Thursday 1 January 2015

(3) عقیدہ حیات النبی ﷺ حدیث نمبر 6 تا 10

0 comments

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
6. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : فَرَضَ اﷲُ عزوجل عَلٰی أُمَّتِي خَمْسِيْنَ صَـلَاةً، فَرَجَعْتُ بِذَالِکَ، حَتّٰی مَرَرْتُ عَلٰی مُوْسٰی، فَقَالَ : مَا فَرَضَ اﷲُ لَکَ عَلٰی أُمَّتِکَ؟ قُلْتُ : فَرَضَ خَمْسِيْنَ صَـلَاةً، قَالَ : فَارْجِعْ إِلٰی رَبِّکَ، فَإِنَّ أُمَّتَکَ لَا تُطِيْقُ ذَالِکَ، فَرَاجَعَنِي فَوَضَعَ شَطْرَهَا، فَرَجَعْتُ إِلٰی مُوْسٰی، قُلْتُ : وَضَعَ شَطْرَهَا، فَقَالَ : رَاجِعْ رَبَّکَ، فَإِنَّ أُمَّتَکَ لَا تُطِيْقُ، فَرَاجَعْتُ فَوَضَعَ شَطْرَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ : اِرْجِعْ إِلٰی رَبِّکَ، فَإِنَّ أُمَّتَکَ لَا تُطِيْقُ ذَالِکَ، فَرَاجَعْتُهُ، فَقَالَ : هِيَ خَمْسٌ وَهِيَ خَمْسُوْنَ، لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ، فَرَجَعْتُ إِلٰی مُوْسٰی، فَقَالَ : رَاجِعْ رَبَّکَ، فَقُلْتُ : اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي ثُمَّ انْطَلَقَ بِي حَتّٰی انْتَهٰی بِي إِلٰی سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰی وَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لَا أَدْرِي مَا هِيَ، ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ، فَإِذَا فِيْهَا حَبَاءِلُ اللُّؤْلُؤِ، وإِذَا تُرَابُهَا الْمِسْکُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

6 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصلاة، باب کيف فرضت الصلاة في الإسرائ، 1 / 136، الرقم : 342، وأيضًا في کتاب الأنبيائ، باب ذکر إدريس وهو جد أبي نوح ويقال جد نوح، 3 / 1217، الرقم : 3164، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الإسراء برسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم إلی السماوات وفرض الصلوات، 1 / 148، الرقم : 163.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (شبِ معراج) اللہ تعالیٰ نے میری اُمت پر پچاس نمازیں فرض کیں تو میں ان (نمازوں) کے ساتھ واپس آیا یہاں تک کہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے سوال کیا : اللہ تعالیٰ نے آپ کی اُمت کے لیے آپ پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا : اﷲ تعالیٰ نے پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے کہا : اپنے ربّ کی طرف واپس جائیے کیوں کہ آپ کی اُمت اِس (کی ادائیگی) کی طاقت نہیں رکھتی۔ پس انہوں نے مجھے واپس لوٹا دیا۔ (میری درخواست پر) اﷲ تعالیٰ نے ان کا ایک حصہ کم کر دیا۔ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف واپس گیا اور کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک حصہ کم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا : اپنے ربّ کی طرف (پھر) جائیے کیوں کہ آپ کی اُمت میں ان کی (ادائیگی کی) طاقت بھی نہیں ہے۔ پس میں واپس گیا تو اﷲ تعالیٰ نے ان کا ایک حصہ اور کم کر دیا۔ میں ان کی طرف آیا تو انہوں نے پھر کہا : اپنے ربّ کی طرف جائیے کیونکہ آپ کی امت میں ان کی ادائیگی کی طاقت بھی نہیں ہے۔ میں واپس لوٹا تو (اﷲ تعالیٰ نے) فرمایا : یہ (ہیں تو) پانچ (نمازیں) مگر (ثواب کے اعتبار سے) پچاس (کے برابر) ہیں۔ میرے ہاں اَحکامات تبدیل نہیں ہوا کرتے. میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے کہا : اپنے ربّ کی طرف جائیے (اور مزید کمی کے لیے درخواست کیجیے) میں نے کہا : مجھے اب اپنے ربّ سے حیا آتی ہے۔ پھر (جبرائیل علیہ السلام) مجھے لے کر چلے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے جسے مختلف رنگوں نے ڈھانپ رکھا تھا، نہیں معلوم کہ وہ کیا ہیں؟ پھر مجھے جنت میں داخل کیا گیا جس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک (کی مانند خوشبودار) ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

7. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ لَقِيْتُ مُوْسٰی قَالَ : فَنَعَتَهُ فَإِذَا رَجُلٌ حَسِبْتُهُ. قَالَ : مُضْطَرِبٌ رَجِلُ الرَّأْسِ کَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْءَةَ قَالَ : وَلَقِيْتُ عِيْسٰی فَنَعَتَهُ النَّبيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : رَبْعَةٌ أَحْمَرُ کَأَنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِيْمَاسٍ يَعْنِي الْحَمَّامَ وَرَأَيْتُ إِبْرَاهِيْمَ وَأَنَا أَشْبَهُ وَلَدِهِ بِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

7 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأنبيائ، باب قول اﷲ تعالی : واذکر في الکتاب مريم، 3 / 1269، الرقم : 3254، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الإسراء برسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم إلی السماوات، 1 / 154، الرقم : 168.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شبِ معراج میری حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وصف یوں بیان فرمایا : وہ دبلے پتلے، دراز قد، گھنگریالے بالوں والے ایسے آدمی ہیں جیسے قبیلہ شنوء ہ کے لوگ. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی ملاقات ہوئی. پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کا حلیہ بیان فرمایا کہ یہ درمیانہ قد، سرخ رنگ والے (اور ایسے تروتازہ ہیں) گویا ابھی حمام سے (نہاکر) نکلے ہیں اور میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی ملا اور میں اُن کی ساری اولاد میں سب سے زیادہ اُن سے مشابہ ہوں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

8. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه يَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم : لَيَهْبِطَنَّ عِيْسَی ابْنُ مَرْيَمَ حَکَمًا عَدْلًا وَإِمَامًا مُقْسِطًا، وَلَيَسْلُکَنَّ فَجًّا حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا أَوْ بِنِيَّتِهِمَا، وَلَيَأْتِيَنَّ قَبْرِي حَتّٰی يُسَلِّمَ عَلَيَّ وَلَأَرُدَّنَّ عَلَيْهِ. يَقُوْلُ أَبُوْ هُرَيْرَةَ : أَي بَنِي أَخِي، إِنْ رَأَيْتُمُوْهُ فَقُوْلُوْا : أَبُوْ هُرَيْرَةَ يُقْرِءُ کَ السَّلَامَ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

8 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 651، الرقم : 4162، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 47 / 493، والهندي في کنز العمال، 14 / 146، الرقم : 38851.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام عادل حاکم اور منصف امام کے طور پر ضرور اتریں گے. وہ فوری طور پر حج یا عمرہ یا دونوں کی نیت سے چل پڑیں گے اور میری قبر پر ضرور آئیں گے، مجھے سلام کریں گے اور میں اُنہیں ضرور جواب دوں گا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے (راوی سے) فرمایا : اے میرے بھتیجے! اگر آپ کو ان کی زیارت کی سعادت حاصل ہو تو ان سے عرض کرنا کہ ابو ہریرہ نے آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے۔‘‘

اِس حدیث کو امام حاکم، ابن عساکر اور متقی ہندی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

9. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي الْحِجْرِ، وَقُرَيْشٌ تَسْأَلُنِي عَنْ مَسْرَايَ، فَسَأَلَتْنِي عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ لَمْ أُثْبِتْهَا، فَکُرِبْتُ کُرْبَةً مَا کُرِبْتُ مِثْلَهُ قََطُّ، قَالَ : فَرَفَعَهُ اﷲُ لِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ. مَا يَسْأَلُوْنِي عَنْ شَيئٍ إِلَّا أَنْبَأْتُهُمْ بِهِ. وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، فَإِذَا مُوْسٰی عليه السلام قَاءِمٌ يُصَلِّي، فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌ کَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْءَةَ. وَإِِذَا عِيْسَی ابْنُ مَرْيَمَ عليهما السلام قَاءِمٌ يُصَلِّي، أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُوْدٍ الثَّقَفِيُّ. وَإِذَا إِبْرَاهِيْمُ عليه السلام قَاءِمٌ يُصَلِّي، أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ صَاحِبُکُمْ (يَعْنِي نَفْسَهُ) فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنَ الصَّلَاةِ، قَالَ قَاءِلٌ : يَا مُحَمَّدُ، هٰذَا مَالِکٌ صَاحِبُ النَّارِ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ. فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ فَبَدَأَنِي بِالسَّـلَامِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَاءِيُّ.

9 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب ذکر المسيح ابن مريم والمسيح الدجال، 1 / 156، الرقم : 178، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 455، الرقم : 11480.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (شبِ معراج) میں نے خود کو حطیم کعبہ میں پایا اور قریش مجھ سے سفرِ معراج کے بارے میں سوالات کر رہے تھے. اُنہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزیں پوچھیں جنہیں میں نے (یاد داشت میں) محفوظ نہیں رکھا تھا جس کی وجہ سے میں اتنا پریشان ہوا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا پریشان نہیں ہوا تھا، تب اﷲ تعالیٰ نے بیت المقدس کو اُٹھا کر میرے سامنے رکھ دیا۔ وہ مجھ سے بیت المقدس کے متعلق جو بھی چیز پوچھتے میں (دیکھ دیکھ کر) انہیں بتاتا چلا گیااور میں نے خود کو انبیاء کی ایک جماعت میں پایا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے، اور وہ قبیلہ شنوء ہ کے لوگوں کی طرح گھنگریالے بالوں والے تھے اور پھر حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے اور عروہ بن مسعود ثقفی اُن سے بہت مشابہ ہیں، اور پھر حضرت ابراہیم عليہ السلام کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے اور تمہارے آقا (یعنی خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ ہیں پھر نماز کا وقت آیا، اور میں نے ان سب اَنبیاء علیہم السلام کی امامت کرائی۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو مجھے ایک کہنے والے نے کہا : یہ مالک ہیں جو جہنم کے داروغہ ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ پس میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو انہوں نے (مجھ سے) پہلے مجھے سلام کیا۔‘‘

اِسے امام مسلم اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

10. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ وَهُوَ يَصِفَ يُوْسُفَ عليه السلام حِيْنَ رَآهُ فِي السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ قَالَ : رَأَيْتُ رَجُـلًا صُوْرَتُهُ کَصُوْرَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ. فَقُلْتُ : يَا جِبْرِيْلُ، مَنْ هٰذَا؟ قَالَ : هٰذَا أَخُوْکَ يُوْسُفُ. قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ : وَکَانَ اﷲُ قَدْ أَعْطٰی يُوْسُفَ مِنَ الْحُسْنِ وَالْهَيْبَةِ مَا لَمْ يُعْطِ أَحْدًا مِنَ الْعَالَمِيْنَ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ حَتّٰی کَانَ يُقَالُ وَاﷲِ، أَعْلَمُ أَنَّهُ أُعْطِيَ نِصْفَ الْحُسْنِ وَقُسِّمَ النِّصْفُ الآخَرُ بَيْنَ النَّاسِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ قُتَيْبَةَ.

10 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 623، الرقم : 4087، وابن قتببة في تأويل مختلف الحديث، 1 / 321.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت یوسف علیہ السلام کے اَوصاف بیان کر رہے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں (معراج کی رات) تیسرے آسمان پر دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے ایک : ایسے شخص کو دیکھا جس کی صورت چودھویں رات کے چاند کی طرح تھی۔ پس میں نے پوچھا : اے جبرائیل! یہ کون ہیں؟ انہوں نے عرض کیا : یہ آپ کے بھائی حضرت یوسف علیہ السلام ہیں۔ ابن اسحاق کہتے ہیں : اﷲ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو وہ حسن و رعب عطا کر رکھا تھا جو عالمین میں سے آپ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد کسی کو عطا کیا گیا۔ یہاں تک کہ کہا جاتا تھا کہ اﷲ کی قسم! میں یہ جانتا ہوں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو پورے حسن کا آدھا حصہ اور دوسرا آدھا حصہ (تمام دنیا کے) لوگوں کو عطا ہوا۔‘‘

اِس حدیث کو امام حاکم اور ابن قتیبہ نے روایت کیا ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔