Sunday, 1 January 2023

جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے یہ حدیث مبارکہ صحیح ہے

جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے یہ حدیث مبارکہ صحیح ہے
محترم قارئینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ پاک ہے : عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ کُهَيْلٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيْ سَرِيْحَةَ . . . أَوْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ، (شَکَّ شُعْبَةُ). . . عَنِ النَّبِيِّ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ . وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. (قَالَ : ) وَ قَدْ رَوَی شُعْبَةُ هَذَا الحديث عَنْ مَيْمُوْنٍ أبِيْ عَبْدِ اﷲِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ۔
ترجمہ : حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ . . . یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما۔ . . سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے ۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہاکہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔

شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے ، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علي بن أبی طالب رضی الله عنه، 5 / 633، الحديث رقم : 3713، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الحديث رقم : 5071، 5096.وَ قَدْ رُوِيَ هَذَا الحديث عَنْ حُبْشِيّ بْنِ جُنَادَةْ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ. أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 134، الحديث رقم : 4652، والطبرانی فی المعجم الکبير، 12 / 78، الحديث رقم : 12593، ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1359، وحسام الدين الهندی فی کنزالعمال، 11 / 608، رقم : 32946، وابن عساکرفی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144، و خطيب البغدادی فی تاريخ بغداد، 12 / 343، و ابن کثير فی البدايه و النهايه، 5 / 451،،چشتی، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 108.وَ قَد رُوِيَ هَذَا الحديث أيضا عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1355، وابن ابی شيبه فی المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32072 ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَ الحديث عَنْ ايُوْبٍ الْأَنْصَارِيِّ فِي الْکُتْبِ الآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1354، والطبرانی فی المعجم الکبير، 4 / 173، الحديث رقم : 4052، والطبرانی فی المعجم الاوسط، 1 / 229، الحديث رقم : 348.وَقَدَرُوِيِّ هَذَالحديث عَنْ بُرَيْدَةَ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.أخرجه عبدالرزاق فی المصنف، 11 / 225، الحديث رقم : 20388، و الطبرانی فی المعجم الصغير، 1 : 71، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143، وابن ابی عاصم فی السنه : 601، الحديث رقم : 1353، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 146، وابن کثيرفی البدايه و النهايه، 5 / 457، وحسام الدين هندی فی کنز العمال، 11 / 602، رقم : 32904.وَقَدْ رُوِيَ هَذَالحديث عَنْ مَالِکِ بْنِ حُوَيْرَثٍ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ. أخرجه الطبرانی فی المعجم الکبير، 19 / 252، الحديث رقم : 646، و ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 106)(أحمد بن حنبل، المسند، 5: 347، رقم:22995، مصر: مؤسسة قرطبة)(نسائي، السنن الکبری، کتاب الخصائص، باب قول النبي من کنت ولیه فعلي ولیه، 5: 130، رقم: 8467، بیروت: دار الکتب العلمیة،چشتی)(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفة الصحابة، ومن مناقب أمیر المؤمنین علي بن أبی طالب رضی الله عنه، 3: 119، رقم: 4578، بیروت: دار الکتب العلمیة)

اس حدیث مبارکہ کو اٹھانوے (98) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے روایت کیا ہے اور اس کے ایک سو ترپن (153) طرق ہیں ۔

علامہ ابن کثیر اپنی تصنیف السیرۃ النبویۃ میں اس کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں : ذی الحجہ کا مہینہ تھا اس ماہ کی اٹھارہ تاریخ تھی ، اتوار کا دن تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ ولسم نے اس موقع پر ایک عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا جس میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے فضل و کمال ، امانت و دیانت ، عدل و انصاف کے بارے میں اپنی زبان حقیقت بیان سے شہادت دی اس شہادت کے بعد اگر کسی غلط فہمی کے باعث کسی کے دل میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں کوئی وسوسہ تھا تو وہ ہمیشہ کےلیے محو ہو گیا ـ حضرت بریدہ بن حصیب کہتے ہیں میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن کے دلوں میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کی ذات والا صفات کے بارے میں طر ح طرح کی غلط فہمیاں پیدا ہو گئی تھیں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس ارشاد پاک کو سن کر میرے دل میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کی اتنی محبت پیدا ہو گئی کہ آپ میرے سب سے زیادہ محبوب بن گئے ـ ﴿ابن کثیر السیرۃ النبویۃ جلد 4 صفحہ 333﴾

اس حدیث  کو بیان کرنے والے مشہور صحابۂ کرام و تابعین عظام

    1 ابو اِسحاق

    2 اَصبغ بن نباتہ رضی اللہ عنہ

    3 ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ

    4 ابو بردہ رضی اللہ عنہ

    5 بریدہ رضی اللہ عنہ

    6 ابو بریدہ رضی اللہ عنہ

    7 انس بن مالک رضی اللہ عنہ

    8 براء بن عازب رضی اللہ عنہ

    9 ثابت بن ودیعہ انصاری رضی اللہ عنہ

    10 جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما

    11 جریر رضی اللہ عنہ

    12 ابو جعفر رضی اللہ عنہ

    13 ابو جنیدہ جندع بن عمرو بن مازن رضی اللہ عنہ

    14 حُبشیٰ بن جنادہ رضی اللہ عنہ

    15 حبیب بن بدیل رضی اللہ عنہ

    16 حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ

    17 حسن بن حارث رضی اللہ عنہ

    18 حسن بن حسن رضی اللہ عنہ

    19 خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ

    20 رفاعہ بن ایاس ضبی رضی اللہ عنہ

    21 ریاح بن حارث رضی اللہ عنہ

    22 ریاح بن حرث رضی اللہ عنہ

    23 زاذان ابو عمر رضی اللہ عنہ

    24 زاذان بن عمر رضی اللہ عنہما

    25 زر بن حبیش

    26 زیاد بن ابی زیاد

    27 زیاد بن حارث

    28 زید بن ارقم رضی اللہ عنہ

    29 زید بن شراحیل

    30 زید بن یثیع رضی اللہ عنہ

    31 ابو زینب رضی اللہ عنہ

    32 سالم رضی اللہ عنہ

    33 ابو سریحہ رضی اللہ عنہ

    34 سعد رضی اللہ عنہ

    35 سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ

    36 سعد بن عبیدہ رضی اللہ عنہ

    37 سعید بن وہب رضی اللہ عنہ

    38 ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

    39 سفیان بن عیینہ رضی اللہ عنہ

    40 سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ

    41 ابو طفیل رضی اللہ عنہ

    42 طلحہ رضی اللہ عنہ

    43 طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہما

    44 عامر بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنھم

    45 عبد الاعلی بن عدی اللہ

    46 عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ

    47 عبد الرحمن بن سابط رضی اللہ عنہ

    48 عبد الرحمن بن عبد الرب انصاری رضی اللہ عنہ

    49 عبد اللہ بن بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ

    50 عبد اللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ

    51 عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

    52 عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

    53 عبد اللہ بن محمد بن عاقل

    54 عبد اللہ بن یامیل رضی اللہ عنہ

    55 عبید بن عازب انصاری رضی اللہ عنہ

    56 عطیہ عوفی رضی اللہ عنہ

    57 علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ

    58 علی بن حسین رضی اللہ عنہما

    59 عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ

    60 عمران بن حصین رضی اللہ عنہ

    61 عمر فاروق بن الخطاب رضی اللہ عنہ

    62 عَمرو ذی مر رضی اللہ عنہ

    63 عَمرو بن ذی مر رضی اللہ عنہ

    64 عَمرو بن العاص رضی اللہ عنہ

    65 عَمرو بن میمون رضی اللہ عنہ

    66 ابو عَمرہ بن محصن رضی اللہ عنہ

    67 عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ

    68 عمیر بن سعید

    69 عمیرہ بن سعد رضی اللہ عنہ

    70 سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا

    71 ابو فضالہ انصاری رضی اللہ عنہ

    72 قیس بن ثابت

    73 مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ

    74 محمد بن حنفیہ

    75 محمد بن علی

    76 میمون ابو عبد اللہ رضی اللہ عنہ

    77 ناجیہ بن عمرو

    78 نعمان بن عجلان رضی اللہ عنہ

    79 ابو نعیم

    80 ابن واثلہ رضی اللہ عنہ

    81 ہشام بن عتبہ

    82 ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ

    83 ابو یزید اودی

    84 یزید بن عمر بن مورق رضی اللہ عنہ

قرآن مجید کی آیات کے بعد احادیث کا درجہ ہے اور احادیث میں سب سے زیادہ مستند حدیث متواتر حدیث کہلاتی ہے اور متواتر نص قرآنی کی مانند ہے اس سے احکام ثابت ہوتے ہیں ـ مذکورہ حدیث پاک حدیث متواتر کے زمرے میں آتی ہے ـ

حدیث متواتر کی تعریف

حدیث متواتر کی تعریف میں علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : متواتر وہ حدیث ہوتی ہے جس کے روای اس کثرت کے ساتھ ہوں کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا محال ہے اور یہ کثرت ابتداء سے لے کر انتہاء تک برابر رہے اور برابری کا مطلب یہ ہے کہ روایوں کی تعداد کم نہ ہو یہ مطلب نہیں کہ زیادہ نہ ہو جبکہ زیادتی اس باب میں اولی اور بہتر ہے ـ تو یہ حدیث بھی متواتر کے زمرے میں آتی ہے کیونکہ اس کے طرق بے تحاشا ہیں ـ (ابن عقدہ نے ’کتاب الموالاۃ‘ میں حدیث غدیر کے 101 رُواۃ کا ذکر کیا ہے)

عن شعبة، عن سلمة بن کهيل، قال : سمعتُ أبا الطفيل يحدّث عن أبي سريحة. . . أو زيد بن أرقم، (شک شعبة). . . عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم، قال : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه ۔

(قال : ) و قد روي شعبة هذا الحديث عن ميمون أبي عبد اﷲ عن زيد بن أرقم عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم ۔

شعبہ ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ۔ ۔ ۔ یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما۔ ۔ ۔ سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے ۔ شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ (ترمذی، الجامع الصحيح، 6 : 79، ابواب المناقب، رقم : 3713)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 569، رقم : 959)(محاملي، امالي : 85)(ابن ابي عاصم، السنه : 603، 604، رقم : 1361، 1363، 1364، 1367، 1370،چشتی)(طبراني، المعجم الکبير، 5 : 195، 204، رقم : 5071، 5096)(نووي، تهذيب الاسماء و اللغات، 1 : 347)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 163، 164)(ابن اثير، اسد الغابه، 6 : 132)(ابن اثير، النهايه في غريب الحديث والاثر، 5 : 228)(ابن کثير، البدايه و النهايه، 5 : 463)(ابن حجر عسقلاني، تعجيل المنفعه : 464، رقم : 1222) ۔ ترمذی نے اسے حسن صحیح غریب کہا ہے، اور شعبہ نے یہ حدیث میمون ابوعبد اللہ کے طریق سے زید بن ارقم سے بھی روایت کی ہے ۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث اِن کتب میں مروی ہے  (حاکم، المستدرک، 3 : 134، رقم : 4652)(طبراني، المعجم الکبير، 12 : 78، رقم : 12593)(خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 12 : 343)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 77، 144)(ابن کثير، البدايه و النهايه، 5 : 451)(هيثمی، مجمع الزوائد، 9 : 108)

یہ حدیث حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مندرجہ ذیل کتب میں مروی ہے :ن (ابن ابي عاصم، السنه : 602، رقم : 1355)(ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 366، رقم : 32072)

یہ حدیث حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے بھی درج ذیل کتب میں منقول ہے : (ابن ابی عاصم، السنه : 602، رقم : 1354)(طبراني، المعجم الکبير، 4 : 173، رقم : 4052)(طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 229، رقم : 348)

حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مندرجہ ذیل کتب میں روایت کی گئی ہے : (نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 88، رقم : 80) (ابن ابي عاصم، السنه : 602، 605، رقم : 1358، 1375)(ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 3 : 139، رقم : 937)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 20 : 114)

یہ حدیث حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مندرجہ ذیل کتب میں روایت کی گئی ہے : (عبدالرزاق، المصنف، 11 : 225، رقم : 20388)(طبراني، المعجم الصغير، 1 : 71)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 143)(ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 143) میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ بھی روایت کی ہے ۔

یہ حدیث ابن بریدہ رضی اللہ عنہ سے مندرجہ ذیل کتب میں منقول ہے : (ابن ابي عاصم، السنه : 601، رقم : 1353)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 146)(ابن کثير، البدايه و النهايه، 5 : 457)(حسام الدين هندي، کنز العمال، 11 : 602، رقم : 32904)

یہ حدیث حُبشیٰ بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے اِن کتب میں مروی ہے : (ابن ابی عاصم، السنه : 602، رقم : 1359)(حسام الدبن هندی، کنزالعمال، 11 : 608، رقم : 32946)

یہ حدیث حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے اِن کتب میں مروی ہے : (طبرانی، المعجم الکبير، 19 : 252، رقم : 646،چشتی)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177)(هيثمی، مجمع الزوائد، 9 : 106)

طبرانی نے یہ حدیث ’المعجم الکبیر (3 : 179، رقم : 3049)‘ میں حذیفہ بن اُسید غفاری رضی اللہ عنہ سے بھی نقل کی ہے ۔

ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 176، 177، 178)‘ میں یہ حدیث حضرت ابوہریرہ ، حضرت عمر بن خطاب ، حضرت انس بن مالک اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم سے بالترتیب روایت کی ہے ۔

ابن عساکر نے یہ حدیث حسن بن حسن رضی اللہ عنہما سے بھی ’تاریخ دمشق الکبیر (15 : 60، 61)‘ میں روایت کی ہے ۔

ابن اثیر نے ’اسد الغابہ (3 : 412)‘ میں عبداللہ بن یامیل سے یہ روایت نقل کی ہے ۔

ہیثمی نے ’موارد الظمآن (ص : 544، رقم : 2204)‘ میں ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کی ہے ۔

ابن حجر عسقلانی نے ’فتح الباری (7 : 74)‘ میں کہا ہے : ’’ترمذی اور نسائی نے یہ حدیث روایت کی ہے اور اس کی اسانید کثیر ہیں۔‘‘

    البانی نے ’سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ (4 : 331، رقم : 1750)‘ میں اس حدیث کوامام بخاری اور امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے ۔

عن عمران بن حصين رضي الله عنه، قال، قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ما تريدون مِن علي؟ ما تريدون مِن علي؟ ما تريدون مِن علي؟ إنّ علياً مِني و أنا منه، و هو ولي کل مؤمن من بعدي .

ترجمہ : عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو ؟ تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو ؟ تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو ؟ پھر فرمایا : بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مؤمن کا ولی ہے ۔

)ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 78، ابواب المناقب، رقم : 3712،چشتی)(نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 77، 92، رقم : 65، 86)(نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 132، رقم : 8484)

احمد بن حنبل کی ’المسند (4 : 437، 438)‘ میں بیان کردہ روایت کے آخری الفاظ یہ ہیں : و قد تغیر وجہہ، فقال : دعوا علیا، دعوا علیا، ان علی منی و انا منہ، وھو ولی کل مؤمن بعدی (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ مبارک متغیر ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی (کی مخالفت کرنا) چھوڑ دو، علی (کی مخالفت کرنا) چھوڑ دو، بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کا ولی ہے)

ابن کثیر نے امام احمد کی روایت ’البدایہ والنہایہ (5 : 458)‘ میں نقل کی ہے ۔

احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 620، رقم : 1060 ۔

ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 80، رقم : 1217 ۔

حاکم نے ’المستدرک (3 : 110، 111، رقم : 4579 ۔ میں اس روایت کو مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے، جبکہ ذہبی نے اس پر خاموشی اختیار کی ہے ۔

ابن حبان نے ’الصحیح (15 : 373، 374، رقم : 6929)‘ میں یہ حدیث قوی سند سے روایت کی ہے ۔

ابو یعلی نے ’المسند (1 : 293، رقم : 355)‘ میں اسے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے رجال صحیح ہیں، جبکہ ابن حبان نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

طیالسی کی ’المسند (ص : 111، رقم : 829)‘ میں بیان کردہ روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ما لھم و لعلیّ اُنہیں علی کے بارے میں اِتنی تشویش کیوں ہے ؟ (ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 6 : 29)(محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 129،چشتی)(هيثمي، موارد الظمآن، 543، رقم : 2203)(حسام الدين هندي، کنزالعمال، 13 : 142، رقم : 36444)(نسائی کی بیان کردہ دونوں روایات کی اسناد صحیح ہیں)

عن سعد بن أبي وقاص، قال : سمعتُ رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه، و سمعتُه يقول : أنت مني بمنزلة هارون من موسي، إلا أنه لا نبي بعدي، و سمعتُه يقول : لأعطينّ الرأية اليوم رجلا يحب اﷲ و رسوله ۔
ترجمہ : حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے ۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (حضرت علی رضی اللہ عنہ کو) یہ فرماتے ہوئے سنا : تم میری جگہ پر اسی طرح ہو جیسے ہارون ، موسیٰ کی جگہ پر تھے ، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (غزوۂ خیبر کے موقع پر) یہ بھی فرماتے ہوئے سنا : میں آج اس شخص کو علم عطا کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ۔ (ابن ماجہ نے يہ صحيح حديث ’السنن (1 : 90، المقدمہ، رقم : 121)‘ ميں روايت کي ہے ۔)(نسائي نے يہ حديث ’خصائص اميرالمؤمنين علي بن ابي طالب رضی اللہ عنہ (صفحہ : 32، 33، رقم : 91)‘ میں ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے)(ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 608، رقم : 1386)(مزي، تحفة الاشراف بمعرفة الأطراف، 3 : 302، رقم : 3901) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...