Monday, 2 January 2023

ولایت حضرت سیّدنا مولا علی رضی اللہ عنہ

ولایت حضرت سیّدنا مولا علی رضی اللہ عنہ
محترم قارئینِ کرام : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی وہ ذات گرامی ہیں جو بہت سے کمال و خوبیوں کے جامع ہے ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ شیر خدا ہیں ، داماد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ، صاحب ذوالفقار ہیں ، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ میں سخاوت ، شجاعت ، عبادت ، ریاضت ، فصاحت ، بلاغت ، اور میدان خطابت کے شہسوار ہیں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ میں جہاں یہ تمام خوبیاں ہیں وہیں آپ ہر ایک میں ممتاز و یگانۂ روزگا ہیں شیر خدا مشکل رضی اللہ عنہ ۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کے غزوہ میں شرکت کی جس میں مجھے آپ سے کچھ شکوہ ہوا ۔ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کی تنقیص کی ۔ اسی لمحے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ مبارک (کا رنگ) متغیر ہوتے ہوئے دیکھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے بریدہ ! کیا میں مومنوں کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں ؟ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیوں نہیں ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ ۔ ترجمہ : جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے ۔ (أحمد بن حنبل، المسند، 5: 347، رقم:22995، مصر: مؤسسة قرطبة)(نسائي، السنن الکبری، کتاب الخصائص، باب قول النبي من کنت ولیه فعلي ولیه، 5: 130، رقم: 8467، بیروت: دار الکتب العلمیة)(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفة الصحابة، ومن مناقب أمیر المؤمنین علي بن أبی طالب رضی الله عنه، 3: 119، رقم: 4578، بیروت: دار الکتب العلمیة)

مذکورہ بالا حدیث کو اٹھانوے (98) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے روایت کیا ہے اور اس کے ایک سو ترپن (153) طرق ہیں ۔

علماء و اولیاء اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے اظہار کےلیے مختلف الفاظ میں درود و سلام پیش کیا ہے ۔ ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل کو بطورِ وسیلہ پیش کیا گیا ہے ۔ یہ الفاظ متعارف کروانے والے علماء و اولیاء نے ان کے فضائل بھی بیان کیے ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے یومِ پیدائش اور نزول وحی کی مناسبت سے سوموار کو روزہ رکھتے تھے ۔ اس کی وضاحت درج ذیل حدیث میں ہے : عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ  أَنَّ رَسُولَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم سُئِلَ عَنْ صَوْمِ الِاثْنَیْنِ فَقَالَ فِیهِ وُلِدْتُ وَفِیهِ أُنْزِلَ عَلَیَّ ۔
ترجمہ : حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس دن میں پیدا ہوا ، اور اسی روز مجھ پر وحی نازل کی گئی ۔ (مسلم، الصحیح، کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلاثة أیام من کل شہر وصوم یوم عرفة وعاشوراء والإثنین والخمیس، 2: 820، رقم: 1162، بیروت، لبنان: داراحیاء التراث العربي)(أحمد بن حنبل، المسند، 5: 299، رقم: 22603)(أبي داود، السنن، کتاب الصیوم، باب فی صوم الدہر تطوعا، 2: 322، رقم: 2426، دار الفکر)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان خان قادری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : مقال (۳۸ تا ۴۵) : یہی قاضی صاحب سیف المسلول میں مرتبہ قطبیت ارشاد کو یوں بیان کرکے کہ : فیوض وبرکات کا رخانہ ولایت کہ از جناب الٰہی براولیاء اللہ نازل مے شود اول بریک شخص نازل مے شود وازاں شخص قسمت شہد بہریک ازاوالیائے عصر موافق مرتبہ وبحسب استعداد می رسد وبہ ہیچ کس از اولیاء اللہ بے توسط اوفیضی نمی رسد وکسے از مردانِ خدا بے وسیلہ اور درجہ ولایت نمی یابد اقطاب جزئی و اوتاد وابدال و نجیاء ونقباء وجمیع اقسام ازاولیائے خدا بوے محتاج می باشند صاحب این منصب عالی راامام و قطب الارشاد بالاصالۃ نیز خوانند وایں منصب عالی از وقت ظہور آدم علیہ السلام بروحِ پاک علی مرتضٰی کرم اللہ وجہہ مقرر بود ۔ (سیف المسلول مترجم اردو خاتمہ کتاب فاروقی کتب خانہ ملتان ص۵۲۷ تا ۵۲۹) ۔ کارخانہ ولایت کے فیوض وبرکات جو خدا کی بارگاہ سے اولیاء اللہ پر نازل ہوتے ہیں پہلے ایک شخص پر اترتے ہیں اور اس شخص سے تقسیم ہو کر اولیائے وقت میں سے ہر ایک کو اس کے مرتبہ واستعداد کے مطابق پہنچتے ہیں اور کسی ولی کو بھی اس کی وساطت کے بغیر کوئی فیض نہیں پہنچتا۔ْ اور اہل اللہ میں سے کوئی بھی اس کے وسیلہ کے بغیر درجہ ولایت نہیں پاتا ۔ جزئی اقطاب اوتادہ ابدال، نجبا، نقباا ور تمام اقسام کے اولیاء اللہ اس کے محتاج ہوتے ہیں، اس منصب بلند والے کو امام اور قطب الارشاد بالاصالۃ بھی کہتے ہیں __ اور یہ منصب عالی ظہور آدم علیہ السلام کے زمانے سے حضرت علی مرتضٰی کرم اللہ وجہہ کی روح پاک کے لیے مقرر تھا ۔ (ت)

پھر ائمہ اطہار رضوان اللہ تعالٰی علیہم کو بترتیب اس منصب عظیم کا عطا ہونا لکھ کر کہتے ہیں: بعد وفات عسکری علیہ السلام تاوقت ظہور سید الشرفا غوث الثقلین محی الدین عبدالقادرالجیلی ایں منصب بروح حسن عسکری علیہ السلام متعلق بود ۔ (سیف المسلول مترجم اردو خاتمہ کتاب فاروقی کتب خانہ ملتان ص۵۲۷ تا ۵۲۹) ۔ حضرت عسکری کی وفات کے بعد سید الشرفا غوث الثقلین محی الدین عبدالقادر جیلانی کے زمانہ ظہور تک یہ منصب حضرت حسن عسکری کی روح سے متعلق رہے گا ۔ (ت)

پھر کہا : چوں حضرت غوث الثقلین پیدا شد ایں منصب مبارک بوے متعلق شدوتا ظہور محمد مہدی این منصب بروح مبارک غوث الثقلین متعلق باشد ۔ (سیف المسلول مترجم اردو خاتمہ کتاب فاروقی کتب خانہ ملتان ص ۵۲۷ تا ۵۲۹،چشتی) ۔ جب حضرت غوث الثقلین پیدا ہوئے یہ منصب مبارک ان سے متعلق ہوا اور امام محمد مہدی کے ظہو رتک یہ منصب حضرت غوث الثقلین کی روح سے متعلق رہے گا ۔ (ت)

اصل ان سب اقوال ثلٰثہ کی جناب شیخ مجد الف ثانی سے ہے ، جیسا کہ جلد سوم مکتوب نمبر ۴۳ صفحہ۱۲۳ میں مفصلاً مذکور، ان کے کلام میں اس قدر امرا اور زائد ہے کہ: بعدا ز ایشان (یعنی حضرت مرتضٰی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الاسنی) بہریکے از ائمہ اثنا عشر علے الترتیب والتفصیل قرار گوفت ودراعصا رایں بزرگواران و ہمچنیں بعداز ارتحال ایشاں ہر کس را فیض وہدایت می رسد بتوسط این بزرگوار ان بودہ ملاذ ملجائے ہمہ ایشاں بودہی اند تا آنکہ نوبت بحضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رسید قدس سرہ ، ط الخ اھ ملخصاً ۔ (سیف المسلول مترجم اردو فاروقی کتب خانہ ملتان ص۵۶۹) ۔حضرت مرتضٰی کرم اللہ تعالٰی وجہہ کے بعد بارہ اماموں میں سے ہر ایک کے لیے ترتیب وتفصیل کے ساتھ قرارپذیر ہوا ۔ ان بزگوں کے زمانے میں اسی طرح ان کی رحلت کے بعد جسے بھی فیض وہدایت پہنچتی انہی بزرگوں کے توسط سے تھی اور سب کا ملجا یہی حضرات تھے یہاں تک کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ ، تک نوبت پہنچی الخ (ت) ۔ (فتاوی رضویہ جلد 9 صفحہ نمبر 810 تا 812،چشتی)

مرتضٰی شیرِ حق اشجع الاشجعین
بابِ فضل و ولایت پہ لاکھوں سلام

شیرِ شمشیر زن شاہِ خیبر شکن
پَر توِ دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام

حضرت امامِ ربّانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مکتوبات شریف فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والے راستوں میں سے ایک راستہ قربِ ولایت سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس کے پیشوا سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی جسمانی پیدائش سے پہلے اس مقام کے ملجاء و ماویٰ تھے ۔ جیسا کہ آپ جسمانی پیدائش کے بعد ہیں ۔ ۔ ۔ اور جس کو بھی فیض و ہدایت پہنچی اس راہ سے پہنچی اور ان ہی کے ذریعے سے پہنچی کیونکہ وہ اس راہ کے آخری نکتہ کے قریب ہیں ۔ (مکتوب 123، دفتر سوم ، حصہ دوم صفحہ 1425،چشتی)

ہو چشتی قادری یا نقشبندی سہروردی ہو
ملا سب کو ولایت کا انہی کے ہاتھ سے ٹکڑا

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مکتوب دفتر اول میں فرماتے ہیں : حضرت امیر (سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) فرماتے ہیں کہ ’’میں اس لئے آیا ہوں کہ تمہیں آسمانوں کا علم سکھاؤں‘‘۔ جب میں اچھی طرح متوجہ ہوا تو تمام خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان اس مقام کو حضرت امیر (سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ مخصوص پایا ۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مکتوب 251 دفتر اول میں فرماتے ہیں : چونکہ امیر (سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) ولایت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بوجھ اٹھانے والے ہیں اس لئے اقطاب ، ابدال، اوتاد جو اولیائے عزلت میں سے ہیں ۔ قطب مدار کا سر حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے قدم کے نیچے ہے ۔ قطب مدار ان ہی کی حمایت و رعایت (نگرانی) سے اپنے ضروری امور کو سرانجام دیتا ہے اور مداریت سے عہدہ برآ ہوتا ہے ۔ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہ اور امامین بھی اس مقام میں حضرت امیر (سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ شریک ہیں ۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ برصغیر کے ان اکابر جید علماء ربانیین اور صاحب کمال ہستیوں میں سے ہیں جن کی تمام مسالک (اہل سنت ، اہل حدیث اور دیوبندی) عزت و تکریم کرتے ہیں اور ان کے علم و فضل کے معترف ہیں ۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ایک روز مقام قرب میں غور کی نگاہ کی گئی تو ہر چند نظر دور دور تک گئی لیکن جہت خاص جو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ میں تھی اس سے زائد کسی میں نہ دیکھی گئی اور اس جہت میں کسی دوسرے کی ان پر فضیلت نہیں دکھائی دی۔ آپ اس جہت یعنی مقام قرب کے اعلیٰ مرکز کے اوپر ہیں اور اسی لئے آپ ہی مبداء عرفان ہوئے ہیں ۔ (القول الجلی فی ذکر آثار ولی صفحہ نمبر 522،چشتی)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب الفاس العارفین میں اپنے چچا حضرت ابو الرضا محمد کی روایت درج کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری بار بچشم حقیقت زیارت ہوئی، میں نے عرض کی : یاسیدی میری خواہش ہے کہ آپ کے طریقہ عالیہ کے فیض یافتہ کسی مردِ حق سے بیعت کروں تاکہ ان سے حقائق کی تفصیل پوچھ سکوں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل ہوئے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تیری بیعت امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہہ سے ہوگی ۔ کچھ دنوں بعد دیکھا کہ گویا کسی راستے پر جارہا ہوں ۔ آس پاس کوئی شخص نظر نہیں آرہا۔ لیکن راستے پر گذرنے والوں کے نقوش موجود ہیں۔ تھوڑی دور راستے کے درمیان ایک شخص کو بیٹھا ہوا دیکھا۔ میں نے اس سے راستہ پوچھا، اس نے ہاتھ کے اشارہ سے کہا ادھر آؤ۔ اس سے مجھے انشراحِ قلب حاصل ہوا ۔
انہوں نے فرمایا : اے سست رفتار، میں علی ہوں اور مجھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں ان کی بارگاہ میں لے چلوں۔ میں ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا یہاں تک کہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں دے کر کہا : يا رسول الله هذا يدی الرضا محمد یہ سن کر حضور نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیعت لی ۔ اس موقع پر میرے دل میں ایک بات کھٹکی ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس پر مطلع ہو کر فرمایا کہ میں اسی طرح اولیاء اللہ کے حق میں وسیلہ بیعت رہتا ہوں ورنہ اصل میں تمام سلاسل کی بیعتوں کا مرکز اور مرجع حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دست مبارک ہوتا ہے۔ اس کے بعد آپ نے مجھے اشغال اور اذکار کی تلقین فرمائی اور علوم و اسرار سے نوازا ۔ حقیقت یہ ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی ذات اقدس تمام علوم ظاہری و باطنی کا محزن ہے۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آپ کی اس شان سے آگاہ اور معترف تھے اور شیخین کریمین مختلف مواقع پر سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے تبحر علمی اور اصابت رائے سے استفادہ بھی کرتے رہتے تھے۔ اس سلسلے میں کتب مناقب میں بڑے دلچسپ اور ایمان افروز واقعات منقول ہیں ۔

من کنت مولاہ فعلی مولاہ ۔ یہ مکمل حدیث نہیں بلکہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے، اس کی تفصیل بتانے سے قبل چند باتیں تمہیداً عرض ہے کہ : حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : فِيكَ مَثَلٌ مِنْ عِيسَى أَبْغَضَتْهُ الْيَهُودُ حَتَّى بَهَتُوا أُمَّهُ، وَأَحَبَّتْهُ النَّصَارَى حَتَّى أَنْزَلُوهُ بِالْمَنْزِلَةِ الَّتِي لَيْسَ بِهِ " ثُمَّ قَالَ: " يَهْلِكُ فِيَّ رَجُلانِ مُحِبٌّ مُفْرِطٌ يُقَرِّظُنِي بِمَا لَيْسَ فِيَّ، وَمُبْغِضٌ يَحْمِلُهُ شَنَآنِي عَلَى أَنْ يَبْهَتَنِي ۔
ترجمہ : تمہاری حضرت عیسی علیہ السلام سے ایک مشابت ہے یہودیوں نے ان سے دشمنی کی یہاں تک کہ ان کی والدہ حضرت مریم پر تہمت لگا دیں عیسائیوں نے ان سے محبت کی یہاں تک کے ان کا وہ مقام بیان کیا جو ان کا نہیں تھا پھر حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرے بارے میں دو بندے ہلاک ہو جائیں گے ایک میری محبت میں غلو کرنے والا جو میری اس وصف سے تعریف کرے گا جو مجھ میں نہیں دوسرا میرا دشمن کے اسے میری عداوت اس بات پر برانگیختہ کرے گی کہ وہ مجھ پر بہتان باندھے ۔ (مسند أحمد  نویسنده : أحمد بن حنبل    جلد : 2  صفحه : 468 مطبوعہ مؤسسة الرسالة)(مسند أبي يعلى الموصلي نویسنده : أبو يعلى الموصلي    جلد : 1  صفحه : 406 مطبوعہ دار المأمون للتراث - دمشق)(مشكاة المصابيح نویسنده : التبريزي، أبو عبد الله جلد : 3  صفحه : 1722 مطبوعہ المكتب الإسلامي - بيروت)(إطراف المسند المعتلي بأطراف المسند الحنبلي نویسنده : العسقلاني ، ابن حجر    جلد : 4  صفحه : 406 مطبوعہ دار ابن كثير - دمشق، دار الكلم الطيب - بيروت)(فضائل الصحابة نویسنده : أحمد بن حنبل جلد : 2  صفحه : 639 مطبوعہ مؤسسة الرسالة - بيروت،چشتی)(السنن الكبرى نویسنده : النسائي جلد : 7  صفحه : 446 مطبوعہ مؤسسة الرسالة بيروت)(شرح مذاهب أهل السنة نویسنده : ابن شاهين جلد : 1  صفحه : 166 مطبوعہ مؤسسة قرطبة للنشر والتوزيع)(تاريخ دمشق نویسنده : ابن عساكر، أبو القاسم جلد : 42  صفحه : 293 مطبوعہ دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع)(المسند الموضوعي الجامع للكتب العشرة نویسنده : صهيب عبد الجبار جلد : 20  صفحه : 348)(مجلسان من أمالي الجوهري_2 نویسنده : الجوهري، أبو محمد جلد : 1 صفحه : 21 مطبوعہ مخطوط نُشر في برنامج جوامع الكلم المجاني التابع لموقع الشبكة الإسلامية)(الشريعة نویسنده : الآجري جلد : 5 صفحه 2531 مطبوعہ دار الوطن - الرياض / السعودية)(السنة نویسنده : ابن أبي عاصم جلد : 1  صفحه 477)(المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي نویسنده : الهيثمي، نور الدين    جلد : 3  صفحه : 178 مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)(إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة نویسنده : البوصيري جلد : 7  صفحه : 205 مطبوعہ دار الوطن للنشر، الرياض)(التفسير المظهري نویسنده : المظهري، محمد ثناء الله جلد : 3  صفحه : 317 مطبوعہ مكتبة الرشدية الپاكستان)(الرياض النضرة في مناقب العشرة نویسنده : الطبري، محب الدين    جلد : 3  صفحه : 194 مطبوعہ دار الكتب العلمية)(مختصر تلخيص الذهبي نویسنده : ابن الملقن جلد : 3  صفحه : 1351)

حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے اِرشاد فرمایا : میرے بارے میں دو قسْم کے لوگ ہلاک ہوں  گے میری مَحَبّت میں اِفراط کرنے (یعنی حد سے بڑھنے) والے مجھے اُن صفات سے بڑھائیں گے جو مجھ میں نہیں ہیں اور بُغض رکھنے والوں کا بُغض اُنہیں اِس پر اُبھارے گا کہ مجھے بُہتان لگائیں  گے ۔ (مُسندِ اِمام احمد بن حنبل جلد ۱ صفحہ ۳۳۶حدیث۱۳۷۶)

مولانا حسن رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ⬇

تَفْضِیل کا جَویا نہ ہو مولا کی وِلا میں
یوں چھوڑ کے گوہر کو نہ تُو بہرِ خَذَف جا
(ذوقِ نعت)

یعنی حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی مَحَبَّت میں اِتنا نہ بڑھ کہ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو شَیخَینِ کریمین رضی اللہ عنہما پر فضیلت دینے لگے ۔ ایسی بھول کر کے موتیوں جیسے صاف شَفّاف عقیدے کو چھوڑ کر ٹِھیکریوں جیسا رَدّی عقیدہ اِختیار نہ کر ۔

حکیم الامت حضرتِ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ اِس حدیثِ مبارَکہ کے تحت فرماتے ہیں : مَحَبَّتِ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ اَصلِ اِیمان ہے ۔ ہاں مَحَبَّت میں ناجائز اِفراط (یعنی حد سے بڑھنا) بُرا ہے مگر عداوتِ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ اصْل ہی سے حرام بلکہ کبھی کُفر ہے ۔ (مراٰۃ المناجیح ج۸ص۴۲۴،چشتی)

حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : میرے بارے میں دو (قسم کے) شخص ہلاک ہو جائیں گے : (1) غالی (اور محبت میں ناجائز) افراط کرنے والا ، اور (2) بغض کرنے والا حجت باز ۔ (فضائل الصحابۃ للامام احمد 2/ 571 ح 964 واسنادہ حسن)

حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : ایک قوم (لوگوں کی جماعت) میرے ساتھ (اندھا دھند) محبت کرے گی حتیٰ کہ وہ میری (افراط والی) محبت کی وجہ سے (جہنم کی) آگ میں داخل ہوگی اور ایک قوم میرے ساتھ بغض رکھے گی حتیٰ کہ وہ میرے بغض کی وجہ سے (جہنم کی) آگ میں داخل ہوگی ۔ (فضائل الصحابۃ 2/ 565 ح 952 وإسنادہ صحیح، وکتاب السنۃ لابن ابی عاصم: 983 وسندہ صحیح)

معلوم ہوا کہ دو قسم کے گروہ ہلاک ہو جائیں گے : ⬇

1 ۔ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ سے اندھا دھند محبت کر کے آپ کو خدا سمجھنے اور انبیاۓ کرام علیہم السلام سے افضل سمجھنے والے یا دوسرے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو برا کہنے والے لوگ مثلاً غالی قسم کے روافض شیعہ و نیم رافضی تفضیلی وغیرہ ۔

2 ۔ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو برا کہنے والے لوگ مثلاً خوارج و نواصب وغیرہ ۔

نہج البلاغۃ شیعہ کتاب جلد اول صفحہ 261 میں سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں : عنقریب میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے ، ایک محبت کرنے والااور حد سے بڑھ جانے والا، جس کو محبت خلاف حق کی طرف لے جائے ۔ دوسرا بغض رکھنے والا حد سے کم کرنے والا جس کو بغض خلاف حق کی طرف لے جائےاور سب سے بہتر حال میرے متعلق درمیانی گروہ کا ہے جو نہ زیادہ محبت کرے ، نہ بغض رکھے ، پس اس درمیانی حالت کو اپنے لیے ضروری سمجھو اور سواد اعظم یعنی بڑی جماعت کے ساتھ رہو کیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور خبردار جماعت سے علیحدگی نہ اختیار کرنا کیونکہ جو انسان جماعت سے الگ ہو جاتا ہے وہ شیطان کے حصہ میں جاتا ہے ، جیسے کہ گلہ سے الگ ہونے والی بکری بھیڑیے کا حصہ بنتی ہے ۔ آگاہ ہو جاؤ جو شخص تم کو جماعت سے الگ ہونے کی تعلیم دے اس کو قتل کر دینا اگرچہ وہ میرے اس عمامہ کے نیچے ہو ۔

نہج البلاغۃ شیعہ کتاب جلددوم صفحہ 354 میں بھی ہے : میرے بارے میں دو شخص ہلاک ہوں گے ۔ ایک محبت کرنے والا حد سے بڑھ جانے والا اور دوسرا بہتان لگانے والا مفتری ۔
اسی نہج البلاغۃ میں یہ بھی ہے : میرے بارے میں دو شخص ہلاک ہو گئے ، ایک محبت کرنے والا جو محبت میں زیادتی کرے ، دوسرا بغض رکھنے والا ، نفرت کرنے والا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس ارشادِ گرامی کے مطابق کچھ حضرات نے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں اس قدر غلو کیا کہ ان کو خدا کے ساتھ ملا دیا اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین اور تنقیص کی طرف چلے گئے ، جبکہ کچھ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت میں اس قدر آگے نکل گئے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امامِ بر حق تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا ، یہ دونوں طبقات افراط اور تفریط میں پڑ کر جادۂ اعتدال سے ہٹ گئے ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت یا عداوت میں غلو کر کے طریق مستقیم پر قائم نہ رہے ۔ ان دونوں ہی طبقات کی جانب سے اپنے مزعومہ خیالات کو ثابت کرنے کےلیے دلائل کا جوڑ توڑ ، کلمات کا ہیر پھیر اور خلافِ مدعا دلائل سے اغماض یا انکار پیش آتا رہا مشق ستم بننے والی احادیث میں ایک حدیث یہ بھی ہے : من کنت مولاہ فعلی مولاہ الخ ‘‘ جس کا میں مولیٰ ، اس کا علی مولیٰ ۔ کچھ حضرات نے تو اس حدیث کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا ، حالانکہ یہ حدیث متعدد کتب حدیث میں صحیح طور پر منقول ہے اور 30 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ۔ اس پر ہم تفصیل سے لکھ چکے ہیں الحَمْدُ ِلله ، اس کے برعکس کچھ لوگوں نے اس حدیث سے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت کے خود ساختہ نظریہ کو ثابت کرنے کی کوشش کی ، اور حدیث کے سیاق و سباق اور پس منظر کو ایک طرف ڈال کر مفید مقصد الفاظ سے دلپسند معانی اخذ کر کے اس حدیث کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلافصل پر اپنی بہت بڑی دلیل قرار دیا ۔ علماء کرام نے مسلک اعتدال کو واضح کرنے کےلیے اپنے اپنے انداز سے حدیث اور اس کے پس منظر کو واضح کر کے اس کے مفہوم کی ایسی تشریح کی جو نہ رفض کےلیے مؤید ہے اور نہ خروج کی جانب مائل ہے ، مندرجہ ذیل سطروں میں بھی آپ اس حدیث کی تشریح بالاختصار لیکن مدلل طور پر پڑھیں گے ، جس سے اس کے صحیح معنی سمجھنے میں آسانی پیدا ہوگی ۔ اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رمضان ۱۰ھ میں خُمس (مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ) وصول کرنے کےلیے یمن بھیجا ، اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر ۴ ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حرمِ مکہ پہنچ کر پہلے عمرہ ادا کیا، اور پھر چار یوم تک مکہ مکرمہ میں قیام فرمایا ، ان چار دنوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے واپس مکہ مکرمہ پہنچے اور خمس حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا ، اس سفر کے دوران بعض رفقائے سفر کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے کچھ بدگمانی اور کدورت پیدا ہو گئی ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو حجۃ الوداع کے اس عظیم اور اہم ترین سفر میں قدم بہ قدم امت کو گمراہی اور افتراق سے بچانے کےلیے نصائح اور خطبات ارشاد فرما رہے تھے ، یہ کیسے گوارا کر سکتے تھے کہ حضرت سیدنا مولا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اجتماعی طور پر لوگوں کے دلوں میں بدگمانی پیدا ہو جائے ، جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شمار کبار صحابہ اور ’’السابقون الاولون‘‘ میں ہے ، اور جبکہ انہوں نے آگے چل کر اپنے وقت میں امت کی قیادت و سیادت کے فرائض بھی انجام دینے ہیں ، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ’’غدیر خم‘‘ کے مقام پر خطبہ ارشاد فرمایا ، جس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ محبت و عقیدت کا معاملہ رکھنے کی ترغیب دی اور بدگمانی سے بچنے کی تلقین کی ۔ (البدایۃ والنھایۃ ج : ۵، ص : ۱۰۶)

حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب ’’غدیر خم‘‘ (کے مقام) پر تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمانے لگے ، کیا تم نہیں جانتے کہ میں مؤمنین کی جانوں سے زیادہ ان کا محبوب (اولیٰ) ہوں ؟ حاضرین نے عرض کیا ، کیوں نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ میں ہر مومن کی جان سے زیادہ اس کو محبوب (اولیٰ) ہوں ؟ حاضرین نے عرض کیا کیوں نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اے اللہ ! جس کا میں محبوب (مولیٰ) ہوں تو علی بھی اس کے محبوب (مولیٰ) ہیں ، اے اللہ جو (علی رضی اللہ عنہ) سے محبت (موالات) کرے تو اس سے محبت (موالات) کر ، اور جو (علی رضی اللہ عنہ) سے نفرت (معادات) کرے تو اس سے نفرت (معادات) کر ۔ (مشکوٰۃ مع المرقاۃ ۱۰/۴۷۵)

مذکورہ حدیث اور اس کے پس منظر کی تفصیل سے یہ بات بخوبی معلوم ہو جاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقصد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت کو بیان کرنا نہیں بلکہ ان شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا مقصود ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بعض معاملات میں بعض رفقائے سفر کے ذہنوں میں پیدا ہوئے تھے ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی برأت کے اظہار کے بعد ان سے محبت کا حکم ہے، اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقصد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت اور خلافت کو بیان کرنا ہوتا تو صاف طور پر واضح الفاظ میں اس بات کا اظہار فرما دیتے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میرے بعد خلیفہ ہوں گے ، ایسے الفاظ اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی جن سے معاملہ مبہم اور مخفی رہے ۔

لغت کے مشہور امام ابن اثیر رحمة اللہ علیہ لفظ ’’مولی‘‘ کے تحت لکھتے ہیں اور یہ لفظ ’’مولی‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جو متعدد معانی کےلیے استعمال ہوتا ہے پس مولیٰ کے معنی پروردگار ، مالک ، سردار ، محسن ، آزاد کرنے والا ، مددگار ، محبت کرنے والا ، فرمانبردار ، پڑوسی ، چچا زاد بھائی ، عہد و پیماں کرنے والا ، عقد کرنے والا ، داماد ، غلام ، آزاد کردہ غلام اور احسان مند کے آتے ہیں اور ہر حدیث کے مقتضیٰ کے مطابق معنی مراد لیا جاتا ہے ۔ (النھایۃ ۵/۲۲۸)

مذکورہ بالا حدیث کے آخر میں ’’ولایت‘‘ کے ساتھ ’’عداوت‘‘ کے تقابل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’’مولیٰ‘‘ اور ’’اولیٰ‘‘ وغیرہ الفاظ سے محبت کا معنیٰ ہی مراد ہے جو عداوت کی ضد ہے ، اگر محبت کا معنی مراد نہ ہوتا تو ولایت کے تقابل میں عداوت کا لفظ ذکر نہ کیا جاتا ۔

نیز ’’مولیٰ‘‘ سے امامت و خلافت کا معنی مراد لینے کی صورت میں لازم آئے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی امام اور خلیفہ ہوں ، کیونکہ حدیث میں اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مولیٰ ہوں گے ، بلکہ حدیث میں صرف اس قدر ہے کہ جس کا میں مولیٰ اس کا علی (رضی اللہ عنہ) مولیٰ ، اگر یہاں محبت والا معنی مراد نہیں لیا جاتا تو یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خلیفہ بلا فصل ہونے پر نہیں ، بلکہ امامت و خلافت کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مساوات اور اشتراک پر دال ہوگی جو کسی کو بھی تسلیم نہیں ، لہٰذا اس حدیث سے وہی معنی متعین ہیں جو اوپر مذکور ہوئے ۔

ایک دوسری حدیث میں یہی لفظ ’’مولیٰ‘‘ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کےلیے بھی استعمال ہوا ہے ، چنانچہ ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : ’’انت مولای ومنی‘‘ (آپ میرے مولا ہیں اور مجھ سے ہیں) ۔ (طبقات ابن سعد ۳/۴۴) اور دوسری روایت میں ہے : ’’انت مولای واحب القوم الی‘‘ (آپ میرے مولا ہیں او رمجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔ (مصنف عبدالرزاق ۱۱/۲۲۷) ایک اور روایت میں ہے : ’’انت اخونا و مولانا‘‘ (آپ ہمارے بھائی اور ہمارے مولا ہیں) ۔ (طبقات ابن سعد ۳/۴۳)

اگر مولیٰ سے امام اور خلیفہ کے معنی ہی متعین ہوں تو پھر چاہیے کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امام اور خلیفہ بلا فصل ہوں لیکن جب یہاں پر یہ معنی مراد نہیں تو حدیث من کنت مولاہ الخ میں بھی اس معنی کی تخصیص کی کوئی وجہ نہیں ۔

مذکورہ حدیث کے نظریہ امامت و خلافت سے غیر متعلق ہونے کی ایک بہت بڑی شہادت یہ بھی ہے کہ سیدنا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے حضرت امام حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ کیا ’’من کنت مولاہ‘‘ کی حدیث میں سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی امامت (خلافت) کی صراحت نہیں ؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا :خبردار ! اللہ کی قسم ، اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے امارت یا حکومت کا ارادہ فرماتے تو یہ بات صاف صاف بیان فرما دیتے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر مسلمانوں کا خیر خواہ کوئی نہیں ہو سکتا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صاف فرما دیتے کہ اے لوگو ! میرے بعد تمہارے حاکم اور تمہارے نگران علی رضی اللہ عنہ ہوں گے ، ان کی بات سنو ، اور اطاعت کرو ، مگر ایسی کوئی بات نہیں ، اللہ کی قسم اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو ترک فرما دیتے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سب لوگوں سے بڑھ کر خطا کار ہوتے ۔ (الصواعق المحرقۃ ص : ۴۸،چشتی)(تحفۃ اثنا عشریۃ ص : ۲۰۹)(روح المعانی ۶/۱۹۵)(التاریخ الکبیر لابن عساکر ۴/۱۶۶)

ملاحظہ فرمائیں کہ خانوادہ نبوت نے کس وضاحت کے ساتھ ہر قسم کے شبہ کا جواب دے دیا ہے ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادِ مبارک کی تشریح کرتے ہوئے ہر طرح کے باطل احتمالات کی بیخ کنی کر کے مرادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو متعین فرما دیا ہے ، اس کے بعد کسی کو بھی مذکورہ بالا حدیث سے غلط مطلب اخذ کرنے کی لاحاصل سعی نہیں کرنی چاہیے ۔ یا اللہ ہم مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت سیدنا مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے فرمان کے مطابق ان دونوں گروہوں سے جو ہلاک ہونے والے ہیں بچا اور اُس گروہ میں سے ہونے کی توفیق عطا فرما جو تیرے نزدیک پسندیدہ ہے ۔ نیز اتباع و پیروی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توفیق اور نورِ ایمان عطا فرما آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...