۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
القرآن : الفتح، آیت نمبر 18بیشک اللّٰہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے
اس آیہ کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی معاملہ پر بیعت کرنا سنتِ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم ہے۔ اور عرب میں یہ رواج ہے کہ جب وعدہ لیا جاتا جاتا ہے تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اسے مضبوط کیا جاتا ہے۔ انگریزوں میں رائج ہے کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ مار کر تالی بجاتے ہیں۔
پس جب آج بھی غلامانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گناہوں سے مکمل بیزاری کا اظہار اور تہیہ کسی ولی کامل "یعنی اللہ عزوجل کا قرب رکھنے والے نیک و صالح" بندے کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر "بطریق عرب" وعدہ کرتے ہیں۔
بطریق عرب اس لئے کہ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے روز و شب علاوہ عرش و زماں مکہ و مدینہ میں بسر فرمائے اس لئے بطریق عرب کہا۔ حقیقت میں بطریقِ حق تعالی عزوجل ہے۔ یعنی یہ طریقہ اللہ عزوجل نے سکھایا جس کا بیان قرآنِ کریم میں یوں آتا ہے۔
الفتح، آیت 10
وہ جو تمہاری بیعت کرتے ہیں، وہ تو اللّٰہ ہی سے بیعت کرتے ہیں
اب واپس آتے ہیں آیت نمبر 18 پر کہ
"بیشک اللّٰہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے"
پس ثابت ہوا کہ گناہوں سے برائی سے کنارہ کش ہونے کے لئے بیعت ہونا ضروری ہے۔ اور فرمایا ایمان والے ہی بیعت کرتے ہیں
اور
بے ایمان کیا کرتے ہیں ؟؟؟؟؟
اسکا جواب اسی سورہ مبارک "الفتح" میں بیان ہوتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ عمرہ کرنے کا قصد فرمایا تو کچھ لوگ "جنہیں پیچھے رہ جانے والوں کا لقب ملا" حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے ساتھ قریش کے خوف سے روانہ نہ ہوئے۔
تو اس پر اللہ عزوجل نے وحی نازل فرمائی
الفتح آیت نمبر 11
اب تم سے کہیں گے جو گنوار پیچھے رہ گئے تھے کہ ہمیں ہمارے مال اور ہمارے گھر والوں نے جانے سےمشغول رکھا اب حضور ہماری مغفرت چاہیں
یعنی جو ایمان والے نہیں اور جو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت بجا نہیں لاتے اور جو بیعت نہیں کرتے وہ صرف حیلہ بہانہ بناتے ہیں جیسا کے اور کی آیت میں بیان ہوا پھر اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے
"اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں" یعنی جھوٹ بولتے ہیں
آیت نمبر 12: بلکہ تم "پیچھے رہ جانے والے" تو یہ سمجھے ہوئے تھے کہ رسول اور مسلمان ہرگز گھروں کو واپس نہ آئیں گے۔
اس آیت میں اللہ عزوجل حیلہ بہانے بنانے والوں کے جھوٹ کو افشاء فرماتا ہے اور انکے دلوں کی بات کو سب پر واضح فرما دیاتا ہے۔
تو واضح ہو گیا کہ مومنین، طریق و اتباعِ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم پر عمل پیرا ہیں اور کفار کے پیروکار ہمیشہ کہ طرح حیلے بہانے بنانے میں مصروف ہیں۔
آئیے اب پڑھیں بیعتِ رضوان کے بارے میں جس کی وضاحت سورہ الفتح کی آیت 18 کی تفسیر میں درج ہے:
القرآن:
ترجمہ: بیشک اللّٰہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے
تفسیر: حدیبیہ میں چونکہ ان بیعت کرنے والوں کو رضائے الٰہی کی بشارت دی گئی اس لئے اس بیعت کو بیعتِ رضوان کہتے ہیں،
اس بیعت کے سبب باسبابِ ظاہر یہ پیش آیا کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حدیبیہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اشرافِ قریش کے پاس مکّہ مکرّمہ بھیجا کہ انہیں خبر دیں کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بیت اللہ کی زیارت کے لئے بقصدِعمرہ تشریف لائے ہیں ، آپ کا ارادہ جنگ کا نہیں ہے اور یہ بھی فرمادیا تھا کہ جو کمزور مسلمان وہاں ہیں انہیں اطمینان دلادیں کہ مکّہ مکرّمہ عنقریب فتح ہوگا اور اللہ تعالٰی اپنے دِین کو غالب فرمائے گا ، قریش اس بات پر متفق رہے کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس سال تو تشریف نہ لائیں اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ اگر آپ کعبہ معظّمہ کا طواف کرنا چاہیں تو کریں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ میں بغیر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طواف کروں یہاں مسلمانوں نے کہا کہ عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ بڑے خوش نصیب ہیں جو کعبہ معظّمہ پہنچے اور طواف سے مشرف ہوئے ، حضور نے صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا میں جانتا ہوں کہ وہ ہمارے بغیر طواف نہ کریں گے ، حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مکّہ مکرّ مہ کے ضعیف مسلمانوں کو حسبِ حکم فتح کی بشارت بھی پہنچائی ، پھر قریش نے حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو روک لیا ، یہاں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ شہید کردیئے گئے ، اس پر مسلمانوں کو بہت جوش آیا اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ سے کفّار کے مقابل جہاد میں ثابت رہنے پر بیعت لی ، یہ بیعت ایک بڑے خار دار درخت کے نیچے ہوئی ، جس کو عرب میں سَمُرَہ کہتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنا بایاں دستِ مبارک داہنے دستِ اقدس میں لیا اور فرمایا کہ یہ عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بیعت ہے اور فرمایا یا رب عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ تیرے اور تیرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کام میں ہیں۔
ا س واقعہ سے معلوم ہوتا کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نورِ نبوّت سے معلوم تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ شہید نہیں ہوئے جبھی تو ان کی بیعت لی ، مشرکین اس بیعت کا حال سن کر خائف ہوئے اور انہوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھیج دیا ۔
حدیث شریف میں ہے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جن لوگوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی ان میں سے کوئی بھی دوزخ میں داخل نہ ہوگا ۔ ( مسلم شریف) اور جس درخت کے نیچے بیعت کی گئی تھی اللہ تعالٰی نے اس کو ناپدید کردیا ، سالِ آئندہ صحابہ نے ہر چند تلاش کیا کسی کو اس کا پتہ بھی نہ چلا
No comments:
Post a Comment