردار ہی سیرت رسولﷺ کے مطابق نہیں اور بدن ہی روح محمدﷺ سے خالی ہیں تو غیر مسلم ہمیں شکار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کریں گے۔ ہم مسلمان اگر اپنے ذاتی کردار مضبوط اور مستحکم کرلیں تو دنیا کی کوئی قوم ہمیں چیلنج کرنے کی جرات نہیں کرسکتی۔
امریکہ طاقت کے نشے میں سرشار ہے۔ اس نے ایک جانب القاعدہ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کے خلاف عالمی جنگ شروع کررکھی ہے اور دوسری جانب ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے جن کی وجہ سے لوگ انتہا پسندی کی جانب مائل ہورہے ہیں۔ جنرل (ر) حمید گل نے ایک پبلک فورم پر کہا ہے کہ اگر امریکہ اور مغرب نے ہماری اسلامی غیرت اور حمیت کو للکارا تو وہ خودکش حملہ کرنے پر راغب ہوں گے۔ امریکہ نے پاکستان کے زلزلہ زدگان کی مدد کرکے جو ہمدردی حاصل کی‘ اسے پہلے باجوڑ پر حملہ کرکے اور اب توہین رسالتﷺ کے اقدام سے نظریں چرا کر گنوا دیا ہے‘ القاعدہ عالم اسلام کو متحرک نہیں کرسکی۔ ڈنمارک‘ ناروے اور دوسرے یورپی ممالک نے توہین آمیز خاکے شائع کرکے پورے عالم اسلام میں جوش و خروش اور ولولہ پیدا کردیا ہے۔
عالم اسلام کے مسلمان بیدار ہورہے ہیں‘ انہوں نے پرجوش اجتماعی مظاہرے کئے ہیں۔ کچھ مظاہرے پر تشدد بھی ہوئے جن میں مسلمانوں کی اپنی جانیں بھی قربان ہوگئیں۔ مغرب نے مسلمانوں کے خلاف انتہائی اقدام کیا ہے اس کے خلاف احتجاج ہرصورت ہونا چاہئے مگر یہ احتجاج موثر مگر پرامن ہونا چاہئے۔ مسلمان اگر اپنی املاک کو نقصان پہنچائیں گے تو اسلام دشمن عناصر اپنے مقاصد میں کامیاب نظر آئیں گے۔ تاریخ کے معروف جنرل پیٹن (Patten) نے کہا تھا۔
’’آپ اپنے ملک کے لئے جان دے کر کبھی جنگ نہیں جیت سکتے۔ آپ صرف اس صورت میں جنگ جیت سکتے ہیں کہ دوسروں کو اپنے ملکوں کے لئے مرنے دیں۔‘‘ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان اگر یورپی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیں تو یورپ اور امریکہ کے کارخانے بند ہوجائیں۔ اس سے بڑا مہلک اور موثر ہتھیار اور کوئی ہو نہیں سکتا۔
نائن الیون کے بعد اسلام امریکہ اور یورپ میں بڑی تیزی سے پھیلا ہے۔ مسلمانوںکی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ غیر مسلم خوفزدہ ہیں۔ ہمیں دانشمندی پر مبنی حکمت عملی وضع کرنی ہے۔ مہم جوئی سے گریز کرنا ہے‘ تاکہ امریکہ اور یورپ کے مسلمان بھی محفوظ اور مامون رہیں۔ او آئی سی کوئی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ عالم اسلام کے دانشوروں کا امتحان ہے۔ وہ عالمی کانفرنس بلائیں اور ایسا متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں جو اسلام اور انسانیت کی بقاء کا ضامن ہو۔ لاہور ہائی کورٹ بار اگر توہین آمیز خاکوں کا مسئلہ عالمی عدالت انصاف میں لے جائے تو یہ ایک دانشمندانہ اقدام ہوگا۔ آج ہر فورم پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں کارروائی سے عمل کی جانب قدم اٹھانا ہے۔ اگر مسلمان ناموس رسالتﷺ کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے تو پھر اجتماعی موت ان کا مقدر ہوگی۔
پاکستانی حکمران عالم اسلام کے رہبر ہونے کے دعویدار رہے ہیں۔ پاکستان کو عملی طور پر ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اسلام کا قلعہ ہے اور عالم اسلام کی رہبری کے قابل ہے۔ پاکستان کے حکمران اگر ناموس رسالتﷺ کے تحفظ کو یقینی نہیں بنا سکتے تو پھر انہیں رہبری کا خیال دل سے نکال دینا چاہئے۔ ہم بش کو خوش کرنے کے لئے ہر قدم اٹھانے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں مگر اپنے رسولﷺ کو خوش کرنے کے لئے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہم میں اتنی جرات بھی نہیں کہ یورپی ممالک سے اپنے سفیر بھی واپس بلالیں۔
اگر مسلمان ممالک عراق پر متفقہ موقف اختیار کرتے تو امریکہ کا عراق پر حملہ آسان نہ ہوتا۔ اب بھی عالم اسلام کو ایران کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہئے اگر مسلمان ممالک مشترکہ حکمت عملی طے کرنے میں ناکام رہے تو وہ باری باری امریکہ اور مغرب کے عزائم کا شکار ہوتے رہیں گے۔ مسلمان ملکوں کے حکمرانوں اور عوام کی سوچ میں فاصلے بڑھتے جارہے ہیں۔ جو عالم اسلام کے مستقبل کے لئے انتہائی مہلک ثابت ہوسکتے ہیں۔ عوام اور حکمرانوں کی سوچ میں ہم آہنگی پیدا کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ حقیقی جمہوریت کے اصول پر مکمل عمل کیا جائے۔
مسلمان حکمران اپنے تحفظ پر اربوں روپے خرچ کررہے ہیں۔ وہ اسلام کے خلاف میڈیا وار کا مقابلہ کرنے اور اسلام کے تحفظ کے لئے وائس آف اسلام کے نام سے میڈیا چینل شروع کیوں نہیں کرتے۔ یارسول اﷲﷺ مسلمان کتنے ہی گناہ گار کیوں نہ ہوں‘ وہ بیدار ہیں اور آپﷺ کی ناموس اور حرمت و دفاع کے لئے اپنی جان اور اپنے مال کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔
(روزنامہ جناح 16 فروری 2006)
No comments:
Post a Comment