Wednesday, 14 January 2015

شیطان سے انٹرویو ( حصّہ اوّل ) : . ذرا آپ بھی پڑھیئے جناب ۔ ترتیب و پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور


سوال: تمہارا نام؟
شیطان: پہلے ازازیل تھا اب مجھے لوگ شیطان کہتے ہیں۔
سوال: اس سے پہلے کہ سوالات کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ ایک چھوٹی سی بات‘ اکثر بہن بھائی کی شکایت ہے کہ وہ اعوذ باﷲ بھی پڑھتے ہیں مگر تم ہوکہ جاتے ہی نہیں؟
شیطان: کمال ہے تم کہتے ہو میں جاتا نہیں‘ میں کہتا ہوں میں آتا ہی نہیں۔
سوال: بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ انٹرویو سے پہلے تم خود ہی کہہ رہے تھے کہ ہمارے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ اب خود ہی ہنسی مذاق میں وقت ضائع کررہے ہو۔
شیطان: مذاق کرنا تو جاہلوں کا کام ہے۔ شاید تم میری بات پوری طرح سمجھ نہیں پائے۔ پھر سے دہرائے دیتا ہوں تم نے کہا کہ اکثر لوگ شکایت کرتے ہیں کہ اعوذ باﷲ پڑھنے سے بھی میں جاتا نہیں۔ میں نے جواب دیا کہ میں آتا ہی نہیں۔ لو سنو! ابھی وضاحت کردیتا ہوں۔ تم نے کسی امیدوار کو الیکشن مہم کے دوران ووٹ مانگتے تو ضرور دیکھا ہوگا کہ الیکشن تو تمہارے ہاں روز کا ڈرامہ ہے۔ امیدوار صاحب ٹی پارٹی کے چند ممبروں کو ساتھ لے کر گھر گھر ووٹ مانگتے پھرتے ہیں جونہی ایک ساتھی کسی گھر کی گھنٹی بجانے لگے امیدوار نے کہا …اوہو‘ گھنٹی نہ بجانا‘ وقت ضائع نہ کرو‘ ادھر جانے کی کیا ضرورت ہے یہ تو اپنا ہی آدمی ہے۔
بھولے بادشاہ اسی طرح تم بھی میرے اپنے ہی آدمی ہو
سوال: میرا ایک سوال کہ تم مردود کیوں قرار پائے اور یہ ازلی بدبختی تمہارے حصہ کیسے آئی؟ تمہارا پچھلا ریکارڈ دیکھتے ہوئے امید تو نہیں مگر ہوسکے تو پورا واقعہ سچ سچ سنانا؟
شیطان: جاؤ! آج تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ جو کچھ کہوں گا کہ سچ کہوں گا‘ سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا۔ ویسے یہ جملہ پہلی مرتبہ میری زبان سے ادا ہورہا ہے۔ ورنہ عدالتوں میں اکثر میرے ساتھی ہاتھوں میں قرآن لے کر روزانہ اس جملے کا ورد کرتے ہیں۔ جو تم نے کہا کہ سچ سچ سنانا۔ تمہاری یہ بات سن کر حیران ہورہا ہوں کہ شکل و صورت سے تو تم بہت پڑھے لکھے نظر آرہے ہو‘ مگر لگتا ہے میرے ہی مطلب کے کسی اسکول کے تعلیم یافتہ ہو۔ اچھا ایک بات بتائو‘ کیا اﷲ سے بڑھ کر کسی کی بات سچ ہوسکتی ہے؟
سوال: نہیں۔
شیطان: جھوٹ بولتے ہو‘ اگر تمہیں یقین ہوتا کہ سب سے سچی بات اﷲ کی ہے تو تم کبھی ایسا سوال کرنے کی جرات نہ کرتے۔ بے وقوف اﷲ نے تو تمہیں آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے کائنات کی سب سے سچی زبان محمدﷺ کے ذریعے پورا واقعہ حرف بحرف سنادیا تھا۔ جو تم میں سے ہر ایک کے گھر آج بھی بالکل اسی طرح لکھا ہوا موجود ہے۔ افسوس! کہ آج تک تمہیں فرصت نہ مل سکی کہ تم اس کتاب کو کھول کر دیکھ سکو۔ جس میں یہ واقعہ درج ہے۔ میرے ہی کہنے کے مطابق تم نے اسے خوبصورت چمکیلے سے‘ معطر غلاف میں لپیٹ کر اتنی اونچی جگہ رکھ دیا ہے کہ جہاں چھوٹے کیا بڑوں کا بھی ہاتھ نہیں پہنچتا۔ اگر کسی کے گھر اتنی اونچی جگہ نہ ہو اور وہ کسی فوتگی پر اسے کھول کر دیکھ ہی لے تو اس بے چارے کو کچھ سمجھ نہیں آتی کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ ماشاء اﷲعقیدت ہو تو ایسی۔ دیکھ لو اپنی حالت‘ واقعہ قرآن کا اور سنانے لگا ہوں میں گھبرائو مت‘ ترجمہ کرکے سنائوں گا۔
پہلے کی بات ہے۔ ایک دن اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں‘ تو جب میں اسے بنادوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو سب اس کو سجدہ کرنا‘ سب نے سجدہ کیا سوائے میرے۔ میں نے انکار کردیا۔ اﷲ تعالیٰ نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ تو نے سجدہ نہیں کیا؟ جبکہ میں نے تجھے حکم دیا۔ میں نے کہا میں اس سے بہتر ہون۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے۔ اﷲ تعالیٰ نے کہا‘ نکل جا یہاں سے بے شک تو مردود ہے اور قیامت تک تجھ پر لعنت ہے۔ جا تجھے مہلت دی جاتی ہے۔ میں نے کہا‘ میں لوگوں کو تیرے سیدھے راستے سے گمراہ کرنے کیلئے ضروران کی تاک میں بیٹھوں گا اور انہیں بہکانے کیلئے ان کے پاس جائوں گا۔ ان کے آگے سے پیچھے سے‘ دائیں سے‘ بائیں سے اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔ اﷲ تعالیٰ نے کہا۔ جس کسی نے تیری پیروی کی تو یقینا ان سے جہنم کو بھردوں گا۔
یہ تھی اصل صورتحال۔ اب تو تمہیں پتہ چل گیا ہوگا کہ میں مردود کیوںٹھہرا۔ اب مجھے لعنتی اور مردود کہنے والو! دوسرے کی آنکھ میں پڑا تنکا بھی تمہیں نظرآجاتا ہے اور اپنی آنکھ میں پڑا شہتیر نظر نہیں آتا۔ کبھی اپنے کرتوتوں پر بھی غور کیا تم نے۔ میں نے اﷲکے حکم پر ایک سجدہ نہ کیا۔ اﷲ روز پانچ مرتبہ سجدہ کے لئے بلاتا ہے‘ تم ہر روز پانچوں مرتبہ انکار کردیتے ہو۔ کیا تم مجھ سے بڑے شیطان نہ ہوئے‘ میرے ساتھ جو ہوا سو ہوا۔ تم بتائو قیامت کے دن کتنے بڑے مجرم قرار پائوگے؟
نادانو! میں نے اﷲ کے سامنے قسم کھا کر چیلنج کیا کہ تم لوگوںکو چھوڑوں گا نہیں۔ ضرور اپنے ساتھ جہنم میں لے جائوں گا اب کیسے مسلمان ہو تم اﷲ یہ قدر کی تم نے اﷲکی کہ اس چیلنج کو سچ کر دکھانے میں میرے ساتھ بھرپور تعاون کررہے ہو اور مجھے سچ ثابت کرنے میں ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہو۔
تمہارے ہی متعلق اﷲ نے قرآن میں کہا ’’لوگوں نے اﷲ کی قدر نہیں پہچانی جیسا کہ قدر پہچاننے کا حق ہے اور ذرا اپنی شکلیں اور اپنے کرتوت دیکھو۔ کیا اس طرح کے ہوتے ہیں اﷲ کے نائب؟
سوال: تم تو دوسروں کو غصہ دلانے والے ہو۔ آج خود غصے سے کانپ رہے ہو۔ ابھی تو بہت سارے سوالات باقی ہیں۔ میرا اگلا سوال کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کے پاک فرمان کے مطابق رمضان میں تمہیں قید کردیا جاتا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا تم دوران قید بھی کوئی دائو چلانے کی کوشش کرتے ہو؟
شیطان: بڑا دلچسپ سوال کیا تم نے اس میں کوئی شک نہیں کہ رمضان میں واقعی مجھے قید کردیا جاتا ہے مگر لوگ تو قید نہیں ہوتے۔ تمہارے جیسے خیر خواہوں کے آزاد پھرنے سے رمضان میں بھی میرا کچھ نہ کچھ کاروبار چلتا رہتا ہے۔ اگر میرا کام بالکل بند بھی ہوجائے تو پرواہ نہیں بس عید کا چاند نظر آنے کی دیر ہوتی ہے‘ پورے رمضان کی کسر صرف ایک رات میں نکال دیتا ہوں۔ مثال کے طور پر پورا رمضان روزے رکھنے والی ’’نیک پروین‘‘ جب چاند رات گاڑھے میک اپ میں لت پت‘ بے پردہ بازار جاکر چوڑی گر (اصل میں وہ چوڑی گر کے دوست ہوتے ہیں) جو پورا سال اس موقع کی تاڑ میں ہوتے ہیں‘ ان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتی ہیں تو خدا کی قسم تمہارے وہم میں بھی نہ ہوگا کہ اﷲ اس وقت کتنا غضبناک ہوتا ہے اور میں اس وقت خوشی سے جھوم رہا ہوتاہوں۔ واہ کیا عجب سماںہوتا ہے۔ اس وقت آنکھوں سے زنا‘ زبان سے زنا اور کانوں سے زنا ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اس وقت ان دونوں میں تیسرا میں بھی ہوتا ہوں۔ پاس ہی ان عورتوں کے شوہر‘ باپ یا بھائی کھڑے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ویسے عجیب بات ہے کہ اگر چوڑی گر کے علاوہ کوئی بھی اس طرح بھرے بازار میں تمہارے بہن‘ بیوی‘ یا بیٹی کا ہاتھ پکڑ لے تو فائرنگ شروع ‘ بازار بندلاشوں کے ڈھیر‘ ہڑتال مگر اس وقت تمہاری غیرت پتہ نہیں کہاں گئی ہوتی ہے؟
پھر چاند رات کی تقریبا ہر گلی محلے اور بازاروں میں انڈین گانوں کی گونج‘ کان پر پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ گلیوں اور بازاروں میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کی گہما گہمی‘ یہ سب کچھ دیکھ کر مجھے بے اختیار ہنسی آجاتی ہے کہ دیکھو ان قرآن و حدیث پر ایمان کے جھوٹے دعویداروں کو‘ کیا قرآن میں اﷲ تعالیٰ تمہیں نہیں کہتا کہ میں تمہارا کھلم کھلا دشمن ہوں؟ کیا حدیث میں تمہارے نبیﷺ کا فرمان نہیں کہ رمضان میں مجھے قید کردیا جاتا ہے۔ پھر چاند رات تمہارا جشن اس طرح منانا‘ عقل کے اندھو! جب دشمن قیدسے آزاد ہوتا ہے تو اس طرح گانے بجاکر خوشیاں مناتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ تم نے مجھے دشمن سمجھا ہی کب ہے؟ میری رہائی پر تمہاری خوشی‘ یہ استقبال‘ یہ سب کچھ ثابت کرتا ہے کہ تم مجھ سے کتنی والہانہ محبت رکھتے ہو‘ بہرحال تم لوگوں نے اب تک میرا بہت ساتھ دیا۔
سوال: خدا جانے لوگ تمہاری دوستی پر کیسے یقین کرلیتے ہیں۔ تمہارے تو ایک ایک لفظ سے انسان دشمنی کی بو آتی ہے۔ جی تو چاہتا ہے کہ تم سے مزید کوئی سوال نہ کروں مگر بہرحال یہ بتائو کہ تمہاری زندگی کا کوئی ایسا واقعہ جہاں تمہیں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہو اور تمہارا ہر حربہ ناکام ہوگیا ہو؟
شیطان: بڑا تکلیف دہ سوال ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ابراہیم علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے خواب میں دکھلایا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کررہے ہیں۔ مجھے پہلے ہی وہ بات بڑی چھبتی تھی۔ جو اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں بیان فرمائی کہ ’’ابراہیم کو جن باتوں میں بھی آزمایا اس نے سب کی سب پوری کرکے دکھائیں‘‘ ایک دن ابراہیم نے اپنے بیٹے سے کہا کہ بیٹا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں۔ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا‘ اے اباجان کر گزریئے جس کا آپ کو حکم ملا ہے۔ اگر اﷲ نے چاہا تو آپ مجھے ضرور صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ دونوں باپ بیٹے تڑکے تڑکے گھر سے روانہ ہوئے۔ بیٹا اپنی جوانی‘ اپنا حسن‘ اپنی امیدوں اور امنگوں کی دنیا قربان کرنے کے لئے خوشی خوشی جارہا تھا ‘ اور باپ اپنی سو سالہ دعائوں کا بہترین پھل‘ اپنے لخت جگر اور نور نظر کو قربان کرنے جارہاتھا۔ دونوں بڑے خوش تھے اور بے حد مسرور‘ میں نے سوچاآج تک ابراہیم علیہ السلام نے مجھے ہر قسم پر تکلیف پہنچائی۔ آج اگر اس کا بنا بنایا کھیل بگاڑ کر رکھ دوں تو ابلیس میرا نام نہیں‘ دوڑتا ہوا ان کے گھر پہنچ گیا۔ حضرت حاجرہ تشریف فرما تھیں۔ پوچھا میاں جی کہاں ہیں اور ننھا اسماعیل آج نظر نہیں آرہا۔ حاجرہ نے بتایا کہ دونوں باپ بیٹا سیروتفریح کے لئے گئے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا تم تو دھوکے میں ہو‘ ابراہیم علیہ السلام آج تیرے بچے کو ذبح کرنے کیلئے گیا ہوا ہے۔ دوڑو اورفورا اپنے بچے کو بازو سے پکڑلو۔ ورنہ چند لمحوں بعد اس کی لاش پر بین کررہی ہوگی کہنے لگی! کبھی باپ بھی اپنے بیٹے کو ذبح کرتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کو تو اپنے بیٹے سے بڑا پیار ہے تم جھوٹ بک رہے ہو۔ نکلو یہاں سے میں نے کہا تم بھولی بنی بیٹھی ہو‘ وہ آج ضرور تیرے بیٹے کو ذبح کردے گا۔ اچانک میرے منہ سے نکل گیا کہ اس کے رب نے اسے حکم دیا ہے۔ یہ سننے کی دیر تھی کہ حاجرہ نے جواب دیا۔ اگر رب کریم کا حکم ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ یہ ایک اسماعیل ہے اگر ہزار اسماعیل ہوں‘ تو بھی اس کے ایک اشارہ پر قربان کردوں۔ ماں کا دل بڑا نرم ہوتا ہے یہاں مجھے اپنی کامیابی کی سو فیصد امید تھی لیکن منہ کی کھانی پڑی۔ میں نے ہمت نہ ہاری‘ دوڑتا ہوا اسماعیل کے پاس پہنچا۔ وہاں سے بھی یہی جواب ملا۔ ہمت کرکے آخری وار آزمانے کے لئے حضرت سے جاکر الجھ پڑا اور کہا اتنے عقل مند ہوکر بچے کو ذبح کرنے چلے ہو۔ یہ کہاں کی ہوشمندی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کو راضی کرنے کے اور بھی سینکڑوں طریقے ہیں۔ بڑھاپے میں ایک بچہ ملا‘ وہ بھی اتنا حسین جسے دیکھ کر چاند شرما جائے۔ اس کو ذبح کرنے جارہے ہو۔ تمہارا نام لینے والا کوئی نہیں رہے گا۔ نسل ختم ہوجائے گی۔ خاندان مٹ جائے گا اور یہ جو خواب کی رٹ لگا رکھی ہے‘ یہ شیطانی وسوسہ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر اﷲ نے یہ حکم دینا ہوتا تو جبرائیل آپ کے پاس یہ حکم لے کر آتے۔ ابراہیم نے زمین سے پتھر اٹھایا اور مجھے دے مارا۔ تین دفعہ میرے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا گیا۔ میری آنکھیں کھل گئیں۔ مجھے پتہ چل گیا کہ آج اﷲ تعالیٰ کے کسی بندے کے ساتھ واسطہ پڑا ہے۔
اسی واقعہ کی سنت کے طور پر تم لوگ اتنے اتنے مہنگے اور چار چار پانچ پانچ جانور قربان کرتے ہو مگر میں بڑی اچھی طرح جانتا ہوں کہ تمہاری ان قربانیوں کے پیچھے کیا جذبہ کارفرما ہے۔پرلے درجے کے ریاکار ہو تم لوگ۔ اگر نہیں تو رشوت لینا دینا‘ گالیاں بکنا‘ جھوٹ بولنا‘ گانے سننا‘ ڈرامے اور فلمیں دیکھنا ‘کردو اعلان کہ آج ہم نے اپنے اﷲ کی خاطر یہ عادتیں بھی قربان کردیں۔ یہ نہیں کرتے اور جانور اس لئے قربان کرتے ہو کہ اس میں مشہوری ہوتیہے۔
سوال: اچھا یہ تو بتائو کہ تم کھاتے کہاں سے ہو یعنی تمہاری خوراک کیا ہے؟
شیطان: جب تم اپنے سامنے پڑے ہوئے قسم قسم کے کھانے بغیر بسم اﷲ پڑھے چٹ کر جاتے ہواور اپنے منہ میں ڈالتے ہوتو درحقیقت یہ ایک ایک لقمہ میرے پیٹ میں جاتا ہے۔
سوال: اس کی کیا دلیل ہے؟
شیطان: شرم آنی چاہئے تم کو۔ اپنے نبیﷺ کے فرمان کے بعد بھی دلیل مانگتے ہو پھر بھی تسلی نہ ہو تو ابھی سمجھائے دیتا ہوں۔ اتنی مرغن غذائیں کھانے کے باوجود تمہارے جسموں میں رتی بھر طاقت نہیں ہوتی۔
سوال: کوئی ایسا گناہ جس کے بارے میں تمہاری خواہش ہو کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس گناہ میں ملوث ہوں؟
شیطان: گناہ بڑا ہو یا چھوٹا میں تو کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ البتہ مسلمانوں کو میں حضورﷺ اور ان سے نسبت رکھنے والے صحابہ کرام‘ تابعین‘ تبع تابعین‘ اولیائے کاملین اور ان سے نسبت رکھنے والی چیزوں کی تعظیم و توقیر سے روکتا ہوں اور ان کی گستاخی میں مبتلا کرتا ہوں تاکہ یہ چیز مسلمانوں کی نمازیں روزے‘ زکوٰۃ‘ حج‘ خیرات‘ صدقات اور تبلیغوں کو حقارت کردے۔ کیونکہ میں خود بھی بہت بڑا عابد تھا۔ میرے پاس چھ کروڑ برس کی عبادت تھی۔ صرف آدم علیہ السلام کو سجدہ تعظیمی نہ کرنے کے باعث وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ آدم علیہ السلام کی پیشانی میں نور محمدی تھا۔ اس نور محمدی سے مجھے بغض و حسد تھا لہذا میں مردود ہوا۔ میری چھ کروڑ سال کی عبادت حقارت چلی گئی۔
اسی دن سے میں نے یہ تحیہ کرلیا کہ اب مسلمانوں کو انبیاء کرام اور مقربین کی تعظیم و توقیر سے روکو تاکہ یہ بھی میری طرح اتنی عبادت ہونے کے باوجود نام نہاد عابد بن کر رہ جائے اور آخرت میں ان کو کوئی حصہ نہ ملے۔
اب میں مطمئن ہوں‘ میں نے کسی گروہ کو حضورﷺ کی ذات میں عیب تلاش کرنے میں مبتلا کردیا ہے‘ کسی گروہ کو صحابہ کرام کی گستاخی میں مبتلا کردیا‘ کسی گروہ کو اہلبیت اطہار کی شان میں طعنہ زنی میں مبتلا کردیا اور کسی گروہ کو منکر حدیث بنادیا ہے۔ کسی گروہ کو منکر ختم نبوت بنا دیا ہے‘ کسی گروہ کو اولیاء اﷲ سے اوران کے مزارات سے نفرت میں مبتلا کردیا ہے اور کسی گروہ کو شعائر اسلام کا مذاق اڑانے میں مبتلا کردیاہے۔ یہ بیوقوف لوگ اپنے آپ کو فرزندان توحید کہتے ہیں حالانکہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔
سوال: مسلمانوں میں اہل حق جماعت کو کس کام میں تم نے مبتلا کیا ہے؟
شیطان: اہل حق جماعت میں جاہلانہ رسم و رواج‘ بدعملی اور آپس میں امتیازی سلوک میں مبتلا کردیا ہے۔ ان کوآپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعصبانہ رویہ اور بغض و عداوت میں مبتلا کردیا ہے تاکہ ان کے نیک عمل ضائع ہوجائیں۔
سوال: علمائے حق کو کس چیز میں مبتلا کرتے ہو؟
شیطان: علمائے حق میں‘ میں نے حسد تقسیم کردی ہے۔ وہ حسد کے باعث اپنا اصل مقام کھو بیٹھے ہیں۔ وہ ایک دوسرے پر طعنہ زنی اور الزامات میں ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ کبھی ایک چیز پر متفق نہیں ہوتے۔ ان کے اختلافات میں ذاتیات شامل ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اتحاد و اتفاق کی نعمت سے محروم رہتے ہیں۔ میں نے ’’قم باذن اﷲ‘‘ کہہ کر مردوں کو زندہ کرنے والوں کو بھی حسد کے باعث تباہ کردیا ہے۔ میرے اس ہتھیار سے فقط وہی علماء بچ سکتے ہیں جن کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی مدد ہوتی ہے۔
سوال: علمائے سوء کو کس بیماری میں مبتلا کرتے ہو؟
شیطان: علمائے سوء کو میں نے حق اور سچ چھپانے کی بیماری میں مبتلا کردیا ہے۔ وہ اپنے پیروکاروں کے مطابق اپنے باطل عقیدے کو پروان چڑھاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے پیروکار ان کو مال و دولت سے بھر دیتے ہیں۔ ایسے علماء سوء اور ان کے پیروکاروں سے میں مطمئن ہوں کہ یہ خود اپنے آپ کو اور اپنے پیروکاروں کو جہنم کی طرف دھکیل رہے ہیں
سوال: وہ کون سا وقت تھا جو تجھ پر قیامت ٹوٹی؟
شیطان: وہ وقت ولادت رسولﷺ کاتھا جب مجھ پر قیامت ٹوٹی‘ میں چیختا چلاتا ماتم کرتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا۔ یہ اس لئے کہ مجھے معلوم تھا کہ یہ وہ ہستی ہے جس کے باعث لاتعداد لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔
سوال: مسلمان کے کون سے عمل سے تجھے بہت تکلیف ہوتی ہے؟
شیطان: بندہ جب سجدے میں جاتا ہے تو مجھے سب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ میں سر کو زمین پر پٹختا ہوا یہ کہا جاتا ہوں کہ ہائے! اس سجدے کے باعث اس کی نجات ہوجائے گی۔
سوال: سب سے زیادہ خوشی تم کو کس وقت ہوتی ہے؟
شیطان: جب طالب علم علم کی مجلس میں جارہا ہوتا ہے تو مجھے اس طالب علم کو روک کراور میاں بیوی میں جدائی کروا کر سب سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔
سوال: کن لوگوں پر تیرا بس نہیں چلتا؟
شیطان: انبیاء کرام علیہم السلام اور مقربین پر میرا کوئی بس نہیں چلتا۔ میں ان کو بہکانے سے عاجز ہوں۔
سوال: پورا دن تیرے سے نجات کس طرح مل سکتی ہے؟
شیطان: روزانہ صبح کو دس مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ لے میں تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
سوال: رات کو تیرے سے نجات کس طرح مل سکتی ہے؟
شیطان: روزانہ رات کو تو سونے سے پہلے بستر پر آیت الکرسی پڑھ لے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے فرشتے کے ذریعے تیری مجھ سے حفاظت فرمائے گا۔
سوال: تم بندے سے کس وقت کھیلتے ہو؟
شیطان: جب بندہ غصے میں آتا ہے تو میں اس کو اپنے کنٹرول میں کرلیتا ہوں اور پھر اس سے خوب کھیلتا ہوں۔
سوال: اے دشمن جان و ایمان! ایک سیکنڈ میں اپنے ناپاک وجود سے یہ کمرہ خالی کر دو اور جائو جتنا جی چاہے زور لگالو۔ اﷲ تعالیٰ کی مدد سے اب میں پورے طور پر تم سے بچنے کی کوشش کروں گا۔
شیطان: کیسے بچوگے؟ تم کیا مجھے دیکھ سکتے ہو؟
سوال: اگر میں تم کو نہیں دیکھ سکتا تو تم بھی سن لو۔ میں بھی اپنے آپ کو اس ذات کے سپرد کرتا ہوں جس کو تم نہیں دیکھ سکتے

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...