Thursday, 1 January 2015

بوقت میلاد قیام ، سلام اور روزہ و عیدی تقسیم کرنا :-


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھڑے ہو کر استقبال محبوب باری تعالٰی کرنا، اللہ تعالٰی کے حکم سے فرشتوں کی سنت مبارکہ ہے چنانچہ مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، “جاءالحق“ میں تحریر فرماتے ہیں “مواہب لدنیہ اور مدارج النبوت وغیرہ میں ذکر ولادت میں ہے کہ شب ولادت ملائکہ نے آمنہ خاتون رضی اللہ تعالٰی عنہا کے دروازے پر کھڑے ہو کر صلوٰۃ و سلام عرض کیا، ہاں ازلی راندہ ہوا (یعنی ہمیشہ دھتکارا ہوا) شیطان، رنج و غم میں بھاگا بھاگا پھرا، اس سے معلوم ہوا کہ میلاد سنت ملائکہ بھی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بوقت پیدائش کھڑا ہونا ملائکہ کا کام ہے اور بھاگا بھاگا پھرنا، شیطان کا فعل۔ اب لوگوں کو اختیار ہے چاہیں تو میلاد پاک کے ذکر کے وقت ملائکہ کے فعل پر عمل کریں یا شیطان کے۔“

اور بی بی آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا وقت ولادت کے واقعات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتی ہیں “پھر میں نے نور کا ایک بلند مینار دیکھا اس کے بعد اپنے پاس بلند قامت والی عورتیں دیکھیں، جن کا قد عبد مناف کی لڑکیوں کی مانند، کھجور کے درختوں کی طرح تھا، میں نے ان کے آنے پر تعجب کیا۔ اس پر ان میں سے ایک نے کہا میں آسیہ، فرعون کی بیوی ہوں (آپ موسٰی علیہ السلام پر ایمان لے آئیں تھیں)۔ دوسری نے کہا میں “مریم بنت عمران ہوں اور یہ عورتیں حوریں ہیں۔“ پھر میرا حال بہت سخت ہو گیا اور ہر گھڑی عظیم سے عظیم تر آوازیں سنتی، جن سے خوف محسوس ہوتا۔ اسی حالت کے دوران میں نے دیکھا کہ زمین آسمان کے درمیان “بہت سے لوگ کھڑے ہیں“ جن کے ہاتھوں میں چاندی کے آفتاب ہیں۔“ (مدارج النبوت)

اور ما قبل روایت میں عرض کیا جا چکا ہے کہ “سورج کو اس دن عظیم روشنی دی گئی اور اس کے کنارے پر فضا میں “ستر حوریں کھڑی کر دی گئیں“ جو مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی منتظر تھیں“ اب اس کے بعد روزہ رکھنے کی دلیل پیش خدمت ہے۔

(9) روزہ رکھنا :-

بروز ولادت روزہ رکھنا محبوب کبریا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے چنانچہ مسلم شریف میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن کے روزے کا سبب دریافت کیا گیا (یعنی پوچھا گیا کہ آپ خاص طور پیر کے دن، روزہ رکھنے کا اہتمام کیوں فرماتے ہیں) تو آپ نے ارشاد فرمایا اسی میں میری ولادت ہوئی اور اسی میں مجھ پر وحی نازل ہوئی۔“

(10) عیدی تقسیم کرنا:-

یوم ولادت عیدی تقسیم کرنا ہمارے اللہ عزوجل کی سنت کریمہ ہے پہلے عیدی کا مطلب جان لیجئے کہ لغوی اعتبار سے “عید کے انعام“ کو عیدی کہتے ہیں اب اس پر بطور دلیل میں، آپ کو وہی روایت یاد دلاؤں گا کہ جو گھر وغیرہ کو سجانے کے بارے میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی تھی اور حضرت عمرو بن قتیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی تھی اس روایت کے یہ جملے یاد کیجئے،

(1) دنیا کے پہاڑ بلند ہو گئے (2) سورج کو اس دن عظیم روشنی عطا کی گئی (3) دنیا کی تمام عورتوں کیلئے نرینہ اولاد مقرر فرمائی (4) حکم فرمایا کہ کوئی درخت بغیر پھل کے نہ رہے (5) جہاں بدامنی ہے وہاں امن ہو جائے (6) تمام دنیا نور سے بھر گئی (7) آسمان روشن ہو گئے ( 8 ) حوض کوثر کے کنارے مشک و عنبر کے ستر ہزار درخت پیدا فرمائے اور ان کے پھلوں کو اہل جنت کی خوشبو قرار دیا۔“

اب دیکھتے جائیے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں بطور عیدی کیا کیا چیزیں تقسیم فرمائیں چنانچہ “پہاڑوں کو بلندی، سورج کی عظیم روشنی، عورتوں کو نرینہ اولاد درختوں، کو پھل، دنیا والوں کو امن و نور، آسمان کو روشنی اور اہل جنت کیلئے خوشبو کا تحفہ تقسیم ہوا۔

اور مدارج النبوت میں منقول روایت میں ہے “قریش کا یہ حال تھا کہ وہ شدید قحط اور عظیم تنگی میں مبتلا تھے چنانچہ تمام درخت خشک اور تمام جانور نحیف و لاغر ہو گئے تھے پھر (مولود پاک کی برکت سے) اللہ تعالٰی نے بارش بھیجی، جہاں بھر کو سر سبز و شاداب کیا، درختوں میں تازگی آ گئی، خوشی و مسرت کی ایسی لہر دوڑی کہ قریش نے اس سال کا نام سنۃ الفتح والا ابتہاج (یعنی روزی اور خوشی کا سال) رکھا۔“

اس روایت سے بارش، سرسبز و شادابی، درختوں میں تازگی اور خوشی و مسرت کی عیدی کی تقسیم کا ثبوت۔“ ملا۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...