تحریر یہ ھے : ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراماتِ اولیاء کرام رحمہم اللہ کے متعلق
اہل سنت والجماعت کا مذہب
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
ترجمہ
شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ
کراماتِ اولیاء رحمہ اللہ علیہم کے متعلق اہل سنت والجماعت کے اجمالی اصول
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ عقیدے کے موضوع پر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ کی مایہ ناز ومشہور تصنیف "عقیدۂ واسطیہ" کے باب : کرامات اولیاء کے متعلق اہل سنت والجماعت کا مذہب کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے فرمایا: ‘‘اہل سنت کے (عقیدے کے) اصول میں سے یہ بات بھی ہےکہ کرامات اولیاء اور جو خرقِ عادت امور، مختلف علوم ومکاشفات اور مختلف قسم کی قدرتوں اور تأثیرات کے حوالے سے ان کے ہاتھوں رونما ہوتے ہیں، کی تصدیق کی جائے۔ اسی طرح سے سابقہ امت سے سورۂ کہف وغیرہ میں جو منقول ہے اور اس امت کے اول طبقہ صحابہ کرام، تابعین y اور امت کے دیگر افراد سے جو کرامات منقول ہیں، کی تصدیق کی جائے۔ اور یہ کرامات اس امت میں قیامت تک موجود رہیں گی’’۔
کرامت کی لغوی تعریف
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
لغت کے اعتبار سے"کرامات" لفظ "کرامۃ" کی جمع ہے، جس کا معنی ہے "خارقِ عادت امر" یعنی انسانوں میں معلوم ومعروف امر کے برعکس امر کا وقوع۔
کرامت کی شرعی تعریف
شرعی اصطلاح میں کرامت سے مراد وہ خرق ِعادت امور جنہیں اللہ تعالی اپنے اولیاء کے ہاتھوں پر جاری فرماتا ہے۔
ولی کی شرعی تعریف
"الاولیاء" لفظ "ولی" کی جمع ہے۔ اور ولی (ہر) مومن ومتقی شخص کو کہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (62) الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ
(یونس: 62-63)
(یاد رکھو اللہ تعالی کے دوستوں (اولیاء اللہ) پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔ یہ وہ ہیں کہ جو ایمان لائے اور (برائیوں) سے پرہیز کرتے ہیں یعنی تقوی اختیار کرتے ہیں)
ولی کی لغوی تعریف
"الولی" لفظ "الولاء" سے مشتق ہے جس کا معنی محبت وقرب ہے۔
ولی اللہ کون ہوتا ہے؟
پس "ولی اللہ" وہ شخص ہوتا ہے جو اللہ تعالی کی پسند اور مرضی کے کاموں میں اس کی موافقت کرکے اس سے محبت کرتا ہو۔
کراماتِ اولیاءرحمہ اللہ علیہم کے متعلق لوگوں کی تین اقسام
کراماتِ اولیاء برحق ہیں۔ کتاب وسنت اور صحابہ وتابعین سے منقول ہیں۔ آثارِ متواترہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں۔ کرامات اولیاء کے متعلق لوگوں کے تین قسمیں ہیں:
1- جو سرے سے نفی کرتے ہیں جیسے معتزلہ، جہمیہ اور بعض اشاعرہ(یہ سارے فرقے عقل پرست ہیں) وغیرہ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اولیاء کے ہاتھوں پر امورِ خوارق کے ظہور کو جائز مان لیں تو ایک نبی غیر نبی سے ملتبس ہوجائے گا (یعنی نبی اور غیر نبی میں تفریق نہیں ہوسکے گی) کیونکہ نبی اور غیر نبی میں فرق معجزہ ہے جو کہ ایک خرق ِعادت امر ہوتا ہے۔
2- جو اثباتِ کرامات میں غلو کرتے ہیں جیسے صوفیوں کے طرق کے پیروکار اور قبرپرست۔ یہ لوگ لوگوں کے ساتھ دجل وفریب سے کام لیتے ہیں اور شیطانی خرقِ عادت امور ظاہر کرتے ہیں مثلاً: آگ میں داخل ہونا، اپنے آپ کو اسلحہ سے مارنا، اور سانپوں کو پکڑلینا وغیرہ جیسے دیگر تصرفات جنہیں یہ لوگ اصحابِ قبور کے لیے ثابت مانتے ہیں اور انہیں ان کی کرامات کہتے ہیں۔
3- اہل سنت والجماعت جن کا ذکر شیخؒ نے اپنے کلام میں فرمایا ہے۔ چناچہ یہ لوگ کرامات ِاولیاء پر ایمان رکھتے ہیں اور انہیں کتاب وسنت کے تقاضے کے مطابق ثابت مانتے ہیں۔
منکرینِ کرامات کی دلیل کا جواب
منکرینِ کرامات کی دلیل کہ اس سے نبی اور غیر نبی میں مشابہت لازم آتی ہے کا جواب اہل سنت والجماعت یہ دیتے ہیں کہ اس سے مشابہت لازم نہیں آتی کیونکہ انبیاء کرام o اور غیر انبیاء میں خوارقِ عادات کے علاوہ بھی بہت سے امور ہیں جو فرق کرتے ہیں۔ اور یہ کہ ولی کبھی نبوت کا دعوی نہیں کرتا۔ اگر کوئی ولی نبوت کا دعوی کرے گا تو ولایت سے خارج ہوجائے گا۔ وہ جھوٹا مدعئ نبوت کہلائے گا۔ اور اللہ تعالی کی سنت رہی ہے کہ وہ جھوٹے کو رسوا کرتا ہے جیسا کہ مسلیمہ کذاب وغیرہ کے ساتھ ہوا۔
اثبات ِکرامات میں غلو کرنے والوں کا رد
اثباتِ کرامات میں غلو کرنے والے جو کہ شعبدہ بازوں اور دجالوں کے لیے بھی کرامات کو ثابت کرتے ہیں کا اہل سنت نے اس طرح رد کیا ہے کہ یہ شعبدہ باز اور دجال قسم کے لوگ اولیاء اللہ نہیں ہیں، بلکہ یہ تو اولیاء الشیطان ہیں ۔ ان کے ہاتھوں جو امور ظاہر ہوتے ہیں یا تو وہ کذب اور دھوکہ ہیں یا پھر خود ان کے لیے اور دوسروں کے لیے فتنہ، آزمائش واستدراج (یعنی اللہ کی طرف سے ڈھیل) ہے۔
اولیاء الرحمن اور اولیاء الشیطان کے مابین امتیاز سے متعلق شیخ الاسلامؒ کی ایک عمدہ تصنیف
اس موضوع پر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کی ایک عظیم تألیف بھی ہے جس کا نام "الفرقان بین اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان"([1]) ہے۔
کرامات کی انواع واقسام
پھر شیخ الاسلامؒ کے اس قول کہ ‘‘مختلف علوم ومکاشفات اور مختلف قسم کی قدرتوں اور تأثیرات کے حوالے سے ان کے ہاتھوں رونما ہوتے ہیں’’ کی شرح کرتے ہوئے شیخ فوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں: اس عبارت میں شیخؒ نے کرامات کی انواع کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ بعض کا تعلق کشف سے ہوتا ہے یعنی کوئی بندہ ایسی بات سنے جو کسی اور نے نہیں سنی، یا عالمِ خواب یا بیداری میں کچھ دیکھے جسے کسی اور نے نہیں دیکھا یا ایسا علم جو کسی اور کے پاس نہیں اور بعض کرامات کا تعلق قدرت اور تأثیر کے باب سے ہوتا ہے۔
پہلی نوع یعنی علم وکشف کی مثال
عمر بن خطاب ؓ کا یہ (مشہور) قول ‘‘يَا سَارِيَةُ! الْجَبَلَ’’([2]) (اے ساریہ! پہاڑ پر چڑھ جاؤ) حالانکہ عمر t مدینہ میں تھے اور ساریہ مشرق میں تھے۔
ابوبکر صدیق ؓ کا اپنی اہلیہ کے حمل کے بارے میں خبردینا کہ وہ مؤنث ہے۔
عمر ؓ کا اپنے بیٹے کے متعلق خبردینا کہ اس کی اولاد میں ایک عادل پیدا ہوگا۔
صاحب ِموسی علیہ السلام (یعنی خضر علیہ السلام) کا قصہ اور انہیں بچے کے حال کا علم ہونا۔
دوسری نوع یعنی قدرت وتأثیر کی مثال
اس شخص کا قصہ جس کے پاس کتاب کا علم تھا اور اس کا عرش ِبلقیس کو سلیمان علیہ السلام کے پاس حاضر کرنا([3])۔
اصحابِ کہف کا قصہ۔
مریم (علیہا السلام) کا قصہ۔
خالد بن ولیدؓ کا قصہ کہ انہوں نے زہر پی لیا لیکن انہیں اس سے کوئی ضرر نہیں پہنچا([4])۔
سابقہ امتوں اور سلف صالحین کی کرامات
پھر شیخ الاسلامؒکے اس قول کہ: ‘‘اسی طرح سے سابقہ امت سے سورۂ کہف وغیرہ میں جو منقول ہے اور اس امت کے اول طبقہ صحابہ کرام، تابعین ؓ اور امت کے دیگر افراد سے جو کرامات منقول ہیں، کی تصدیق کی جائے’’ کی شرح میں شیخ فوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں: شیخ ؒ اس کلام میں ان کرامات کا ذکر کررہے ہیں جو واقع ہوچکی ہیں اور قرآن اور آثارِ صحیحہ میں ان کا ذکر موجود ہے۔
سابقہ امتوں کی کرامتوں کی قرآن کریم سے مثالیں
چناچہ قرآن مجید میں سابقہ امتوں کے حوالے سے جن کرامات کا ذکر ہے ان میں سے:
مریم (علیہا السلام) کا بغیر شوہر کے حاملہ ہونا ۔
سورۂ کہف میں مذکور اصحابِ کہف کا قصہ۔
(سورۂ کہف ہی میں) صاحب موسی یعنی خضر علیہ السلام کا قصہ۔
(سورۂ کہف ہی میں) ذوالقرنین کا قصہ ۔
صحابہ کرام وتابعین عظامؓ کی کرامات کی مثالیں
اور اس امت کے اول طبقے یعنی صحابہ وتابعین ؓ سے صحیح سند سے کرامات منقول ہیں مثلاً:
عمر ؓ کا ساریہؒ کے جیش (لشکر/فوج) کو دیکھنا، حالانکہ عمر ؓ اس وقت منبر مدینہ پر تھے۔ اور ساریہ کا جیش مشرق میں نہاوند مقام پر تھا۔
اور عمر ؓ کا ساریہ کوان الفاظ کے ساتھ نداء دینا(پکارنا) ‘‘يَا سَارِيَةُ! الْجَبَلَ’’([5]) اور ساریہ نے اس نداء کو سن لیا اور بروقت راہنمائی سے فائدہ اٹھایا اور دشمن کی چال سے بچ گئے۔
امت میں اولیاء ِکرام رحمہ اللہ علیہم کے ہاتھوں کرامات کا ظہور تاقیام قیامت رہے گا
پھر شیخ الاسلام ؒ کے اس قول کہ: ‘‘اور یہ کرامات اس امت میں تاقیام قیامت باقی رہیں گی’’ کی شرح میں شیخ فوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں: یعنی جب تک امت کے افراد میں ولایت اپنی تمام شروط کے ساتھ موجود رہے گی اس وقت تک امت میں کرامات کا وجود بھی رہے گا۔ (واللہ اعلم)
(ماخوذ شرح عقیدہ واسطیہ از شیخ صالح الفوزان اردو ترجمہ بعنوان عقیدۂ فرقۂ ناجیہ ص 333-336)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراماتِ اولیاء کرام رحمہم اللہ کے متعلق
اہل سنت والجماعت کا مذہب
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
ترجمہ
شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ
کراماتِ اولیاء رحمہ اللہ علیہم کے متعلق اہل سنت والجماعت کے اجمالی اصول
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ عقیدے کے موضوع پر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ کی مایہ ناز ومشہور تصنیف "عقیدۂ واسطیہ" کے باب : کرامات اولیاء کے متعلق اہل سنت والجماعت کا مذہب کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے فرمایا: ‘‘اہل سنت کے (عقیدے کے) اصول میں سے یہ بات بھی ہےکہ کرامات اولیاء اور جو خرقِ عادت امور، مختلف علوم ومکاشفات اور مختلف قسم کی قدرتوں اور تأثیرات کے حوالے سے ان کے ہاتھوں رونما ہوتے ہیں، کی تصدیق کی جائے۔ اسی طرح سے سابقہ امت سے سورۂ کہف وغیرہ میں جو منقول ہے اور اس امت کے اول طبقہ صحابہ کرام، تابعین y اور امت کے دیگر افراد سے جو کرامات منقول ہیں، کی تصدیق کی جائے۔ اور یہ کرامات اس امت میں قیامت تک موجود رہیں گی’’۔
کرامت کی لغوی تعریف
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
لغت کے اعتبار سے"کرامات" لفظ "کرامۃ" کی جمع ہے، جس کا معنی ہے "خارقِ عادت امر" یعنی انسانوں میں معلوم ومعروف امر کے برعکس امر کا وقوع۔
کرامت کی شرعی تعریف
شرعی اصطلاح میں کرامت سے مراد وہ خرق ِعادت امور جنہیں اللہ تعالی اپنے اولیاء کے ہاتھوں پر جاری فرماتا ہے۔
ولی کی شرعی تعریف
"الاولیاء" لفظ "ولی" کی جمع ہے۔ اور ولی (ہر) مومن ومتقی شخص کو کہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (62) الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ
(یونس: 62-63)
(یاد رکھو اللہ تعالی کے دوستوں (اولیاء اللہ) پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔ یہ وہ ہیں کہ جو ایمان لائے اور (برائیوں) سے پرہیز کرتے ہیں یعنی تقوی اختیار کرتے ہیں)
ولی کی لغوی تعریف
"الولی" لفظ "الولاء" سے مشتق ہے جس کا معنی محبت وقرب ہے۔
ولی اللہ کون ہوتا ہے؟
پس "ولی اللہ" وہ شخص ہوتا ہے جو اللہ تعالی کی پسند اور مرضی کے کاموں میں اس کی موافقت کرکے اس سے محبت کرتا ہو۔
کراماتِ اولیاءرحمہ اللہ علیہم کے متعلق لوگوں کی تین اقسام
کراماتِ اولیاء برحق ہیں۔ کتاب وسنت اور صحابہ وتابعین سے منقول ہیں۔ آثارِ متواترہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں۔ کرامات اولیاء کے متعلق لوگوں کے تین قسمیں ہیں:
1- جو سرے سے نفی کرتے ہیں جیسے معتزلہ، جہمیہ اور بعض اشاعرہ(یہ سارے فرقے عقل پرست ہیں) وغیرہ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اولیاء کے ہاتھوں پر امورِ خوارق کے ظہور کو جائز مان لیں تو ایک نبی غیر نبی سے ملتبس ہوجائے گا (یعنی نبی اور غیر نبی میں تفریق نہیں ہوسکے گی) کیونکہ نبی اور غیر نبی میں فرق معجزہ ہے جو کہ ایک خرق ِعادت امر ہوتا ہے۔
2- جو اثباتِ کرامات میں غلو کرتے ہیں جیسے صوفیوں کے طرق کے پیروکار اور قبرپرست۔ یہ لوگ لوگوں کے ساتھ دجل وفریب سے کام لیتے ہیں اور شیطانی خرقِ عادت امور ظاہر کرتے ہیں مثلاً: آگ میں داخل ہونا، اپنے آپ کو اسلحہ سے مارنا، اور سانپوں کو پکڑلینا وغیرہ جیسے دیگر تصرفات جنہیں یہ لوگ اصحابِ قبور کے لیے ثابت مانتے ہیں اور انہیں ان کی کرامات کہتے ہیں۔
3- اہل سنت والجماعت جن کا ذکر شیخؒ نے اپنے کلام میں فرمایا ہے۔ چناچہ یہ لوگ کرامات ِاولیاء پر ایمان رکھتے ہیں اور انہیں کتاب وسنت کے تقاضے کے مطابق ثابت مانتے ہیں۔
منکرینِ کرامات کی دلیل کا جواب
منکرینِ کرامات کی دلیل کہ اس سے نبی اور غیر نبی میں مشابہت لازم آتی ہے کا جواب اہل سنت والجماعت یہ دیتے ہیں کہ اس سے مشابہت لازم نہیں آتی کیونکہ انبیاء کرام o اور غیر انبیاء میں خوارقِ عادات کے علاوہ بھی بہت سے امور ہیں جو فرق کرتے ہیں۔ اور یہ کہ ولی کبھی نبوت کا دعوی نہیں کرتا۔ اگر کوئی ولی نبوت کا دعوی کرے گا تو ولایت سے خارج ہوجائے گا۔ وہ جھوٹا مدعئ نبوت کہلائے گا۔ اور اللہ تعالی کی سنت رہی ہے کہ وہ جھوٹے کو رسوا کرتا ہے جیسا کہ مسلیمہ کذاب وغیرہ کے ساتھ ہوا۔
اثبات ِکرامات میں غلو کرنے والوں کا رد
اثباتِ کرامات میں غلو کرنے والے جو کہ شعبدہ بازوں اور دجالوں کے لیے بھی کرامات کو ثابت کرتے ہیں کا اہل سنت نے اس طرح رد کیا ہے کہ یہ شعبدہ باز اور دجال قسم کے لوگ اولیاء اللہ نہیں ہیں، بلکہ یہ تو اولیاء الشیطان ہیں ۔ ان کے ہاتھوں جو امور ظاہر ہوتے ہیں یا تو وہ کذب اور دھوکہ ہیں یا پھر خود ان کے لیے اور دوسروں کے لیے فتنہ، آزمائش واستدراج (یعنی اللہ کی طرف سے ڈھیل) ہے۔
اولیاء الرحمن اور اولیاء الشیطان کے مابین امتیاز سے متعلق شیخ الاسلامؒ کی ایک عمدہ تصنیف
اس موضوع پر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کی ایک عظیم تألیف بھی ہے جس کا نام "الفرقان بین اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان"([1]) ہے۔
کرامات کی انواع واقسام
پھر شیخ الاسلامؒ کے اس قول کہ ‘‘مختلف علوم ومکاشفات اور مختلف قسم کی قدرتوں اور تأثیرات کے حوالے سے ان کے ہاتھوں رونما ہوتے ہیں’’ کی شرح کرتے ہوئے شیخ فوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں: اس عبارت میں شیخؒ نے کرامات کی انواع کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ بعض کا تعلق کشف سے ہوتا ہے یعنی کوئی بندہ ایسی بات سنے جو کسی اور نے نہیں سنی، یا عالمِ خواب یا بیداری میں کچھ دیکھے جسے کسی اور نے نہیں دیکھا یا ایسا علم جو کسی اور کے پاس نہیں اور بعض کرامات کا تعلق قدرت اور تأثیر کے باب سے ہوتا ہے۔
پہلی نوع یعنی علم وکشف کی مثال
عمر بن خطاب ؓ کا یہ (مشہور) قول ‘‘يَا سَارِيَةُ! الْجَبَلَ’’([2]) (اے ساریہ! پہاڑ پر چڑھ جاؤ) حالانکہ عمر t مدینہ میں تھے اور ساریہ مشرق میں تھے۔
ابوبکر صدیق ؓ کا اپنی اہلیہ کے حمل کے بارے میں خبردینا کہ وہ مؤنث ہے۔
عمر ؓ کا اپنے بیٹے کے متعلق خبردینا کہ اس کی اولاد میں ایک عادل پیدا ہوگا۔
صاحب ِموسی علیہ السلام (یعنی خضر علیہ السلام) کا قصہ اور انہیں بچے کے حال کا علم ہونا۔
دوسری نوع یعنی قدرت وتأثیر کی مثال
اس شخص کا قصہ جس کے پاس کتاب کا علم تھا اور اس کا عرش ِبلقیس کو سلیمان علیہ السلام کے پاس حاضر کرنا([3])۔
اصحابِ کہف کا قصہ۔
مریم (علیہا السلام) کا قصہ۔
خالد بن ولیدؓ کا قصہ کہ انہوں نے زہر پی لیا لیکن انہیں اس سے کوئی ضرر نہیں پہنچا([4])۔
سابقہ امتوں اور سلف صالحین کی کرامات
پھر شیخ الاسلامؒکے اس قول کہ: ‘‘اسی طرح سے سابقہ امت سے سورۂ کہف وغیرہ میں جو منقول ہے اور اس امت کے اول طبقہ صحابہ کرام، تابعین ؓ اور امت کے دیگر افراد سے جو کرامات منقول ہیں، کی تصدیق کی جائے’’ کی شرح میں شیخ فوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں: شیخ ؒ اس کلام میں ان کرامات کا ذکر کررہے ہیں جو واقع ہوچکی ہیں اور قرآن اور آثارِ صحیحہ میں ان کا ذکر موجود ہے۔
سابقہ امتوں کی کرامتوں کی قرآن کریم سے مثالیں
چناچہ قرآن مجید میں سابقہ امتوں کے حوالے سے جن کرامات کا ذکر ہے ان میں سے:
مریم (علیہا السلام) کا بغیر شوہر کے حاملہ ہونا ۔
سورۂ کہف میں مذکور اصحابِ کہف کا قصہ۔
(سورۂ کہف ہی میں) صاحب موسی یعنی خضر علیہ السلام کا قصہ۔
(سورۂ کہف ہی میں) ذوالقرنین کا قصہ ۔
صحابہ کرام وتابعین عظامؓ کی کرامات کی مثالیں
اور اس امت کے اول طبقے یعنی صحابہ وتابعین ؓ سے صحیح سند سے کرامات منقول ہیں مثلاً:
عمر ؓ کا ساریہؒ کے جیش (لشکر/فوج) کو دیکھنا، حالانکہ عمر ؓ اس وقت منبر مدینہ پر تھے۔ اور ساریہ کا جیش مشرق میں نہاوند مقام پر تھا۔
اور عمر ؓ کا ساریہ کوان الفاظ کے ساتھ نداء دینا(پکارنا) ‘‘يَا سَارِيَةُ! الْجَبَلَ’’([5]) اور ساریہ نے اس نداء کو سن لیا اور بروقت راہنمائی سے فائدہ اٹھایا اور دشمن کی چال سے بچ گئے۔
امت میں اولیاء ِکرام رحمہ اللہ علیہم کے ہاتھوں کرامات کا ظہور تاقیام قیامت رہے گا
پھر شیخ الاسلام ؒ کے اس قول کہ: ‘‘اور یہ کرامات اس امت میں تاقیام قیامت باقی رہیں گی’’ کی شرح میں شیخ فوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں: یعنی جب تک امت کے افراد میں ولایت اپنی تمام شروط کے ساتھ موجود رہے گی اس وقت تک امت میں کرامات کا وجود بھی رہے گا۔ (واللہ اعلم)
(ماخوذ شرح عقیدہ واسطیہ از شیخ صالح الفوزان اردو ترجمہ بعنوان عقیدۂ فرقۂ ناجیہ ص 333-336)
No comments:
Post a Comment