Wednesday, 7 January 2015

( حدیث نمبر : ۔ 1 تا 5 ) میرے آقا ﷺ کے آباؤ اجداد سب پاک تھے

( حدیث نمبر : ۔ 1 تا 5 ) میرے آقا ﷺ کے آباؤ اجداد سب پاک تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي رَکْبٍ مِنْ قُرَيْشٍ وَکَانُوْا تُجَّارًا بِالشَّامِ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مَادَّ فِيْهَا أَبَا سُفْيَانَ وَکُفَّارَ قُرَيْشٍ، فَأَتَوْهُ وَهُمْ بِإِيْلِيَاءَ، فَدَعَاهُمْ فِي مَجْلِسِهِ، وَحَوْلَهُ عُظَمَاءُ الرُّوْمِ، ثُمَّ دَعَاهُمْ وَدَعَا بِتَرْجُمَانِهِ، فَقَالَ : أَيُّکُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا بِهَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعَمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟ فَقَالَ أَبُوْ سُفْيَانَ : فَقُلْتُ : أَنَا أَقْرَبُهُمْ نَسَبًا، فَقَالَ : أَدْنُوْهُ مِنِّي وَقَرِّبُوْا أَصْحَابَهُ، فَاجْعَلُوْهُمْ عِنْدَ ظَهْرِهِ، ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ : قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ هَذَا الرَّجُلِ، فَإِنْ کَذَبَنِي، فَکَذِّبُوْهُ، فَوَاﷲِ، لَوْ لاَ الْحَيَاءُ مِنْ أَنْ يَأْثِرُوْا عَلَيَّ کَذِبًا لَکَذَبْتُ عَنْهُ، ثُمَّ کَانَ أَوَّلَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَنْ قَالَ : کَيْفَ نَسَبُهُ فِيْکُمْ؟ قُلْتُ : هُوَ فِيْنَا ذُوْ نَسَبٍ… فَقَالَ لِلتَّرْجُمَانِ قُلْ لَهُ : سَأَلْتُکَ عَنْ نَسَبِهِ فَذَکَرْتَ : أَنَّهُ فِيْکُمْ ذُوْ نَسَبٍ، فَکَذَلِکَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا… الحديث. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.

1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : بدء الوحي، باب : کيف کان بدء الوحي إلی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 7، الرقم : 7، وفي کتاب : الجهاد والسير، باب : دعاء النبي صلی الله عليه وآله وسلم الناس إلی الإسلام والنبوة، 3 / 1074، الرقم : 2782، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 309، الرقم : 11064، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 262، الرقم : 2370، وأبو يعلی في المسند، 5 / 7، الرقم : 2617، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 16، 20، الرقم : 7270، 7272، وابن منده في الإيمان، 1 / 288، الرقم : 143، وأبو عوانة في المسند، 4 / 268، الرقم : 6727، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 177، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 174، وفي البداية والنهاية، 2 / 204.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ انہیں ابو سفیان بن حرب نے بتایا کہ انہیں ہرقل (شاہ روم) نے قریش کی ایک جماعت کے ساتھ اپنے دربار میں بلایا جب کہ وہ شام میں بغرضِ تجارت موجود تھے۔ اس زمانے میں جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ابو سفیان اور کفارِ قریش سے معاہدہ امن (صلح حدیبیہ) کیا ہوا تھا۔ یہ لوگ ہرقل کے پاس پہنچے اور ہرقل مع اپنی جماعت کے ایلیا (بیت المقدس) میں تھا۔ ہرقل نے ان لوگوں کو اپنے دربار میں طلب کیا، اس کے اردگرد عمائدین روم بیٹھے تھے، اس نے انہیں بلایا اور پھر اپنے ترجمان کو بھی بلایا اور کہا : تم میں سے بلحاظ نسب کون اس شخص سے زیادہ قریب ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟ ابو سفیان نے کہا : میں نسبی لحاظ سے ان کے زیادہ قریب ہوں۔ اس نے کہا : اسے میرے قریب کر دو اور ان کے ساتھیوں کو اس کے قریب اس کی پشت کے پیچھے بٹھا دو۔ پھر اس نے اپنے ترجمان سے کہا : ان کے ساتھیوں سے کہو میں اس سے اس نبوت کے دعویدار شخص کے متعلق پوچھنے لگا ہوں، اگریہ غلط بیانی کرے تو تم اس کی تکذیب کر دینا۔ (ابو سفیان نے کہا) خدا کی قسم! اگر مجھے اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ وہ (یعنی میرے ساتھی) بعد میں لوگوں سے میرے جھوٹ بیان کریں گے تو میں حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے بارے میں ضرور جھوٹ بولتا پھر اس نے سب سے پہلے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے متعلق مجھ سے جو بات پوچھی وہ یہ تھی کہ تم میں اس شخص (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) کا مقامِ نسب کیسا ہے؟ میں نے کہا : وہ ہم میں سے نہایت عالی نسب ہیں۔ ۔ ۔ اس نے ترجمان سے کہا : ان سے کہو میں نے تم سے اس کے نسب کے متعلق پوچھا تو تم نے بتایا کہ وہ تم میں نہایت عالی نسب ہیں اور اسی طرح تمام رسولوں کی (نشانی یہ ہے) کہ وہ اپنی قوم کے ایسے ہی (سب سے اعلیٰ) نسب میں مبعوث کیے جاتے ہیں۔ (آگے طویل حديث ہے۔ )‘‘

اس حديث کو امام بخاری، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔

2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : بُعِثْتُ مِنْ خَيْرِ قُرُوْنِ بَنِي آدَمَ قَرْنًا فَقَرْنًا، حَتَّی کُنْتُ مِنَ الْقَرْنِ الَّذِي کُنْتُ فِيْهِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.

2 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : صفة النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 1305، الرقم : 3364، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 373، الرقم : 8844، 9381، وأبو يعلی في المسند، 11 / 431، الرقم : 6553، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 139، الرقم : 1392، وفي دلائل النبوة، 1 / 175، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 24، وابن حبان في طبقات المحدثين بأصبهان، 4 / 275، والقاضي عياض في الشفا، 1 / 125، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 43 / 95، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 174، وفي البداية والنهاية، 2 / 256، والقيسراني في تذکرة الحفاظ، 4 / 1254.

’’حضرت ابو ہریرہ رضي اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے نوعِ انسانی کے بہترین زمانہ میں مبعوث کیا گیا۔ زمانوں پر زمانے گزرتے رہے یہاں تک کہ مجھے اس زمانہ میں رکھا گیا جس میں، میں اب موجود ہوں۔‘‘

اس حديث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔

3. عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ رضي اﷲ عنه يَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنَّ اﷲَ اصْطَفَی کِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيْلَ، وَاصْطَفَی قُرَيْشًا مِنْ کِنَانَةَ، وَاصْطَفَی مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِِذِيُّ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

3 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : فضل نسب النبی صلی الله عليه وآله وسلم، 4 / 1782، الرقم : 2276، والترمذی فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : باب : ما جاء فی فضل النبی صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 583، الرقم : 3605، وابن حبان فی الصحيح، 14 / 135، الرقم : 6242، وأحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 107، وابن أبي شيبة فی المصنف، 6 / 317، الرقم : 31731، وأبو يعلی فی المسند، 13 / 469، الرقم : 7485، والبيهقی فی السنن الکبری، 6 / 365، الرقم : 12852، 3542، وفی شعب الإيمان، 2 / 139، الرقم : 1391، وفي دلائل النبوة، 1 / 165، والطبرانی فی المعجم الکبير، 22 / 66، الرقم : 161، واللالکائي فی اعتقاد أهل السنة، 4 / 751، الرقم : 1400، والقاضي عياض في الشفا، 1 / 126.

’’حضرت واثلہ بن اسقع رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اولادِ اسماعیل عليہم السلام سے بنی کنانہ کو منتخب کیا اور اولادِ کنانہ میں سے قریش کو منتخب کیا اور قریش میں سے بنی ہاشم کو منتخب کیا اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرفِ انتخاب بخشا۔‘‘

اس حديث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن ہے۔

4. عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : جَاءَ الْعَبَّاسُ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَکَأَنَّهُ سَمِعَ شَيْئًا‘ فَقَامَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ : مَنْ أَنَا؟ فَقَالُوْا : أَنْتَ رَسُوْلُ اﷲِ عَلَيْکَ السَّلَامُ، قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنَّ اﷲَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً‘ ثُمَّ جَعَلَهُمْ فِرْقَتَيْنِ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً‘ ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ قَبِيْلَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُيُوْتًا فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا وَخَيْرِهِمْ نَسَبًا.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

4 : أخرجه الترمذی فی السنن، کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : (99)، 5 / 543، الرقم : 3532، وأحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 210، الرقم : 1788 والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 149، والديلمي فيمسند الفردوس، 1 / 41، الرقم : 95، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 178، الرقم : 466، والهندي في کنز العمال، 11 / 415، الرقم : 31950، والقاضي عياض في الشفا، 1 / 126.

’’حضرت مطلب بن ابی وداعہ رضي اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عباس رضي اﷲ عنہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ایسا لگ رہا تھا گویا کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے (اس وقت کافروں سے) کوئی ناگوار بات سنی تھی (اور آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم اس وقت جلال کی حالت میں تھے، پس واقعہ پر مطلع ہو کر) حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا : میں کون ہوں؟ صحابہ نے عرض کیا : آپ پر سلامتی ہو، آپ رسولِ خدا ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں (رسولِ خدا تو ہوں ہی اس کے علاوہ نسبًا میں) محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہوں۔ جب خدا نے مخلوق کو پیدا کیا تومجھے بہترین خلق (یعنی انسانوں) میں پیدا کیا‘ پھر مخلوق کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا (یعنی عرب و عجم)‘ تو مجھے بہترین طبقہ (یعنی عرب) میں رکھا۔ پھر ان کے مختلف قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ (یعنی قریش) میں پیدا کیا، پھر ان کے گھرانے بنائے تو مجھے (ان میں سے) بہترین گھرانہ میں پیدا کیا اور ان میں سے بہترین نسب والا بنایا، (اس لئے میں ذاتی شرف اور حسب و نسب کے لحاظ سے تمام مخلوق سے افضل ہوں)۔‘‘

اس حديث کو امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے، نیز امام ابو عیسی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن ہے۔

5. عَنْ عَائِشَةَ رضي اللّٰه عنها عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ جِبْرِيْلَ عليهم السلام قَالَ : قَلَّبْتُ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا فَلَمْ أَجِدْ رَجُـلًا أَفْضَلَ مِنْ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم، وَلَمْ أَرَ بَيْتًا أَفْضَلَ مِنْ بَيْتِ بَنِي هَاشِمٍ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.

5 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 237، الرقم : 6285، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 176، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 632، الرقم : 1494، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 628، الرقم : 1073، واللالکائي فی اعتقاد أهل السنة، 4 / 752، الرقم : 1402، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 187، الرقم : 4516، والخطيب في وسيلة الإسلام بالنبي عليه الصلاة والسلام، 1 / 140، ومحب الدين الطبري في الذرية الطاهرة، 1 / 122، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 257، وفي تفسير القرآن العظيم، 2 / 174، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 66، والمناوي في فيض القدير، 4 / 499، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 8 / 217 .

’’ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت جبریل عليہم السلام نے (خدمت اقدس میں حاضر ہو کر) عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں نے تمام زمین کے اطراف و اکناف اور گوشہ گوشہ چھان مارا، مگر نہ تو میں نے محمد مصطفی صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے بہتر کسی کو پایا اور نہ ہی میں نے بنو ہاشم کے گھرانہ سے بڑھ کر بہتر کسی گھرانے کو دیکھا۔‘‘

اس حديث کو امام احمد، طبرانی، بیہقی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...