Wednesday 14 January 2015

خود کش حملے اور ان کے محرکات ۔ ترتیب و پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی

0 comments

دہشت گردی کی ابتداء اور اسلام
دہشت گردی کی ابتداء کس نے کی تھی…؟
اور بم دھماکوں کی بنیاد کس نے رکھی تھی…؟
تاریخ کے ورق پلٹیں تو 25 جون 1916ء کو انگریزوں کے ہیرو لارنس آف عربیہ نے حجاز ریلوے کو بم دھماکوں سے اڑا کر مسلم امہ کا اتحاد پارہ پارہ کردیا تھا۔ حجاز ریلوے مسلمان حاجیوں کو ترکی‘ شام‘ اردن سے ہوتے ہوئے مدینہ اور مکہ لے جاتی تھی۔ اس کے علاوہ عثمانیہ سلطنت کے وسیع علاقوں کو ملانے کے لئے کام آتی تھی۔ جس کی تباہی سے اسلامی خلافت کا سورج ڈوب گیا۔ اس کے بعد سے مغرب نے حجاز ریلوے کو بننے نہیں دیا اور ہمیشہ سے سازشوںکا شکار رہی۔
خودکش حملوں کی ابتداء دوسری جنگ عظیم میں جاپانیوں نے ’’پرل ہاربر‘‘ پر حملہ کے وقت کی جب انہوں نے جسم سے بم باندھ کر امریکی بحری جہاز کی چمنیوں میں چھلانگیں لگائیں
’’دہشت‘‘ اصل میں سفید فام انسانوں کی دین ہے پچھلی صدیوں میں براعظم افریقہ کے ساحلوں پر جب کوئی گورا نظر آجاتا تو وہاں کے باشندے چھپ جاتے تھے کہ پکڑ کر غلام بنا لے گا۔ برصغیر کے دیہات میں ایک گورا سپاہی نظر آجاتاتھا تو گائوں والے بھاگ کھڑے ہوتے تھے‘ اسی کا نام دہشت ہے۔
داخلی محرکات
خودکش دھماکوں کے داخلی محرکات اور خارجی سازشیں کس طرح بے نقاب کروں گزشتہ دنوں مجھے منظور راجپوت ایڈوکیٹ کی ایک میل موصول ہوئی‘ داخلی محرکات سے قبل اس خارجی سازش کو انہی کی زبانی سنئے۔
یہ ستمبر 1998ء کی ایک دوپہر تھی۔ میں سینئر سول جج کی عدالت کے سامنے کوریڈور سے گزر رہا تھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ایک انگریز عورت چھوٹے سے پنگھوڑے میں انگوٹھا چوستے ہوئے بچے کے قریب کھڑی سگریٹ کے کش لگاتی اور دھواں اس بچے کے منہ پر چھوڑ دیتے۔ دھویں کی وجہ سے بچے کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ مجھے اس کی حرکت پر تعجب ہوا۔ میں نے رک کر اس سے تعارف چاہا تو اس نے اپنا نام کینا چارلس (Canata Charless) بتایا اور بچے کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ اس کو گود لے رہی ہے اور اس کی درخواست سول کورٹ میںمنظوری کے لئے پیش ہے۔ میں مڑ کر عدالت میں داخل ہوا تو وہاں اس طرح کے چھ پنگھوڑوں میں نومولود بچے اور ان کے پیچھے قطار میں چھ گوری عورتیں اور دو مرد کھڑے تھے۔ جج صاحب اپنی کرسی پر براجمان دو معروف وکیلوں سے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ میرے اندر آنے پر سب نے چونک کر مجھے دیکھا اور جج صاحب نے بے تکلفی سے پوچھا ’’کہئے! منظور صاحب کیسے آنا ہوا؟
میں نے پنگھوڑوں میں لیٹے بچوںاور قطار میں کھڑے گورے مرد و عورتوں کی طرف اشارہ کرکے استفسار کیا ’’یہ کیا چکر ہے؟‘‘ جج صاحب نے بلا جھجھک بتایا کہ یہ لاوارث بچے ہیں اوران لوگوں نے بچوں کو گود لینے کے لئے درخواست دی ہے۔
میں نے پوچھا ’’یہ بچے کہاں سے آئے ہیں اور کس کے ہیں؟‘‘ ساتھ کھڑے ایک وکیل نے بتایا کہ یہ بچے ایک چرچ نے دیئے ہیں۔ یہ چرچ ناصر کالونی نیو کراچی سیکٹر5-E میں واقع ہے۔ میں نے جج صاحب سے کہا ’’یہ بچے پاکستانی ہیں اور مسلمانوں کے بچے ہیں۔ اس لئے کوئی غیرملکی خصوصا جبکہ وہ غیر مسلم بھی ہو‘ ان بچوں کو گود نہیں لے سکتا۔ ان بچوںکو پالنے کی ذمہ داری پاکستانی حکومت کی ہے یا پھر کوئی پاکستانی مسلمان ان کو قبول کرے۔ آئین اور قانون یہی کہتا ہے‘‘ ساتھ ہی میں نے متعلقہ قانون کا حوالہ دیا۔ جج نے کہا کہ ’’ان کا تو کوئی وارث بننے کے لئے تیار نہیں‘‘ میں نے کہا ’’میں ان بچوں کو گود لینے کے لئے تیار ہوں اور ابھی باقاعدہ درخواست بھی آپ کی خدمت میں پیش کردیتا ہوں‘‘ ساتھ کھڑے وکیلوں نے مجھے سو پچاس پونڈ دے کر اس معاملے سے باز رکھنے کی کوشش کی تو میں نے حقارت سے ان کا ہاتھ جھٹک دیا اور تھوڑی دیر میں درخواست لکھ کر عدالت میں پیش کردی۔ اس درخواست میں‘ میں نے یہ موقف اختیار کیا کہ ’’میں پاکستانی ہوں‘ دوسرا مسلمان ہوں اور تیسرا یہ کہ میں لاولد ہوں‘ اس لئے سب سے پہلے ان بچوں پر میرا حق بنتا ہے۔ اور پھر عدالت اس بات کی مجاز نہیں ہے کہ ان بچوں کو ایسی لوگوں کے سپرد کردے جو انہیں دوسرے ممالک لے جائیں اور عدالت ان سے کبھی باز پرس نہ کرسکے‘‘ عدالت میں کھڑے گورے مرد عورتوں اوران کے وکیلوں کے چہروں پر مردنی چھا گئی۔ میں درخواست دے کر بار روم میں آ بیٹھا۔ تھوڑی دیر بعد دونوں وکیل بھی بار روم میں آگئے اور بے تکلفی سے کہنے لگے ’’یار تم نے خواہ مخواہ پھڈا ڈال دیا۔ ہماری روزی پر بھی لات مار رہے ہو اور خود بھی فضول پنگا لے رہے ہو۔ تمہیں سات بچے لے کر کیا کرنے ہیں؟‘‘ میں نے کہا ’’میری دینی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ مسلمانوں کے یہ بچے باقی عمر عیسائی بن کر جئیں‘‘
دونوں نے مجھے اپنے موقف سے دستبردار کرنے کے لئے مالی پیش کش میں اضافہ کردیا۔ وہ اچانک ہزاروں سے لاکھوں میں آگئے۔ میں نے کہا ’’یہ مال کا مسئلہ نہیں ایمان کا مسئلہ ہے‘‘ میری درخواست کی سماعت اور مقدمے کی کارروائی بڑھی تو تحقیق حال سے پتہ چلا کہ اس سے پہلے بھی 9 بچے اسی عدالت کے ذریعے یہی لوگ لے کر جاچکے ہیں۔
یہ لوگ مالٹا کی ایک عیسائی این جی اوز کے نمائندے ہیں اور یہی کام کرتے ہیں جس چرچ کے متعلق یہ کہاگیاتھا کہ بچے اس کے باہر پڑے پائے گئے۔ تفتیش میں اس چرچ کا وجود ہی سرے سے نہیں تھا۔ عدالت میں دو پیشیوں کے بعد یہ گورے مدعی غائب ہوگئے۔ ان کے درج شدہ پتے پر چھاپہ مارا گیا تو وہ بھی ایک خالی پلاٹ نکلا۔ یہ خالی پلاٹ ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی میں واقع تھا۔ گویا پورا سلسلہ ہی فراڈ پر مبنی تھا۔لیکن ان گوروں کی پیروی کرنے والے وکیلوں نے حق خدمت ادا کرنے کے لئے مجھ پر ہر طرح کا دبائو ڈالنا شروع کردیا۔ جس میں لالچ بھی تھا اور دھونس بھی۔ میرے ایک قریبی بے تکلف دوست نے ایک دن مجھے گھر بلایا اور کہا ’’یار! زندگی میں یہ مواقع بار بار نہیں آیا کرتے‘ کہاں ساری عمرتھانے کچہری میں جوتیاں چٹخاتے پھروگے۔ تین کروڑ روپے اور امریکی ویزا لو اور موجاں مارو۔ لوگ تو ان دونوں میں سے ایک کے لئے جان لٹانے کو تیار رہتے ہیں لیکن مجھے پتہ ہے مولویوں کے ساتھ رہ رہ کرتمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے تمہاری کھوپڑی میں سوراخ بھی ہوسکتا ہے‘‘ دوست کی ان باتوں میں تفکر بھی تھا۔ تشویش بھی اور تحریص بھی تھی اور معاملے کی سنگینی کا اظہار بھی۔ میرے سامنے سرخ رنگ کا سوالیہ نشان سامنے آکھڑا ہوا…
میں نے کہا ’’تم درست کہتے ہو۔ یہ میرے دماغ کی خرابی ہے کہ میں تین کروڑ روپے اور امریکی ویزے کو ٹھکرا رہا ہوں۔ مجھے یہ بات معلوم ہے کہ ساری عمر کی محنت کے بعد بھی تین کروڑ روپے جمع نہیں کرسکتا لیکن مجھے یہ بات کھائے جارہی ہے کہ ہم اپنے ہی ہاتھوں سے مسلمان بچوں کو عیسائیوں کے حوالے کررہے ہیں۔ اور یہ بھی یقینی ہے کہ بڑے ہوکر یہ بچے عیسائی ہی ہوں گے۔ یہ سوچ کر میرا دماغ پھٹتا ہے اور پھر ٹھکانے پر نہیں رہتا۔ اس لئے اب لالچ یا خوف مجھے اس بات سے نہیں روک سکتا‘‘ میرے دوست نے ٹھنڈا سانس بھرا اور کہا ’’کیا تم اس بات میں سنجیدہ ہو کہ تم ان سات بچوں کو گود لے لو گے۔ ایک یا دو بچوں کو سنبھالنا بھی بڑا مشکل ہوتا ہے چہ جائیکہ سات بچے ایک عمر کے۔ کیا تم نے اپنی اہلیہ سے مشورہ کیا ہے‘‘ میں نے کہا ’’ہاں! میری اہلیہ نے ہی میری حوصلہ افزائی کی ہے‘‘
مقدمہ کی کارروائی تین سال چلتی رہی۔ اصل مدعی فرار ہوگئے۔ کیونکہ یہ بات سامنے آچکی تھی کہ ڈینس چارلس اور کینٹا چارلس یہ دونوں میاں بیوی (بظاہر) جو مالٹا میں ایک نام نہاد این جی اوز چلا رہے ہیں‘ حقیقت میں بردہ فروش ہیں اور اس کی آڑ میں غریب ملکوں کے مسلمان بچوں کی تجارت کرتے ہیں۔ یہ محض الزام نہیں ہے۔ اس لئے یہ بات بھی سول جج نے مجھے خود ہی بتا دی تھی کہ یہی لوگ اس سے پہلے 9 بچے اسی عدالت کے توسط سے لے کر جاچکے ہیں اور اس حقیقت کے کھل جانے کاخوف سے انہیں راہ فرار اختیار کرنی پڑی۔ یہ 9 بچے بھی انہیں اس چرچ نے فراہم کئے تھے جس کا وجود دنیا میں نہیں تھا۔ ان میاں بیوی کا دیا ہوا ایڈریس بھی بوگس ثابت ہوا۔
اس تین سالہ عدالتی کارروائی کے دوران اور بھی حیران کن انکشافات ہوئے۔ میں نے جب مزید عدالتوں سے ایسے لاوارث بچوں کا ریکارڈجمع کرنا شروع کیا تو یہ دیکھ کر میری آنکھیں پھٹ گئیں کہ گزشتہ دس پندرہ برسوں میں تیئس ہزار (23,000) لاوارث بچے غیر ملکی این جی اوز یا ان کے ایجنٹوں کے حوالے کئے گئے ہیں۔ یہ 23 ہزار بچے ایک سماجی تنظیم نے مہیا کئے تھے‘ بچے اکھٹے کرنے کے لئے یہ سماجی تنظیم بڑے شہروں میں پبلک مقامات پر پنگھوڑے اور جھولے رکھتی ہے۔ ان جھولوں پر واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ قتل نہ کریں‘ اپنا بچہ یہاں ڈال دیں‘‘ (کیا یہ زنا‘ فحاشی اور حرام کاری کی سرپرستی اور پشت پناہی نہیں ہے؟)
اس انکشاف پر ان کو بھی عدالت میں طلب کیا گیا۔ ان کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ انہوں نے عدالت میں کھڑے ہوکر مجھے دھمکانا شروع کردیا۔ جس پر جج نے انہیں ڈانٹا‘ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عدالت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی‘ ان سے یہ نہ پوچھا جاسکا کہ انہوں نے 23 ہزار بچے کتنے میں فروخت کئے؟ یقینا ان کی پشت پر ایسے لوگ یا تنظیمیں موجود ہیں جو سات بچوں کی سودا بازی میں تین کروڑ کی پیشکش کرسکتی ہیں۔ اس سے آپ ان کی طاقت اور اس کالے دھن کا اندازہ لگایئے جس پر انکم ٹیکس کی شرح لاگو نہیں ہوتی۔
آیئے! اب غور کیجئے ان ہوشربا نتائج پر جو ان بچوں کی خریدوفروخت پر مرتب ہوتے ہیں۔ آپ سوچئے! یہ بچے کہاں سے آئے! یہ کسی طبی تحقیق کی بھینٹ تو نہیں چڑھ گئے؟ کیا ان کے اعضاء فروخت کئے جاتے ہیں؟ کیا ان سے حرام کاری کا پیشہ کرایا جاتا ہے؟ کیا ان کو گندی فلموں میں استعمال کیا جاتا ہے؟ کیا ان سے عیسائیت کی تبلیغ یا فحاشی کی ترویج کروائی جاتی ہے؟
کیا وہ یہی دہشت گرد تو نہیں ہیں جن کو ضرورت پڑنے پر خودکش حملوں میں استعمال کرکے نامعلوم حملہ آور قرار دے دیا جاتا ہے۔ پھر حسب منشاء ان کو پاکستان بھی پہنچایا جاتا ہے۔ کیونکہ ڈی این اے ٹیسٹ میں وہ پاکستانی ثابت ہوجاتے ہیں۔ کیا کبھی عدالتوں نے ان کا کھوج لگایا؟ اور وہ کھوج لگا بھی کیسے سکتی ہیں کہ اب وہ بچے ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ حالانکہ پاکستان کی کسی عدالت کو یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ پاکستانی بچے کسی ایسے فرد یا تنظیم کے حوالے کرے جس کو چیک نہ کیا جاسکے۔
چلو یہ نہ سہی تو انہی بچوں کا حال احوال معلوم کرلیا جائے جو ایس او ایس ولیج میں پرورش پا رہے ہیں کہ بالغ ہونے کے بعدان کی سرگرمیاں کیا ہیں؟
حکومت کو اپنے ذرائع سے ان کا سراغ لگانا چاہئے کہ یہ مسلمانوں خصوصا پاکستان کے خلاف دھماکوں اور ہنگاموں کی بنیاد پر جو الزامات لگا کر عالمی سطح پر اس کو اچھالا جاتا ہے‘ یہ جو نامعلوم حملہ آوروں کی ناقابل شناخت لاشیں ملتی ہیں‘ کہیں ان لاوارث بچوں کی نہ ہوں جن کو بے حس اور بے غیرت لوگوں نے ڈالروں کے لالچ میں فروخت کردیا۔ دینی مدرسوں اور مسجدوں میں دہشت گردی کے عوامل کو تلاش کرنے کے بجائے ان این جی اوز کو کنھگالا جائے جنہوں نے 23 ہزار بچوں کو فروخت کیا ہے‘ جرأت اور ہمت سے کام لیا جائے تو بہت کچھ سامنے آسکتا ہے۔
پردے کے پیچھے اور بہت کچھ ہے لیکن اس تک جھانکنے کے لئے ایمانی طاقت اور بے لوث حب الوطنی کی ضرورت ہے۔
منظور راجپوت ایڈووکیٹ کی اس طویل میل کے بعد ایک عام آدمی بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے یہ کہ خودکش دھماکے اسلامی ممالک میں ہی کیوں ہورہے ہیں؟ اگر یہ خودکش حملہ آور مسلمان ہیں تو ان کا نشانہ مسلمان ہی کیوں ہیں؟
ان خودکش دھماکوں سے امریکہ اور برطانیہ کے شہری کیوں نہیں ہلاک ہوتے اصولا (اگر یہ مسلمان اتنے ہی جنگجو اور دہشت گرد ہیں) تو ان خودکش حملہ آوروں کے دشمن یہودونصاریٰ ہونے چاہئے مسلمان نہیں۔
لیکن ان دھماکوں کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہی اٹھانا پڑ رہاہے۔
عزیزان من!
اسلام تو کسی بھی ذریعے سے مسلمان تو مسلمان امن پسند غیر مسلموں کو بھی قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا‘ اسلام کی تو تعلیمات ہی یہ ہیں کہ ایک جان مسلم کا اتلاف کعبہ ڈھانے سے بدتر ہے۔
اس طویل بحث سے تو یہ بات آشکار ہوگئی کہ ان خودکش دھماکوں کے پیچھے کسی مسلمان کا نہیں بلکہ عالم صلیب ہی کا ہاتھ ہے جن کی تاریخ ہی دہشت گردی اور فتنہ و فساد سے بھری ہوئی ہے۔
ہماری غفلت
دوسری جانب ہمیں یہ اعتراف کرلینا چاہئے کہ ہم نے لاوارث بچوں کو جو N.G.O`s اور خیراتی اداروں کے سپرد کیا ہم نے کبھی ان سے اس بارے میں استفسار نہ کیا کہ بچوں کا کیاہوا؟
ایک مصیبت تھی جو سرسے ٹل گئی جان چھوٹ گئی سو لاکھوں پائو…
ایک اور پہلو:۔
لیکن اس پہلو کو نظر اندازنہیں کیا جاسکتا کہ یہ لاوارث بچے کہاں سے آئے۔
1۔غربت سے
2۔ قحبہ خانوں کے ذریعے
ان ذرائع کے علاوہ میری نظر میںکوئی اور تیسری وجہ نہیں۔
اگر ان دو وجوہات میں سے پہلی وجہ کو لیا جائے تواسکی مکمل ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے ساتھ ہی ان لوگوں پر جنہیں اﷲتعالٰی نے دولت سے نوازا مگر وہ اس دولت پر سانپ بن کر بیٹھ گئے حالانکہ اس دولت میں ان فقیروں‘ مسکینوں اور ناداروں کا بھی حق ہے۔
دوسری وجہ فحاشی و عریانیت کا بڑھتا ہوا سیلاب اور اس کی پشت پناہی پر یہود و نصاریٰ کا ہاتھ اوراس کی وجہ سے شادی سے قبل اولاد اور اس سے گلوخلاصی کے لئے خیراتی ادارے اور ان خیراتی اداروں کی بردہ فروشی اور ان عالمی بردہ فروشوں کی عالمی دہشت گردی میں استعمال ہونے والے خودکش حملہ آور۔
عزیزانِ من!
اگر ہم نے اسلامی تعلیمات پر عمل کیا ہوتا… ہم نے حقوق نسواں نامی بل پر فحاشی وعریانیت کے پرمٹ تقسیم نہ کئے ہوتے…ہم نے میڈیا کو مادر پدر آزادنہ چھوڑا ہوتا… ہم نے مخلوط نظام تعلیم رائج نہ کیا ہوتا تو یقین جانیے ہماری گلیوں میں آج وحشت و خونخواری کا‘ یہ وحشیانہ رقص نہ ہوتا۔
خودکش دھماکوں کے اثرات:۔
ان خودکش دھماکوں کا اثر سب سے زیادہ کس قوم پر پڑا ہر انصاف پسند شخص یہ کہہ اٹھے گا کہ مسلمان قوم پر… ان خودکش دھماکوں کے مسلمانوں پر انتہائی ہولناک معاشرتی‘ معاشی اثرات مرتب ہوئے۔
سرخ شعلوں کی تپش:۔
یہ پھٹتے ہوئے جسم‘ جسم نہ تھے وہ سرخ شعلے تھے جنہوں نے گھروں کو نہیں بلکہ خاندانوں کو اجاڑ دیا… جنہوں نے معاشرے میں کانٹوں کی کاشت کی اس کے معاشرے میں کیسے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے اس کا تصور ایک ذی شعور انسان کو خوفزدہ کرکے رکھ دیتا ہے۔
اے ملت اسلامیہ کی ذی شعور لوگو!
ذرا سوچو!
یہ خودکش دھماکہ صرف امت مسلمہ کے درمیان ہی کیوں ہو رہے ہیں؟
اس کا خمیازہ صرف ملت اسلامیہ ہی کیوں بھگت رہی ہے؟
اگر خودکش دھماکہ کرنیوالا مسلمان ہے تو وہ مسلمانوںہی کیوں نشانہ بنا رہا ہے؟
جنگ تو امریکہ سے ہورہی ہے مقابل تو یہود ونصاریٰ ہیں۔
مگر خودکش حملے مسلمانوں پر کیوں ہورہے ہیں؟
کون ہے ان حملوں کے پیچھے؟
کس کو فائدہ پہنچ رہا ہے ان حملوں کا؟
ذرا سوچو!
تم اس نتیجے پر پہنچو گے کہ اس کا خمیازہ ملت اسلامیہ بھگت رہی ہے… اسکا نقصان امت مسلمہ کو ہورہا ہے… اس کا فائدہ اہل صلیب کو پہنچ رہاہے…
ذرا سوچو!
اس خودکش حملے میں جو ہلاک ہو گا‘ اگروہ اپنے گھرانے کا واحد کفیل ہوتو وہ گھرانہ کیا کرے گا… اس کے بچوں کا کیا بنے گا… اس کے گھر کا چولھا کیسے جلے گا…جس ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہو‘ لامحالہ اس کے بچے ڈاکو بن جائیںگے… معاشرے میں انتشار کا سبب ہوں گے۔ یا پھر بہنوں کی شادی کے لئے ایسے ہی کسی صلیبی ایجنٹ کے ہاتھ لگ کر ایک اور خود کش حملہ آور بن جائیں گے۔
ا سکی جوان بیٹی جہیز نہ ہونے کے سبب گھر میں بیٹھی رہ جائے یا پھر جسم فروشی پر مجبور ہو جائے گی۔
اس کے بچے ا س مہنگی تعلیم کو حاصل نہ کرسکیں گے اور تن پیٹ کاٹ کر اگر تعلیم حاصل کر بھی لی تو نوکری کے لئے جوتیاں چٹخاتے پھریں گے۔
ایسی صورتحال میں نقصان کس کا ہوا؟
امت مسلمہ کا
پیر کرم شاہ الازہری سورہ نساء کی آیت
ولاتقتلو اانفسکم
( اور نہ ہلاک کرو اپنے آپ کو)
کی تفسیر میں لکھتے ہیں
اس آیت میں خودکشی کی ممانعت بھی آگئی اور کسی مسلمان بھائی کو بلاوجہ قتل کرنے سے بھی دیا گیا۔ انفسکم کہہ کر بتا دیا کہ اگر تم کسی مسلمان بھائی کو قتل کرو گے تو اس کا نقصان تمہیں ہی پہنچے گا۔ تمہاری ایک مومن بہن بیوہ ہو جائے گی تمہاری ہی ملت کے بچے یتیم ہوں گے تمہارے مسلم معاشرہ کا ہی ایک گھر غم و اندوہ کے اندھیروں میںڈوب جائے گا۔
(تفسیر ضیاء القرآن جلد اول صفحہ 338 )
بات ابھی ختم نہیںہوتی بلکہ جو معاشی نقصانات سامنے آئیں گے… جو سرمایہ دار اپنا سرمایہ آپ کے ملک میں نہیں لگائیںگے وہ سارا سرمایہ باہر ملک جائے گا۔ مغربی ممالک اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔ اور ملک میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے سبب بے روزگاری کی شرح میں جو ہوشر بااضافہ ہوگا اور اس کا حل نہ نکلنے کی صورت میں اسٹریٹ کرائمز میں جو اضافہ ہوگا۔ مزاحمت میں جو لوگوں کا قتل ہوگا۔ اور اس سے جونتائج برآمد ہوںگے۔ اس کا تو اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا اور اگر ان خودکش حملوں میں دانشور‘ علمائ‘ انجینئر‘ ڈاکٹر ہلاک ہو جائیں تو یہ ملک و قوم کو کن حادثات سے دوچار کرے گا اس کا ہم اندازہ ہی نہیں کرسکتے۔
خدارا ! غیروں کی اس آگ میں اپنوں کو نہ جھونکو۔
خدارا ! دینی غیرت وحمیت اپنے اندر پیدا کرو۔
خدارا ! اپنے رب کے حضور سچی توبہ کرو۔
خدارا ! اپنے رب کی اطاعت اور اپنے رسول کی اتباع کو اپنا سرمایہ زندگی بنا لو۔
خدارا !!! خدارا !!
اپنی آنے والی نسلوں پر رحم کرو ان کو اس آگ میں جلنے سے بچا لو۔
اے امت مسلمہ کے دانشورو!
اے ملت اسلامیہ کے صحافیو!
اے زوال پذیر قوم کے نوجوانو!
اے قوم ہاشمی کے نگہبان خطیبو!
آئو آج امت مسلمہ کو اس طوفان سے نکالنے کے لئے دوسرے کے ہاتھ کو تھامے
ایک دوسرے کو آواز دیں… ایک دوسرے کی مدد کریں۔
خودکش حملوں کا تدارک:۔
ہاں آج سوچنا ہے اقوام عالم کو اگر وہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں امن ہوتو انہیں اپنے اس ظلم و ستم کو روکنا ہوگا۔
اقوام عالم کے نمائندو!
آئو اور اسلام کی تعلیمات کا مطالعہ کرو یہ تو امن پسند دین ہے اور یہ وہ دین ہے جو صرف اپنوں ہی کو راحت و سکون عطا نہیں کرتا بلکہ غیروں کو بھی چھائوں مہیا کرتی ہے۔
یقین جانو!
اگر آج تم اسلام دشمنی کا قلاوہ گردن سے اتار کر پھینک دو تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی۔
اور اے امت مسلمہ کے حکمرانو!
اگر تم اپنی صفوں میں اتحاد کرلو… تمہاری عدالتوں میں انصاف عام ہوجائے تو یقین جانو کہ بہت جلد تمہارے گلشن میں دوبارہ بہار آجائے… تمہارے شہروں کی رونقیں بحال ہوجائیں… اور تمہارے مسلمان بھائیوں کے گھروں کی خوشیاں لوٹ آئیں۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔